• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نماز نبوی صحیح احادیث کی روشنی میں

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
سجدے کے بدلے درجات کا بلند ہونا :

سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنت میں لے جانے والا عمل پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اللہ کے لیے (پورے خلوص و حضور کے ساتھ) سجدوں کی کثرت لازم کر، پس تیرے ہر سجدے کے بدلے اللہ تعالیٰ تیرا درجہ بلند کرے گا اور اس کے سبب سے گناہ بھی مٹائے گا۔‘‘
(مسلم، الصلاۃ ، باب فضل السجود والحث علیہ، ۸۸۴.)
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے ایک نوجوان کو لمبی نماز پڑھتے دیکھا تو فرمایا :
’’ اگر میں اسے پہچانتا تو اسے رکوع و سجود کثرت سے کرنے کا مشورہ دیتا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"بندہ جب نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو اس کے تمام گناہ اس کے پاس لائے جاتے ہیں اور اس کے کندھوں پر رکھ دیئے جاتے ہیں ۔جب بھی وہ رکوع یا سجدہ کرتا ہے تو اس کے گناہ گر جاتے ہیں ۔" (اور وہ گناہوں سے پاک ہو جاتا ہے)
(سلسلہ الاحادیث الصحیحہ للالبانی۸۹۳۱.)
سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’مسلمان نماز پڑھتا ہے تو اس کی خطائیں اس کے سر پر منڈلاتی ہیں۔ جب وہ سجدہ کرتا ہے تو وہ خطائیں گرتی رہتی ہیں حتیٰ کہ جب نماز سے فارغ ہوتا ہے تو اس کی خطائیں ختم ہو چکی ہوتی ہیں۔‘‘
(سلسلہ الاحادیث الصحیحہ للالبانی ۲۰۴۳.)
سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا مجھے کوئی ایسا عمل بتائیے جس پر میں کاربند رہ سکوں؟
آپ نے فرمایا:
"جان لو کہ تم اللہ کے لیے جو بھی سجدہ کرتے ہو اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ تمہارا ایک درجہ بلند کر دے گا اور ایک گناہ مٹا دے گا۔‘‘
(سلسلہ الاحادیث الصحیحہ للالبانی۸۸۴۱.)


نہایت درجہ قرب الٰہی:

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’بیشک بندہ سجدہ کی حالت میں اپنے رب سے بہت نزدیک ہوتا ہے۔ پس (سجدے میں) بہت دعا کرو۔‘‘
(مسلم، الصلاۃ، باب مایقال فی الرکوع والسجود ۔ ۲۸۴.)
اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہے لیکن سجدے کی حالت میں بندہ رتبہ کے لحاظ سے اس کے بہت نزدیک ہو جاتا ہے۔ اس حالت میں وہ اس کی دعائیں زیادہ قبول کرتا ہے، یہی وجہ ہے کہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں بڑی عاجزی اور اخلاص سے دعائیں مانگتے تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
سجدے کے احکام:

۱۔ پہلے تکبیر کہنا پھر سجدہ کرنا:
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے کا ارادہ کرتے تو پہلے تکبیر کہتے پھر سجدہ کرتے اور جب تشہد سے کھڑے ہوتے تو پہلے تکبیر کہتے پھر کھڑے ہوتے۔‘‘
(سلسلہ الاحادیث الصحیحہ للالبانی۴۰۶.)

۲۔ سجدہ میں دونوں ہاتھ گھٹنوں سے پہلے رکھنا:
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جب تم میں سے کوئی سجدہ کرے تو اونٹ کی طرح نہ بیٹھے بلکہ اپنے دونوں ہاتھ گھٹنوں سے پہلے رکھے۔‘‘
(أبوداود، الصلاۃ، باب کیف یضع رکبتیہ قبل یدیہ، ۰۴۸۔ امام نووی اور زرقانی نے اس کی سند کو جید کہا۔)
سجدہ میں گھٹنے پہلے رکھنے والے سیّدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی روایت (ابو داؤد ۸۳۸) کو امام دار قطنی، بیہقی اور حافظ ابن حجر رحمھم اللہ نے ضعیف کہا ہے۔ جب کہ سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی، ہاتھ پہلے رکھنے والی روایت صحیح ہے اور سیّدنا ابن عمر کی درج ذیل حدیث اس پر شاہد ہے۔
نافع رحمہ اللہ روایت کرتے ہیں کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما اپنے ہاتھ گھٹنوں سے پہلے رکھتے اور فرماتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا ہی کرتے تھے۔‘‘
(ابن خزیمۃ، حدیث ۷۲۶، مستدرک ۱/ ۶۲۲ اسے حاکم ذہبی اور ابن خزیمہ نے صحیح کہا۔)
گھٹنوں سے پہلے ہاتھ رکھنے کو امام اوزاعی، مالک، احمد بن حنبل اور شیخ احمد شاکر رحمھم اللہ نے اختیار کیا ہے۔ ابن ابی داؤد نے کہا: میرا رجحان حدیث سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی طرف ہے کیونکہ اس بارے میں صحابہ اور تابعین سے بہت سی روایات ہیں۔

۳۔ سجدے کے اعضاء کو زمین پر ٹکانا:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں سات ہڈیوں پر سجدہ کروں پیشانی اور آپ نے ہاتھ سے ناک کی طرف اشارہ کیا دونوں ہاتھوں، دونوں گھٹنوں اور دونوں قدموں کے پنجوں پر اور (یہ کہ ہم نماز میں) اپنے کپڑوں اور بالوں کو اکٹھا نہ کریں۔‘‘
(بخاری، الاذان باب السجود علی الانف ۲۱۸، ومسلم، الصلاۃ، باب اعضاء السجود ۰۹۴.)
ہر بہن بھائی کے لیے ضروری ہے کہ وہ سجدہ میں ان سات اعضاء کو خوب اچھی طرح (مکمل طور پر) زمین پر ٹکا کر رکھیں اور اطمینان سے سجدہ کریں۔ اور مرد نماز میں اپنے آستینوں کو نہ چڑھائیں کیونکہ کپڑا اکٹھا کرنا منع ہے۔
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ میں اپنی ہتھیلیوں اور گھٹنوں کو زمین پر ٹکایا۔‘‘
(ابو داود، الصلاۃ، باب: صلاۃ من لا یقیم صلیۃ فی الرکوع والسجود ۸۵۸، ۹۵۸ اسے امام ابن خزیمہ نے صحیح کہا۔)
نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
"اس شخص کی نماز نہیں جس کی ناک پیشانی کی طرح زمین پر نہیں لگتی۔‘‘
(دار قطنی، الصلاۃ باب وجوب وضع الجبھۃ ۱/۸۴۳۔ اسے حاکم اور ابن جوزی نے صحیح کہا ۔)
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک صحابی کے پاس آئے جو سجدہ کی حالت میں پیشانی کو زمین پر رکھے ہوئے تھا اور ناک زمین پر نہیں لگ رہا تھا۔ آپ نے فرمایا:
’’اپنی ناک زمین پر رکھ تاکہ یہ بھی تیرے ساتھ سجدہ کرے۔‘‘
(سلسلہ الاحادیث الصحیحہ للالبانی۴۴۶۱.)

