• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نماز باجماعت>امام كے ساتھـ ركوع میں شامل ہونے والے کی ركعت کے شمار كا حکم

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محترم اس مذکورہ راوی کو ابنِ حبان نے ثقات میں لکھا ہے اور حاکم نے مستدرک میں اس کو ثقہ کہا ہے۔ مزید برآں یہ کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ادب المفرد میں اس سے حدیث لی ہے۔
مستردک حاکم میں امام حاکم کی توثیق تساہل ہے، اور اس امر میں امام حاکم معروف ہیں! اسی وجہ سے مطالعہ فرمائیں، تلخیص مستدرک حاکم ، امام الذہبی کی!
ابن حبان کی توثیق، امام بخاری ، امام ابو حاتم کی تضعیف کے مقابلے میں مقبول نہیں!
یہی وجہ ہے کہ امام ابن حجر العسقلانی اور امام الذہبی نے اسے قبول نہیں کیا!
جرح و تعدیل کے ان دونوں اماموں نے جو متقدمیں کی جرح کو اصول جرح و تعدیل پر پرکھتے ہیں اور اپنا فیصلہ صادر صادر فرماتے ہیں، ان کی توثیق نہیں کی بلکہ تضعیف کی ، اور امام الذہبی نے مجہول قرار دیا!
ادب المفرد میں امام بخاری نے صحیح احادیث درج کرنے کا الترازم نہیں کیا تھا، امام بخاری نے ہی انہیں منکر الحدیث قرار دیا ہے!
ہر عامی کے پاس اس قدر وسائل نہیں ہوتے کہ وہ تحقیق کر سکے۔
عامی کو یہی بتلایا جا رہا ہے کہ یہ حدیث قابل احتجاج نہیں، لیکن عامی اپنے اٹکل پچّو سے باز نہیں آرہا!
عامیوں کی اسی کمزوری کو مدِ نظر رکھتے ہوئے نام نہاد علماء (علماءِ سوء) اپنا کاروبار چلاتے ہیں۔
جی بالکل ! جیسے حنفی علماء نے آپ جیسے عامیوں کو یہ پٹی پڑھائی ہے، کہ یہ حدیث صحیح اور قابل احتجاج ہے، اور آپ کی اس کمزوری کا فائدہ اٹھا یا ہے ان علمائے سوء نے!
للہ اندھی تقلید مت کرو دلائل سے بات کرو۔
یہی بات ہم آپ کو سمجھاتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ اور فقہ حنفی کی تقلید چھوڑ دو یہ تو اندھے کی تقلید ہے!
محترم میں دوبارہ ترجمہ لکھ دیتا ہوں اگ وہ محرف ہو تو ضرور مطلع فرمائیے گا تاکہ میں اللہ کے حضور توبہ کرکے آخرت میں سرخرو ہو سکوں۔
پہلی بار جو ترجمہ میں تحریف کی تھی اس پر توبہ کریں! میں دونوں ترجمہ پیش کرتا ہوں:
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا جِئْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ وَنَحْنُ سُجُودٌ فَاسْجُدُوا وَلَا تَعُدُّوهَا شَيْئًا وَمَنْ أَدْرَكَ الرَّكْعَةَ فَقَدْ أَدْرَكَ الصَّلَاةَ (سنن أبي داود کتاب الصلاۃ باب فِي الرَّجُلِ يُدْرِكُ الْإِمَامَ سَاجِدًا كَيْفَ يَصْنَعُ أيه} حدیث نمبر 759)
رسول الله صلى الله عليہ وسلم نے فرمايا کہ جب تم نماز کے لئے آؤ اور ہم سجده میں ہوں تو سجده كرو اور اس كو كسى شمار میں نہ ركهو اور جس نے (امام کے ساتھ) ركوع پاليا اس نے نماز كى ركعت پالى
سے امام کی قراءت نے اس کی کفایت کر دی لہٰذا اس کی نماز سورہ فاتحہ کے بغیر نہ ہوئی۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ أَنَّ سَعِيدَ بْنَ الْحَكَمِ حَدَّثَهُمْ أَخْبَرَنَا نَافِعُ بْنُ يَزِيدَ حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَبِي الْعَتَّابِ وَابْنِ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا جِئْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ وَنَحْنُ سُجُودٌ فَاسْجُدُوا وَلَا تَعُدُّوهَا شَيْئًا وَمَنْ أَدْرَكَ الرَّكْعَةَ فَقَدْ أَدْرَكَ الصَّلَاةَ (سنن أبي داود کتاب الصلاۃ باب فِي الرَّجُلِ يُدْرِكُ الْإِمَامَ سَاجِدًا كَيْفَ يَصْنَعُ أيه} حدیث نمبر 759)

