اس دور میں رافضیوں کی خیانتیں جاری رہی اور وہ ملت میں نئے نئے فتنے لیے ظاہر ہوتے رہے۔ انہوں نے حسب ِ سابق دینی ، سیاسی اور اخلاقی میدانوں کی تباہی کا عمل جاری رکھا۔ اس قدر''ٹارگٹ کلنگ ''کی گئی کہ وہ گنتی کے احاطہ میں لانا مشکل ہے اور تقسیم اس قدر کی کہ خلافت کو چھوٹی حکومتوں میں تقسیم کردیا جن کو واپس خلافت کی طرف پرونا مشکل ہوگیا۔
اس زمانے میں ان جرائم کا آغاز اس طرح ہوا کہ انہوں نے ایسی سیاست چلی کہ جس سے خلافت بنو امیہ کا خاتمہ ہو گیا جب انہوں نے اموی حاکم کے خلاف خروج کیا۔ اس کے بعد انہوں نے خفیہ دعوت کا آغاز کیا کہ ''بنو عباس''خلافت کے زیادہ حق دار ہیں۔ اس دعوت کو پھیلانے والا کردار تھا ''ابو مسلم الخراسانی'' ۔ یہ سب اس لیے تھا تاکہ وہ ملک میں اعلیٰ عہدوں پہ فائز ہو جائیں جبکہ اس کے لیے انہوں نے بنو عباس کے ساتھ اپنی دوستی اور موافقت کا جھوٹااظہار کیا۔ تو انہوں نے اس کام کو خراسان سے شروع کیا جو کہ سب سے پہلا علاقہ تھا جو امویوں کے ہاتھوں سے نکلا اور یہ سب کر نے والا تھا ابو مسلم الخراسانی۔ اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے مسلمانوں کے ساتھ کینہ و بغض سے بھرے ہوئے فارسیوں نے اس لڑائی میں مسلمانوں کے خلاف خوب خونریزی کی تاکہ وہ اپنا انتقام لے سکیں۔
حتی کہ اسی ابو مسلم نے بعد میں خلیفہ المنصور کی اطاعت کا ذمہ توڑنے کی کوشش کی جب وہ اپنے بھائی السفاح کی موت کے بعد مسندِ خلافت پر براجمان ہوا۔ یہاں تک کہ ابو مسلم نے غداری کی کوشش کی لیکن المنصور نے اپنی ذکاوت اور فطانت کے ساتھ معاملہ کو سلجھا لیا اور اس کے ساتھ ساتھ وہ ابومسلم کی طرف خوب متنبہ رہا یہاں تک کہ اسے تدریجاً قریب کرکے قابو کر لیا اور انتہائی برے طریقے سے قتل کر ڈالا۔ اس کے بعد ابو مسلم کے ساتھیوں نے انتہائی کوششیں کی تاکہ وہ اس کا انتقام لے سکیں۔ اس کے لیے کبھی وہ سیاسی فتنے کھڑے کر دیتے اور کبھی شبہات پھیلاتے رہتے تھے۔
انہیں کوششوں میں سے ایک کوشش ''سنباب'' کی تھی جس نے المنصور سے ابومسلم کی نعش حوالے کرنے کا مطالبہ کیا تو منصور نے اسکی طرف ایک لشکر بھیجا جس نے اسے شکست و ریخت سے دوچار کردیا۔
اس کے بعد ''الرواندیہ'' فارسی شہر ''اصفہان''کے قریب ظاہر ہوئے اور یہ بھی ابو مسلم کی جماعت کے لوگ تھے۔ اس دفعہ وہ بڑے فاسد عقیدہ کے ساتھ سامنے آئے اور انہوں نے خلیفہ المنصور کے بارے میں ''الوہیت'' کا دعویٰ کر دیا لیکن منصور نے ان کے ساتھ لڑائی کی اور ان کا قلع قمع کردیا۔
اس کے بعد وہ آدمی ظاہر ہوا جس نے ''المقنع'' کا لقب اختیار کیا۔ اسے یہ زعم تھا کہ اللہ تعالیٰ نے نعوذ باللہ سب سے پہلے آدم میں حلول کیا پھر نوحؑ میں، پھر ابومسلم میں اور پھر اس کے اندر حلول کیا۔ وہ اپنی ایک خاص جماعت نہ صرف بنانے میں کامیاب ہو گیا بلکہ وہ اس کے ساتھ ماوراء النہر کے علاقوں پہ بھی قابض ہو گیا اور اس نے ''کش''نامی قلعہ میں پناہ لی۔ لیکن خلیفہ ''المہدی''جو ملحدوں اور زندیقوں کے خلاف اپنی شدت میں بہت مشہور تھا اس نے اس کا تعاقب کیا اورایک لشکر اس کا محاصرہ کرنے کے لیے بھیجا۔ جب اسے موت کا یقین ہوگیا تو اس نے خود کواور اپنے گھر والوں کو زہر پلا کر ہلاک کرلیا۔
اس سب کے باوجود ''المہدی''اس فتنہ کو مکمل ختم کرنے میں نا کام رہا کیونکہ یہ سب لوگ ہمیشہ خفیہ رہتے اور ''تقیہ'' کا سہارا لیتے تھے۔ یہ لوگ ہمیشہ خفیہ اور رازداری سے کام کرتے اور اپنے منصوبوں کے جال بنتے رہتے تھے اور حکومتی ارکان کے ساتھ نفاق کا اظہار کر کے ان کی قربتیں تلاش کرنے کے چکر میں رہتے تھے تاکہ عباسی خلافت میں اثر و رسوخ حاصل کیا جاسکے اور وہ کسی وزارت کے عہدے پر فائز ہو سکیں۔ پس اسطرح بہت سے رافضی مجوسی بنوعباس کے خلفاء کے ہاں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہونے میں کامیاب ہو گئے۔مثلاً البرامکہ، ابومسلم الخراسانی ،الفضل بن سحل المجوسی جو کہ المامون کا وزیر اور اس کے لشکر کا قائد تھا اور اس کا لقب تھا '' ذی الریاستین'' یعنی جنگ اور سیاست کا وزیر۔
یہاں تک ہی نہیں بلکہ انہوں اپنی بیٹیوں اور بیٹوں کے نکاح بھی ان میں کیے۔ پس المامون کی ماں '' المراجل''فارسیہ تھی اور اسکی تاثیر یہ تھی کہ جب المامون کو حکومت ملی تو اس نے بغداد سے اپنا دارالخلافہ بدل کے فارسی شہر ''مروء'' کو بنالیا اور اس کے ساتھ ساتھ اسلام میں عجیب و غریب افکار و فلسفے پھیلانے کا سلسلہ شروع کردیا جیسے کہ اس کا خلقِ قرآن کا عقیدہ پھیلانا۔
یہ ساری دعوت فارسیت و مجوسیت کی تربیت کا شاخسانہ تھی۔ اس تقرب کا نتیجہ یہ نکلا کہ رافضی مجوسی اپنے افکار و اعتقادات مسلمانوں کے درمیان پھیلانے میں کامیاب ہو گئے۔ اس طرح انہوں نے جھوٹی احادیث پھیلانے کا سلسلہ بھی شروع کیا اور پھر ان احادیث کو دین کا حصہ قرار دینے لگے۔ اس کے بعد انہوں نے تاریخ کے چہرے کو مسخ کرنا شروع کر دیا اور یہ تاثر دیا کہ اسلام کی تاریخ صحابہ کے درمیان نعوذ باللہ مشاجرات و مخالفات کا ملغوبہ تھی۔ پھر انہوں نے ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما پہ زبان ِ طعن دراز کرنا شروع کر دی اور اس کے ساتھ عام صحابہ کو مطعو ن ٹھہرانا شروع کر دیا۔ بلکہ ان کے شعراء فارس کی قدیم بزرگی پر بڑے قصیدے کہتے اور اس پہ فخر کرتے تھے جیسے کہ الاصمعی شاعر ان کی ہجو کرتے ہوئے کہا ہے...
