• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مصنف ابن ابی شیبہ میں وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث

شمولیت
مئی 01، 2014
پیغامات
257
ری ایکشن اسکور
68
پوائنٹ
77
اچھا جی۔ آپ نے دعوی کیا ہے کہ ہاشم سندھیؒ نے كوئی نسخہ نہیں دیکھا۔ صرف التعریف کی ذکر کردہ حدیث کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ بات کی ہے۔ دلیل؟؟؟

متعددہ مصححہ کے الفاظ سے ظاہر یہ ہے کہ کہ انہوں نے دیکھا ہے ورنہ بغیر دیکھے یہ بات کیسے کر دی؟؟ یہ بات ایک عالم کا کہنا دو ہی طریقوں سے ممکن ہے: یا تو اسے کوئی خبر دے یا وہ خود دیکھے۔ خبر کا انہوں نے ذکر نہیں کیا تو ظاہر میں دیکھنا باقی رہ گیا۔ چناں چہ جب آپ خلاف ظاہر کی طرف جائیں گے تو دلیل آپ کے ذمہ ہوگی نا میرے محترم!
کشاف میں مدعی اور مدعی علیہ کی مختلف تعریفات میں سے ایک یہی کی ہے:۔
المدّعي من يلتمس غير الظاهر والمدّعى عليه من يتمسّك بالظاهر
اب اگر آپ کہتے ہیں کہ ہاشم سندھی کا یہ دعوی المصححہ والا درست ہے تو فبہا اور اگر کہتے ہیں کہ درست نہیں تو پھر دو صورتیں ہیں:
یا تو ہاشم سندھی نے جھوٹ کہا ہوگا تو اس پر آپ پر دلیل لازم ہے۔
اور یا ہاشم سندھی کو غلط اطلاع ملی ہوگی تو اس پر بھی دلیل آپ پر لازم ہے۔

یہ نہ کہا جائے کہ ہاشم سندھی کا دعوی ہے لہذا دلیل ان پر لازم ہے کیوں کہ ہاشم سندھی کا دعوی ملزمہ نہیں ہے جب کہ آپ کا انکار مستلزم ہے ہاشم سندھی کی عدالت یا خبر کے ضعف کو تو یہ ملزم ہے۔ اور جب کوئی دوسرے پر الزام لگائے اور متمسک ہو غیر ظاہر سے تو وہ مدعی بنتا ہے اور بینہ اس پر لازم ہوتی ہے۔

پہلے اس مسئلہ کو حل کریں پھر آگے چلتے ہیں ان شاء اللہ۔


@شاکر بھائی
میں مسئلے کو آگے لیجانا چاھتا ھوں اور آپ پیچھے.اور آپ تو خود کو پہنسا چکے ھیں بہت جناب.

آپ اب متزلزل ھوچکے ھیں.آپکی باتوں تناقض آچکا ھے.

دکھانے کی دلیل آپکے ذمے تھے مجھے توڑ کرنا تھا.اور آپنے دیکھنے کی دلیل ...مصححہ وغیرہ دی ھے...تو میں نے یہ کہا کہ یہ انہوں نے ..التعریف....میں ذکر کردہ حدیث پر اعتماد کرتے ھوئے کہی ھیں.تو آپ اس کہ رھے ھیں یہ الفاظ دو طرح سے کہے جا سکتے ھیں.ورنہ جہوٹ ھوگا.
ایک تو آپ بار بار علماء کرام بڑے سخت الفاظ استعمال کررھے ھیں.کبھی ..متھم بالکذب ...کذاب..دجال..وغیرہ...
ٹہیک ھے.اور آپ سمجھلیں کہ ٹھٹھوی صاحب کو آپ جھوٹا کہ چکے ھیں.
آپ یہ اقرار کر چکے ھیں کہ انکو کسی نے خبر نہیں دی. باقی دیکھنے کی بات رہ جاتی اگر میری ثابت ھوجاتی ھے.(جو کہ ان شا ء اللہ تعالی ثابت ھوگی .. ) تو گویا آپنے ھاشم سندھی کو جھوٹا کہدیا.
عرض ھے کہ ...المقابلہ...وغیرہ...والے الفاظ آپ ڑائریکٹ کتاب سے نقل کررھے ھیں یا کسی اور حوالے سے؟ اگر کسی اور حوالے سے نقل کررھے ھیں تو میرا آپکو مشورہ ھے کہ آپ معیار...سندہی کی کتاب کا صفحہ ۱۰۷ ۱۰۸ ۱۰۹ پڑھیں.پھر مجھے بتائیں.
بڑے افسوس کی بات ھے اپنے علماء کرام کی کتب آپ نہیں پڑہیںگے تو اور کون پڑھیگا...
اور اگر پڑھتے ھوںگے تو گویا سرسری...تاریخ کی کتب کی طرح..جناب تحقیقی کتب کو غور وتدبر سے پڑھا جاتا ھے.سرسری نظر نہیں.
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
میں مسئلے کو آگے لیجانا چاھتا ھوں اور آپ پیچھے.اور آپ تو خود کو پہنسا چکے ھیں بہت جناب.

