• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آج کے حکمران اور اطاعت امیر

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
جی میں اس مؤقف سے واقف ہوں!
ویسے یہ ابو محمد مقدسی وہی ہیں، جنہوں نے'' هذا عقيدتنا '' چالیس پچاس صفحہ کا رسالہ لکھ کر تکفیر کا بازار گرم کیا ہے؟
میں علم بہت دیکھ بھال کر حاصل کیا کرتا ہوں!
 

وجاہت

رکن
شمولیت
مئی 03، 2016
پیغامات
421
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
45
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

جی میں اس مؤقف سے واقف ہوں!
ویسے یہ ابو محمد مقدسی وہی ہیں، جنہوں نے'' هذا عقيدتنا '' چالیس پچاس صفحہ کا رسالہ لکھ کر تکفیر کا بازار گرم کیا ہے؟
میں علم بہت دیکھ بھال کر حاصل کیا کرتا ہوں!
علم بہت دیکھ بھال کر ہی حاصل کرنا چاہیے - میں آپ سے متفق ہوں -

یہ پوسٹ کسی @سلفی منہج بھائی نے یہاں پیش کی ہوئی ہے - میری نظر سے گزری تو یہاں پیش کر دی - کیوں کہ یہاں @محمد علی جواد بھائی اور آپ دونو ں میں آج کے حکمرانوں کی اطاعت پر بحث ہو رہی ہے -

علمی دلائل جاری رکھیں -
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
746
ری ایکشن اسکور
129
پوائنٹ
108
سمجھ نہیں آئی پیارے بھائی جان مشکل اور کیا ہوتی ہے آپ کس قسم کی مشکل کی بات کر رہے ہیں اطاعت میں نفس کے خلاف کام کرنا ہی تو مشکل ہوتی ہے پس جو اوپر معروف کاموں میں حکمران کی اطاعت کرتا ہے وہی تو مشکل کام ہے مجھے سمجھ نہیں آئی آپکی بات
مجھے بھی بات سمجھ نہیں آرہی ۔ آپ معروف کاموں کی کچھ مثالیں دے دیں تو واضح ہوجائے کہ وہ کون سے مشکل کام ہیں جن کی اطاعت نفس پر گراں ہے۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ!
لگتا ہے آپ لفظ "اکثریت" کے حقیقی مفہوم سے واقف نہیں ورنہ دوسرے لفظوں میں تو آپ کے الفاظ قرآن کی آیات جو کہ پیش کی گئی ہیں پر تہمت ثابت جاتے ہیں- (الله آپ پر رحم کرے)-
میرے بھائی! میرے اکثریت کے حقیقی مفہوم سے ناواقف ہونے کا خیال آپ کو میری کس عبارت سے آیا؟
اور میرے کون سے الفاظ قرآن کی آیات پر تہمت ثابت ہوتے ہیں؟
دیکھیں آپ کا اکثریت پر الزم یا تہمت کہاں ہے وہ میں آپ کو بتلاتا ہوں :
جب کہ جمہوریت "ملک میں اکثریت اور پارلیمنٹ" کی خدائی" کی قائل ہے جو صریح شرک ہے-
کسی اسلامی ملک میں، جیسے پاکستان میں جہاں جمہوری نظام بھی ہے، نہ جمہوریت اکثریت اور پارلیمنٹ کی خدائی کی قائل ہے، اور نہ ہی اس مملکت کی اکثریت پارلیمنٹ کی خدائی کی قائل ہے!
مملکت میں رہنے والے غیر مسلم جو کہ اقلیت میں ہیں، وہ اگر یہ نظریہ رکھتے بھی ہوں ، تو مملکت کی اکثریت کے متعلق یہ الزام و تہمت ہی ہے!
پاکستان کے جمہوری نظام میں اکثریت کو قرآن و سنت کے خلاف قانون بنانے کا حق نہیں دیا!
لہٰذا اس جمہوریت کو خدائی کا قائل کہنا بھی الزام ہی ہے!
اب آپ بتلائیے ! میرے کس کلام میں قرآن کی آیات پر تہمت ثابت ہوتی ہے؟
نا کہ میرے الفاظ اکثریت پر تہمت-
اس کا بیان ابھی کر دیا گیا!
اب اس کی آپ کیا توجیہ پیش کریں گے کہ الله کے قانون کے مطابق اکثریت "فاسق" ہوتی ہے- یہ تو الله کریم کی وحی کے الفاظ ہیں- میرے نہیں-
میں یہ توجیہ کیوں پیش کروں! میرے بھائی اسے قانون آپ قرار دے رہے ہیں، اور ابھی آپ اگلے ہی جملہ میں اس کی نفی بھی فرمادیں گے، وہ بھی دو اعتبار سے، ایک تو خود اپنے الفاظ میں اقرار کریں گے، اور دسری نفی غالباً آپ سے مخفی ہوگی!
دوم کہ آپ نے یہ بڑی جسارت کی ہے کہ آپ اپنے الفاظ کو اللہ کریم کی وحی کے الفاظ قرار دے رہے ہیں!
اللہ تعالیـ کی وحی کے الفاظ میں اسے ''قانون'' نہیں کہا گیا!
اور میرا آپ سے اسی بابت اختلاف ہے، کہ اسے آپ نے قانون کیونکر قرار دیا؟
بات صرف اتنی ہے کہ "اکثریت" ہمیشہ باطل نہیں ہوتی لیکن اکثر و بیشتر باطل ہوتی ہے- اور قران کا بھی یہی منشاء ہے-
ابھی تک تو آپ کا مدعا تھا کہ یہ اللہ کا قانون ہے کہ اکثریت باطل ہوتی ہے، اور اب آپ کہتے ہیں کہ :
"اکثریت" ہمیشہ باطل نہیں ہوتی
تو میرے بھائی یہ قانون کہاں رہا!
پھر حق و باطل کا پیمانہ اکثریت یا اقلیت کہاں رہا!
آپ نے اپنے پہلے مدعا کے برخلاف خود رقم فرمایا کہ :
لیکن اکثر و بیشتر باطل ہوتی ہے-
میرے بھائی! جب آپ خود یہ کہتے ہو کہ ہمیشہ باطل نہیں ہوتی لیکن اکثر و بیشتر باطل ہوتی ہے، تو میرے بھائی! جب اکثر و بیشتر، بسا اوقات والا معاملہ آجائے، تو وہ قانون، کلیہ وقاعدہ نہیں ہوتا! فتدبر!
لہٰذا یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ کسی معاملہ میں اکثریت کے قائل ہونے سے وہ باطل ثابت نہیں ہوتی! ایسا کوئی قانون نہ قرآن کی ان آیات میں بیان ہوا ہے، جو پیش کی گئیں، اور نہ کسی اور آیت میں، اور نہ ہی کسی صحیح حدیث میں ایسا کوئی قانون بیان ہوا ہے!
اگر اکثریت کو ہمیشہ "حق" سمجھ لیا جائے تو وہ قانون بن جاتا ہے اور یہی جمہوریت کا شاخسانہ ہے- جمہوریت کی بنیاد ہی یہی ہے کہ ہر وہ حکم چاہے قرآن و حدیث سے کیوں نہ ٹکراتا ہو- جمہوری فیصلے کی بنیاد پر ملک کا قانون بن جاتا ہے-
اکثریت کا ہمیشہ حق ہونا بھی ثابت نہیں! اور نہ ہی پاکستان کی جمہورت میں یہ جائز ہے کہ قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون بنایا جائے!
کبھی ہم جن پرستی اس قانون کے تحت جائز قرار پاتی ہے تو کبھی بیوی پر ہاتھ اٹھانے پر مرد کو سزا ہو جاتی ہے تو کبھی سودی نظام کے خلاف رٹ کو خارج کردیا جاتا ہے تو کبھی چوری کی سزا ہاتھ کاٹنے کو وحشیانہ قرار دے کر کالعدم قرار دے دیا جاتا ہے-
میرے بھائی! دنیا میں ایک ہی جمہورت کا وجود نہیں! امریکہ کی جمہوریت، یورپ کی جمہوریت سے مختلف ہے، اور یورپ کے ممالک میں بھی الگ الگ جمہوری نظام ہیں، اور پاکستان کا جمہوری نظام الگ ہے!
پاکستان کے جمہوری نظام میں آپ کے بیان کردہ امور جائز نہیں!
ہمارے اس "اسلامی جمہوریہ" پاکستان میں آپ کو اس قسم کے صریح کفر کی بے شمار مثالیں ملیں گی-
جی! پاکستان کی قوانین میں اس کی بہت سی امثال ہیں، لیکن وہ تمام پاکستان کے دستور میں بیان کردہ جمہوری نظام کے خلاف ہیں! پاکستان کا جمہوری نظام کسی کفریہ قانون کو جائز قرار نہیں دیتا!
جہاں تک آپ کی یہ بات کہ "جمہور فقہاء اور جمہور محدثین کے مؤقف کو باطل اور شذوذ کو حق قرار دینا چاہئے، جبکہ اس کا قائل کوئی بھی نہیں" تو اس سے مراد ان کی مجموعی تعداد ہے- ناکہ کسی گروه کے مقابلے میں اکثریت ہے -
میں یہ بات سمجھنے سے قاصر ہوں!
میرے بھائی! جمہور فقہاء اور جمہور محدثین کا جب ایک مؤقف پر اتفاق ہے اور دوسروں کا مؤقف ان سے علیحد ہ ہے، تو آپ کے بیان کردہ ''قانون'' کے مطابق تو جمہور کا مؤقف باطل قرار پانا چاہئے!
اور اب جو آپ نے اپنے مؤقف میں ترمیم کی ہے اس ترمیم شدہ مؤقف کے مطابق بھی جمہور کا مؤقف اکثر و بیشتر باطل قرار پانا چاہئے! جبکہ ایسابھی نہیں!
میرے بھائی! میں نے جمہور کے مؤقف کی بات کی ہے، اور جب بات جمہور کی ہے، تو اس کے مقابلہ میں دیگر کا مؤقف بھی ہے لیکن وہ قلیل فقہاء و محدثین ہیں!
ورنہ کیا اسلام کی ابتدائی و مکی دور میں مسلمان کفار کی نسبت اقلیت میں نہیں تھے - تو کیا اس وقت ان مسلمانوں کے موقف کو باطل سمجھنا صحیح ہوتا ؟؟
میرے بھائی! اب کیا پاکستان کے جمہوری نظام میں امریکہ و ہندوستانی، و پوری دنیا کے باسیوں کا بھی دخل ہے؟ نہیں بھائی! یہاں صرف پاکستانیوں کا معاملہ ہے! اس میں پاکستانیوں کی اکثریت کو دیکھا جائے گا!
دوم کہ نہ میرا یہ مؤقف ہے، اور نہ کبھی میں نے یہ بات کہی ہے کہ اقلیت ہمیشہ باطل ہوگی!
سوم کہ آپ نے جو آیت پیش کی تھی، اس میں ایمان لانے والوں کی اکثریت کا ذکر تھا!
چہارم کہ اس معاملہ میں میں نے آپ سے عرض کی تھی جس کا آپ نے جواب نہیں دیا! ایک بار پھر پیش کرتا ہوں:
جب الله کے قانون کے مطابق اکثریت فاسق و فاجر ہوتی ہے تو پھر اس کو زبردستی اسلام کا لبادہ اڑھانے کی کیا ایسی ضرورت ہے- اب کیا کہیں ان عقل سے پیدل و جاہل مشائخ کو جو جمہوریت کو زبردستی "مشرف با اسلام" کرنے پر تلے ہوے ہیں-
پھر کیا کہیئے گا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت مدینہ کی اکثریت کے بارے میں؟
قرآن میں تو الله رب العزت کا فرمان ہے کہ :

