• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

’’تفسیر المعوّذتین‘‘ کا اردو ترجمہ

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
فصل چہارم
الخناس کی تفسیر
خناس کے معنی:
خناس اشتقاق خَنَسٌ ہے جس کے معنی ظہور میں آنے کے بعد چھپ جانا او رپیچھے ہٹ جانا۔ قرآن میں ہے: فَلاَ اُقْسِمُ بِالْخُنَّسِ ’’میں قسم کھاتا ہوں ان ستاروں کی جوظہور میں آنے کے بعد چھپ جاتے ہیں‘‘۔
بعض مفسرین نے دوسرے معنی لے کر اس کی تفسیر میں لکھا ہے کہ وہ ستارے جو آگے بڑھتے بڑھتے پیچھے ہٹ جاتے ہیں الغرض اس مادہ میں یہ دونوں معنی پائے جاتے ہیں۔ خناس مبالغے کا صیغہ ہے جس کے معنی ہیں بہت چھپ جانے والا اور بہت پیچھے ہٹ جانے والا۔ یہ شیطان وسواس کی صفت ہے اور اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ جب انسان اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل ہو جاتا ہے تو شیطان اس کے قلب پر چھا جاتا ہے اور اس کے دل میں قسم قسم کے وسوسے ڈالتا ہے جو مختلف گناہوں کے ارتکاب کا بیج ہوتا ہے لیکن جب انسان اللہ تعالیٰ کی یاد میں مشغول ہو جائے اور اس کے ساتھ شیطان کے شر سے پناہ لے تو وہ پیچھے ہٹ جاتا ہے اور ظاہر ہونے کے بعد پھر چھپ جاتا ہے۔
سیدناقتادہ رضی اللہ عنہ نے تمثیلی پیرائے میں اس کو اس طرح بیان کیا ہے کہ شیطان اپنی کتے جیسی تھوتھنی آدمی کے قلب پر رکھے رہتا ہے لیکن جب آدمی اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول ہو تو وہ پیچھے ہٹ جاتا ہے اور اپنے اڈے کو چھوڑ دیتا ہے۔ اسی طرح بعض بزرگوں نے اس کوسانپ کے سر سے تشبیہ دی ہے۔ پہلی تشبیہ تحقیر کے لئے ہے اوردوسری میں اس کے زہریلے اثرات کی طرف اشارہ ہے۔ مبالغے کا صیغہ اس لئے استعمال کیا گیا ہے کہ وہ بار بار ایسا کرتا ہے یعنی ذرا سا موقع اس کو ملا اور اس نے وسوسہ ڈالنا شروع کیا لیکن جونہی آدمی اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوا اور وہ پیچھے ہٹ گیا۔ وہکذ۱ الیٰ غیر النہایۃ ۔
مومن کا شیطان :
بہرکیف اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنا اور اس کی یاد میں مشغول ہونا شیطان کے ہٹانے کے لئے کوڑے کاکام دیتا ہے او گرز آہنی کی ضرب سے بڑھ کر اس کو تکلیف دیتا ہے اس لئے بعض بزرگوں نے یہ کنایہ استعمال کیا ہے کہ مومن کا شیطان لاغر اور درماندہ ہوتا ہے کیونکہ مومن شخص ہمیشہ اپنے شیطان کو ذکر اللہ کے کوڑے لگاتا رہتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اطاعت اور توبہ و استغفار میں مشغول رہ کر اس کولاغر او رکمزور بنا دینے میں کوتاہی نہیں کرتا اور اس کا شیطان ہمیشہ تکلیف میںرہتا ہے برخلاف اس کے فاسق فاجر آدمی کا شیطان موٹا تازہ رہتا ہے کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کو چھوڑ کر شیطان کی اطاعت میں مصروف رہتا ہے اور اس کو ناراض ہونے کا موقع نہیں دیتا۔ لیکن یاد رکھو کہ جو شخص اس دنیاوی زندگی میں اپنے شیطان کو ذلیل اور معذّب نہیں رکھے گا تو آخرت میں شیطان اس کے عذاب کا باعث ہو گا اور اس کا ٹھکانہ دوزخ میں ہوگا۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
فصل پنجم
تفسیر اَلَّذِيْ يُوَسْوِسُ فِيْ صُدُوْرِ النَّاسِ
شیطانی وسوسہ:
اَلَّذِيْ يُوَسْوِسُ فِيْ صُدُوْرِ النَّاسِ ’’وہ شیطان جو لوگوں کے سینوں میں وسوسہ ڈالتا رہتا ہے۔
پہلی آیت میں وسوسہ ڈالنے کا ذکر تھا اور اس آیت میں وسوسہ کی جگہ بتائی گئی ہے۔
شیطان کا نفوذ:
اللہ تعالیٰ نے شیطان کو یہ قدرت بخشی ہے کہ وہ انسان کے سینے میں داخل ہوا اور اس کے دل میں فاسد خیالات پیدا کرے (جس کا دوسرا نام وسوسہ ہے) وہ اس کی رگ دریشہ میں سرایت کئے رہتا ہے اور موت کے وقت تک اس سے جدا نہیں ہوتا۔
دلائل نفوذ شیطان:
صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں نبی ﷺ کی زوجہ مطہرہ صفیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ آپ مسجد میں اعتکاف کئے ہوئے تھے، رات کے وقت میں آپ ﷺ کی نیاز حاصل کرنے کے لئے خدمت میں حاضر ہوئی۔ تھوڑی دیر تک بات چیت کرنے کے بعد میں واپس آنے لگی تو آ پﷺ مجھے رخصت کرنے کے لئے تھوڑی دور میرے ساتھ چلے۔ (سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا کا گھر اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کی حویلی میں تھا) اس اثناء میں انصار کے دو آدمی سامنے سے گزرے اور انہوںنے آپ ﷺ کو پہچانا تو تیزی سے آگے نکل گئے۔ نبی ﷺ نے ان کو آواز دے کر فرمایا ، ذرا ٹھہرا جاؤ، یہ میری اپنی بیوی صفیہ ؓ ہے۔ انہوں نے آپ ﷺ کی اس غیر ضروری صفائی پیش کرنے پر تعجب کیا اور کہاکہ سبحان اللہ! یا رسول اللہ! (یعنی آپ ﷺ کے متعلق بھی کسی قسم کا شبہ ہو سکتا ہے؟) آپ ﷺ نے فرمایا کہ بیشک شیطان انسان کے رگ و ریشہ میں خون کی طرح سرایت کر جاتا ہے اور مجھے خوف تھا کہ کہیں تمہارے دل میں کوئی شک پیدا نہ کر دے‘‘۔
بروایت سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی ﷺ کی ایک صحیح حدیث ہے کہ جب نماز کے لئے اذان ہونے لگتی ہے تو شیطان گوز لگاتا ہوا پیچھے ہٹتا چلا جاتا ہے۔ جب اذان ختم ہوجاتی ہے تو پھر نمازیوں کے ورغلانے کے لئے متوجہ ہوتا ہے جب اقامت شروع ہوتی ہے تو پھر پسپا ہونے لگتا ہے اقامت سے جب فراغت ہوتی ہے تو پھر آموجود ہوتا تھا اورآدمی کے دل میں وسوسے ڈالنے میں مصروف ہو جاتا ہے ا ور بھولی بسر باتیں اس کویاد دلاتا ہے یہاں تک کہ نمازی نہیں جانتا کہ میں نے تین رکعتیں پڑھی ہیںیا چار۔ ایسی حالت میں سجدئہ سہو کرناچاہئیے۔
وسوسہ کی قسمیں:
اسی وسوسہ کی ایک قسم وہ ہے جس کا ذکر اس حدیث میں ہے جو سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی ﷺ سے روایت کی ہے۔ تم میں سے کسی کے پاس شیطان آ جاتا ہے تو یہ وسوسہ ڈالنا شروع کر دیتا ہے کہ فلاں چیز کو کس نے پیداکیا اور فلاں چیز کو کس نے پیداکیا؟ یہاں تک کہ وہ کہہ دیتا ہے کہ اللہ کو کس نے پیدا کیا؟ جوکوئی تم میں اپنے دل میں یہ وسوسہ پائے اس کو چاہئیے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ پناہ مانگے اور اپنے خیال کوزیادہ دوڑانے سے باز آجائے۔
نیز صحیح بخاری میں موجود ہے کہ نبی ﷺ کے صحابہ رضی اللہ عنہم نے آپ کی خدمت میں عرض کیا یارسول اللہ (ﷺ)! ہم اپنے دل میں بعض اوقات ایسا خیال پاتے ہیں کہ اگر ہم آسمان سے گر کر ہلاک و جائیں تو اس بات کوہم اس بات پر ترجیح دیںگے کہ اس خیال کو زبان پر لائیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ کا شکر ہے کہ اس نے شیطان کی سازشوں اور بداندیشیوں کو وسوسہ تک محدود رکھا (یعنی اس پر مواخذہ نہیں)۔
یہ بھی وسوسہ کی ایک قسم ہے کہ انسان کوئی نیکی کا کام کرنا چاہتا ہے اور شیطان اس کو دوسرے خیالات میں یہاں تک لگائے رکھتا ہے کہ وہ اس نیکی کا کرنا بھول جاتا ہے اسی بناء پر نسیان اور فراموشی کی نسبت شیطان کی طرفکی جاتی ہے کیونکہ وہی اس کا باعث ہوتا ہے۔
موسیٰ علیہ السلام اور خضر علیہ السلام کے قصے میں موسیٰ علیہ السلام کے شاگرد یوشع بن نون کا قول منقول ہے کہ :
فَاِنِّيْ نَسِيْتُ الْحُوْتَ وَمَا اَنْسَنِيْهُ اِلاَّ الشَّيْطَانُ اَنْ اَذْكُرَهُ
ـ
’’میںمچھلی کی بابت ذکر کرنابھول گیااور شیطان ہی نے اس کا ذکر بھلا دیا‘‘۔
شیطان کا سب سے بڑا شر:
آیت زیر تفسیر میں شر کی اضافت شیطان کی طرف کی گئی ہے اور اگرچہ اس کا ایک عظیم شر اور اس کا وسوسہ ڈالنا ہے۔ تاہم یہ نہیں کہا کہ من شر وسوسة بلکہ کہا ہے کہ من شرّ الوسواس الخناس اس میںنکتہ یہ ہے کہ استعاذہ اس کے تمام شرور پر مشتمل ہو البتہ اس میں شک نہیں کہ اس کا عظیم ترین شر جس کے ذبردست اثر سے بڑے سے بڑا آدمی محفوظ نہیں رہ سکتا یہی وسوسہ ہے جوا نسانی ارادہ کے گناہ اور معصیت پر مائل کرنے کی جزا اور ہر ایک قسم کے اعمالِ فاسدہ کے ظہور میں آنے کا ابتدائی بیج ہے۔
