• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ناصبیت

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
میں نے حکم لگانے پر بات کی ہے اور حکم لگانے کے حوالے سے بسااوقات تمام کیفیات پائی جاتی ہیں لیکن حکمت و تدبر کے تحت حکم نہیں لگایا جاتا مجھے اس بارے میں اپنے استاذ محترم شیخ صالح العثیمین رحمہ اللہ کے درس کی تلاش ہے اگر مل گیا تو یہاں اسے پوسٹ کروں گا
لیکن کیا ناصبیت کے بعد بندہ بندہ اہل سنت و جماعت سے بھی باہر نکل جاتا ہے
اور میرا عباسی صاحب کو سنی سمجھنا یا نہ سمجھنا یہ کوئی دلیل نہیں اور میں اس حوالے سے حق کو دیکھتا ہوں اور دلیل کے ساتھ دیکھتا ہوں لہذا عباسی صاحب کی جتنی باتیں مدلل ہیں اور صحیح ہیں میں ان کو مانتا ہوں اور جو غلط ہیں سو غلط ہیں
وہی بات عباسی صاحب کہیں تو غلط اور وہی بات کوئی سلفی کہہے تو ٹھیک ۔۔۔ میں اس تفریق کا قائل نہیں
اگر ایسا ہی ہے یعنی عباسی صاحب ناصبی ہیں تو ان کی کوئی بات قابل اعتبار نہیں تو میری آپ سے ایک گزارش ہے
کہ مجھے پچھلے چودہ سو سال کے متفق اسلاف کے نام لکھ دیں ؟ جن کے عقیدے اور منھج پر کہیں سے سے کوئی آواز نہ اٹھی ہو
یا جن پر کوئی دلیل قائم نہ ہو سکی ہو۔ کیونکہ اعتراض تو امام بخاری رحمہ اللہ پر بھی کیا گیا ہے لہذا
صرف ان سلف سالحین کے نام درکار ہیں جن پر تمام اہل علم متفق ہوں کہ یہ منھج کے اعتبار سے بالکل ٹھیک ہیں
تاکہ میں اور آپ آئندہ سے اپنی تحریروں میں صرف انہی اسلاف کے حوالے دیں گے باقی کے نہیں ۔۔۔۔
ورنہ دلیل کو شخصیات کے پس منظر میں دیکھنا چھوڑ دیں
اصول روایت پر غور و فکر کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ
دلیل کو شخصیات کے تناظر میں دیکھنے یا نہ دیکھنے کے باب میں اہل سنت کا منہاج یہ ہے کہ اگر تو وہ موضوع یا نکتہ ایسا ہے کہ جس سے اس کی بدعت کی تائید ہوتی ہے تو اس سے گریز کیا جائے گا ورنہ جو بات درست ہو گی اسے قبول کیا جا سکتا ہے
اب آپ دیکھیے کہ مشاجرات صحابہؓ ہی وہ مسئلہ ہے جس میں افراط و تفریط کی بنا پر کسی شخص کے سنی، رافضی یا ناصبی ہونے کا فیصلہ کیا جاتا ہے
چناں چہ اسی بنا پر عباسی صاحب کو علماے اہل حدیث و سنت نے ناصبی کہا ہے
اس لیے میں یہ سمجھتا ہوں کہ ان موضوعات کے حوالے سے عباسی صاحب کی تحریروں سے استناد نہیں کرنا چاہیے
کیوں کہ
ایسا کبھی بھی نہیں ہوتا کہ کسی شخص کی ہر ہر بات ہی باطل ہو بل کہ باطل اور حق کا اختلاط ہوتا ہے جو تلبیس ابلیس کا طریق کار ہے
اب اگر ایک موضوع پر عباسی نے لکھا ہے تو دیکھنا چاہیے کہ کیا وہ نکتہ پہلی مرتبہ انھیں نے بیان کیا ہے یا اس سے پہلے بھی علماے اہل سنت اسے بیان کر چکے ہیں؟؟
اگر تو پہلے علماے حق نے اسے بیان کیا ہے تو عباسی صاحب سے نقل کرنے کا کیا فائدہ؟؟