قَالَ الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُمْ مُلَاقُو اللَّهِ كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً بِإِذْنِ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ مَعَ الصَّابِرِينَ سوره البقرہ ٢٤٩
وہ کہنے لگے - بارہا ایسا ہوا کہ بڑی جماعت پر چھوٹی جماعت الله کے حکم سے غالب ہوئی ہے اور الله صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے
جی میرے بھائی! نہ اکثریت ہمیشہ باطل ہوتی ہے اور نہ اقلیت ہمیشہ باطل!
محترم -میرا بھی یہی موقف ہے کہ اللہ کے قانون اخذ کرنے سے قبل اچھی طرح سوچ بچار کرنا چاہئے اور اصول تفسیر و فقہ کو صرف نظر نہیں کرنا چاہئے!
کیا آپ کو معلوم نہیں کہ اصحاب کرام رضوان الله اجممین اور خود نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم کے دور میں متعدد فیصلے جمہور کے خلاف جا کر کیے گئے - حضرت ابو بکر صدیق رضی الله عنہ نے معدنین زکات کے خلاف تلوار اٹھانے کا فیصلہ اکثریت صحابہ کے مشورے کو نظر انداز کرکے کیا- بدر کے قیدیوں کے معاملے میں نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم اور ابو بکر صدیق رضی الله عنہ کا ایک موقف ہونے کے باوجود وحی الہی فرد واحد حضرت عمر رضی الله عنہ کے فہم کے مطابق نازل ہوئی- غزوہ احد میں بعض صحابہ نے مدینہ سے باہر نکل کرلڑنے کے حوالے سے شدید خواہش اورجوش وخروش کا مظاہرہ کیا لیکن بعد میں یہ صحابہ کرام مدینہ سے باہر جنگ کرنے کے اپنے فیصلے سے دستبردار ہوگئے - لیکن نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم نے اس کے باوجود یہ فرما کر کہ "جب ایک نبی جنگ کے لئے ہتھیار پہن لے تو اس وقت تک نہیں اتارتا جب تک کہ اللہ اس کے درمیان اور اس کے دشمن کے درمیان فیصلہ فرما دے"- جنگ شہر سے باہر ہی لڑنے کا فیصلہ کیا-- اس کے علاوہ اور بھی بہت سی مثالیں ہیں جو اقلیت کے حکم کی اکثریت پر فوقیت کی دلیل ہیں -یہ تو اس سنھرے دور کی مثالیں ہیں کہ اگر اس وقت اکثریت کے فیصلے کو بھی ترجیح دی جاتی تو معاشرے پر شاید اس کے کوئی برے اثرات مرتب نہ ہوتے-
ان میں سے کون سی بات یہ قاعدہ، قانون و کلیہ بتلاتی ہے کہااکثریت باطل ہوتی ہے؟
لیکن آج کے اس پرفتن دور میں حکم ، قانون اورفیصلے کے لئے انسانوں کی اکثریت کی طرف رجوع کرنا اور ان کی ا کثریت کے علمِ حقیقی سے جاہل، دین سے بے بہرہ اور فاسق ہونے کی بنا پر ان کی اکثریت کے فیصلے کو قانون کادرجہ دینا جاہلیت کے فیصلے کو قانون بنانے کے سواء اور کیا ہو سکتا ہے-
میرے بھائی!پاکستان کا جمہوری نظام عوام کی کثرت رائے سے حلال و حرام دینے کے لئے نہیں، بلکہ حکومت کرنے والوں کے انتخاب کا نام ہے، کہ وہ کسے معتبر و قابل اعتماد سمجھتے ہیں! اور یہ عوام خود قانون نہیں بناتی، قانون ان کے منتخب نمائندے بناتے ہیں!
جب کہ قرانی نقطہ نظر سے ہو بھی جمہوری نظام ناجائز-
قرآن سے اس کی دلیل درکار ہے!
یار دہے کہ جمہوری نظام کے ناجائز ہونے کی دلیل مطلوب ہے!
ویسے بھی جمہوریت تو ایک ایسا نظام حکومت ہے کہ جس میں اقتدار حاصل کرنے کی بہت حرص پائی جاتی ہے -اور اس معاملے میں بھی یہ حکم نبوی سے براہ راست متصادم ہے -

ابو موسٰی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں اپنے دو چچا زاد بھائیوں کے ساتھ نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم کے پاس حاضر ہوا ان میں سے ایک بولا- اللہ کے رسول ہمیں کسی ملک کی حکومت دے دیجئے ان ملکوں میں سے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو دئیے ہیں اور دوسرے نے بھی ایسا ہی کہا آپ نے فرمایا اللہ کی قسم ہم نہیں دیتے اس شخص کو جو اس کو مانگے اور نہ اس کو جو اس کی حرص کرے۔ (مسلم:)
پاکستان کے جمہوری نظام میں دو افراد الیکش میں حصہ لینے کے لئے کسی کو نامزد کرتے ہیں!
غرض یہ ایک طاغوتی نظام ہے جس کی ترویج و اشاعت میں یہود و نصاریٰ دن رات لگے رہتے ہیں - ورنہ اگر یہ نظام حکومت جائز یا مستحسن ہوتا تو یہ کافر دن رات اس کی حمایت میں اپنا وقت کیوں برباد کرتے ؟؟-

فَمَنْ یَّکْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَ یُؤْمِنْم بِاللّٰہِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰی ق لَاانْفِصَامَ لَھَا ط وَاللّٰہُ سَمِیْعٌ عَلِیْم ٌ سوره البقرہ
پس جس نے طاغوت سے کفر کیااور اللہ پر ایمان لایا وہ ایک مضبوط سہارے سے یوں وابستہ ہو گیا کہ کبھی اس سے جدا کیا جانے والا نہیں اور اللہ سنتا و جانتا ہے۔

الله ہماری صحیح راستے کی طرف رہنمائی فرمایے (آمین)-
یہ کون سا قاعدہ ہے کہ یہود ونصاری کا اختیار کردہ یا ایجاد کردہ ہر نظام باطل ہی ہے!
ویسے ایک بات بتلائیے گا یہ دینار کا نظام جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار کیا، وہ کس کا بنایا ہوا نظام تھا؟
 
Last edited:

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ!

میرے بھائی! میرے اکثریت کے حقیقی مفہوم سے ناواقف ہونے کا خیال آپ کو میری کس عبارت سے آیا؟
اور میرے کون سے الفاظ قرآن کی آیات پر تہمت ثابت ہوتے ہیں؟
دیکھیں آپ کا اکثریت پر الزم یا تہمت کہاں ہے وہ میں آپ کو بتلاتا ہوں :

کسی اسلامی ملک میں، جیسے پاکستان میں جہاں جمہوری نظام بھی ہے، نہ جمہوریت اکثریت اور پارلیمنٹ کی خدائی کی قائل ہے، اور نہ ہی اس مملکت کی اکثریت پارلیمنٹ کی خدائی کی قائل ہے!
مملکت میں رہنے والے غیر مسلم جو کہ اقلیت میں ہیں، وہ اگر یہ نظریہ رکھتے بھی ہوں ، تو مملکت کی اکثریت کے متعلق یہ الزام و تہمت ہی ہے!
پاکستان کے جمہوری نظام میں اکثریت کو قرآن و سنت کے خلاف قانون بنانے کا حق نہیں دیا!
لہٰذا اس جمہوریت کو خدائی کا قائل کہنا بھی الزام ہی ہے!
اب آپ بتلائیے ! میرے کس کلام میں قرآن کی آیات پر تہمت ثابت ہوتی ہے؟

اس کا بیان ابھی کر دیا گیا!

میں یہ توجیہ کیوں پیش کروں! میرے بھائی اسے قانون آپ قرار دے رہے ہیں، اور ابھی آپ اگلے ہی جملہ میں اس کی نفی بھی فرمادیں گے، وہ بھی دو اعتبار سے، ایک تو خود اپنے الفاظ میں اقرار کریں گے، اور دسری نفی غالباً آپ سے مخفی ہوگی!
دوم کہ آپ نے یہ بڑی جسارت کی ہے کہ آپ اپنے الفاظ کو اللہ کریم کی وحی کے الفاظ قرار دے رہے ہیں!
اللہ تعالیـ کی وحی کے الفاظ میں اسے ''قانون'' نہیں کہا گیا!
اور میرا آپ سے اسی بابت اختلاف ہے، کہ اسے آپ نے قانون کیونکر قرار دیا؟

ابھی تک تو آپ کا مدعا تھا کہ یہ اللہ کا قانون ہے کہ اکثریت باطل ہوتی ہے، اور اب آپ کہتے ہیں کہ :

تو میرے بھائی یہ قانون کہاں رہا!
پھر حق و باطل کا پیمانہ اکثریت یا اقلیت کہاں رہا!
آپ نے اپنے پہلے مدعا کے برخلاف خود رقم فرمایا کہ :

میرے بھائی! جب آپ خود یہ کہتے ہو کہ ہمیشہ باطل نہیں ہوتی لیکن اکثر و بیشتر باطل ہوتی ہے، تو میرے بھائی! جب اکثر و بیشتر، بسا اوقات والا معاملہ آجائے، تو وہ قانون، کلیہ وقاعدہ نہیں ہوتا! فتدبر!
لہٰذا یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ کسی معاملہ میں اکثریت کے قائل ہونے سے وہ باطل ثابت نہیں ہوتی! ایسا کوئی قانون نہ قرآن کی ان آیات میں بیان ہوا ہے، جو پیش کی گئیں، اور نہ کسی اور آیت میں، اور نہ ہی کسی صحیح حدیث میں ایسا کوئی قانون بیان ہوا ہے!

اکثریت کا ہمیشہ حق ہونا بھی ثابت نہیں! اور نہ ہی پاکستان کی جمہورت میں یہ جائز ہے کہ قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون بنایا جائے!

میرے بھائی! دنیا میں ایک ہی جمہورت کا وجود نہیں! امریکہ کی جمہوریت، یورپ کی جمہوریت سے مختلف ہے، اور یورپ کے ممالک میں بھی الگ الگ جمہوری نظام ہیں، اور پاکستان کا جمہوری نظام الگ ہے!
پاکستان کے جمہوری نظام میں آپ کے بیان کردہ امور جائز نہیں!

جی! پاکستان کی قوانین میں اس کی بہت سی امثال ہیں، لیکن وہ تمام پاکستان کے دستور میں بیان کردہ جمہوری نظام کے خلاف ہیں! پاکستان کا جمہوری نظام کسی کفریہ قانون کو جائز قرار نہیں دیتا!

میں یہ بات سمجھنے سے قاصر ہوں!
میرے بھائی! جمہور فقہاء اور جمہور محدثین کا جب ایک مؤقف پر اتفاق ہے اور دوسروں کا مؤقف ان سے علیحد ہ ہے، تو آپ کے بیان کردہ ''قانون'' کے مطابق تو جمہور کا مؤقف باطل قرار پانا چاہئے!
اور اب جو آپ نے اپنے مؤقف میں ترمیم کی ہے اس ترمیم شدہ مؤقف کے مطابق بھی جمہور کا مؤقف اکثر و بیشتر باطل قرار پانا چاہئے! جبکہ ایسابھی نہیں!
میرے بھائی! میں نے جمہور کے مؤقف کی بات کی ہے، اور جب بات جمہور کی ہے، تو اس کے مقابلہ میں دیگر کا مؤقف بھی ہے لیکن وہ قلیل فقہاء و محدثین ہیں!

میرے بھائی! اب کیا پاکستان کے جمہوری نظام میں امریکہ و ہندوستانی، و پوری دنیا کے باسیوں کا بھی دخل ہے؟ نہیں بھائی! یہاں صرف پاکستانیوں کا معاملہ ہے! اس میں پاکستانیوں کی اکثریت کو دیکھا جائے گا!
دوم کہ نہ میرا یہ مؤقف ہے، اور نہ کبھی میں نے یہ بات کہی ہے کہ اقلیت ہمیشہ باطل ہوگی!
سوم کہ آپ نے جو آیت پیش کی تھی، اس میں ایمان لانے والوں کی اکثریت کا ذکر تھا!
چہارم کہ اس معاملہ میں میں نے آپ سے عرض کی تھی جس کا آپ نے جواب نہیں دیا! ایک بار پھر پیش کرتا ہوں:


جی میرے بھائی! نہ اکثریت ہمیشہ باطل ہوتی ہے اور نہ اقلیت ہمیشہ باطل!



ان میں سے کون سی بات یہ قاعدہ، قانون و کلیہ بتلاتی ہے کہااکثریت باطل ہوتی ہے؟

میرے بھائی!پاکستان کا جمہوری نظام عوام کی کثرت رائے سے حلال و حرام دینے کے لئے نہیں، بلکہ حکومت کرنے والوں کے انتخاب کا نام ہے، کہ وہ کسے معتبر و قابل اعتماد سمجھتے ہیں! اور یہ عوام خود قانون نہیں بناتی، قانون ان کے منتخب نمائندے بناتے ہیں!