اذا ذکر الشرک بمجلس
اضائت وجوہ بنی برمکی
وان تلیت عندہم آیة
اتوا بالحدیث عن مزدکی
٭ کہ جب ان کی مجلس میں شرک کا ذکر ہو تو بنو برامکہ کے چہرے کھل اٹھتے ہیں اور جب کوئی آیت تلاوت کی جائے تو وہ مزدکی کی حدیث لے کے بیٹھ جاتے ہیں۔
بلکہ اس قربت کا بد ترین نتیجہ یہ نکلا جو کہ اسلامی حکومت کے لیے بہت گھمبیرتھا''وہ تھا ان کاخلافت کے بعض علاقوں پہ قابض ہو جانا اور مختلف علاقوں میں متعدد مستقل ریاستیں بنا لینا۔
سب سے پہلے جس نے اسلامی خلافت سے خروج کیا وہ ''طاہر بن الحسین الخزاعی ''تھاجس نے خراسان کے علاقے کو علیحدہ کرلیا جیسے کہ اس سے پہلے ابومسلم نے کیا تھا۔ اس کے بعد خلافت میں تقسیم در تقسیم کا ایک سلسلہ چل پڑا اور خلافت کے ساتھ بہت سی خیانتوں اور جرائم کا ظہور ہوا۔'' القرامطہ''نے الاحساء اور البحرین، یمن، عمان اور شام کے علاقوں پہ تسلط جما لیا۔'' البویہیون''نے عراق و فارس کے علاقے قبضے میں لے لیے اور عبیدیوں نے مصر و شام کے علاقوں پر قبضہ کر لیا۔
لیکن اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے خاص فضل و کرم سے جب بھی کہیں رافضیوں کی کوئی حکومت یا ان کا کوئی علاقہ ظاہر ہوتا تو اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ ان کے لیے ایسے لوگ کھڑے فرما دیتے جو ان کے خلاف جہاد کرتے تھے اور انہیں بدترین عذاب سے دوچار کرتے تھے۔ رافضیوں کی قضاء کا فیصلہ اس وقت ''السلاجقہ''کے سنیوں کے ہاتھوں ہوا جو ولایت بنوعباس کے تابع تھے اور یہ رافضیوں کے خلاف بہت شدید تھے۔ یہ رافضی حکومتیں خارجی صلیبی طاقتوں کے تعاون سے مسلمان علاقوں میں قائم کی گئی کیونکہ اہل السنۃ کی موجودگی میں ان کی دال گلتی نظر نہ آتی تھی۔
بنو عباس کے عہد میں القرامطہ کے جن جرائم کو تاریخ نے ہمارے لیے محفوظ رکھا ہے ان میں سے ایک ہے ان کا بنو عباس کے خلاف خروج کرنا اور بنی عبد القیس کے مکانوں کو جلانا، پھر293 ہجری میں کوفہ پہ ہلہ بولنا اور وہاں انہوں نے اس قدر خون ریزی کی کہ مورخین اس کی تاریخ رقم کرنے پہ مجبور ہوگئے۔
عقائد کے میدان میں انہوں نے اہلِ بیت کے بارے میں تشیع کے بہت سے فاسد عقائد کو ہوا دی پھر اس کے بعدانہوں نے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے لیے علمِ غیب کا دعویٰ کردیا اور اہلِ بیت کے علاوہ ہر چیز کا انکار کرنے لگے اور علی رضی اللہ عنہ اور انکی اولاد کا تذکرہ کرنے لگے اور اس دین کو باطل ثابت کرنے لگے۔ اسی لیے القرامطہ فلسفیوں کی کتابوں اور ان کی مجالس کا بہت اہتمام کرتے تھے اور اپنے داعی حضرات کو نصیحت کرتے کہ'' کہ اگر کوئی فلسفی مل جائے تو وہ ہمارے لیے اعتماد کی شئے ہے، اس لیے کہ وہ انبیاء علہم السلام کے راستوں کومٹانے کی راہ پر ہیں اور اس عالم کے قدیم ہونے کے منکر ہیں''۔
سن294 ہجری میں القرامطہ کے اسماعیلیوں نے بیت اللہ کا حج کرنے والے حجاج ِ کرام پر حملہ کردیا جبکہ انہوں نے پہلے اپنے بارے میں حاجیوں کو امن میں لیا اور پھر حجاجِ کرام کے تمام قافلوں کو قتل کرڈالا اور پھر ہر اس شخص کا تعاقب کیا جو فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔ یہاں تک قرامطی لعینوں کی عورتیں مقتولین کے درمیان پانی لیے کھڑی ہو جاتیں اور جس کسی میں زندگی کی رمق پاتیں اسے اکٹھا ہوکر قتل کر دیتیں تھی۔ انہوں نے صرف حاجیوں کے قتل پہ ہی اکتفاء نہ کیا بلکہ اس کے بعد ارد گرد موجود کنوؤں میں مٹی اور گند ڈال دیا۔ اسی طرح سن321 ہجری میں انہوں نے حجاجِ کرام کے قافلوں کو روک لیا ، ان کے مردوں کو قتل اور عورتوں اور بچوں کو غلام بنالیا۔
تاریخ ان کے جرائم کو ہمارے لیے ایسے ہی ذکر کرتی ہے۔ چنانچہ اس زمانے میں یہ 1409 ہجری کا واقعہ ہے جب ایران نے کویت کے شیعوں کا ایک گروپ حجاج کی مدد کے لیے بھیجا تو اس گروپ نے مکۃ المکرمہ کے ایک پل کے ساتھ تباہ کن بارود لگادیا جبکہ یہ بارود انہیں کویت میں ایرانی سفیر نے سپرد کیا تھا تو وہ اسے لے کر مکہ بھاگ گئے اور ذی الحجہ کے ساتویں دن شام کے وقت انہوں نے مسجدِ حرام کے پڑوس دھماکہ کرڈالا جس سے وہاں ایک آدمی ہلاک اور سولہ آدمی زخمی ہوئے جبکہ مادی خسائر اس کے علاوہ تھے۔ ان کے انہی دینی جرائم میں سے ایک ہے کہ انہوں نے اپنے ان قبیح افعال سے کعبۃ اللہ المشرفہ کو بھی نہیں بخشا۔ چنانچہ انہوں نے335 ہجری میں کعبہ سے حجرِ اسود چوری کرلیا۔