۴۔ دونوں ہاتھوں کو کندھوں یا سر کے برابر رکھنا:
سیدنا ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں اپنی ناک اور پیشانی زمین کے ساتھ لگاتے اور ہاتھ اپنے پہلوؤں سے الگ رکھتے (یعنی اپنے بازوں کو بغلوں سے نہ ملاتے تھے) اور دونوں ہاتھوں کو کندھوں کے برابر رکھتے۔‘‘
(ابوداود، الصلاۃ، باب افتتاح الصلاۃ ۴۳۷۔ اسے امام ابن خزیمہ ۰۴۶ اور ترمذی ۴۰۳نے صحیح کہا۔)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں اپنے سر کو دونوں ہاتھوں کے درمیان میں رکھتے۔‘‘
(ابو داود، الصلاۃ، باب رفع الیدین فی الصلاۃ، ۶۲۷۔ اسے امام ابن حبان (حدیث ۵۸۴) نے صحیح کہا۔)

۵۔ ہاتھوں کی انگلیوں کو ملانا:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب رکوع کرتے تو انگلیوں کو کشادہ کرتے اور جب سجدہ کرتے تو ہاتھوں کی انگلیوں کو ملا کر رکھتے۔ ‘‘
(حاکم، ۱/۷۲۲ السنن الکبری للبیہقی ۲/ ۲۱۱ حاکم اور ذہبی نے اسے صحیح کہا۔)

۶۔ پاؤں کی دونوں ایڑیاں ملانا:
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ
"میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سجدہ کی حالت میں دیکھا آپ کے پاؤں کی دونوں ایڑیاں ملی ہوئی تھیں اور پاؤں کی انگلیوں کے سرے قبلہ رخ تھے۔‘‘
(السنن الکبریٰ للبیھقی ح:۹۱۷۲،۲/۶۱۱۔ اسے ابن خزیمہ ۴۵۶ حاکم ۱/۸۲۲ اور ذہبی نے صحیح کہا۔)

۷۔ سجدے میں کہنیاں بلند کرنا اور بازؤں کو بغلوں سے نہ ملانا:
سیدنا براء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جب تم سجدہ کرو تو اپنے دونوں ہاتھ زمین پر رکھو اور اپنی دونوں کہنیوں کو بلند کرو۔‘‘
(مسلم: ۴۹۴.)
سیدنا ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سجدے کی حالت میں نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی کلائیوں کو زمین پر نہیں لگاتے تھے بلکہ انہیں اٹھا کر رکھتے اور پہلوؤں سے دور رکھتے اور پاؤں کی انگلیوں کے سرے قبلے کی طرف مڑے ہوئے ہوتے تھے ۔‘‘
(بخاری الاذان، باب سنۃ الجلوس فی التشھد، ۸۲۸.)
سیدنا عبد اللہ بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سجدہ کرتے تو اپنے ہاتھوں کو اتنا کھولتے کہ ان کے بغلوں کی سفیدی نظر آتی۔‘‘
(بخاری: ۷۰۸، مسلم: ۵۹۴.)
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سجدہ کرتے تو اگر بکری کا بچہ بانہوں کے نیچے سے گزرنا چاہتا تو گزر سکتا تھا۔‘‘
(مسلم، الصلاۃ، باب الاعتدال فی السجود، ۶۹۴.)
بہت سی عورتیں سجدہ میں بازو بچھا لیتی ہیں۔ اور پیٹ کو رانوں سے ملا کر رکھتی ہیں اور دونوں قدموں کو بھی زمین پر کھڑا نہیں کرتیں۔ واضح ہو کہ یہ طریقہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان اور سنت کے خلاف ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
’’تم میں سے کوئی (مرد یا عورت) اپنے بازو سجدے میں اس طرح نہ بچھائے جس طرح کتا بچھاتا ہے۔‘‘
(بخاری الاذان باب لا یفترش ذراعیہ فی السجود، ۲۲۸۔ مسلم:۳۹۴.)
نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے صاف عیاں ہے کہ نمازی (مرد یا عورت) کو اپنے دونوں ہاتھ زمین پر رکھ کر دونوں کہنیاں (یعنی بازو) زمین سے اٹھا کر رکھنے چاہئیں نیز پیٹ بھی رانوں سے جدا رہے اور سینہ بھی زمین سے اونچا ہو۔ میری معزز مسلمان بہنو! اپنے پیارے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق نماز پڑھو۔

۸۔ زمین یا چٹائی پر سجدہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عام طور پر زمین پر سجدہ کرتے تھے اس لیے کہ مسجد نبوی میں فرش نہ تھا۔ صحابہ رضی اللہ عنہم سخت گرمی میں نماز ادا کرتے اور زمین کی گرمی کی وجہ سے اگر وہ زمین پر بعض لوگ یہ فضول عذر پیش کرتے ہیں کہ اس طرح سجدے میں بی بی کی چھاتی زمین سے بلند ہو جاتی ہے جو بے پردگی ہے حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کے لیے اوڑھنی کو لازم قرار دیا ہے یہ اوڑھنی دوران سجدہ بھی پردے کا تقاضہ پورا کرتی ہے پھر آج کی کوئی خاتون صحابیات کی غیرت اور شرم و حیا کو نہیں پہنچ سکتی جب انہوں نے ہمیشہ سنت کے مطابق نماز ادا کی تو آج کی خاتون کو بھی انہی کی راہ چلنی چاہیے۔ (ع،ر)
پیشانی نہ رکھ سکتے تو سجدہ کی جگہ پر کپڑا رکھ لیتے اور اس پر سجدہ کرتے۔‘‘
(بخاری: الصلاۃ، باب: السجود علی الثوب فی شدۃ الحر: ۵۸۳، مسلم، المساجد، باب استحباب تقدیم الظھر فی اول الوقت فی غیر شدۃ الحر ۰۲۶.)
رمضان المبارک کی اکیسویں رات تھی۔ بارش برسی اور مسجد کی چھت ٹپک پڑی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیچڑ میں سجدہ کیا۔ آپ کی پیشانی اور ناک پر کیچڑ کا نشان تھا۔‘‘
(بخاری، الاعتکاف، باب من خرج من اعتکافہ عندالصبح، ۰۴۰۲۔ مسلم، الصیام، باب فضل لیلۃ القدر ۷۶۱۱.)
ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی چٹائی پر نماز ادا کی جو زمین پر زیادہ عرصہ پڑی رہنے سے سیاہ ہو گئی تھی۔‘‘
(بخاری، ۰۸۳ و مسلم، المساجد: باب جواز الجماعۃ فی النافلۃ ۸۵۶.)