قرآن سے اس کی دلیل درکار ہے!
یار دہے کہ جمہوری نظام کے ناجائز ہونے کی دلیل مطلوب ہے!

پاکستان کے جمہوری نظام میں دو افراد الیکش میں حصہ لینے کے لئے کسی کو نامزد کرتے ہیں!

یہ کون سا قاعدہ ہے کہ یہود ونصاری کا اختیار کردہ یا ایجاد کردہ ہر نظام باطل ہی ہے!
ویسے ایک بات بتلائیے گا یہ دینار کا نظام جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار کیا، وہ کس کا بنایا ہوا نظام تھا؟
محترم ابو داؤد بھائی -

چلیں تہمت کا معامله چھوڑیں -

آپ کی نالج کے لئے یہ بات عرض کردوں کہ کہ قیام پاکسان کے وقت قائد محمّد علی جناح نے اس ملک میں پارلیمانی نظام جمہوریت قائم کرنے بارے میں ہی تلقین تجاویز پیش کی تھیں- جس کی بنیاد پر ہی آج اس ملک میں پارلیمانی نظام جمہوریت قائم ہے- یہ سیاسی نظام چاہے کسی کافر ملک میں ہو یا نام نہاد مسلمان ملک میں ہو اس میں قانون کے نفاذ کا اختیار صرف پارلیمنٹ میں عوام کے منتخب نمائندوں کو حاصل ہوتا ہے- اور یہ نفاذ نمائندوں کے اکثریتی ووٹوں کی بنا پر بل پاس ہونے کی صورت میں کیا جاتا ہے - کوئی پارلیمانی نمائندہ از خود کھڑا ہو کر کوئی قانون نافذ نہیں کرسکتا چاہے وہ کوئی اسلامی قانون ہو یا کوئی ملکی قانون ہو یا کوئی شہری قانون ہو- از خود اس کا نفاذ ممکن نہیں جب تک کہ اکثریتی نمائندے اس بل کو پاس نہیں کرتے- اب صاف ظاہر ہے کہ خدائی اختیار کس کو حاصل ہوا ؟؟- ظاہر اکثریت کو-

جب کہ الله رب العزت کے نازل کردہ قوانین کسی اکثریتی ووٹوں کے مرہون منّت نہیں ہیں- ہر صورت میں ملک میں اسلامی قوانین کا نفاذ واجب العمل ہے- چاہے اکثریت بل پاس کرے یا نہ کرے-یہ ایسے ہی ہے کہ کوئی کہے کہ مسجد میں اس وقت تک اذان نہیں دی جائے گی جب تک کہ اکثریت نماز کے لئے گھر سے نہیں آے گی-

اَمْ لَهُمْ شُرَكٰۗؤُا شَرَعُوْا لَهُمْ مِّنَ الدِّيْنِ مَا لَمْ يَاْذَنْۢ بِهِ اللّٰهُ ۭ وَلَوْلَا كَلِمَةُ الْفَصْلِ لَـقُضِيَ بَيْنَهُمْ ۭ وَاِنَّ الظّٰلِمِيْنَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ -الشوریٰ۔آیت نمبر ٢١
کیا انہوں نے اپنے لیے (اللہ کے) کچھ ایسے شریکِ مقرر کر لیے ہیں جنہوں نے ان کے لیے دین کی نوعیت کا ایسا کچھ مقرر کر دیا ہے جس کا اللہ نے اِذن نہیں دیا؟ اگر فیصلے کی بات طے نہ ہو گئی ہوتی تو ان کا قضیہ چکا دیا گیا ہوتا۔ یقینا ان ظالموں کے لیے دردناک عذاب ہے۔

مذکورہ بالا آیت سے واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دین کی بجائے غیراللہ کا ایسا اصول قانون ونظامِ زندگی اختیار کرنا کہ جس کے لئے اللہ تعالیٰ کے دین سے دلیل نہ ملتی ہو اس غیراللہ کو اللہ کا شریک بنانا ہے اور یہ بات واضح ہے کہ نظام ِ جمہوریت غیراللہ کفار کا وضع کردہ نظامِ سیاست ہے کہ جس کے لئے اللہ تعالیٰ کے دین سے دلیل نہیں ملتی ہے۔

لہذا آپ کی یہ بات یہیں باطل ہو جاتی ہے کہ پاکستان کے جمہوری نظام میں اکثریت کو قرآن و سنت کے خلاف قانون بنانے کا حق نہیں دیا- اگر ایسا ہوتا تو قتل کی سزا سر قلم ، چوری کی سزا ہاتھ کاٹنا، شادی شدہ زانی کی سزا رجم ، فساد فی العرض کی سزا سولی وغیرہ کا ملک میں بہت پہلے نفاذ ہو چکا ہوتا- اس کے برعکس سودی نظام کے خلاف رٹ پاکستان کی پارلمنٹ میں کئی مرتبہ خارج کی گئی جو قرآن و احدیث نبوی کے صریح خلاف اور الله اور اس کے رسول سے جنگ کرنے کے مترادف ہے- اور یہ آن ریکارڈ ہے- اب جو تیرا کرشمہ ساز کرے-

آپ کا یہ کہنا کہ اکثریت کو قرآن و سنت کے خلاف قانون بنانے کا حق نہیں دیا- تو اس طرح تو نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم کے دور کے مشرک بھی کافر نہیں رہتے - وہ بھی الله کی ذات اور صفات کا انکار نہیں کرتے تھے- بس اتنا تھا کہ اپنے طاغوتوں کی عبادات سے بھی دست بردار نہیں ہوتے تھے (اس لئے کافر قرار پاے)- پارلیمانی نمائندے کہتے ہیں کہ ہم قرآن و سنت کے خلاف قانون بنانے کا حق میں نہیں (اگرچہ اندر کھاتے سب کچھ ہوتا ہے) - لیکن اسلامی قانون کا نفاذ بھی قبول نہیں- جس کی مثال اوپر دی جا چکی ہے کہ ٧٠ سال ہو گئے پاکستان کو بنے ہوے لیکن ایک بھی اسلامی قانون کا نفاذ ممکن نہ ہو سکا-

آپ کا کہنا کہ اکثریت فاسق ہوتی ہے الله کا قانون کس طرح ہو گیا- تو محترم بڑی سادہ سی بات ہے کہ الله کی نازل کرده وحی کا ایک ایک لفظ ہم مسلمانوں کے لئے قانون کی حیثیت رکھتا ہے اب جو مان لے سو مان لے جو انکار کردے سو انکار کردے-اب جب الله نے کہہ دیا کہ اکثریت فاسق ہوتی ہے تو اکثریت فاسق ہی ہو گی بلا شبہ- آپ کہتے کہ الله کی وحی میں اسے قانون نہیں کہا گیا - تو محترم قرآن میں بہت سی چیزوں کو حرام بھی نہیں کہا گیا- لیکن شریعت میں وہ حرام ہی مانی جاتی ہیں- جیسے موسیقی ، افیون ، چرس وغیرہ-

آپ کا کہنا ہے کہ" میرے بھائی یہ قانون کہاں رہا پھر حق و باطل کا پیمانہ اکثریت یا اقلیت کہاں رہا آپ نے اپنے پہلے مدعا کے برخلاف خود رقم فرمایا کہ - لیکن اکثریت اکثر و بیشتر باطل ہوتی ہے- لہٰذا یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ کسی معاملہ میں اکثریت کے قائل ہونے سے وہ باطل ثابت نہیں ہوتی! ایسا کوئی قانون نہ قرآن کی ان آیات میں بیان ہوا ہے، جو پیش کی گئیں، اور نہ کسی اور آیت میں، اور نہ ہی کسی صحیح حدیث میں ایسا کوئی قانون بیان ہوا ہے-

تو شاید آپ بھول رہے ہیں کہ احادیث نبوی کے مطابق ہر وہ عبادت یا وظیفہ جو بغیر کسی دلیل کے سر انجام دیا جائے وہ بدعت بن جاتا ہے- لہذا اکثریتی فیصلے کو ہمیشہ ہر وقت اپنانے سے وہ ایک بدعتی نا جائز عمل ہو گا- قرآن کریم میں الله رب العزت نے اپنے نبی سے یہ فرما دیا کہ :

وَإِنْ تُطِعْ أَكْثَرَ مَنْ فِي الْأَرْضِ يُضِلُّوكَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ ۚ إِنْ يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِنْ هُمْ إِلَّا يَخْرُصُونَ سوره الانعام ١١٦
اور (اے نبی) اگر آپ کہا مانیں گے اکثریت کی جو دنیا میں ہیں تو تجھے الله کی راہ سے ہٹا دیں گے- وہ تو اپنے خیال پر چلتے اور قیاس آرائیاں کرتے ہیں-

ورنہ کیا الله رب العزت نہیں جانتا کہ کبھی کبھار اکثریت کی راہے صحیح بھی ہو جاتی ہے-اللہ رب العزت کے فرمان کا اصل مطلب یہی کہ اکثریت اکثر و ببیشر باطل ہوتی ہے اس لئے اس کی پیروی گمراہی ہے- اس کے برعکس جمہوری نظام تو ایک دفعہ بھی اکثریتی فیصلے کے بغیر ایک قدم آگے نہیں چل سکتا -

پھر آپ خود فرما رہے ہیں (جس کی کوئی دلیل آپ نے نہیں دی ) کہ : پاکستان کے جمہوری نظام میں اکثریت کو قرآن و سنت کے خلاف قانون بنانے کا حق نہیں دیا.

تو کیا پاکستان میں اقلیت کو اس بات کا اختیار ہے کہ ملک میں قرآن و سنت کے خلاف قانون بنا سکے ؟؟.

آپ کا کہنا ہے کہ : جی! پاکستان کی قوانین میں اس کی بہت سی امثال ہیں، لیکن وہ تمام پاکستان کے دستور میں بیان کردہ جمہوری نظام کے خلاف ہیں! پاکستان کا جمہوری نظام کسی کفریہ قانون کو جائز قرار نہیں دیتا -

تو اس کو ثابت کون کرے گا کہ پاکستان کا جمہوری نظام عین اسلامی ہے ؟؟ میں تو پہلے ہی بیان کرچکا ہوں کہ پاکستان کا سیاسی نظام پارلیمانی نظام حکومت ہے جہاں صرف پارلمنٹ کی چلتی ہے (دوسرے لفظوں میں پارلمنٹ کی خدائی ہے) تو پھر یہ کہنا کہ "پاکستان کا جمہوری نظام کسی کفریہ قانون کو جائز قرار نہیں دیتا" انتہائی محمکہ خیز ہے-

پھر آپ فرماتے ہیں کہ : میرے بھائی!پاکستان کا جمہوری نظام عوام کی کثرت رائے سے حلال و حرام دینے کے لئے نہیں، بلکہ حکومت کرنے والوں کے انتخاب کا نام ہے، کہ وہ کسے معتبر و قابل اعتماد سمجھتے ہیں! اور یہ عوام خود قانون نہیں بناتی، قانون ان کے منتخب نمائندے بناتے ہیں

تو محترم آپ بتانا پسند کریں گے کہ عوام کے پاس وہ کیا پیمانہ ہے کہ وہ یہ جان سکیں کہ کون ہے جو حرام و حلال کی صحیح تمیز رکھتا ہے اور کون ہے جو اسلامی قوانین کے ملک میں نفاذ کی اہلیت رکھتا ہے جس کو اکثریتی ووٹوں سے اسمبلی میں بھیجا جائے؟؟ - کیا انصار و مہاجرین نے حضرت ابو بکر صدیق یا عمر فاروق رضی الله عنہ خلیفہ کو نامزد کرنے سے پہلے کوئی ووٹنگ کی تھی ؟؟- جب کہ انصار و مہاجرین ہم سے کہیں زیادہ حرام و حلال کے بارے میں جاننے والے تھے -

آپ ابو موسٰی رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث نبوی کو نظر انداز کر کے کہہ رہے ہیں کہ: پاکستان کے جمہوری نظام میں دو افراد الیکش میں حصہ لینے کے لئے کسی کو نامزد کرتے ہیں- تو محترم یہ پارٹی بازی نہ تو اور کیا ہے- قرآن تو کہتا تفرقہ میں نہ پڑو اور یہاں از خود پارٹی بازی کو اپنے اوپر لازم کیا جا رہا ہے -ہونا تو یہ چاہیے کہ اسلامی شوریٰ کے ارکان معاشرے کے معزز افراد کو چن کر ان کی اہلیت دیکھ کر نامزد کریں -اور جس پر شوریٰ متفق ہو اس کو حاکم نامزد کر دیا جائے اور پھر لوگوں سے حاکم کی بیعت لی جائے جو اسلامی طریقہ کار ہے- لیکن جمہوری نظام حکومت میں معامله بلکل الٹ ہے کہ جاہل اور نیم جاہل عوام کی تعداد یہ فیصلہ کرتی ہے کہ حاکم کون ہو گا یا کون سی پارٹی برسر اقتدار آے گی-

آپ کہتے ہیں کہ: کون سا قاعدہ ہے کہ یہود ونصاری کا اختیار کردہ یا ایجاد کردہ ہر نظام باطل ہی ہے!