اسی کو بیان کرتے ہوئے حافظ ابنِ کثیرؒ ،''البدایۃ والنہایۃ''میں لکھتے ہیں کہ قرامطہ حجر اسود کو چوری کرکے اپنے وطن لے گئے۔ عراقیوں کا ایک گروہ نکلا اور ان کا امیر منصور الدیلمی تھا۔ وہ صحیح سالم مکہ تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔ وہاں اس وقت دنیا جہاں کے قافلے جمع ہوچکے تھے۔ حجاج کو بالکل پتہ ہی نہ چلا یہاں تک کہ ترویہ کے دن ایک قرامطی اپنی جماعت کے ساتھ ان کے اوپر چڑھ دوڑا۔ اس نے ان کے اموال لوٹ لیے اور ان کا خوب قتل کیا۔ پھر انہوں نے مکہ کے ارد گرد،اسکی گلیوں اور چوراہوں میں بہت سے حاجیوں کو قتل کیا۔ اس اثناء میں ان کا امیر ابو طاہر( علیہ لعنۃ اللہ) کعبہ کے دروازے پر بیٹھا تھا اور لوگ اس کے ارد گرد چیخ رہے تھے جبکہ کعبہ کے ارد گرد قتل و خون ریزی جاری تھی ایک ایسے دن جو اللہ کے نزدیک افضل ترین دن تھا اور وہ ملعون اعلان کرتا
(انا باللّٰہ وبا اللّٰہ انااخلق الخلق وافنیھم) میں اللہ سے اور اللہ مجھ سے ہے ، میں مخلوق کو پیدا کرتا ہوں اور اسے فنا کرتا ہوں۔ جبکہ لوگ وہاں سے بھاگ رہے تھے اور بعض کعبہ کے پردوں کے ساتھ چمٹ جاتے لیکن پھر بھی وہ بچ نہ پاتے تھے۔
حاجی طواف بھی جاری رکھتے اور ان کو قتل کیا جارہا تھا۔ پس جب اس قرامطی نے اپنے کام کو پورا کرلیا تو اس نے حکم دیا کہ آبِ زم زم کے کنویں میں حاجیوں کو دفن کردیا جائے۔ بہت سے حاجیوں کو جہاں وہ قتل ہوئے وہیں مسجدِ حرام میں ہی دفن کردیا گیا۔ ہائے کیسے مقتول تھے اور کیسی اعلیٰ جگہ پہ مدفون ہوئے۔ اس کے ساتھ انہیں نہ غسل دیا گیا نہ ان پہ کسی نے جنازہ پڑھا کیونکہ وہ احرام میں تھے اور شہداء تھے۔ اس کے بعد انہوں نے زم زم کے قبہ کا انہدام کیا اور پھر کعبہ کا پردہ اتار لیا اور اپنے ساتھیوں کے سامنے اسے پھاڑ ڈالا۔ پھر اس نے ایک شخص کو حکم دیا کہ وہ کعبہ کی چھت پر چڑھے اور اس کے میزاب(پرنالے)کو اکھاڑ دے تو وہ شخص منہ کے بل نیچے گرا اور مر گیا تو اس کے بعد وہ خبیث رک گیا جس پر وہ میزاب کو نقصان پہنچانے سے باز رہا پھر اس نے حجر اسود کو اکھاڑنے کا حکم دیا۔ تو ایک لعنتی آیا تو اس نے اپنے ہاتھ میں ایک ہتھوڑے سے اسے مارا اور کہنے لگا کہاں ہیں ابابیل پرندے اور کہاں وہ کنکریاں؟پھر اس نے حجرِ اسود کو اکھاڑ لیا اور اسے لے کر ساتھ چلے گئے۔ پھر یہ پتھر ان کے ساتھ 22 سال تک رہا یہاں تک کہ اسے واپس لایا گیا ، انا للّٰہ وانا الیہ راجعون(ابنِ کثیر کا کلام ختم ہوا)۔
جہاں تک ''البویہیون'' کا تعلق ہے تو انہوں نے بھی خلافتِ عباسیہ کے خلاف خروج کیا اور334 ہجری میں عراق پر قابض ہوگئے اور انہوں نے عباسی خلیفہ المستکفی باللہ کو اتار دیا اور اس کی جگہ ''الفضل بن المقتدر'' کو لے کر آئے اور اس کو خلیفہ مقرر کردیا اور اسے ''المطیع للہ'' کا لقب دیا۔
ان کے دینی جرائم میں سے یہ ہے کہ انہوں نے شیعیت کو لوگوں پر فرض کر دیا اور اس پردے کے پیچھے لوگوں میں مجوسیت کے فاسد اعتقادات و افکار پھیلانے شروع کر دئیے۔ اسطرح انہوں نے مسلمانوں کے درمیان شیعہ سنی جھگڑے کو بنیاد بناتے ہوئے بہت سے فتنے کھڑے کر دئیے۔ان کے عہد میں صحابہ کو گالی دینے کا قبیح عمل بہت زیادہ پھیل گیا۔
یہی وہ پہلے لوگ تھے جنہوں نے یومِ عاشورہ کے دن محرم میں بازاروں کو بند کرنے کی بدعت کو ایجاد کیا، قبے نصب کیے اور غم کی علم بنائیں اور اپنی عورتوں کو لے کر اس طرح نکلتے کہ وہ حسین رضی اللہ عنہ کے لیے اپنے چہروں پہ تھپڑ مارہی ہوتی تھی۔اسطرح وہ یہ عمل کر کے اپنے اس عقیدے کو لوگوں کے درمیان نشر کرتے۔انہوں نے اللہ کی ذاتِ باری پر جرأت کی جب ان کے آخری بادشاہ نے اپنا لقب ''الملک الرحیم''رکھا اوراسے اللہ کے نام کے ساتھ متنازع بنایا۔
جبکہ عبیدی جو فاطمہ بنت رسول اللہ ﷺکی طرف نسبت کا جھوٹا دعویٰ کرتے تھے کہ ہم ان کی اولاد سے ہیں۔ ان کے جرائم بھی کچھ مختلف نہیں ہیں۔ انہوں نے بھی خلافتِ عباسیہ کے خلاف خروج کیا تھا۔ جبکہ اس خروج کے لیے انہوں نے انتہائی خفیہ منصوبہ بندی کی اور بلادِ مغرب میں اہلِ بیت کے نام کو استعمال کرتے ہوئے رازدارانہ طریقے سے اپنی دعوت کو پھیلایا۔ پھر جب انہوں نے بلاد مغرب پر قبضہ کرلیا تو وہ مصر کی طرف متوجہ ہوئے اور اس پر بھی قبضہ کر لیا اور وہاں خلیفہ کو اتار دیا۔
