ابوعدنان محمد منیر قمر نے تجزیہ پیش کیا ہے کہ رکوع میں آکر ملنے والے کی رکعت ہوتی ہے یا نہیں؟
السلام و علیکم ورحمۃ اللہ علیہ
منیر قمر کی کتاب ’’رکوع میں ملنے والے کی رکعت‘‘ کےپیش لفظ کے تحت لکھا ہے ؛
۱۔ اسکی وہ رکعت شمار نہیں ہوگی بلکہ اسے امام کے سلام پھیرنے کے بعد اس رکعت کا اعادہ کرنا ہوگا۔
۲۔ اس کی وہ رکعت ہو جائے گی۔
ان دونوں میں سے معروف ترین مسلک تو پہلا ہے
موصوف نے پہلے سے یہ فیصلہ کر رکھا ہے کہ جس پر وہ ہے وہی مسلک صحیح ہے تو ایسا شخص جج کیونکر ہو سکتا ہے۔
دلائل میں لکھا ہے؛
’’ رکوع میں آکر ملنے والے سے دو اہم اجزاء نماز چھوٹ جاتے ہیں، ایک قیام جو کہ بالاتفاق نماز کا رکن ہے، دوسرا سورہ فاتحہ پڑھنا ‘‘
محترم رکوع میں شامل ہونے والا کیا تکبیرِ تحریمہ بھی کہتا ہے کہ نہیں؟ تکبیرِ تحریمہ قیام کی حالت میں سکون سے کھڑے ہو کر کہی جاتی ہے۔ اگر اس نے تکبیرِ تحریمہ کہی ہے تو اس کا قیام ہو گیا۔ رہا سورہ فاتحہ کے رہ جانے کا معاملہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرما ن ؛
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ أَنَّ سَعِيدَ بْنَ الْحَكَمِ حَدَّثَهُمْ أَخْبَرَنَا نَافِعُ بْنُ يَزِيدَ حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَبِي الْعَتَّابِ وَابْنِ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا جِئْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ وَنَحْنُ سُجُودٌ فَاسْجُدُوا وَلَا تَعُدُّوهَا شَيْئًا وَمَنْ أَدْرَكَ الرَّكْعَةَ فَقَدْ أَدْرَكَ الصَّلَاةَ (سنن أبي داود کتاب الصلاۃ باب فِي الرَّجُلِ يُدْرِكُ الْإِمَامَ سَاجِدًا كَيْفَ يَصْنَعُ أيه} حدیث نمبر 759)
رسول الله صلى الله عليہ وسلم نے فرمايا کہ جب تم نماز کے لئے آؤ اور ہم سجده میں ہوں تو سجده كرو اور اس كو كسى شمار میں نہ ركهو اور جس نے (امام کے ساتھ) ركوع پاليا اس نے نماز كى ركعت پالى
سے امام کی قراءت نے اس کی کفایت کر دی لہٰذا اس کی نماز سورہ فاتحہ کے بغیر نہ ہوئی۔
محترم اگر آقا علیہ السلام فر ما دیتے کہ سجدہ میں ملنے سے رکعت مل جاتی ہے تو کیا آپ لوگ قیام اور رکوع کے چھوٹ جانے کی رٹ لگا لیتے؟ کیا آپ کے لئے آقا علیہ السلام کا فرمان کافی نہیں؟
والسلام