تو اس کے سیدھا اور صاف جواب یہ کہ :

وَمَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُج وَھُوَفِی الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ آلِ عمران۔آیت نمبر ۸۵
جو کوئی اسلام کے سوا کوئی اور دین اختیار کرنا چاہے گا وہ اس سے ہر گز قبول نہ کیا جائے گا اور آخرت میں وہ ناکام و نامراد رہے گا۔

اور یہ بات جان لیں کہ نظام حکومت اور اس کے احکام اسلام میں ایک دین کی حیثیت رکھتے ہیں-

دینار کے نظام کا تعلق براہ راست دین سے نہیں ہے - اس لئے کسی بھی کا کرنسی کو اختیار کیا جا سکتا ہے -

الله ہمیں دین کی صحیح رہنمائی عطا فرماے (آمین)-
 
Last edited:
شمولیت
اپریل 16، 2015
پیغامات
57
ری ایکشن اسکور
17
پوائنٹ
57
جی ، بظاہر یہی لگتا ہے ۔ واللہ اعلم ۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ، میرا اصل اس سوال کرنے کی وجھ شیخ عبداللہ ناصر رحمانی کی ایک کلپ ہے جس میں کال پر کوئی ان سے پوچھتا ہے اسی مسئلہ ک بارے میں، تو وہ کہتے ہیں کہ حکمرانوں کی اطاعت صرف اس لیئے ہی کرنی ہے کہ فتنہ برپا نہ ہو۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
چلیں تہمت کا معامله چھوڑیں -
ٹھیک ہے!
آپ کی نالج کے لئے یہ بات عرض کردوں کہ کہ قیام پاکسان کے وقت قائد محمّد علی جناح نے اس ملک میں پارلیمانی نظام جمہوریت قائم کرنے بارے میں ہی تلقین تجاویز پیش کی تھیں- جس کی بنیاد پر ہی آج اس ملک میں پارلیمانی نظام جمہوریت قائم ہے- یہ سیاسی نظام چاہے کسی کافر ملک میں ہو یا نام نہاد مسلمان ملک میں ہو اس میں قانون کے نفاذ کا اختیار صرف پارلیمنٹ میں عوام کے منتخب نمائندوں کو حاصل ہوتا ہے- اور یہ نفاذ نمائندوں کے اکثریتی ووٹوں کی بنا پر بل پاس ہونے کی صورت میں کیا جاتا ہے - کوئی پارلیمانی نمائندہ از خود کھڑا ہو کر کوئی قانون نافذ نہیں کرسکتا چاہے وہ کوئی اسلامی قانون ہو یا کوئی ملکی قانون ہو یا کوئی شہری قانون ہو- از خود اس کا نفاذ ممکن نہیں جب تک کہ اکثریتی نمائندے اس بل کو پاس نہیں کرتے- اب صاف ظاہر ہے کہ خدائی اختیار کس کو حاصل ہوا ؟؟- ظاہر اکثریت کو-
میرے بھائی! کسی بھی نظام کے تحت مملکت میں نفاظ قانون کسی کے حکم سے ہی ہوگا، کسی بھی نظام میں اذ خود نفاذ قانون نہیں ہو سکتا! یعنی کہ پارلیمانی جمہورت میں پارلیمنٹ سے منظوری سے ہو گا، تو بادشاہت میں بادشاہ کے حکم سے ہوگا! اور اگر یہ بھی کہا جائے کہ خلافت میں بھی خلیفہ کے حکم سے ہو گا!
اور ''شوری'' کے نظام کے تحت بھی کسی شوری کے ممبر کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ خود کھڑا ہو کر کوئی قانون نافظ کر سکے!
لہٰذا اگر اس بنیاد پر پارلیمنٹ کی اکثریت کو خدائی اختیار کے طعن کی سزاوار ہے، تو پھر اس طعن کے سزوار بادشاہ و خلیفہ بھی قرار پائیں گے! اور نہ ہی شوری کا نظام اس طعن سے بچ سکتا ہے!
مزید کہ محمد علی جناح المعروف قائد اعظم کے اقوال کی پاکستان کے جمہوری نظام میں کوئی قانونی و آئینی حثیت نہیں ہے، پاکستان کے جمہوری نظام میں محمد علی جناح کے اقوال کے خلاف قانون سازی کرنے پر کوئی پابندی نہیں!
جب کہ الله رب العزت کے نازل کردہ قوانین کسی اکثریتی ووٹوں کے مرہون منّت نہیں ہیں- ہر صورت میں ملک میں اسلامی قوانین کا نفاذ واجب العمل ہے- چاہے اکثریت بل پاس کرے یا نہ کرے-یہ ایسے ہی ہے کہ کوئی کہے کہ مسجد میں اس وقت تک اذان نہیں دی جائے گی جب تک کہ اکثریت نماز کے لئے گھر سے نہیں آے گی-
اللہ رب العزت کے نازل کردہ قوانین نہ اکثریتی ووتوں کے مرہون منت ہیں، اور نہ ہی کسی خلیفہ کے مرہون منت ہیں! اور ان قوانین کا نفاظ بے شک واجب العمل ہے، اور یہ ان پر واجب ہے جنہیں ان قانون کے نفاذ کا مکلف ٹھہرا یا گیا ہے۔ مثلاً حدود کے قوانین کے نفاذ کی ذمہ داری حاکم پر ہے، کوئی اور اٹھ کر اس کا نفاذ نہیں کرسکتا!
آپ کی مثال کا اس مسئلہ سے تعلق تو مجھے سمجھ نہیں آیا کیونکہ آپ کی مثال میں فیصلہ اکثریت نہیں کر رہی، بلکہ اکثریت کے فائدہ کا خیال کیا جا رہا ہےکہ زیادہ سے زیادہ لوگ جماعت پا سکیں!
یہ ''کوئ'' صرف کہہ سکتا ہے اسے کرنے کا اختیار نہیں! لیکن اگر مسجد کی انتظامیہ لوگوں کی آسانی کے و حالات کے تحت ایسا کوئی معاملہ طے کرتے ہیں کہ زیاد سے زیادہ لوگ جماعت کو پا سکیں، تو اس میں کوئی قباحت نہیں!
اور ایسا ہوتا ہے بھی بھی ہے، خاص کر فیکٹری ایریا میں! کہ ایک مسجد میں نماز کا وقت کچھ اور ہوتا ہے، اور دوسری جگہ کچھ اور، تا کہ فیکٹری میں کام کرنے والے جو پہلی مسجد کی جماعت نا پاسکیں وہ دوسری مسجد کی جماعت پا لیں!
بلکہ ایک ہی فیکٹری میں جماعت کے اوقات اس طرح بھی رکھے جاتے ہیں کہ کھانے کے وقفہ کے ملازمین جماعت کو بھی پا لیں!
اَمْ لَهُمْ شُرَكٰۗؤُا شَرَعُوْا لَهُمْ مِّنَ الدِّيْنِ مَا لَمْ يَاْذَنْۢ بِهِ اللّٰهُ ۭ وَلَوْلَا كَلِمَةُ الْفَصْلِ لَـقُضِيَ بَيْنَهُمْ ۭ وَاِنَّ الظّٰلِمِيْنَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ -الشوریٰ۔آیت نمبر ٢١
کیا انہوں نے اپنے لیے (اللہ کے) کچھ ایسے شریکِ مقرر کر لیے ہیں جنہوں نے ان کے لیے دین کی نوعیت کا ایسا کچھ مقرر کر دیا ہے جس کا اللہ نے اِذن نہیں دیا؟ اگر فیصلے کی بات طے نہ ہو گئی ہوتی تو ان کا قضیہ چکا دیا گیا ہوتا۔ یقینا ان ظالموں کے لیے دردناک عذاب ہے۔

