السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
یہ تو اکثریت پر الزام وادر کیا گیا ہے، اسے تہمت بھی کہا جائے تو بےجا نہ ہو گا!
کیا اس کا مستفاد آپ یہ اخذ کرتے ہیں کہ اکثریت ہمیشہ باطل ہوگی! اگر یہ گمان ہے تو بالکل باطل ہے!
ایسی صورت میں تو جمہور فقہاء اور جمہور محدثین کے مؤقف کو باطل اور شذوذ کو حق قرار دینا چاہئے، جبکہ اس کا قائل کوئی بھی نہیں!
پھر کیا کہیئے گا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت مدینہ کی اکثریت کے بارے میں؟
میرے بھائی اس طرح سے اللہ کے قانون اخذ کرنے سے قبل اچھی طرح سوچ بچار کرنا چاہئے اور اصول تفسیر و فقہ کو صرف نظر نہیں کرنا چاہئے!
محترم ابو داؤد بھائی -
لگتا ہے آپ لفظ
"اکثریت" کے حقیقی مفہوم سے واقف نہیں ورنہ دوسرے لفظوں میں تو آپ کے الفاظ قرآن کی آیات جو کہ پیش کی گئی ہیں پر تہمت ثابت جاتے ہیں- (الله آپ پر رحم کرے)- نا کہ میرے الفاظ اکثریت پر تہمت- اب اس کی آپ کیا توجیہ پیش کریں گے کہ الله کے قانون کے مطابق اکثریت "
فاسق" ہوتی ہے- یہ تو الله کریم کی وحی کے الفاظ ہیں- میرے نہیں-
بات صرف اتنی ہے کہ "
اکثریت" ہمیشہ باطل نہیں ہوتی
لیکن اکثر و بیشتر باطل ہوتی ہے- اور قران کا بھی یہی منشاء ہے- اگر اکثریت کو
ہمیشہ "حق" سمجھ لیا جائے تو وہ قانون بن جاتا ہے اور یہی جمہوریت کا شاخسانہ ہے- جمہوریت کی بنیاد ہی یہی ہے کہ ہر وہ حکم چاہے قرآن و حدیث سے کیوں نہ ٹکراتا ہو- جمہوری فیصلے کی بنیاد پر ملک کا قانون بن جاتا ہے- کبھی ہم جن پرستی اس قانون کے تحت جائز قرار پاتی ہے تو کبھی بیوی پر ہاتھ اٹھانے پر مرد کو سزا ہو جاتی ہے تو کبھی سودی نظام کے خلاف رٹ کو خارج کردیا جاتا ہے تو کبھی چوری کی سزا ہاتھ کاٹنے کو وحشیانہ قرار دے کر کالعدم قرار دے دیا جاتا ہے- ہمارے اس "
اسلامی جمہوریہ" پاکستان میں آپ کو اس قسم کے
صریح کفر کی بے شمار مثالیں ملیں گی-
جہاں تک آپ کی یہ بات کہ
"جمہور فقہاء اور جمہور محدثین کے مؤقف کو باطل اور شذوذ کو حق قرار دینا چاہئے،
جبکہ اس کا قائل کوئی بھی نہیں" تو اس سے مراد ان کی مجموعی تعداد ہے- ناکہ کسی گروه کے مقابلے میں اکثریت ہے - ورنہ کیا اسلام کی ابتدائی و مکی دور میں مسلمان کفار کی نسبت اقلیت میں نہیں تھے - تو کیا اس وقت ان مسلمانوں کے موقف کو باطل سمجھنا صحیح ہوتا ؟؟
قرآن میں تو الله رب العزت کا فرمان ہے کہ :
قَالَ الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُمْ مُلَاقُو اللَّهِ كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً بِإِذْنِ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ مَعَ الصَّابِرِينَ سوره البقرہ ٢٤٩
وہ کہنے لگے - بارہا ایسا ہوا کہ بڑی جماعت پر چھوٹی جماعت الله کے حکم سے غالب ہوئی ہے اور الله صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے
محترم -
