• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نماز نبوی صحیح احادیث کی روشنی میں

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
نماز میں خیال آنا:

دوران نماز کوئی سوچ آنے پر نماز باطل نہیں ہوتی۔ سیدنا عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز عصر پڑھی۔ نماز کے بعد آپ فورا کھڑے ہو گئے اور ازواج مطہرات کے پاس تشریف لے گئے پھر واپس تشریف لائے، صحابہ رضی اللہ عنہم کے چہروں پر تعجب کے آثار دیکھ کر فرمایا:
’’مجھے نماز کے دوران یاد آیا کہ ہمارے گھر میں سونا رکھا ہوا ہے اور مجھے ایک دن یا ایک رات کے لیے بھی اپنے گھر میں سونا رکھنا پسند نہیں لہٰذا میں نے اسے تقسیم کرنے کا حکم دیا۔‘‘
(بخاری، الاذان باب من صلی بالناس فذکر حاجۃ فتخطاھم، ۱۵۸.)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
رفع الیدین

سیّدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’آدمی نماز میں (اپنے ہاتھ سے) جو اشارہ کرتا ہے۔ اس کے بدلے دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں ہر انگلی کے بدلے ایک نیکی۔‘‘
(سلسلہ الاحادیث الصحیحہ للالبانی۶۸۲۳.)

رفع الیدین یعنی دونوں ہاتھوں کا اٹھانا نماز میں چار جگہ ثابت ہے:

(۱) شروع نماز میں تکبیر تحریمہ کے وقت
(۲) رکوع سے قبل (۳) رکوع کے بعد اور
(۴) تیسری رکعت کی ابتدا میں۔
ان مقامات پر رفع الیدین کرنے کے دلائل درج ذیل ہیں:
* سیدنا عبد الله بن زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’میں نے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی وہ نماز کے شروع میں اور رکوع سے پہلے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تھے تو اپنے دونوں ہاتھ (کندھوں تک) اٹھاتے تھے اور کہتے تھے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم بھی نماز کے شروع میں، رکوع سے پہلے اور رکوع سے سر اٹھانے کے بعد (اسی طرح) رفع الیدین کرتے تھے۔‘‘
(السنن الکبری للبیہقی، ۲/۳۷ وقال رواتہ ثقات.)
* سیدناعمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ لوگوں کو نماز کا طریقہ بتانے کا ارادہ کیا تو قبلہ رخ ہو کر کھڑے ہو گئے اور دونوں ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھایا، پھر الله أکبر کہا، پھر رکوع کیا اور اسی طرح (ہاتھوں کو بلند) کیا اور رکوع سے سر اٹھا کر بھی رفع الیدین کیا۔‘‘
(السنن الکبری للبیہقی، فی الخلافیات و رجال اسنادہ معروفون (نصب الرایۃ ۱/ ۵۱۴، ۶۱۴.)
* سیّدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
"رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے شروع میں، رکوع میں جانے سے پہلے اور رکوع سے سر اٹھانے کے بعد اور دو رکعتیں پڑھ کر کھڑے ہوتے وقت رفع الیدین کرتے تھے۔"
(أبو داود: الصلاۃ، باب: من ذکر أنہ یرفع یدیہ إذا قام من الثنتین: ۴۴۷، ابن ماجہ: ۴۶۸ اسے ترمذی (کتاب الدعوات، باب: ما جاء فی الدعا عند افتتاح الصلاۃ باللیل: ۳۲۴۳) نے حسن صحیح کہا )
* سیدنا عبد الله بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
"رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم شروع نماز میں، رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد اپنے دونوں ہاتھ کندھوں تک اٹھایا کرتے تھے اور سجدہ میں ایسا نہیں کرتے تھے۔"
(بخاری، الاذان باب رفع الیدین فی التکبیرۃ الاولی مع الافتتاح سواء، ۵۳۷۔ ومسلم: ۰۹۳.)
سیدنا عبد الله بن عمر رضی اللہ عنہما (خود بھی) شروع نماز میں، رکوع سے پہلے، رکوع کے بعد اور دو رکعتیں پڑھ کر کھڑا ہوتے وقت رفع الیدین کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ "رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی طرح کرتے تھے۔‘‘
(بخاری:۹۳۷، مسلم، الصلاۃ، باب استحباب رفع الیدین حذو المنکبین:۰۹۳.)
امام بخاری رحمہ اللہ کے استاد، علی بن مدینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ
"حدیث سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی بنا پر مسلمانوں پر رفع الیدین کرنا ضروری ہے۔ "
(التلخیص الحبیر، ج ۱، ص ۸۱۲ طبع جدید، و ھامش صحیح البخاری درسی نسخہ.)
* سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ شروع نماز میں رفع الیدین کرتے، پھر جب رکوع کرتے تو رفع الیدین کرتے۔ اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو رفع الیدین کرتے اور یہ فرماتے تھے کہ
"رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی طرح کیا کرتے تھے۔"
(بخاری، الاذان باب رفع الیدین اذا کبر، و اذا رکع و اذ۱ رفع، ۷۳۷ ومسلم: ۱۹۳.)
* سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
"میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، جب آپ نماز شروع کرتے تو الله اکبر کہتے اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے۔ پھر اپنے ہاتھ کپڑے میں ڈھانک لیتے پھر دایاں ہاتھ بائیں پر رکھتے۔ جب رکوع کرنے لگتے تو کپڑوں سے ہاتھ نکالتے، الله اکبر کہتے اور رفع الیدین کرتے، جب رکوع سے اٹھتے تو (سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہُ) کہتے اور رفع الیدین کرتے۔ "
(مسلم، الصلاۃ، باب وضع یدہ الیمنیٰ علی الیسری ۱۰۴.)
سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ نو ھ اور دس ہجری میں رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم دس ہجری تک رفع الیدین کرتے تھے، گیارہ ہجری میں نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی۔ لہٰذا اس کی منسوخی کی کوئی دلیل موجود نہیں۔
* سیدنا ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ نے دس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ایک مجمع میں بیان کیا کہ:
"رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع کرتے اور جب رکوع میں جاتے، جب رکوع سے سر اٹھاتے اور جب دو رکعتیں پڑھ کر کھڑے ہوتے تو رفع الیدین کرتے تھے۔"
تمام صحابہ نے کہا:
’’تم سچ بیان کرتے ہو، رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح نماز پڑھتے تھے۔‘‘
(ابوداؤد :۰۳۷ ۔ترمذی، الصلاۃ، باب ما جاء فی وصف الصلاۃ، ۴۰۳ ۔ امام ترمذی نے حسن صحیح کہا۔)
امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ اس حدیث کو روایت کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ میں نے محمد بن یحییٰ رحمہ اللہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ جو شخص حدیث ابو حمید سننے کے باوجود رکوع میں جاتے اور اس سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین نہیں کرتا تو اس کی نماز ناقص ہو گی۔‘‘
(صحیح ابن خزیمہ، الاذان والاقامہ باب الاعتدال فی الرکوع، ۹۸۵.)
* سیدنا ابو موسی اشعریرضی اللہ عنہ نے (ایک دن لوگوں سے) فرمایا:
’’کیا میں تمہیں رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز نہ بتاؤں؟‘‘
یہ کہہ کر انہوں نے نماز پڑھی جب تکبیر تحریمہ کہی تو رفع الیدین کیا، پھر جب رکوع کیا تو رفع الیدین کیا اور تکبیر کہی اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہُ کہہ کر دونوں ہاتھ اٹھائے۔ پھر فرمایا:
’’اسی طرح کیا کرو۔‘‘
(دارقطنی، ۱/۲۹۲۔ حافظ ابن حجر نے کہا اس کے راوی ثقہ ہیں۔ التلخیص الحبیر ۱/۹۱۲۔)
* سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ
"رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم شروع نماز میں، رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد اپنے دونوں ہاتھ اٹھایا کرتے تھے۔"
(ابن ماجہ: إقامۃ الصلاۃ، باب: رفع الیدین إذا رکع وإذا رفع رأسہ من الرکوع: ۰۶۸، اسے امام ابن خزیمہ ۱/۴۴۳ (حدیث ۴۹۶) نے صحیح کہا)
* سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ جب نماز شروع کرتے، جب رکوع کرتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو رفع الیدین کرتے اور فرماتے تھے کہ "رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی طرح کرتے تھے۔"
(مسند السراج، ح۲۹۔ ابن ماجہ: ۸۶۸۔ ابن حجر نے کہا ہے کہ اس کے راوی ثقہ ہیں۔)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
رفع الیدین نہ کرنے والوں کے دلائل کا تجزیہ:

