• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نماز باجماعت>امام كے ساتھـ ركوع میں شامل ہونے والے کی ركعت کے شمار كا حکم

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
جی بالکل ! جیسے حنفی علماء نے آپ جیسے عامیوں کو یہ پٹی پڑھائی ہے، کہ یہ حدیث صحیح اور قابل احتجاج ہے، اور آپ کی اس کمزوری کا فائدہ اٹھا یا ہے ان علمائے سوء نے!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
محترم مجھے پٹی پڑھانے والے حنفی علماء کا ذکر کردوں تاکہ قارئین بھی مستفید ہو سکیں؛
نمبر ایک
upload_2015-9-27_16-51-31.png

نمبر دو
upload_2015-9-27_16-52-45.png

نمبر تین
upload_2015-9-27_16-54-17.png


والسلام
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
بھٹی صاحب! کہیں گائے نے سر پر چوٹ تو نہیں ماری! کہ اس نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے؟
یہ امیج کیا لگائے ہیں؟ کہیں قرآن کو بھی حنفی عالم کی تصنیف تو نہیں سمجھتے آپ؟
امام مالک کا نام کیوں دکھایا ہے؟ کون سی بات کہی، امام مالک نے؟ کہیں آپ امام مالک کو بھی حنفی تو نہیں سمجھتے؟
عبد الجبار بن وائل کو بھی آپ حنفی تو نہیں سمجھ بیٹھے ہو؟

اس حدیث کو قرآن نے کہاں، امام مالک نے کہاں اور عبد الجبار بن وائل نے کہاں قابل استدلال قرار دیا ہے؟
ہاں! یہ بات معلوم ہوئی کہ آپ کے پاس المكتبۃ الشاملہ ہے، یہ اچھی بات ہے!
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
بھٹی صاحب! کہیں گائے نے سر پر چوٹ تو نہیں ماری! کہ اس نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے؟
یہ امیج کیا لگائے ہیں؟ کہیں قرآن کو بھی حنفی عالم کی تصنیف تو نہیں سمجھتے آپ؟
امام مالک کا نام کیوں دکھایا ہے؟ کون سی بات کہی، امام مالک نے؟ کہیں آپ امام مالک کو بھی حنفی تو نہیں سمجھتے؟
عبد الجبار بن وائل کو بھی آپ حنفی تو نہیں سمجھ بیٹھے ہو؟

