• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

★ روزہ رکھنےکی اصل نیت کیاہے؟ حقیقت ضرور دیکھیۓاور فیصلہ خودکریں

فہد ظفر

رکن
شمولیت
اکتوبر 15، 2011
پیغامات
193
ری ایکشن اسکور
243
پوائنٹ
95
جی بھائی میں نے اسی حنفی صاحب کے بارے میں ہی کہا ہے کہ انہوں نے اقرار کیا وہ صاف صاف کہہ رہے ہیں کہ میں نے کبھی زبان سے نیت نہیں کی -
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
آپ پتہ نہیں کون سی دنیا میں تشریف فرما ہیں۔
عوام الناس اس نیت کو عبادت کا ضروری حصہ ہی سمجھتی ہے۔بلکہ ایسے بے وقوف بھی بہت ہیں کہ تکبیر تحریمہ چھوٹ جاتی ہے، بلکہ جماعت رکوع میں چلی جاتی ہے اور وہ ابھی کھڑے ہو کر نیت ہی کررہے ہوتے ہیں۔
لہٰذا زبان سے نیت کرنا بدعت ہی ہے جیسا کہ طحاوی اور عبدالحی لکھنوی کا بھی یہی قول ہے۔
میرے بھائی یہی میں نے بھی عرض کیا ہے کہ اگر ایسا سمجھا جائے تو یہ بدعت ہے۔
ہر کوئی اپنے سامنے موجود احوال کو دیکھ کر فیصلہ کرتا ہے۔ میں کراچی میں رہتا ہوں اور میرے ارد گرد جو لوگ ہیں وہ یہ نہیں سمجھتے نہ کرتے ہیں۔ امام رکوع میں ہو تو جلدی سے تحریمہ کہہ کر شریک ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح روزے کی نیت کے یہ الفاظ تو اکثر کو آتے ہی نہیں ہیں۔ اس لیے میرے سامنے تو یہی ہیں۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
اللہ کے بندے، اتنی عصبیت بھی اچھی نہیں ہوتی۔ چند گھنٹوں بعد کے لئے کون آنے والا کل کے الفاظ استعمال کرتا ہے؟
جبکہ وہ گزشتہ روز آئندہ کل کے روزے کی تراویح پڑھ چکا ہے اور اب آج کے روزے کی سحری کھا چکا ہے۔ اور اب نیت کے وقت کل کا روزہ کے الفاظ کہے گا؟
تراویح اور روزوں کا تعلق دیکھ لیا جائے تو یہ بات طے ہے کہ اسلام میں رات ، دن سے پہلے آتی ہے۔ "کل" کو سور ج کے طلوع ہونے کے ساتھ نتھی کرنا نہ دینی اعتبار سے درست اور نہ دنیا وی اعتبار سے۔



زبان سے جو روزے کی نیت عربی الفاظ میں کی جاتی ہے، اسے روزے کا عین حصہ ہی سمجھا جاتا ہے۔ اور روزہ عبادت ہی کا نام ہے۔
اسے یوں سمجھئے کہ آپ دل میں جو روزے کی نیت کرتے ہیں، کیا اسے عبادت یا روزے کا حصہ نہیں سمجھتے؟
زبان سے نیت کرنے والے اسے بدرجہ اولیٰ عبادت سمجھتے ہیں ۔ کیونکہ ان الفاظ کو یاد کر کے اہتمام سے پڑھا جاتا ہے اور پانی پینے کے بعد باقاعدہ یہ الفاظ ادا کر کے "روزہ بند" کیا جاتا ہے۔
اور کمال کی بات تو یہ ہے کہ آپ زبان سے نیت کو ثابت نہیں سمجھتے۔ اور آپ ہی کے مفتیان اسے اولیٰ اور بہتر قرار دیتے ہیں، ملاحظہ فرمائیے:


http://darulifta-deoband.org/showuserview.do?function=answerView&all=ur&id=16043
کیا دل سے روزہ کی نیت کرنا ضروری ہے، صرف سحری کھانا نیت کے لیے کافی نہیں ہے؟

Sep 07,2009
Answer: 16043
فتوی: 1694=1386/1430/د


سحری کس نیت سے کھائیں گے ظاہر ہے کہ روزہ رکھنے کی نیت سے کھائیں گے تو اس قدر نیت ہوجانا کافی ہے، البتہ زبان سے کہہ لیں تو بہتر ہےال فی المراقي علی نور الإیضاح وحقیقة النیة مقصدہ عازمًا بقلبہ صوم غد ولا یخلو مسلم عن ھذا في لیالي شہر رمضان إلا ما ندر ولیس النطق باللسان شرطًا قال الطحطاوي وقالوا التسحر في رمضان نیةٌ (طحطاوی علی المراقي:۶۴۲)