آپ اب متزلزل ھوچکے ھیں.آپکی باتوں تناقض آچکا ھے.

دکھانے کی دلیل آپکے ذمے تھے مجھے توڑ کرنا تھا.اور آپنے دیکھنے کی دلیل ...مصححہ وغیرہ دی ھے...تو میں نے یہ کہا کہ یہ انہوں نے ..التعریف....میں ذکر کردہ حدیث پر اعتماد کرتے ھوئے کہی ھیں.تو آپ اس کہ رھے ھیں یہ الفاظ دو طرح سے کہے جا سکتے ھیں.ورنہ جہوٹ ھوگا.
ایک تو آپ بار بار علماء کرام بڑے سخت الفاظ استعمال کررھے ھیں.کبھی ..متھم بالکذب ...کذاب..دجال..وغیرہ...
ٹہیک ھے.اور آپ سمجھلیں کہ ٹھٹھوی صاحب کو آپ جھوٹا کہ چکے ھیں.
آپ یہ اقرار کر چکے ھیں کہ انکو کسی نے خبر نہیں دی. باقی دیکھنے کی بات رہ جاتی اگر میری ثابت ھوجاتی ھے.(جو کہ ان شا ء اللہ تعالی ثابت ھوگی .. ) تو گویا آپنے ھاشم سندھی کو جھوٹا کہدیا.
عرض ھے کہ ...المقابلہ...وغیرہ...والے الفاظ آپ ڑائریکٹ کتاب سے نقل کررھے ھیں یا کسی اور حوالے سے؟ اگر کسی اور حوالے سے نقل کررھے ھیں تو میرا آپکو مشورہ ھے کہ آپ معیار...سندہی کی کتاب کا صفحہ ۱۰۷ ۱۰۸ ۱۰۹ پڑھیں.پھر مجھے بتائیں.
بڑے افسوس کی بات ھے اپنے علماء کرام کی کتب آپ نہیں پڑہیںگے تو اور کون پڑھیگا...
اور اگر پڑھتے ھوںگے تو گویا سرسری...تاریخ کی کتب کی طرح..جناب تحقیقی کتب کو غور وتدبر سے پڑھا جاتا ھے.سرسری نظر نہیں.
اس ساری بات میں مجھے کام کا کوئی نکتہ نہیں ملا۔ آپ تعیین فرما دیں۔
میں نے تو باقاعدہ دلیل دے کر بتایا ہے کہ کس بات کی دلیل کس کے ذمہ ہے۔ آپ کے پاس کوئی دلیل ہے کہ دکھانے کی دلیل اب میرے ذمہ ہے جب کہ میں ان الفاظ سے رجوع کر چکا ہوں؟؟
میں یہ الفاظ کتاب سے ہی نقل کر رہا ہوں۔ اگر آپ کو کوئی شک ہے تو "ان مذکورہ" صفحات سے مطلوبہ عبارات لگا دیں۔

میرا مطالبہ ابھی تک اپنی جگہ موجود ہے:۔
اچھا جی۔ آپ نے دعوی کیا ہے کہ ہاشم سندھیؒ نے كوئی نسخہ نہیں دیکھا۔ صرف التعریف کی ذکر کردہ حدیث کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ بات کی ہے۔ دلیل؟؟؟

متعددہ مصححہ کے الفاظ سے ظاہر یہ ہے کہ کہ انہوں نے دیکھا ہے ورنہ بغیر دیکھے یہ بات کیسے کر دی؟؟ یہ بات ایک عالم کا کہنا دو ہی طریقوں سے ممکن ہے: یا تو اسے کوئی خبر دے یا وہ خود دیکھے۔ خبر کا انہوں نے ذکر نہیں کیا تو ظاہر میں دیکھنا باقی رہ گیا۔ چناں چہ جب آپ خلاف ظاہر کی طرف جائیں گے تو دلیل آپ کے ذمہ ہوگی نا میرے محترم!
کشاف میں مدعی اور مدعی علیہ کی مختلف تعریفات میں سے ایک یہی کی ہے:۔
المدّعي من يلتمس غير الظاهر والمدّعى عليه من يتمسّك بالظاهر
اب اگر آپ کہتے ہیں کہ ہاشم سندھی کا یہ دعوی المصححہ والا درست ہے تو فبہا اور اگر کہتے ہیں کہ درست نہیں تو پھر دو صورتیں ہیں:
یا تو ہاشم سندھی نے جھوٹ کہا ہوگا تو اس پر آپ پر دلیل لازم ہے۔
اور یا ہاشم سندھی کو غلط اطلاع ملی ہوگی تو اس پر بھی دلیل آپ پر لازم ہے۔