اس حدیث کو قرآن نے کہاں، امام مالک نے کہاں اور عبد الجبار بن وائل نے کہاں قابل استدلال قرار دیا ہے؟
ہاں! یہ بات معلوم ہوئی کہ آپ کے پاس المكتبۃ الشاملہ ہے، یہ اچھی بات ہے!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
محترم قرآن و حدیث کو دیکھ کر اتنا گھبرا کیوں گئے؟
والسلام
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
معلوم ہوتا ہے گائے نےزبردست چوٹ ماری ہے!
بھٹی صاحب کچھ عرصہ آرام فرمائیں! امید ہے ، ہم بھی دعا کرتے ہیں، اللہ آپ کو صحت دے!
اور جب طبعیت بہتر ہو جائے تو بتلائیے گا کہ:
اس حدیث کو قرآن نے کہاں، امام مالک نے کہاں اور عبد الجبار بن وائل نے کہاں قابل استدلال قرار دیا ہے؟
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
محترم یہی فہم آقا علیہ السلام اپنے مذکورہ فرمان میں دے رہے ہیں کہ سجدہ میں ملنے سے اس کا رکوع ادا نہ ہوسکا (حالانکہ اس نے باقی تمام ارکان ادا کیئے) جس وجہ سے اس کی یہ رکعت شمار نہ کی گئی۔ جب وہ رکوع میں آکر شامل ہؤا تو ایک رکعت میں جتنے بھی مشروع ارکان تھے وہ ادا ہو گئے۔ملاحظہ فرمائیں؛
اس نے تکبیر تحریمہ کہی اس کے بغیر نماز ہی شروع نہیں ہوتیـــ تکبیر تحریمہ قیام کی حالت میں ہی کہی جاتی ہے لہٰذا قیام بھی ہؤا ــــ قراءت چونکہ امام نے کی اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان ’’مَنْ كَانَ لَهُ إِمَامٌ فَقِرَاءَةُ الْإِمَامِ لَهُ قِرَاءَةٌ‘‘ (جس کا امام ہو تو امام کی قراءت اس کو کافی ہے) سے اس کی قراءت بھی ہوگئی ــــ اس نے رکوع بھی پالیا ـــ سجود بھی اس نے کر لئے۔
ایک رکعت میں جتنے بھی اجزاء ہیں وہ تمام ادا ہوگئے لہٰذا اس کی ایک رکعت ہوگئی۔
فَمَالِ هَؤُلَاءِ الْقَوْمِ لَا يَكَادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثًا اس قوم کو کیا ہو گیا ہے کہ بات کو سمجھتے ہی نہیں۔
قراءت چونکہ امام نے کی اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان ’’مَنْ كَانَ لَهُ إِمَامٌ فَقِرَاءَةُ الْإِمَامِ لَهُ قِرَاءَةٌ‘‘ (جس کا امام ہو تو امام کی قراءت اس کو کافی ہے) سے اس کی قراءت بھی ہوگئی ــــ اس نے رکوع بھی پالیا ـــ سجود بھی اس نے کر لئے۔
اس حدیث کے بارے میں اسحاق سلفی بھائی نے سوال کیا:
یہ حدیث کہاں ہے ۔۔سند سمیت لکھیں ۔۔اور ساتھ ہی یہ بھی بتائیں کہ : کس معتبر محدث نے اس کی تصحیح کی ہے ؟
بھٹی صاحب ! کے ذہنی حالت یہ ہے کہ اس حدیث کو بتلانے کے بجائے، دوسری باتیں شروع کریں!
بھٹی صاحب آپ آرام کریں!
لہٰذا لازم آئے گا کہ اس سے مقتدی کو استثنا دیا جائے اور آقا علیہ الصلاۃ والسلام نے یہ ارشاد فرما کر مقتدی کو استثنا دے دیا؛
حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ أَخْبَرَنَا حَسَنُ بْنُ صَالِحٍ عَنْ جَابِرٍ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ كَانَ لَهُ إِمَامٌ فَقِرَاءَتُهُ لَهُ قِرَاءَةٌ (احمد)
جابر (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ (نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے) فرمایا کہ جس کسی کا امام ہو پس امام کی قراءت مقتدی کی قراءت ہے۔
اول تو ذرا دیکھ لیں مذکورہ سند کے ساتھ یہ حدیث مسند احمد میں مجھے نہیں ملی! اس کا مکمل حوالہ دیں تو دیکھیں؛
مجھے یہ حدیث اس سند کے ساتھ مسند احمد میں ملی ہے:
حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ، أَخْبَرَنَا حَسَنُ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَنْ كَانَ لَهُ إِمَامٌ، فَقِرَاءَتُهُ لَهُ قِرَاءَةٌ "
مسند الإمام أحمد بن حنبل » مُسْنَدُ الْمُكْثِرِينَ مِنَ الصَّحَابَةِ » مُسْنَدُ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ

اس سند میں حَسَنُ بْنُ صَالِحٍ کا أَبِي الزُّبَيْرِ سے سماع نہیں ہے، لہٰذا یہ سند تو منقطع ہے۔
دوم کہ یہ بات بالکل درست ہے کہ ان کے درمیان ''جَابِرٍ'' کا واسطہ ہے، اور یہ جابر،جابر بن يزيد الجعفي ہے، اور کے بارے میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ انہوں نے جابر الجعفی سے بڑا جھوٹا نہیں دیکھا!
روي عن أبي حنيفة أنه قال : ما رأيت أكذب من جابر الجعفي
ملاحظہ فرمائیں : نصب الراية في تخريج أحاديث الهداية - جمال الدين عبد الله بن يوسف الزيلعي الحنفي

جابر الجعفی کا ضعیف و کذاب ہونا تو بہت معروف ہے!
سنن ابن ماجہ میں مذکورہ حدیث موجود ہے، جس میں حَسَنُ بْنُ صَالِحٍ اور أَبِي الزُّبَيْرِ کے درمیان جابر الجعفي کا واسطہ موجود ہے۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى ، عَنْ الْحَسَنِ بْنِ صَالِحٍ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَنْ كَانَ لَهُ إِمَامٌ ، فإِنَّ َقِرَاءَةَ الْإِمَامِ لَهُ قِرَاءَةٌ "
سنن ابن ماجه » كِتَاب إِقَامَةِ الصَّلَاةِ وَالسُّنَّةِ فِيهَا » بَاب إِذَا قَرَأَ الْإِمَامُ فَأَنْصِتُوا

