اشماریہ
سینئر رکن
- شمولیت
- دسمبر 15، 2013
- پیغامات
- 2,682
- ری ایکشن اسکور
- 752
- پوائنٹ
- 290
ویسے عامر بھائی ایک عجیب سی بات ہے۔
برصغیر پاک وھند میں روزے کی نیت اس طرح کی جاتی ہے :
اے اللہ میں تیرے لیے یقینی روزے کی نیت کرتا ہوں میرے اگلے پچھلے گناہ معاف فرمادے ۔
اوریہ بھی کہا جاتا ہے : وبصوم غد نویت شھررمضان ۔ میں رمضان کے کل کے روزے کی نیت کرتا ہوں ۔
مجھے اس کے معنی ومراد کا علم نہیں ، لیکن کیا یہ نیت کرنی صحیح ہے ، اوراگر ایسا کرنا صحیح ہے توآپ سے گزارش ہے کہ اس کے معنی کی وضاحت کریں یا پھر قرآن وسنت میں سے صحیح نیت بتائيں ؟
الحمد للہ :
کوئی بھی عبادت چاہے وہ روزہ ہویا پھر نماز نیت کےبغیرصحیح نہیں کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے ، اورہر شخص کے لیے وہی ہے جووہ نیت کرتا ہے ۔۔۔ ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1907 ) ۔
فرضی روزے کے لیے شرط ہے کہ اس کی نیت رات کو طلوع فجر سے قبل کرلی جائے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( جوشخص طلوع فجر سے قبل روزے کا ارادہ نہ کرے اس کا روزہ نہیں ) سنن ترمذی حدیث نمبر ( 730 )
نسائی کے الفاظ یہ ہيں :
( جوروزے کی نیت رات کو نہیں کرتا اس کا روزہ نہیں ہے )
سنن نسائي حدیث نمبر ( 2334 ) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح الجامع ( 583 ) میں اسے صحیح قرار دیا ہے ۔
حدیث کا معنی یہ ہےکہ جورات کو روزہ رکھنے کاارادہ اورنیت نہ کرے اس کا روزہ نہیں ہے ۔
اورنیت کا تعلق دل ہے جوکہ ایک قلبی عمل ہے اس کا زبان سے کوئي تعلق نہیں اس لیے مسلمان کو دل سے ارادہ کرنا چاہیے کہ وہ کل روزہ رکھےگا ، اس کے لیے مشروع نہیں کہ وہ زبان سے یہ کہتا رہے میں روزے کی نیت کرتا ہوں یا میں حقیقتا تیرے لیے روزہ رکھ رہا ہوں ، یااس طرح کے دوسرے الفاظ جوآج کل لوگوں نےایجاد کررکھے ہیں وہ سب بدعت میں شمار ہوتے ہیں ۔
صحیح نیت یہی ہے کہ انسان دل سے ارادہ کرے کہ وہ صبح روزہ رکھے گا ، اسی لیے شیخ جب شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی سے سوال کیا گيا تو ان کا جواب تھا :
جس کے دل میں یہ بات آگئي کہ وہ صبح روزہ رکھے گا اس کی نیت ہوگئي ا ھـ ۔
دیکھیں الاختیارات صفحہ نمبر ( 191 ) ۔
لجنہ دائمۃ ( مستقل فتوی کمیٹی ) سے مندرجہ ذیل سوال کیا گيا ؟
انسان کورمضان میں روزے کی نیت کس طرح کرنی چاہیے ؟
تولجنۃ کا جواب تھا :
روزہ رکھنے کے عزم سے نیت ہوجائے گی ، اوررمضان میں ہررات کوروزے کی نیت کرنا ضروری ہے ۔ اھـ
دیکھیں فتاوی اللجنۃ الدائمۃ ( 10 / 246 ) ۔
واللہ اعلم .
http://islamqa.info/ur/37643
اس سائٹ کے اردو فتوی میں یہ لکھا ہے:۔
"اورنیت کا تعلق دل ہے جوکہ ایک قلبی عمل ہے اس کا زبان سے کوئي تعلق نہیں اس لیے مسلمان کو دل سے ارادہ کرنا چاہیے کہ وہ کل روزہ رکھےگا ، اس کے لیے مشروع نہیں کہ وہ زبان سے یہ کہتا رہے میں روزے کی نیت کرتا ہوں یا میں حقیقتا تیرے لیے روزہ رکھ رہا ہوں ، یااس طرح کے دوسرے الفاظ جوآج کل لوگوں نےایجاد کررکھے ہیں وہ سب بدعت میں شمار ہوتے ہیں ۔"
اور عربی فتوی میں اس ہائیلائٹڈ جملہ کا ذکر نہیں ہے۔
"والنية عمل قلبي ، فيعزم المسلم بقلبه أنه صائم غداً ، ولا يشرع له أن يتلفظ بها ويقول : نويت الصيام أو أصوم جاداً لك . . . الخ ، أو نحو ذلك من الألفاظ التي ابتدعها بعض الناس."
اور انگلش فتوی میں بھی اس بات کو ذکر نہیں کیا گیا:۔
"The intention (niyyah) is an action of the heart. The Muslim should resolve in his heart that he is going to fast tomorrow. It is not prescribed for him to utter it out loud and say, “I intend to fast” or “I will fast tomorrow” or other phrases that have been innovated by some people. The correct intention is when a person resolves in his heart that he is going to fast tomorrow. "
یہ تین زبانیں تو مجھے کچھ نہ کچھ آتی ہیں۔ باقیوں کا علم نہیں۔
نہ جانے کیا معاملہ ہے؟