اور اگر پہلے بیان ہی نہیں ہوا تو پھر معاملہ بے حد غور طلب ہے کہ وہ نکتہ اہل سنت کے مسلمات سے مطابقت رکھتا ہے یا نہیں؟؟
اگر وہ اہل سنت کے فکر و منہاج کے مخالف نہیں ہے تو اسے قبول کیا جا سکتا ہے؛بہ صورت دیگر اسے رد کر دیا جائے گا
اب اس کے لیے ظاہر ہے علمی رسوخ اور گہری بصیرت درکار ہے کہ کون نکتہ درست ہے اور کہاں انحراف ہے ؟اس لیے عوام تو ایسے لوگوں کی تحریروں سے استفادہ نہیں کر سکتے کہ وہ صحیح اور سقیم میں فرق و امتیاز سے قاصر ہیں
اور میں اسی لیے عباسی صاحب کی ناصبیت کو نمایاں کرتا ہوں کہ عام عوام اس کی پھیلائی ہوئی گم راہیوں میں مبتلا نہ ہو جائیں جیسا کہ یہاں اس کی پرزور وکالت کرنے والوں میں یہ بات بالکل واضح دیکھی جا سکتی ہے کہ اگر وہ عباسی صاحب کی تحریروں کے حوالے سے کوئی ایک آدھ درست بات بیان کرتے ہیں تو ساتھ ہی ساتھ وہ غلط فہمیوں کا بھی شکار ہیں یہاں تک کہ علماے اہل حدیث انھیں’’ رافضی نما اہل سنت ‘‘ نظر آنے لگے ہیں!!
جہاں تک اہل علم کی بات ہے تو وہ ظاہر ہے ہر شخص کی ہر طرح کی تحریروں کو پڑھنے کے مجاز ہیں ؛یہاں بات عمومی تناظر میں ہو رہی تھی لیکن اہل علم کبھی بھی اس نوع کے بدعتی منحرفین کی باتوں کو مدار استدلال نہیں بناتے کہ اس سے بدعت کی ترویج کا دروازہ کھلتا ہے ؛ہاں ، بہ طور تائید ان کی باتوں کو نقل کیا جا سکتا ہے بہ شرطے کہ ساتھ ہی اس کے نادرست افکار و نظریات کی جانب بھی اشارہ کر دیا جائے؛اس باب میں زمخشری کی تفسیر کے متعلق شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ کی راے عالی ملاحظہ فرمائیں جو انھوں نے اپنےشہرۂ آفاق ’’مقدمہ اصول تفسیر ‘‘ میں ظاہر فرمائی ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ بدعتی کی بات اگر صحیح بھی ہے تو اس سے وہ سنی نہیں بن جاتا بل کہ ایسی صورت میں اس کے بدعتی ہونے کی حیثیت کو اجاگر کرنا زیادہ ضروری ہو جاتا ہے مبادا عوام اس کے خلاف حق نظریوں کو بھی حق سمجھنا شروع کر دیں!!
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
دلیل کو شخصیات کے تناظر میں دیکھنے یا نہ دیکھنے کے باب میں اہل سنت کا منہاج یہ ہے کہ اگر تو وہ موضوع یا نکتہ ایسا ہے کہ جس سے اس کی بدعت کی تائید ہوتی ہے تو اس سے گریز کیا جائے گا ورنہ جو بات درست ہو گی اسے قبول کیا جا سکتا ہے
متفق
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اصول روایت پر غور و فکر کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ
دلیل کو شخصیات کے تناظر میں دیکھنے یا نہ دیکھنے کے باب میں اہل سنت کا منہاج یہ ہے کہ اگر تو وہ موضوع یا نکتہ ایسا ہے کہ جس سے اس کی بدعت کی تائید ہوتی ہے تو اس سے گریز کیا جائے گا ورنہ جو بات درست ہو گی اسے قبول کیا جا سکتا ہے