میرا بھی یہی موقف ہے کہ اللہ کے قانون اخذ کرنے سے قبل اچھی طرح سوچ بچار کرنا چاہئے اور اصول تفسیر و فقہ کو صرف نظر نہیں کرنا چاہئے! کیا آپ کو معلوم نہیں کہ اصحاب کرام رضوان الله اجممین اور خود نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم کے دور میں متعدد فیصلے جمہور کے خلاف جا کر کیے گئے - حضرت ابو بکر صدیق رضی الله عنہ نے معدنین زکات کے خلاف تلوار اٹھانے کا فیصلہ اکثریت صحابہ کے مشورے کو نظر انداز کرکے کیا- بدر کے قیدیوں کے معاملے میں نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم اور ابو بکر صدیق رضی الله عنہ کا ایک موقف ہونے کے باوجود وحی الہی فرد واحد حضرت عمر رضی الله عنہ کے فہم کے مطابق نازل ہوئی- غزوہ احد میں بعض صحابہ نے مدینہ سے باہر نکل کرلڑنے کے حوالے سے شدید خواہش اورجوش وخروش کا مظاہرہ کیا لیکن بعد میں یہ صحابہ کرام مدینہ سے باہر جنگ کرنے کے اپنے فیصلے سے دستبردار ہوگئے - لیکن نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم نے اس کے باوجود یہ فرما کر کہ "جب ایک نبی جنگ کے لئے ہتھیار پہن لے تو اس وقت تک نہیں اتارتا جب تک کہ اللہ اس کے درمیان اور اس کے دشمن کے درمیان فیصلہ فرما دے"- جنگ شہر سے باہر ہی لڑنے کا فیصلہ کیا-- اس کے علاوہ اور بھی بہت سی مثالیں ہیں جو اقلیت کے حکم کی اکثریت پر فوقیت کی دلیل ہیں -یہ تو اس سنھرے دور کی مثالیں ہیں کہ اگر اس وقت اکثریت کے فیصلے کو بھی ترجیح دی جاتی تو معاشرے پر شاید اس کے کوئی برے اثرات مرتب نہ ہوتے-
لیکن آج کے اس پرفتن دور میں حکم ، قانون اورفیصلے کے لئے انسانوں کی اکثریت کی طرف رجوع کرنا اور ان کی ا کثریت کے علمِ حقیقی سے جاہل، دین سے بے بہرہ اور فاسق ہونے کی بنا پر ان کی اکثریت کے فیصلے کو قانون کادرجہ دینا جاہلیت کے فیصلے کو قانون بنانے کے سواء اور کیا ہو سکتا ہے- جب کہ قرانی نقطہ نظر سے ہو بھی جمہوری نظام ناجائز- ویسے بھی جمہوریت تو ایک ایسا نظام حکومت ہے کہ جس میں اقتدار حاصل کرنے کی بہت حرص پائی جاتی ہے -اور اس معاملے میں بھی یہ حکم نبوی سے براہ راست متصادم ہے -
ابو موسٰی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں اپنے دو چچا زاد بھائیوں کے ساتھ نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم کے پاس حاضر ہوا ان میں سے ایک بولا- اللہ کے رسول ہمیں کسی ملک کی حکومت دے دیجئے ان ملکوں میں سے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو دئیے ہیں اور دوسرے نے بھی ایسا ہی کہا آپ نے فرمایا اللہ کی قسم ہم نہیں دیتے اس شخص کو جو اس کو مانگے اور نہ اس کو جو اس کی حرص کرے۔ (مسلم:)
غرض یہ ایک طاغوتی نظام ہے جس کی ترویج و اشاعت میں یہود و نصاریٰ دن رات لگے رہتے ہیں - ورنہ اگر یہ نظام حکومت جائز یا مستحسن ہوتا تو یہ کافر دن رات اس کی حمایت میں اپنا وقت کیوں برباد کرتے ؟؟-
فَمَنْ یَّکْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَ یُؤْمِنْم بِاللّٰہِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰی ق لَاانْفِصَامَ لَھَا ط وَاللّٰہُ سَمِیْعٌ عَلِیْم ٌ سوره البقرہ
پس جس نے طاغوت سے کفر کیااور اللہ پر ایمان لایا وہ ایک مضبوط سہارے سے یوں وابستہ ہو گیا کہ کبھی اس سے جدا کیا جانے والا نہیں اور اللہ سنتا و جانتا ہے۔
الله ہماری صحیح راستے کی طرف رہنمائی فرمایے (آمین)-