شیطان کا طرزِ عمل:
انسان کا آئینہ دل ہر ایک قسم کے شر اور معصیت کے خیال سے صاف ہوتا ہے۔ شیطان اپنے وسوسہ کے ذریعہ سے اس کے صفحہ (۱) دل پر گناہ کی ایک تصویر قائم کر دیتا ہے جس کو آہستہ کرنے اور مزین بنانے پر وہ اپنی ہنرمندی صرف کرتا ہے اور بالآخر اس کو انسان کے سامنے ا یک دلکش شکل سے پیش کرنے میں کامیاب ہوتا ہے۔ جس کانتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی کے دل میں اس گناہ کے کرنے کا خیال راسخ ہو کر ارادہ کی صورت اختیار کر لیتا ہے
۱۔ زمانہ حال کی اصطلاح فوٹو گرافی کے لوازم کو ملحوظ رکھ کر یہ کہنا چاہئیے کہ اس کے دل کے پلیٹ پر۔
اور شیطان اس کے مضر اثرات اور اس کے انجامِ بد اور اسکی عقوبت کو اس کی چشم بصیرت سے اوجھل کر دیتا ہے چنانچہ اس کوصرف گناہ کی صورت اور اس کی لذت نظر آتیہے اوربس اس حالت میں شیطان اس کے دل میں حرص اور شہوت کے لشکر کو حرکت دیتاہے اور اس کو گناہ کے ارتکاب پرآمادہ کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتا ۔ اس کے بعد جو کچھ وقوع میں آتا ہے وہ تم نے خود اپنے آپ میں اور دوسروں میںمشاہدہ کیاہوگا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ : اَلَمْ تَرَ اَنَّا اَرْسَلْنَا الشَّيْطَانَ عَلَى الْكَافِرِيْنَ تَؤُزُّهُمْ اَزًّا
ـ ’’کیا تم نے اس بات کو مشاہدہ نہیں کیا کہ ہم شیطانوں کوکافروں کے مقابلہ میں (ان گمراہ کرنے کیلئے کیونکر وہ خود ان کا اثر قبول کرنے کیلئے آمادہ ہوتے ہیں) چھوڑ دیتے (۱) ہیں اور وہ شیطان انکو اچھی جنبش دیتے ہیں‘‘ (۲)
۱۔ اس تغیر میں یہ نکتہ ہے کہ شیطان کی مثال ایک کتے کی ہے جس کو دشمن پر چھوڑ دیا جائے۔
۲۔ ان کے قوائے شہوانی کو تیز اور اتکابِ گناہ کے بارے میں انکی سستی کو دُور کرتے ہیں۔ مترجم
اور معصیت کی جڑ اسی کا وسوسہ ہے اور اسی نکتہ کے لئے آیتِ کریمہ میں اس کے شر سے ا ستعاذہ کی تعلیم دیتے ہوئے اس کو وسواس (وسوسہ ڈالنے والا) کے لفظ سے موصوف کیا گیا ہے کیونکہ یہی اس کی ممتاز صفت ہے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
فصل ششم
شیطان کے دوسرے شر
اقسام:
اس کے علاوہ اور بھی اس سے کئی قسم کے شر صادر ہوتے ہیںجن سے پناہ مانگنا لازم تھا اس لئے شر کو اس کی ذات کی طرف مضاف کیا گیا ہے تاکہ استعاذہ اس کے تمام شرور پر مشتمل ہو، وسوہ کو چھوڑ کر اس کے دوسرے شرور بھی ہیں۔
۱۔ وہ چور ہے اور لوگوں کے مال چراتا ہے۔ جس کھانے یا پینے کی چیز پر اللہ تعالیٰ کا نام نہ ذکر کیا جائے اس سے اپنا حصہ چرانے میں وہ کامیاب ہو جاتا ہے، اسی طرح جس گھر میں اللہ تعالیٰ کی یاد سے لوگ غافل ہوں وہ اس گھر میں شب باش ہوتا ہے۔
۲۔ ایک شر اس کا یہ ہے کہ جس کے دل میں وسوسہ ڈال کر اس سے گناہ کراتا ہے پھر خود ہی اس کا پردہ فاش کر کے لوگوں میں اس کو فضیحت کرتا اور انگشت نما بناتا ہے۔ بسا اوقات ایک شخص پوشیدہ طور پر کسی گناہ کا ارتکاب کرتا ہے جس سے کوئی بھی آگاہ نہیں ہوتا لیکن وہ دیکھتا ہے کہ دوسرے دن اس کی خبر چاروں طرف پھیل گئی ہے اور لوگوں کا موضوعِ سخن اسی کا گناہ ہے۔ یہ تمام شیطان کی کارستانی ہوتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ تو ستار ہے اپنے بندہ کے گناہوں اور اس کے عیوب پر پردہ ڈالتا ہے لیکن شیطان جو اس کا دشمن ہے اس کو فضیحت کرنا چاہتا ہے بہت سے لوگ اس نکتہ سے بے خبر ہیں
تہجد سے باز رکھنا:
۳۔ شیطان کا ایک شر یہ ہے کہ جب انسان سو جاتا ہے تو وہ اس کی گدی پر تین گرہیں لگا دیتا ہے جو اسک ے لئے تہجد کے واسطے اٹھنے سے مانع ہوتی ہیں۔
صحیح بخاری میں بروایت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی ﷺ سے مروی ہے کہ جب تم میںسے کوئی سو جاتا ہے تو شیطن اس کی گدی پر تین گرہیں لگا دیتاہے۔ ہر ایک گرہ میں یہ منتر پھونک دیتا ہے کہ ابھی کیا اٹھتے ہو بہت رات باقی ہے، سو جاؤ۔ لیکن آدمی اگر اس کے کہنے پر التفات نہ کر کے اٹھ بیٹھے اور اللہ کو یاد کرے تو ایک گرہ کھل جاتی ہے، پھر اگر اس نے وضو بھی کر لیا تو دوسری کھل جاتی ہے اور اگر نماز بھی پڑھ لی تو اس کی تمام گرہیں کھل جاتی ہیں اور صبح کو اس کے اعضاء چست اور اس کی طبیعت خوش ہوتی ہے، بصورتِ دیگراس کی طبیعت پریشان اور اس کے اعضاء سست ہوتے ہیں۔
ایک صحیح حدیث کا مفہوم یہ بھی ہے کہ جو شخص ساری رات سوتا رہے اس کے کان میں شیطان نے پیشاب کیا ہوتا ہے۔
نیکی کے کام سے روکنا:
۴۔ شیطان کاایک شر یہبھی ہے کہ انسان کوئی نیکی کا کام کرناچاہے تو وہ اس کا راستہ روکتا اور اس کو نیکی سے باز رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ دنیا میں جتنی بھی نیکیاں ہیں ہر ایک نیکی کے راستہ پر شیطان بیٹھا راستہ روک رہا ہے اور اس کی تمام تر کوشش یہ ہوتی ہے کہ اس راستہ پر کوئی نہ چلے اور اگر کوئی اس کی مخالفت کر کے چل پڑے تو وہ قاطع الطریق (رہزن) کی طرح اس کو تشویش میں ڈال کر اور ہر قسم کے موانع اس کے سامنے لا کر اس کو آخر تک پہنچنے نہیں دیتا لیکن اگر کوئی خوش قسمت اور باہمت انسان نیکی کرنے میں کامیاب ہو جائے تو اس کو ایسی باتوںپر آمادہ کرنے میں کوشاں رہتا ہے جس سے اس کا وہ عملِ صالح برباد ہو جائے۔
کلامِ مجید میں شیطان کا قول منقول ہے :
لَاَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِيْمَ
ـ ثُمَّ لَاَتِيَنَّهُمْ مِّنْ بَيْنِ اَيْدِيْهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ وَعَنْ اَيْمَانِهِمْ وَعَنْ شَمَائِلِهِمْ وَلاَ تَجِدُوْا اَكْثَرُهُمْ شَاكِرِيْنَ ـ
۱۔ مثلاً اثنائے عمل میں ریا اور نمود اور اس کے ہو چکنے کے بعد عجیب اور خود پسندی کے عمل ثواب کو ضائع کر دیتی ہے یا جیسے صدقہ کے لئے احسان جتلانا اور ایذا دینا اس کے اجر کوبرباد کرنے کا موجب ہے وغیرہ وغیرہ ۔ (مترجم)۔
’’یقینا میں ان کو گمراہ کرنے کے لئے تیرے صراطِ مستقیم پر بیٹھ جاؤںگا اورپھر میں ان کا راستہ روکنے کے لئے ان کے آگے کی طرف سے اور ا ن کے پیچھے کی طرف سے اور ان کے دائیں اور بائیں کی جانب سے آکر اپنے مقصد میں کامیاب ہونے کی کوشش کروں گا اور اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ تو ان میں سے ا کثروں کو ناشکر گزار پائے گا‘‘۔
اسی نے ہمارے باپ آدم علیہ السلام کو جنت سے نکالا اور اسی نے ہر ایک نبی علیہ السلام کے زمانہ میں یہ کوشش کی کہ اس کی دعوت الی اللہ کامیاب نہ ہو۔
شیطان اپنی پرستش چاہتا ہے:
۵۔ وہ چاہتا ہے کہ اللہ کی توحید اور عبادت دنیا سے مٹ جائے اور جا بجا چار دانگ عالم میں اس کی (شیطان کی) دعوت کا بول بالا ہو اور لوگ اپنے معبودِ برحق کو چھوڑ کر اس کی پرستش میں مشغول ہو جائیں۔
سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈلوانا :
۶۔ یہ اسی کی کارستانی تھی کہ اہلِ بابل کو اس پر آمادہ کیا کہ رئیس المؤحدین ابو الانبیاء سیدنا ابراہیم خلیل الرحمن علیہ الصلوٰۃ والسلام کو آگ میں پھینکیں۔
سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو صلیب پر چڑھانا:
۷۔ اس نے یہودیوں کو ورغلایا کہ وہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو صلیب پر چڑھانے کے لئے جدو جہد کریں یہ اوربات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے ان کی حمایت کی اور کافروں کے شر سے انہیں محفوظ رکھا۔ پہلے کے حق میں فرمایا : يَنَارُ كُوْنِيْ بَرْدًا وَّ سَلاَمًا عَلَى اِبْرَاهِيْم
ـ ’’اے آگ! ابراہیم ؑ کے حق میں ٹھنڈی اور سلامتی کا موجب ہو جا‘‘۔
اور دوسرے کے حق میںارشاد فرمایا کہ: وَمَا قَتَلُوْهُ وَمَا صَلَبُوْهُ وَلَكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ
ـ ’’انہوں نے نہ اس کو قتل کیا اور نہ اس کو صلیب دینے میں کامیاب ہوئے بلکہ ایک شبہ میں ڈال دئیے گئے‘‘۔
سیدنا یحییٰ علیہ السلام کی شہادت:
۸۔ شیطان ہی کے کرتوت تھے کہ سیدنایحییٰ اور زکریا علیہما السلام کوکافروں کے ہاتھ سے شہید کرایا۔ فرعون کو خدائی دعویٰ کرنے، ملک میںسخت فساد پھیلانے اور غریبوں پر مظالم ڈھانے پر آمادہ کیا اور ہمارے نبی کریم ﷺ کے برخلاف کافروں کو اکسایاکہ ان کے قتل کی سازش کریں اور ان کی رسالت کوناکامیاب بنانے کے لئے ان کے ساتھ لڑائیاں لڑیں۔
رسول اللہ ﷺ کو نماز میں ورغلانا:
۹۔ ایک مرتبہ نبی ﷺ نماز پڑھ رہے تھے کہ وہ آگ کاایک شعلہ لے کر سامنے سے نمودار ہوا اور قریب تھا کہ آپ کو اس سے گزند پہنچے لیکن آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ پناہ لی اور اس پر اللہ کی لعنت بھیجی جس پر وہ بھاگ گیا۔
رسول اللہ ﷺ پر جادو کرنا:
۱۰۔ اسی طرح یہودیوں کو ورغلایا اور انہوںنے آپ ﷺ پر جادو کیا جس کا ذکر پہلے مفصل ہو چکا ہے۔
الغرض جب اس کی یہ حالت تھی کہ وہ انبیاء علیہم الصلوٰۃ و السلام تک سے نہیں چوکتا اور سیدالانبیاء ﷺ کو نماز کی حالت میں چھیڑا تو اس سے تم سمجھ سکتے ہو کہ اس کے شر سے مخلصی پانا کس قدر دشوار ہے اور اگر اللہ تعالیٰ کی عنایت اور اس کا فضل شامل نہ ہو تو معاملہ نہایت سخت ہے۔ وَلَوْلاَ فَضْلُ اللهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ مَا زَكَى مِنْكُمْ مِّنْ اَحَدٍ اَبَدًا وَلَكِنَّ اللهَ يُزَكِّيْ مَنْ يَّشَآئُ وَاللهُ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ
ـ ’’اگر اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی عنایت تمہارے شاملِ حال نہ ہوتی تو کوئی بھی تم میں سے ہر گز اس کے شر سے مخلصی پا کر پاکیزہ نہ بنتا لیکن اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے اپنے قانونِ حکمت کے مطابق پاکیزہ بناتا اور اس کے شر سے محفوظ رکھتا ہے اور اللہ تعالیٰ سننے والا جاننے والا ہے‘‘۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
فصل ہفتم
شیطانی شر کے اقسام:
چھ قسمیں: اگرچہ ہر ایک قسم کا شر جو دنیا میں موجود ہے اس کی ابتداء شیطان سے ہے اور اس لئے شر کی قسموں کا شمار کرنا قدرے دشوار ہے لیکن اس کی بڑی بڑی چھ قسمیں ہیں اور وہ ہمیشہ انسان کو انہیں میں سے کسی ایک میں مبتلا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ان کی تفصیل ہم ذیل میں درج کرتے ہیں۔
شرک و کفر:
۱۔ سب سے بڑا شر شرک و کفر ہے جس کانتیجہ اللہ اور رسول کی دشمنی ہوتی ہے اور جس کی عقوبت آخرت میں ابدی جہنم ہے۔ شیطان سب سے پہلے انسان کو اسی میں مبتلا کرنا چاہتا ہے اور اگر وہ اس میں کامیاب ہو جائے تو گویا اس کے دل کی مراد پوری ہو جاتی ہے کیونکہ ایسا شخص (العیاذ باللہ) ابلیس کا داعی اور اس کا نائب بن جاتا ہے۔
بدعت:
۲۔ لیکن اگر پہلی قسم میں وہ کامیاب نہ ہوتو پھر وہ آدمی کو بدعت کی طرف بلاتا ہے اور اس کو وہ فسق و فجور پر ترجیح دیتا ہے کیونکہ اوّل الذکر کا تعلق اعتقاد سے ہے اور مؤخر الذکر عمل کی خرابی ہے۔ علاوہ ازیں کھلے گناہ پر اکثر انسان کا اپنا ضمیر اس کو ملامت کرتا ہے اور اس لئے وہ عموماً توبہ پر مائل ہو جاتا ہے لیکن چونکہ بدعت ک و آدمی اپنے زعم میں بُرا سمجھتا ہی نہیں بلکہ یہ خیال کرتا ہے کہ میں ایک اچھا کام کر رہا ہوں اس لئے وہ اس سے تائب نہیں ہوتا اور نہ ہی اس کے تائب ہونے کی امید کی جا سکتی ہے۔
بدعت کی بناء من حيث يدري او لا يدري مخالفتِ رسول پر ہے اور اس لئے اس کا درجہ کفر اور شرک کے قریب ہے، لہٰذا بدعت کی طرف بلانا شیطان لعین کا مرغوب مشغلہ ہے اور اس کوشش میں وہ کامیاب ہو تووہ سمجھتا ہے کہ میںنے اپنے نائبوں کی تعداد میں ایک اور کا اضافہ کر دیا، بلحاظ شر کے مبتدع بھی کافر اور مشرک سے کچھ کم نہیں بلکہ بعض اوقات ان کا شر ان سے بڑھ کر خرابی پیدا کرتا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اسلام کا دوست نما دشمن ہے اور اس کا بدعت کی طرف بلانا شہد میں زہر ملا کر دینے کی مثال رکھتا ہے۔
کبائر:
۳۔ لیکن اگر کسی کو اللہ تعالیٰ نے سنت پر ثابت قدم رہنے کی توفیق بخشی ہو اور شیطان ملمع کاریاں اس کی تیربیں اور نقاد نظروں سے چہرئہ حقیقت اور جمالِ سنت چھپانے میں کامیاب نہ ہوسکتی ہوں پھر اس کا تیسرا داؤ یہ ہوتا ہے کہ وہ اس کو کبائر کے ارتکاب پر آمادہ اور اس میں مبتلا کردے اور اگر وہ شخص عالم ہے اور لوگ اس کو قابلِ اقتداء سمجھتے ہیں تو شیطان لعین کی تمام تر کوشش یہ ہوتی ہے کہ وہ اس کو پھسلا دے تاکہ لوگ اس سے نفرت کرنے لگیں اور اس کے فیض صحبت سے جو تھوڑا بہت فائدہ مقصود ہوتاتھا اس کا دروازہ بند ہو جائے جب وہ بدقسمتی سے گناہ کر بیٹھتا ہے تو پھر اس کی (شیطان کی) کوشش یہ ہوتی ہے کہ اس کولوگوں میں شہرت دے اور طبقۂ عوام میں ایسے اشخاص کی کمی نہیں ہوتی جو ابلیس کے نائب بن کر اس عالم کی اس لغزش کو مشہور کرتے پھرتے ہیں اور بزعمِ خود اس کو ایک ثواب کا کام سمجھتے ہیں، ایسے اشخاص کو میں نے ابلیس کانائب اس لئے کہا کہ اللہ تعالیٰ اپنے کلامِ پاک میں فرماتا ہے: اِنَّ الَّذِيْنَ يُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِيْعَ الْفَاحِشَةُ فِيْ الَّذِيْنَ اَمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ فِيْ الدُّنْيَا وَالاَخِرَةِ
ـ ’’جو لوگ اس بات کوپسند کرتے ہیں کہ مومنوں کی بُری بات مشہور ہو جائے ان کے لئے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے‘‘۔
اب تم خودسمجھتے ہو کہ جب ان لوگوں کے لئے یہ وعید ہے جو اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ مومنوں کو کوئی بُری بات مشہور ہو جائے تو وہ اشخاص کیوں نہ ابلیس کے نائب تصور کئے جائیںجومومنوں کی بُری بات مشہور کرنے میں پیش از پیش رہتے ہیں اور اس کے علمبردار ہوتے ہیں اور یہ تم یاد رکھو کہ اس عالم مقتدیٰ کا گناہ خواہ کتنا بڑا ہو ان لوگوں کے گناہ کے مقابلہ میں کم ہو گا کیونکہ اس کااپنے نفس پر ظلم ہے جس سے اگر وہ تائب ہو جائے اور اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کر کے اس کی بابت مغفرت طلب کرے (۱) تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرما کر اپنے سچے وعدے کے مطابق اس کی بُرائیوں کو نیکیوں کے ساتھ تبدیل کر دے گا لیکن ان لوگوں کے گناہ کی کچھ اورنوعیت ہے کیونکہ یہ ایک ایمان اور بندے پر ظلم اور ایک مسلم بلکہ عالمِ دین کی عیب جوئی اور اس کی فضیحت کرتا ہے اور گو بظاہر اس عیب جوئی اور ارادئہ فضیحت کو تاویلوں کے زور سے خیر خواہئ مسلمانان یا کسی دوسری نیکی کی صورت میںظاہر کیا جائے لیکن اللہ تعالیٰ سینون گے راز اور نفس کی پوشیدہ خباثتوں سے واقف ہے۔ اِنَّ اللهَ لاَ يَخْفَى عَلَيْهِ شَيئٌ فِيْ الاَرْضِ وَلاَ فِيْ السَّمَائِ وَهُوَ عَلِيْمٌ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ
ـ
صغائر:
۴۔ لیکن اگر شیطان کو اس کوشش میں بھی مایوسی حاصل ہو اور وہ
۱۔ اور ایک عالم سے اس بات کی توقع رکھنا خیر اغلب نہیں۔
کبیرہ کے ارتکاب پر بھی کسی کومائل نہ کر سکے تو وہ صغائر کے کرا لینے پر اکتفا کرتا ہے کیونکہ صغائر بھی جمع ہو کر کبیرہ کی طرح انسان کی ہلاکت کا باعث ہوسکتے ہیں۔
نبی ﷺ فرماتے ہیں کہ ’’حقیر گناہوں سے اپنے آپ کو بچاؤ کیونکہ اس کی مثال یہہے کہ کوئی قوم بیابان میں اتر پڑے اور ہر ایک ا ن میں سے جا کر جنگل سے ایک لکڑی کا ٹکڑا اٹھا لائے، یہ ٹکرے جمع ہو کر ایک بڑی آگ مشتعل کی جا سکتی ہے جس پر روٹی پکا سکتے اور کباب بھون سکتے ہیں۔ (یہ حدیث بالمعنی روایت کی گئیہے اور حدیث کے ٹھیک الفاظ راوی کو یاد نہیں رہے)۔
صغائر کے ارتکاب میں ایک بڑی خرابی یہ ہے کہ مرتکب ان کو بہت ہلکا اور قابلِ اعتناء سمجھ کر ان کو ارتکاب کرتا ہے لیکن کسی کبیرہ گناہ کا کرنے والا جو اپنی عاقبت کی بابت ہراساں ہے اس سے بہت بہتر ہے جو صغائر کو حقیر سمجھ کر ان کا ارتکاب کرتا ہے!