اب آپ دیکھیے کہ مشاجرات صحابہؓ ہی وہ مسئلہ ہے جس میں افراط و تفریط کی بنا پر کسی شخص کے سنی، رافضی یا ناصبی ہونے کا فیصلہ کیا جاتا ہے
چناں چہ اسی بنا پر عباسی صاحب کو علماے اہل حدیث و سنت نے ناصبی کہا ہے
اس لیے میں یہ سمجھتا ہوں کہ ان موضوعات کے حوالے سے عباسی صاحب کی تحریروں سے استناد نہیں کرنا چاہیے
کیوں کہ
ایسا کبھی بھی نہیں ہوتا کہ کسی شخص کی ہر ہر بات ہی باطل ہو بل کہ باطل اور حق کا اختلاط ہوتا ہے جو تلبیس ابلیس کا طریق کار ہے
اب اگر ایک موضوع پر عباسی نے لکھا ہے تو دیکھنا چاہیے کہ کیا وہ نکتہ پہلی مرتبہ انھیں نے بیان کیا ہے یا اس سے پہلے بھی علماے اہل سنت اسے بیان کر چکے ہیں؟؟
اگر تو پہلے علماے حق نے اسے بیان کیا ہے تو عباسی صاحب سے نقل کرنے کا کیا فائدہ؟؟
اور اگر پہلے بیان ہی نہیں ہوا تو پھر معاملہ بے حد غور طلب ہے کہ وہ نکتہ اہل سنت کے مسلمات سے مطابقت رکھتا ہے یا نہیں؟؟
اگر وہ اہل سنت کے فکر و منہاج کے مخالف نہیں ہے تو اسے قبول کیا جا سکتا ہے؛بہ صورت دیگر اسے رد کر دیا جائے گا
اب اس کے لیے ظاہر ہے علمی رسوخ اور گہری بصیرت درکار ہے کہ کون نکتہ درست ہے اور کہاں انحراف ہے ؟اس لیے عوام تو ایسے لوگوں کی تحریروں سے استفادہ نہیں کر سکتے کہ وہ صحیح اور سقیم میں فرق و امتیاز سے قاصر ہیں
اور میں اسی لیے عباسی صاحب کی ناصبیت کو نمایاں کرتا ہوں کہ عام عوام اس کی پھیلائی ہوئی گم راہیوں میں مبتلا نہ ہو جائیں جیسا کہ یہاں اس کی پرزور وکالت کرنے والوں میں یہ بات بالکل واضح دیکھی جا سکتی ہے کہ اگر وہ عباسی صاحب کی تحریروں کے حوالے سے کوئی ایک آدھ درست بات بیان کرتے ہیں تو ساتھ ہی ساتھ وہ غلط فہمیوں کا بھی شکار ہیں یہاں تک کہ علماے اہل حدیث انھیں’’ رافضی نما اہل سنت ‘‘ نظر آنے لگے ہیں!!
جہاں تک اہل علم کی بات ہے تو وہ ظاہر ہے ہر شخص کی ہر طرح کی تحریروں کو پڑھنے کے مجاز ہیں ؛یہاں بات عمومی تناظر میں ہو رہی تھی لیکن اہل علم کبھی بھی اس نوع کے بدعتی منحرفین کی باتوں کو مدار استدلال نہیں بناتے کہ اس سے بدعت کی ترویج کا دروازہ کھلتا ہے ؛ہاں ، بہ طور تائید ان کی باتوں کو نقل کیا جا سکتا ہے بہ شرطے کہ ساتھ ہی اس کے نادرست افکار و نظریات کی جانب بھی اشارہ کر دیا جائے؛اس باب میں زمخشری کی تفسیر کے متعلق شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ کی راے عالی ملاحظہ فرمائیں جو انھوں نے اپنےشہرۂ آفاق ’’مقدمہ اصول تفسیر ‘‘ میں ظاہر فرمائی ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ بدعتی کی بات اگر صحیح بھی ہے تو اس سے وہ سنی نہیں بن جاتا بل کہ ایسی صورت میں اس کے بدعتی ہونے کی حیثیت کو اجاگر کرنا زیادہ ضروری ہو جاتا ہے مبادا عوام اس کے خلاف حق نظریوں کو بھی حق سمجھنا شروع کر دیں!!
