• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

درس قرآن

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
(سورة بقره آيه- ٢٠٦)
جھوٹا وقار


وَإِذَا ۔۔ قِيلَ ۔۔ لَهُ ۔۔ اتَّقِ ۔۔ اللَّهَ ۔۔۔ أَخَذَتْهُ
اور جب ۔۔ کہاجائے ۔۔ اس سے ۔۔ ڈر ۔۔ الله ۔۔ پکڑ لے اس کو
الْعِزَّةُ ۔۔ بِالْإِثْمِ۔۔ فَحَسْبُهُ ۔۔جَهَنَّمُ ۔۔ وَلَبِئْسَ ۔۔۔ الْمِهَادُ

عزت ۔۔ گناہ کے ساتھ ۔۔ پس کافی ہے اس کو ۔۔ جھنم ۔۔ اور البتہ برا ۔۔ ٹھکانہ

وَإِذَا قِيلَ لَهُ اتَّقِ اللَّهَ أَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالْإِثْمِ فَحَسْبُهُ جَهَنَّمُ وَلَبِئْسَ الْمِهَادُ

اور جب اس سے کہا جائے کہ الله سے ڈر تو غرور اسے گناہ پر آمادہ کرے سو اس کے لئے دوزخ کافی ہے اور بے شک وہ برا ٹھکانہ ہے
اس آیت میں منافقوں کی ایک اور نشانی بیان کی گئی ہے ۔ یعنی لوگوں پر ظلم کرنے ، جھوٹے دعوے باندھنے ، فتنہ و فساد مچانے کے ساتھ ساتھ وہ اپنے غرور میں آکر الله تعالی سے بھی سرکشی اور بغاوت کرتے ہیں ۔ جب لوگ انہیں سمجھاتے ہیں کہ ہنگامہ آرائی اور شرارت کی راہ سے ہٹ کر سیدھی راہ پر آؤ ۔ الله تعالی سے ڈرو ۔ امن اور چین کی زندگی بسر کرو تو وہ اپنی جھوٹی شان اور خود ساختہ عزت کو برقرار رکھنے کے لئے سرکشی اور گناہ میں اور زیادہ سرگرم ہو جاتے ہیں ۔
لوگوں کے یہ کہنے پر کہ الله تعالی سے ڈرو ان کے غرور پر زبردست چوٹ پڑتی ہے ۔ جھوٹی آرزوؤں اور جھوٹی شان کا بنایا ہوا ان کا محل دھڑام سے نیچے آگرتا ہے ۔ جس سے ان کا پول کُھل جاتا ہے ۔ اور وہ کہیں کے نہیں رہتے ۔ لہذا اپنے جھوٹے وقار کو قائم رکھنے کے لئے وہ الله جل جلالہ کی نافرمانیاں کرنے کی پرواہ نہیں کرتے ۔ لوگوں پر ظلم کرتے ہیں ۔ ہر جائز و ناجائز حربہ استعمال کرکے راست باز لوگوں کی رائے کو دبانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کے لئے الله تعالی نے جہنم بنا رکھا ہے ۔جہاں انہیں جھونک دیا جائے گا ۔ یہ ہمیشہ اس میں جلتے رہیں گے ۔ اور اپنے غرور کا مزہ چکھیں گے ۔
شریعتِ اسلام کے مقاصد تو یہ ہیں کہ دنیا میں عدل و انصاف اور امن و چین عام ہوجائے ۔ ہر شخص کو الله تعالی کی بنائی ہوئی چیزوں سے فائدہ اٹھانے کی آزادی ہو ۔ الله تعالی کی اتاری ہوئی تعلیم اور بتائی ہوئی ھدایت پر چلنے کی سہولتیں حاصل ہوں اور ہر شخص کو اپنا حق پانے کے لئے آسانی ہو ۔
ان تمام مقاصد کو حاصل کرنے میں مؤمن اسلام کی مدد کرتا ہے ۔ کافر اس راستے میں روڑے اٹکاتا ہے ۔ اور منافق ایسا مارِ آستین ہے کہ اسلام سے حد درجہ دشمنی رکھتا ہے ۔ اور اپنے ظاہری دعووں اور جھوٹے بیانوں سے اسلام کی محبت کا دم بھرتا ہے ۔ لیکن اپنی دلی دشمنی ظاہر نہیں ہونے دیتا ۔ اس لئے یہ سخت سزا میں مبتلا ہو گا ۔ شریعتِ اسلام کے مقاصد کے حصول میں سب سے بڑی رکاوٹ یہی منافق ڈالتا ہے ۔ دل کی بات کو ظاہر نہیں کرتا ۔ فتنہ و فساد میں سرگرم رہتا ہے ۔ کھیتوں اور جانوروں کو تباہ کرتا ہے ۔ واقعی جھوٹا وقار اور خود ساختہ عزت کا تصور نصیحت اور عبرت کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہوتا ہے ۔
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
(سورة بقره آيه- ٢٠٧)
الله کی رضا چاہنے والا

وَمِنَ ۔۔ النَّاسِ ۔۔ مَن ۔۔۔ يَشْرِي ۔۔۔ نَفْسَهُ ۔۔ ابْتِغَاءَ
اور سے ۔۔ لوگوں ۔۔ جو ۔۔ بیچتا ہے ۔۔ اپنی جان ۔۔ تلاش میں
مَرْضَاتِ ۔۔۔ اللَّهِ ۔۔۔ وَاللَّهُ ۔۔۔ رَءُوفٌ ۔۔۔ بِالْعِبَادِ

رضا جوئی ۔۔ الله ۔۔ اور اللّٰه ۔۔ مہربان ۔۔ بندوں پر

وَمِنَ النَّاسِ مَن يَشْرِي نَفْسَهُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ وَاللَّهُ رَءُوفٌ بِالْعِبَادِ