عقیدہ کے میدان میں ان کے بڑے جرائم یہ تھے کہ جب ان کے حاکم نے مصر میں داخل ہونے کا ارادہ کیا تو اس نے اپنا ایک قاصد اہل مصر کی طرف بھیجا اور ان سے پکا عہد کیا کہ وہ وہاں بدعتوں کا اظہار نہیں کرے گا، بلکہ سنت کا احیاء کرے گا لیکن مصر داخل ہوجانے کے بعد انہوں نے غداری کی اور شیعیت کو لوگوں پہ نہ صرف فرض کردیا بلکہ اس کا اظہار لازم قرار دے دیا۔ انہوں نے مساجد کے منبروں کو اپنی دعوت پھیلانے کے لیے استعمال کیا اور اپنی بدعتوں کو خوب پھیلایا اور اپنی اذانوں میں ''حیَّ علی خیرِّ الْعَمَل'' کے الفاظ کا اضافہ کردیا۔
ان کا حکمران ''الحاکم بامر اللہ''ظاہر ہوا جس نے الوہیت کا دعویٰ کیا اور اپنے قاصد ملک کے کونے کونے میں بھیجے جو وہاں جاکے مجوسی افکار پھیلاتے تھے جیسے تناسخ اور حلول وغیرہ کے عقائد۔ پھر وہ یہ زعم رکھتے تھے کہ روح القدس آدمؑ سے علی ؓ کی طرف منتقل ہوئی اور پھر علی کی رو ح''الحاکم بامراللہ'' کی طرف منتقل ہو گئی۔ اس کے ان افکار کے سب سے مشہور داعی تھا، محمد بن اسماعیل الدرزی المعروف ''انشتکین''اور حمزہ بن علی الزوزنی جو کہ فارس کے شہر ''زوزن''کے نواح کا رہنے والا تھا۔ پھر وہ یہ مہم یعنی الوہیت کا نعرہ لے کر قاہرہ واردہوا۔ ان کے دینی جرائم میں یہ بات بھی شامل ہے کہ حاکم بامر اللہ جس نے الوہیت کا دعوی ٰ کیا تھا،اس کے دور میں انہوں نے دو مرتبہ نبی ﷺ کے جسمِ اطہر کو قبر مبارک سے نکالنے کی ناپاک جسارت کی۔
پہلی کوشش اس وقت کی گی جب بعض زندیقوں نے اسے اشارہ دیا کہ نبی ﷺکے جسمِ اطہر کو مدینہ سے مصر منتقل کر دیا جائے۔ پھر اس نے اس کام کے لیے مصر میں ایک بہت بڑا مزار تعمیر کروایا اور اس پہ بہت سے اموال خرچ کیے اور پھر ابو الفتوح کو بھیجا کہ وہاں جاکر جسمِ اطہر کو نکال لائے لیکن مدینہ کے لوگ اس کے درمیان حائل ہو گئے اور اسے ایسی پریشانی نے آلیا کہ وہ اپنے قصد سے باز آگیا (وللّٰہ الحمد والمنة)۔
دوسری کوشش اس وقت کی جب اس نے ایک آدمی کو بھیجا جو جاکے نبی ﷺ کی قبر مبارک کو کھودے تو وہ قاصد آ کے روضے کے قریب رہائش پذیر ہو گیا اور نیچے سے زمین کھودنے لگا لیکن جلد ہی لوگوں کو پتہ چل گیا اور اسے قتل کردیا گیا۔
پھر جب اللہ عزوجل نے ترک کے السلاجقہ کو ان پہ مسلط کیا جو ہر طرف سنت کا احیاء کرتے اور رافضیت کا قلع قمع کر دیتے تھے۔ اس موقع پر جب عبیدیوں کو محسوس ہوا کہ اب وہ سنیوں کی قوت کے سامنے ٹھہرنہیں سکتے اور انہوں نے جان لیا کہ اب وہ ان کا سامنا کرنے سے عاجز ہیں تو پھر وہ اپنے پرانے طریقے کی طرف متوجہ ہوئے۔ انہوں اس بار یہ منصوبہ بندی کی کہ اللہ کے دین کے دشمنوں صلیبیوں کی طرف قاصد بھیجے اور انہیں مسلمان علاقوں پر چڑھائی کرنے کا مشورہ دیا اور کہا کہ ان علاقوں کو اپنا وطن بنالیں اور مسلم علاقوں پر قبضہ کرلیں بجائے اس کے کہ اہل السنۃ کا مذہب پھیلے اور سلاجقہ غلبہ پا جائیں۔ جس شخص نے یہ ساری مکاتبت صلیبیوں کے ساتھ کی وہ فاطمی افواج کا امیر ''الافضل'' تھا۔
چنانچہ اسی بات کا ذکر کرتے ہوئے ابنِ الاثیر کہتے ہیں کہ مصر کے علویوں نے جب سلجوقی حکومت کی قوت کو دیکھا کہ وہ شام سے غزۃ تک تمام علاقوں پر قابض ہو گئی ہے اور ان کے اور مصر کے درمیان ''الاقسیس ''نامی ایک چھوٹی ریاست باقی رہ گئی ہے جو انہیں مصر میں داخلے سے روکے تو وہ خوف کھاگئے اور انہوں فرنگیوں کی طرف پیغام بھیجا اور انہیں دعوت دی کہ شام کی طرف خروج کریں اور اس پر قبضہ جما لیں۔