واللہ تعالیٰ اعلم

دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
محترم بھائی آپ کی پہلی بات کا جواب یہ ہے کہ میں نے عربی لفظ "غد" کے بارے میں عرض کیا ہے کہ اس کا اطلاق طلوع صبح پر ہوتا ہے۔ اس سے پہلے کے وقت کو غد نہیں بلکہ "اللیلۃ" کہا جاتا ہے۔ اس لیے یہ لفظ استعمال کرنا عربیت کے لحاظ سے تو درست ہے۔

دوسری بات کے بارے میں عرض یہ ہے کہ اوپر فتاوی کبری کے مطابق علماء کرام کی دونوں رائے مذکور ہیں۔ وہ پڑھ لیجیے۔
باقی میں بہت سی جگہوں پر اختلاف کر جاتا ہوں۔
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
محترم بھائی آپ کی پہلی بات کا جواب یہ ہے کہ میں نے عربی لفظ "غد" کے بارے میں عرض کیا ہے کہ اس کا اطلاق طلوع صبح پر ہوتا ہے۔ اس سے پہلے کے وقت کو غد نہیں بلکہ "اللیلۃ" کہا جاتا ہے۔ اس لیے یہ لفظ استعمال کرنا عربیت کے لحاظ سے تو درست ہے۔

دوسری بات کے بارے میں عرض یہ ہے کہ اوپر فتاوی کبری کے مطابق علماء کرام کی دونوں رائے مذکور ہیں۔ وہ پڑھ لیجیے۔
باقی میں بہت سی جگہوں پر اختلاف کر جاتا ہوں۔
بحث برائے بحث کا فائدہ تو نہیں۔ پھر بھی آپ کی ناانصافی پر کچھ عرض کئے بغیر رہنا درست نہیں۔
"غد" کا سیدھا سادا مطلب ہے ۔ آئندہ کل۔
اللیلۃ کا سیدھا سادا مطلب ہے۔ رات

آپ فقط "غد" کو مفرد نہ سوچیں جس وقت یہ لفظ ادا کیا گیا ہے اس کے ساتھ نتھی کر کے توجیہ پیش کریں۔
سوچئے کہ آپ چاہے "غد" استعمال کریں۔ اردو میں آئندہ کل استعمال کر لیں ، یا انگریزی میں tomorrow کہہ لیں۔
سورج نکلنے سے ایک ڈیڑھ گھنٹہ قبل کوئی شخص "غد" یا "کل" یا "tomorrow" کہہ کر وہی دن مراد لے، ایسا لغت سے، عرف سے یا شریعت سے ثابت کیا جا سکتا ہے؟

دیکھئے آج مغرب میں تو اس کا "عرف" موجود ہے کہ رات بارہ بجے کے بعد تاریخ بدلتی ہے۔ لہٰذا گیارہ بجے کوئی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ میں کل سوؤں گا اور پھر ساڑھے بارہ بجے وہ سو جائے تو اس کی بات درست رہے گی۔ کیا اسی قسم کا کوئی عرف آج یا اُس زمانے کے عربوں میں "غد" یا طلوع شمس کے حوالے سے موجود تھا؟ حوالہ؟

اور پھر زیادہ نہیں ، بس اتنا فرما دیجئے کہ اگر سحری کے وقت "غد" کہہ کر طلوع آفتاب کے بعد کا "کل " کا روزہ مراد لینا درست ہے۔ تو سحری کے وقت "آج" کا روزہ کون سا کہلائے گا؟ وہ جو گزشتہ روز ختم ہو گیا، اور جس کے بعد آئندہ کے روزے کی تراویح بھی پڑھ لی گئی، بلکہ آئندہ روزے کی سحری بھی کھا لی گئی۔ اسے "آج کا روزہ" قرار دیں گے؟

معاف کیجئے گا اگر عقل کا جنازہ نہ نکل گیا ہو تو آپ کو خود بھی اپنی پیش کردہ تاویل کے سستے پن کا احساس ہو جائے گا۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
بحث برائے بحث کا فائدہ تو نہیں۔ پھر بھی آپ کی ناانصافی پر کچھ عرض کئے بغیر رہنا درست نہیں۔
"غد" کا سیدھا سادا مطلب ہے ۔ آئندہ کل۔
اللیلۃ کا سیدھا سادا مطلب ہے۔ رات