احناف کی اس دلیل کی حیثیت بھی دیکھ لیں؛
اس حدیث کے متعلق امام ابن حجر العسقلانی صحیح بخاری کی شرح فتح الباری میں فرماتے ہیں:
وَاسْتَدَلَّ مَنْ أَسْقَطَهَا عَنِ الْمَأْمُومِ مُطْلَقًا كَالْحَنَفِيَّةِ بِحَدِيثِ مَنْ صَلَّى خَلْفَ إِمَامٍ فَقِرَاءَةُ الْإِمَامِ لَهُ قِرَاءَةٌ لَكِنَّهُ حَدِيثٌ ضَعِيفٌ عِنْدَ الْحُفَّاظِ وَقَدِ اسْتَوْعَبَ طُرُقَهُ وَعَلَّلَهُ الدَّارَقُطْنِيُّ وَغَيْرُهُ
اور جنہوں نے سورۂ فاتحہ کی قراءت کے کو مقتدی کے لئے مطلقاً ساقط قرار دیا ہے، جیسے کہ حنفیہ نے ، انہوں نے اس حدیث ﴿مَنْ صَلَّى خَلْفَ إِمَامٍ فَقِرَاءَةُ الْإِمَامِ لَهُ قِرَاءَةٌ﴾ ''جو امام کی اقتداء میں نماز پڑھے ، تو امام کی قراءت اس کے لئے قراءت ہے'' سے استدلال کیا ہے، لیکن یہ حدیث، حفاظ الحدیث کے نزدیک ضعیف ہے، امام دارقطنی نے اس کے طرق اکھٹے کئے ہیں، اور ان کے کی معلول(ضعیف) قرار دیا ہے،
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 242 جلد 02 - فتح الباري شرح صحيح البخاري - أبو الفضل أحمد بن علي ابن حجر العسقلاني - المكتب السلفية
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 283 جلد 02 - فتح الباري شرح صحيح البخاري - أبو الفضل أحمد بن علي ابن حجر العسقلاني - دار الريان للتراث، القاهرة
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 283 جلد 02 - فتح الباري شرح صحيح البخاري - أبو الفضل أحمد بن علي ابن حجر العسقلاني - مكتبة الملك فهد الوطنية
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 661 جلد 02 - فتح الباري شرح صحيح البخاري - أبو الفضل أحمد بن علي ابن حجر العسقلاني - دار طيبة، رياض
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 614 جلد 01 - فتح الباري شرح صحيح البخاري - أبو الفضل أحمد بن علي ابن حجر العسقلاني - بيت الأفكار الدولية

اسی حدیث کےمتعلق امام ابن حجر العسقلانی اپنی دوسری کتاب التلخيص الحبير في تخريج أحاديث الرافعي الكبير فرماتے ہیں:
حَدِيثُ: «مَنْ كَانَ لَهُ إمَامٌ فَقِرَاءَةُ الْإِمَامِ لَهُ قِرَاءَةٌ» مَشْهُورٌ مِنْ حَدِيث جَابِرٍ، وَلَهُ طُرُقٌ عَنْ جَمَاعَةٍ مِنْ الصَّحَابَةِ، وَكُلُّهَا مَعْلُولَةٌ.
حَدِيثُ: «مَنْ كَانَ لَهُ إمَامٌ فَقِرَاءَةُ الْإِمَامِ لَهُ قِرَاءَةٌ» ''جس کسی کا امام ہو پس امام کی قراءت مقتدی کی قراءت ہے''جابر رضی اللہ عنہ سے مشہور ہے، اس کی حدیث کے طرق صحابہ کی ایک جماعت سے ہیں اور سب کہ سب معلول(ضعیف) ہیں!
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 420 جلد 01 - التلخيص الحبير في تخريج أحاديث الرافعي الكبير - أبو الفضل أحمد بن علي ابن حجر العسقلاني - مؤسسة قرطبة، مصر
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 658 جلد 02 - التمييز في تلخيص تخريج أحاديث شرح الوجيز المشهور بـ التلخيص الحبير - أبو الفضل أحمد بن علي ابن حجر العسقلاني - دار أضواء السلف
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 87 جلد 01 -التلخيص الحبير في تخريج أحاديث الرافعي الكبير - أبو الفضل أحمد بن علي ابن حجر العسقلاني - مطبعة الأنصاري دلهي الهند سنة 1304هـ -1886م