میرا سوال آپ پر ادھار ہے جن شخصیات سے استناد کیا جا سکتا ہے ان کی ایک معروف فہرست بنانے کی کوشش کریں کیونکہ عباسی صاحب والے بہت سے معاملات اس سے پہلے بھی مختلف لوگوں نے اٹھائے البتہ ان کا اسلوب جارحانہ ہے اور تفردات بھی ہیں اور شیعیت کی طرف سے جتنی جارحیت دکھائی جاتی ہے کہ ہم لوگ لا شعوری طور پر شیعیت کے سحر میں گرفتار ہو جاتے ہیں جیسا کہ شیعیت کے سارے مزعومہ آئمہ کو امام علیہ السلام پکارنا یا ہمارے نام ہی حسن اور حسین کے بغیر مکمل نہ ہونا اور اس وقت آل رسول کا صرف سید نا حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ خاص ہو جانا وغیرہ لہذا کہا جا سکتا ہے کہ شیعہ ضرور کم ہیں لیکن شیعہ نواز بہت زیادہ ہے تو اس حساب سے جوابی جارحیت ایک فطری رد عمل ہے جو ہر ایک اپنی سوچ اور علم کے حساب سے دیتا ہے
اگر اس بات کو مدنظر نہ رکھا جائے تو ہماری تاریخ کی بہت سی مسلمہ شخصیات بھی اسی زد میں آ سکتی ہیں
لہذا یہ قاعدہ کہ ایسے کسی شخص جس پر ناصبیت کا فتوی لگایا جائے اس سے علی الاطلاق استناد نہ کرنا تو پھر اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اہل بدعات سے روایت نہ لی جائے اور شیعوں سے بھی روایت نہ لی جائے کیونہ یہ بھی تو اس قاعدے کی زد میں اآ تے ہیں لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے ہماری حدیث ، تفسیر، فقہ اور تاریخ کون سی کتاب ایسی ہے جس میں اہل بدعات، شیعہ وغیرہ سے روایت نہ لی گئی ہو
لہذا اس قاعدہ سے قبل ناصیت کے حدود و اربعہ کا تعین کرنا ہو گا اس کے بعد اس پر علی الاطلاق استناد نہ کرنے کا حکم لگایا جائے گا
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
میرا سوال آپ پر ادھار ہے جن شخصیات سے استناد کیا جا سکتا ہے ان کی ایک معروف فہرست بنانے کی کوشش کریں کیونکہ عباسی صاحب والے بہت سے معاملات اس سے پہلے بھی مختلف لوگوں نے اٹھائے البتہ ان کا اسلوب جارحانہ ہے اور تفردات بھی ہیں اور شیعیت کی طرف سے جتنی جارحیت دکھائی جاتی ہے کہ ہم لوگ لا شعوری طور پر شیعیت کے سحر میں گرفتار ہو جاتے ہیں جیسا کہ شیعیت کے سارے مزعومہ آئمہ کو امام علیہ السلام پکارنا یا ہمارے نام ہی حسن اور حسین کے بغیر مکمل نہ ہونا اور اس وقت آل رسول کا صرف سید نا حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ خاص ہو جانا وغیرہ لہذا کہا جا سکتا ہے کہ شیعہ ضرور کم ہیں لیکن شیعہ نواز بہت زیادہ ہے تو اس حساب سے جوابی جارحیت ایک فطری رد عمل ہے جو ہر ایک اپنی سوچ اور علم کے حساب سے دیتا ہے
اگر اس بات کو مدنظر نہ رکھا جائے تو ہماری تاریخ کی بہت سی مسلمہ شخصیات بھی اسی زد میں آ سکتی ہیں
لہذا یہ قاعدہ کہ ایسے کسی شخص جس پر ناصبیت کا فتوی لگایا جائے اس سے علی الاطلاق استناد نہ کرنا تو پھر اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اہل بدعات سے روایت نہ لی جائے اور شیعوں سے بھی روایت نہ لی جائے کیونہ یہ بھی تو اس قاعدے کی زد میں اآ تے ہیں لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے ہماری حدیث ، تفسیر، فقہ اور تاریخ کون سی کتاب ایسی ہے جس میں اہل بدعات، شیعہ وغیرہ سے روایت نہ لی گئی ہو
لہذا اس قاعدہ سے قبل ناصیت کے حدود و اربعہ کا تعین کرنا ہو گا اس کے بعد اس پر علی الاطلاق استناد نہ کرنے کا حکم لگایا جائے گا
خلاصہ یہ ہے کہ بدعتی کی بات اگر صحیح بھی ہے تو اس سے وہ سنی نہیں بن جاتا بل کہ ایسی صورت میں اس کے بدعتی ہونے کی حیثیت کو اجاگر کرنا زیادہ ضروری ہو جاتا ہے مبادا عوام اس کے خلاف حق نظریوں کو بھی حق سمجھنا شروع کر دیں!!