ڈاکٹر مصطفیٰ العنانی صلیبی حملوں کے معاصر لاطینی مورخ '' الکفارو الکاسکی ''سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں''یہ سب کو معلوم ہونا چاہیے بابا کے عہد میں ''بان الثانی''جس کا بڑا چرچا ہے ، جان فرائڈ ، کونٹ فرانڈلینیس کی معیت میں اور چند دوسرے صلیبی شرفاء کے ساتھ جو مسیح کی جائے پیدائش کی زیارت کا بہت شوق رکھتے تھے وہ سب ''جنوۃ''کے شہر کی طرف گئے اور وہاں سے وہ ایک جنگی جہاز میں سوار ہوئے جو ''بومیلا''کے نام سے معروف تھا اور وہ سفر کرتے ہوئے اسکندریہ پہنچے۔ جب ان کا وفد اسکندریہ کی بندرگاہ تک پہنچا تو وہ فاطمی فوجیوں کی معیت میں بیت المقدس کی بندرگاہ کی طرف گئے یعنی ''بندرگاہ یافاہ''۔ لیکن جب انہوں نے شہر میں داخل ہونا چاہا تاکہ وہ مسیح کی زیارت گاہ تک جا سکیں تو شہر کے پہرے دار نے انہیں اجازت دینے سے انکار کردیا اور طلب کیا کہ پہلے وہ داخلے کی سرکاری فیس ادا کریں اس کے مطابق جو کہ عادتاً مقرر تھی اور اس کی مقدار ایک ''بیزنط ''تھی۔
ڈاکٹر العنانی اس واقعہ کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یہ سفر جسے صلیبی امراء نے طے کیا یہ کوئی خالی دور نہ تھا کہ جس کا پہلے کوئی معاہدہ نہ طے پایا ہو اور پہلے سے کوئی رابطہ صلیبیوں اورمصری فاطمیوں کے درمیان نہ ہوا ہو۔ پس یہ ایسے ہی تصور نہیں کیا جاسکتا کہ صلیبی یونہی منہ اٹھائے اسکندریہ کی بندرگاہ پہ پہنچ گئے بغیر اس کے کہ ان کا سامنا رستے میں امن کے مسئولین یا جدید زبان میں سکیورٹی کے اہلکاروں کے ساتھ نہ ہوا ہو اور نہ ہی یہ تسلیم کیا جاسکتا ہے کہ اس سے قبل اس قسم کی آمد کے لیے ان کا کوئی باہمی رابطہ نہ ہوا ہو۔ جو چیز اس بات کی تائید کرتی ہے کہ فاطمیوں نے اپنے فوجی دستوں کو بھیجا جو ''بومیلا''میں چھپ کر بیت المقدس کی طرف گئے اور اس سے ان کا مقصد ان امراء کو سلاجقہ کے خطرے سے امن میں رکھنا تھا جبکہ اسکندریہ سے بیت المقدس تک آنے جانے کا یہ سلسلہ دو سال تک جاری رہا۔
پھر جب صلیبی لشکر مسلمان علاقوں کی طرف صلیبی حملہ کے لیے یورپ سے نکلے تو رستے میں وہ بزنطینی علاقے میں ''البسفور'' کی ریاست سے گذرے جہاں کے بادشاہ کوفین نے ان سے عہد لیا کہ وہ اس کیساتھ دوستی اور اطاعت کا رشتہ استوار رکھیں گے اور اس نے انہیں حکم دیا کہ مصر میں فاطمیوں کے ساتھ اتفاق کرنے کی کوشش کریں کیونکہ وہ سلاجقہ سنیوں کے خلاف بہت شدید ہیں۔ سلاجقیوں کے خلاف وہ کسی قسم کی مصالحت کے روادار نہیں جبکہ مسیحی رعایا کے ساتھ وہ بہت نرمی برتتے ہیں اور وہ ہمیشہ مسیحی ریاستوں کے ساتھ تفاہم کے لیے تیار رہے ہیں۔
یہ ساری باتیں بین ثبوت ہیں کہ صلیبیوں اور رافضیوں کے درمیان محبت و الفت کے رشتے بہت قدیم تھے۔ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے اور آج پھر ایرانی رافضیوں نے صلیبی امریکیوں کے ساتھ مل کر اورشمال افغانستان کے رافضیوں کی مدد سے طالبان کی حکومت کو گرا دیا۔ اسی طرح عراق پر قبضہ جمانے میں ایران نے امریکہ کے ساتھ عراقی رافضیوں کی مدد کی اور پورا پورا تعاون فراہم کیا۔
لیکن کاش !وہ مسلمانوں کے خلاف اپنے اس برے معاہدے تک ہی محدود رہتے۔ جب انہوں نے دیکھا کہ انطاکیہ کا محاصر طوالت اختیار کر گیا ہے تو انہیں خوف لاحق ہوا کہ کہیں صلیبی لشکر مایوس ہوکر واپس ہی نہ لوٹ جائے اور سلاجقہ فتح یاب ہو جائیں۔ تو فاطمیوں کے عسکری امیر'' الافضل ''نے اپنے مخصوص سفراء کو صلیبیوں کی طرف بھیجا اور ان سے وعدہ کیا کہ وہ ان کو ہر وہ چیز غذا اور عسکری امداد فراہم کرنے کے لیے تیار ہے لیکن وہ محاصرہ چھوڑ کر نہ جائیں۔ تو صلیبی قیادت نے الافضل کے سفراء کو بڑی گرم جوشی کے ساتھ خوش آمدید کہا۔پھر اس کے بعد ان کے آپس میں کئی اجتماعات ہوئے۔
چنانچہ ولیم صوری کہتا ہے جسے ڈاکٹر یوسف الغوانمہ نے نقل کیا ہے ''جب انطاکیہ کے صلیبی محاصرے کی مدت طول پکر گئی تو الافضل کا سینہ کھٹکا اور اس نے کہا کہ سلاجقہ کاکسی بھی قسم کا نقصان اس کی فتح کے مساوی ہو گا۔ پس جب الافضل کے سفیروں کا قافلہ واپس آیا تو وہ تحائف وہدئیے لیے ہوئے واپس لوٹا اور ان تحائف میں سلاجقہ کے چار بہترین آدمیوں کے سر کاٹ کر فاطمی بادشاہ کو تحفہ کے طور بھیجے گئے۔
الافضل نے اسی پہ بس نہ کی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اس نے سلاجقہ کو صلیبیوں کے جہاد میں تنگ کرنے کے لیے اپنی فوجوں کو ''صور'' کی طرف بھیجا اور اسے بزور طاقت فتح کرلیا۔ پھر اگلے سال اس نے اپنی فوجوں کولیکر بیت المقدس پہ حملہ کر دیا اوروہاں سے ''الاراتقہ''کا علاقہ چھڑوالیا جس کے فورا ًبعد صلیبی تیزی کے ساتھ بیت المقدس کی طرف بڑھے۔ گویا کہ یہ پہلے سے طے شدہ امر تھا تو الافضل نے آگے بڑھ کر بیت المقدس پر قبضہ کر لیا تاکہ اسے آسانی سے صلیبیوں کے ہاتھوں میں دیا جا سکے۔ پھر جب اسے صلیبیوں کی آمد کا علم ہوا وہ اپنی فوج لے کر واپس قاہرہ کی طرف چلا گیا۔