اس آیت میں ان سچے مؤمنوں کا ذکر ہے جو اپنی جان تک اس مقصد کے لئے قربان کردیتے ہیں کہ الله تعالی ان سے راضی ہو جائے ۔ انسان اگر حقیقت پر غور کرے تو اسے معلوم ہو گا کہ وہ جن ذاتی جھگڑوں میں پڑا ہے ۔ وہ سب ہیچ ہیں ۔ تنگ نظر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جس قدر مال و متاع زمین و جائیداد ان کے قبضے میں ہے سب ان کے اپنے ہیں ۔ جس قدر وہ اور زیادہ حاصل کریں گے وہ بھی ان کا اپنا ہوجائے گا ۔ ان کا خیال ہے کہ دنیاوی عزت اور شان و شوکت ہی انسان کا مقصد ہے ۔ انہیں ہر طریقے سے حاصل کر لینا سب سے بڑی کامیابی ہے ۔ لیکن وہ یہ نہیں دیکھتے کہ اوّل نہ تو وہ خود اپنے اوپر اختیار رکھتے ہیں نہ اپنے مال و جائیداد پر ۔ جو کچھ ان کے پاس ہے یا جو کچھ وہ مزید حاصل کرتے ہیں وہ سب کچھ کیا دھرا یہیں کا یہیں پڑا رہ جائے گا ۔ کیا یہ ممکن نہیں ان کے بازو ٹوٹ جائیں ۔ قوتیں شل ہو جائیں اور دل و دماغ فیل ہو جائیں ۔ پھر یہ مار دھاڑ ۔ لوٹ کھسوٹ اور فتنہ و فساد کیوں ؟ کیا اس زندگی کے لئے جس کا کوئی بھروسہ نہیں ؟ کیا اس شان و شوکت کے لئے جس کی کوئی بنیاد نہیں ؟
ایک مؤمن ان باتوں سے آگاہ ہے ۔ وہ سمجھتا ہے کہ اس کی کوئی چیز اس کی اپنی نہیں بلکہ اس ربّ کی ہے جس نے اسے زندگی دی ۔اس کی پرورش کی ۔ اور اسے دنیا کی نعمتوں سے فائدہ اٹھانے کا موقع دیا ۔ لہذا ہر چیز الله تعالی کی ہے ۔ اور ہر چیز کے استعمال کا مقصد الله تعالی کی خوشنودی ہے ۔ اگر اس کی دی ہوئی چیزوں کو اس کے راستے میں اسی کی رضا حاصل کرنے کے لئے خرچ کیا جائے تو ہمارا کیا جاتا ہے ۔ اگر کم ہو جائے گا تو وہ اور دے دے گا ۔ اگر اپنی اکیلی جان جس پر ہمیں کچھ بھی اختیار نہیں اس کی رضا جوئی کے لئے دے دی جائے تو ہمارا کیا کم ہو جائے گا ۔ اس کی دی ہوئی جان جسے ایک دن فنا ہونا ہی تھا ۔ اسی کے لئے دے دی ۔ تو اس سے بڑھ کر اس کا مصرف اور کیا ہوسکتا ہے ۔
جان دی دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
وہ اپنے بندوں پر بڑا ہی مہربان ہے ۔ انسان اس کی عنایات ۔ نوازشوں اور لطف و کرم کا اندازہ نہیں کر سکتا ۔ اس کی نعمتوں کا شمار نہیں کر سکتا ۔ کاش ! انسان کبھی اس حقیقت پر غور کرلیا کرے تاکہ اس کے اندر شکر گزاری اور قدر دانی پیدا ہو ۔
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
سورة بقره آيه - ٢٠٨
اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ

يَا أَيُّهَا ۔۔ الَّذِينَ ۔۔ آمَنُوا ۔۔ ادْخُلُوا ۔۔۔ فِي ۔۔ السِّلْمِ ۔۔ كَافَّةً
اے ۔۔ وہ لوگو ۔۔ ایمان والے ۔۔ داخل ہو جاؤ ۔۔ میں ۔۔ اسلام ۔۔ پورے
وَلَا تَتَّبِعُوا ۔۔ خُطُوَاتِ ۔۔ الشَّيْطَانِ ۔۔ إِنَّهُ ۔۔ لَكُمْ ۔۔ عَدُوٌّ ۔۔۔ مُّبِينٌ

اور نہ تم اتباع کرو ۔۔ قدم ۔۔ شیطان ۔۔ بے شک وہ ۔۔ تمہارے لئے ۔۔ دشمن ۔۔ ظاہر

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ

اے ایمان والو اسلام میں پورے داخل ہو جاؤ اور شیطان کے قدموں کی پیروی نہ کرو بے شک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے ۔
السلم (اسلام ) ۔ سلام کے لفظی معنی صلح اور امن کے ہیں ۔ اور یہ لفظ جنگ کے مقابل آتا ہے ۔ یہاں مفسروں نے السلم سے مراد اسلام لیا ہے ۔ لغت کے ماہروں نے بھی اس لفظ کے یہ معنی تسلیم کئے ہیں ۔
كافه ( پورے ) ۔ اس لفظ کا مادہ کفف ہے ۔ جس کے معنٰی روکنا ہیں ۔ کافّہ سے مراد ہے کہ پورے پورے اسلام میں داخل ہو جاؤ اور ہر طرح سے اسلام کی اطاعت کرو ۔
خطوات (قدم ) خطوہ اس کا واحد ہے ۔ مراد ہے نقشِ قدم ۔ یعنی اطاعت و فرمانبرداری ۔
اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ چند یہودی اسلام لائے ۔ لیکن انہوں نے اسلامی شریعت کے ساتھ ساتھ یہودی مذہب کی تعمیل بھی جاری رکھی ۔ مثلا ہفتے کے دن کو مقدس سمجھنا ۔ اونٹ کے گوشت اور دودھ کو حرام سمجھنا ۔ اور توراۃ کی تلاوت وغیرہ ۔ پھر اسی طرح بعض لوگ اپنی طرف سے ہی کوئی عقیدہ گھڑ لیتے یا کوئی عمل مقدس سمجھ لیتے اور اسلامی شریعت کے ساتھ ساتھ خود ساختہ باتوں کو بھی دین میں شامل کر لیتے ۔ الله تعالی نے اسلام کے احکام کے ساتھ دوسرے احکام کی تعمیل کرنے سے روکنے کے لئے یہ آیت نازل فرمائی ۔ اور فرمایا کہ پورے کے پورے مسلمان ہو جاؤ ۔ یعنی نہ تو اپنی طرف سے غلط عقائد گھڑو ۔ نہ سنی سنائی باتوں پر عمل کرو ۔ نہ دوسری تعلیمات کی تعمیل کرو ۔نہ یہ کہ جو بات اچھی نہ لگے یا جو مشکل معلوم ہوئی یا پسند نہ آئی اسے نہ مانا ۔
اسلام صرف چند عقیدوں کا نام نہیں ۔ یا صرف چند عبادتوں کا مجموعہ نہیں ۔ بلکہ پوری زندگی کے لئے مکمل اعلٰی اور عمدہ ترین ضابطہ ہے ۔ زندگی کے ہر شعبہ میں راہنمائی کرتا ہے ۔انسانی فطرت کے تمام تقاضے پورے کرتا ہے ۔ اس کی کمزوریوں کو مدنظر رکھتے ہوئے احکام میں رعایت کرتا ہے ۔ منزلِ مقصود تک پہنچانے کے لئے صحیح راہنمائی کرتا ہے ۔ دین و دنیا کی اعلٰی ترین کامیابی حاصل کرنے کے لئے ھدایت کرتا ہے ۔ لہٰذا اسلام کو پورے کا پورا ماننا ۔ اخلاق ، معاشرت ، معیشت ، سیاست غرض زندگی کے ہر شعبے میں اسلام کے قوانین پر چلنا ضروری ہے ۔
جو لوگ ایسا نہیں کرتے وہ گویا شیطان کے نقشِ قدم پر چلتے ہیں ۔ حالانکہ وہ ان کا کھلا دشمن ہے ۔ اس سے خیر کی امید رکھنا حد درجہ حماقت اور نادانی ہے ۔ اسلام اور کفر یکجا نہیں ہو سکتے ۔ لہٰذا یا تو پورے طور پر رحمان کے بندے بن جاؤ ورنہ شیطان کے نقشِ قدم پر چلنا پڑے گا ۔ جس میں گھاٹا ہی گھاٹا ہے ۔
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
سورة بقره آيه- ٢٠٩
دانستہ غلطی نہ کرو