مذکورہ بالا آیت سے واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دین کی بجائے غیراللہ کا ایسا اصول قانون ونظامِ زندگی اختیار کرنا کہ جس کے لئے اللہ تعالیٰ کے دین سے دلیل نہ ملتی ہو اس غیراللہ کو اللہ کا شریک بنانا ہے اور یہ بات واضح ہے کہ نظام ِ جمہوریت غیراللہ کفار کا وضع کردہ نظامِ سیاست ہے کہ جس کے لئے اللہ تعالیٰ کے دین سے دلیل نہیں ملتی ہے۔
اس آیت میں میں جیسا کہ کہ آپ نے بھی ترجمہ میں نقل کیا ہے کہ ''دین کی نوعیت کا '' کچھ مقرر کیا!
تو میرے بھائی! پاکستان کی جمہوریت میں پارلیمنٹ کو دین کے ان امور میں کچھ مقرر کرنے کا اختیار نہیں!
اور آگے آپ خود اس اس بات کا اعتراف کریں گے کہ اس کا تعلق امور مملکت سے نہیں بلکہ کسی اور سے ہے!
خیر میں یہیں اس کی تھوڑی تفصیل بیان کر دیتا ہوں کہ:
امور دو طرح کے ہوتے ہیں؛
01: امور عبادات
02: امور معاملات
امور عبادات میں تمام عبادات حرام ہیں سوائے ان کے جس کا اثبات قرآن و حدیث سے ہو!
امور معاملات میں تمام معاملات حلال ہیں سوائے ان کے جس کی نکیر قرآن و حدیث سے ثابت ہے!
لہٰذا امور معاملات میں ہر وہ قانون اور قانون سازی درست ہے جس کی نکیر قرآن و حدیث میں نہ ہو!
اور مذکورہ آیت کا تعلق امور عبادات ہے نہ کہ امور معاملات!
لہذا آپ کی یہ بات یہیں باطل ہو جاتی ہے کہ پاکستان کے جمہوری نظام میں اکثریت کو قرآن و سنت کے خلاف قانون بنانے کا حق نہیں دیا- اگر ایسا ہوتا تو قتل کی سزا سر قلم ، چوری کی سزا ہاتھ کاٹنا، شادی شدہ زانی کی سزا رجم ، فساد فی العرض کی سزا سولی وغیرہ کا ملک میں بہت پہلے نفاذ ہو چکا ہوتا- اس کے برعکس سودی نظام کے خلاف رٹ پاکستان کی پارلمنٹ میں کئی مرتبہ خارج کی گئی جو قرآن و احدیث نبوی کے صریح خلاف اور الله اور اس کے رسول سے جنگ کرنے کے مترادف ہے- اور یہ آن ریکارڈ ہے- اب جو تیرا کرشمہ ساز کرے-
میرے بھائی! پاکستان کے جمہوری نظام میں آئین کی بنیاد اس پر رکھی ہے کہ قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون نہیں ہوگا! اور آپ نجانے کس بنیاد پر میری اس بات کو باطل قرار دے رہے ہیں!
آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان میں اس جمہوری نظام پر عمل نہیں ہو رہا! تو اس کا وبال اس جمہوری نظام پر نہ ہوگا بلکہ اس پر عمل نہ ہونا قبیح قرار پائے گا!
آپ کا یہ کہنا کہ اکثریت کو قرآن و سنت کے خلاف قانون بنانے کا حق نہیں دیا- تو اس طرح تو نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم کے دور کے مشرک بھی کافر نہیں رہتے - وہ بھی الله کی ذات اور صفات کا انکار نہیں کرتے تھے- بس اتنا تھا کہ اپنے طاغوتوں کی عبادات سے بھی دست بردار نہیں ہوتے تھے (اس لئے کافر قرار پاے)- پارلیمانی نمائندے کہتے ہیں کہ ہم قرآن و سنت کے خلاف قانون بنانے کا حق میں نہیں (اگرچہ اندر کھاتے سب کچھ ہوتا ہے) - لیکن اسلامی قانون کا نفاذ بھی قبول نہیں- جس کی مثال اوپر دی جا چکی ہے کہ ٧٠ سال ہو گئے پاکستان کو بنے ہوے لیکن ایک بھی اسلامی قانون کا نفاذ ممکن نہ ہو سکا-
اسلامی قانون کے نفاذ کو قبول کرنے سے کس نے انکار کیا ہے؟ اس کا انکار بمع ثبوت پیش کیجئے!
وگرنہ یہ الزام و تہمت کا معاملہ دوبارہ شروع ہو جائے گا! (ابتسامہ)
آپ کا کہنا کہ اکثریت فاسق ہوتی ہے الله کا قانون کس طرح ہو گیا- تو محترم بڑی سادہ سی بات ہے کہ الله کی نازل کرده وحی کا ایک ایک لفظ ہم مسلمانوں کے لئے قانون کی حیثیت رکھتا ہے اب جو مان لے سو مان لے جو انکار کردے سو انکار کردے-
محمد علی جواد بھائی! یا تو آپ کو ''قانون'' کا معنی و مفہوم نہیں معلوم یا پھر آپ کو اصول تفسیر و فقہ کا علم نہیں!
یہ بات کہنے میں تو بہت دلکش لگتی ہے کہ اللہ کی نازل کردہ وحی کا ایک ایک لفظ ہم مسلمانوں کے لئے قانون کی حیثیت رکھتا ہے، اب جو مان لے سو مان لے جو انکار کردے سو انکار کردے۔
مگر حقیقت میں یہ دلکش نہیں دلفریب ہے!
اب کل کو کوئی منچلا بلکہ کوئی منچلی عورت آکر کہے کہ اس کی گود میں جو بچہ ہے وہ اس کی ماں ہے اور اس کا کوئی باپ نہیں، بلکہ وہ بغیر کسی مرد کے چھوئے حاملہ ہوئی اور اس نے اس بچہ کو جنم دیا۔
اور دلیل میں کہے دیکھو دیکھو! قرآن میں عورت کا بغیر مرد کے چھوئے حاملہ ہونا موجود ہے، اور اللہ کی نازل کردہ وحی کا ایک ایک لفظ ہم مسلمانوں کے لئے قانون کی حثیت رکھتا ہے، اب جو مان لے سو مان لے جو انکار کردے سو انکار کردے۔
میرے بھائی! اس طرح کی باتوں سے دلائل قائم نہیں ہوتے!
اب جب الله نے کہہ دیا کہ اکثریت فاسق ہوتی ہے تو اکثریت فاسق ہی ہو گی بلا شبہ-
میرے بھائی! ابھی پچھلے مراسلہ میں آپ نے خود اس کی نفی کی تھی، کہ اکثریت ہمیشہ فاسق نہیں ہتی، لیکن اکثر وبیشتر فاسق ہوتی ہے!
اور اب آپ پھر کہتے ہیں کہ اکثریت فاسق ہی ہو گی بلاشبہ!
آپ کے الفاظ پیش کرتا ہوں:
بات صرف اتنی ہے کہ "اکثریت" ہمیشہ باطل نہیں ہوتی لیکن اکثر و بیشتر باطل ہوتی ہے-
اب پہلے یہ فیصلہ کر لیں کہ آپ کس بات کے قائل ہیں!
آپ کہتے کہ الله کی وحی میں اسے قانون نہیں کہا گیا - تو محترم قرآن میں بہت سی چیزوں کو حرام بھی نہیں کہا گیا- لیکن شریعت میں وہ حرام ہی مانی جاتی ہیں- جیسے موسیقی ، افیون ، چرس وغیرہ-
محمد علی جواد بھائی! میرا مدعا ''قانون'' کے لفظ کا ہونا نہ ہونا نہیں! میرا مدعا یہ ہے کہ اسے قانون نہیں قرار دیا گیا ہے کہ اکثریت باطل ہوتی ہے!
اور آپ نے جو امثال پیش کی ہیں، تو ''حرام'' کا لفظ ہو نا ہو، حرمت کا بیان موجود ہے! جس طرح ان کےحرام ہونے سے متعلق قرآن و سنت میں دلائل ہیں، آپ اسی طرح اکثریت کے باطل ہونے کے قانون کے متعلق دلائل پیش کر دیں! اگر مل سکیں تو!
یہ بات میں پیشگی بتلا دیتا ہوں کہ ایسی کوئی دلیل قرآن و سنت میں نہیں جس سے یہ قانون ثابت کیا جاسکے کہ اکثریت باطل ہوتی ہے!
آپ کا کہنا ہے کہ" میرے بھائی یہ قانون کہاں رہا پھر حق و باطل کا پیمانہ اکثریت یا اقلیت کہاں رہا آپ نے اپنے پہلے مدعا کے برخلاف خود رقم فرمایا کہ - لیکن اکثریت اکثر و بیشتر باطل ہوتی ہے- لہٰذا یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ کسی معاملہ میں اکثریت کے قائل ہونے سے وہ باطل ثابت نہیں ہوتی! ایسا کوئی قانون نہ قرآن کی ان آیات میں بیان ہوا ہے، جو پیش کی گئیں، اور نہ کسی اور آیت میں، اور نہ ہی کسی صحیح حدیث میں ایسا کوئی قانون بیان ہوا ہے-

تو شاید آپ بھول رہے ہیں کہ احادیث نبوی کے مطابق ہر وہ عبادت یا وظیفہ جو بغیر کسی دلیل کے سر انجام دیا جائے وہ بدعت بن جاتا ہے- لہذا اکثریتی فیصلے کو ہمیشہ ہر وقت اپنانے سے وہ ایک بدعتی نا جائز عمل ہو گا-
آپ کا خود ہمیشہ کی نفی کر کے اکثر وبیشتر کہنا اس کے قانون ہونے کی نفی ہے! یہاں بھول مجھے لاحق نہیں!
میرے بھائی! اول تو یہ امور عبادات کے متعلق ہے امور معاملات کے نہیں!
دوم کہ پاکستان کا جمہوری نظام اکثریت کے فیصلہ کو ہمیشہ ہر وقت اپنانے کا پاپند بھی نہیں!
قرآن کریم میں الله رب العزت نے اپنے نبی سے یہ فرما دیا کہ :

وَإِنْ تُطِعْ أَكْثَرَ مَنْ فِي الْأَرْضِ يُضِلُّوكَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ ۚ إِنْ يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِنْ هُمْ إِلَّا يَخْرُصُونَ سوره الانعام ١١٦
اور (اے نبی) اگر آپ کہا مانیں گے اکثریت کی جو دنیا میں ہیں تو تجھے الله کی راہ سے ہٹا دیں گے- وہ تو اپنے خیال پر چلتے اور قیاس آرائیاں کرتے ہیں-
اول کہ یہاں مسلمانوں کی اکثریت کا ذکر نہیں ، بلکہ دنیا میں موجود لوگوں کی اکثریت کا ذکر ہے!
دوم کہ یہ اس وقت کے حوالہ سے ہے جب یہ آیت نازل ہوئی!
سوم کہ اس دنیا پر ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب دنیا پر مسلمانوں کی نہ صرف اکثریت ہو گی بلکہ دنیا میں صرف مسلمان ہی ہوں گے!
ورنہ کیا الله رب العزت نہیں جانتا کہ کبھی کبھار اکثریت کی راہے صحیح بھی ہو جاتی ہے-اللہ رب العزت کے فرمان کا اصل مطلب یہی کہ اکثریت اکثر و ببیشر باطل ہوتی ہے اس لئے اس کی پیروی گمراہی ہے- اس کے برعکس جمہوری نظام تو ایک دفعہ بھی اکثریتی فیصلے کے بغیر ایک قدم آگے نہیں چل سکتا -
میرے بھائی! میرا اعتراض اللہ تعالیٰ کے فرمان پر نہیں، میرا اعتراض آپ کا اسے قانون کہنے پر ہے! اور آپ کبھی قانون کہتے ہو، کبھی کہتے یو اکثر وبیشتر، آپ ایک مؤقف اختیار کریں!
آپ کا یہ کہنا کہ جمہوری نظام تو ایک دفعہ بھی اکثریتی فیصلے کے بغیر ایک قدم آگے نہیں چل سکتا، پاکستان کے جمہوری نظام کے متعلق درست نہیں! پاکستان میں صدر اور وزیر اعظم کے صویبدیدی اختیارات بھی ہیں، کبھی دیکھئے گا کہ آرڈنینس کیا ہوتا ہے ، اور عدالتی حکم کا کیا معاملہ ہے!

پھر آپ خود فرما رہے ہیں (جس کی کوئی دلیل آپ نے نہیں دی ) کہ : پاکستان کے جمہوری نظام میں اکثریت کو قرآن و سنت کے خلاف قانون بنانے کا حق نہیں دیا.

تو کیا پاکستان میں اقلیت کو اس بات کا اختیار ہے کہ ملک میں قرآن و سنت کے خلاف قانون بنا سکے ؟؟.
اس کی دلیل پا کستان کا آئین ہے، اور آئین مین موجود یہ بات سب سے قبل قراداد مقاصد رقم کی گئی تھی! جسے ریاست پاکستان کے آئین کی بنیاد بنایا گیا ہے!
آپ کے جمہوریت اور پاکستان کی حکومت کے حوالہ سے ذوق و شوق کے مدنظر میں نے سمجھا تھا کہ آپ نے پاکستان کا آئین پڑھا ہوگا!
خیر میں حوالہ بھی پیش کر دیتا ہوں:


CONSTITUTION OF PAKISTAN کےPreamble، Introductory اور Objectives Resolution کا بالخصوص مطالعہ فرمائیں:
ان کے یونیکوڈ لنک :
Preamble
Introductory
The Objectives Resolution


جی نہیں جناب ! پاکستان کی جمہوری نظام میں نہ اکثریت کو یہ اختیار ہے اور نہ اقلیت کو ، کسی کو یہ اختیار نہیں کہ قرآن وسنت کے خلاف کوئی قانون بنائے!
آپ کا کہنا ہے کہ : جی! پاکستان کی قوانین میں اس کی بہت سی امثال ہیں، لیکن وہ تمام پاکستان کے دستور میں بیان کردہ جمہوری نظام کے خلاف ہیں! پاکستان کا جمہوری نظام کسی کفریہ قانون کو جائز قرار نہیں دیتا -

تو اس کو ثابت کون کرے گا کہ پاکستان کا جمہوری نظام عین اسلامی ہے ؟؟ میں تو پہلے ہی بیان کرچکا ہوں کہ پاکستان کا سیاسی نظام پارلیمانی نظام حکومت ہے جہاں صرف پارلمنٹ کی چلتی ہے (دوسرے لفظوں میں پارلمنٹ کی خدائی ہے) تو پھر یہ کہنا کہ "پاکستان کا جمہوری نظام کسی کفریہ قانون کو جائز قرار نہیں دیتا" انتہائی محمکہ خیز ہے-
ثابت تو عدالت میں ہی ہوگا! مناظرہ میں تو ہر کوئی صرف اپنے لئے فیصلہ کرسکتا ہے ، لیکن نافذ العمل فیصلہ عدالت کا ہی ہوگا!
اس بات کو کہ پاکستانی کا جمہوری نظام کسی کفریہ قانون کو جائز قرار نہیں دیتا، آپ کا مضحکہ خیز کہنا درست نہیں، کیونکہ یہ تو ایک حقیقت ہے، ہاں یہ بات اور ہے کہ پاکستان میں اس جمہوری نظام پر عمل کے بجائے اس کا مذاق اڑایا گیا ہے!
لہٰذا اس کا وبال پاکستان کے جمہوری نظام کے سر نہیں، بلکہ اس پر عمل نہ ہونے کے سر ہے!
پھر آپ فرماتے ہیں کہ : میرے بھائی!پاکستان کا جمہوری نظام عوام کی کثرت رائے سے حلال و حرام دینے کے لئے نہیں، بلکہ حکومت کرنے والوں کے انتخاب کا نام ہے، کہ وہ کسے معتبر و قابل اعتماد سمجھتے ہیں! اور یہ عوام خود قانون نہیں بناتی، قانون ان کے منتخب نمائندے بناتے ہیں