اب ان ضعیف احادیث سے استدلال کر کے ضعیف و مردود فقہ ہی اخذ ہوگی!
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
محترم اس تھریڈ کا جو عنوان ہے اسی کی طرف لوٹتے ہیں۔ میں نے آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمانِ عالیشان ذکر فرمایا تھا کہ؛
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ أَنَّ سَعِيدَ بْنَ الْحَكَمِ حَدَّثَهُمْ أَخْبَرَنَا نَافِعُ بْنُ يَزِيدَ حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَبِي الْعَتَّابِ وَابْنِ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا جِئْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ وَنَحْنُ سُجُودٌ فَاسْجُدُوا وَلَا تَعُدُّوهَا شَيْئًا وَمَنْ أَدْرَكَ الرَّكْعَةَ فَقَدْ أَدْرَكَ الصَّلَاةَ(سنن أبي داود کتاب الصلاۃ باب فِي الرَّجُلِ يُدْرِكُ الْإِمَامَ سَاجِدًا كَيْفَ يَصْنَعُ)

رسول الله صلى الله عليہ وسلم نے فرمايا کہ جب تم نماز کے لئے آؤ اور ہم سجده میں ہوں تو سجده كرو اور اس كو كسى شمار میں نہ ركهو اور جس نے (امام کے ساتھ) ركوع پاليا اس نے نماز (كى ركعت) پالى ۔

رسول الله صلى الله عليہ وسلم نے سجدہ پالینے کو کسی شمار میں نہیں رکھا اور رکوع سے رکعت کے ہو جانے کا کہا۔ اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سے مسائل حل فرما دیئے لفظ ’’صلاۃ‘‘ لا کر۔ صلاۃ (نماز) کا اطلاق اس مجموعہ پر ہوتا ہے؛
قیام، قراءت، رکوع اور سجود
رسول الله صلى الله عليہ وسلم نے کسی حدیث میں منفرد کو یہ حکم نہیں فرمایا کہ اگر وہ رکوع اور سجود کر لے تو اس کی نماز (یعنی رکعت) ہو گئی لیکن امام کی اقتدا میں فرما رہے ہیں کہ اس کی نماز (رکعت) ہوگئی۔ کس طرح ہوگئی؟ اس کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں؛
رکوع کی حالت میں ملنے والامقتدی جب امام کی اقتدا کرتا ہے تو تکبیر تحریمہ کہہ کر ہی کرتا ہے کہ اس کے بغیر نماز شروع ہی نہیں ہوتی۔ قراءت کے بارے آقا علیہ السلام کے فرمان؛
سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يَقُولُ مَنْ صَلَّى رَكْعَةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَلَمْ يُصَلِّ إِلَّا أَنْ يَكُونَ وَرَاءَ الْإِمَامِ(سنن الترمذي كِتَاب الصَّلَاةِ بَاب مَا جَاءَ فِي تَرْكِ الْقِرَاءَةِ خَلْفَ الْإِمَامِ إِذَا جَهَرَ الْإِمَامُ بِالْقِرَاءَةِ)
قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں جس نے نماز میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھی اس نے نماز نہیں پڑھی مگر یہ کہ وہ امام کی اقتداء میں ہو ـ
ابو عیسیٰ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے
آقا علیہ السلام کے اس فرمان سے مقتدی کی قراءت بھی ہوگئی۔ رکوع اور سجود اس نے کرلئے لہٰذا اس کی رکعت مکمل ہو گئی۔
والسلام
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يَقُولُ مَنْ صَلَّى رَكْعَةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَلَمْ يُصَلِّ إِلَّا أَنْ يَكُونَ وَرَاءَ الْإِمَامِ(سنن الترمذي كِتَاب الصَّلَاةِ بَاب مَا جَاءَ فِي تَرْكِ الْقِرَاءَةِ خَلْفَ الْإِمَامِ إِذَا جَهَرَ الْإِمَامُ بِالْقِرَاءَةِ)
قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ
اس کی مکمل سند تحریر کریں!
اور آپ کو متعدد بار کہا ہے کہ سند مکمل پیش کیا کریں!
دوم:
قراءت کے بارے آقا علیہ السلام کے فرمان؛
سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يَقُولُ مَنْ صَلَّى رَكْعَةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَلَمْ يُصَلِّ إِلَّا أَنْ يَكُونَ وَرَاءَ الْإِمَامِ(سنن الترمذي كِتَاب الصَّلَاةِ بَاب مَا جَاءَ فِي تَرْكِ الْقِرَاءَةِ خَلْفَ الْإِمَامِ إِذَا جَهَرَ الْإِمَامُ بِالْقِرَاءَةِ)
قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ
ذرا دیکھ لیا کریں، یہ قول کس کا ہے اور آپ اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کر رہے ہو!
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محترم قرآن و حدیث کو دیکھ کر اتنا گھبرا کیوں گئے؟
بھٹی صاحب! آپ قرآن کے بارے میں جھوٹ کیوں بولتے ہو؟
قرآن کو حنفی عالم کی تصنیف کیوں قرار دیتے ہو؟
توبہ کرو بھائی!
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
ذرا دیکھ لیا کریں، یہ قول کس کا ہے اور آپ اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کر رہے ہو!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
محترم دراصل یہاں پہلے یہ روایت جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرما ن ہے درج کرنا تھی؛
حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ أَخْبَرَنَا حَسَنُ بْنُ صَالِحٍ عَنْ جَابِرٍ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ كَانَ لَهُ إِمَامٌ فَقِرَاءَتُهُ لَهُ قِرَاءَةٌ (احمد بَاقِي مُسْنَدِ الْمُكْثِرِينَمُسْنَدُ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ)
جابر (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ (نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے) فرمایا کہ جس کسی کا امام ہو پس امام کی قراءت مقتدی کی قراءت ہے۔