اصل بات یہ تھی اور آپ کا ادھار تو میں پہلے چکا ہی چکا ہوں؛ہر منصف مزاج خود فیصلہ کر سکتا ہے
اگر ایشو پر بات ہو گی تو اس کو دیکھا جائے گا لیکن کیا اس سے بدعتی کو بدعتی کہنا غلط ہو جائے گا؟؟!!
میں کہتا ہوں کہ عباسی صاحب کی بعض باتیں درست ہیں لیکن وہ بدعتی تھے
آپ کو اس سے کیا اختلاف ہے؟؟
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اصل بات یہ تھی اور آپ کا ادھار تو میں پہلے چکا ہی چکا ہوں؛ہر منصف مزاج خود فیصلہ کر سکتا ہے
اگر ایشو پر بات ہو گی تو اس کو دیکھا جائے گا لیکن کیا اس سے بدعتی کو بدعتی کہنا غلط ہو جائے گا؟؟!!
میں کہتا ہوں کہ عباسی صاحب کی بعض باتیں درست ہیں لیکن وہ بدعتی تھے
آپ کو اس سے کیا اختلاف ہے؟؟
میں نے وہ فہرست طلب کی ہے جس میں آپ کے نزدیک وہ افراد ہوں جن سے استناد کیا جا سکے
اور دوسری بات اگر کوئی غلط آدمی صحیح بات کرے تو آپ کو اس کے ماننے میں کیا اعتراض ہے ، پہلے آپ عباسی صاحب کو ناصبی کہہ رہے تھے اور اب بدعتی ۔۔ ایسا کریں پہلے وہ سارے حکم جو آپ نے عباسی صاحب پر لگانے ہیں وہ ایک ساتھ ہی ذکر کردیں
اور میرا ایک سوال تو باقی ہی ہے اور دوسرا سوال یہ ہے
لہذا یہ قاعدہ کہ ایسے کسی شخص جس پر ناصبیت کا فتوی لگایا جائے اس سے علی الاطلاق استناد نہ کرنا تو پھر اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اہل بدعات سے روایت نہ لی جائے اور شیعوں سے بھی روایت نہ لی جائے کیونہ یہ بھی تو اس قاعدے کی زد میں اآ تے ہیں لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے ہماری حدیث ، تفسیر، فقہ اور تاریخ کون سی کتاب ایسی ہے جس میں اہل بدعات، شیعہ وغیرہ سے روایت نہ لی گئی ہو
لہذا اس قاعدہ سے قبل ناصیت کے حدود و اربعہ کا تعین کرنا ہو گا اس کے بعد اس پر علی الاطلاق استناد نہ کرنے کا حکم لگایا جائے گا

آپ کی پوری پوسٹ میں اگر اس سوالوں کے جواب ہیں تو پلیز ہائی لائٹ کریں
میں بات سمجھنا چاہ رہا ہوں کہ میری رائے تو یہ ہے کہ خذ ما صفا و دع ما کدر کے تحت صحیح بات کوئی بھی کر رہا ہوں بوقت ضرورت اس سے استناد کیا جا سکتا ہے اور شواہد و قرائن میں بھی اس سے مدد لی جا سکتی ہے اور اس کی بات کو یہ کہہ کر رد کر دینا کہ ناصبی اور بدعتی ہے ۔ یہ کچھ محل نظر ہے ۔
اور چلتے چلتے ایک طالب علمانہ سوال اور ۔۔ برا نہ منایئے گا۔۔
تاریخ کی کون سی کتاب ہے جو اہل سنت و جماعت کے منھج پر پوری اترتی ہو؟
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اصل بات یہ تھی اور آپ کا ادھار تو میں پہلے چکا ہی چکا ہوں؛ہر منصف مزاج خود فیصلہ کر سکتا ہے
طاہر اسلام صاحب اسے راہ فرار اختیار کرنا کہتے ہیں میرے سوالوں کا جواب دیجیے ادھار نہ چکایئے اور ایسا کر لیں کہ کسی ممبر کو منصف بنا لیں وہ جو فیصلہ کرے میں اسے مان لوں گا کہ آپ نے میرے سوالوں کا جواب دیا ہے یا نہیں محض ایک عمومی بات کہہ دینا ۔۔۔۔۔۔۔ یہ کوئی مسئلہ کا حل نہیں