تو محترم آپ بتانا پسند کریں گے کہ عوام کے پاس وہ کیا پیمانہ ہے کہ وہ یہ جان سکیں کہ کون ہے جو حرام و حلال کی صحیح تمیز رکھتا ہے اور کون ہے جو اسلامی قوانین کے ملک میں نفاذ کی اہلیت رکھتا ہے جس کو اکثریتی ووٹوں سے اسمبلی میں بھیجا جائے؟؟ - کیا انصار و مہاجرین نے حضرت ابو بکر صدیق یا عمر فاروق رضی الله عنہ خلیفہ کو نامزد کرنے سے پہلے کوئی ووٹنگ کی تھی ؟؟- جب کہ انصار و مہاجرین ہم سے کہیں زیادہ حرام و حلال کے بارے میں جاننے والے تھے -
آپ نے پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کا نام تو سنا ہی ہوگا، اس کا مطالعہ فرمائیں!
آپ نے سوال کیا ہے کہ انصار و مہاجرین نے ابو بکر صدیق یا عمر فاروق رضی اللہ کو خلیفہ نامزد کرنے سے پہلے کوئی ووٹنگ کی تھی؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ نہیں!
لیکن اس سے ووٹنگ کا حرام ہونا مستدل نہیں ہوتا، کیونکہ امور معاملات میں حرام صرف وہی ہے جس کی ممانعت قران و حدیث میں وارد ہوئی ہو!
اب کوئی منچلا یہ کہہ دے کہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عمر بن خطاب رضی اللہ کو نامزد کیوں کردیا؟ کیا نبی صلی اللہ علیہ نئ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو نامزد کیا تھا، لہٰذا وہ منچلا کسی کو خلیفہ نامزد کرنے کو حرام کہہ دے!
اور پھر وہی یا کوئی اور منچلا کہہ دے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ نے 6 لوگوں میں سے کسی ایک کو خلیفہ منتخب کرنے کا کیوں کہا؟ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ایسا کیا تھا؟ پھر وہ منچلا اسے بھی حرام قرار دے دے!
تو میرے بھائی! معاملات میں کسی امر کا نہ ہونا اس کے حرام کی دلیل نہیں! بلکہ اس کی حرمت کی دلیل قرآن و حدیث سے درکار ہوتی ہے! فتدبر!
بیشک صحابہ کرام رضی اللہ عنہ حلال و حرام کو جاننے والے تھے، اس لئے انہوں نے امور مملکت میں خلیفہ کے انتخاب کے لئے قرآن و حدیث میں بیان کردہ طریقہ کا مطالبہ نہیں کیا، کیونکہ اموم معاملات میں یہ مطلوب نہیں! بلکہ وہ طریقہ ممنوع ہے جس کی نکیر قرآن و حدیث میں وارد ہوئی ہو!
آپ ابو موسٰی رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث نبوی کو نظر انداز کر کے کہہ رہے ہیں کہ: پاکستان کے جمہوری نظام میں دو افراد الیکش میں حصہ لینے کے لئے کسی کو نامزد کرتے ہیں- تو محترم یہ پارٹی بازی نہ تو اور کیا ہے-
نہیں میرے بھائی! میں نے ابو موسی رضی اللہ عنہ کی مروی آپ کی پیش کردہ حدیث کا نظر انداز نہیں کیا، بلکہ آپ کو یہ بتلایا ہے کہ پاکستان کے جمہوری نظام پر اس کا اطلاق درست نہیں، کیونکہ پاکستان کے جمہوری نظام میں دو افراد کسی شخص کو الیکشن میں حصہ لینے لے لئے نامزد کرتے ہیں! انفرادی طور پر اگر کوئی اقتدار و عہدہ کی حرص کا شکار ہو تو اس کا وبال اس کے سر نہ کہ پاکستان کے جمہوری نظام کے!
آپ کو غالباً نامزد کرنے کا معاملہ نہیں معلوم، یوں سمجھئے کہ دو افراد کسی شخص کو نامزد کرتے ہیں کہ یہ شخص اس عہدہ کے لئے لائق ہے! اس میں نامزدگی میں تفرقہ والی کیا بات ہے؟
ہونا تو یہ چاہیے کہ اسلامی شوریٰ کے ارکان معاشرے کے معزز افراد کو چن کر ان کی اہلیت دیکھ کر نامزد کریں -اور جس پر شوریٰ متفق ہو اس کو حاکم نامزد کر دیا جائے اور پھر لوگوں سے حاکم کی بیعت لی جائے جو اسلامی طریقہ کار ہے- لیکن جمہوری نظام حکومت میں معامله بلکل الٹ ہے کہ جاہل اور نیم جاہل عوام کی تعداد یہ فیصلہ کرتی ہے کہ حاکم کون ہو گا یا کون سی پارٹی برسر اقتدار آے گی-
میرے بھائی! اسلامی شوری کے ارکان کہاں سے نازل ہوں گے؟
پاکستان کے جمہوری نظام میں پارلیمنٹ ہی مجلس شوری کے مقام پر ہے، بلکہ اسے مجلس شوری قرار دیا گیا ہے! اور ملک کے جاہل و نیم جاہل عوام اس مجلس شوری کے ارکان کا انتخاب کرتی ہے ، اور یہ منتخب ارکان اپنے میں سے حاکم کا انتخاب کرتے ہیں!
رہی بات کہ جاہل و نیم جاہل عوام سے قرآن و حدیث کی تفسیر و شرح نہیں کروائی جا رہی، اور نہ ہی کسی فقہی مسئلہ کا حل طلب کیا جارہا ہے، بلکہ انہیں اپنے معاملات کے حل کے لئے کسی نمائندے کے انتخاب کا اختیار دیا دیا گیا ہے! اور جاہل اور نیم جاہل عوام بھی اپنے معاملات کے بارے یہ اختیار رکھتے ہیں!
وگرنہ کل کو کوئی منچلا آکر کہہ دے گا کہ جاہل اور نیم جاہل عوام کو یہ اختیار نہیں کہ وہ اپنے انتخاب سے کسی کے ساتھ نکاح کریں، بلکہ علمائے کرام یہ فیصلہ کریں گے کہ ان جاہل و نیم جاہل عوام میں کس کی شادی کس سے ہوگی! فتدبر!
اور ایک بات بتلائیے! ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا انتخاب کس مجلس شوری نے کیا تھا؟ اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کاانتخاب کس مجلس شوری نے کیا تھا؟
آپ کے الفاظ تو یہاں نہیں! مگر آپ شاید انتخاب حاکم میں صرف اسی کو اسلامی طریقہ سمجھتے ہیں! کہ شوری یہ انتخاب کرے گی!
بہر حال ایک بار پھر عرض کردوں کہ امور مملکت کا تعلق امور معاملات سے سے ہے، اس میں کوئی ایک طریقہ مخصوص ہی حال نہیں، بلکہ ہر طریقہ جائز ہے سوائے اس کے کہ جس کی نکیر قرآن و سنت میں وارد ہو!
آپ کہتے ہیں کہ: کون سا قاعدہ ہے کہ یہود ونصاری کا اختیار کردہ یا ایجاد کردہ ہر نظام باطل ہی ہے!

تو اس کے سیدھا اور صاف جواب یہ کہ :

وَمَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُج وَھُوَفِی الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ آلِ عمران۔آیت نمبر ۸۵
جو کوئی اسلام کے سوا کوئی اور دین اختیار کرنا چاہے گا وہ اس سے ہر گز قبول نہ کیا جائے گا اور آخرت میں وہ ناکام و نامراد رہے گا۔

اور یہ بات جان لیں کہ نظام حکومت اور اس کے احکام اسلام میں ایک دین کی حیثیت رکھتے ہیں-
میرے بھائی! یہاں دین کے لئے کہا گیا ہے، امور معاملات کے متعلق نہیں! اور اس سے متصل آپ خود اپنے اس مؤقف کی نفی کریں گے!
دینار کے نظام کا تعلق براہ راست دین سے نہیں ہے - اس لئے کسی بھی کا کرنسی کو اختیار کیا جا سکتا ہے -
جی یہ آپ نے درست فرمایا! کہ کرنسی کا تعلق امور عبادات سے نہیں بلکہ امور معاملات سے ہے! اور یہاں آپ نے اس بات کو تسلیم کیا کہ یہود نصاری کا بنایا ہوا ہر ہر نظام باطل نہیں! ایسا کوئی قاعدہ نہیں! لیکن اس متصل اوپر ہی آپ نے قرآن کی آیت پیش کرکے اس کی نفی بھی کی ہے! آپ کی باتوں میں تضاد ہے!
اب ایک اہم نکتہ:
اور یہ بات جان لیں کہ نظام حکومت اور اس کے احکام اسلام میں ایک دین کی حیثیت رکھتے ہیں-
آپ کے اس مؤقف کی دلیل؟
چلیں آپ تو جب دلیل دیں گے تب دیکھیں گے کہ وہ دلیل بنتی بھی ہے یا نہیں!
میں اس کے برخلاف پر دلیل پیش کیئے دیتا ہوں کہ امور مملکت کا معاملہ امور عبادات سے نہیں بلکہ امور معاملات سے ہے:

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ سَمِعْتُ الْقَاسِمَ بْنَ مُحَمَّدٍ قَالَ قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا وَارَأْسَاهْ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاكِ لَوْ كَانَ وَأَنَا حَيٌّ فَأَسْتَغْفِرُ لَكِ وَأَدْعُو لَكِ فَقَالَتْ عَائِشَةُ وَا ثُكْلِيَاهْ وَاللَّهِ إِنِّي لَأَظُنُّكَ تُحِبُّ مَوْتِي وَلَوْ كَانَ ذَاكَ لَظَلَلْتَ آخِرَ يَوْمِكَ مُعَرِّسًا بِبَعْضِ أَزْوَاجِكَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَلْ أَنَا وَارَأْسَاهْ لَقَدْ هَمَمْتُ أَوْ أَرَدْتُ أَنْ أُرْسِلَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ وَابْنِهِ فَأَعْهَدَ أَنْ يَقُولَ الْقَائِلُونَ أَوْ يَتَمَنَّى الْمُتَمَنُّونَ ثُمَّ قُلْتُ يَأْبَى اللَّهُ وَيَدْفَعُ الْمُؤْمِنُونَ أَوْ يَدْفَعُ اللَّهُ وَيَأْبَى الْمُؤْمِنُونَ
ہم سے یحییٰ بن یحییٰ نے بیان کیا‘ کہا ہم کو سلیمان بن بلال نے خبر دی ‘ انہیں یحییٰ بن سعید نے ‘ کہامیں نے قاسم بن محمد سے سنا کہ عائشہ رضی اللہ عنہ نے کہا ( اپنے سردرد پر ) ہائے سر پھٹا جاتا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘ اگر تم مر جاؤ اور میں زندہ رہا تو میں تمہارے لیے مغفرت کروںگا اور تمہارے لیے دعا کروں گا ۔ عائشہ رضی اللہ عنہ نے اس پر کہا افسوس میرا خیال ہے کہ آپ میری موت چاہتے ہیں اور اگر ایسا ہو گیا تو آپ دن کے آخری وقت ضرور کسی دوسری عورت سے شادی کرلیں گے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو نہیں بلکہ میں اپنا سر دکھنے کا اظہار کرتا ہوں ۔ میرا ارادہ ہوا تھا کہ ابو بکر اور انکے بیٹے کو بلا بھیجوں اور انہیں ( ابو بکر کو ) خلیفہ بنا دوں تا کہ اس پر کسی دعویٰ کرنے والے یا اسکی خواہش رکھنے والے کے لئے کوئی گنجائش نہ رہے لیکن پھر میں نے سوچا کہ اللہ خود ( کسی دوسرے کو خلیفہ ) نہیں ہونے دے گا اور مسلمان بھی اسے دفع کریں گے ۔ یا ( آپ نے اس طرح فرمایا کہ ) اللہ دفع کرے گا اور مسلمان کسی اور کو خلیفہ نہ ہونے دیں گے ۔
صحيح البخاري» كِتَابُ الأَحْكَامِ» بَابُ الِاسْتِخْلاَفِ
اس حدیث میں واضح دلیل ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ پیشنگوئی ضرور فرمائی کہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی نبی صلہ اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد خلیفہ مقرر ہوں گے، لیکن اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خلیفہ کے انتخاب کا کوئی طریقہ مقرر نہیں فرمایا، بلکہ یہ مسلمانوں، مومنوں کی صوابدید پر چھوڑا ہے، کہ وہ کسی طرح کریں، بہر حال وہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے علاوہ کسی اور کو خلیفہ نہیں ہونے دیں گے!
اور نہ ہی اس حدیث میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ابو بکر صدیق رضی اللہ کو خلیفہ مقرر کیا، بلکہ یہ کہا ہے کہ مسلمان اس کے علاوہ کسی اور کو نہیں بنائیں گے!
الله ہمیں دین کی صحیح رہنمائی عطا فرماے (آمین)-
آمین!