رسول الله صلى الله عليہ وسلم نے فرمايا کہ جب تم نماز کے لئے آؤ اور ہم سجده میں ہوں تو سجده كرو اور اس كو كسى شمار میں نہ ركهو اور جس نے ركوع پاليا اس نے نمازپالى۔
آپ نے سبز رنگ والے الفاظ تو حذف کرئیے ، مگر یہ بتائیے کہ پہلے ترجمہ کے سرخ رنگ اور دوسرے ترجمہ کے نیلے رنگ کے الفاظ میں فرق کیوں ہے؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
محترم میں دوبارہ ترجمہ لکھ دیتا ہوں اگ وہ محرف ہو تو ضرور مطلع فرمائیے گا تاکہ میں اللہ کے حضور توبہ کرکے آخرت میں سرخرو ہو سکوں۔
آپ توبہ کرلیں ۔۔کیونکہ آپ نے ترجمہ ٹھیک نہیں کیا ۔۔
کیونکہ حدیث میں لفظ ’’ رکعت ‘‘ تھا ، جسے آپ نے بڑی بے باکی سے ’’ رکوع ‘‘ بنا دیا،
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا جِئْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ وَنَحْنُ سُجُودٌ فَاسْجُدُوا وَلَا تَعُدُّوهَا شَيْئًا وَمَنْ أَدْرَكَ الرَّكْعَةَ فَقَدْ أَدْرَكَ الصَّلَاةَ (سنن أبي داود کتاب الصلاۃ باب فِي الرَّجُلِ يُدْرِكُ الْإِمَامَ سَاجِدًا كَيْفَ يَصْنَعُ أيه} حدیث نمبر 759)
رسول الله صلى الله عليہ وسلم نے فرمايا کہ جب تم نماز کے لئے آؤ اور ہم سجده میں ہوں تو سجده كرو اور اس كو كسى شمار میں نہ ركهو اور جس نے ركوع پاليا اس نے نمازپالى۔
والسلام
ایک عامی بھی جانتا ہے کہ شرع میں ’’ رکعت ‘‘ اس مجموعہ کا نام ہے ،جس میں قیام ،قراءت ،رکوع ،دو سجدے،اور تکبیرات ہوتی ہیں ،ان میں کسی ایک جزء کو رکعت نہیں کہا جا سکتا۔
اسی لئے مجتھد و فقیہہ صحابی سیدنا ابو ھریرہ رضی اللہ فرماتے ہیں :
حدثنا محمود قال: حدثنا البخاري قال: حدثنا معقل بن مالك، قال: حدثنا أبو عوانة، عن محمد بن إسحاق، عن عبد الرحمن الأعرج، عن أبي هريرة، قال: «إذا أدركت القوم ركوعا لم تعتد بتلك الركعة»(جزء القراءة خلف الإمام للبخاری)
’’ جب تو جماعت کو رکوع میں پائے تو اس کو رکعت شمار نہ کر ‘‘

اور اس کی مرفوع حدیث میں دلیل یہ ہے کہ حدیث میں ثابت ہے کہ :
نماز عصر اور نماز فجر آخری وقت میں پڑھنے والا اگر طلوع و غروب سے پہلے ایک پوری پڑھ لے تو گویا اس نے وقت میں پوری نماز پالی‘‘