یہ صلیبی فوجیں جو یہاں آ موجود ہوئیں تھیں وہ انتہائی تھکی ہوئی تھیں ، گرمی کی شدت اور طویل محاصروں کے باعث یہاں تک کہ بہت سے پیدل لوگ اور ان کے جانوروں کی اکثریت ہلاک ہو چکی تھی۔ بلکہ وہ صلیبی لشکر جو بیت المقدس کا محاصرہ کرنے کے لیے آیا تھا کوئی بہت بڑا لشکر نہ تھا۔ اس لیے اس بات کا قوی امکان تھا کہ ان کی راہ میں بآسانی مزاحمت کے ساتھ کھڑا ہوا جاسکتا تھا۔ اگر رافضیوں کی ایسی خیانت نہ ہوتی اور صلیبیوں کے ساتھ ان کا ایسا اتفاق نہ ہوتا تو یہ ممکن نہ تھاجبکہ ان کی کل تعداد ایک ہزار پانچ سو گھڑ سوار اور بیس ہزار پیادہ کی تھی۔
یہاں تک کہ ایک مئورخ ''ابن، تغری بردی''نے تعجب کرتے ہوئے کہا '' کہ عجیب بات یہ ہے کہ جب صلیبی مسلمانوں کی طرف نکلے تو انکی حالت بھوک اور کمزوری کے باعث انتہائی دگر گوں تھی اور ان کے پاس رسد بھی انتہائی کم تھی یہاں تک کہ وہ اکثر مردار کھانے پر مجبور ہوتے۔ جبکہ مسلمانوں کی افواج قوت میں اور کثرت میں تھیں لیکن صلیبی ان کے اندر افتراق پیدا کرنے اور ان کی قوت کو توڑنے میں کامیاب ہوگئے۔
شعبان ، 492ہجری میں چالیس دنوں پر محیط ایک لمبے اور خونریز محاصرے کے بعد صلیبی اس بات کے قابل ہوئے کہ وہ بیت المقدس میں داخل ہو جائیں اور شہر پر مکمل قبضہ کر لیں۔ اس کے بعد انہوں نے بیت المقدس میں مسلمانوں کا خوب قتل ِ عام کیا اور مسلمانوں کے علمی ورثہ کو جلا دیا یہاں تک کہ70,000 مسلمان قتل کر دئیے گئے جن میں بہت سے دین کے آئمہ، علماء اور اللہ کے بندے شامل تھے۔ پورا ایک ہفتہ تک قتل و غارتگری کا یہ بازار گرم رکھا گیا یہاں تک کہ جب صلیبی قائد نے عبادت خانے تک جانا چاہا تو اس میدان میں پڑی ہوئی نعشوں میں راستہ بنانا پڑا جبکہ خون اس کے گھٹنوں تک آرہا تھا۔
ان عبیدی بادشاہوں کے جرائم میں سے ایک یہ تھا کہ ہر وہ وزیر جو جہاد کی ندا لگاتا اور اس کے جھنڈے کو بلند کرتا اور کچھ مدت میں اوپر کے لیول تک پہنچ جاتا وہ اسے فارغ کردیتے تھے۔ پس یہ وزیر ''الافضل''جب صلیبیوں کا اتحادی تھا تو یہ ان کا بہت مقرب رہا لیکن جب اس نے صلیبیوں کو روکنے کے لیے دمشق کے لوگوں کے ساتھ اتحاد کیا تو اس وقت کے بادشاہ نے اسے قتل کروا دیا۔
اس طرح ان کا وزیر ''رضوان بن الولخشی''جو لوگوں میں صلیبیوں کے خلاف جہاد کا سب سے زیادہ داعی تھا یہاں تک کہ اس نے ایک نیا محکمہ قائم کیا اور اس کا نام ''دیوان الجہاد''رکھا اور اس نے ارمنی لوگوں سے وہ مناصب چھیننا شروع کر دئیے جو انہوں نے رافضی عبیدیوں سے حاصل کیے تھے بلکہ اس کے ساتھ اس نے خلیفہ کو بھی شام میں قیام پذیر صلیبیوں کے بارے میں دھمکی دی۔
تو اس وقت کے بادشاہ ''الحافظ''نے ارمنوں کو قوت دینے کے لیے ان کے ساتھ خفیہ طور پہ تعاون شروع کر دیااور اس کے ساتھ ہی اس نے فاطمی فوجیوں کو اپنے وزیر ''ابن الولخشی''کے پیچھے لگا دیا تا کہ جہاد کی تحریک کو جاری کرنے کی اسے سزا دی جا سکے۔ یہاں تک کہ وزیر شمال کے علاقوں کی طرف بھاگنے پر مجبور ہو گیا تا کہ جہاد کے لیے وہاں سے مدد حاصل کرے جہاں جہاد کے میدان کا ایک شیر موجود تھا ... اور وہ تھا مجاہد عماد الدین زنگی۔
اسی طرح ایک سنی شافعی وزیر''ابن السلار''نے صلیبیوں کے خلاف جدوجہد کرنے میں اپنی انتھک کوششیں کی اور اس نے نورالدین زنگی کے ساتھ رابطے اور تعاون کا ہاتھ بڑھایاتاکہ وہ بھی فرنگیوں کے خلاف جہاد میں حصہ لے سکے اور انہیں ایک دوسری جہت سے ضرب لگا سکے لیکن باشاہ ''الظافر'' کو اس کی خبر ہوگئی اور اس نے اس کے خلاف منصوبہ تیار کیا اور اسے 548 میں قتل کروا دیا۔
اسی طرح عادل وزیر''طلائع بن زریک''جس نے وزارت سنبھالتے ہی جہاد کا نعرہ بلند کیا اور صلیبیوں کے خلاف گروہ اور لشکر اکٹھے کرنا شروع کردئیے لیکن بیت المقدس کو آزاد کروانے کی اس کی خواہش کی تکمیل سے قبل ہی اسے558 ہجری میں قتل کر دیا گیا۔ جبکہ اس کے خلاف منصوبہ بنانے والا ''شاور السعدی'' تھاجو بادشاہ ''العاضد''کے دور میں ایک محکمہ کا وزیر تھا۔