جن احادیث سے رفع الیدین نہ کرنے کی دلیل لی جاتی ہے ان کا مختصر تجزیہ ملاحظہ فرمائیں۔

پہلی حدیث:
سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’کیا بات ہے کہ میں تم کو اس طرح ہاتھ اٹھاتے دیکھتا ہوں گویا کہ وہ سرکش گھوڑوں کی دمیں ہیں۔ نماز میں سکون اختیار کیا کرو۔‘‘
(مسلم، الصلاۃ، باب الامر بالسکون فی الصلاۃ، حدیث ۰۳۴.)
تجزیہ: اس حدیث میں اس مقام کا ذکر نہیں جس پر صحابہ رضی اللہ عنہم ہاتھ اٹھا رہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں منع فرمایا۔ سیّدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ ہی سے مسلم میں اس حدیث سے متصل دو روایات اور بھی ہیں جو بات کو پوری طرح واضح کر رہی ہیں۔
۱: سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جب ہم نماز پڑھتے تو نماز کے خاتمہ پر دائیں بائیں السلام علیکم ورحمۃ اللہ کہتے ہوئے ہاتھ سے اشارہ بھی کرتے یہ دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’تم اپنے ہاتھ سے اس طرح اشارہ کرتے ہو جیسے شریر گھوڑوں کی دمیں ہلتی ہیں۔ تمہیں یہی کافی ہے کہ قعدہ میں اپنی رانوں پر ہاتھ رکھے ہوئے دائیں اور بائیں منہ موڑ کر السلام علیکم ورحمۃ اللہ کہو۔‘‘
(مسلم: الصلاۃ، باب: الأمر بالسکون فی الصلاۃ: ۰۲۱۔(۱۳۴).
۲: سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے: ہم رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز کے خاتمہ پر السلام علیکم ورحمۃ اللہ کہتے ہوئے ہاتھ سے اشارہ بھی کرتے تھے یہ دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"تمہیں کیا ہو گیا ہے تم اپنے ہاتھوں سے اس طرح اشارہ کرتے ہو گویا وہ شریر گھوڑوں کی دمیں ہیں۔ تم نماز کے خاتمہ پر صرف زبان سے السلام علیکم ورحمۃ اللہ کہو اور ہاتھ سے اشارہ نہ کرو۔ ‘‘
(مسلم، ۱۲۱۔ (۱۳۴).
امام نووی رحمہ اللہ "المجموع" میں فرماتے ہیں: سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کی اس روایت سے رکوع میں جاتے اور اٹھتے وقت رفع الیدین نہ کرنے کی دلیل لینا عجیب بات اور سنت سے جہالت کی قبیح قسم ہے۔ کیونکہ یہ حدیث رکوع کو جاتے اور اٹھتے وقت کے رفع الیدین کے بارے میں نہیں بلکہ تشہد میں سلام کے وقت دونوں جانب ہاتھ سے اشارہ کرنے کی ممانعت کے بارے میں ہے۔ محدثین اور جن کو محدثین کے ساتھ تھوڑا سا بھی تعلق ہے، ان کے درمیان اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں۔ اس کے بعد امام نووی امام بخاری رحمہ اللہ کا قول نقل کرتے ہیں کہ اس حدیث سے بعض جاہل لوگوں کا دلیل پکڑنا صحیح نہیں کیونکہ یہ سلام کے وقت ہاتھ اٹھانے کے بارے میں ہے۔ اور جو عالم ہے وہ اس طرح کی دلیل نہیں پکڑتا کیونکہ یہ معروف و مشہور بات ہے۔ اس میں کسی کا اختلاف نہیں اور اگر یہ بات صحیح ہوتی تو ابتدائے نماز اور نماز عید میں رفع الیدین بھی منع ہو جاتیں کیونکہ اس میں کسی خاص رفع الیدین کو بیان نہیں کیا گیا۔ پس ان لوگوں کو اس بات سے ڈرنا چاہیے کہ وہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم پر وہ بات کہہ رہے ہیں جو آپ نے نہیں کہی کیونکہ الله فرماتا ہے:
فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴿٦٣﴾ النور
’’پس ان لوگوں کو جو نبی اکرم کی مخالفت کرتے ہیں اس بات سے ڈرنا چاہیے کہ انہیں (دنیا میں) کوئی فتنہ یا (آخرت میں) دردناک عذاب پہنچے۔‘‘