اس کی تائید آثارسےبھی ہوتی ہے؛
حدثنا شريك وجرير عن موسى بن أبي عائشة عن عبد الله بن شداد قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من كان له إمام فقراءته له قراءة.(مسند ابن ابی شیبۃ: باب من كره القراءة خلف الامام:)
عبد اللہ بن شداد (رحمۃ اللہ علیہ) روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کسی کا امام ہو پس امام کی قراءت مقتدی کی قراءت ہے۔

سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يَقُولُ مَنْ صَلَّى رَكْعَةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَلَمْ يُصَلِّ إِلَّا أَنْ يَكُونَ وَرَاءَ الْإِمَامِ
قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ (سنن الترمذي كِتَاب الصَّلَاةِ بَاب مَا جَاءَ فِي تَرْكِ الْقِرَاءَةِ خَلْفَ الْإِمَامِ إِذَا جَهَرَ الْإِمَامُ بِالْقِرَاءَةِ)

سنن الترمذى میں جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں جس نے نماز میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھی اس نے نماز نہیں پڑھی مگر یہ کہ وہ امام کی اقتداء میں ہو ـ
ابو عیسیٰ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
محترم اس تھریڈ کا جا اصل موضوع ہے اس کی طرف لوٹتے ہیں۔ میں نے لکھا تھا؛
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ أَنَّ سَعِيدَ بْنَ الْحَكَمِ حَدَّثَهُمْ أَخْبَرَنَا نَافِعُ بْنُ يَزِيدَ حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَبِي الْعَتَّابِ وَابْنِ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا جِئْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ وَنَحْنُ سُجُودٌ فَاسْجُدُوا وَلَا تَعُدُّوهَا شَيْئًا وَمَنْ أَدْرَكَ الرَّكْعَةَ فَقَدْ أَدْرَكَ الصَّلَاةَ(سنن أبي داود کتاب الصلاۃ باب فِي الرَّجُلِ يُدْرِكُ الْإِمَامَ سَاجِدًا كَيْفَ يَصْنَعُ)

رسول الله صلى الله عليہ وسلم نے فرمايا کہ جب تم نماز کے لئے آؤ اور ہم سجده میں ہوں تو سجده كرو اور اس كو كسى شمار میں نہ ركهو اور جس نے (امام کے ساتھ) ركوع پاليا اس نے نماز (كى ركعت) پالى ۔

رسول الله صلى الله عليہ وسلم نے سجدہ پالینے کو کسی شمار میں نہیں رکھا اور رکوع سے رکعت کے ہو جانے کا کہا۔ اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سے مسائل حل فرما دیئے لفظ ’’صلاۃ‘‘ لا کر۔ صلاۃ (نماز) کا اطلاق اس مجموعہ پر ہوتا ہے؛
قیام، قراءت، رکوع اور سجود
یہاں تک اگر کوئی اشکال ہے تو واضح کرکے شکریہ کا موقعہ دیں۔
والسلام
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
آپ نے پھر ایک کی سند مکمل نہیں لکھی! وہ مکمل کر دیں!
 
Top