لیکن جب فوج کے ایک قائد''ابوالاشبال الضرغام''نے بغاوت کرتے ہوئے شاور پر چڑھائی کر دی اور اس سے وزارت چھین لی اور اس کے بڑے بیٹے ''طی بن شاور'' کو قتل کردیا تو شاور نے مجبور ہوکر عادل بادشاہ نورالدین محمود زنگی سے مدد طلب کی اور اسے وعدہ کیا کہ وہ اس کا نائب بن کے رہے گا اور اسے مصر کے خراج کا تیسرا حصہ بھی دے گا اورکہا کہ میں اپنا نقصان پورا کرلوں تو باقی سب تمہارا ہے۔
اس کے باوجود نورالدین اپنی فوج اسکی مدد کے لیے بھیجنے میں متردد تھا تو اس نے استخارہ کیا تو اس کے بعد اس نے اپنا سب سے بڑا کمانڈر ''اسدالدین شرکوہ'' بھیجا اور اس کے ساتھ اپنے بھائی کا بیٹا صلاح الدین بھیجا اور انہیں حکم دیا کہ شاور کو حکومت دوبارہ لوٹا دیں تو اسد الدین نے اپنے حملہ میں ضرغام کو ختم کردیا اوررجب 559 ہجری میں وزارت واپس شاور کے حوالے کردی۔
لیکن غداری وخیانت کا خمیر شاور کے اندر موجود تھا تو اس نے لوگوں کے ساتھ برا برتاؤکیا اوراپنے وعدے سے مکر گیا ۔ پھر اس نے اسد الدین شرکوہ سے بھی غداری کرنا چاہی جب اس نے اسے کہا کہ شام واپس چلا جائے بغیر اس بات کے کہ وہ ساتھ معاہدہ کے مطابق مصر کے خراج کا تیسرا حصہ بھی بھیجے۔ لیکن اسدالدین نے واپس جانے سے انکار کردیا اور جاکے ''بلبیس''شہر میں قلع بند ہوگیا لیکن شاور جیسے کہ ہمیشہ سے رافضیوں مجوسیوں کی عادت رہی ہے ، اس نے بیت المقدس میں صلیبیوں کو نجات کے لیے بلایا اور انہیں مصر پر غلبہ کی طمع دلائی تو صلیبی بالفعل تیزی ادھر آدھمکے اور انہوں نے شاورور کی فوجوں کے ساتھ مل کر بلبیس میں اسدالدین کا محاصرہ کرلیا۔
لیکن اللہ کی رحمت سے محاصرے کے دوران ہی جب انہیں خبر ملی کہ شہرِ حارم میں صلیبیوں کو نورالدین کے ہاتھوں شکست ہو گئی ہے اور وہ شہر نورالدین کے قبضے میں چلا گیا ہے اور اب وہ ''بانیسا'' کی طرف بڑھ رہا ہے تاکہ اس پر قبضہ کر لیں تو رعب صلیبیوں کے دلوں میں گھر کر گیا اور انہوں نے اسدالدین سے کہا کہ وہ صلح کر لے اور امن کے ساتھ شہر ان کے حوالے کردے تو اسد نے دیکھا کہ اس کے پاس وقت کم ہے اور دونوں فریقوں کے مقابلے کی اس کے پاس تعداد بھی نہیں تو اس نے 559 ہجری میں ان کے ساتھ صلح کر لی اور بہت غصے و قہر کے ساتھ بلبیس شہر سے نکل گیا۔
اس معاملے اور شاور کی اس خیانت کو دیکھتے ہوئے، اور اس کا صلیبیوں کے ساتھ اتحاد دیکھتے ہوئے نیک بادشاہ نور الدین زنگی نے مصر پر دوبارہ حملہ کا ارادہ کیا تاکہ عالمِ اسلام سے خیانت کے گڑھ یعنی فاطمی خلافت کا خاتمہ کردیا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ اسکی طمع یہ بھی تھی کہ رافضیت کا قلع قمع کر کے سنی مذہب پھیلایا جائے۔ پس 562 ہجری میں ماہِ ربیع الاول کے نصف میں دمشق سے اسدالدین اور اس کے بھائی کے بیٹے صلاح الدین کی قیادت میں جہادیوں کے قافلے نکلے اور ان کا ہدف فتح تھی۔ لیکن اس فتح کے مقدمات میں ہی اللہ عزوجل نے صلیبیوں اور ان کے اتحادی رافضی مرتدوں کے دل میں رعب ڈال دیا۔ یہاں تک کہ باوجود شاور کے اتحاد کے صلیبی انتہائی خوف زدہ تھے۔
سب سے پہلے معرکے اسد الدین اور شاور اور اسکے اتحادیوں کے ساتھ''بابین''کے بلند علاقوں میں ہوئے اور ان معرکوں کاخاتمہ صلیبیوں اور ان کے رافضی اتحادی کی شکست پر ہوا یہاں سب سے عجیب بات جسے مئورخین نے ذکر کیا ہے کہ صرف دو ہزارسواروں نے صلیبیوں اور مصر کی افواج کو شکست دے دی۔
اسی کرو فر کے ساتھ تیاریاں جاری تھی کہ اللہ کے فضل سے شاور اور فاطمی بادشاہ کے درمیان اختلاف و فرقہ پیدا ہوگیا اور صلیبیوں نے بھی شاور کا بطور وزیر انکار کر دیا۔ اس جد جہد کا آخر میں یہ نتیجہ نکلا نور الدین کی سپاہ اسدالدین اور اسکے بھائی کے بیٹے صلاح الدین کی قیادت میں مصر پر انکا قبضہ ہوگیا۔
لیکن رافضیوں کا حسدو کینہ ابھی ختم نہ ہوا تھا اور وہ اب بھی چالیں چلنے میں مشغول تھے۔ اب وہ اس کوشش میں تھے کہ عبیدیوں کی بادشاہت گرنے کے بعد اسدالدین کی حکومت کو گرایا جائے اور اس کے بعد اس کے بھائی کے بیٹے صلاح الدین کو ہٹایا جائے جس نے567 ہجری میں عبیدی بادشاہ کے نام کا خطبہ مسجدوں میں بند کروا دیا اور دوبارہ عباسی خلیفہ ''المستضی بامر اللہ''کے نام کا خطبہ جاری کروایا۔ اسی لیے اس کے بعد قائد صلاح الدین ایوب کو قتل کرنے کی کئی کوششیں ہوئیں۔