نوٹ: اکثریت کے باطل ہونے کے قانون کا معاملہ اب تک دلیل طلب ہے!
 
Last edited:

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

ٹھیک ہے!

میرے بھائی! کسی بھی نظام کے تحت مملکت میں نفاظ قانون کسی کے حکم سے ہی ہوگا، کسی بھی نظام میں اذ خود نفاذ قانون نہیں ہو سکتا! یعنی کہ پارلیمانی جمہورت میں پارلیمنٹ سے منظوری سے ہو گا، تو بادشاہت میں بادشاہ کے حکم سے ہوگا! اور اگر یہ بھی کہا جائے کہ خلافت میں بھی خلیفہ کے حکم سے ہو گا!
اور ''شوری'' کے نظام کے تحت بھی کسی شوری کے ممبر کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ خود کھڑا ہو کر کوئی قانون نافظ کر سکے!
لہٰذا اگر اس بنیاد پر پارلیمنٹ کی اکثریت کو خدائی اختیار کے طعن کی سزاوار ہے، تو پھر اس طعن کے سزوار بادشاہ و خلیفہ بھی قرار پائیں گے! اور نہ ہی شوری کا نظام اس طعن سے بچ سکتا ہے!
مزید کہ محمد علی جناح المعروف قائد اعظم کے اقوال کی پاکستان کے جمہوری نظام میں کوئی قانونی و آئینی حثیت نہیں ہے، پاکستان کے جمہوری نظام میں محمد علی جناح کے اقوال کے خلاف قانون سازی کرنے پر کوئی پابندی نہیں!

اللہ رب العزت کے نازل کردہ قوانین نہ اکثریتی ووتوں کے مرہون منت ہیں، اور نہ ہی کسی خلیفہ کے مرہون منت ہیں! اور ان قوانین کا نفاظ بے شک واجب العمل ہے، اور یہ ان پر واجب ہے جنہیں ان قانون کے نفاذ کا مکلف ٹھہرا یا گیا ہے۔ مثلاً حدود کے قوانین کے نفاذ کی ذمہ داری حاکم پر ہے، کوئی اور اٹھ کر اس کا نفاذ نہیں کرسکتا!
آپ کی مثال کا اس مسئلہ سے تعلق تو مجھے سمجھ نہیں آیا کیونکہ آپ کی مثال میں فیصلہ اکثریت نہیں کر رہی، بلکہ اکثریت کے فائدہ کا خیال کیا جا رہا ہےکہ زیادہ سے زیادہ لوگ جماعت پا سکیں!
یہ ''کوئ'' صرف کہہ سکتا ہے اسے کرنے کا اختیار نہیں! لیکن اگر مسجد کی انتظامیہ لوگوں کی آسانی کے و حالات کے تحت ایسا کوئی معاملہ طے کرتے ہیں کہ زیاد سے زیادہ لوگ جماعت کو پا سکیں، تو اس میں کوئی قباحت نہیں!
اور ایسا ہوتا ہے بھی بھی ہے، خاص کر فیکٹری ایریا میں! کہ ایک مسجد میں نماز کا وقت کچھ اور ہوتا ہے، اور دوسری جگہ کچھ اور، تا کہ فیکٹری میں کام کرنے والے جو پہلی مسجد کی جماعت نا پاسکیں وہ دوسری مسجد کی جماعت پا لیں!
بلکہ ایک ہی فیکٹری میں جماعت کے اوقات اس طرح بھی رکھے جاتے ہیں کہ کھانے کے وقفہ کے ملازمین جماعت کو بھی پا لیں!

اس آیت میں میں جیسا کہ کہ آپ نے بھی ترجمہ میں نقل کیا ہے کہ ''دین کی نوعیت کا '' کچھ مقرر کیا!
تو میرے بھائی! پاکستان کی جمہوریت میں پارلیمنٹ کو دین کے ان امور میں کچھ مقرر کرنے کا اختیار نہیں!
اور آگے آپ خود اس اس بات کا اعتراف کریں گے کہ اس کا تعلق امور مملکت سے نہیں بلکہ کسی اور سے ہے!
خیر میں یہیں اس کی تھوڑی تفصیل بیان کر دیتا ہوں کہ:
امور دو طرح کے ہوتے ہیں؛
01: امور عبادات
02: امور معاملات
امور عبادات میں تمام عبادات حرام ہیں سوائے ان کے جس کا اثبات قرآن و حدیث سے ہو!
امور معاملات میں تمام معاملات حلال ہیں سوائے ان کے جس کی نکیر قرآن و حدیث سے ثابت ہے!
لہٰذا امور معاملات میں ہر وہ قانون اور قانون سازی درست ہے جس کی نکیر قرآن و حدیث میں نہ ہو!
اور مذکورہ آیت کا تعلق امور عبادات ہے نہ کہ امور معاملات!

میرے بھائی! پاکستان کے جمہوری نظام میں آئین کی بنیاد اس پر رکھی ہے کہ قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون نہیں ہوگا! اور آپ نجانے کس بنیاد پر میری اس بات کو باطل قرار دے رہے ہیں!
آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان میں اس جمہوری نظام پر عمل نہیں ہو رہا! تو اس کا وبال اس جمہوری نظام پر نہ ہوگا بلکہ اس پر عمل نہ ہونا قبیح قرار پائے گا!

اسلامی قانون کے نفاذ کو قبول کرنے سے کس نے انکار کیا ہے؟ اس کا انکار بمع ثبوت پیش کیجئے!
وگرنہ یہ الزام و تہمت کا معاملہ دوبارہ شروع ہو جائے گا! (ابتسامہ)

محمد علی جواد بھائی! یا تو آپ کو ''قانون'' کا معنی و مفہوم نہیں معلوم یا پھر آپ کو اصول تفسیر و فقہ کا علم نہیں!
یہ بات کہنے میں تو بہت دلکش لگتی ہے کہ اللہ کی نازل کردہ وحی کا ایک ایک لفظ ہم مسلمانوں کے لئے قانون کی حیثیت رکھتا ہے، اب جو مان لے سو مان لے جو انکار کردے سو انکار کردے۔
مگر حقیقت میں یہ دلکش نہیں دلفریب ہے!
اب کل کو کوئی منچلا بلکہ کوئی منچلی عورت آکر کہے کہ اس کی گود میں جو بچہ ہے وہ اس کی ماں ہے اور اس کا کوئی باپ نہیں، بلکہ وہ بغیر کسی مرد کے چھوئے حاملہ ہوئی اور اس نے اس بچہ کو جنم دیا۔
اور دلیل میں کہے دیکھو دیکھو! قرآن میں عورت کا بغیر مرد کے چھوئے حاملہ ہونا موجود ہے، اور اللہ کی نازل کردہ وحی کا ایک ایک لفظ ہم مسلمانوں کے لئے قانون کی حثیت رکھتا ہے، اب جو مان لے سو مان لے جو انکار کردے سو انکار کردے۔
میرے بھائی! اس طرح کی باتوں سے دلائل قائم نہیں ہوتے!

میرے بھائی! ابھی پچھلے مراسلہ میں آپ نے خود اس کی نفی کی تھی، کہ اکثریت ہمیشہ فاسق نہیں ہتی، لیکن اکثر وبیشتر فاسق ہوتی ہے!
اور اب آپ پھر کہتے ہیں کہ اکثریت فاسق ہی ہو گی بلاشبہ!
آپ کے الفاظ پیش کرتا ہوں:

اب پہلے یہ فیصلہ کر لیں کہ آپ کس بات کے قائل ہیں!

محمد علی جواد بھائی! میرا مدعا ''قانون'' کے لفظ کا ہونا نہ ہونا نہیں! میرا مدعا یہ ہے کہ اسے قانون نہیں قرار دیا گیا ہے کہ اکثریت باطل ہوتی ہے!
اور آپ نے جو امثال پیش کی ہیں، تو ''حرام'' کا لفظ ہو نا ہو، حرمت کا بیان موجود ہے! جس طرح ان کےحرام ہونے سے متعلق قرآن و سنت میں دلائل ہیں، آپ اسی طرح اکثریت کے باطل ہونے کے قانون کے متعلق دلائل پیش کر دیں! اگر مل سکیں تو!
یہ بات میں پیشگی بتلا دیتا ہوں کہ ایسی کوئی دلیل قرآن و سنت میں نہیں جس سے یہ قانون ثابت کیا جاسکے کہ اکثریت باطل ہوتی ہے!

آپ کا خود ہمیشہ کی نفی کر کے اکثر وبیشتر کہنا اس کے قانون ہونے کی نفی ہے! یہاں بھول مجھے لاحق نہیں!
میرے بھائی! اول تو یہ امور عبادات کے متعلق ہے امور معاملات کے نہیں!
دوم کہ پاکستان کا جمہوری نظام اکثریت کے فیصلہ کو ہمیشہ ہر وقت اپنانے کا پاپند بھی نہیں!

اول کہ یہاں مسلمانوں کی اکثریت کا ذکر نہیں ، بلکہ دنیا میں موجود لوگوں کی اکثریت کا ذکر ہے!
دوم کہ یہ اس وقت کے حوالہ سے ہے جب یہ آیت نازل ہوئی!
سوم کہ اس دنیا پر ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب دنیا پر مسلمانوں کی نہ صرف اکثریت ہو گی بلکہ دنیا میں صرف مسلمان ہی ہوں گے!

میرے بھائی! میرا اعتراض اللہ تعالیٰ کے فرمان پر نہیں، میرا اعتراض آپ کا اسے قانون کہنے پر ہے! اور آپ کبھی قانون کہتے ہو، کبھی کہتے یو اکثر وبیشتر، آپ ایک مؤقف اختیار کریں!
آپ کا یہ کہنا کہ جمہوری نظام تو ایک دفعہ بھی اکثریتی فیصلے کے بغیر ایک قدم آگے نہیں چل سکتا، پاکستان کے جمہوری نظام کے متعلق درست نہیں! پاکستان میں صدر اور وزیر اعظم کے صویبدیدی اختیارات بھی ہیں، کبھی دیکھئے گا کہ آرڈنینس کیا ہوتا ہے ، اور عدالتی حکم کا کیا معاملہ ہے!


اس کی دلیل پا کستان کا آئین ہے، اور آئین مین موجود یہ بات سب سے قبل قراداد مقاصد رقم کی گئی تھی! جسے ریاست پاکستان کے آئین کی بنیاد بنایا گیا ہے!
آپ کے جمہوریت اور پاکستان کی حکومت کے حوالہ سے ذوق و شوق کے مدنظر میں نے سمجھا تھا کہ آپ نے پاکستان کا آئین پڑھا ہوگا!
خیر میں حوالہ بھی پیش کر دیتا ہوں:


CONSTITUTION OF PAKISTAN کےPreamble، Introductory اور Objectives Resolution کا بالخصوص مطالعہ فرمائیں:
ان کے یونیکوڈ لنک :
Preamble
Introductory
The Objectives Resolution


جی نہیں جناب ! پاکستان کی جمہوری نظام میں نہ اکثریت کو یہ اختیار ہے اور نہ اقلیت کو ، کسی کو یہ اختیار نہیں کہ قرآن وسنت کے خلاف کوئی قانون بنائے!