یہ نہ کہا جائے کہ ہاشم سندھی کا دعوی ہے لہذا دلیل ان پر لازم ہے کیوں کہ ہاشم سندھی کا دعوی ملزمہ نہیں ہے جب کہ آپ کا انکار مستلزم ہے ہاشم سندھی کی عدالت یا خبر کے ضعف کو تو یہ ملزم ہے۔ اور جب کوئی دوسرے پر الزام لگائے اور متمسک ہو غیر ظاہر سے تو وہ مدعی بنتا ہے اور بینہ اس پر لازم ہوتی ہے۔

پہلے اس مسئلہ کو حل کریں پھر آگے چلتے ہیں ان شاء اللہ۔
میں پھنس چکا ہوں یا نہیں میرے خیال میں آپ کو اس سے کوئی غرض نہیں ہونی چاہیے۔ یہ میرا اپنا معاملہ ہے۔ آپ اس مسئلے کو حل کریں۔

تھوڑا اور اضافہ کر دیتا ہوں تا کہ مزید وضاحت رہے۔
زمانہ ماضی سے چلتا آ رہا ہے کہ اس قسم کے دعوی پر یہ دلیل نہیں مانگی جاتی کہ کہنے والے عالم نے خود دیکھا ہے اس پر دلیل دو۔
امام ترمذی نے مختلف احادیث پر دعوی کیا ہے کہ اس پر اہل علم کا عمل ہے۔ جیسا کہ:
حدثنا أبو سلمة يحيى بن خلف البصري قال: حدثنا المعتمر بن سليمان، عن أبيه، عن حنش، عن عكرمة، عن ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «من جمع بين الصلاتين من غير عذر فقد أتى بابا من أبواب الكبائر»: «وحنش هذا هو أبو علي الرحبي، وهو حسين بن قيس، وهو ضعيف عند أهل الحديث، ضعفه أحمد وغيره» والعمل على هذا عند أهل العلم: أن لا يجمع بين الصلاتين إلا في السفر أو بعرفة
سنن الترمذی 1۔356 ط مصطفی البابی
اس میں کوئی صراحت نہیں ہے کہ یہ عمل ترمذیؒ نے خود دیکھا ہے یا کسی نے انہیں بتایا ہے کہ یہ اہل علم کا عمل ہے؟ اور اگر دیکھا ہے تو کتنے اہل علم کا عمل دیکھا ہے؟ اس کے باوجود ترمذیؒ کے صرف اس قول سے استدلال ہو رہا ہے اور یہ آپ کے والے سوالات نہیں کیے جا رہے:۔
فاشار بذلک الی ان الحدیث اعتضد بقول اہل العلم وقد صرح غیر واحد۔۔۔۔۔۔الخ
التعقبات علی الموضوعات للسیوطی ص 12 ط ہند (ماخوذ من "الامام ابن ماجہ و کتابہ السنن ص 118 ط الرحیم اکادیمی")

سیوطی کو چاہیے تھا کہ پہلے آپ کے طرز پر یہ سوال پوچھتے اور دلیل مانگتے کہ اہل علم کا عمل ہے بھی کہ نہیں۔ کیا خیال ہے؟

بچے کے کان میں اذان کی حدیث کے بارے میں شیخ زبیر علی زئیؒ فرماتے ہیں:۔
سوال: نومولودبچے کے کان میں اذان دینا صحیح صریح احادیث سے ثابت ہے؟
جواب: نومولودکے کان میں اذان دینے والی حدیث ضعیف ہے لیکن امام ترمذی کے قول ’’والعمل علیہ‘‘(سنن ترمذی:1514ونسخہ مخطوطہ ص108) سے معلوم ہوتاہے کہ اس مسئلہ پرتمام مسلمانوں کا عمل یعنی اجماع ہے۔
[ماہنامہ الحدیث: 10/ 22]
حالاں کہ میرے ایک اہل حدیث ساتھی کو پی ایچ ڈی کے مقالہ کے لیے اس حدیث پر تلاش بسیار کے باوجود عمل کا کوئی اور حوالہ نہیں ملا۔ لیکن شیخ زبیر نے یہ سوال نہیں کیا کہ ترمذی نے دیکھا تھا یہ عمل یا انہیں کسی نے خبر دی تھی۔ نہ وہ کوئی دلیل لائے کہ ترمذی کے زمانے میں واقعی عمل تھا۔
میرے محترم بھائی! اس قسم کے معاملات میں یہ خود سمجھا جاتا ہے کہ کہنے والے نے دیکھا ہوگا جبھی کہا ہے۔ اور جو انکار کرے اس سے دلیل طلب کی جاتی ہے۔