مباحات:
۵۔ پانچواں شر شیطان کایہ ہے کہ اگر کوئی شخص صغائر کابھی ارتکاب نہیں کرتاہے تو وہ اس کو ایسے مباحات (۱) میں مشغول کر دیتا ہے جس میں مشغول رہ کر انسان ثواب کے کاموں سے محروم رہتا ہے اور جن کا ثواب باوجود قدرت کے کھو بیٹھنا نقصانِ عظیم ہے، شیطان کو اس سے بھی خوشی ہوتی ہے کہ وہ کسی کو ثواب اور درجات حاصل کرنے سے محروم کر دے لیکن اگر کوئی صاحبِ بصیرت شخص اپنے وقت عزیز کا اس قدر خیال رکھتا ہے کہ اس کو مباحات میں بھی ضائع نہیں کرتا اور سمجھتا ہے کہ اس کا ایک ایک لمحہ اگر کسی نیک کام میں صرف کیا جائے تو اس سے ملک ابد کے درجاتِ عالیہ خریدے جا سکتے ہیں تو ایسے شخص کے ساتھ شیطان ایک اور داؤ کھیلتا ہے اور وہ یہ ہے کہ:
افضل عمل سے باز رکھنا:
۶۔ اس کو کسی افضل عمل سے باز رکھ کر عملِ مفضول میں مشغول کر ۱۔ مباحات وہ ہیں جن کے کرنے نہ کرنے میں ثواب عذاب نہیں۔ مترجم
دیتا ہے(۱) تاکہ ان کو کم از کم ثواب کی زیادتی سے محروم کر دے یہ ایک ایسا دامِ فریب ہے کہ جس کا پول اکثروں پر نہیں کھلتا اور بڑے بڑے عابد اس میں گر پڑتے ہیں کیونکہ جب ایک شخص اپنے دل میں کسی نیکی اور کارِ ثواب کے کرنے کی رغبت پاتا ہے تو اسے گمان تک نہیں ہوتا کہ اس کا محرک اور ترغیب دہندہ شیطان ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے اور شیطان اس کو کسی نیکی کے کرنے کی اس لئے ترغیب دیتا ہے کہ اس کو اس سے بہتر نیکی سے مانع ہو جس کے کرنے سے اس کو بہت زیادہ ثواب حاصل ہو سکتا تھا۔
عموماً سادہ لوح مومن کی سمجھ سے یہ بات بالاتر ہوتی ہے کہ شیطان بھی انسان کو نیکی پر مائل کر سکتا ہے، وہ اس قسم کی تحریک اور خواہش کو من جانب اللہ تعالیٰ خیال کرتا ہے اور یہ نہیں سمجھتا کہ شیطان لعین بعض اوقات ایک چھوڑ ستر نیکیوں کی ترغیب دیتا ہے جس سے اسکا مقصد یہ ہوتا ہے کہ یا تو وہ شخص کسی شر میں مبتلا ہو اور
۱۔ ایسے عمل میں جو پہلے کے مقابلہ میں کمتر ثواب کاموجب ہے۔ مترجم
(وہ ستر نیکیاں صرف کسی شر میں مبتلا کرنے کا ذریعہ ہوتی ہیں) یا کسی ایسی بڑی نیکی سے اس کو محروم کر دے جو تنہا ان ستر نیکیوں کے زیادہ ثواب او ردرجات کا موجب ہے۔
شیطان کی اس دقیق مکاریوں کو وہی شخص پہچان سکتا ہے جس کے دل میں اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص ہدایت کا نور رکھ دیا ہو جو اس شخص کو حاصل ہو سکتا ہے جو خالص سنتِ نبوی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کا پابند ہو اور بدعت سے سخت اجتناب کرتا ہو اس بات کی ٹوہ میں لگا رہے کہ کونساعمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک اوراس کے رسول کی نظر زیادہ محبوب ہے لیکن اکثر لوگ اس مرتبہ سے محجوب ہیں: وَذَالِكَ فَضْلُ اللهِ يُؤْتِيْهِ مَنْ يَّشَآئُ وَاللهُ ذُوْ فَضْلِ ا لْعَظِيْمِ
ـ
الغرض جب شیطان ان تمام شرور میں سے کسی میں بھی آدمی کو مبتلا نہ کر سکے ت وپھر وہ اپنی جماعت کے لوگوں انس و جن کو اس کی ایذا اور تکلیف دہی پر آمادہ کرتا ہے یہ لوگ اس کو کافر اور گمراہ اور اسی قسم کے دیکر القاب سے یاد کرتے اور دوسروں کو اس سے متنفر کرتے ہیں جس سے اس لعین کا مطلب اس کو تشویش میں ڈالنا ہوتا ہے تاکہ اس کے قوائے فکریہ ان کے بیجا اتہامات اور ضرر رسانی کے دفع پر متوجہ ہوں جتنا وہ اس پر متوجہ ہو گا اتنا وہ اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل ہو گا اورجلیل القدر نیکیوںکے کرنے پر وہ کم توجہ مبذول کر سکے گا۔
علاوہ ازیں دوسرے لوگ جو بصورتِ دیگر اس کے علم اور اس کے اسوئہ حسنہ سے عظیم فوائد حاصل کرتے اس کے فیضِ صحبت سے محروم رہتے ہیں۔
شیطان کی رسائی:
قارئین کرام! یہ ایک عظیم الفنع باب ہے۔ اس کے مضمون کو اچھی طرح اپنے ذہن میں نقش کر لو۔ يُوَسْوِسُ فِيْ قُلُوْبِ النَّاسِ کے بجائے يُوَسْوِسُ فِيْ صُدُوْرِ النَّاسِ کہنے میں یہ نکتہ ہے کہ شیطان کی رسائی اصل دل تک نہیں ہو سکتی بلکہ وہ صرف انسان کے سینے میں جو قلب کے لئے بمنزلہ دہلیز کے ہے داخل ہو کر وسوسہ ڈالنے اور انسان کے ارادہ میںاپنی مرضی کے مطابق تبدیلی کرنے میں کوشش کرتا ہے۔ یہ معلوم کر کے مومن کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور وہ اس کے شر کو دفع کرنے پر دلیر ہوتا ہے۔ سیدنا آدم علیہ السلام کے قصے میں ارشاد ہوا ہے: فَوَسْوَسَ اِلَيْهِ الشَّيْطَانُ الخ
ـ ’’شیطان نے اس کی طرف وسوسہ ڈالا‘‘۔
الیٰ کے استعمال کرنے میں بھی یہی نکتہ ہے کہ شیطان نے اپنا وسوسہ کسی قدر دُور سے اس کے دل میں ڈالا۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
فصلِ ہشتم
تفسیر مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ
مفسرین کااختلاف :
مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ کے متعلق مفسروں نے اختلاف کیا ہے، ایک جماعت مفسرین کا یہ قول ہے کہ من بیانہ ہے اور اسکا تعلق لفظ الناس کے ساتھ ہے جو صدُور کا مضاف الیہ واقع ہوا ہے۔ اس قول کے موافق آیت کریمہ کے یہ معنی ہیں کہ وسوسہ ڈالنے والا شیطان دو قسم کے لوگوں کے سینوں میں وسوسہ ڈالتا ہے۔ جنّ اور انسان بالفاظ دیگر وہ شیطان جو جنوں کی قوم سے ہے جنیوںکے اور آدمیوں کے سینہ میں بُرے خیالات کا القاء کرتا ہے لیکن یہ قول کئی وجود سے ضعیف ہے۔
۱۔ ایک تویہ کہ لفظ کے لحاظ سے بھی یہ ترکیب درست نہیں کیونکہ اس قول کے بموجب اَلنَّاسِ کا بیان الجنة والناس واقع ہوا ہے جس کے یہ معنی ہوئے کہ وہ شیطان جو لوگوں کے سینہ میں وسوسہ ڈالتا ہے یعنی (جن اور لوگوں کے سینہ میں‘‘ کیا اس عبارت کو تم فصیح کہہ سکتے ہو؟ ہر گز نہیں۔
۲۔ تیسرے یہ کہ اس کے یہ معنی ہوئے کہ لوگوں کی دو قسمیں ہیں: ایک جن اور دوسرے لوگ۔ اس قسم کی تقسیم بالکل درست نہیںاس کو کہتے ہیں کہ تقسیم الشئ الى نفسه والى غيره اس کے معنی بعینہ یہ ہوئے کہ انسان کو دوقسمیں ہیں: انسان اور غیر انسان مگر کیونکہ جن یقینا انسان نہیں بلکہ اس کا مد مقابل ہے اور اس کامادئہ اشتقاق بھی یہی ظاہر کرتا ہے۔ ج، ن، ن کا مادہ جس لفظ میں پیا جائے اس میں پوشیدگی کے معنی ملحوظ ہوںگے اور جن کی وجہ تسمیہ بھی یہی ہے کہ وہ آنکھوں سے پوشیدہ رہتے ہیں۔ برخلاف اس کے الناساور انسان کامادہ۔ ا، ن، سی ہے جس میں دیکھنے کے معنی پائے جاتے ہیں۔ کلامِ پاک میںہے:
اَنَسَ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ
ـ ’’کوہِ طور کی جانب سے اس کو آگ نظر آئی۔ فَاِنْ اَنَسْتُمْ مِّنْهُمْ رُشْدًاـ ’’اگر تم دیکھو کہ ان میںمعاملہ فہمی کی صفت پیدا ہو گئی ہے‘‘۔
انسان کو اس لئے انسان کہتے ہیں کہ وہ آنکھوں سے دیکھا اور محسوس کیا جاتا ہے۔ اسنان کو نسیانسے مشتق سمجھنا جیسے کہ بعض کا خیال ہے بالکل غلط ہے اور اس کی ایک سادہ مگر زبردست دلیل ہے کہ چاہے اس کے الف نون کو زائدہ سمجھا جائے یا اصلی کسی صورت
۱۔ یعنی کسی دوسری آیت یا حدیث صحیح میں اس کی تصریح نہیں پائی جاتی۔ مترجم
میں بھی اس کا مادہ ن، سن، ی نہیں ہو سکتا جونسان کا مادہ ہے اس لئے اس کو نسیان سے مشتق سمجھنا بداہت کے خلاف ہے۔
جن وا نس کی بحث کا فیصلہ۔