۹۔ لمبا سجدہ کرنا:
عام طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سجدہ رکوع کے برابر لمبا ہوتا تھا۔ کبھی کبھی کسی عارضہ کی بنا پر زیادہ لمبا کرتے۔ ایک دفعہ آپ ظہر یا عصر کی نماز میں سیّدنا حسن یا سیدنا حسین رضی اللہ عنہما کو اٹھائے ہوئے تشریف لائے۔ آپ نماز کی امامت کے لیے آگے بڑھے اور انہیں اپنے قدم مبارک کے قریب بٹھا لیا۔ پھر آپ نے نماز شروع کی اور لمبا سجدہ کیا۔ جب آپ نے نماز ختم کی تو لوگوں نے عرض کیا یا رسول ﷲ! آپ نے اس نماز میں ایک سجدہ بہت لمبا کیا یہاں تک کہ ہمیں خیال گزرا کہ کوئی واقعہ رونما ہو گیا ہے۔ یا پھر وحی نازل ہو رہی ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’ایسی کوئی بات نہیں تھی بس میرا بیٹا میری کمر پر سوار ہو گیا تو میں نے یہ بات پسند نہ کی کہ سجدہ سے جلدی سر اٹھا کر اسے پریشانی میں مبتلا کر دوں۔‘‘
(نسائی: التطبیق، باب: ہل یجوز أن تکون سجدۃ أطول من سجدۃ: ۲۴۱۱، اسے امام حاکم اور ذھبی نے صحیح کہا۔)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
سجدے کی دعائیں

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’خبردار میں رکوع اور سجدے میں قرآن حکیم پڑھنے سے منع کیا گیا ہوں۔ پس تم رکوع میں اپنے رب کی عظمت بیان کرو اور سجدے میں خوب دعا مانگو۔ تمہاری دعا قبولیت کے لائق ہوگی۔‘‘
(مسلم، الصلاۃ، باب النھی عن قراء ۃ القرآن فی الرکوع و السجود، ۹۷۴.)

۱۔ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں (یہ دعا) پڑھتے:
’’سُبْحَانَ رَبِّیَ الْأَعْلیٰ‘‘
’’میرا بلند پروردگار (ہر عیب سے) پاک ہے۔‘‘
(مسلم، صلاۃ المسافرین، باب استحباب تطویل القراء ۃ فی صلاۃ اللیل: ۲۷۷.)
آپ یہ کلمات تین دفعہ کہتے تھے۔(ابن ماجہ: ۸۸۸.)

۲۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سجدے میں (یہ) کہتے تھے:
’’اَللّٰہُمَّ اغْفِرْلِیْ ذَنْبِیْ کُلَّہُ دِقَّہُ وَجِلَّہُ وَأَوَّلَہُ وَآخِرَہُ وَعَلاَنِیَتَہُ وَسِرَّہُ۔‘‘
’’اے اللہ! میرے چھوٹے اور بڑے، پہلے اور پچھلے، ظاہر اور پوشیدہ، تمام گناہ بخش دے۔‘‘
(مسلم، الصلاۃ، باب: ما یقال فی الرکوع والسجود ۳۸۴.)

۳۔ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع یا سجدہ میں فرماتے تھے:
’’سُبْحَانَکَ وَبِحَمْدِکَ لَا إلٰہَ إِلَّا أَنْتَ۔‘‘
’’اے اللہ! تیری ہی پاکیزگی اور تعریف ہے۔ تیرے سوا کوئی (سچا) معبود نہیں ہے۔‘‘
(مسلم: ۵۸۴. )

۴۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں فرماتے:
’’اَللّٰہُمَّ اَعُوْذُ بِرَضَاکَ مِنْ سَخَطِکَ وَبِمُعَافَاتِکَ مِنْ عُقُوْبَتِکَ وَاَعُوْذُ بِکَ مِنْکَ لَا اُحْصِیْ ثَنَاءً عَلَیْکَ اَنْتَ کَمَا اَثْنَیْتَ عَلَی نَفْسِکَ‘‘
’’اے اللہ میں تیری رضا مندی کے ذریعے تیرے غصے سے، تیری عافیت کے ذریعے تیری سزا سے اور تیری رحمت کے ذریعے تیرے عذاب سے پناہ چاہتا ہوں۔ میں تیری تعریف کو شمار نہیں کر سکتا۔ تو ویسا ہی ہے جس طرح تو نے اپنی تعریف خود فرمائی ہے۔‘‘
(مسلم: ۶۸۴.)

۵۔ سیّدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سجدے میں جاتے تو یہ دعا پڑھتے:
’’اَللّٰہُمَّ لَکَ سَجَدْتُّ وَبِکَ آمَنْتُ وَلَکَ اَسْلَمْتُ سَجَدَ وَجْہِیَ لِلَّذِیْ خَلَقَہُ وَصُوَّرَہُ فَاَحْسَنَ صُوَرَہُ وَشَقَّ سَمْعَہُ وَبَصَرَہُ تَبَارَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ‘‘
’’اے اللہ تیرے لیے میں نے سجدہ کیا۔ میں تجھ پر ایمان لایا۔ میں تیرا فرمانبردار ہوا۔ میرے چہرے نے اس ذات کو سجدہ کیا جس نے اسے پیدا کیا۔ اس کی اچھی صورت بنائی۔ اس کے کان اور آنکھ کو کھولا۔ بہترین تخلیق کرنے والا اللہ، بڑا ہی بابرکت ہے۔‘‘
(مسلم: ۱۷۷)

سجدہ تلاوت:

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے کی آیت تلاوت کرتے تو سجدۂ تلاوت میں یہ پڑھتے:
’’سَجَدَ وَجْْْہِیَ لِلَّذِیْْْ خَلَقَہُ وَشَقَّ سَمْْْعَہُ وَبَصَرَہُ بِحَوْلِہٖ وَقُوَّتِہٖ فَتَبَارَکَ اللّٰہُ اَحْْْسَنُ الْْْخَالِقِیْْْنَ۔‘‘
’’میرے چہرے نے اس ذات کو سجدہ کیا جس نے اپنی طاقت اور قوت سے اسے پیدا کیا اس کے کان اور آنکھیں بنائیں پس اللہ بہترین تخلیق کرنے والا بڑا با برکت ہے۔‘‘
(ابو داؤد ابواب السجود، باب ما یقول اذا سجد ۴۱۴۱۔ اسے امام ترمذی،۵۲۴۳، حاکم اور ذھبی نے صحیح کہا ہے۔ اور ’’فتبارک اللہ احسن الخالقین‘‘ کے الفاظ مستدرک حاکم ۱/۰۲۲ میں ہیں۔)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
’’جب آدم کا (مومن) بیٹا سجدے کی آیت پڑھتا ہے۔ پھر (پڑھنے اور سننے والا) سجدہ کرتا ہے تو شیطان روتا ہوا ایک طرف ہو کر کہتا ہے ہائے میری ہلاکت، تباہی اور بربادی! آدم کے بیٹے کو سجدہ کا حکم دیا گیا۔ اس نے سجدہ کیا ۔ پس اس کے لیے بہشت ہے اور مجھے سجدے کاحکم دیا گیا میں نے نافرمانی کی پس میرے لیے آگ ہے۔‘‘
(مسلم، الایمان، باب بیان اطلاق اسم الکفرعلی من ترک الصلاۃ، ۱۸.)

اگر نماز میں سجدہ تلاوت آجائے تو اس میں سجدہ کرنا سنت ہے۔
ابو رافع بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پیچھے عشاء کی نماز پڑھی انہوں نے اذاا لسماء النشقت پڑھی پھر سجدہ کیا۔ پھر فرمایا میں نے ابو القاسم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سجدہ کیا اور میں اسے کبھی نہیں چھوڑ سکتا ۔‘‘
(بخاری۶۶۷، مسلم، المساجد، سجود التلاوۃ،۸۷۵.)
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سجدے کی آیت تلاوت کرتے تو آپ سجدہ کرتے۔ اور صحابہ بھی آپ کے ساتھ سجدہ کرتے۔‘‘
(بخاری، سجود القرآن، باب من سجد لسجود القاری، ۵۷۰۱، مسلم:۵۷۵.)