ذی القعدہ574 ہجری میں خلافت کے امین نے جو کہ العاضد کے محل میں رہائش پذیر تھا اور یہاں کا انتظام اس کے اور بعض مصریوں کے پاس تھا۔ اس نے ایک شخص کو استعمال کرتے ہوئے صلیبیوں کے ساتھ معاہدہ کیا کہ وہ مصری علاقوں پر چڑھائی کریں اور جب وہ اس کی طرف پہنچیں گے اور صلاح الدین الایوبی انکی طرف نکلنے کا ارادہ کرے گا تو وہ پیچھے سے اس پر حملہ کرکے اسے اور اس کے انصار کو قتل کردیں گے پھر وہ باقی افواج کے پیچھے نکلیں گے اور انہیں قتل کردیں گے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کا منصوبہ ناکام بنا دیا اور ان کا قاصد جو خط لیکر جارہا تھا پکڑا گیا۔ صلاح الدین نے فوراً اپنے ساتھیوں کی ایک جماعت کو خلافت کے امین کی طرف بھیجا تو انہوں نے اسے بستی کے ایک کونے میں پالیا۔ پھر اسے گرفتار کرنے کے بعد قتل کردیا گیا اور اس کا سر کاٹ کے لے آئے اور ساتھ محل کے تمام متولیوں کو فارغ کر دیا گیا۔
پھر دوسری دفعہ صلاح الدین الایوبی کو رافضیوں نے اس وقت قتل کرنے کی کوشش کی جب سوڈان کا لشکر خلافت کے امین کا انتقام لینے کے لیے صلاح الدین کے خلاف اپنے پچاس ہزار افراد کو لیکر معرکہ آراء ہوا۔ پھر ان کے درمیان متعدد معرکے ہوئے اور فریقین کے بہت سے لوگ قتل ہو گئے۔ پھر صلاح الدین نے ان کے محلے کی طرف مجاہدین کو روانہ کیا جو کہ ''المنصورہ''کے نام سے مشہور تھا۔ اس کے بعد ان رافضیوں کے محلے کو مکینوں سمیت جلا دیا گیا یہاں تک کہ ان کے آخرمیں ''توران شاہ ،الجیزہ'' کے علاقہ کو بھی ختم کردیا گیا۔
لیکن رافضیوں کو اس حد تک بھی چین نہ آیا یہاں تک کہ مصر میں علوی شیعوں کی ایک جماعت نے فرنگیوں کو بلانے کا ارادہ کیا جن میں مشہور شاعرعمارہ الیمنی، عبد الصمد، کاتب ، قاضی العویرسی اور داعی الدعاۃ عبد الجبار بن اسماعیل بن عبد القویٰ، قاضی القضاء ہبۃ اللہ بن کامل اور صلاح الدین کی فوج کے چند امراء کی ایک جماعت شامل تھی۔ یہ طے پایا کہ انہیں صقلیہ ، سواحلِ شام سے بلا کر مصر پر حملہ کی دعوت دی جائے تاکہ انہیں اس کے عوض کچھ مال اور حکومت حاصل ہو جائے ۔ پھر جب وہ حکومت لینا چاہیں گے اور صلاح الدین ان کے مقابل نکلے گا تو وہ قاہرہ اور مصر کے اندر سے اس پر حملہ کر کے فاطمیوں کی حکومت بحال کردیں گے۔
لیکن اللہ کا کرم یہ ہوا کہ ان کا منصوبہ تکمیل سے پہلے ہی پکڑا گیا۔ انہوں نے جس شخص کو اس منصوبہ میں شامل کرنا چاہا ان میں امیر زین الدین علی بن الواعظ تھا جس نے اپنی قوم کے خلاف مردہ ضمیری کا یہ سودہ کرنے سے انکار کردیا اور ساری بات کی خبر صلاح الدین ایوبی کو دے دی۔ تو صلاح الدین ان سب کو بلایا اور سب کو علیحدہ علیحدہ پوچھا جس پر سب نے اعتراف کرلیا پھر اس نے سب کو گرفتار کرلیا اور فقہاء سے ان کے متعلق فتویٰ دریافت کیا تو انہوں نے ان کے قتل کا فتویٰ دیا۔ پھر اس نے ان کے سب بڑوں کو قتل کردیا اور ان کے بچوں اور پیروکاروں کو معاف کردیا اور باقی تمام عبیدی لشکریوں کو دور افتادہ علاقوں میں ملک بدر کردیا۔ اسطرح مصر ایک دفعہ پھر ایک صاف ستھرے صفحہ کی طرح ہوگیا جبکہ صلاح الدین نے اسے نئے سرے سے مذہبِ اہل السنۃ کی طرف لوٹادیا اور ملک کو دوبارہ خلافتِ عباسیہ کے تابع کردیا اور پھر وہ نئے سرے سے اپنی صفیں مرتب کرنے میں مصروف ہو گیا۔
اگر اسے رافضیوں نے اس قدر مشغول نہ کر دیا ہوتا اور اس کے قتل کے لیے اس قدر منصوبے برپا نہ کیے ہوتے تو وہ 583 ہجری میں حاصل ہونے والی فتحِ مبین میں اس قدر تاخیر نہ کرتا۔ کیونکہ وہ سار اعرصہ رافضیوں کے خلاف قتال میں مشغول رہا پھر جب وہ ان کے ساتھ لڑائی سے فارغ ہوا تو اس نے اپنی لڑائی کو صلیبیوں کی طرف متوجہ کیا یہاں تک کہ حطین کے فیصلہ کن معرکے کے بعد ''بیت المقدس''مسلمانوں کے پاس واپس آ گیا۔ اسی لیے صلاح الدین ایوبیؒ کی اس نصرت کو اللہ کے دین کی بزرگی و عزت کا سبب مانا جاتا ہے اور اہل السنۃ اسی قدر عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جتنا رافضی اس بطلِ اسلام سے بغض رکھتے ہیں۔
(یہاں امام ابو مصعب الزرقاوی شہیدؒ کا پہلا درس مکمل ہوا)