فَإِن ۔۔۔ زَلَلْتُم ۔۔۔۔ مِّن ۔۔۔ بَعْدِ ۔۔۔ مَا ۔۔۔ جَاءَتْكُمُ
پھر اگر ۔۔۔ تم پھسلنے لگو ۔۔ سے ۔۔ بعد ۔۔ جو ۔۔ تمہیں پہنچ چکے
الْبَيِّنَاتُ ۔۔۔ فَاعْلَمُوا ۔۔۔ أَنَّ ۔۔۔ اللَّهَ ۔۔۔ عَزِيزٌ ۔۔۔حَكِيمٌ

صاف حکم ۔۔ پس جان لو ۔۔ بے شک ۔۔ الله ۔۔ زبردست ۔۔ حکمت والا ہے

فَإِن زَلَلْتُم مِّن بَعْدِ مَا جَاءَتْكُمُ الْبَيِّنَاتُ فَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ

پھر اگرتم پھسلنے لگو اس کے بعد کہ تمہیں پہنچ چکے صاف حکم تو جان رکھو کہ بے شک الله تعالی زبردست حکمت والا ہے ۔
البينات ( صاف حکم ) اس سے مراد ایسے کھلے ہوئے احکام ہیں جن میں کسی قسم کی پیچیدگی اور شبہ نہیں ۔ مثلا ایک الله پر ایمان لانے کا حکم ۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے برحق ہونے کا عقیدہ ۔ نماز کا حکم اس قسم کے تمام احکام یہود اور دوسری جماعتوں تک پہنچ چکے تھے ۔
زللتم ( پھسلنے لگو ) ۔ یہ لفظ زلّة سے ہے ۔ جسکے لفظی معنی ہیں بہک جانا ۔ ڈگمگانا اور پھسل جانا ۔ یہ بے اختیاری بھی ہوتا ہے ۔ اس لئے اس سے معلوم ہوگیا کہ بھول کر بہک جانا بھی گناہ کا باعث ہو سکتا ہے ۔ اس لئے اس سے توبہ کرنی چاہئیے ۔
عزيز ( زبردست ) ۔ یعنی ایسی ہستی جو جب اور جو کچھ چاہے سزا دے سکتی ہے ۔ اس کا ترجمہ غالب بھی کیا جا سکتا ہے ۔
حكيم ( حکمت والا ) ۔ یہاں آیت کی رعایت سے یہ معنی ہوں گے کہ ایسی ہستی جو ہمیشہ مناسب وقت پر ہی سزا دیتی ہے ۔ اور اس سزا دینے میں بہت بڑی مصلحت پوشیدہ ہوتی ہے ۔ اس لئے کہ وہ حکمت والا ہے ۔
انسان کی یہ بہت بڑی خوش قسمتی ہے کہ الله تعالی نے کمال رحمت اور شفقت سے کام لے کر اس کی ھدایت کے لئے انبیاء کا سلسلہ قائم کیا ۔ اسے سیدھی راہ دکھانے اورکامیابیوں سے ہمکنار کرنے کے لئے ۔الله تعالی وقتا فوقتا مختلف قوموں میں اپنے برگزیدہ پیغمبر بھیجتا رہا ۔ یہ رسول بھولے ہوئے انسانوں کو راہ حق دکھاتے رہے ۔ اور بہکے ہوؤں کو بھنور سے نکالتے رہے ۔ انکے اخلاق سنوارتے رہے اور گندگیوں سے پاک کرتے رہے ۔ لیکن تاریخِ عالم بتاتی ہے کہ بدقسمت لوگوں نے ان سے روگردانی کی ۔ کبھی انہیں جلا وطن کیا کبھی قتل کیا ۔ ان سے اس طرح کا سلوک کرکے انہوں نے خود اپنے لئے گڑھا کھودا ۔
آخر میں الله تعالی نے نبی آخر الزماں صلی الله علیہ وسلم کو بھیجا ۔ حضور صلی الله علیہ وسلم نے آسمانی تعلیمات کو اہل جہاں پر واضح کیا ۔ اپنے اسوہ حسنہ سے ان تعلیمات پر عمل کر کے دکھایا ۔ اپنی صحبت اور ہم نشینی سے نیک اور برگزیدہ لوگوں کی جماعت پیدا کرکے دکھا دیا کہ الله تعالی کے واضح احکام یہ ہیں ۔ اور ان پر عمل کرکے یہ کامیابیاں حاصل کی جا سکتی ہیں ۔
انسان کی یہ کس قدر بدقسمتی ہے کہ اس قدر بلند مرتبہ حاصل کرنے کے باوجود اس سے منہ موڑتا ہے ۔ اس کے خلاف عمل کرتا ہے ۔ اس کا دشمن ہو جاتا ہے ۔ ایسے بدکرداروں کو یقینا سخت سزا ملے گی ۔ کیونکہ اب ان کے لئے کوئی عذر اور کوئی بہانہ باقی نہیں رہا ہے ۔ الله تعالی کی حجت قائم ہو چکی ہے ۔ اب کوئی نہیں کہہ سکتا کہ ہم تک دینِ حق نہیں پہنچا تھا ۔
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
سورة بقره آيه- ٢١٠
غیر معقول مطالبہ