آپ فقط "غد" کو مفرد نہ سوچیں جس وقت یہ لفظ ادا کیا گیا ہے اس کے ساتھ نتھی کر کے توجیہ پیش کریں۔
سوچئے کہ آپ چاہے "غد" استعمال کریں۔ اردو میں آئندہ کل استعمال کر لیں ، یا انگریزی میں tomorrow کہہ لیں۔
سورج نکلنے سے ایک ڈیڑھ گھنٹہ قبل کوئی شخص "غد" یا "کل" یا "tomorrow" کہہ کر وہی دن مراد لے، ایسا لغت سے، عرف سے یا شریعت سے ثابت کیا جا سکتا ہے؟

دیکھئے آج مغرب میں تو اس کا "عرف" موجود ہے کہ رات بارہ بجے کے بعد تاریخ بدلتی ہے۔ لہٰذا گیارہ بجے کوئی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ میں کل سوؤں گا اور پھر ساڑھے بارہ بجے وہ سو جائے تو اس کی بات درست رہے گی۔ کیا اسی قسم کا کوئی عرف آج یا اُس زمانے کے عربوں میں "غد" یا طلوع شمس کے حوالے سے موجود تھا؟ حوالہ؟

اور پھر زیادہ نہیں ، بس اتنا فرما دیجئے کہ اگر سحری کے وقت "غد" کہہ کر طلوع آفتاب کے بعد کا "کل " کا روزہ مراد لینا درست ہے۔ تو سحری کے وقت "آج" کا روزہ کون سا کہلائے گا؟ وہ جو گزشتہ روز ختم ہو گیا، اور جس کے بعد آئندہ کے روزے کی تراویح بھی پڑھ لی گئی، بلکہ آئندہ روزے کی سحری بھی کھا لی گئی۔ اسے "آج کا روزہ" قرار دیں گے؟

معاف کیجئے گا اگر عقل کا جنازہ نہ نکل گیا ہو تو آپ کو خود بھی اپنی پیش کردہ تاویل کے سستے پن کا احساس ہو جائے گا۔
محترم بھائی۔ میں نے اوپر حوالہ بھی لکھا ہے۔ کیا آپ نے وہ دیکھا ہے؟

اگر آپ کو میری بات سے اتفاق نہیں ہے تو آپ اپنی بات کی تائید میں کوئی حوالہ دے دیجیے کہ غد کی ابتدا طلوع شمس سے نہیں بلکہ فلاں وقت سے ہوتی ہے۔ ورنہ بلا حوالہ تو اب ظاہر ہے کچھ نہیں ہو سکتا۔

اور اللیلۃ کے بارے میں آپ کی بات درست نہیں۔
آتیک اللیلۃ کا مطلب ہوتا ہے میں تمہارے پاس "آج" رات کو آؤں گا۔
 

ارم

رکن
شمولیت
جنوری 09، 2013
پیغامات
39
ری ایکشن اسکور
173
پوائنٹ
42
یہاں تو دو طرفہ بحث چھڑی ہوئی ہے کوئی کہہ رہا ہے یہ نیت ٹھیک ہے کوئی کہہ رہا ہے نہیں ٹھیک بدعت ہے
ایک ٹھیک اور آسان لفظوں میں اس بات کا خلاصہ کریں کیا یہ نیت کرنا ٹھیک ہے یا نہیں حوالے کے ساتھ بتائیں شکریہ
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
یہاں تو دو طرفہ بحث چھڑی ہوئی ہے کوئی کہہ رہا ہے یہ نیت ٹھیک ہے کوئی کہہ رہا ہے نہیں ٹھیک بدعت ہے
ایک ٹھیک اور آسان لفظوں میں اس بات کا خلاصہ کریں کیا یہ نیت کرنا ٹھیک ہے یا نہیں حوالے کے ساتھ بتائیں شکریہ

برصغیر پاک وھند میں روزے کی نیت اس طرح کی جاتی ہے :

اے اللہ میں تیرے لیے یقینی روزے کی نیت کرتا ہوں میرے اگلے پچھلے گناہ معاف فرمادے ۔