مفسرین کے اس اختلاف کے بعد معلوم ہوا کہ جن و انسان دو مقابل چیزیں اور ان کے مادئہ اشتقاق سے صریحاً ثابت ہوتا ہے کہ ان کے معنی میں تضاد ہے اور اس لئے جن اور انسان دونوں کو الناس اور انسان کی قسم خیال کرنا نہایت نامعقول ہے کیا انسان کی دو قسمیں ٹھہرانا انسان اور غیر انسان، عقل کے ساتھ کھلی دشمنی نہیں؟ تم کہہ سکتے ہو کہ آیت کریمہ میںا لناس کا لفظ استعمال ہوا ہے لیکن صحیح ترین قول یہ ہے کہ اس کی اصل اناس ہے (جو انسان کی جمع ہے) کثرتِ استعمال اور تخیفف کے لئے بغیر ہمزہ کے استعمال ہونے لگا۔ اس صورت میں قطعاً اس کا مادہ ا، ن، س ہے جوبعینہ انسان کی مادہ ہے لیکن اگر اس کی اصل اناس نہ فرض کی جائے (جو بہت بعید ہے) اور اس کو ایک مستقل لفظ مانا جائے تب بھی اس کا اطلاق بنی آدم پر ہوتا ہے اور جن اس کے مفہوم میںہرگز داخل نہیں۔ جن لوگوں کا خیال ہے کہ الناس کے مفہوم میں انسان اور جن دونوں داخل ہیں اور اس لئے وہ آیت کریمہ میں پہلے الناس کو عام اور دوسرے کو بنی آدم کے لئے مخصوص سمجھتے ہیں اور اس بناء پر وہ خیال کرتے ہیں کہ الناس کی تقسیم جن اور انسان کی طرف درست ہے ان کی غلط فہمی کی اصلیت یہ ہے کہ قرآن کریم کی اس آیت میںہے کہ : وَاَنَّهُ كَانَ رِجَالٌ مِنَ الاِنْسِ يَعُوْذُوْنَ بِرِجَالٍ مِّنَ الْجِنِّ
ـ ’’بیشک بنی آدم کے چند اشخاص جنیوں کے چند اشخاص کے ساتھ پناہ لیتے تھے‘‘۔
جنیوںپر رجال کااطلاق ہوا ہے جو ان کے خیال میں الناس کے مرادف ہے اس غلط فہمی کا ازالہ اس طرح ہو سکتا ہے کہ اس آیت میں رجال کا لفظ جنیوں کے لئے بطور مطلق کے استعمال نہیں ہوا بلکہ مقید کے طور پر استعمال ہوا ہے یعنی رِجَالٌ مِّنَ الاِنْسِ کے مقابلہ میںرِجَالٌ مِّنَ الْجِنِّ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔
سیاقِ کلام:
اس کی مثال یہ ہے کہ پتھر یا لکڑی کی مورت کو ہم کہہ سکتے ہیں کہ هَذَا اِنْسَانٌ مِّنَ الْحِجَارَةِ يَا رَجُلٌ مِّنَ الْخَشْبِ لیکن بغیر اضافت اور تقیید کے اس پر انسان یا رجل کالفظ نہیں بول سکتے نیز سیاقِ کلام سے صاف واضح ہے کہ الجنة والناس دومقابلے کے لفظ ہیں اس لئے دونوں پر الناس کا لفظ کس طرح مشتمل ہو سکتا ہے؟ برخلاف اس کے الرجال اور الجن کا لفظ مقابلے کے طور پر استعمال نہیںہوتے بلکہ ان کی بجائے الجن الانس کہا کرتے ہیں۔ بہرحال یہ قول کہ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ میںمن بیانیہ کا تعلق الناس کے ساتھ ہے جو صدور کا مضاف الیہ واقع ہوا ہے، نہایت ضعیف اور مرجوح قول ہے۔
اس کے مقابلہ میں ایک دوسری جماعت مفسرین کی یہ کہتی ہے کہ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ کا لفظ الذي يُوَسْوِسُ کا بیان واقع ہوا ہے۔ جس کا مقصد یہ ہے کہ وسوسہ ڈالنے کاکام دونوں قسم کے شیطان انجام دیتے ہیں۔ وہ شیطانوں جوجنیوں کی قوم سے ہے اور وہ شیطان جونوعِ انسانی کاایک فرد ہے یہ دونوں قسم کے شیطان دل میں بُرے بُرے خیالات پیدا کرنے کا ذریعہ ہیں۔ (۱) اگرچہ انسانی شیطان کا القاء کان کے ذریعہ سے ہوتا ہے کیونکہ اس کی بات حرف اور صورت سے ہوتی ہے جس کا تعلق قوتِ سامعہ کے ساتھ ہے اور جنی شیطان کو اس ذریعہ کی ضرورت نہیں وہ براہِ راست دل میں القاء کرتا ہے کیونکہ اس کو انسان کے باطن میں نفوذ حاصل ہے اور وہ اس کے رگ و پے میںسرایت کئے ہوئے ہے جیسے کہ اس سے پہلے اس کے ثبوت میں حدیث صحیح کا حوالہ دیا گیا ہے۔ البتہ بعض اوقات جنی شیطان بھی کسی آدمی کی شکل میں متشمل ہو کر کان کے ذریعہ سے انسان کے دل میں وسوسہ ڈالتا ہے چنانچہ صحیح بخاری کی ایک حدیث میںجوکاہنوں کے بارے میں وارد ہوئی ہے مفصل ذکر ہے۔ الغرض ایک دوسرے قول کاملخص یہ ہے کہ الَّذِيْ يُوَسْوِسُ
۱۔ شریر انسان پر شیطان کا اطلاق کلامِ مجید کا عام محاورہ ہے۔ مترجم
کی دو قسمیںہیں جن اور انسان یہ دونوں انسان کے دل میں وسوسہ ڈالنے اور شر کے ظہور میں آنے کا باعث ہوتے ہیں۔ اس کی تائید ایک دوسری آیت سے ہوتی ہے: وَكَذَالِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا شَيَطِيْنَ الاِنْسِ وَالْجِنِّ يُوْحِيْ بَعْضُهُمْ اِلَى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوْرًا
ـ ’’اسی طرح ہم نے ہر ایک پیغمبر کے لئے انسان اور جن کی نوع سے شیطانوں کو اس کادشمن بنایا جو ایک دوسرے کی طرف ایسی باتوں کاالقاء کرتے ہیں جو بظاہر ملمع اور حقیقت میں دھوکہ اور فریب ہوتی ہیں‘‘۔
اور اس لئے یہ دوسرا قول قابلِ ترجیح ہے اور اس پر کوئی اعتراض وارد نہیںہوتا۔
علاوہ ازیں پہلے قول کے بموجب اس صورت میں صرف شیاطین الجن کے شر سے پناہ مانگنے کا ذکر ہے لیکن دوسرے قول کی بناء پر دونوں قسم کے شیاطین جن اور انسان کے شر سے پناہ طلب کی گئی ہے لہٰذا استعاذہ کی جامعیت کے لئے یہی قول زیادہ موزوںہے۔ والله تعالى اعلم وعلمه احكم
ـ
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
فصل نہم
اسباب بچاؤ:
شیطان کے شر سے بچنے کے دس سبب ہیں۔
پہلا سبب استعاذ باللہ:
۱۔ یہ کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کے شر سے پناہ مانگی جائے۔ قال اللہ تعالیٰ: وَاِمَّا يَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللهِ اِنَّهُ هُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ
ـ ’’اگر تم کو شیطان کوئی شر پہنچانا چاہے اور تم کو چھیڑ دے تو تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کے شر سے پناہ لو۔ بیشک وہی سننے والا جاننے والا ہے‘‘۔
اس سے پہلے کسی مقام پر تم کو بتایا جا چکا ہے کہ سننے سے مراد قبول کرنا ہے۔ علم بیان کے واقف جانتے ہیں اِنَّهُ هُوَ السَّمِيْعُ الْعَليْمُ نہایت ہی مؤکد جملہ ہے چونکہ اس سے پہلے اس بات کی تلقین کی گئی ہے کہ تم اپنے دشمن کے ساتھ ایسی نیکی کرو جس سے بہتر نہیں ہو سکتی اور چونکہ اس پر عمل کرنا نفس پر نہایت شاق گزرتا ہے کیونکہ شیطان اس کے سامنے یہ بات لاتا ہے کہ ایسا کرنا ذلت کی دلیل ہے اور اس سے تمہارے دشمن کو ایذا دہی کی مزید جرأت نہ ہو گی اس لئے سب سے بہتر توی ہی ہے کہ اس سے اپنا پورا بدلہ لے لو یا زیادہ سے زیادہ اس کی تعدی سے در گزر کر لو لیکن اس کے ساتھ نیکی کر کے دشمن کے سامنے اپنے آپ کو عاجز ثابت کرنا اور ذلیل بنانا کچھ شک نہیں کہ موت کے برابر بلکہ اس سے بدتر ہے۔
الغرض نفس پر یہ نہایت سخت گزرتی ہے اس لئے تقاضائے مقام کی وجہ سے اِنَّهُ هُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ کے جملہ کو نہایت مؤکد شکل میں استعمال کیا گیا، سورئہ اعراف میں ہے: وَاِمَّا يَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطَانِ نَزَغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللهِ اِنَّهُ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ
ـ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سے پہلے نبی ﷺ کو اس بات کا حکم دیا گیا ہے کہ وہ جاہلوں سے درگزر کریں اور چونکہ اس پر عمل کرنا پہلے کی طرح شاق نہیں اس لئے اس جملہ کی تاکید ضروری نہیں سمجھی گئی۔
الغرض شیطان کے شر سے بچنے کا پہلا سبب استعاذہ باللہ ہے جس کی بابت ان آیتوں میں ارشاد ہے نیز صحیح بخاری میں سلیمان بن صرد رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث ہے کہ میں نبی ﷺ کے حضور میں تھا کہ اتنے میں دو شخصوں نے ایک دوسرے کو گالیاں دیں اور ایک کا چہرہ سرخ ہو کر گردن کی رگیں پھول گئیں۔ نبی ﷺ نے فرمایا کہ میں ایک کلمہ جانتا ہوں اگر وہ کلمہ کہہ دے تو یہ حالت اس کی زائل ہو جائے گی۔ وہ کلمہ یہ ہے : اَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْمِ
ـ
دوسرا سبب، استعاذہ بالمعوذتین :