هَلْ ۔۔۔ يَنظُرُونَ ۔۔۔ إِلَّا ۔۔۔ أَن ۔۔ يَأْتِيَهُمُ ۔۔۔ اللَّهُ ۔۔۔ فِي ۔۔۔ ظُلَلٍ
کیا ۔۔ وہ راہ دیکھتے ہیں ۔۔ یہی ۔۔ کہ ۔۔ آئے ان کے پاس ۔۔ الله ۔۔ میں ۔۔ سائبان
مِّنَ ۔۔۔ الْغَمَامِ ۔۔۔ وَالْمَلَائِكَةُ ۔۔۔ وَقُضِيَ ۔۔۔ الْأَمْرُ ۔۔۔ وَإِلَى ۔۔۔ اللَّهِ ۔۔۔ تُرْجَعُ ۔۔۔ الْأُمُورُ

سے ۔۔ بادل ۔۔ اور فرشتے ۔۔ اور فیصلہ کیا جائے ۔۔ کام ۔۔ اور طرف ۔۔ الله ۔۔ لوٹیں گے ۔۔ سب کام

هَلْ يَنظُرُونَ إِلَّا أَن يَأْتِيَهُمُ اللَّهُ فِي ظُلَلٍ مِّنَ الْغَمَامِ وَالْمَلَائِكَةُ وَقُضِيَ الْأَمْرُ وَإِلَى اللَّهِ تُرْجَعُ الْأُمُورُ

کیا وہ یہی راہ دیکھتے ہیں کہ الله تعالی ابر کے سائبانوں میں آئے اور فرشتے (آئیں) اور قصہ طے ہوجائے اور الله تعالی کی طرف ہی تمام کام لوٹیں گے ۔

الله تعالی نے انسان کو مختلف قوتیں بخشیں ۔ جس میں عقل اور فہم کی قوت بھی شامل ہے ۔ تاکہ انسان سچ اور جھوٹ ، نیک اور بد ، انصاف اور ظلم میں تمیز کر سکے ۔ ان قوتوں کے علاوہ الله تعالی نے انسان کی ھدایت کے لئے علماء بھیجے ۔ اور ان کی صداقت کو ثابت کرنے کے لئے مختلف نشانیاں بھی بھیجیں ۔تاکہ انسان ان نشانیوں کو دیکھ کر پیغمبروں پر ایمان لائے ۔ ان کی تعلیمات پر غور کرے ۔اور الله جل شانہ تک پہنچنے کا راستہ اختیار کرے ۔ الله تعالی کی نشانیوں میں اول تو وہ نشانیاں ہیں جو گویا خود منہ سے بولتی ہیں ۔ مثلاً کائنات کی تخلیق ، اس کا انتظام ، اس کا ارتقاء ، پھر انسان کی ضروریات اور اس کی تسکین کا سامان یہ سب چیزیں بتاتی ہیں کہ کہ ان کا بنانے والا ضرور کوئی ہے ۔ جو قادرِمطلق ہے ۔ حکیم و دانا ہے ۔ حاضر و ناظر ہے ۔ رحیم و شفیق ہے ۔
دوسری وہ نشانیاں ہیں جو ہمیں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے ذریعے سے پہنچی ہیں ۔ مثلا آپ کی ذات ایک کامل نمونہ ، آپ کا بے داغ کردار ، آپ کا حسنِ اخلاق اور آپ کے معجزات وغیرہ ان دونوں قسم کی نشانیوں کو دیکھنے کے بعد انسان کی عقل اس بات کا تقاضہ کرتی ہے کہ الله تعالی پر ایمان لایا جائے ۔ جو تمام جہانوں کا خالق ہے ۔ اور سب کی تربیت کرنے والا ہے ۔ اگر کوئی آدمی یا گروہ اس سے منہ موڑتا ہے تو وہ گویا اس بات کا انتظار کر رہا ہے کہ الله تعالی خود فرشتوں کے لشکر کے ساتھ ان کے سامنے آئے اور بتائے کہ یہ میرا حکم ہے ۔ اسے مانو ۔۔۔ اس قسم کا انتظار ایسے لوگوں کی بربادی اور تباہی پر جاکر ختم ہوگا ۔اس لئے کہ نہ ایسا کبھی ہوا ہے اور نہ کبھی ہو گا ۔ الله تعالی نے عقل اور بصیرت دی اور اس کے بعد اپنی نشانیاں بھیج دیں ۔ اب ان پر یقین کرنا انسان پر فرض ہوگیا ۔ اگر کوئی شخص نہ ان نشانیوں پر غور کرے اور نہ عقل و فہم سے کام لے ۔ تو وہ یقینا ھلاک ہو گا ۔ کیونکہ اس کے ایمان نہ لانے کی کوئی وجہ باقی نہ رہی ۔ پھر ان سب کو الله تعالی کے حضور جمع ہونا ہے ۔ کیونکہ سب کاموں کا مدار اسی الله جل جلالہ پر ہے ۔ اور وہی ان کا فیصلہ فرمائے گا ۔
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
(سورة بقره آيه- ٢١١)
بنی اسرائیل سے عبرت


سَلْ ۔۔۔ بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔ كَمْ ۔۔۔ آتَيْنَاهُم ۔۔۔ مِّنْ ۔۔۔ آيَةٍ ۔۔۔ بَيِّنَةٍ
پوچھ ۔۔ بنی اسرائیل ۔۔ کتنی ۔۔ ہم نے دیں ان کو ۔۔ سے ۔۔ نشانی ۔۔ واضح
وَمَن ۔۔۔ يُبَدِّلْ ۔۔۔ نِعْمَةَ ۔۔۔ اللَّهِ ۔۔۔ مِن ۔۔۔ بَعْدِ ۔۔۔ مَا ۔۔۔ جَاءَتْهُ
اور جو ۔۔ بدل ڈالے ۔۔ نعمت ۔۔ الله ۔۔ سے ۔۔ بعد ۔۔ جو پہنچی اس کو
فَإِنَّ ۔۔۔ اللَّهَ ۔۔۔ شَدِيدُ ۔۔۔ الْعِقَابِ

پس بے شک الله ۔۔ سخت ۔۔ عذاب

سَلْ بَنِي إِسْرَائِيلَ كَمْ آتَيْنَاهُم مِّنْ آيَةٍ بَيِّنَةٍ وَمَن يُبَدِّلْ نِعْمَةَ اللَّهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءَتْهُ فَإِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ

بنی اسرائیل سے پوچھو ہم نے انہیں کس قدر کھلی ہوئی نشانیاں عنایت کیں اور جو کوئی الله کی نعمت بدل ڈالے بعد اس کے کہ وہ نعمت اسے پہنچ چکی ہو تو الله کا عذاب سخت ہے ۔
اس سے پہلے بیان ہوچکا ہے کہ کبھی بھی الله تعالی یا اس کے فرشتے کھلم کھلا انسانوں کے پاس نہیں آئے ۔ بلکہ الله تعالی نے ہمیشہ انسانوں کی ھدایت کے لئے ان میں سے ہی نبی اور رسول بھیجے ہیں ۔ یہاں اس آیت میں اس حقیقت کو بنی اسرائیل کی تاریخ سے واضح کیا جا رہا ہے ۔ یعنی یہ کہ ہم نے بنی اسرائیل کو بہت سی ایسی نشانیاں عطا کیں جن سے الله تعالی کی ہستی ، الله کے رسولوں کی صداقت اور ان کی تعلیم کی سچائی ظاہر ہوتی تھی ۔ لیکن انہوں نے ان تمام نشانیوں کو پسِ پشت ڈال دیا ۔ الله تعالی نے ان پر اپنے انعام کئے ۔ لیکن انہوں نے ناشکرے پن کا ثبوت دیا ۔ الله تعالی نے بنی اسرائیل پر جو احسانات کئے ان میں سے چند مختصر طور پر ہم بیان کرتے ہیں ۔
1۔۔۔. انہیں فرعون کے ظلم سے نجات دلائی ۔ فرعون بنی اسرائیل کے بچوں کو قتل کرا دیتا تھا ۔ اور لڑکیوں کو زندہ رکھتا تھا ۔ اُن سے سخت مشقت کے کام لیتا تھا ۔ ہر طرح سے ذلیل و خوار کرتا تھا ۔ الله تعالی نے انہیں اس کے ظلم سے بچایا ۔
2. ۔۔۔۔ ان میں حضرت موسٰی علیہ السلام جیسا جلیل القدر پیغمبر بھیجا ۔ جس نے انہیں فرعون کی غلامی اور قبطیوں کی حکومت اور رعب سے نکالا ۔
3. ان کے دشمن فرعون کو ان کے سامنے سمندر میں غرق کر دیا ۔
4 ۔۔۔ سینا کے بے آب و گیا علاقوں میں ان پر بادل کا سایہ کیا ۔ من و سلوٰی اتارا ۔ پانی کے چشمے نکال دئیے ۔
5. ۔۔۔ ان کی ھدایت کے لئے حضرت موسٰی کو تورات عطا فرمائی ۔
6. ۔۔۔ انہیں ملک فلسطین میں آباد کیا ۔
7. ۔۔۔۔ ان کی نسل میں نبیوں کا ایک سلسلہ بڑی دیر تک قائم رکھا ۔
لیکن ان لوگوں نے ان تمام احسانات کے باوجود بھی نفسانی خواہشات کی پیروی کی ۔ الله تعالی کی بھیجی ہوئی کتاب سے منہ موڑا ۔ اس کے احکام سے روگردانی کی ۔ من مانی کاروائیوں میں مگن رہے ۔ اس نافرمانی کی سزا کے طور پر الله تعالی نے ان پر مختلف قسم کے عذاب بھیجے ۔ تاکہ وہ راہِ راست کی طرف آئیں ۔ لیکن پھر بھی ان کے علماء نے الله تعالی کے احکام کے الفاظ و معانی بدل دئیے ۔ اور جان بوجھ کر کتاب میں ردوبدل کیا ۔ عوام نے اندھا دھند ان کی پیروی کی ۔ اگر اب بھی یہ لوگ اپنی بات پر اڑے رہیں گے اور الله تعالی کے سچے اور آخری کلام "قرآن مجید کو نہیں مانیں گے تو وہ یاد رکھیں کہ الله تعالی سخت سزا دینے والا ہے ۔ اور ان کا حشر بھی ویسا ہی ہوگا جیسا پہلی اقوام کا ہوا ہے ۔
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
(سورة بقره آيه -٢١٢)
مؤمنوں کا مذاق نہ اڑاؤ


زُيِّنَ ۔۔۔ لِلَّذِينَ ۔۔۔ كَفَرُوا ۔۔۔ الْحَيَاةُ ۔۔۔ الدُّنْيَا ۔۔۔ وَيَسْخَرُونَ
زینت دی گئی ۔۔ ان کے لئے ۔۔ کافر ۔۔ زندگی ۔۔۔ دنیا ۔۔ اور وہ مذاق کرتے ہیں
مِنَ ۔۔۔ الَّذِينَ ۔۔۔ آمَنُوا ۔۔۔ وَالَّذِينَ ۔۔۔ اتَّقَوْا ۔۔۔ فَوْقَهُمْ ۔۔۔ يَوْمَ ۔۔۔ الْقِيَامَةِ
سے ۔۔ وہ ۔۔ ایمان لائے ۔۔۔ اور جو ۔۔ پرھیزگار ۔۔ ان کے اوپر ۔۔ دن ۔۔ قیامت
وَاللَّهُ ۔۔۔ يَرْزُقُ ۔۔۔ مَن ۔۔۔ يَشَاءُ ۔۔۔ بِغَيْرِ ۔۔۔ حِسَابٍ

اور الله ۔۔ روزی دیتا ہے ۔۔ جسے ۔۔ وہ چاہتا ہے ۔۔ بغیر ۔۔ حساب

زُيِّنَ لِلَّذِينَ كَفَرُوا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا وَيَسْخَرُونَ مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ اتَّقَوْا فَوْقَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَاللَّهُ يَرْزُقُ مَن يَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ

کافروں کو دنیا کی زندگی پر فریفتہ کیا ہے اور ایمان والوں پر ہنستے ہیں اور جو پرھیزگار ہیں وہ قیامت کے دن ان کافروں سے بالاتر ہوں گے ۔ اور الله جسے چاہے بے شمار روزی دیتا ہے
اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ مشرکوں کے رئیس مسلمانوں پر ہنستے تھے ۔ انہیں ذلیل سمجھتے تھے ۔ حضرت بلال ، عمار ، صہیب رضی الله عنھم کا مذاق اڑاتے اور کہتے ( نعوذبالله ) ان نادانوں نے آخرت کے خیال پر دنیا کی تکلیفوں اور مصیبتوں کو اپنے سر لے لیا ۔ اور محمد (صلی الله علیہ وسلم ) کو دیکھو کہ ان فقیروں ، محتاجوں اور بے بس لوگوں کی امداد سے طاقتور عرب رئیسوں اور سرداروں پر غالب آنا چاہتے ہیں ۔ اور دنیا بھر کی اصلاح ان غریبوں کی مدد سے کرنے کی توقع رکھتے ہیں ۔ ان لوگوں کے اس تمسخر اور ہنسی کی بنا پر یہ آیت نازل ہوئی ۔ انہیں بتایا گیا کہ ان کا اس طرح سوچنا جہالت اور نادانی ہے ۔ انہیں معلوم نہیں کہ یہی غریب اور تنگدست قیامت کے دن ان رئیسوں سے اعلی اور برتر ہوں گے ۔ الله جسے چاہے بے شمار روزی عطا فرمائے ۔ چنانچہ ایک دن آیا کہ انہیں غریبوں کو جن پر کافر ہنستے تھے بنو قریظہ اور بنو نضیر کی دولت ملی ۔ اور اس زمانے کی ایران اور روم جیسی بڑی بڑی سلطنتوں پر الله تعالی نے انہیں بادشاہی دی ۔ دنیا کی دولت ، حکومت اور قیادت الله تعالی نے ان لوگوں کے سپرد کر دی ۔
اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ مالدار اور رئیس لوگ جو الله تعالی کے منکر ہوں وہ اپنی دولت کے بل بوتے پر اکڑتے ہیں ۔ اور وہ سمجھتے ہیں کہ وہ دنیا کی ہر چیز اپنی دولت سے خرید لیں گے ۔ اور دنیا کی ساری طاقت اپنی دولت کی مدد اے فتح کر لیں گے ۔اسی غرور اور تکبر کی بنا پر یہ لوگ غریب ، ایماندار اور حق پرست لوگوں کا مذاق اڑاتے ہیں ۔ ان کے نزدیک دولت ہی شرافت اور ریاست کی نشانی ہوتی ہے ۔ ان کی نگاہ میں اخلاق کی برتری کردار کی پاکیزگی کچھ بھی نہیں ۔ لیکن انہیں یہ معلوم نہیں کہ دولت ایک چلتی پھرتی چھاؤں ہے ۔ یہ ایک ڈھلتا سایہ ہے ۔ کبھی یہاں اور کبھی وہاں ۔ اسے ایک جگہ ٹہراؤ میسر نہیں ۔ ایسی چیز جس پر کوئی اختیار اور قابو نہ ہو اور جو عارضی اور نا پائیدار ہو اس قدر اکڑنا لاحاصل اور فضول ہے ۔ اصل چیز نیکی اور پرھیزگاری ہے ۔ یہی سب سے بڑی دولت ہے ۔ اسی کے بدلے قیامت میں بہترین اجر ملے گا ۔ اور تمام دولت مند اورمنکر لوگ اس دن مغلوب ہوں گے ۔ وہ ذلت اور رسوائی میں ڈوبے ہوں گے ۔ اور اپنے کئے پر پچھتاتے ہوں گے ۔ کیا اچھا ہو کہ یہ لوگ آج سمجھ لیں کہ الله سبحانہ وتعالی ہی سب کو روزی دیتا ہے ۔ وہ ان سے چھین کر ایمانداروں کو دے سکتا ہے ۔انہیں غریب اور مسکین لوگوں کا مذاق نہیں اڑانا چاہئیے ۔ خود اپنی آخرت سنوارنے کی طرف متوجہ ہونا چاہئیے ۔ الله تعالی ہم سب کو ھدایت دے کہ ہم بُرا کلمہ منہ سے نہ نکالیں ۔ آمین
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
(سورة بقره آيه - ٢١٣ - ا)

اُمّتِ واحدہ


كَانَ ۔۔۔ النَّاسُ ۔۔۔ أُمَّةً ۔۔۔ وَاحِدَةً ۔۔۔ فَبَعَثَ ۔۔۔ اللَّهُ ۔۔۔ النَّبِيِّينَ ۔۔۔مُبَشِّرِينَ
تھے ۔۔۔ لوگ ۔۔ جماعت ۔۔ ایک ۔۔۔ پھر بھیجے ۔۔۔ الله ۔۔ انبیاء ۔۔۔ خوشخبری سنانے والے
وَمُنذِرِينَ ۔۔۔ وَأَنزَلَ ۔۔۔ مَعَهُمُ ۔۔۔ الْكِتَابَ ۔۔۔ بِالْحَقِّ ۔۔۔ لِيَحْكُمَ
اور ڈرانے والے ۔۔۔ اور اتارا ۔۔۔ ان کے ساتھ ۔۔ کتاب ۔۔ سچ سے ۔۔ تاکہ فیصلہ کرے
بَيْنَ ۔۔۔ النَّاسِ ۔۔۔ فِيمَا ۔۔۔ اخْتَلَفُوا ۔۔۔۔ فِيهِ

درمیان ۔۔ لوگوں۔۔ اس میں جو ۔۔ اختلاف کیا انہوں نے ۔۔۔ اس میں

كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً فَبَعَثَ اللَّهُ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ وَأَنزَلَ مَعَهُمُ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِيمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ

سب لوگ ایک جماعت تھے پھر الله تعالی نے بھیجے خوشخبری سنانے والے اور ڈرانے والے پیغمبر اور ان کے ساتھ نازل کی سچی کتاب تاکہ فیصلہ کردے لوگوں کے درمیان جس میں وہ جھگڑا کریں ۔
اُمّةً وّاحدَةً (ایک جماعت ) امت کے معنی ملت اور جماعت کے ہیں ۔
الله تعالی نے فرمایا کہ ابتداء میں تمام اولادِ آدم ایک جماعت تھی سب کا مذہب ایک ہی تھا ۔ تمام لوگ توحید پر قائم تھے ۔ جب کبھی ان کے عقائد میں اختلاف پیدا ہوتا ۔ تو خوشخبری سنانے والے اور ڈرانے والے نبی آتے اور اُن کے اختلافات ختم کرتے ۔
گویا یہ خیال بالکل بے بنیاد ہے کہ شروع میں کسی کو صحیح مذہب کا علم نہ تھا ۔ اور موجودہ توحید تک پہنچنے میں کئی منازل سے گذرنا پڑا ہے ۔
فَبَعَثَ ( پھر بھیجے ) یہاں ف" سے مراد ہے کہ ایک مدت کے بعد یعنی جب باطل پرست بے شمار عقیدے اور مذہب بنا بیٹھے ۔ اور ان میں اختلاف بڑھ گئے ۔
مُبَشّرينَ ( خوشخبری سنانے والے ) ۔ یعنی ان لوگوں کو جو الله تعالی کے دئیے ہوئے قانون کو قبول کر لیں ۔ خوشخبری سنانے والے ۔۔ لفظ بشر" اس کا مادہ ہے ۔
مُنْذِرِين ( ڈرانے والے ) یعنی ان لوگوں کو جو الله تعالی کے دئیے ہوئے قانون کے خلاف انکار اور بغاوت کریں ۔ ڈرانے والے "انذار اس کا مصدر ہے ۔ لِيَحْكُمَ (تاکہ فیصلہ کرے ) یعنی انہی نبیوں کے واسطے سے الله تعالی فیصلہ کردے ۔
حضرت آدم علیہ السلام کے وقت سے ایک ہی دین آرہا ہے ۔ کچھ مدت کے بعد لوگوں نے اس دین میں اختلاف ڈالا تو الله تعالی نے وقتاً فوقتاً نبیوں کو بھیجا ۔ جو ایمان والوں کو ثواب کی خوشخبری سناتے تھے ۔ اور کافروں کو عذاب سے ڈراتے تھے ۔اور ان کے ساتھ سچی کتابیں بھی بھیجیں ۔ تاکہ لوگوں کے اختلافات اور جھگڑے دور ہوجائیں ۔ اور سچا دین ان کے اختلاف سے بچا رہے ۔
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
(سورة بقره آيه- ۲۱۳ - ب)

مذھبی اختلاف


وَمَا ۔۔ اخْتَلَفَ ۔۔۔ فِيهِ ۔۔ إِلَّا ۔۔۔ الَّذِينَ ۔۔۔ أُوتُوهُ۔۔۔ مِن ۔۔۔ بَعْدِ
اور نہیں ۔۔۔ اختلاف کیا ۔۔ اس میں ۔۔ مگر ۔۔ وہ ۔۔ جو دئیے گئے وہ ۔۔ سے ۔۔ بعد
مَا ۔۔۔ جَاءَتْهُمُ ۔۔۔ الْبَيِّنَاتُ ۔۔۔ بَغْيًا ۔۔۔ بَيْنَهُمْ ۔۔۔ فَهَدَى ۔۔۔ اللَّهُ ۔۔۔ الَّذِينَ ۔۔۔ آمَنُوا
جو ۔۔ پہنچی ان کو ۔۔ صاف حکم ۔۔۔ ضد ۔۔ آپس میں ۔۔ پس ھدایت دی ۔۔ الله ۔۔ وہ لوگ ۔۔ ایمان لائے
لِمَا ۔۔۔ اخْتَلَفُوا ۔۔۔ فِيهِ ۔۔۔ مِنَ ۔۔۔ الْحَقِّ ۔۔۔ بِإِذْنِهِ ۔۔۔ وَاللَّهُ ۔۔۔ يَهْدِي
اس کے لئے ۔۔ اختلاف کیا انہوں نے ۔۔ اس میں ۔۔ سے ۔۔ سچ ۔۔ اس کے حکم سے ۔۔ اور الله ۔۔ وہ ھدایت دیتا ہے
مَن ۔۔۔ يَشَاءُ ۔۔۔ إِلَى ۔۔۔ صِرَاطٍ ۔۔۔ مُّسْتَقِيمٍ

جسے ۔۔۔ وہ چاہتا ہے ۔۔۔ طرف ۔۔ راہ ۔۔۔ سیدھی

وَمَا اخْتَلَفَ فِيهِ إِلَّا الَّذِينَ أُوتُوهُ مِن بَعْدِ مَا جَاءَتْهُمُ الْبَيِّنَاتُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ بِإِذْنِهِ وَاللَّهُ يَهْدِي مَن يَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ

اور کتاب میں صرف انہی لوگوں نے جھگڑا ڈالا جنہیں کتاب ملی اس کے بعد کہ انہیں صاف حکم پہنچ چکے آپس کی ضد سے۔ پھر الله تعالی نے ھدایت دی ایمان والوں کو اس سچی بات کی جس میں وہ جھگڑ رہے تھے اپنے حکم سے اور الله جسے چاہتا ہے سیدھا راستہ بتاتا ہے ۔
اَلّذين اُوتُوه ( جنہیں ملی تھی ) ان سے مراد وہ لوگ ہیں ۔ جنہیں نبیوں کے واسطے سے کتابیں ملی تھیں ۔ خصوصاً ان قوموں کے امام اور پیشوا کیونکہ یہی لوگوں کو گمراہی کی طرف لے جاتے اور عوام صرف ان کے پیچھے ہو لیتے ۔
بَغْياً بينَهُم (آپس کی ضد سے ) یہاں یہ بات صاف ہو گئی کہ اختلاف اور جھگڑے کا اصل سبب آپس کی ضد اور نفسانیت تھی ۔ اور یہ وجہ ہرگز نہ تھی کہ خود الله تعالی کے حکموں میں کمی یا ایچ پیچ تھا ۔
بِاِذنه ( اپنے حکم سے ) قرآن مجید میں لفظ اذن" حکم اور اجازت دونوں معنوں میں آیا ہے ۔ یہاں مراد الله کا فضل اور توفیق ہے ۔
آیت کے اس حصے میں بتایا گیا ہے کہ الله کے نبی اورکتابوں کے آجانے کے بعد انہی لوگوں نے اختلاف ڈالا جن کو وہ کتابیں ملی تھیں ۔ مثلا یہودیوں اور عیسائیوں کے امام و پیشوا تورات اور انجیل میں اختلاف ڈالتے تھے ۔ ان کے معنٰی بدل دیتے تھے اور ان کی شرح و تفسیر بھی من مانی کرتے تھے ۔ یہ سارا اختلاف وہ بے سمجھی سے نہیں کرتے تھے بلکہ آپس کی ضد ، حسد اور دنیاوی مال و متاع کے لالچ میں کرتے تھے ۔
ان حالات میں الله تعالی نے اپنے فضل و کرم سے ان لوگوں کو جو ایمان کے طالب تھے اور جن میں ایمان کی صلاحیت موجود تھی سیدھے راستے کی ھدایت فرمائی ۔ اس پر چلنے کی توفیق بخشی ۔ اور انہیں گمراہ لوگوں کے اختلاف سے بچایا ۔ اس آیت سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ دنیا کا دستور کچھ ایسا ہے کہ بُرے لوگ اختلاف ڈالتے ہیں اور ہمیشہ اسی میں سرگرم رہتے ہیں ۔ اس لئے ایمان والوں کو ان کے پیچھے نہیں لگنا چاہئیے ۔ بلکہ الله کے نبی صلی الله علیہ وسلم کی ھدایت اور تعلیم کے مطابق عمل کرنا چاہئیے ۔ ھدایت وہی ہے جو الله سبحانہ و تعالی نے دی اور کامیابی اسی طریقے پر چلنے سے حاصل ہو گی جو الله جل جلالہ نے دکھایا ۔۔۔۔
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
(سورة بقره آيه-۲۱۴)