اب آپ ذرا دلیل دے کر مسئلہ حل کریں۔
 
شمولیت
مئی 01، 2014
پیغامات
257
ری ایکشن اسکور
68
پوائنٹ
77
اس ساری بات میں مجھے کام کا کوئی نکتہ نہیں ملا۔ آپ تعیین فرما دیں۔
میں نے تو باقاعدہ دلیل دے کر بتایا ہے کہ کس بات کی دلیل کس کے ذمہ ہے۔ آپ کے پاس کوئی دلیل ہے کہ دکھانے کی دلیل اب میرے ذمہ ہے جب کہ میں ان الفاظ سے رجوع کر چکا ہوں؟؟
میں یہ الفاظ کتاب سے ہی نقل کر رہا ہوں۔ اگر آپ کو کوئی شک ہے تو "ان مذکورہ" صفحات سے مطلوبہ عبارات لگا دیں۔

میرا مطالبہ ابھی تک اپنی جگہ موجود ہے:۔


میں پھنس چکا ہوں یا نہیں میرے خیال میں آپ کو اس سے کوئی غرض نہیں ہونی چاہیے۔ یہ میرا اپنا معاملہ ہے۔ آپ اس مسئلے کو حل کریں۔

تھوڑا اور اضافہ کر دیتا ہوں تا کہ مزید وضاحت رہے۔
زمانہ ماضی سے چلتا آ رہا ہے کہ اس قسم کے دعوی پر یہ دلیل نہیں مانگی جاتی کہ کہنے والے عالم نے خود دیکھا ہے اس پر دلیل دو۔
امام ترمذی نے مختلف احادیث پر دعوی کیا ہے کہ اس پر اہل علم کا عمل ہے۔ جیسا کہ:
حدثنا أبو سلمة يحيى بن خلف البصري قال: حدثنا المعتمر بن سليمان، عن أبيه، عن حنش، عن عكرمة، عن ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «من جمع بين الصلاتين من غير عذر فقد أتى بابا من أبواب الكبائر»: «وحنش هذا هو أبو علي الرحبي، وهو حسين بن قيس، وهو ضعيف عند أهل الحديث، ضعفه أحمد وغيره» والعمل على هذا عند أهل العلم: أن لا يجمع بين الصلاتين إلا في السفر أو بعرفة
سنن الترمذی 1۔356 ط مصطفی البابی
اس میں کوئی صراحت نہیں ہے کہ یہ عمل ترمذیؒ نے خود دیکھا ہے یا کسی نے انہیں بتایا ہے کہ یہ اہل علم کا عمل ہے؟ اور اگر دیکھا ہے تو کتنے اہل علم کا عمل دیکھا ہے؟ اس کے باوجود ترمذیؒ کے صرف اس قول سے استدلال ہو رہا ہے اور یہ آپ کے والے سوالات نہیں کیے جا رہے:۔
فاشار بذلک الی ان الحدیث اعتضد بقول اہل العلم وقد صرح غیر واحد۔۔۔۔۔۔الخ
التعقبات علی الموضوعات للسیوطی ص 12 ط ہند (ماخوذ من "الامام ابن ماجہ و کتابہ السنن ص 118 ط الرحیم اکادیمی")

سیوطی کو چاہیے تھا کہ پہلے آپ کے طرز پر یہ سوال پوچھتے اور دلیل مانگتے کہ اہل علم کا عمل ہے بھی کہ نہیں۔ کیا خیال ہے؟