سجدۂ تلاوت واجب نہیں:
سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سورت نجم تلاوت کی تو آپ نے سجدۂ تلاوت نہیں کیا۔‘‘
(بخاری، سجود القرآن، باب من قرأ السجدۃ ولم یسجد، ۲۷۰۱، مسلم : ۷۷۵.)
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے جمعہ کے دن منبر پر سورۃ النحل پڑھی جب سجدے کی آیت آئی تو منبر پر سے اترے اور سجدہ کیا اور لوگوں نے بھی ان کے ساتھ سجدہ کیا، دوسرے جمعہ کو پھر یہی سورہ پڑھی اور سجدہ نہیں کیا، پھر فرمایا:
’’لوگو جب ہم سجدہ کی آیت پڑھتے ہیں تو جو کوئی سجدہ کرے اس نے اچھا کیا اور جو کوئی نہ کرے اس پر گناہ نہیں ۔‘‘
(بخاری: سجود القرآن: ۷۷۰۱)

سجدہ میں جاتے ہوئے اللہ اکبر کہنا:
قیام کی حالت میں جب امام یا منفرد وہ سورۃ پڑھے جس میں سجدہ ہو تو اللہ اکبر کہتے ہوئے سجدہ میں جائے گا۔
سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، سیدنا ابو بکر اور سیّدنا عمر رضی اللہ عنہما ہر مرتبہ اٹھتے وقت، جھکتے وقت، کھڑے ہوتے وقت اور بیٹھتے وقت اللہ اکبر کہتے۔‘‘
(ترمذی، الصلاۃ،ما جاء فی التکبیر عند الرکوع والسجود:۳۵۲.)
فضیلۃ الشیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ سجدہ تلاوت کے وقت اللہ اکبر کہنے کے متعلق فرماتے ہیں
’’سجدہ تلاوت سجدہ نماز کی ہی طرح ہے لہٰذا جب انسان نماز میں سجدہ کرے تو سجدہ کو جاتے اور سجدہ سے سر کو اٹھاتے ہو ئے ہو ئے اللہ اکبر کہے۔’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں نیچے جھکتے اور اٹھتے وقت اللہ اکبر کہتے۔ جب سجدہ کرتے اور جب سجدہ سے سر اٹھاتے تو اللہ اکبر کہتے ۔‘‘
(نسائی۰۵۱۱ فتاوی اسلامیہ، اول ۰۳۴.)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
سجدۂ شکر:
سیدنا ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی خوشی کی خبر آتی تو اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے سجدہ میں گر جاتے۔‘‘
(ابن ماجہ: إقامۃ الصلاۃ باب ما جاء فی الصلاۃ والسجدہ عند الشکر: ۴۹۳۱.)
اللہ تعالیٰ نے سیّدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کی توبہ قبول کی تو کسی نے بلند آواز سے پکارا اے کعب بن مالک تیرے لیے خوشخبری ہے، آواز سنتے ہی کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سجدہ میں گر گئے۔‘‘
(بخاری: المغازی، باب: حدیث کعب بن مالک: ۸۱۴۴، مسلم: التوبہ:۹۶۷۲.)

جلسہ : (دوسجدوں کے درمیان بیٹھنا)
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے سے اپنا سر اٹھاتے اور اپنا بایاں پاؤں موڑتے (یعنی بچھاتے) پھر اس پر بیٹھتے، اور سیدھے ہوتے یہاں تک کہ ہر ہڈی اپنے ٹھکانے پر آجاتی (یعنی پہلے سجدے سے سر اٹھاکر نہایت آرام و اطمینان سے بیٹھ جاتے پھر (دوسرا) سجدہ کرتے۔‘‘
(ابو داود ۰۳۷ ترمذی ۴۰۳.)
سیّدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ نماز میں سنت یہ ہے کہ دایاں پاؤں کھڑا کیا جائے اور اس کی انگلیاں قبلہ رخ کی جائیں اور بائیں پاؤں پر بیٹھا جائے۔‘‘
(نسائی، التطبیق، باب الاستقبال بأطراف أصابع القدم القبلۃ ۹۵۱۱۔ اسے امام ابن خزیمہ اور امام ابن حبان نے صحیح کہا۔)
اور کبھی کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے قدموں اور اپنی ایڑیوں پر بیٹھتے۔
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے قدموں اور ایڑیوں پر بیٹھنے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ یہ تمہارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔‘‘
(مسلم، المساجد، باب جواز الاقعاء عل العقبین، ۶۳۵.)
نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم خود بڑے اطمینان سے جلسے میں بیٹھتے۔ لیکن افسوس کہ عام لوگوں کو جلسے کا پتہ ہی نہیں ہے کہ وہ کیا ہوتا ہے۔ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کا جلسہ سجدے کے برابر ہوتا تھا۔
کبھی کبھی سجدوں کے درمیان جلسہ میں زیادہ (دیر تک) بیٹھتے یہاں تک کہ بعض لوگ کہتے کہ آپ (دوسرا سجدہ کرنا) بھول گئے۔‘‘
(بخاری، ۱۲۸، ومسلم، ۲۷۴.)

جلسے کی مسنون دعائیں:
۱۔ سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں سجدوں کے درمیان (یہ) پڑھتے:
’’اَللّٰہُمَّ اغْفِرْ لِیْ وَارْحَمْنِی وَعَافِنِیْ وَاہْدِنِی وَارْزُقْنِیْ۔‘‘
’’اے اللہ! مجھے بخش دے، مجھ پر رحم فرما، مجھے عافیت سے رکھ، مجھے ہدایت دے، اور مجھے روزی عطا کر۔ ‘‘
(ابو داود، الصلاۃ، باب الدعاء بین السجدتین ۰۵۸۔ ترمذی، الصلاۃ، باب ما یقول بین السجدتین ۴۸۲۔ اسے حاکم ، ذہبی اور نووی نے صحیح کہا۔)
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں سجدوں کے درمیان پڑھا کرتے تھے:
’’رَبَِ اغْفِرْ لِیْ، رَبِّ اغْفِرْ لِیْ۔‘‘
’’ اے میرے رب مجھے معاف فرما، اے میرے رب مجھے معاف فرما۔‘‘
(ابو داود، الصلاۃ، باب ما یقول الرجل فی رکوعہ وسجودہ ۴۷۸، ابن ماجہ ۷۹۸ حاکم اور ذہبی نے صحیح کہا۔)

دوسرا سجدہ:
جب آپ پورے اطمینان سے جلسے کے فرائض سے فارغ ہوں تو پھر دوسرا سجدہ کریں اور پہلے سجدے کی طرح اس میں بھی بڑے خشوع و خضوع اور کامل اطمینان سے دعائیں پڑھیں اور پھر اٹھیں۔

جلسۂ استراحت:
دوسری رکعت کے لیے اٹھنے سے پہلے جلسۂ استراحت میں ذرا بیٹھ کر اٹھیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (اَللّٰہُ اَکْبَرُ) کہتے ہوئے (دوسرے سجدے) سے اٹھتے اور اپنا بایاں پاؤں موڑتے ہوئے (بچھاتے اور ) اس پر بیٹھتے اتنی دیر تک کہ ہر ہڈی اپنے ٹھکانے پر آجاتی۔ پھر (دوسری رکعت کے لیے) کھڑے ہوتے۔
(ابوداود، ۰۳۷ ترمذی، ۴۰۳ ابن ماجہ، اقامٗ الصلاۃ، باب اتمام الصلاۃ، ۱۶۰۱.)
مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نماز کی طاق (پہلی اور تیسری) رکعت کے بعد کھڑے ہونے سے قبل سیدھے بیٹھتے تھے۔
(بخاری، الاذان باب من استوی قاعدا ، ۳۲۸.)