دوسری حدیث:
سیدناعبد الله بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا میں تمہیں رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز نہ بتاؤں۔؟ انہوں نے نماز پڑھی اور ہاتھ نہ اٹھائے مگر پہلی مرتبہ۔‘‘
(ابوداود: الصلاۃ، باب: من لم یذکر الرفع عند الرکوع: ۸۴۷، ترمذی: ۷۵۲.)
تجزیہ: امام ابو داؤد اس حدیث کے بعد فرماتے ہیں: لیس ھو بصحیح علی ھذا اللفظ ’’یہ حدیث ان الفاظ کے ساتھ صحیح نہیں ہے۔‘‘
دار السلام ریاض اور بیت الأفکار الدولیہ کی شائع کردہ ابو داود اور مشکاۃ المصابیح میں یہ تبصرہ موجود ہے۔
امام ترمذی نے عبد اللهبن مبارک رحمہ اللہ کا قول نقل کیا ہے: ’’لم یثبت حدیث ابن مسعود‘‘ ’’سیدنا عبد الله بن مسعود رضی اللہ عنہ کے ترک رفع الیدین کی حدیث ثابت نہیں ہے۔‘‘
(ترمذی،الصلاۃ باب رفع الیدین عند الرکوع :۶۵۲.)

تیسری حدیث:
سیدنا براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ جب نماز شروع کرتے تو دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھاتے (ثُمَّ لَمْ یَعُوْدُ) پھر نہیں اٹھاتے تھے۔‘‘
(ابو داود: ۹۴۷.
تجزیہ:۔۔۔ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث ضعیف ہے اسے سفیان بن عیینہ، امام شافعی، امام بخاری کے استاد امام حمیدی اور امام احمد بن حنبل جیسے ائمۃ الحدیث نے ضعیف قرار دیا ہے۔ کیونکہ یزید بن ابی زیاد پہلے (لَمْ یَعُوْد) نہیں کہتا تھا، اہل کوفہ کے پڑھانے پر اس نے یہ الفاظ بڑھا دیئے۔ مزید براں یزید بن ابی زیاد ضعیف اور شیعہ بھی تھا۔ آخری عمر میں حافظہ خراب ہو گیا تھا (تقریب) نیز مدلس تھا۔
علاوہ ازیں رفع الیدین کی احادیث اولیٰ ہیں کیونکہ وہ مثبت ہیں اور نافی پر مثبت کو ترجیح حاصل ہوتی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
بعض لوگ دلیل دیتے ہیں کہ منافقین آستینوں اور بغلوں میں بت رکھ لاتے تھے بتوں کو گرانے کے لیے رفع الیدین کیا گیا، بعد میں چھوڑ دیا گیا، لیکن کتب احادیث میں اس کا کہیں کوئی ثبوت نہیں ہے۔ البتہ یہ قول جہلاء کی زبانوں پر گھومتا رہتا ہے۔
درج ذیل حقائق اس قول کی کمزوری واضح کردیتے ہیں:۔
ا۔ مکہ میں بت تھے مگر جماعت فرض نہیں تھی۔ مدینہ میں جماعت فرض ہوئی مگر بت نہیں تھے، پھر منافقین مدینہ کن بتوں کو بغلوں میں دبائے مسجدوں میں چلے آتے تھے؟
ب۔ تعجب ہے کہ جاہل لوگ اس گپ کو صحیح مانتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو عالم الغیب بھی مانتے ہیں حالانکہ اگر آپ عالم الغیب ہوتے تو رفع الیدین کروائے بغیر بھی جان سکتے تھے کہ فلاں فلاں شخص مسجد میں بت لے آیا ہے۔
ج۔ بت ہی گرانے تھے تو یہ، تکبیر تحریمہ کہتے وقت جو رفع الیدین کی جاتی ہے اور اسی طرح رکوع اور سجود کے دوران بھی گر سکتے تھے اس کے لیے الگ سے رفع الیدین کی سنت جاری کرنے کی قطعاً ضرورت نہیں تھی۔
د۔ منافقین بھی کس قدر بیوقوف تھے کہ بت جیبوں میں لانے کی بجائے انہیں بغلوں میں دبا لائے؟
ھ۔ یقیناً جاہل لوگ اور ان کے پیشوا یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ ان کے بقول اگر رفع الیدین کے دوران منافقین کی بغلوں سے بت گرے تھے تو پھر آپ نے انہیں کیا سزا دی تھی؟
دراصل یہ کہانی محض خانہ ساز افسانہ ہے۔ جس کا حقیقت کے ساتھ ادنیٰ سا تعلق بھی نہیں ہے۔ (ع،ر)