۲۔ یہ کہ ان دونوں سورتوں (سورئہ فلق اور سورئہ ناس) کے پڑھنے پر مداومت کرے، شیطان کے شر سے محفوظ رہنے میں ان سورتوں کے ذریعہ سے استعاذہ کرنا حیرت انگیز طور پر مؤثر ہوتا ہے اور اسی لئے نبی ﷺ نے ان کی بابت فرمایا ہے کہ استعاذہ میں کوئی ان کے برابر نہیں۔
نبی ﷺ کی عادت تھی کہ ہررات سوتے وقت ان سورتوں کو پڑھتے تھے۔ عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کو آپ نے حکم دیا تھا کہ ان کو ہر نماز کے پیچھے پڑھا کرے۔ نبی ﷺ سے یہ بھی منقول ہے کہ اگر ہر صبح و شام کا کوئی سورئہ اخلاص اور ان سورتوںکو پڑھا کرے تووہ ہر طرح کی آفت اور شر سے بچا رہے گا۔
تیسرا سبب آیۃالکرسی کا ورد :
۳۔ یہ کہ آیت الکرسی کو اپنا وردبنا لے، صحیح بخاری میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے مجھے سرسایہ کی حفاظت پر مامور فرمایا ۔ ایک رات ایک شخص نے آکراناج کے ڈھیرسے مٹھیاں بھرنا شروع کیا اور جب میں نے اس کو پکڑ کر نبی ﷺ کی خدمت میں لے جانا چاہا تو اس نے منت سماجت شروع کی اور وعدہ کیاکہ پھر نہیں آؤںگا اس پر میںںے اس کو چھوڑ دیا دوسری اور تیسری رات ایسا ہی واقعہ پیش آیا اور تیسری رات اس نے مجھ سے کہا کہ اگر تم مجھے چھوڑ دو تو میں تمہیں ایک عمل سکھا دوں گا، چونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نیکی کرنے اور ثواب حاصل کرنے پر سخت حریص تھے، سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اس شرط پر اس کو چھوڑ دیا اور اس نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ کہا کہ جب تم سونے لگو توآیت الکرسی پڑھ لو رات بھر اللہ تعالیٰ شیطان کی طرف سے نگہبان ہو گا اور صبح تک کوئی شیطان تمہارے نزدیک نہیں آئے گا جب انہوں نے نبی ﷺ کی خدمت میں یہ قول نقل کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ’’اس نے سچ کہا اگرچہ وہ جھوٹا ہے‘‘ اور اگر اللہ نے چاہا تو ہم ایک مستقل مضون میں یہ راز بیان کریں گے کہ آیت الکرسی میں کیوں خصوصیت سے تاثیرِ عظیم رکھی گئی ہے اور اس کے دوسرے اسرار بھی بیان کریں گے۔
چوتھا سبب: سورئہ بقرہ کا ورد:
۴۔ سورۃ البقرہ کا پڑھنا صحیح بخاری میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ فرماتے ہیں اپنے گھروں کو قبرستان مت بناؤ اور بیشک جس گھر میں سورئہ بقرہ پڑھی جائے اس میں کوئی شیطان داخل نہیں ہو سکتا۔
پانچواں سبب: سورئہ بقرہ کے خاتمہ کی آیات:
۵۔ سورئہ بقرہ کے خاتمہ کی آیتیں اَمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَا اُنْزِلَ اِلَيْهِ مِنْ رَّبِِّ الخ پڑھنا۔ صحیح بخاری میں ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے نبی ﷺ کی ایک حدیث ہے کہ ’’جوشخص کسی رات میں سورئہ بقرہ کے خاتمہ کی دو آیتیں پڑھ لے تو وہ اس کے لئے کافی ہیں‘‘۔ ترمذی میں نعمان بن بشر رضی اللہ عنہ کی روایت سے ایک حدیث ہے کہ نبی ﷺ فرماتے ہیں کہ بیشک اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق پیدا کرنے سے دو ہزار سال پیشتر ایک کتاب لکھی ہے جس میں سورۃ البقرہ کے خاتمہ کی دو آیتیں نازل ہوئی ہیں اگر ان کو کسی گھرمیں تین رات تک متواتر پڑھا جائے تو شیطان اس گھر کے قریب نہیں آئے گا۔
چھٹا سبب: سورئہ حٰم المؤمن کی ابتدائی آیات:
۶۔ سورئہ حٰم المؤمن کی ابتدائی آیتیں اِلَيْهِ الْمَصِيْرُ تک آیۃ الکرسی کے ساتھ ملا کر پڑھنا۔ ترمذی میں بروایت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی ﷺ کی ایک حدیث ہے کہ جو کوئی ان آیتوں کو صبح کے وقت پڑھے گا وہ شام تک (شیطان کے شرسے) محفوظ رہے گا‘‘۔ اس حدیث کے راویوں کے حفظ کے متعلق علماء نے بحث کی ہے لیکن اس کی تائید کے لئے آیۃ الکرسی کی فضیلت میں دوسری روایتیں موجود ہیں۔
ساتواں باب: مسنون وظیفہ:
لا اِلَهَ اِلاَّ اللهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيْكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْئٍ قَدِيْرٌ
ـ سو مرتبہ پڑھنا۔ صحیح بخاری و مسلم میں بروایت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ۔ نبی ﷺ سے مروی ہے کہ جو شخص ان کلمات کو دن میں سو مرتبہ کہے گا اس کو دس غلاموں کے آزاد کرنے کا ثواب ملے گا اس کے لئے سو نیکیاں لکھی جائیں گی اور سو برائیاں اس کے نامۂ اعمال سے مٹا دی جائیں گی اور دن بھر وہ شیطان کے شر سے امن میںرہے گا اور کسی شخص کو اس کے برابر ثواب نہیں ملے گا ہاں یہ اور بات ہے کہ کوئی اس سے بھی زائد مرتبہ پڑھ لے۔ یہ ایک عظیم النفع اور جلیل القدر ذکر ہے اور جس کی اللہ تعالیٰ مدد فرمائے اس کے لئے اس کی پابندی کرنا چنداں دشوار نہیں۔
آٹھواں سبب: ذکرِ الٰہی:
۸۔ کثرت سے اللہ تعالیٰ کی یاد میں مصروف رہنا شیطان کا شر نفع کرنے کے لئے مفید ترین حرز جان ہے۔ ترمذی میں بروایت حارث اشعری نبی ﷺ کی ایک حدیث منقول ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ نے یحییٰ بن زکریا علیہما السلام کو پانچ باتوں کے بجا لانے کا حکم دیا اور یہ کہ بنی اسرائیل کو بھی ان کے بجا لانے کا حکم دیا۔ یحییٰ علیہ السلام نے اس حکم کی تعمیل اور تبلیغ میں کسی قدر تساہل کیا تو یحییٰ علیہ السلام کو حکم ہوا کہ اس کو یاددہانی کرے ا ور کہہ دے کہ یا تو وہ فوراً اس حکم کی تبلیغ کرے اور پھر بھی سہل انگاری کرے تو عیسیٰ علیہ السلام اس کی تبلیغ کر دے۔ یحییٰ علیہ السلام نے اس کے جواب میں کہاکہ میں اس کی تبلیغ کروں گا کیونکہ اگر تم نے مجھ سے پیش دستی کی تو مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں اللہ تعالیٰ ناراض ہو کر مجھے زمین میں نہ دھنسا دے یا کسی اور عذاب میں مبتلا نہ کر دے۔ چنانچہ اس نے بیت المقدس میں لوگوں کو جمع کیا یہاں تک کہ وہاں تل دھرنے کی جگہ نہ رہی اور گیلریاں تک بھر گئیں۔ یحییٰ علیہ السلام نے ا ن کو اسی طرح مخاطب کیا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے پانچ باتوں کے بجالانے کا حکم دیا ہے اور یہ کہ میں تم سب کو ان کے بجا لانے کا حکم دوں۔
سیدنا یحییٰ علیہ السلام کو یادگار نصیحت:
۱۔ سب سے پہلے یہ کہ تم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کی عبادت میں کسی کو بۃی شریک نہ بناؤ ۔ مشرک کی مثال یہ ہے کہ ایک شخص نے خالص اپنے مال سے سونا چاندی دیکر ایک غلام خریدا اس کو رہنے کے لئے مکان دیا اور کام بھی اس کو بتا دیا او رساتھ ہی اس سے کہا کہ یہ کام کئے جاؤ اور اس سے جو کچھ حاصل ہو وہ مجھ کو ادا کرتے رہو۔ چنانچہ وہ غلام کماتا تھا اور اپنی کمائی ایک دوسرے اجنبی شخص کے حوالہ کرتا جاتا تھا کیا تم میں سے کوئی بھی اپنے غلام کے اس کام پر خوش ہو گا؟
نماز پڑھو:
۲۔ تم نماز پڑھو اور نماز پڑھتے وقت ادھر ادھر مت دیکھو کیونکہ جب تک آدمی کسی دوسری طرف ملتفت نہ ہو اللہ تعالیٰ اس کے منہ کے سامنے رہتا ہے۔
روزہ رکھو:
۳۔ روزہ رکھو۔ اس کی مثال ایک ایسے شخص کی ہے جس کے پاس مشک کی بھری ہوئی تھیلی ہو اور اس کے ارد گرد ایک جماعت اس کے دوستوں کی موجود ہو جن کے دماغ اس کی خوشبو سے معطر ہوئے جا رہے ہوں سب لوگ ایسے شخص کی ہم نشینی کوپسند کریں گے؟ اور بیشک روزہ دار کے منہ کی خوشبو اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشک سے بھی زیادہ خوشبودار ہے۔
صدقہ دو:
۴۔ صدقہ دو۔ اس کی مثال ایک ایسے آدمی کی ہے جس کو اس کے دشمنوں نے قید کر لیا ہو اور وہ اس کی مشکیں کس کر اس کو قتل کرنا چاہتے ہوں اور وہ کہہ دے کہ میں اپنا مال تمہیں فدیہ دینا چاہتا ہوں اس پر وہ فدیہ لے کر اس کے بند کھول دیں۔