اُٹھتے وقت دونوں ہاتھوں کا سہارا لینا:
مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب دوسرے سجدے سے اٹھتے تو پہلے بیٹھتے پھر اٹھتے وقت دونوں ہاتھ زمین پر ٹیک کر اُٹھتے۔
(بخاری: الاذان، باب: کیف یعتمد علی الارض اذا قام من الرکعۃ: ۴۲۸.)
ازرق بن قیس بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو دیکھا آپ نماز میں ہاتھوں کا سہارا لے رہے تھے یعنی جب کھڑے ہو تے تو اپنے دونوں ہاتھوں کا سہارا لیتے۔ اور فرماتے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز میں ہاتھوں کا سہارا لیتے دیکھا ۔
(سلسلہ الاحادیث الصحیحہ للالبانی۴۷۶۲.)

دوسری رکعت:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب دوسری رکعت کے لیے کھڑے ہوتے تو الحمد شریف کی قراءت شروع کر دیتے اور (دعائے افتتاح کے لیے) سکتہ نہیں کرتے تھے۔
(مسلم، المساجد، باب ما یقال بین تکبیرۃ الاحرام والقراء ۃ، ۹۹۵.)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
تشہد:
سیّدنا ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعت پر بیٹھتے تو بائیں پاؤں پر بیٹھتے اور اپنا دایاں پاؤں کھڑا کر لیتے۔
(بخاری، الاذان باب سنۃ الجلوس فی التشھد، ۸۲۸.)

عبد اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو دیکھا وہ نماز میں آلتی پالتی مار کر بیٹھتے تھے۔ میں نے بھی ایسا ہی کیا میں ان دنوں جوان تھا سیّدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے مجھے منع کیا اور فرمایا کہ سنت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دوسری رکعت کے بعد (دوسرے سجدے سے اٹھ کر) بایاں پاؤں بچھا کر اس پر بیٹھتے اور دایاں پاؤں کھڑا رکھتے، میں نے ان سے کہا آپ تو ایسا نہیں کرتے تو فرمانے لگے میرے پاؤں مجھے سہارا نہیں دے سکتے۔
(بخاری، الاذان، باب سنۃ الجلوس فی التشھد ۷۲۸ .)
اس روایت سے ثابت ہوا کہ معذور آدمی اپنی سہولت کے مطابق نماز ادا کرے۔ اس کے لیے ایسا کرنا جائز ہے۔ بڑھاپے یا بیماری کی وجہ سے دایاں پاؤں کھڑا کرنا مشکل ہو تو اسے بچھانا جائز ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
مسئلہ رفع سبابہ:
تشہد میں انگلی کا اٹھانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز (کے قعدہ) میں بیٹھتے تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے دونوں گھٹنوں پر رکھتے اور داہنے ہاتھ کی تمام انگلیاں بند کر لیتے اور اپنی داہنی انگلی جو انگوٹھے کے نزدیک ہے اٹھا لیتے، پس اس کے ساتھ دعا مانگتے اور بایاں ہاتھ بائیں گھٹنے پر بچھا لیتے۔ (مسلم، المساجد، باب صفۃ الجلوس فی الصلاۃ، ۰۸۵.)

سیدنا عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب (نماز میں) تشہد پڑھنے بیٹھتے تو اپنا دایاں ہاتھ دائیں اور بایاں ہاتھ بائیں ران پر رکھتے اور شہادت کی انگلی کے ساتھ اشارہ کرتے اور اپنا انگوٹھا اپنی درمیانی انگلی پر رکھتے۔
رسول للہ صلی اللہ علیہ وسلم بایاں ہاتھ بائیں گھٹنے پر اور دایاں ہاتھ دائیں ران پر رکھتے۔
(مسلم: ۲۱۱۔(۹۷۵)۔۳۱۱(۹۷۵).)
معلوم ہوا کہ نمازی کو رخصت ہے چاہے دونوں ہاتھ گھٹنوں پر رکھے چاہے ران پر۔

سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دوسرے سجدے سے اٹھ کر قعدہ میں بیٹھے، دو انگلیوں کو بند کیا، انگوٹھے اور درمیان کی بڑی انگلی سے حلقہ بنایا اور انگشت شہادت (کلمے کی انگلی) سے اشارہ کیا۔
(ابو داود: ۶۲۷۔ اسے امام ابن حبان ۵۸۴ اور ابن خزیمہ ۳۱۷، ۴۱۷ نے صحیح کہا۔)

سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انگلی اٹھائی اور اسے ہلاتے تھے۔
(نسائی، الافتتاح، باب موضع الیمین من الشمال فی الصلاۃ، ۰۹۸، اسے ابن حبان اور ابن خزیمہ نے صحیح کہا۔)
شیخ البانی فرماتے ہیں انگلی کو حرکت نہ دینے والی روایت شاذ یا منکر ہے۔ لہٰذا اسے حدیث وائل بن حجر کے مقابلے میں لانا جائز نہیں ہے۔
صرف (لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ) کہنے پر انگلی اٹھانا اور کہنے کے بعد رکھ دینا کسی روایت سے ثابت نہیں ہے۔

سیدنا عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ کی نظر (تشہد میں) ان کی انگلی کے اشارے سے تجاوز نہیں کرتی تھی۔
(أبو داود: الصلاۃ، باب: الإشارۃ فی التشہد: ۰۹۹.)

سیدنا سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس سے گزرے اور میں (تشہد میں) دو انگلیوں سے اشارہ کر رہا تھا، آپ نے فرمایا:
"ایک انگلی سے، ایک انگلی سے (اشارہ کرو) یعنی شہادت کی انگلی کے ساتھ اشارہ کرو۔"
(نسائی: السہو، باب: النہی عن الإشارۃ بإصبعین: ۴۷۲۱.)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
تشہد کی دعا:
سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جب تم نماز میں (قعدہ کے لیے) بیٹھو تو یہ پڑھو:
’’اَلتََّحِیَّاتُ لِلّٰہِ وَالصَّلَوٰتُ وَالطَّیِّبَاتُ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّہَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہُ، اَلسَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلیٰ عِبَادِ اللّٰہِ الصَّالِحِیْنَ، اَشْہَدُ اَنْ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ، وَاَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُوْلُہُ۔‘‘
’’میری ساری قولی، بدنی اور مالی عبادت صرف اللہ کے لیے خاص ہے۔ اے نبی آپ پر اللہ تعالیٰ کی رحمت، سلامتی اور برکتیں ہوں اور ہم پر اور اللہ کے دوسرے نیک بندوں پر بھی سلامتی ہو، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔‘‘
پھر جو دعا پسند ہو وہ مانگ۔ ان کلمات کو ادا کرنے سے ہر نیک بندے کو خواہ وہ زمین پر ہو یا آسمان میں، نمازی کا سلام پہنچ جاتا ہے۔‘‘
(بخاری، الاذان باب التشھد فی الاخرۃ، ۱۳۸، ومسلم، الصلاۃ، باب التشھد فی الصلاۃ، ۲۰۴.)

سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان موجود رہے ہم (اَلسَّلاَمُ عَلَیْْْکَ اَیُّہَا النَّبِیُّ) کہتے رہے، جب آپ فوت ہو گئے تو ہم نے خطاب کا صیغہ چھوڑ کر غائب کا صیغہ پڑھنا شروع کر دیا۔ یعنی پھر ہم (اَلسَّلامُ عَلَی النَّبِیِّ) پڑھتے تھے۔
(بخاری، الاستئذان، باب الاخذ بالیدین، ۵۶۲۶.)
پہلے جملے کا معنی ہے:
اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ پر سلامتی ہو۔‘‘
دوسرے جملے کا معنی ہے:
’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر سلامتی ہو۔‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو عالم الغیب یا حاضر ناظر نہیں سمجھتے تھے۔ وگرنہ وہ (اَلسَّلاَمُ عَلَیْْْکَ اَیُّہَا النَّبِیُّ) کی جگہ (اَلسَّلامُ عَلَی النَّبِیُّ) نہ پڑھتے۔ الفاظ تشہد (اَلسَّلاَمُ عَلَیْْْکَ اَیُّہَا النَّبِیُّ) سے شرکیہ عقیدہ (آپ کے عالم الغیب یا حاضر ناظر ہونے) کی قطعاً تائید نہیں ہوتی، کیونکہ مسلمان السلام علیک ایھا النبی سنت کی پیروی کی بنا پر پڑھتے ہیں۔
نیز اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کا سلام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچاتے ہیں۔
(ابو داود المناسک باب زیارۃ القبور ۲۴۰۲.)
جس طرح ہم اپنے خطوط میں بصیغہ خطاب ایک دوسرے کو سلام بھیجتے ہیں اسی طرح ہمارا سلام بھی اللہ تعالیٰ آپ تک پہنچا دیتا ہے۔ یہ سلام چونکہ اللہ تعالیٰ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ سے ثابت ہے اس لیے یہ اس صلوۃ و سلام کی دلیل نہیں بن سکتا جو لوگ اذان سے قبل یا اٹھتے بیٹھتے الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ یہ سمجھ کر پڑھتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارا سلام سن رہے ہیں۔ یقیناً صحابہ کی پیروی میں کامیابی ہے اور خود ساختہ اعمال بدعت ہیں گمراہی میں جانے کا سبب بن سکتے ہیں ۔ (ع،ر)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم درمیانی تشہد سے فارغ ہو کر کھڑے ہو جاتے تھے۔
(مسند الإمام أحمد: ۱/۹۵۴، ۲۸۳۴ اس کی سند صحیح ہے۔)
لہٰذا درمیانی تشہد میں صرف تشہد کافی ہے۔
اگر کوئی شخص تشہد کے بعد درود اور دعا کرنا چاہے تو بھی جائز ہے۔

نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جب تم دو رکعت پر بیٹھو تو التحیات کے بعد جو دعا زیادہ پسند ہو وہ کرو۔‘‘
(نسائی، التطبیق، باب کیف التشھد الاول، ۴۶۱۱.)
اور دعا سے پہلے درود پڑھنا چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
جب کوئی نماز پڑھے تو پہلے اپنے پروردگار کی بڑائی بیان کرے، اس کی تعریف کرے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجے پھر اپنے لیے جو چاہے دعا مانگے۔
(ابو داود، الوتر، باب الدعاء، ۱۸۴۱۔ اسے حاکم اور ذہبی نے صحیح کہا ۔)
لہٰذا درمیانی تشہد میں تشہد کے بعد درود اور دعا بھی کی جا سکتی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
تیسری رکعت:
قعدۂ تشہد سے تیسری رکعت کے لیے کھڑے ہوں تو اللہ اکبر کہتے ہوئے اٹھیں اور رفع الیدین کریں۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعت پڑھ کر (تشہد کے بعد) کھڑے ہوتے تو اللہ اکبر کہتے۔ اور دونوں ہاتھ اٹھاتے۔ (بخاری: ۹۳۷.)

آخری قعدہ (تشہد):
سیّدنا ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب وہ سجدہ آتا جس کے بعد سلام ہے (یعنی آخری رکعت کے تشہد میں) تو اپنا بایاں پاؤں (دائیں پنڈلی کے نیچے سے باہر) نکالتے اور دائیں پاؤں کو کھڑا کر کے نصب کرتے اور اپنی بائیں جانب کے کولہے پر بیٹھتے۔
(بخاری: ۸۲۸، أبو داود: ۰۳۷.)
بائیں جانب کولہے پر بیٹھنا ’’تَوَرُّک‘‘ کہلاتا ہے۔ یہ سنت ہے۔ ہر مسلمان کو آخری قعدے میں تورک ضرور کرنا چاہیے۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہماری عورتیں تو آخری تشہد میں تورک کریں اور مرد اس سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محروم رہیں۔

نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو منع کیا جو تشہد کی حالت میں بائیں ہاتھ پر ٹیک لگائے ہوئے تھا آپ نے فرمایا:
’’ایسے نہ بیٹھو، اس طرح وہ بیٹھتے تھے جن پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہوا تھا۔‘‘
(مسند أحمد عن عبد اللہ بن عمر: ۲/ ۶۱۱، ۲۷۹۵، وإسنادہ حسن. )
جب آپ اس قعدے میں بیٹھیں تو پہلے التحیات پڑھیں جس طرح دوسری رکعت پڑھ کر آپ نے قعدے میں پڑھی تھی، اور رفع سبابہ بھی بدستور کریں۔ التحیات ختم کر کے مندرجہ ذیل درود شریف پڑھیں۔
سیدنا کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نے کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہم آپ پر کیسے درود بھیجیں آپ نے فرمایا کہو:
’’اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلیٰ آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلیٰ اِبْرَاہِیْمَ وَعَلیٰ آلِ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ. اَللّٰہُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی اِبْرَاہِیْمَ وَعَلٰی آلِ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ.‘‘
’’اے اللہ! محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آل محمد پر رحمت فرما جس طرح تو نے ابراہیم علیہ السلام اور آل ابراہیم پر رحمت فرمائی بیشک تو تعریف والا اور بزرگی والا ہے۔ اے اللہ! محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آل محمد پر برکت فرما جس طرح تو نے ابراہیم علیہ السلام اور آل ابراہیم پر برکت فرمائی بیشک تو تعریف والا اور بزرگی والا ہے۔‘‘
(بخاری، أحادیث الانبیاء، باب ۰۱ حدیث ۰۷۳۳، مسلم: ۶۰۴.)

سیدنا ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ ہم آپ پر کیسے درود پڑھیں تو آپ نے فرمایا کہو:
’’اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلیٰ آلِ اِبْرَاہِیْمَ وَبَارِکْ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَعَلیٰ آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلیٰ آلِ اِبْرَاہِیْمَ فِی الْعَالَمِیْنَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیدٌ.‘‘
(مسلم: الصلاۃ، باب: الصلاۃ علی النبی بعد التشہد: ۵۰۴.)