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ أَدْرَكَ مِنَ الصُّبْحِ رَكْعَةً قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ، فَقَدْ أَدْرَكَ الصُّبْحَ، وَمَنْ أَدْرَكَ رَكْعَةً مِنَ العَصْرِ قَبْلَ أَنْ تَغْرُبَ الشَّمْسُ، فَقَدْ أَدْرَكَ العَصْرَ»
معروف فقیہ صحابی جناب سیدنا ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ پیارے نبی ﷺ نے فرمایا : جس نے سورج طلوع سے پہلے صبح کی نماز کی ایک رکعت پا لی ،اس نے صبح کی نماز پالی ۔اور جس نے سورج غروب ہونے سے پہلے نماز عصر ایک رکعت پالی اس نے (گویا پوری نماز وقت میں) پالی ــ‘‘ (صحیح البخاری )
اب یہاں ۔۔رکعت ۔۔کا ترجمہ اگر رکوع کیا جائے تو مذاق بن جائے گا کہ:
’’ جس نے سورج غروب ہونے سے پہلے ایک رکوع پا لیا ۔سمجھو اس نے پوری نماز پالی ‘‘
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
گذشتہ پوسٹ میں ہم نے جناب سیدنا الامام ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے اسم گرامی کے ساتھ خصوصی طور پر ’’ فقیہ ۔مجتہد ‘‘ اس لئے لکھا
کہ کچھ بد بخت ،گمراہ لوگ ان کو شرعی فقاہت سے عاری کہتے ہیں ‘اور صدیوں بعد آنے والے مجہول قسم کے
لوگوں کو بڑے اہتمام سے۔۔فقیہ ۔مجتہد مانتے ہیں
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
حدیث کے ترجمہ میں ان الفاظ کا اضافہ کیوں؟
السلام و علیکم ورحمۃ اللہ
منیر قمر کی کتاب ’’رکوع میں ملنے والے کی رکعت‘‘ کےپیش لفظ کے تحت لکھا ہے ؛
۱۔ اسکی وہ رکعت شمار نہیں ہوگی بلکہ اسے امام کے سلام پھیرنے کے بعد اس رکعت کا اعادہ کرنا ہوگا۔
۲۔ اس کی وہ رکعت ہو جائے گی۔
ان دونوں میں سے معروف ترین مسلک تو پہلا ہے
موصوف نے پہلے سے یہ فیصلہ کر رکھا ہے کہ جس پر وہ ہے وہی مسلک صحیح ہے تو ایسا شخص ’جج‘ کیونکر ہو سکتا ہے۔
دلائل میں لکھا ہے؛
’’ رکوع میں آکر ملنے والے سے دو اہم اجزاء نماز چھوٹ جاتے ہیں، ایک قیام جو کہ بالاتفاق نماز کا رکن ہے، دوسرا سورہ فاتحہ پڑھنا ‘‘
محترم رکوع میں شامل ہونے والا کیا تکبیرِ تحریمہ بھی کہتا ہے کہ نہیں؟ تکبیرِ تحریمہ قیام کی حالت میں سکون سے کھڑے ہو کر کہی جاتی ہے۔ اگر اس نے تکبیرِ تحریمہ کہی ہے تو اس کا قیام ہو گیا۔ رہا سورہ فاتحہ کے رہ جانے کا معاملہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرما ن ؛
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ أَنَّ سَعِيدَ بْنَ الْحَكَمِ حَدَّثَهُمْ أَخْبَرَنَا نَافِعُ بْنُ يَزِيدَ حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَبِي الْعَتَّابِ وَابْنِ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا جِئْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ وَنَحْنُ سُجُودٌ فَاسْجُدُوا وَلَا تَعُدُّوهَا شَيْئًا وَمَنْ أَدْرَكَ الرَّكْعَةَ فَقَدْ أَدْرَكَ الصَّلَاةَ (سنن أبي داود کتاب الصلاۃ باب فِي الرَّجُلِ يُدْرِكُ الْإِمَامَ سَاجِدًا كَيْفَ يَصْنَعُ أيه} حدیث نمبر 759)