یہ بھی دلیل دی جاتی ہے کہ سیّدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے رفع الیدین کیا تھا اور بعد میں چھوڑ دیا۔‘‘
لیکن یہ روایت بھی مرسل اور ضعیف ہے ۔
(نور العنین ص ۴۵۱،۵۵۱۔نصب الرایۃ ۱/۴۰۴.)

تحقیق تو یہ ہے کہ مسئلہ رفع الیدین میں نسخ ہوا ہی نہیں ہے۔ کیونکہ نسخ ہمیشہ وہاں ہوتا ہے جہاں
(۱) دو حدیثیں آپس میں ٹکراتی ہوں۔
(۲) دونوں مقبول ہوں
(۳) ان کا کوئی مشترکہ مفہوم نہ نکلتا ہو۔
(۴) دلائل سے ثابت ہو جائے کہ ان دونوں میں سے فلاں پہلے دور کی ہے اور فلاں بعد میں ارشاد فرمائی گئی، تب بعد والی حدیث، پہلی حدیث کو منسوخ کر دیتی ہے۔
مگر یہاں رفع الیدین کرنے کی احادیث زیادہ بھی ہیں اور صحیح ترین بھی، جبکہ نہ کرنے کی احادیث کم بھی ہیں اور سنداً ضعیف بھی (ان پر محدثین کی جرح ہے) اب نہ تو مقبول اور مردود احادیث کا مشترکہ مفہوم اخذ کرنا جائز ہے اور نہ ہی مردود احادیث سے مقبول احادیث کو منسوخ کیا جا سکتا ہے۔ رفع الیدین کے منسوخ نہ ہونے کے دلائل ملاحظہ فرمائیں۔
۱: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حیات طیبہ کے آخری (۹ھ اور ۰۱ھ) میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے رفع الیدین کرنا روایت کیا ہے۔
ب: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم عہد نبوت کے بعد بھی رفع الیدین کے قائل و فاعل رہے۔
ج: کہا جاتا ہے کہ چاروں ائمہ برحق ہیں اگر ایسا ہی ہے تو ان چاروں میں سے تین رفع الیدین کرنے کے قائل ہیں۔
د: جن محدثین کرام رحمہ اللہ نے رفع الیدین کی احادیث کو اپنی مختلف مقبول سندوں کے ساتھ روایت کیا ہے ان میں سے کسی نے یہ تبصرہ نہیں کیا کہ ’’رفع الیدین منسوخ ہے‘‘ ثابت ہوا کہ صحابہ و تابعین اور فقہاء و محدثین کے نزدیک رفع الیدین منسوخ نہیں بلکہ سنت نبوی ہے۔ اور ظاہر ہے کہ سنت چھوڑنے کے لیے نہیں، اپنانے کے لیے ہوتی ہے۔ اب جو شخص ایک غیر معصوم امتی کے عمل کو سنت نبوی پر ترجیح دیتا ہے اور سنت کو عمدا ہمیشہ چھوڑے ہوئے ہے اسے حب رسول کا دعویٰ کرنا جچتا نہیں ہے۔ الله تعالیٰ ہم سب کو ہدایت دے۔ آمین (ع،ر)
اسی طرح اس سلسلے میں ایک اور روایت بھی پیش کی جاتی ہے کہ سیّدنا عبد الله بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
’’میں نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم و سیّدنا ابوبکر و سیدنا عمر رضی اللہ عنہم کے ساتھ نماز پڑھی یہ لوگ شروع نماز کے علاوہ ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے۔‘‘
(بیہقی ۲/۹۷۔۰۸.)
امام دار قطنی لکھتے ہیں کہ اس کا راوی محمد بن جابر ضعیف ہے۔ بلکہ بعض علماء (ابن جوزی، ابن تیمیہ وغیرہ) نے اسے موضوع کہا ہے۔ (یعنی یہ روایت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ نہیں ہے بلکہ کسی نے خود تراش کر ان کی طرف منسوب کر دی ہے)۔
خلاصہ: رفع الیدین کی احادیث بکثرت اور صحیح ترین اسناد سے مروی ہیں۔ عدم رفع الیدین کی احادیث معنی یا سنداً ثابت نہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ اہل علم کے نزدیک کسی ایک صحابی سے بھی عدم رفع الیدین ثابت نہیں ہے۔
(جزء رفع الیدین:۰۴.)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
رکوع کا بیان