سیدنا ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم آپ پر کیسے درود بھیجیں آپ نے فرمایا کہو:
’’اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلیٰ أَزْوَاجِہِ وَذُرِّیَّتِہِ کَمَا صَلَّیْتَ عَلیٰ آلِ اِبْرَاہِیْمَ وَبَارِکْ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّعَلیٰ أَزْوَاجِہِ وَذُرِّیَّتِہِ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی آلِ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔‘‘
’’اے اللہ! محمد صلی اللہ علیہ وسلم ان کی بیویوں اور ان کی اولاد پر رحمت فرما جیسا کہ تو نے آل ابراہیم پر رحمت فرمائی اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم، ان کی بیویوں اور ان کی اولاد پر برکت فرما جیسا کہ تو نے آل ابراہیم پر برکت فرمائی۔ بے شک تو تعریف والا اور بزرگی والا ہے۔‘‘
(بخاری، ۹۶۳۳، ومسلم، ۷۰۴. )
کسی بھی صحیح روایت میں درود شریف میں ’’سیدنا‘‘ یا ’’مولانا‘‘ کا لفظ موجود نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم کو جو درود سکھایا تھا، جب اس میں یہ الفاظ نہیں ہیں تو ہمیں بھی اضافہ نہیں کرنا چاہیے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جو الفاظ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہیں ان کی پیروی راجح ہے۔ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ درود کا (مسنون) طریقہ یہ ہے کہ (اللھم صل علی محمد و علی آل محمد۔) کے الفاظ کے ساتھ درود بھیجا جائے جو ’’سیّدنا ‘‘ کے لفظ سے خالی ہے۔

سیدنا ابو طلحہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں تشریف لائے۔ آپ کے چہرے پر خوشی کے آثار نمایاں تھے۔ آپ نے فرمایا کہ میرے پاس جبرئیل آئے اور کہا تیرا پروردگار فرماتا ہے کہ ’’اے محمد! کیا تجھے یہ بات خوش نہیں کرتی کہ تیری امت میں سے جو شخص تجھ پر ایک بار درود بھیجتا ہے تو میں اس پر دس بار رحمت بھیجتا ہوں اور تیری امت میں سے جو شخص تجھ پر ایک بار سلام بھیجتا ہے تو میں اس پر دس بار سلام بھیجتا ہوں۔‘‘
(نسائی ۳/ ۰۵، ۵۹۲۱۔ امام حاکم اور امام ذہبی نے اسے صحیح کہا۔)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
درود کے بعد کی دعائیں:
۱۔ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں (آخری قعدے میں) یوں دعا فرماتے تھے:
’’اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَاَعُوْذُ بِکَ مِنْ فِتْنَۃِ الْمَسِیْحِ الدَّجَّالِ وَاَعُوْذُ بِکَ مِنْ فِتْنَۃِ الْمَحْیَا وَالْمَمَاتِ اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْمَأْثَمِ وَالْمَغْرَمِ۔‘‘
’’اے اللہ! میں تیری پناہ میں آتا ہوں عذاب قبر سے اور تیری پناہ میں آتا ہوں دجال کے فتنے سے اور تیری پناہ میں آتا ہوں موت و حیات کے فتنے سے۔ اے اللہ! میں گناہ سے اور قرض سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔‘‘

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! آپ قرض سے بہت پناہ کیوں مانگتے ہیں، آپ نے فرمایا:
"جب آدمی قرض دار ہوتا ہے تو وہ جھوٹ بولتا ہے اور وعدہ خلافی بھی کرتا ہے۔‘‘
(بخاری، الآذان باب الدعاء قبل السلام ۲۳۸ ومسلم: ۹۸۵.)

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
’’تشہد میں چار چیزوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ ضرور طلب کرو‘‘ وہ یہ ہیں:
’’اَللّٰہُمَّ اِنِّی اَعُوْذُ بِکَ مِنْ عَذَابِ جَہَنَّمَ وَمِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَمِنْ فِتْنَۃِ الْمَحْیَا وَالْمَمَاتِ وَمِنْ شَرِّ فِتْنَۃِ الْمَسِیْحِ الدَّجَّالِ۔‘‘
’’اے اللہ! میں جہنم اور قبر کے عذاب سے، موت و حیات کے فتنہ اور مسیح دجال کے شر سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔‘‘
(مسلم،، المساجد، باب ما یستعاذ منہ فی الصلاۃ، :۸۸۵.)

عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا ہمیں اس طرح سکھاتے جیسا کہ انہیں قرآن کی سورتیں سکھاتے تھے۔ (مسلم، ۰۹۵. )
۲۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے کہا، یا رسول اللہ! نماز میں مانگنے کے لیے مجھے (کوئی) دعا سکھائیے (کہ اسے التحیات اور درود کے بعد پڑھا کروں) تو آپ نے فرمایا! پڑھ:
’’اَللّٰہُمَّ اِنِّی ظَلَمْتُ نَفْسِیْ ظُلْمًا کَثِیْرًا وَّلَا یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اَنْتَ فَاغْفِرْ لِیْ مَغْفِرَۃً مِّنْ عِنْدِکَ وَارْحَمْنِیْ اِنَّکَ اَنْتَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ.‘‘
’’یا الٰہی! بلاشبہ میں نے اپنی جان پر بہت زیادہ ظلم کیا ہے۔ اور تیرے سوا گناہوں کو کوئی نہیں بخش سکتا، پس اپنی جناب سے مجھ کو بخش دے اور مجھ پر رحم کر، بے شک تو ہی بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘
(بخاری:۴۳۸ ومسلم الذکر والدعاء استحباب خفض الصوت بالذکر :۴۰۷۲.)
۳۔ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشہد کے بعد سلام پھیرنے سے قبل یہ دعا پڑھتے تھے:
’’اَللّٰہُمَّ اغْفِرْ لِیْ مَا قَدَّمْتُ وَمَا اَخَّرْتُ وَمَا اَسْرَرْتُ وَمَا اَعْلَنْتُ وَمَا اَسْرَفْتُ وَمَا اَنْتَ اَعْلَمُ بِہِ مِنِّیْ اَنْتَ الْمُقَدِّمُ وَأَنْتَ الْمُؤَخِّرُ لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ.‘‘
’’اے اللہ! تو میرے اگلے پچھلے، پوشیدہ اور ظاہر (تمام) گناہ معاف فرما او ر جو میں نے زیادتی کی اور وہ گناہ جو تو مجھ سے زیادہ جانتا ہے (وہ بھی معاف فرما) تو ہی (اپنی درگاہ عزت میں) آگے کرنے والا اور (اپنی بارگاہ جلال سے) پیچھے کرنے والا ہے۔ صرف تو ہی سچا معبود ہے۔‘‘
(مسلم، صلاۃ المسافرین، باب الدعاء فی الصلاۃ الیل وقیامۃ:۱۷۷.)
۴۔ سیدنا محجن بن الادرع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں داخل ہوئے تو ایک شخص نماز کے آخر ی تشہد میں یہ دعا کر رہا تھا:
’’اَللّٰہُمَّ إِنِّیْ أَسْأَلُکَ یَا اَللّٰہُ الْأَحَدُ الصَّمَدُ الَّذِیْ لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْ وَلَمْ یَکُنْ لَّہُ کُفُواً أَحَدٌ أَنْ تَغْفِرَ لِیْ ذُنُوْبِیْ إِنَّکَ أَنْتَ الْغَفُوْرٌ الرَّحِیْمٌ.‘‘
’’اے اللہ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اس بات کے ساتھ کہ تو واحد، اکیلا اور بے نیاز ہے، جس نے نہ جنا نہ وہ جنا گیا اور نہ اس کا کوئی شریک ہے کہ تو مجھے اور میرے گناہوں کو معاف کر دے بیشک تو بخشنے والا بہت مہربان ہے۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تیری بخشش ہو گئی، تیری بخشش ہو گئی، تیری بخشش ہو گئی۔‘‘
(أبو داود: ۵۸۹، نسائی: ۲۰۳۱.)
۵۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا اور ایک آدمی نماز پڑھ رہا تھا، اس نے تشہد میں یہ دعا کی:
’’اَللّٰہُمَّ إِنِّیْ أَسْأَلُکَ بِأَنَّ لَکَ الْحَمْدَ لاَ إِلٰہَ إِلاَّ أَنْتَ الْمَنَّانُ بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضِ یَا ذَا الْجَلاَلِ وَالإِْکْرَامِ یَا حَیُّ یَا قَیُّوْمُ إِنِّیْ أَسْأَلُکَ.‘‘
’’اے اللہ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اس بات کے ساتھ کہ حمد تیرے لیے ہے، تیرے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں، بے حد احسان کرنے والا، آسمانوں اور زمینوں کو بنانے والا بزرگ اور عزت والا، زندہ اور قائم رکھنے والا میں تجھ سے سوال کرتا ہوں۔‘‘