بچے کے کان میں اذان کی حدیث کے بارے میں شیخ زبیر علی زئیؒ فرماتے ہیں:۔
سوال: نومولودبچے کے کان میں اذان دینا صحیح صریح احادیث سے ثابت ہے؟
جواب: نومولودکے کان میں اذان دینے والی حدیث ضعیف ہے لیکن امام ترمذی کے قول ’’والعمل علیہ‘‘(سنن ترمذی:1514ونسخہ مخطوطہ ص108) سے معلوم ہوتاہے کہ اس مسئلہ پرتمام مسلمانوں کا عمل یعنی اجماع ہے۔
[ماہنامہ الحدیث: 10/ 22]
حالاں کہ میرے ایک اہل حدیث ساتھی کو پی ایچ ڈی کے مقالہ کے لیے اس حدیث پر تلاش بسیار کے باوجود عمل کا کوئی اور حوالہ نہیں ملا۔ لیکن شیخ زبیر نے یہ سوال نہیں کیا کہ ترمذی نے دیکھا تھا یہ عمل یا انہیں کسی نے خبر دی تھی۔ نہ وہ کوئی دلیل لائے کہ ترمذی کے زمانے میں واقعی عمل تھا۔
میرے محترم بھائی! اس قسم کے معاملات میں یہ خود سمجھا جاتا ہے کہ کہنے والے نے دیکھا ہوگا جبھی کہا ہے۔ اور جو انکار کرے اس سے دلیل طلب کی جاتی ہے۔

اب آپ ذرا دلیل دے کر مسئلہ حل کریں۔


نہیں ملا کچھ.؟ اچھی بات ھے جناب.خود کو ایسے ھی بہلاتے رھئے.
اور آپکو یہ بھی بتادوں کہ آپکے اوپر ایک اور بم گرنے والا ھے اس کے لئے بھی تیار رھیں.

بڑا حیف ھے آپ پر.آپنے اصل کتاب بھی پڑھی لیکن آپ حقیقت حال سے آگاہ نہ ھوسکے.
لیکن ان شاء اللہ تعالی جلدی ھوجائیںگے.

میرے آپ سے سوال ھے کہ تحت السرة کے الفاظ کے وجود کا کس نے اور کہا ں دعوی کیا؟
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
نہیں ملا کچھ.؟ اچھی بات ھے جناب.خود کو ایسے ھی بہلاتے رھئے.
اور آپکو یہ بھی بتادوں کہ آپکے اوپر ایک اور بم گرنے والا ھے اس کے لئے بھی تیار رھیں.

بڑا حیف ھے آپ پر.آپنے اصل کتاب بھی پڑھی لیکن آپ حقیقت حال سے آگاہ نہ ھوسکے.
لیکن ان شاء اللہ تعالی جلدی ھوجائیںگے.

میرے آپ سے سوال ھے کہ تحت السرة کے الفاظ کے وجود کا کس نے اور کہا ں دعوی کیا؟
نہ۔ نہ۔ نہ راشدی صاحب۔
جان چھڑانے کی نہیں ہو رہی۔ پہلے یہ مسئلہ حل کیجیے پھر مجھ پر بم کیا ایٹم بم گرا دیجیے گا۔
تحت السرۃ کے الفاظ پر بات بعد میں۔ پہلے جو بات چل رہی ہے اس پر اپنی دلیل دیں۔ نہیں دے سکتے تو دعوی ترک کر کے ظاہر کو مان جائیے۔ پھر یہ بھی دیکھیں گے۔
اسے حل کریں پہلے:۔

اچھا جی۔ آپ نے دعوی کیا ہے کہ ہاشم سندھیؒ نے كوئی نسخہ نہیں دیکھا۔ صرف التعریف کی ذکر کردہ حدیث کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ بات کی ہے۔ دلیل؟؟؟

متعددہ مصححہ کے الفاظ سے ظاہر یہ ہے کہ کہ انہوں نے دیکھا ہے ورنہ بغیر دیکھے یہ بات کیسے کر دی؟؟ یہ بات ایک عالم کا کہنا دو ہی طریقوں سے ممکن ہے: یا تو اسے کوئی خبر دے یا وہ خود دیکھے۔ خبر کا انہوں نے ذکر نہیں کیا تو ظاہر میں دیکھنا باقی رہ گیا۔ چناں چہ جب آپ خلاف ظاہر کی طرف جائیں گے تو دلیل آپ کے ذمہ ہوگی نا میرے محترم!
کشاف میں مدعی اور مدعی علیہ کی مختلف تعریفات میں سے ایک یہی کی ہے:۔
المدّعي من يلتمس غير الظاهر والمدّعى عليه من يتمسّك بالظاهر
اب اگر آپ کہتے ہیں کہ ہاشم سندھی کا یہ دعوی المصححہ والا درست ہے تو فبہا اور اگر کہتے ہیں کہ درست نہیں تو پھر دو صورتیں ہیں:
یا تو ہاشم سندھی نے جھوٹ کہا ہوگا تو اس پر آپ پر دلیل لازم ہے۔
اور یا ہاشم سندھی کو غلط اطلاع ملی ہوگی تو اس پر بھی دلیل آپ پر لازم ہے۔