رسول الله صلى الله عليہ وسلم نے فرمايا کہ جب تم نماز کے لئے آؤ اور ہم سجده میں ہوں تو سجده كرو اور اس كو كسى شمار میں نہ ركهو اور جس نے (امام کے ساتھ) ركوع پاليا اس نے نماز كى ركعت پالى۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرما ن سے امام کی قراءت نے اس کی کفایت کر دی لہٰذا اس کی نماز سورہ فاتحہ کے بغیر نہ ہوئی۔
محترم اگر آقا علیہ السلام فر ما دیتے کہ سجدہ میں ملنے سے رکعت مل جاتی ہے تو کیا آپ لوگ قیام اور رکوع کے چھوٹ جانے کی رٹ لگا لیتے؟ کیا آپ کے لئے آقا علیہ السلام کا فرمان کافی نہیں؟
حدیث میں تحریف کرکے پوچھتے ہیں کہ مفہوم میں کوئی فرق آیا!
آپ کے نزدیک حدیث کا یہ مفہوم ’نماز کی رکعت پالی‘ تحریف ہے۔ کس دلیل سے؟
حدیث کے ترجمہ میں ان الفاظ کا اضافہ کیوں؟
محترم خواہ مخواہ کی تنقید عقلمندوں کا کام نہیں۔ اصل مقام کو غور سے دیکھیں وہ دوسری لائن میں ہے اور اس کا تعلق حدیث مبارکہ لکھنے سے پہلے والے فقرہ سے ہے۔ پھر سے پڑھ لیں۔
والسلام
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
آپ توبہ کرلیں ۔۔کیونکہ آپ نے ترجمہ ٹھیک نہیں کیا ۔۔
کیونکہ حدیث میں لفظ ’’ رکعت ‘‘ تھا ، جسے آپ نے بڑی بے باکی سے ’’ رکوع ‘‘ بنا دیا،
محترم استغفار تو مؤمن کے معمولات میں شامل ہے اس کی تلقین کا شکریہ۔
محترم آپ نے لکھا ہے کہ ’’آپ نے ترجمہ ٹھیک نہیں کیا ‘‘۔ سب سے پہلی بات کہ میں قرآن اور حدیث کا ’ترجمہ‘ نہیں کرتا بلکہ مفہوم لکھتا ہوں۔ مذکورہ حدیث کو غور سے پڑھیں سرسری نگاہ سے نہیں۔ عربی متن دوبارہ لکھ کر ذرا تفصیل بیان کرتا ہوں اگر اس میں کوئی غلط فہمی ہو تو ضرور فرمائیے گا۔ متن حدیث؛
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا جِئْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ وَنَحْنُ سُجُودٌ فَاسْجُدُوا وَلَا تَعُدُّوهَا شَيْئًا وَمَنْ أَدْرَكَ الرَّكْعَةَ فَقَدْ أَدْرَكَ الصَّلَاةَ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم نماز کے لئے آؤ یعنی مسجد میں نماز باجماعت ادا کرنے کے لئے آؤ اور ہم سجدہ میں ہوں یعنی کہ تم اگر اس وقت پہنچو کہ امام سجدہ میں جا چکا تھا پس سجدہ کرو یعنی تکبیرِ تحریمہ کہہ کر سیدھے سجدے میں چلے جاؤ اور اس کو کسی گنتی میں نہ رکھو یعنی دو یا تین یا چار رکعت والی نماز میں سے کوئی رکعت شمار نہ کرو اور جس نے رکوع پالیا یعنی جو رکوع میں آکر شامل ہؤا تحقیق اس نے رکعت پالی یعنی اس کی ایک رکعت شمار ہو گئی۔
یہ مفہوم کوئی میرا ذاتی اخذ کردہ نہیں بلکہ جن کی تربیت خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کی یہ ان سے سمجھا ہؤا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں؛
ابن مسعود قال : من فاته الركوع فلا يعتد بالسجود.
ابنِ مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ۔ رکوع نہ پا سکے وہ سجدہ کے سبب (رکعت) شمار نہ کرے۔
علي وابن مسعود قالا : من لم يدرك الركعة الاولى فلا يعتد بالسجدة (مصنف عبد الرزاق)۔ علی اور ابنِ مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنھما دونوں فرماتے ہیں کہ جو پہلا رکوع نہ پا سکے وہ سجدہ کے سبب شمار نہ کرے۔
سوچنے کی بات ہے کہ کس چیز کو شمار نہ کرے؟ یقینی بات ہے کہ اس سے مراد رکعت کے علاوہ اور کچھ نہیں ۔
والسلام
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
جی بالکل ! جیسے حنفی علماء نے آپ جیسے عامیوں کو یہ پٹی پڑھائی ہے، کہ یہ حدیث صحیح اور قابل احتجاج ہے، اور آپ کی اس کمزوری کا فائدہ اٹھا یا ہے ان علمائے سوء نے!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