آزمائش کی گھڑی


أَمْ ۔۔ حَسِبْتُمْ ۔۔۔ أَن ۔۔۔ تَدْخُلُوا ۔۔۔ الْجَنَّةَ ۔۔۔ وَلَمَّا ۔۔۔ يَأْتِكُم
کیا ۔۔ تم نے خیال کیا ۔۔ یہ ۔۔ تم داخل ہو جاؤ گے ۔۔ جنت ۔۔ اورابھی نہیں ۔۔ آئے تمہارے پاس
مَّثَلُ ۔۔۔ الَّذِينَ ۔۔۔ خَلَوْا ۔۔۔ مِن ۔۔ قَبْلِكُم ۔۔۔ مَّسَّتْهُمُ ۔۔۔ الْبَأْسَاءُ ۔۔۔۔ وَالضَّرَّاءُ
مثال ۔۔ وہ لوگ ۔۔ گزر چکے ۔۔ سے ۔۔ تم سے پہلے ۔۔ پہنچی ان کو ۔۔ سختی ۔۔ اور تکلیف
وَزُلْزِلُوا ۔۔۔ حَتَّى ۔۔۔ يَقُولَ ۔۔۔ الرَّسُولُ ۔۔۔ وَالَّذِينَ ۔۔۔ آمَنُوا ۔۔۔ مَعَهُ
اور وہ ہلا دئیے گئے ۔۔۔ یہانتک کہ ۔۔۔ کہنے لگا ۔۔ رسول ۔۔ اور وہ لوگ ۔۔ ایمان لائے ۔۔ اس کے ساتھ
مَتَى ۔۔۔ نَصْرُ ۔۔۔ اللَّهِ ۔۔۔ أَلَا ۔۔۔ إِنَّ ۔۔ نَصْرَ ۔۔۔ اللَّهِ ۔۔۔قَرِيبٌ

کب ۔۔ مدد ۔۔۔ الله ۔۔۔ خبردار ۔۔۔ بے شک ۔۔ مدد ۔۔۔ الله ۔۔۔ قریب

أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَأْتِكُم مَّثَلُ الَّذِينَ خَلَوْا مِن قَبْلِكُم مَّسَّتْهُمُ الْبَأْسَاءُ وَالضَّرَّاءُ وَزُلْزِلُوا حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ مَتَى نَصْرُ اللَّهِ أَلَا إِنَّ نَصْرَ اللَّهِ قَرِيبٌ

کیا تمہیں یہ خیال ہے کہ تم جنت میں چلے جاؤ گے حالانکہ تم پر ان لوگوں جیسے حالات نہیں گزرے جو تم سے پہلے ہو چکے کہ انہیں سختی اور تکلیف پہنچی اور جھڑ جھڑائے گئے یہاں تک کہ رسول اور جو اس کے ساتھ ایمان لائے کہنے لگے الله کی مدد کب آئے گی سن رکھو الله کی مدد قریب ہے ۔
اس آیت میں الله تعالی نے یہ بات بیان فرمائی ہے کہ فلاح اور کامیابی حاصل کرنے کے لئے انسان کو سختیوں ، مصیبتوں اور مشکلوں کا مقابلہ کرنا ضروری ہوتا ہے ۔ مشقت اور تکلیف جھیلے بغیر اور امتحان سے گزرے بغیر کامیابی کی امید رکھنا درست نہیں ۔ اس آیت میں سب سے بڑی بھلائی جنت کو قرار دیا گیا ہے ۔ اور بتایا گیا ہے کہ اتنی بڑی نعمت محنت کئے بغیر حاصل نہیں ہوتی ۔ بھلائی اور جنت کی راہ اس لئے کٹھن بنا دی گئی ہے تاکہ معلوم ہو جائے کہ کسے اس کی طلب اور تڑپ ہے ۔ جسے حقیقی جستجو ہوگی وہ ان تمام طاقتوں کو جو الله تعالی نے اسے بخشی ہیں کام میں لاکر اس مقصد کے لئے ہر ممکن کوشش کرے گا ۔ وہ اس کی خاطر ہر متاع قربان کرنے کو تیار ہوگا ۔ نیز جو لوگ کٹھن راہ سے گزر کر اپنے مقصود پائیں گے وہ اس کی صحیح قدر بھی سمجھ سکیں گے ۔
الله تعالی نے پچھلی امتوں کا حوالہ دے کر یہ ثابت کیا ہے کہ کامیابی پانیوالے ہمیشہ سے تنگی اور سختی کا مقابلہ کرتے چلے آئے ہیں ۔ کیونکہ الله کے دشمن اور نیکی سے عداوت رکھنے والے لوگ ایسے ایمانداروں کو اذیت پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے ۔ انہیں بے بس اور بے چارہ بنا کر چھوڑتے ہیں ۔ اور اس حد تک ان پر ظلم کرتے ہیں کہ نبی اور اس کے ساتھی ایماندار لوگ پکار اٹھتے ہیں کہ الله ! اب تو ظلم و ستم کی حد ہو گئی ۔ اب آزمائش کی انتہا ہو گئی تیری مدد کب آئے گی ؟ الله تعالی نے ایسے ایماندار لوگوں سے وعدہ کیا ہے کہ اس کی مدد انہیں ضرور پہنچے گی ۔ لیکن اس مدد کا ایک مقررہ دستور ہے ۔ پہلے آزمایا جاتا ہے ۔ جب وہ پورے صبر اور ثابت قدمی سے جمے رہیں تو الله تعالی انہیں آخرکار کامیاب کرتا ہے ۔ اور حق کا دشمن ذلیل و خوار اور تباہ و برباد ہو کر رہتا ہے ۔
 
Top