(۱)۔۔۔ رکوع میں جاتے وقت الله اکبر کہہ کر دونوں ہاتھ کندھوں یا کانوں تک اٹھائیں۔ جیسا کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں:
’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب رکوع کے لیے تکبیر کہتے تو اپنے دونوں ہاتھ کندھوں تک اٹھاتے تھے۔‘‘
(بخاری، ۵۳۷، ومسلم، ۰۹۳.)
(۲)۔۔۔ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع میں پیٹھ (پشت) بالکل سیدھی رکھتے سر نہ تو اونچا ہوتا تھا اور نہ نیچا۔‘‘
(مسلم، الصلاۃ، باب الاعتدال فی السجود ۸۹۴.)
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب رکو ع کرتے تو آپ کی پیٹھ پر اگر پانی ڈالا جاتا تو وہ بھی ٹھہر جاتا۔‘‘
(سلسلہ الاحادیث الصحیحہ للالبانی۱۳۳۳.)
(۳)۔۔۔ سیّدنا ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
"رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع کیا تو اپنی ہتھیلیوں کو گھٹنوں پر رکھا او رانہیں مضبوط پکڑا انگلیاں کشادہ رکھیں۔ اور دونوں بازو تان کر رکھے اور کہنیوں کو پہلوؤں سے دور رکھا۔‘‘
(ابوداود، الصلاۃ، باب افتتاح الصلاۃ، ۴۳۷، ترمذی، الصلاۃ، باب ماجاء انہ یجا فی یدیہ عن جنبیہ فی الرکوع، ۰۶۲، اسے ترمذی اور نووی نے صحیح کہا۔)

رکوع کی دعائیں:
* سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع میں فرماتے:
سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْمِ
’’میرا رب عظیم (ہر عیب سے) پاک ہے۔‘‘
(مسلم، صلاۃ المسافرین، باب استحباب تطویل القراء ۃ فی صلاۃ اللیل، ۲۷۷.)
آپ یہ کلمات تین دفعہ کہتے تھے۔‘‘
(ابن ماجہ، اقامۃ الصلاۃ، باب التسبیح فی الرکوع والسجود : ۸۸۸.)
* ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رکوع اور سجدے میں اکثر کہتے تھے:
’’سُبْحَانَکَ اللّٰہُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِکَ اللّٰہُمَّ اغْفِرْلِیْ‘‘
’’اے ہمارے پروردگار ﷲ! تو پاک ہے، ہم تیری تعریف بیان کرتے ہیں۔ یا الٰہی مجھے بخش دے۔‘‘
(بخاری، الاذان باب الدعاء فی الرکوع، ۴۹۷، ومسلم:۴۸۴)
* ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رکوع اور سجدے میں کہتے تھے:
’’سُبُّوْحٌ قُدُّوْسٌ رَبُّ الْمَلَاءِکَۃِ وَالرُّوْحِ‘‘
’’فرشتوں او رروح (جبریل) کا پروردگار نہایت پاک ہے‘‘
(مسلم، الصلوۃ، باب ما یقال فی الرکوع والسجود ۷۸۴.)
* سیدنا عوف بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رکوع میں کہتے تھے:
’’سُبْحَانَ ذِی الْجَبَرُوْتِ وَالْمَلَکُوْتِ وَالْکِبْرِیَاءِ وَالْعَظَمَۃِ۔‘‘
’’قہر (غلبے)، بادشاہت، بڑائی اور بزرگی کا مالک ﷲ، (نہایت ہی) پاک ہے۔‘‘
(ابو داود، الصلاۃ، باب ما یقول الرجل فی رکوعہ و سجودہ، ۳۷۸۔)
*سیّدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع میں یہ پڑھتے:
’’اَللّٰہُمَّ لَکَ رَکَعْتُ وَبِکَ آمَنْتُ وَلَکَ اَسْلَمْتُ خَشَعَ لَکَ سَمْعِی وَبَصَرِیْ وَمُخِّیْ وَعَظْمِیْ وَعَصَبِیْ۔‘‘
’’اے الله میں تیرے آگے جھک گیا، تجھ پر ایمان لایا، تیرا فرمانبردار ہوا، میراکان، میری آنکھ، میرا مغز، میری ہڈی اور میرے پٹھے تیرے آگے عاجز بن گئے۔‘‘
(مسلم، صلاۃ المسافرین، باب الدعاء فء صلاۃ الیل وقیامہ: ۱۷۷.)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اطمینان، نماز کا رکن ہے:

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص مسجد میں داخل ہوا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد کے کونے میں تشریف فرما تھے۔ اس شخص نے نماز پڑھی (اور رکوع، سجود، قومے اور جلسے کی رعایت نہ کی اور جلدی جلدی نماز پڑھ کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کو سلام کیا، آپ نے فرمایا: (وَعَلَیْْْکُمُ السَّلاَمُ) واپس جا، پھر نماز پڑھ۔ اس لیے کہ تو نے نماز نہیں پڑھی‘‘
وہ گیا، پھر نماز پڑھی (جس طرح پہلے بے قاعدہ پڑھی تھی) پھر آیا اور سلام کیا آپ نے پھر فرمایا: (وَعَلَیْْْکُمُ السَّلاَمُ) جا پھر نماز پڑھ۔ کیونکہ تو نے نماز نہیں پڑھی‘‘
اس شخص نے تیسری یا چوتھی بار (بے قاعدہ) نماز پڑھنے کے بعد کہا:
’’آپ مجھے (نماز پڑھنے کا صحیح طریقہ) سکھا دیں‘‘
تو آپ نے فرمایا: ’’جب تو نماز کے ارادے سے اٹھے تو پہلے خوب اچھی طرح وضو کر، پھر قبلہ رخ کھڑا ہو کر تکبیر تحریمہ کہہ، پھر قرآن مجید میں سے جو تیرے لیے آسان ہو پڑھ، پھر رکوع کر، یہاں تک کہ اطمینان سے رکوع (پورا) کر، پھر (رکوع سے) سر اٹھا یہاں تک کہ (قومہ میں) سیدھا کھڑا ہو جا، پھر سجدہ کر یہاں تک کہ اطمینان سے سجدہ (مکمل) کر، پھر اطمینان سے اپنا سر اٹھا اور (جلسہ میں) بیٹھ جا، پھر سجدہ کر یہاں تک کہ اطمینان سے سجدہ (پورا) کر، پھر (سجدے سے) اپنا سر اٹھا اور (دوسری رکعت کے لیے) سیدھا کھڑا ہوجا، پھر اس طرح اپنی تمام نماز پوری کر۔‘‘
(بخاری، الاذان باب امر النبی الذی لا یتم رکوعہ بالاعادۃ: ۳۹۷۔ ومسلم، الصلاۃٗ باب وجوب قراء ۃ الفاتحۃ فی کل رکعۃ ، ۷۹۳.)
اس حدیث میں جس نمازی کا ذکر ہے وہ رکوع اور سجود بہت جلدی جلدی کرتا تھا۔ قومہ اور جلسہ اطمینان سے ٹھہر ٹھہر کر نہیں کرتا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر بار اسے فرمایا کہ پھر نماز پڑھ کیونکہ تو نے نماز پڑھی ہی نہیں۔ آپ نے ان ارکان کی ادائیگی میں عدم اطمینان کو نماز کے باطل ہونے کا سبب قرار دیا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
سجدہ اور رکوع میں اطمینان:

سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا جو رکوع اور سجود پوری طرح ادا نہیں کر رہا تھا سیّدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے اسے کہا کہ
’’تو نے نماز ہی نہیں پڑھی اور اگر تم (اسی طرح نماز پڑھتے ہوئے) مر گئے تو اس طریقے پر نہیں مرو گے جس پر اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پیدا کیا تھا۔‘‘
(بخاری: الأذان، باب: إذا لم یتم الرکوع: ۱۹۷.)
سیدنا عبدالرحمٰن بن شبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (نماز میں) کوے کی طرح ٹھونگیں مارنے اور درندے کی طرح ٹانگیں بچھانے سے منع فرمایا۔‘‘
(ابو داؤد، الصلاۃ من لا یقیم صلبہ، ۲۶۸.)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے پوچھا کہ شرابی، زانی اور چور کے متعلق تمہارا کیا گمان ہے (یعنی ان کا گناہ کتنا ہے)؟
صحابہ نے کہا: الله اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں۔
آپ نے فرمایا کہ "یہ گناہ کبیرہ ہیں اور ان میں سزا بہت ہے۔ اور (کان کھول کر) سنو بہت بری چوری، اس آدمی کی ہے جو اپنی نماز میں چوری کرتا ہے۔
صحابہ نے کہا وہ کس طرح؟
فرمایا: ’’جو نماز کا رکوع اور سجدہ پورا نہ کرے وہ نماز میں چوری کرتا ہے۔‘‘
(موطا امام مالک ۱/۷۶۱، باب العمل فی جامع الصلاۃ۔ اسے حاکم اور ذہبی نے صحیح کہا۔)
الله اکبر! کس قدر خوف کا مقام ہے آہ! ہماری غیر مسنون نمازوں کا کیا حشر ہو گا؟ ہمیں نماز کو تکبیر اولیٰ سے لے کر سلام پھیرنے تک مسنون طریقے سے ادا کرنا چاہیے۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’آدمی ساٹھ سال تک نماز پڑھتا رہتا ہے اور اس کی ایک نماز بھی قبول نہیں ہوتی۔ یہ وہ شخص ہے جو کبھی رکوع مکمل کرے تو سجدہ مکمل نہیں کرتا اور اگر سجدہ مکمل کرے تو رکوع مکمل نہیں کرتا۔‘‘
(سلسلہ الاحادیث الصحیحہ للالبانی ۵۳۵۲ .)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
صف میں پہنچنے سے پہلے رکوع:

سیدنا ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز میں شامل ہوئے اس وقت آپ رکوع میں تھے۔ سیدنا ابو بکرہ رضی اللہ عنہ نے صف میں پہنچنے سے پہلے ہی رکوع کر لیا اور اسی حالت میں چل کر صف میں پہنچے۔ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات بتائی گئی۔ آپ نے فرمایا:
’’الله تیرا شوق زیادہ کرے آئندہ ایسا نہ کرنا۔‘‘
(بخاری، الاذان باب اذا رکع دون الصف، ۳۸۷.)
بعض علماء کرام اس حدیث سے یہ نکتہ نکالتے ہیں کہ اگر نمازی حالت رکوع میں امام کے ساتھ شامل ہو تو وہ اسے رکعت شمار کرے گا کیونکہ ابو بکرہ رضی اللہ عنہ نے رکعت نہیں دوہرائی نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایسا کرنے کا حکم دیا اور اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قیام ضروری ہے نہ فاتحہ۔ یہ مؤقف محل نظر ہے کیونکہ :
الف:۔۔۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں رکعت لوٹانے کا حکم دیا تھا یا نہیں؟ یا انہوں نے از خود رکعت کو لوٹایا تھا یہ نہیں؟ اس کے متعلق حدیث خاموش ہے اس ضمن میں جو کچھ بھی کہا جاتا ہے وہ محض ظن و احتمال کی بنیاد پر کہا جاتا ہے۔
ب:۔۔۔ اس کے برعکس ایسے صریح دلائل موجود ہیں جو (ہر صاحب استطاعت کے لیے) قیام اور فاتحہ دونوں کو لازم قرار دیتے ہیں اور
ج:۔۔۔ قاعدہ یہ ہے کہ جب احتمال اور صراحت آمنے سامنے آجائیں تو احتمال کو چھوڑ دیا جائے گا اور صراحت پر عمل کیا جائے گا۔
د:۔۔۔ سیدھی سی بات ہے کہ اس حدیث شریف کا مرکزی نکتہ ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کا یہ فعل ہے کہ پہلے وہ حالت رکوع میں امام کے ساتھ شامل ہوئے پھر اسی کیفیت میں آگے بڑھتے ہوئے صف میں داخل ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اسی فعل سے روکا تھا۔ جماعت میں شامل ہونے کا شوق بجا مگر اس شوق کی تکمیل کا یہ طریقہ بہرحال مستحسن نہ تھا۔
ھ:۔۔۔ لہٰذا اس حدیث کو اس کے اصل نکتے سے ہٹا کر قیام اور فاتحہ سے خالی رکعت کے جواز پرلانا درست معلوم نہیں ہوتا۔ وﷲ اعلم۔ (ع،ر)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
قومے کا بیان:

سیدنا ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے سیدھے کھڑے ہو جاتے تھے یہاں تک کہ ہر ہڈی اپنے مقام پر آ جاتی تھی۔‘‘
(بخاری: الأذان، باب: سنۃ الجلوس فی التشہد: ۸۲۸.)
سیدنا ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
آدمی کی نماز درست نہیں ہوتی یہاں تک کہ رکوع اور سجدے (سے سر اٹھا کر بالکل اطمینان کے ساتھ کھڑا ہو کر یا بیٹھ کر) اپنی پیٹھ سیدھی نہ کرے۔‘‘
(ابو داؤد، الصلاۃ، باب صلاۃ من لا یقیم صلبہ فی الرکوع والسجود، ۵۵۸، ترمذی، الصلاۃ باب ما جاء فی من لا یقیم صلبہ فی الرکوع والسجود، ۵۶۲۔ امام ترمذی اور ابن حبان نے اسے صحیح کہا ۔)
بہت سے لوگوں کو قومے کا پتہ نہیں کہ وہ کیا ہوتا ہے۔ واضح ہو کہ رکوع کے بعد اطمینان سے سیدھا کھڑے ہونے کو قومہ کہتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع سے سر اٹھا کر سیدھے کھڑے ہو کر بڑے اطمینان سے قومے کی دعا پڑھتے تھے۔
سیدنا براء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا رکوع، سجدہ، دو سجدوں کے درمیان بیٹھنا اور رکوع سے (اٹھ کر قومہ میں) کھڑا ہونا برابر ہوتا تھا سوائے قیام اور تشہد بیٹھنے کے ۔ (یعنی یہ چاروں چیزیں: رکوع، سجدہ، جلسہ اور قومہ طوالت میں تقریباً برابر ہوتی تھیں۔‘‘
(بخاری، الاذان باب حد اتمام الرکوع والاعتدال فیہ، ۲۹۷ ومسلم، الصلاۃ باب اعتدال ارکان الصلاۃ و تخفیفھا فی تمام ، ۱۷۴.)
بعض اوقات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قومہ بہت لمبا ہوتا تھا۔ سیّدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس قدر لمبا قومہ کرتے کہ کہنے والا کہتا کہ آپ بھول گئے ہیں۔‘‘
(بخاری: الأذان، باب: المکث بین السجدتین: ۱۲۸، مسلم:۲۷۴)
مگر افسوس کہ آج مسلمان قومہ لمبا کرنا تو رہا درکنار، پیٹھ سیدھی کرنا بھی گوارہ نہیں کرتے فورا سجدہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اللہ ہم سب کو ہدایت دے۔ آمین (ع،ر)