محترم! میں نہ مانوں کا تو کوئی علاج نہیں۔ میری کسی بھی پوسٹ کو ملاحطہ فرما لیں کیا میں نے قرآن اور حدیث کے علاوہ کہیں اور سے کبھی کوئی دلیل دی ہے؟؟؟ اصل حقیقت یہ ہے کہ جتنے بھی حنفی ہیں وہ علماء پر اعتماد کرتے ہوئے اعمال کرتے ہیں ان کے دلائل کی جستجو میں نہیں رہتے اس کا ناجائز فائدہ ’’علماء اہلِ حدیث‘‘ اس طرح اٹھاتے ہیں کہ ایک حدیث پیش کر کے اس سے اختلاف ظاہر کریں گے اور یہ کبھی نہیں بتائیں گے کہ آپ کے عمل کی شاہد حدیث بھی ہے۔
دیتے ہیں دھوکہ بازی گر کھلا​
والسلام
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
ایک عامی بھی جانتا ہے کہ شرع میں ’’ رکعت ‘‘ اس مجموعہ کا نام ہے ،جس میں قیام ،قراءت ،رکوع ،دو سجدے،اور تکبیرات ہوتی ہیں ،ان میں کسی ایک جزء کو رکعت نہیں کہا جا سکتا۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
محترم یہی فہم آقا علیہ السلام اپنے مذکورہ فرمان میں دے رہے ہیں کہ سجدہ میں ملنے سے اس کا رکوع ادا نہ ہوسکا (حالانکہ اس نے باقی تمام ارکان ادا کیئے) جس وجہ سے اس کی یہ رکعت شمار نہ کی گئی۔ جب وہ رکوع میں آکر شامل ہؤا تو ایک رکعت میں جتنے بھی مشروع ارکان تھے وہ ادا ہو گئے۔ملاحظہ فرمائیں؛
اس نے تکبیر تحریمہ کہی اس کے بغیر نماز ہی شروع نہیں ہوتیـــ تکبیر تحریمہ قیام کی حالت میں ہی کہی جاتی ہے لہٰذا قیام بھی ہؤا ــــ قراءت چونکہ امام نے کی اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان ’’مَنْ كَانَ لَهُ إِمَامٌ فَقِرَاءَةُ الْإِمَامِ لَهُ قِرَاءَةٌ‘‘ (جس کا امام ہو تو امام کی قراءت اس کو کافی ہے) سے اس کی قراءت بھی ہوگئی ــــ اس نے رکوع بھی پالیا ـــ سجود بھی اس نے کر لئے۔
ایک رکعت میں جتنے بھی اجزاء ہیں وہ تمام ادا ہوگئے لہٰذا اس کی ایک رکعت ہوگئی۔
فَمَالِ هَؤُلَاءِ الْقَوْمِ لَا يَكَادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثًا اس قوم کو کیا ہو گیا ہے کہ بات کو سمجھتے ہی نہیں۔
والسلام
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
سب سے پہلی بات کہ میں قرآن اور حدیث کا ’ترجمہ‘ نہیں کرتا بلکہ مفہوم لکھتا ہوں۔ مذکورہ حدیث کو غور سے پڑھیں سرسری نگاہ سے نہیں۔ عربی متن دوبارہ لکھ کر ذرا تفصیل بیان کرتا ہوں اگر اس میں کوئی غلط فہمی ہو تو ضرور فرمائیے گا۔ متن حدیث؛
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا جِئْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ وَنَحْنُ سُجُودٌ فَاسْجُدُوا وَلَا تَعُدُّوهَا شَيْئًا وَمَنْ أَدْرَكَ الرَّكْعَةَ فَقَدْ أَدْرَكَ الصَّلَاةَ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم نماز کے لئے آؤ یعنی مسجد میں نماز باجماعت ادا کرنے کے لئے آؤ اور ہم سجدہ میں ہوں یعنی کہ تم اگر اس وقت پہنچو کہ امام سجدہ میں جا چکا تھا پس سجدہ کرو یعنی تکبیرِ تحریمہ کہہ کر سیدھے سجدے میں چلے جاؤ اور اس کو کسی گنتی میں نہ رکھو یعنی دو یا تین یا چار رکعت والی نماز میں سے کوئی رکعت شمار نہ کرو اور جس نے رکوع پالیا یعنی جو رکوع میں آکر شامل ہؤا تحقیق اس نے رکعت پالی یعنی اس کی ایک رکعت شمار ہو گئی۔
اگر آپ نے اپنا فہم ہی دینا تھا تو پہلے حدیث کا صحیح ترجمہ تو پیش کرتے،پھر اس کے بعد اپنا فہم بتاتے ۔
جبکہ ہم نے آپ کو اس حدیث کا صحیح ترجمہ اور اس دلیل بھی پیش کی تھی ۔
لیکن پھر بھی آپ نےمضحکہ خیز مفہوم لکھ مارا ۔۔۔آپ لکھتے ہیں :
یعنی جو رکوع میں آکر شامل ہؤا تحقیق اس نے رکعت پالی یعنی اس کی ایک رکعت شمار ہو گئی۔
حالانکہ پیارے نبی ﷺ تو اس سے بڑی بات بتائی تھی ۔کہ ۔جماعت کے ساتھ ایک رکعت پانے والا۔با جماعت نماز کی فضیلت پالے گا ‘‘