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس نے اللہ کے عظیم ناموں کے ساتھ دعا کی ہے جو شخص ان کے ساتھ دعا کرتا ہے اللہ قبول کرتا ہے اور جب وہ مانگتا ہے اللہ عطا کرتا ہے۔‘‘
(نسائی: السہو، الدعاء بعد الذکر ۱۰۳۱.)

سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں یہ دعا کرتے تھے:
’’اَللّٰہُمَّ بِعِلْمِکَ الْغَیْبَ وَقُدْرَتِکَ عَلَی الْخَلْقِ أَحْیِنِیْ مَا عَلِمْتَ الْحَیَاۃَ خَیْراً لِیْ وَتَوَفَّنِیْ إِذَا عَلِمْتَ الْوَفَاۃَ خَیْرًا لِیْ وَأَسْأَلُکَ خَشْیَتَکَ فِی الْغَیْبِ وَالشَّہَادَۃَ وَکَلِمَۃَ الإِْخْلاَصِ فِی الرِّضَا وَالغَضَبِ وَأَسْأَلُکَ نَعِیْماً لاَ یَنْفَدُ وَقُرَّۃَ عَیْنٍ لاَ تَنْقَطِعُ وَأَسْأَلُکَ الرِّضَا بِالْقَضَاءِ وَبَرْدَ العَیْشِ بَعْدَ الْمَوْتِ وَلَذَّۃَ النَّظَرِ إِلٰی وَجْہِکَ وَالشَّوْقَ إِلٰی لِقَاءِکَ وَأَعُوْذُ بِکَ مِنْ ضَرَّاءَ مُضِرَّۃٍ وَفِتْنَۃٍ مُضِلَّۃٍ اَللّٰہُمَّ زَیِّنَّا بِزِیْنَۃِ الإِیْمَانِ وَاجْعَلْنَا ہُدَاۃً مُہْتَدِیْنَ.‘‘
’’اے اللہ! میں تیرے غیب جاننے اور خلق پر قدرت رکھنے کے ساتھ سوال کرتا ہوں کہ مجھے اس وقت تک زندہ رکھ جب تک تو میرے لیے زندگی بہتر جانے اور مجھے اس وقت فوت کر جب وفات میرے لیے بہتر جانے، میں غائب اور حاضر کی حالت میں تجھ سے تیری خشیت کا سوال کرتا ہوں اور راضی اور غصے کی حالت میں خالص بات کہنے کی توفیق کا سوال کرتا ہوں، اور میں تجھ سے ان نعمتوں کا سوال کرتا ہوں جو ختم نہ ہوں اور آنکھوں کی ایسی ٹھنڈک کا سوال کرتا ہوں جو ختم نہ ہو، اور میں تجھ سے تیرے فیصلوں پر راضی رہنے کا سوال کرتا ہوں اور میں تجھ سے موت کے بعد کی زندگی کی ٹھنڈک کا سوال کرتا ہوں اور میں تجھ سے تیرے چہرے کی طرف دیکھنے کی لذت اور تیری ملاقات کے شوق کا سوال کرتا ہوں اور میں تکلیف دہ مصیبت اور گمراہ کن فتنوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں، اے اللہ! ہمیں ایمان کی زینت سے مزین فرما اور ہمیں ہدایت دینے والا ہدایت پانے والا بنا دے۔‘‘ (نسائی: ۶۰۳۱.)

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں یہ دعا کیا کرتے تھے:
’’اَللّٰہُمَّ إِنِّیْ أَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّ مَا عَمِلْتُ وَمِنْ شَرِّ مَا لَمْ أَعْمَلْ.‘‘
’’اے اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں ان اعمال کے شر سے جو میں نے کیے اور ان اعمال کے شر سے بھی جو میں نے نہیں کیے۔‘‘
(نسائی: ۸۰۳۱، مسلم: الذکر والدعاء: ۶۱۷۲.)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
نماز کا اختتام:
سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دائیں طرف سلام پھیرتے (تو کہتے): (اَلسَّلاَمُ عَلَیْکُم وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ) اور بائیں طرف سلام پھیرتے تو کہتے: (اَلسَّلاَمُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ)
(ابو داود: ۶۹۹، ترمذی الصلاۃ، باب ماجاء فی التسلیم فی الصلاۃ، ۵۹۲۔ اسے ترمذی اور ابن حبان نے صحیح کہا ۔)

سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی۔ آپ دائیں طرف سلام پھیرتے تو کہتے (اَلسَّلاَمُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہُ) اور بائیں طرف سلام پھیرتے تو کہتے (اَلسَّلاَمُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ) (یعنی صرف دائیں طرف والے سلام میں (وَبَرَکَاتُہُ) کا اضافہ کرتے)۔
(ابو داود: الصلاۃ، باب: السلام، ۷۹۹، امام نووی اور امام ابن حجر نے اسے صحیح کہا۔)

سلام پھیرتے وقت اپنے ہاتھوں سے دائیں اور بائیں جانب اشارہ کرنا جائز نہیں ہے۔ سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھتے تو سلام کے وقت اپنے ہاتھوں سے دائیں اور بائیں اشارہ کرتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دیکھ کر فرمایا کہ:
"تم اپنے ہاتھوں کو بدکے ہوئے گھوڑوں کی دموں کی مانند کیوں حرکت دیتے ہو۔ تمہارے لیے یہ کافی ہے کہ تم اپنا ہاتھ اپنی ران پر رکھو اور دائیں اور بائیں جانب (چہرہ پھیرتے ہوئے) سلام کہو۔"
(مسلم، الصلاۃ، الامر بالسکون فی الصلاۃ۱۳۴.)
 
Top