اوریہ بھی کہا جاتا ہے : وبصوم غد نویت شھررمضان ۔ میں رمضان کے کل کے روزے کی نیت کرتا ہوں ۔

مجھے اس کے معنی ومراد کا علم نہیں ، لیکن کیا یہ نیت کرنی صحیح ہے ، اوراگر ایسا کرنا صحیح ہے توآپ سے گزارش ہے کہ اس کے معنی کی وضاحت کریں یا پھر قرآن وسنت میں سے صحیح نیت بتائيں ؟


الحمد للہ :

کوئی بھی عبادت چاہے وہ روزہ ہویا پھر نماز نیت کےبغیرصحیح نہیں کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

( اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے ، اورہر شخص کے لیے وہی ہے جووہ نیت کرتا ہے ۔۔۔ ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1907 ) ۔

فرضی روزے کے لیے شرط ہے کہ اس کی نیت رات کو طلوع فجر سے قبل کرلی جائے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

( جوشخص طلوع فجر سے قبل روزے کا ارادہ نہ کرے اس کا روزہ نہیں ) سنن ترمذی حدیث نمبر ( 730 )

نسائی کے الفاظ یہ ہيں :

( جوروزے کی نیت رات کو نہیں کرتا اس کا روزہ نہیں ہے )

سنن نسائي حدیث نمبر ( 2334 ) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح الجامع ( 583 ) میں اسے صحیح قرار دیا ہے ۔

حدیث کا معنی یہ ہےکہ جورات کو روزہ رکھنے کاارادہ اورنیت نہ کرے اس کا روزہ نہیں ہے ۔

اورنیت کا تعلق دل ہے جوکہ ایک قلبی عمل ہے اس کا زبان سے کوئي تعلق نہیں اس لیے مسلمان کو دل سے ارادہ کرنا چاہیے کہ وہ کل روزہ رکھےگا ، اس کے لیے مشروع نہیں کہ وہ زبان سے یہ کہتا رہے میں روزے کی نیت کرتا ہوں یا میں حقیقتا تیرے لیے روزہ رکھ رہا ہوں ، یااس طرح کے دوسرے الفاظ جوآج کل لوگوں نےایجاد کررکھے ہیں وہ سب بدعت میں شمار ہوتے ہیں ۔

صحیح نیت یہی ہے کہ انسان دل سے ارادہ کرے کہ وہ صبح روزہ رکھے گا ، اسی لیے شیخ جب شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی سے سوال کیا گيا تو ان کا جواب تھا :

جس کے دل میں یہ بات آگئي کہ وہ صبح روزہ رکھے گا اس کی نیت ہوگئي ا ھـ ۔

دیکھیں الاختیارات صفحہ نمبر ( 191 ) ۔

لجنہ دائمۃ ( مستقل فتوی کمیٹی ) سے مندرجہ ذیل سوال کیا گيا ؟

انسان کورمضان میں روزے کی نیت کس طرح کرنی چاہیے ؟

تولجنۃ کا جواب تھا :

روزہ رکھنے کے عزم سے نیت ہوجائے گی ، اوررمضان میں ہررات کوروزے کی نیت کرنا ضروری ہے ۔ اھـ

دیکھیں فتاوی اللجنۃ الدائمۃ ( 10 / 246 ) ۔

واللہ اعلم .