اللہ کی یاد میں مشغول:
۵۔ اللہ کی یاد میں مشغول رہا کرو۔ اس کی مثال ایک ایسے شخص کی ہے جس کا اس کے دشمن نہایت تیزی کے ساتھ تعقب کر رہے ہیں۔ اتنے میں اس کو ایک نہایت مضبوط قلعہ نظر آجائے اور وہ اس میں داخل ہو کر پناہ گزیں ہوجائے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کا ذکر ایک ایسی چیز ہے جو تمہیں شیطان کے شر سے بچائے گی۔
رسول اکرم ﷺ کی نصیحت:
یہ بیان کر کے نبی ﷺ نے فرمایا اور میں بھی تمہیں پانچ باتوں کے بجالانے کا حکم دیتا ہوں جن کی بابت مجھے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے سننا اور ماننا جہاد اور ہجرت۔ اور مسلمانوں کی جماعت کو نہ چھوڑنا کیونکہ جو شخص مسلمانوں کی جماعت سے بالشت بھر بھی جدا ہو جائے وہ اسلام کے دائرہ سے باہر نکل جاتا ہے۔ جب تک وہ باز نہ آجائے۔ اور جو شخص اہلِ جاہلیت کی فخر و تعلی کرے وہ جہنم کا ایندھنہو گا‘‘۔ ایک شخص نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ﷺ! چاہے وہ نماز پڑھتا اور روزہ رکھتا ہو؟ نبی ﷺ نے فرمایا چاہے وہ نماز پڑھتا اور روزہ رکھتا ہو تم کو چاہئیے کہ اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ لقب سے پکارے جاؤ جس نے تم کو مسلمان او رمومن اور اپنے بندہ کے نام سے موسوم کیاہے‘‘۔ بقول ترمذی یہ حدیث صحیح اور حسن ہے اور بقول صحیح بخاری کے مصنف حارث اشعری کو نبی ، کی صحبت کا فخر حاصل ہے۔
الغرض اس حدیث میں نبی ﷺ نے خبر دی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ذکر ہی ایک ایسی چیز ہے جو شیطان کے شر سے انسان کو بچا سکتا ہے۔ سورئہ ناس میں بعینہ اسی بات کی طرف اشارہ ہے کیونکہ اس میں شیطان کو خناس کے لفظ سے موصوف کیا گیا ہے جس کے معنی ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ جب ا نسان اللہ کو یادکرتا ہے اور اس کے ذکر میں مشغول ہوتا ہے تووہ پیچھے کی طرف ہٹ جاتا ہے بلکہ چھپ جاتا ہے لیکن جب وہ اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل ہو جاتا ہے تو وہپھر دل کے قریب پہنچ کر وسوسہ ڈالنا شروع کر دیتا ہے اور تم پڑھ چکے ہو کہ شیطان کاوسوسہ ہی تمام نافرمانیوں اور گناہوں کی جڑ ہے۔ بہرحال شیطان کے شر سے بچنے کے لئے اس سے بہتر نسخہ نہیں کہ انسان اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی یاد میں مشغول رکھے۔
نواں سبب: غصہ کو ضبط کرنا:
۹۔ شیطان کے شر سے بچنے کا ایک بڑا ذریعہ وضوا ورنماز ہے۔ خصوصًا جب قوتِ غضبیہ یا شہوت کا شدت سے ظہور ہو غضب بمنزلہ آگ کے ایک شعلہ کے ہے جوانسان کے دل میں بھڑک اٹھتا ہے۔
ترمذی میںبروایت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نبی ﷺ سے مروی ہے کہ بیشک غصہ انسان کے دل میں آگ کا ایک شعلہ ہے کیا تم نے دیکھا نہیں کہ غصہ کی حالت میں اس کی آنکھیں سرخ ہو جاتی ہیں اور اس کی گردن کی رگیں پھول جاتی ہیں؟ اس لئے جو کوئی غصہ کی حالت کو محسوس کرے اس کو زمین کے ساتھ چمٹ جانا چاہئیے‘‘ ایک دوسری حدیث میںہے کہ شیطان کی پیدائش آگ سے ہے اور بیشک آگ کو پانی سے بجھایاجاتا ہے‘‘۔ وضو پانی کے استعمال کا بہترین طریقہ ہے اور وہ غصہ کے جوش کو ٹھنڈا کر دیتا ہے۔
اس کے بعد اگر آدمی خشوع و خضوع اور حضورِ قلب کے ساتھ نماز پڑھ لے تو اسکا اثر بالکل زائل ہو جاتا ہے اور بجائے اس کے کہ اس کی تائید میں کوئی دلیل ڈھونڈی جائے اس کا تجربہ کرنا بہتر ہوگا۔
دسواں سبب:
۱۰۔ بے ضرورت اور فضول دیکھنے، بے ضرورت بات کرنے، ضرورت سے زائد کھانے اور لوگوں کے ساتھ زائد میل جول رکھنے سے بچنا۔ کیونکہ انہی چار باتوں میں بے احتیاطی کرنے کا نتیجہ شیطان کا تسلط ہوتا ہے اور شیطان اپنے اغراض میں انہی کے ذریعہ سے کامیاب ہوتاہے اگر کوئی شخص اپنی نظر کوآزادانہ استعمال کرے تو بہت ممکن ہے کہ کوئی قبول صورت عورت یا لونڈا اس کے دل میں گھر کر لے اور رفتہ رفتہ اس کے قوائے فکریہ اورتوجہ کا مرکز بن جائے اور دین دنیا کے کام سے اس کو بے کار کر دے۔ خَسِرُ الدُّنْيَا وَالاَخِرَةِ ذَالِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِيْنُ
ـ
نظر کو بے لگا چھوڑنے سے بڑے بڑے فتنے پیدا ہوئے ہیں اور نبی ﷺ کا یہ قول تجربہ سے نہایت درست معلوم ہونے لگتا ہے کہ نظر شیطان کا ایک زہر آلود تیر ہے اس لئے جو شخص اپنی آنکھوں کو جھکائے رکھے گا اللہ تعالیٰ اس کے دل میں ایک ایسی علامت پیدا کر دے گا جس سے وہ قیامت تک محروم نہیں ہو گا‘‘۔ ایک شاعر نے نہایت خوب کہا ہے کہ:
كل الحوادث مبدأ من النظر
ومعظم النار من مستفر الشرر
كم نظرة فتكت في قلب صاحبها
فتك التهام بلا قوس ولا وتر
ترجمہ: ’’تمام فتنوں کی ابتداء نظر سے ہوتی ہے (اس سے مراد عشق اور وصل و ہجر کے مناظر ہیں) اور چھوٹی چھوٹی چنگاریوں سے عظیم الشان آگ بھڑک ا ٹھتی ہے (بجا طور پر نظر کو چنگاری سے اور ما بعد کے مراحل عشق اور اس کے لوازم و عواقت کو بھڑکتی ہوئی آگ سے تشبیہ دی ہے)۔ بہت مرتبہ نظر دل کی ہلاکت کا باعث ہوتی ہے لیکن اس کامہلک تیر کمان اور چلہ کا محتاج نہیں‘‘۔
در دن سینہ ٔ من زخم بے نشاں زدہ بحیر تم کہ عجب تیرِ بے کماں زدہ
الغرض فضول اور بے ضرورت نظر بلا د اشوب کی جڑ اور بعض صورتوں میں دین و دنیا کی تباہی کا موجب ہوتی ہے۔
اسی طرح کثرتِ کلام اور بے ضرورت بکواس شر کے لئے متعدد دروازے کھول دیتا ہے جس میں سے شیطان کو داخل ہونے کاموقعملتا ہے لیکن کم گوئی اس کے تمام مداخل کو بند کر دیتی ہے۔ تم نے دیکھا ہو گا کہ ایک ہی کلمہ کے لئے بے احتیاطی کے ساتھ منہ سے نکل جانے پر خونریز لڑائیوں تک نوبت پہنچی ہے۔
نبی ﷺ نے سیدنا معاذ بن جبل کو زبان کے روکے رکھنے کی ہدایت فرما کر یہ ارشاد فرمایا تھا کہ لوگوں کومنہ کے بل دوزخ میں گرانے کا باعث ان کی اپنی زبان کی کاٹی ہوئی فصل ہے۔
ایک صحیح حدیث میںہے کہ بعض اوقات انسان بے ساختہ اپنے منہ سے کوئی کلمہ نکال دیتا ہے اس کے انجام کی وہ چنداں پروا نہیں کرتا اور اس کے سبب سے وہ ستر سال تک جہنم میں غوطے کھاتا رہتا ہے۔
ترمذی میں ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے ایک شخص کا انتقال ہوا تو ایک صحابی نے اس کو جنتی کہاجس پر نبی ﷺ نے فرمایا ’’تمہیں کیا علم ہے شاید اس نے کبھی فضول گوئی کی ہو یا کسی ایسی چیز کے دینے میں بخل کیا ہو جس کے دینے میں اس کا کچھ نقصان نہیں ہوتا تھا‘‘۔ اور اس میں شک نہیں کہ اکثر گناہوں کی ابتداء فضول نظر اور فضول کلام سے ہوتی ہے ا ور انسان پر شیطان کا تسلط حاصل کرنے کا ایک بڑا ذریعہ یہی ہے کیونکہ آنکھ اور زبان دو ایسی چیزیں ہیں جو تقریباً ہر وقت اپنے کام میں لگی رہتی ہیں اور ان کی خواہش کا پیمانہ کبھی لبریز نہیں ہوتا۔ برخلاف اس کے پیٹ بھر جائے تو پھر اس کو تسکین ہوجاتی ہے اور علیٰ ہٰذا القیاس دوسرے قوائے اور اعضاء اس لئے آنکھ اور زبان کے استعمال میں بہت خطرہ ہے اور سلف صالحین نے ان دونوں کے حد ضرورت سے تجاوز کر جانے کو سخت خطرناک بتایا ہے۔ ان کا قول ہے کہ زبان کو عمومًا حبس میں رکھنا ضرور ہے۔ دوسرے اعضاء اس قدر سرکش نہیں ضرورت سے زائد کھانا بھی بہت سے شرور کا باعث ہے کیونکہ سیر شکمی سے اعضاء اور جوارح میںگناہ کی طرف میلان پیدا ہوتا ہے ا ور انسان عبادت کے کرنے میں سست ہو جاتا ہے بسا اوقات اسی کی وجہ سے انسان بڑے بڑے ثوابوں سے محروم رہتا ہے۔
پیٹ بھر کے کھانا:
لہٰذا جو شخص پیٹ کے شر سے بچا رہے سمجھ لے کہ وہ ایک بڑے شر سے محفو رہا۔ شکم سیری کی حالت میں شیطان کو نسبتاً زیادہ غلبہ ہو سکتا ہے۔ اور اس لئے بعض حدیثوں میں ہے کہ شیطان کے نفوذ کو روزہ کے ذریعہ کم کرو‘‘۔ اور آدمی نے کوئی ایسا برتن نیہں بھرا ہے جس کا بھرنا پیٹ کے بھرنے سے زیادہ بُرا ہو‘‘ پیٹ بھرنے کی یہی ایک خرابی کافی ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل ہو جاتا ہے ا ور تم جانتے ہو کہ انسان ایک گھڑی بھی اللہ کی یاد سے غافل ہو تو شیطان اس کے دل کو جونک کی طرح چمٹ جاتا ہے اور انواع و اقسام کے وسوسے ڈال کر اس کا ستیاناس کر دیتا ہے کیونکہ شکم سیری کی حالت میں انسان کی نفسانی خواہشوں کو تحریک ہوتی ہے اور شیطان اس پر جلدی قابو حاصل کر سکتا ہے لیکن پیٹ بھرا ہوا نہ ہو تو اس کی خواہشات میں چنداں اضطراب پیدا نہیں ہوتا اور اس لئے شیطان کو اس کے بہ
ـکانے کا بہت کم موقع ملتا ہے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
فصل دہم
مخالطت
معانی:
لوگوں کے ساتھ ضرورت سے زیادہ میل جول رکھنا، یہ ایک لا علاج بیماری ہے جس کی بدولت کتنی نعمتیں سلب ہوئیں، کتنی دشمنیاں پیدا ہوئیں کتنے کینے دلوں میں جاگزیں ہوئے۔ الغرض مخالطت میں دین و دنیا کا نقصان ہے، انسان کو چاہئیے کہ کسی کے ساتھ ضرورت سے زائد میل جول نہ رکھے۔ (۱)
لوگوں کی قسمیں:
مخالطت کے لحاظ سے لوگوں کو چار قسموں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے جن میں اگر اس نے تمیز کرنا چھوڑ دیا تو یقینا وہ شر میں مبتلا ہو گا۔
پہلی قسم بمنزلہ غذا :
لوگوں کی ایک قسم تو وہ ہے جن کے ساتھ میل جول رکھنا بمنزلہ غذا کے ہے اور اس لئے انکے ساتھ میل جول رکھنا نہایت
۱۔ جس کو آئندہ ہم اختصار کے لئے مخالطت سے تعبیر کریں گے۔
ضروری ہے یہ وہ لوگ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے کلامِ پاک اورسنتِ رسول ﷺ کا عالم بتایا ہے اور جو اس کے دشمنِ شیطان کی فریب کاریوں سے واقف ہیں اور امراضِ قلوب کے ماہر، ایسے لوگوں کے ساتھ میل ملاپ رکھنے میں سراسر نفع ہے لیکن ان کا وجود کبریتِ احمر سے بھی زیادہ کمیاب ہے۔
دوسری قسم بمنزلہ ادویہ:
دوسری قسم وہ ہے جس کی مثال ادویہ کی ہے جب تک تندرست ہو تم کو اس کی مطلق ضرورت نہیں البتہ مرض کی حالت میں بقدر ضرورت اس کا استعمال ضروری ہوتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے ساتھ تمہارے دنیوی اغراض وابستہ ہیں کیونکہ انسان کومدنی الطبع پیداکیا گیا ہے ا ور اس لئے وہ اپنی ضروریات پورا کرنے کے لئے دوسروںکے ساتھ تعلقات رکھنے پرمجبور ہے۔ اس قسم کے آدمی کے ساتھ میل جول رکھنے پر اس زریںاصول پر عمل پیرا ہونا چاہئیے کہ الضروري يتقدر بقدر الضرورة جوبات کسی خاص ضرورت کی وجہ سے اختیار کی جائے وہ ضرورت کی حدود تک محدود رہتی ہے۔
تیسری قسم بمنزلہ مرض:
تیسری قسم وہ ہے جن کے ساتھ میل جول رکھنا بمنزلہ مرض کے ہے اور جس طرح بیماریوں کی مختلف قسمیں ہیں بعض ان میں سے مہلک اور بعض صحت کو برباد کرنے والی ہوتی ہیں، اسی طرح ان لوگوں کی مضر صحبت کا مختلف اثر ہوتا ہے بعض کی مثال لاعلاج بیماری اور مرض مزمن کی ہے جس کا انجام ہلاکت ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی صحبت میں تم کوئی دینی یا دنیاوی فائدہ حاصل نہیں کر سکتے بلکہ الٹا ان کی صحبت دین و دنیا کا نقصان ہے ان کی مخالطت مرض الموت کاحکم رکھتی ہے بعض کی مثال داڑھ کے درد کی ہے کہ جب تک داڑھ نکال نہ ڈالو آرام نہیں ملے گا بعض ان میں سے روح کے لئے تپ کا حکم رکھتے ہیں۔ یہ وہ گراں جان اشخاص ہیں جن کو نہ تو بات کرنے کا سلیقہ ہے کہ جس کو سُن کر تم کسی قسم کا فائدہ ہو اور نہ وہ خاموش رہ کر تمہارا کلام سننے کی تکلیف گوارا کرتے ہیں تاکہ ان کو تم سے فائدہ ہو، ان کو اپنی حیثیت کی بھی پہچان نہیں۔ اس لئے کہ وہ خود پسند واقع ہوئے ہیں۔ جب وہ بات کرتے ہیں تو ان کے منہ سے پھول جھڑتے (۱) ہیں اور جب وہ چپ رہتے ہیں تو ان کا وجود ایسا معلوم ہوتا ہے گویا تمہارے سینہ پر چکی کا پاٹ (۲) رکھا ہے ایک دن میں نے اپنے شیخ (علامہ ابن تیمیہؒ) کے پاس اس قسم کا ایک آدمی بیٹھا ہوا دیکھا تو آپ ﷺ نے فرمایا ’’چوتھیا تپ‘‘ ہے۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہماری طبعیتیں اس ناگوار بوجھ کو برداشت کرتے کرتے اب اس کو ہلکا سمجھنے لگی ہیں اور دنیا کے دیگر مصائب و آلام میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس قسم کے شخص یا اشخاص کے ساتھ آدمی کو واسطہ پڑے ا ور لزومًا ان کے ساتھ میل جول رکھنا پڑے۔ ایسی حالت میں انسان کو چاہئیے کہ ان
۱۔ اصل کتاب میں تو کچھ اور لکھا ہے۔ فافہم (مترجم)۔
۲۔ بیشک ع روح را صحبت تا جنس عذا بے است الیم ۔ (مترجم)
کے ساتھ بہت اچھی طرح سے پیش آئے اور اپنی خوش اخلاقی کو نہ چھوڑے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کو اس بلا سے مخلصی عنایت فرمائے۔ وَهُوَ عَلَى مَا يَشَآئُ قَدِيْرٌ
ـ
چوتھی قسم بمنزلہ ہلاکت:
چوتھی قسم وہ ہے جس کی مخالطت کا نتیجہ قطعی ہلاکت ہو اور ان کی مثال زہر کی ہے ا س لئے اگر کسی کی خوش نصیبی سے اس کو تریاق مل جائے تو زہے سعادت؟ ورنہ معاملہ سخت ہے۔ اس سے میرا مقصد اہلِ بدعت و ضلالت ہیں جو لوگوں کو نبی ﷺ کی سنتِ کریمہ کے اتباع سے روکتے ہیں۔ بدعت او رخلافِ سنت کی طرف لوگوں کو بلاتے ہیں۔ سنت ان کی نظر میں بدعت ہے اور بدعت سنت، معروف کو منکر اور منکر کو معروف سمجھتے ہیں۔ اگر تم اللہ تعالیٰ کی خالص توحید بیان کرو تو وہ کہتے ہیں کہ تم نے اولیاء اللہ کی شان گھٹا دی اور تم خالص سنت کا اتباع کرو تو کہتے ہیں کہ تم امامانِ دین کے دشمن ہو۔ اگر تم لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے کلام اور نبی کریم ﷺ کی حدیث کی طرف بلاؤ تو وہ تم کو مفتن خیال کریں گے اور اگر تم ان سے تمام تعلقات کو منقطع کر کے ان کو دنیائے مردار پر گرتا ہوا چھوڑ دو تو تم کو اہلِ تلبیس ہونے کی تہمت دیں گے لیکن یاد رکھو کہ اگر تم نے ان کو راضی رکھنے کاخیال کر کے انکی نفسانی خواہشوں اور بدعت آرائیوںکی پیروی اختیا ر کی توتم آخرت میں خاسرین کے زمرہ میں داخل ہوں گے اوربایں ہمہ وہ بھی ہرگز تم سے راضی نہیں ہوں گے بلکہ تمہیں منافق کہیں گے۔ اس لئے میں تمہیں نہایت مؤکد نصیحت کرتاہوں کہ تم ان کے ناخوش ہونے کی کچھ بھی پروا نہ کرو بلکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی خوشنودی حاصل کرنے میں کوشاں رہو واللهُ ورَسُوْلُهُ اَحَقُّ اَنْ يُّرْضَوْهُ اِنْ كَانُوْا مُؤْمِنِيْنَ
ـ اگر وہ درحقیقت مومن ہیںتو اللہ اور اس کے رسول کی خوشنودی حاصل کرنا سب سے مقدم ہے تم کو ان کی مدح و ذم پر مطل التفات نہیں کرنا چاہئیے اور اپنی دھن میںلگا رہنا چاہئیے۔ ایک شاعر نے کیا ہی اچھا کہا ہے۔
وقد زادني حبا لنفسي انني
بغيض الى كل امرء غر طائل
واذا اتَك مذمتي من ناقص
فهي الشهادة لى بانىفاضل
والحمدلله تعالى اوّلا واخرا وظاهرا وباطنا
ـ
(ترجمہ) مجھے اپنی قدر اس سے معلوم ہوئی کہ فضول اور بیہودہ لوگ مجھ کو اپنا دشمن خیال کرتے ہیں۔
اور جب ایک ناقص شخص نے تیرے پاس میری مذمت کی تو سمجھ لے کہ یہی میرے فاصل ہونے کی شہادت ہے۔
وفقنا اللہ تعالیٰ مرضاتہ آمین۔
 

ام حماد

رکن
شمولیت
ستمبر 09، 2014
پیغامات
96
ری ایکشن اسکور
66
پوائنٹ
42
کچھ موضوعات میں تکرار محسوس ہو رہی ہے
 
Top