مزید یہ معلوم ہوا کہ جس بات کا جواب آپ نہ دینا چاہیں یا جواب نہ ہو اس پر غیر متعلق جیسے بٹن دبا دیا جاتا ہے
اور اگر مناسب سمجھیں تو یہ بھی بتا دیں کہ اس میں کون سی بات غیر متعلق ہے
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
یہ سوال صرف طاہر اسلام صاحب سے کیا جا رہا ہے کہ وہ تاریخی معاملات میں اپنی رائے دیتے رہتے ہیں تو یقینا ان کا مطالعہ بھی ہو گا
تاریخ کی کون سی کتاب ہے جو اہل سنت و جماعت کے منھج پر پوری اترتی ہو؟
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
بہت خوب طاہر اسلام صاحب تسی گریٹ او
ویسے ایک چھوٹی سی نصیحت ہے آپ کے لیے یہاں غیر متعلق کا بٹن مناسب نہیں بلکہ غیر متفق کا بٹن اگر دبا دیں تو زیادہ مناسب ہو گا
اس لیے کہ غیر متفق ہونا آپ کا حق ہے لیکن غیر متعلق ہونا
اس پر صرف ہنسا ہی جا سکتا ہے
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
میرا سوال آپ پر ادھار ہے جن شخصیات سے استناد کیا جا سکتا ہے ان کی ایک معروف فہرست بنانے کی کوشش کریں کیونکہ عباسی صاحب والے بہت سے معاملات اس سے پہلے بھی مختلف لوگوں نے اٹھائے البتہ ان کا اسلوب جارحانہ ہے اور تفردات بھی ہیں اور شیعیت کی طرف سے جتنی جارحیت دکھائی جاتی ہے کہ ہم لوگ لا شعوری طور پر شیعیت کے سحر میں گرفتار ہو جاتے ہیں جیسا کہ شیعیت کے سارے مزعومہ آئمہ کو امام علیہ السلام پکارنا یا ہمارے نام ہی حسن اور حسین کے بغیر مکمل نہ ہونا اور اس وقت آل رسول کا صرف سید نا حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ خاص ہو جانا وغیرہ لہذا کہا جا سکتا ہے کہ شیعہ ضرور کم ہیں لیکن شیعہ نواز بہت زیادہ ہے تو اس حساب سے جوابی جارحیت ایک فطری رد عمل ہے جو ہر ایک اپنی سوچ اور علم کے حساب سے دیتا ہے
اگر اس بات کو مدنظر نہ رکھا جائے تو ہماری تاریخ کی بہت سی مسلمہ شخصیات بھی اسی زد میں آ سکتی ہیں
لہذا یہ قاعدہ کہ ایسے کسی شخص جس پر ناصبیت کا فتوی لگایا جائے اس سے علی الاطلاق استناد نہ کرنا تو پھر اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اہل بدعات سے روایت نہ لی جائے اور شیعوں سے بھی روایت نہ لی جائے کیونہ یہ بھی تو اس قاعدے کی زد میں اآ تے ہیں لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے ہماری حدیث ، تفسیر، فقہ اور تاریخ کون سی کتاب ایسی ہے جس میں اہل بدعات، شیعہ وغیرہ سے روایت نہ لی گئی ہو
لہذا اس قاعدہ سے قبل ناصیت کے حدود و اربعہ کا تعین کرنا ہو گا اس کے بعد اس پر علی الاطلاق استناد نہ کرنے کا حکم لگایا جائے گا
جزاک الله فیض ابرار صاحب-

اوپر ہائی لائٹ کیے گئے الفاظ - یہی وہ چیز ہے جو ہمارے رافضیت سے متاثر احباب اہل علم کو سمجھنی ضروری ہے- کم سے کم یہ اہل سنّت کے احباب ناصیت کے حدود و اربعہ کا تعین تو کریں - پھر شخصیت اور ان کے نظریات پر اصل بحث ہو سکے گی-
 
Top