ایک مرتبہ پھر تقلید کی عینک اتار کر حدیث کا صحیح ترجمہ کے ساتھ دیکھیں:
عن ابي هريرة قال:‏‏‏‏ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:‏‏‏‏ " إذا جئتم إلى الصلاة ونحن سجود فاسجدوا ولا تعدوها شيئا ومن ادرك الركعة
فقد ادرك الصلاة ".


سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم نماز میں آؤ اور ہم سجدہ میں ہوں تو تم بھی سجدہ میں چلے جاؤ اور تم اسے کچھ شمار نہ کرو، اور جس نے رکعت پالی تو اس نے وہ نماز پالی“۔

اس حدیث کی اصل صحیح مسلم میں یوں ہے :
عن ابن شهاب، عن أبي سلمة بن عبد الرحمن، عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: «من أدرك ركعة من الصلاة مع الإمام، فقد أدرك الصلاة»

’’ جس نے ایک رکعت امام کے ساتھ (جماعت میں ) پالی تو اس نے وہ نماز (باجماعت ) پالی“۔

علامہ نووی لکھتے : المسألة الثالثة إذا أدرك المسبوق مع الإمام ركعة كان مدركا لفضيلة الجماعة ‘‘
یعنی مسبوق اگر امام کے ساتھ ایک رکعت پالے، تو اسے جماعت کی فضیلت مل جائے گی ‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسی طرح اگر فجر یا عصر کی نماز کسی عذر سے بالکل آ خری وقت شروع کی ۔۔اور اختتام وقت سے پہلے ایک ہی رکعت پڑھ سکا ، اور باقی نماز وقت
ختم ہونے کے بعد پڑھی تو اس کو بھی یہ پوری نماز وقت میں ادا کرنے کا اجر مل جائے گا ۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ أَدْرَكَ مِنَ الصُّبْحِ رَكْعَةً قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ، فَقَدْ أَدْرَكَ الصُّبْحَ، وَمَنْ أَدْرَكَ رَكْعَةً مِنَ العَصْرِ قَبْلَ أَنْ تَغْرُبَ الشَّمْسُ، فَقَدْ أَدْرَكَ العَصْرَ»
معروف فقیہ صحابی جناب سیدنا ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ پیارے نبی ﷺ نے فرمایا : جس نے سورج طلوع سے پہلے صبح کی نماز کی ایک رکعت پا لی ،اس نے صبح کی نماز پالی ۔اور جس نے سورج غروب ہونے سے پہلے نماز عصر ایک رکعت پالی اس نے (گویا پوری نماز وقت میں) پالی ــ‘‘ (صحیح البخاری )
ان احادیث کا صحیح مفہوم واضح ہے ،کہ ان صورتوں میں مراد ۔۔۔ایک مکمل رکعت ۔۔ہے ،نہ کہ رکوع ؛
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
قراءت چونکہ امام نے کی اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان ’’مَنْ كَانَ لَهُ إِمَامٌ فَقِرَاءَةُ الْإِمَامِ لَهُ قِرَاءَةٌ‘‘ (جس کا امام ہو تو امام کی قراءت اس کو کافی ہے) سے اس کی قراءت بھی ہوگئی ــــ اس نے رکوع بھی پالیا ـــ سجود بھی اس نے کر لئے۔
یہ حدیث کہاں ہے ۔۔سند سمیت لکھیں ۔۔اور ساتھ ہی یہ بھی بتائیں کہ : کس معتبر محدث نے اس کی تصحیح کی ہے ؟
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم نماز میں آؤ اور ہم سجدہ میں ہوں تو تم بھی سجدہ میں چلے جاؤ اور تم اسے کچھ شمار نہ کرو، اور جس نے رکعت پالی تو اس نے وہ نماز پالی“۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
محترم یہاں پر سجدہ کو شمار نہ کرنے کی بات ہو رہی ہے اور رکوع کو شمار کرنے کی۔ رکعت پالینے سے نماز پا لینا اور سجدہ پانے سے نماز نہ پانا ایک بے معنی سی بات ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم بے معنیٰ باتوں سے بری الذمہ ہیں۔