یہ نہ کہا جائے کہ ہاشم سندھی کا دعوی ہے لہذا دلیل ان پر لازم ہے کیوں کہ ہاشم سندھی کا دعوی ملزمہ نہیں ہے جب کہ آپ کا انکار مستلزم ہے ہاشم سندھی کی عدالت یا خبر کے ضعف کو تو یہ ملزم ہے۔ اور جب کوئی دوسرے پر الزام لگائے اور متمسک ہو غیر ظاہر سے تو وہ مدعی بنتا ہے اور بینہ اس پر لازم ہوتی ہے۔

پہلے اس مسئلہ کو حل کریں پھر آگے چلتے ہیں ان شاء اللہ۔
 
شمولیت
مئی 01، 2014
پیغامات
257
ری ایکشن اسکور
68
پوائنٹ
77
نہ۔ نہ۔ نہ راشدی صاحب۔
جان چھڑانے کی نہیں ہو رہی۔ پہلے یہ مسئلہ حل کیجیے پھر مجھ پر بم کیا ایٹم بم گرا دیجیے گا۔
تحت السرۃ کے الفاظ پر بات بعد میں۔ پہلے جو بات چل رہی ہے اس پر اپنی دلیل دیں۔ نہیں دے سکتے تو دعوی ترک کر کے ظاہر کو مان جائیے۔ پھر یہ بھی دیکھیں گے۔
اسے حل کریں پہلے:۔

جناب اسی پر ھی بحث ھے....آپکو نسخے کے دیکہنے ھی کا جواب دینا چاھتا ھوں.اور ابن قطلوبغا کے نسخے ھی کا جواب ھے اس میں.آپ پریشان نہ ھوں.
باقی بم جب گریگا تو پتہ چل جائیگا.ان شاء اللہ تعالی.
 
شمولیت
مئی 01، 2014
پیغامات
257
ری ایکشن اسکور
68
پوائنٹ
77
قارئین کرام علماء کرام آج میں ایک نئی دردناک بد ترین افسوس زدہ حیران کن بات کا انکشاف کررھاھوں.اور اس خیانت کا سہرا اسی ادارة العلوم کے جاتا ھے.یہ اللہ تعالی کا مجھ جیسے ناچیز خاکی پر عظیم احسان ھے کے مجھ کو اس فورم پر لایا جس کی بدولت ایک راز اور ایک ایسا بھید کھلنے والا ھے جس سے روںگٹے کھڑے ھوجائیںگے اور زمین پاؤوں سے نکل جائیگی.
کیا یہ ادارہ دین کی خدمت کرنے کے لیے کھلا ھے یا محض مسلکی تعصب وجمود کی وجہ سے اپنے مسلک کو بچانے کے لئے کھلا ھے.
اور یہ بات ھاشم ٹھٹھوی کی کتاب " ترصیع الدرہ .... الخ کے متعلق ھے.اشماریہ بھائی آپ بھی منتظر رھئے.
 
شمولیت
مئی 01، 2014
پیغامات
257
ری ایکشن اسکور
68
پوائنٹ
77
قارئین کرام علماء کرام آج میں ایک نئی دردناک بد ترین افسوس زدہ حیران کن بات کا انکشاف کررھاھوں.اور اس خیانت کا سہرا اسی ادارة العلوم کے جاتا ھے.یہ اللہ تعالی کا مجھ جیسے ناچیز خاکی پر عظیم احسان ھے کے مجھ کو اس فورم پر لایا جس کی بدولت ایک راز اور ایک ایسا بھید کھلنے والا ھے جس سے روںگٹے کھڑے ھوجائیںگے اور زمین پاؤوں سے نکل جائیگی.
کیا یہ ادارہ دین کی خدمت کرنے کے لیے کھلا ھے یا محض مسلکی تعصب وجمود کی وجہ سے اپنے مسلک کو بچانے کے لئے کھلا ھے.
اور یہ بات ھاشم ٹھٹھوی کی کتاب " ترصیع الدرہ .... الخ کے متعلق ھے.اشماریہ بھائی آپ بھی منتظر رھئے.
م


محترم قارئین.
میں معذرت کرتا ھوں جو کچھ میں نے کہا ھے.دراصل مجھے غلط فھمی ھوگئی تھی.
اصل میں ٹھٹوی صاحب کی جو مطبوع کتب ھیں.ان میں صفحہ ۸۴ ۸۵ نہیں ھے.ناشر نے شروع میں ٹھٹھوی صاحب کے حوالے سے یہ لکھا کہ وقد وجدت ھی ای زیادة تحت السرة ....الخ..اور نیچے حاشیہ میں مذکورہ حوالہ دیا تھا.لیکن جب مجھے مذکورہ صفحات نہ ملے تو میں نے سمجھا کہ الفاظ کتاب میں نہیں ھوںگے.اس لئے انھوں نے حذف کر دئے ھیں.لیکن میں نے مزید دیکھا تو میری بات غلط نکلی.کیوںکہ شروع میں قلمی صفحے لگے ھوئے تھے.لہذا میں اپنی سابقہ بات سے رجوع کرتا ھوں اور اللہ تعالی سے معذرت کرتا ھوں....اگر ناشرین اسکی وضاحت کرتے تو اس طرح کا شبہ نہ ھوتا...اللہ تعالی سے مغفرت کی امید کرتا ھوں.
 