http://islamqa.info/ur/37643
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,011
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
یہاں تو دو طرفہ بحث چھڑی ہوئی ہے کوئی کہہ رہا ہے یہ نیت ٹھیک ہے کوئی کہہ رہا ہے نہیں ٹھیک بدعت ہے
ایک ٹھیک اور آسان لفظوں میں اس بات کا خلاصہ کریں کیا یہ نیت کرنا ٹھیک ہے یا نہیں حوالے کے ساتھ بتائیں شکریہ
دین میں بدعت کے بالمقابل سنت ہوتی ہے۔ اگر ایک چیز سنت نہیں تو وہ بدعت ہوگی اور اگر کوئی چیز بدعت نہیں تو سنت ہوگی۔ اب @اشماریہ صاحب فرماتے ہیں کہ زبان سے روزے کی نیت کے الفاظ ادا کرنا بدعت نہیں ہے۔ تو پھر یہ سنت ہوگی لیکن سنت کی کوئی دلیل بھی موصوف پیش نہیں فرما رہے۔بس ورثے میں ملی ہوئی اپنی مذہبی لفاظی سے وقت پورا کررہے ہیں۔ اور دین کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے میں سرگرم ہیں جو کہ مقلدین کا مقصد حیات ہے۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
دین میں بدعت کے بالمقابل سنت ہوتی ہے۔ اگر ایک چیز سنت نہیں تو وہ بدعت ہوگی اور اگر کوئی چیز بدعت نہیں تو سنت ہوگی۔ اب @اشماریہ صاحب فرماتے ہیں کہ زبان سے روزے کی نیت کے الفاظ ادا کرنا بدعت نہیں ہے۔ تو پھر یہ سنت ہوگی لیکن سنت کی کوئی دلیل بھی موصوف پیش نہیں فرما رہے۔بس ورثے میں ملی ہوئی اپنی مذہبی لفاظی سے وقت پورا کررہے ہیں۔ اور دین کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے میں سرگرم ہیں جو کہ مقلدین کا مقصد حیات ہے۔
حوالہ؟؟؟؟؟؟
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
روزے کی نیت کے حوالے سے حضرات حنفیہ نے جو الفاظ بنا رکھے ہیں ’’ وبصوم غد نویت من شہر رمضان ‘‘ ایک عرصے تک میں بھی انہیں لسانی قواعد و ضوابط کی رو سے غلط سمجھتا رہا ہوں ۔ اور بہت زیادہ تعجب بھی ہوتا تھا کہ اتنے بڑے بڑے علماء عربی کی ایک سادہ سی عبارت میں غلطی کر گئے اور پھر بعد والوں نے من و عن اس کو تسلیم کرلیا ۔
بہت سارے لوگوں کا ابھی تک یہی خیال ہے کہ یہ سب ایسا ہی ہوا ہے لیکن میرے خیال میں بات ایسے نہیں ہے ۔
کیونکہ نیت کے یہ الفاظ صبح سحری کے وقت نہیں کہے جاتے بلکہ رات سونے سے پہلے یا شام کے وقت افطاری کی دعا کے ساتھ کہے جانے کےلیے بنائے گئے ہیں ۔
حاشیۃ الشلبی کا ایک اقتباس ہے :
(فائدة) قال في الدراية في آخر باب الاعتكاف ومن السنة أن يقول عند الإفطار اللهم لك صمت وبك آمنت وعليك توكلت وعلى رزقك أفطرت وصوم الغد من شهر رمضان نويت فاغفر لي ما قدمت وما أخرت اهـ(حاشیۃ الشلبی مع تبیین الحقائق ج 1 ص 342)
مجمع الأبہر اور حاشیۃ الطحطحاوی میں بھی یہ الفاظ موجود ہیں ۔
حقیقت حال احناف بہتر جانتے ہیں لیکن اگر بات ایسے ہی ہے تو اس لحاظ سے یہ الفاظ عربی زبان کے قواعد کے مطابق درست ہیں ۔یہ الگ بات ہےکہ سنت سے عدم ثبوت کی وجہ سے مردود ہیں ۔
اشماریہ صاحب نے جو جواب دیا میرے خیال میں وہ کافی بعید ہے ۔ اور اس پر محترم راجا صاحب نے جو اعتراض فرمایا بالکل بجا ہے ۔ کہ یہ کیسا روزہ ہے کہ سحری کے لیے تو شروع ہو چکا ہے لیکن نیت کے اعتبار سے فجر کے بعد شروع ہوگا ۔
خیر بہتر ہوگا کہ @اشماریہ صاحب اس حوالے سے اپنی رائے کا اظہار علماء احناف کے فرمودات کی روشنی میں فرمائیں ۔
باقی نیت دل کا فعل ہے ظاہر ہے وہ دل سے ہی ادا ہوگا ۔ زبان سے ادا ہونے والے فعل کو ’’ قول ‘‘ وغیرہ کہتے ہیں ’’ نیت ‘‘ نہیں کہتے ۔ فورم کے ایک فاضل رکن نے کسی جگہ خوب فرمایا ہےکہ جس طرح کان کے علاوہ کسی اور عضو کے فعل کو ’’ سننا ‘‘ نہیں کہہ سکتے ، آنکھ کے علاوہ کسی اور عضو کے فعل کو ’’ دیکھنا ‘‘ نہیں کہہ سکتے تو پھر نیت جو دل کا فعل ہے وہ کسی اور عضو سے کیا جائے تو اسے نیت کیونکر قرار دیا جاسکتا ہے ؟
 
Last edited:
Top