طاہر اسلام
سینئر رکن
- شمولیت
- مئی 07، 2011
- پیغامات
- 843
- ری ایکشن اسکور
- 732
- پوائنٹ
- 256
اصول روایت پر غور و فکر کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہمیں نے حکم لگانے پر بات کی ہے اور حکم لگانے کے حوالے سے بسااوقات تمام کیفیات پائی جاتی ہیں لیکن حکمت و تدبر کے تحت حکم نہیں لگایا جاتا مجھے اس بارے میں اپنے استاذ محترم شیخ صالح العثیمین رحمہ اللہ کے درس کی تلاش ہے اگر مل گیا تو یہاں اسے پوسٹ کروں گا
لیکن کیا ناصبیت کے بعد بندہ بندہ اہل سنت و جماعت سے بھی باہر نکل جاتا ہے
اور میرا عباسی صاحب کو سنی سمجھنا یا نہ سمجھنا یہ کوئی دلیل نہیں اور میں اس حوالے سے حق کو دیکھتا ہوں اور دلیل کے ساتھ دیکھتا ہوں لہذا عباسی صاحب کی جتنی باتیں مدلل ہیں اور صحیح ہیں میں ان کو مانتا ہوں اور جو غلط ہیں سو غلط ہیں
وہی بات عباسی صاحب کہیں تو غلط اور وہی بات کوئی سلفی کہہے تو ٹھیک ۔۔۔ میں اس تفریق کا قائل نہیں
اگر ایسا ہی ہے یعنی عباسی صاحب ناصبی ہیں تو ان کی کوئی بات قابل اعتبار نہیں تو میری آپ سے ایک گزارش ہے
کہ مجھے پچھلے چودہ سو سال کے متفق اسلاف کے نام لکھ دیں ؟ جن کے عقیدے اور منھج پر کہیں سے سے کوئی آواز نہ اٹھی ہو
یا جن پر کوئی دلیل قائم نہ ہو سکی ہو۔ کیونکہ اعتراض تو امام بخاری رحمہ اللہ پر بھی کیا گیا ہے لہذا
صرف ان سلف سالحین کے نام درکار ہیں جن پر تمام اہل علم متفق ہوں کہ یہ منھج کے اعتبار سے بالکل ٹھیک ہیں
تاکہ میں اور آپ آئندہ سے اپنی تحریروں میں صرف انہی اسلاف کے حوالے دیں گے باقی کے نہیں ۔۔۔۔
ورنہ دلیل کو شخصیات کے پس منظر میں دیکھنا چھوڑ دیں
دلیل کو شخصیات کے تناظر میں دیکھنے یا نہ دیکھنے کے باب میں اہل سنت کا منہاج یہ ہے کہ اگر تو وہ موضوع یا نکتہ ایسا ہے کہ جس سے اس کی بدعت کی تائید ہوتی ہے تو اس سے گریز کیا جائے گا ورنہ جو بات درست ہو گی اسے قبول کیا جا سکتا ہے
اب آپ دیکھیے کہ مشاجرات صحابہؓ ہی وہ مسئلہ ہے جس میں افراط و تفریط کی بنا پر کسی شخص کے سنی، رافضی یا ناصبی ہونے کا فیصلہ کیا جاتا ہے
چناں چہ اسی بنا پر عباسی صاحب کو علماے اہل حدیث و سنت نے ناصبی کہا ہے
اس لیے میں یہ سمجھتا ہوں کہ ان موضوعات کے حوالے سے عباسی صاحب کی تحریروں سے استناد نہیں کرنا چاہیے
کیوں کہ
ایسا کبھی بھی نہیں ہوتا کہ کسی شخص کی ہر ہر بات ہی باطل ہو بل کہ باطل اور حق کا اختلاط ہوتا ہے جو تلبیس ابلیس کا طریق کار ہے
اب اگر ایک موضوع پر عباسی نے لکھا ہے تو دیکھنا چاہیے کہ کیا وہ نکتہ پہلی مرتبہ انھیں نے بیان کیا ہے یا اس سے پہلے بھی علماے اہل سنت اسے بیان کر چکے ہیں؟؟
اگر تو پہلے علماے حق نے اسے بیان کیا ہے تو عباسی صاحب سے نقل کرنے کا کیا فائدہ؟؟
اور اگر پہلے بیان ہی نہیں ہوا تو پھر معاملہ بے حد غور طلب ہے کہ وہ نکتہ اہل سنت کے مسلمات سے مطابقت رکھتا ہے یا نہیں؟؟
اگر وہ اہل سنت کے فکر و منہاج کے مخالف نہیں ہے تو اسے قبول کیا جا سکتا ہے؛بہ صورت دیگر اسے رد کر دیا جائے گا
اب اس کے لیے ظاہر ہے علمی رسوخ اور گہری بصیرت درکار ہے کہ کون نکتہ درست ہے اور کہاں انحراف ہے ؟اس لیے عوام تو ایسے لوگوں کی تحریروں سے استفادہ نہیں کر سکتے کہ وہ صحیح اور سقیم میں فرق و امتیاز سے قاصر ہیں
اور میں اسی لیے عباسی صاحب کی ناصبیت کو نمایاں کرتا ہوں کہ عام عوام اس کی پھیلائی ہوئی گم راہیوں میں مبتلا نہ ہو جائیں جیسا کہ یہاں اس کی پرزور وکالت کرنے والوں میں یہ بات بالکل واضح دیکھی جا سکتی ہے کہ اگر وہ عباسی صاحب کی تحریروں کے حوالے سے کوئی ایک آدھ درست بات بیان کرتے ہیں تو ساتھ ہی ساتھ وہ غلط فہمیوں کا بھی شکار ہیں یہاں تک کہ علماے اہل حدیث انھیں’’ رافضی نما اہل سنت ‘‘ نظر آنے لگے ہیں!!
جہاں تک اہل علم کی بات ہے تو وہ ظاہر ہے ہر شخص کی ہر طرح کی تحریروں کو پڑھنے کے مجاز ہیں ؛یہاں بات عمومی تناظر میں ہو رہی تھی لیکن اہل علم کبھی بھی اس نوع کے بدعتی منحرفین کی باتوں کو مدار استدلال نہیں بناتے کہ اس سے بدعت کی ترویج کا دروازہ کھلتا ہے ؛ہاں ، بہ طور تائید ان کی باتوں کو نقل کیا جا سکتا ہے بہ شرطے کہ ساتھ ہی اس کے نادرست افکار و نظریات کی جانب بھی اشارہ کر دیا جائے؛اس باب میں زمخشری کی تفسیر کے متعلق شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ کی راے عالی ملاحظہ فرمائیں جو انھوں نے اپنےشہرۂ آفاق ’’مقدمہ اصول تفسیر ‘‘ میں ظاہر فرمائی ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ بدعتی کی بات اگر صحیح بھی ہے تو اس سے وہ سنی نہیں بن جاتا بل کہ ایسی صورت میں اس کے بدعتی ہونے کی حیثیت کو اجاگر کرنا زیادہ ضروری ہو جاتا ہے مبادا عوام اس کے خلاف حق نظریوں کو بھی حق سمجھنا شروع کر دیں!!