ابن قدامہ
مشہور رکن
- شمولیت
- جنوری 25، 2014
- پیغامات
- 1,772
- ری ایکشن اسکور
- 428
- پوائنٹ
- 198
محترم! کسی چیز کا حرام ہونا صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات سے ہی پتہ چلتا ہے۔ موصوف نے اس کو حرام لکھا کس دلیل سے؟
ممنوع تبرک:ممنوع تبرک شرک میں داخل ہے، اس کی دلیل یہ ہے:
" نافع رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ عمر رض کو یہ بات پہنچی کہ کچھ لوگ (بیت رضوان والے) درخت کے پاس آکر نمازيں ادا کرتے ہیں تو انہوں نے ان کو ڈرایا دھمکایا پھر اسے کاٹنے کا حکم دیا، پس اسے کاٹ دیا گیا-"
فتح بلباری: 7/448- طبقات ابن سعد: 2/100- البدع والنھی عنھا لمحمد بن وضاع- 42،43- ابن ابی شیبہ: 2/375، مطبوعہ حیدرآباد دکن- حافظ ابن حجر رح نے اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے-
2
سیدنا ابو واقد اللیثی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حنین کی طرف نکلے ، اس وقت ہم نئے نئے مسلمان ہوئے تھے ، ایک بیری تھی ، جس کے پاس مشرکین ٹھہرتے اور (تبرک کی غرض سے)اپنااسلحہ اس کے ساتھ لٹکاتے ، اسے ذات ِ انواط کہا جاتا تھا ، ہم نے عرض کی ، اے اللہ کے رسول !جس طرح مشرکین کا ذات ِ انواط ہے ، ہمارے لیے بھی کوئی ذات ِ انواط مقرر کر دیجیے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : الله اکبر ، انها السنن ، قلتم ، والذی نفسی بیده ، کما قالت بنو اسرائیل لموسی {اجْعَلْ لَّنَآ اِلٰهًا کَمَا لَهُمْ اٰلِهَةٌ}(الاعراف ؛ ۱۳۸)
لترکبن سنن من کان قبلکم ۔''اللہ اکبر ! اللہ کی قسم ، یہ پرانا طریقہ ہے، تم نے اسی طرح کہا ہے، جس طرح بنی اسرائیل نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا تھا
{اجْعَلْ لَّنَآ اِلٰهًا کَمَا لَهُمْ اٰلِهَةٌ} (الاعراف ؛ 138)"
ہمارے لیے بھی کوئی معبود بنا دیجیے ، جس طرح ان (کافروں کے معبود ہیں )ضرور تم اپنے سے پہلے لوگوں کے نقش قدم پر چلو گے۔''
(مسند الامام احمد : 218/25، جامع الترمذی : 2180،مسند الحمیدی ؛ 868، المعجم الکبیر للطبرانی 274/3، صحیح)
امام ِ ترمذی نے اس حدیث کو ''حسن صحیح'' اور امام ابن حبان (4702)نے ''صحیح'' کہاہے۔
3
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لا تشد الرحل الا الی ثلاثة مساجد ، المسجد الحرام ، ومسجدی هذا، والمسجد الأقصیٰ۔''(تبرک کی نیت سے)سامان صرف ان تین مسجدوں کی طرف باندھا جائے گا، مسجد ِ حرام ، میری مسجد(مسجد ِ نبوی)اور مسجد ِ اقصیٰ ۔'
'(صحیح بخاری : 1/159، ح؛ 1189، صحیح مسلم ؛ 1/247،ح؛ 1397)
حافظ ابن تیمیہ فرماتے ہیں کہ اگرکوئی ان تین مسجدوں کے علاوہ کسی اور جگہ کی طرف سامان باندھ کر جانے کی نذر مان لے تو اس پر نذر کا پور ا کرنا ضروری نہ ہوگا ، اس بات پر ائمہ دین کا اتفاق ہے۔
(مجموع الفتاوٰی :184/27 مختصرا)
حصولِ برکت کی خاطر انبیا ء و صلحاء کی قبرو ں کی زیارت کے لیے سفر بدعت ہے، صحابہ کرام و تابعین عظام نے ایسا نہیں کیا ، نہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم دیا۔امام ابراہیم نخعی تابعی فرماتے ہیں :
لا تشد الرحال الا الی ثلاثة مساجد ؛ المسجد الحرام ، مسجد الرسول ، وبیت المقدس۔''(برکت حاصل کرنے کی نیت سے)رخت ِ سفر صرف تین مسجدوں کی طرف باندھا جائے گا، مسجد ِ حرام ، مسجد ِ نبوی اور بیت المقدس۔'
'(مصنف ابن ابی شیبة ؛ 2/45، وسنده صحیح)
حافظ شاطبی فرماتے ہیں :ان الصحابة بعد موته لم یقع من أحد منهم شیء من ذلک بالنسبة الی من خلفه ، اذ لم یترک النبی صلی الله علیه وسلم بعدہ فی الأمة أفضل من أبی بکر الصدیق رضی الله عنه ، فهو کان خلیفته ، ولم یفعل به شیء من ذلک ، ولا عمر رضی الله عنه ، وهو کان أفضل الأمة بعدہ ، ثم کذلک عثمان ، ثم علی ، ثم سائر الصحابة الذین لا أحد أفضل منهم فی الأمة ، ثم لم یثبت لوأحد منهم من طریق صحیح معروف أنّ متبرکا تبرک به علی أحد تلک الوجوه أو نحوها ، بل اقتصروا فیهم علی الاقتداء بالٔافعال والٔاقوال والسیر التی اتبعوا فیها النبی صلی الله علیه وسلم ، فهو اذا اجماع منهم علی ترک تلک الأشیائ۔''
صحابہ کرام نے آپ کی وفات کے بعد آپ کے علاوہ کسی کے لیے یہ(تبرک)مقرر نہ کیا ، کیونکہ آپ کے بعد امت میں سب سے افضل سیدناابو بکر صدیق تھے ، آپ کے بعد خلیفہ بھی تھے ، ان کے ساتھ اس طرح کا کوئی معاملہ نہیں کیا گیا ، نہ سیدنا عمر نے ہی ایسا کیا، وہ سیدنا ابو بکر کے بعد امت میں سب سے افضل تھے ، پھر اسی طرح سیدنا عثمان و علی رضی اللہ عنہما اور دوسرے صحابہ کرام تھے ، کسی سے بھی باسند ِ صحیح ثابت نہیں کہ کسی نے ان کے بارے میں اس طرح سے کوئی تبرک والا سلسلہ جاری کیا ہو، بلکہ ان (صحابہ )کے بارے میں انہوں (دیگر صحابہ و تابعین ) نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع پر مبنی اقوال و افعال اورطریقہ کا ر پر اکتفاکیا ہے، لہٰذا یہ ان کی طرف سے ترک ِ تبرکات پر اجماع ہے ۔
''(الاعتصام ؛9-2/8)