ان احادیث کا صحیح مفہوم واضح ہے ،کہ ان صورتوں میں مراد ۔۔۔ایک مکمل رکعت ۔۔ہے ،نہ کہ رکوع ؛
ایک مکمل رکعت کہتے ہیں قیام،قراءت، رکوع اور سجدہ کے مجموعہ کو۔ اس حدیث میں اس طرف اشارہ ہے۔ جب مقتدی سجدہ کی حالت میں آکر ملے گا تو اس کو چونکہ امام کے ساتھ رکوع نہیں ملا (اور نہ ہی اس نے کیا) تو وہ رکعت تام نہ ہوئی مگر جب اس نے رکوع پالیا تو اس کی رکعت تام ہو گئی۔ وہ اس طرح کہ اس نے تکبیر تحریمہ کہی (اس کے بغیر نماز شروع ہی نہیں ہوتی) تکبیر تحریمہ قیام کی حالت میں کہی جاتی ہے (بوجہ معذوری ۔دوسری حالتیں قیام کی قائم مقام ہونگی) لہٰذا اس کا قیام ہو گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان ’’مَنْ كَانَ لَهُ إِمَامٌ فَقِرَاءَتُهُ لَهُ قِرَاءَةٌ ‘‘ جس کسی کا امام ہو پس امام کی قراءت مقتدی کی قراءت ہے (مسند احمد) سے مقتدی کی قراءت ہو گئی رکوع اس نے کر لیا اور سجدہ بھی کر لیا اسی لئے اس کی یہ رکعت شمار ہو گئی۔ صرف سجدہ میں ملنے سے رکوع رہ جاتا ہے اور رکعت شمار نہیں ہو سکتی۔

یہ حدیث کہاں ہے ۔۔سند سمیت لکھیں ۔۔اور ساتھ ہی یہ بھی بتائیں کہ : کس معتبر محدث نے اس کی تصحیح کی ہے ؟
حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مُوسَى الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنَا مَعْنٌ حَدَّثَنَا مَالِكٌ عَنْ أَبِي نُعَيْمٍ وَهْبِ بْنِ كَيْسَانَ أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يَقُولُ مَنْ صَلَّى رَكْعَةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَلَمْ يُصَلِّ إِلَّا أَنْ يَكُونَ وَرَاءَ الْإِمَامِ
قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ
(سنن الترمذي كِتَاب الصَّلَاةِ بَاب مَا جَاءَ فِي تَرْكِ الْقِرَاءَةِ خَلْفَ الْإِمَامِ إِذَا جَهَرَ الْإِمَامُ بِالْقِرَاءَةِ)
جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں جس نے نماز میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھی اس نے نماز نہیں پڑھی مگر یہ کہ وہ امام کی اقتداء میں ہو ـ
ابو عیسیٰ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے

حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ أَخْبَرَنَا حَسَنُ بْنُ صَالِحٍ عَنْ جَابِرٍ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ كَانَ لَهُ إِمَامٌ فَقِرَاءَتُهُ لَهُ قِرَاءَةٌ (مسند احمد: بَاقِي مُسْنَدِ الْمُكْثِرِينَ: مُسْنَدُ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ:)
جابر (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ (نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے) فرمایا کہ جس کسی کا امام ہو پس امام کی قراءت مقتدی کی قراءت ہے۔

حدثنا شريك وجرير عن موسى بن أبي عائشة عن عبد الله بن شداد قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من كان له إمام فقراءته له قراءة.(مسند ابن ابی شیبۃ: باب من كره القراءة خلف الامام:)
عبد اللہ بن شداد (رحمۃ اللہ علیہ) روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کسی کا امام ہو پس امام کی قراءت مقتدی کی قراءت ہے۔

علامہ نووی لکھتے : المسألة الثالثة إذا أدرك المسبوق مع الإمام ركعة كان مدركا لفضيلة الجماعة ‘‘
یعنی مسبوق اگر امام کے ساتھ ایک رکعت پالے، تو اسے جماعت کی فضیلت مل جائے گی ‘‘
محترم معذرت کے ساتھ کچھ خود بھی سوچ لیا کریں۔ کیا صرف رکعت پانے سے جماعت کی فضیلت حاصل ہوتی ہے؟ کیا سجدہ اور تشہد پانے سے جماعت کی فضیلت نہیں ملتی؟ فوا اسفا! محترم بہت افسوس کی بات ہے!!!!!!!
والسلام
 
Top