شمولیت
مئی 01، 2014
پیغامات
257
ری ایکشن اسکور
68
پوائنٹ
77
ا
م


محترم قارئین.
میں معذرت کرتا ھوں جو کچھ میں نے کہا ھے.دراصل مجھے غلط فھمی ھوگئی تھی.
اصل میں ٹھٹوی صاحب کی جو مطبوع کتب ھیں.ان میں صفحہ ۸۴ ۸۵ نہیں ھے.ناشر نے شروع میں ٹھٹھوی صاحب کے حوالے سے یہ لکھا کہ وقد وجدت ھی ای زیادة تحت السرة ....الخ..اور نیچے حاشیہ میں مذکورہ حوالہ دیا تھا.لیکن جب مجھے مذکورہ صفحات نہ ملے تو میں نے سمجھا کہ الفاظ کتاب میں نہیں ھوںگے.اس لئے انھوں نے حذف کر دئے ھیں.لیکن میں نے مزید دیکھا تو میری بات غلط نکلی.کیوںکہ شروع میں قلمی صفحے لگے ھوئے تھے.لہذا میں اپنی سابقہ بات سے رجوع کرتا ھوں اور اللہ تعالی سے معذرت کرتا ھوں....اگر ناشرین اسکی وضاحت کرتے تو اس طرح کا شبہ نہ ھوتا...اللہ تعالی سے مغفرت کی امید کرتا ھوں.
اللہ تعالی سے مغفرت طلب کرتا ھوں
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
جناب اسی پر ھی بحث ھے....آپکو نسخے کے دیکہنے ھی کا جواب دینا چاھتا ھوں.اور ابن قطلوبغا کے نسخے ھی کا جواب ھے اس میں.آپ پریشان نہ ھوں.
باقی بم جب گریگا تو پتہ چل جائیگا.ان شاء اللہ تعالی.
قارئین کرام علماء کرام آج میں ایک نئی دردناک بد ترین افسوس زدہ حیران کن بات کا انکشاف کررھاھوں.اور اس خیانت کا سہرا اسی ادارة العلوم کے جاتا ھے.یہ اللہ تعالی کا مجھ جیسے ناچیز خاکی پر عظیم احسان ھے کے مجھ کو اس فورم پر لایا جس کی بدولت ایک راز اور ایک ایسا بھید کھلنے والا ھے جس سے روںگٹے کھڑے ھوجائیںگے اور زمین پاؤوں سے نکل جائیگی.
کیا یہ ادارہ دین کی خدمت کرنے کے لیے کھلا ھے یا محض مسلکی تعصب وجمود کی وجہ سے اپنے مسلک کو بچانے کے لئے کھلا ھے.
اور یہ بات ھاشم ٹھٹھوی کی کتاب " ترصیع الدرہ .... الخ کے متعلق ھے.اشماریہ بھائی آپ بھی منتظر رھئے.
م


محترم قارئین.
میں معذرت کرتا ھوں جو کچھ میں نے کہا ھے.دراصل مجھے غلط فھمی ھوگئی تھی.
اصل میں ٹھٹوی صاحب کی جو مطبوع کتب ھیں.ان میں صفحہ ۸۴ ۸۵ نہیں ھے.ناشر نے شروع میں ٹھٹھوی صاحب کے حوالے سے یہ لکھا کہ وقد وجدت ھی ای زیادة تحت السرة ....الخ..اور نیچے حاشیہ میں مذکورہ حوالہ دیا تھا.لیکن جب مجھے مذکورہ صفحات نہ ملے تو میں نے سمجھا کہ الفاظ کتاب میں نہیں ھوںگے.اس لئے انھوں نے حذف کر دئے ھیں.لیکن میں نے مزید دیکھا تو میری بات غلط نکلی.کیوںکہ شروع میں قلمی صفحے لگے ھوئے تھے.لہذا میں اپنی سابقہ بات سے رجوع کرتا ھوں اور اللہ تعالی سے معذرت کرتا ھوں....اگر ناشرین اسکی وضاحت کرتے تو اس طرح کا شبہ نہ ھوتا...اللہ تعالی سے مغفرت کی امید کرتا ھوں.
ا