قومہ کی دعائیں :
*رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب امام (رکوع سے اٹھتے ہوئے ) کہے:
(سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہُ)
’’اللہ نے اس کی سن لی جس نے اس کی تعریف کی۔‘‘
تو تم کہو:
(اَللّٰہُمَّ رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ)
’’اے ہمارے رب! تیرے ہی واسطے تعریف ہے ‘‘
سیدنا رفاعہ بن رافع رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے، جب آپ نے رکوع سے سر اٹھایا تو فرمایا: (سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہُ) ایک مقتدی نے کہا (رَبَّنَاَ لَکَ الْحَمْدُ حَمْدًا کَثِیْرًا طَیِّبًا مُّبَارَکاً فِیْہِ) پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا:
’’بولنے والا کون تھا؟‘‘ (یعنی کس نے یہ کلمے پڑھے ہیں؟) ایک شخص نے کہا یا رسول الله! میں تھا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’میں نے تیس سے زائد فرشتے دیکھے جو ان کلمات کا ثواب لکھنے میں جلدی کر رہے تھے۔‘‘
(بخاری الاذان باب فضل اللھم ربنا لک الحمد ۹۹۷.)
*سیدنا عبد ﷲ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع سے اٹھتے تو (قومہ میں دعا پڑھتے):
’’سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہُ، اللّٰہُمَّ رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ مِلْءُ السَّمٰوٰتِ وَمِلْ ءُ الْاَرْضِ وَمِلْ ءُ مَا شِءْتَ مِنْ شَیْءٍ بَعْدُ۔‘‘
’’اللہ نے سن لی اس (بندے ) کی بات جس نے اس کی تعریف کی اے اللہ! تیرے ہی لیے ساری تعریف ہے آسمانوں، زمین اور ہر اس چیز کے بھراؤ کے برابر جو تو چاہے۔‘‘
(مسلم، الصلاۃ، باب ما یقول اذا رفع راسہ من الرکوع ۲۰۲۔ (۶۷۴).)
*سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنا سر رکوع سے اٹھاتے تو یہ دعا پڑھتے:
’’رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ مِلْ ءُ السَّمٰوٰتِ وَُ الْاَرْضِ وَمِلْ ءُ مَا شِءْتَ مِنْ شَیْءٍ بَعْدُ اَہْلَ الثَّنَاءِ وَالْمَجْدِ، اَحَقُّ مَا قَالَ الْعَبْدُ، وَکُلُّنَا لَکَ عَبْدٌ، اللّٰہُمَّ لاَ مَانِعَ لِمَا أَعْطَیْتَ، وَلاَ مُعْطِیَ لِمَا مَنَعْتَ، وَلاَ یَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْکَ الْجَدُّ۔‘‘
’’اے ہمارے پروردگار! ہر قسم کی تعریف صرف تیرے لیے ہے آسمانوں اور زمین اور ہر اس چیز کے بھراؤ کے برابر جو تو چاہے اور بندے نے جو تیری تعریف اور بزرگی کی وہ تیرے لائق ہے اور ہم سب تیرے ہی بندے ہیں اے ﷲ ! اس چیز کو جو تو نے دی کوئی روکنے والا نہیں اور اس چیز کو جو تونے روک دی کوئی دینے والا نہیں اور دولت مند کو دولت مندی تیرے عذاب سے نہیں بچا سکتی۔‘‘
(مسلم، الصلاۃ،باب ما یقول اذا رفع راسہ من الرکوع ، حدیث ۷۷۴.)
*رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قومے میں فرماتے:
’’اللّٰہُمَّ لَکَ الْحَمْدُ مِلْءُ السَّماءِ وَمِلْ ءُ الْاَرْضِ وَمِلْ ءُ مَا شِءْتَ مِنْ شَیْءٍ بَعْدُ اَللّٰہُمَّ طَہِّرْنِیْ بِالثَّلْجِ وَالْبَرَدِ وَالْمَاءِ الْبَارِدِ، اَللّٰہُمَّ طَہِّرْنِیْ مِنَ الذُّنُوْبِ وَالْخَطَایَا کَمَا یُنَقَّی الثَّوْبُ الْاَبْیَضُ مِنَ الْوَسَخِ۔‘‘
’’ اے اللہ! تیرے ہی لیے ساری تعریف ہے آسمانوں اور زمین اور ہراس چیزکے بھراو کے برابر جو تو چاہے، اے اللہ! مجھے برف، اولے اور ٹھنڈے پانی سے پاک کر دے۔ اے اللہ! مجھے گناہوں اور خطاؤں سے ایسا پاک کر دے جس طرح سفید کپڑا میل کچیل سے صاف کیا جاتا ہے۔ ‘‘
(مسلم،۲۰۲۔۶۷۴. )
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
سجدے کا بیان

بہشت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ:
سیدنا ربیعہ بن کعب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رات گزارتا تھا۔ آپ کے وضو کا پانی اور آپ کی (دیگر) ضروریات (مسواک وغیرہ) لاتا تھا۔ (ایک رات خوش ہو کر) آپ نے مجھے فرمایا:
’’(کچھ دین و دنیا کی بھلائی) مانگ‘‘
میں نے عرض کیا: بہشت میں آپ کی رفاقت چاہتا ہوں
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس کے علاوہ کوئی اور چیز؟‘‘
میں نے کہا بس یہی! پھر آپ نے فرمایا:
’’پس (اپنے مقصد کے حصول کے لیے) سجدوں کی کثرت سے میری مدد کر۔‘‘
(مسلم، الصلاۃ، باب فضل السجود والحث علیہ ، ۹۸۴.)
جس طرح معالج مریض کو کہے کہ حصول شفا کے لیے میں تیرے لیے کوشش کرتا ہوں اور تو میری ہدایات کے مطابق دوائی اور پرہیز کرنے کے ساتھ میری مدد کر۔ اسی طرح آپ نے سیّدنا ربیعہ کو فرمایا کہ میں تیرے حصول مدعا کے لیے دعا سے کوشش کرتا ہوں اور تو سجدوں کی کثرت کے ساتھ میری کوشش میں میری مدد کر۔ اسی طرح تجھے بہشت میں میری رفاقت حاصل ہو گی۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ زندہ بزرگوں سے ملاقات کے دوران ان سے دعا کروانا جائز ہے۔ اس حدیث میں یہ کہیں نہیں ہے کہ میں چونکہ کل مخلوق کا حاجت روا اور مشکل کشا ہوں لہٰذا مجھ سے ہر قسم کی غیبی مدد مانگا کرو، اس کے برعکس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سیّدنا ربیعہ رضی اللہ عنہ سے مدد مانگ رہے ہیں کہ سجدوں کی کثرت سے میری مدد کر۔(ع،ر)
 
Top