اللہ تعالی سے مغفرت طلب کرتا ھوں
اللہ پاک آپ کو معاف فرمائے
شکر ہے بم گرانے سے پہلے دیکھ لیا ورنہ بھارتی میزائلوں والا حال بھی ہو سکتا تھا۔

جی تو کہاں ہے آپ کا وہ جواب؟
آپ دوسری تو ساری باتیں کر رہے ہیں لیکن یہ مسئلہ نہیں حل کر رہے۔
 
شمولیت
مئی 01، 2014
پیغامات
257
ری ایکشن اسکور
68
پوائنٹ
77
اللہ پاک آپ کو معاف فرمائے
شکر ہے بم گرانے سے پہلے دیکھ لیا ورنہ بھارتی میزائلوں والا حال بھی ہو سکتا تھا۔

جی تو کہاں ہے آپ کا وہ جواب؟
آپ دوسری تو ساری باتیں کر رہے ہیں لیکن یہ مسئلہ نہیں حل کر رہے۔

آمین.
جناب میں نے آپکو کل تحت السرہ کے حوالے سے کچھ کہا تھا آپ نے جواب نہیں دیا.ٹھیک ھے پھر لیجئے جواب.

ھاشم ٹھٹھوی صاحب فرماتے ھیں :

۱
وقد وجدت ھی(ای زیادة تحت السرة) فی ثلث نسخ من مصنف ابی بکر بن ابی شیبة. منها النسخة التي نقلہا عنها الشيخ قاسم محدث الديار المصرية رحمه الله تعالي.....الخ .ترصیع الدرہ...مصورہ شروع والا عکس دیکھں.
یعنی تحت السرہ کی زیادتی تین نسخوں میں پائی گئی ھے.جن میں سے ایک نسخہ وہ ھے جس سے اس (تحت السرہ کی زیادتی )کو شیخ قاسم محدث الدیار المصریہ رحمہ اللہ نے نقل کیا ھے.
اب آپ یہ تو جانتے ھی ھیں کہ شیخ قاسم نے یہ زیادتی کہاں نقل کی ھے...یعنی اپنی کتاب التعریف....الخ میں.

۲
قد ثبت وجود لفظة تحت السرة ملحقة بحديث وائل في النسخ المتقدم ذكرها.اما في نسخة الشيخ قاسم فباخباره وهو عدل واما في النسختين الاخيرتين فبالمشاهدة....ترصيع الدرة...الخ..مصورہ ..یعنی عکس دیکھیں.
بیشک تحت السرہ کے الفاظ کا وجود حدیث وائل کے ساتھ ان نسخوں میں ثابت ھوچکا ھے جن کا ذکر پہلے گذرا...شیخ قاسم کے نسخے میں اسکے وجود کا ثبوت اسکے خبر دینے سے ھے اور وہ عادل ھے.باقی آخری دو نسخوں میں..تو یہ مشاہدہ سے ھے.....الخ.
یعنی شیخ قاسم نے اپنی کتاب میں یہ روایت ذکر کی گویا خبر دی اور دو نسخوں میں ٹھٹھوی صاحب خوددیکھا ھے.
اگر ابن قطلوبغا والا نسخہ دیکھا ھوتا تو دو کی تخصیص دیکھنے کے لیے نہ کرتے.

۳
فاحتجاجه من نسخة عنده لابي بكر بن ابي شيبة من غير بيان انه مقابل دليل علي انه رحمه الله تعالي انما نقل من نسخة مقابلة مصححة قابلة للاحتجاج....معيارالنقاد...
یعنی اسکا اس نسخے سے احتجاج کرنا(جو اس کے پاس ابوبکر بن ابی شیبہ کا تھا) بغیر کسی وضاحت کےکہ وہ مقابلہ شدہ ھے ..اس پر یہ دلیل ھے کہ اس نے مقابلہ مصححہ قابلہ للاحتجاج سے نقل کیا ھوگا...معیار النقاد...صفحہ بتاتا ھوں.
یعنی ابن قطلوبغا نے اپنی کتاب میں اس حدیث سے حجت پکڑی ھے حالاںکہ اس نے اس نسخے کی کوئی وضاحت نہیں کی کے وہ کیسا ھے.؟ ٹھٹھوی صاحب کہتے ھیں انکا اپنی کتاب میں محض اس حدیث سے دلیل پکڑنا ھی اس بات کے لئے کافی ھے کہ وہ مصححہ مقابلہ....الخ.ھی ھوگا.چاھے وہ نہ ھی بیان کریں اس نسخے کی کیفیت کو...
جی اب کو ئی شک باقی رھتا ھے.
 
Top