ثابت تو عدالت میں ہی ہوگا! مناظرہ میں تو ہر کوئی صرف اپنے لئے فیصلہ کرسکتا ہے ، لیکن نافذ العمل فیصلہ عدالت کا ہی ہوگا!
اس بات کو کہ پاکستانی کا جمہوری نظام کسی کفریہ قانون کو جائز قرار نہیں دیتا، آپ کا مضحکہ خیز کہنا درست نہیں، کیونکہ یہ تو ایک حقیقت ہے، ہاں یہ بات اور ہے کہ پاکستان میں اس جمہوری نظام پر عمل کے بجائے اس کا مذاق اڑایا گیا ہے!
لہٰذا اس کا وبال پاکستان کے جمہوری نظام کے سر نہیں، بلکہ اس پر عمل نہ ہونے کے سر ہے!

آپ نے پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کا نام تو سنا ہی ہوگا، اس کا مطالعہ فرمائیں!
آپ نے سوال کیا ہے کہ انصار و مہاجرین نے ابو بکر صدیق یا عمر فاروق رضی اللہ کو خلیفہ نامزد کرنے سے پہلے کوئی ووٹنگ کی تھی؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ نہیں!
لیکن اس سے ووٹنگ کا حرام ہونا مستدل نہیں ہوتا، کیونکہ امور معاملات میں حرام صرف وہی ہے جس کی ممانعت قران و حدیث میں وارد ہوئی ہو!
اب کوئی منچلا یہ کہہ دے کہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عمر بن خطاب رضی اللہ کو نامزد کیوں کردیا؟ کیا نبی صلی اللہ علیہ نئ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو نامزد کیا تھا، لہٰذا وہ منچلا کسی کو خلیفہ نامزد کرنے کو حرام کہہ دے!
اور پھر وہی یا کوئی اور منچلا کہہ دے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ نے 6 لوگوں میں سے کسی ایک کو خلیفہ منتخب کرنے کا کیوں کہا؟ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ایسا کیا تھا؟ پھر وہ منچلا اسے بھی حرام قرار دے دے!
تو میرے بھائی! معاملات میں کسی امر کا نہ ہونا اس کے حرام کی دلیل نہیں! بلکہ اس کی حرمت کی دلیل قرآن و حدیث سے درکار ہوتی ہے! فتدبر!
بیشک صحابہ کرام رضی اللہ عنہ حلال و حرام کو جاننے والے تھے، اس لئے انہوں نے امور مملکت میں خلیفہ کے انتخاب کے لئے قرآن و حدیث میں بیان کردہ طریقہ کا مطالبہ نہیں کیا، کیونکہ اموم معاملات میں یہ مطلوب نہیں! بلکہ وہ طریقہ ممنوع ہے جس کی نکیر قرآن و حدیث میں وارد ہوئی ہو!

نہیں میرے بھائی! میں نے ابو موسی رضی اللہ عنہ کی مروی آپ کی پیش کردہ حدیث کا نظر انداز نہیں کیا، بلکہ آپ کو یہ بتلایا ہے کہ پاکستان کے جمہوری نظام پر اس کا اطلاق درست نہیں، کیونکہ پاکستان کے جمہوری نظام میں دو افراد کسی شخص کو الیکشن میں حصہ لینے لے لئے نامزد کرتے ہیں! انفرادی طور پر اگر کوئی اقتدار و عہدہ کی حرص کا شکار ہو تو اس کا وبال اس کے سر نہ کہ پاکستان کے جمہوری نظام کے!
آپ کو غالباً نامزد کرنے کا معاملہ نہیں معلوم، یوں سمجھئے کہ دو افراد کسی شخص کو نامزد کرتے ہیں کہ یہ شخص اس عہدہ کے لئے لائق ہے! اس میں نامزدگی میں تفرقہ والی کیا بات ہے؟

میرے بھائی! اسلامی شوری کے ارکان کہاں سے نازل ہوں گے؟
پاکستان کے جمہوری نظام میں پارلیمنٹ ہی مجلس شوری کے مقام پر ہے، بلکہ اسے مجلس شوری قرار دیا گیا ہے! اور ملک کے جاہل و نیم جاہل عوام اس مجلس شوری کے ارکان کا انتخاب کرتی ہے ، اور یہ منتخب ارکان اپنے میں سے حاکم کا انتخاب کرتے ہیں!
رہی بات کہ جاہل و نیم جاہل عوام سے قرآن و حدیث کی تفسیر و شرح نہیں کروائی جا رہی، اور نہ ہی کسی فقہی مسئلہ کا حل طلب کیا جارہا ہے، بلکہ انہیں اپنے معاملات کے حل کے لئے کسی نمائندے کے انتخاب کا اختیار دیا دیا گیا ہے! اور جاہل اور نیم جاہل عوام بھی اپنے معاملات کے بارے یہ اختیار رکھتے ہیں!
وگرنہ کل کو کوئی منچلا آکر کہہ دے گا کہ جاہل اور نیم جاہل عوام کو یہ اختیار نہیں کہ وہ اپنے انتخاب سے کسی کے ساتھ نکاح کریں، بلکہ علمائے کرام یہ فیصلہ کریں گے کہ ان جاہل و نیم جاہل عوام میں کس کی شادی کس سے ہوگی! فتدبر!
اور ایک بات بتلائیے! ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا انتخاب کس مجلس شوری نے کیا تھا؟ اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کاانتخاب کس مجلس شوری نے کیا تھا؟
آپ کے الفاظ تو یہاں نہیں! مگر آپ شاید انتخاب حاکم میں صرف اسی کو اسلامی طریقہ سمجھتے ہیں! کہ شوری یہ انتخاب کرے گی!
بہر حال ایک بار پھر عرض کردوں کہ امور مملکت کا تعلق امور معاملات سے سے ہے، اس میں کوئی ایک طریقہ مخصوص ہی حال نہیں، بلکہ ہر طریقہ جائز ہے سوائے اس کے کہ جس کی نکیر قرآن و سنت میں وارد ہو!

میرے بھائی! یہاں دین کے لئے کہا گیا ہے، امور معاملات کے متعلق نہیں! اور اس سے متصل آپ خود اپنے اس مؤقف کی نفی کریں گے!

جی یہ آپ نے درست فرمایا! کہ کرنسی کا تعلق امور عبادات سے نہیں بلکہ امور معاملات سے ہے! اور یہاں آپ نے اس بات کو تسلیم کیا کہ یہود نصاری کا بنایا ہوا ہر ہر نظام باطل نہیں! ایسا کوئی قاعدہ نہیں! لیکن اس متصل اوپر ہی آپ نے قرآن کی آیت پیش کرکے اس کی نفی بھی کی ہے! آپ کی باتوں میں تضاد ہے!
اب ایک اہم نکتہ:

آپ کے اس مؤقف کی دلیل؟
چلیں آپ تو جب دلیل دیں گے تب دیکھیں گے کہ وہ دلیل بنتی بھی ہے یا نہیں!
میں اس کے برخلاف پر دلیل پیش کیئے دیتا ہوں کہ امور مملکت کا معاملہ امور عبادات سے نہیں بلکہ امور معاملات سے ہے:

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ سَمِعْتُ الْقَاسِمَ بْنَ مُحَمَّدٍ قَالَ قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا وَارَأْسَاهْ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاكِ لَوْ كَانَ وَأَنَا حَيٌّ فَأَسْتَغْفِرُ لَكِ وَأَدْعُو لَكِ فَقَالَتْ عَائِشَةُ وَا ثُكْلِيَاهْ وَاللَّهِ إِنِّي لَأَظُنُّكَ تُحِبُّ مَوْتِي وَلَوْ كَانَ ذَاكَ لَظَلَلْتَ آخِرَ يَوْمِكَ مُعَرِّسًا بِبَعْضِ أَزْوَاجِكَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَلْ أَنَا وَارَأْسَاهْ لَقَدْ هَمَمْتُ أَوْ أَرَدْتُ أَنْ أُرْسِلَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ وَابْنِهِ فَأَعْهَدَ أَنْ يَقُولَ الْقَائِلُونَ أَوْ يَتَمَنَّى الْمُتَمَنُّونَ ثُمَّ قُلْتُ يَأْبَى اللَّهُ وَيَدْفَعُ الْمُؤْمِنُونَ أَوْ يَدْفَعُ اللَّهُ وَيَأْبَى الْمُؤْمِنُونَ
ہم سے یحییٰ بن یحییٰ نے بیان کیا‘ کہا ہم کو سلیمان بن بلال نے خبر دی ‘ انہیں یحییٰ بن سعید نے ‘ کہامیں نے قاسم بن محمد سے سنا کہ عائشہ رضی اللہ عنہ نے کہا ( اپنے سردرد پر ) ہائے سر پھٹا جاتا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘ اگر تم مر جاؤ اور میں زندہ رہا تو میں تمہارے لیے مغفرت کروںگا اور تمہارے لیے دعا کروں گا ۔ عائشہ رضی اللہ عنہ نے اس پر کہا افسوس میرا خیال ہے کہ آپ میری موت چاہتے ہیں اور اگر ایسا ہو گیا تو آپ دن کے آخری وقت ضرور کسی دوسری عورت سے شادی کرلیں گے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو نہیں بلکہ میں اپنا سر دکھنے کا اظہار کرتا ہوں ۔ میرا ارادہ ہوا تھا کہ ابو بکر اور انکے بیٹے کو بلا بھیجوں اور انہیں ( ابو بکر کو ) خلیفہ بنا دوں تا کہ اس پر کسی دعویٰ کرنے والے یا اسکی خواہش رکھنے والے کے لئے کوئی گنجائش نہ رہے لیکن پھر میں نے سوچا کہ اللہ خود ( کسی دوسرے کو خلیفہ ) نہیں ہونے دے گا اور مسلمان بھی اسے دفع کریں گے ۔ یا ( آپ نے اس طرح فرمایا کہ ) اللہ دفع کرے گا اور مسلمان کسی اور کو خلیفہ نہ ہونے دیں گے ۔
صحيح البخاري» كِتَابُ الأَحْكَامِ» بَابُ الِاسْتِخْلاَفِ
اس حدیث میں واضح دلیل ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ پیشنگوئی ضرور فرمائی کہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی نبی صلہ اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد خلیفہ مقرر ہوں گے، لیکن اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خلیفہ کے انتخاب کا کوئی طریقہ مقرر نہیں فرمایا، بلکہ یہ مسلمانوں، مومنوں کی صوابدید پر چھوڑا ہے، کہ وہ کسی طرح کریں، بہر حال وہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے علاوہ کسی اور کو خلیفہ نہیں ہونے دیں گے!
اور نہ ہی اس حدیث میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ابو بکر صدیق رضی اللہ کو خلیفہ مقرر کیا، بلکہ یہ کہا ہے کہ مسلمان اس کے علاوہ کسی اور کو نہیں بنائیں گے!

آمین!

نوٹ: اکثریت کے باطل ہونے کے قانون کا معاملہ اب تک دلیل طلب ہے!
وعلیکم السلام و رحمت الله

محترم ابو داؤد بھائی -

وقت کی کمی و مصروفیت کے باعث اس موضوع پر تفصیلاً اور فرداً فرداً آپ کے جمہوریت سے متعلق شبہات کے جوابات دینا بظاھر مشکل نظر آ رہا ہے -مختصراً یہ کہ آپ کو بھی جمہوریت سے متعلق وہی مغالطے لاحق ہیں جو آج کل ہمارے اکثر و بیشتر نام نہاد علماء و مشائخ کو لاحق ہیں - اور وجہ اس کی یہی ہے کہ آپ کسی بھی طرز حکومت اور اس سے متعلق احکامات کو دین کا جزو قرار نہیں دیتے -آپ اور اکثر علماء کے نزدیک طرز حکومت سے متعلق احکامات اور اس کے قیام سے متعلق تمام تر ذمہ داری اسلام نے انسانوں پر ڈال دی کہ وہ جس طرز پر چاہیں اور جس طرح چاہیں اپنے لئے حٰاکم مقرر کرلیں- اب چاہے وہ نظام یہود و نصاریٰ سے متاثر ہو کر ہی کشید کیوں نہ کیا گیا ہو- جب کہ آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہود و ہنود نے "سیکولرزم " کی بنیاد ہی اس عقیدے پر رکھی تھی کہ مذہب میں سیاست کا کوئی عمل دخل نہیں ہوگا ان کے اصول کبھی ایک نہیں ہو سکتے بلکہ جدا جدا ہیں- اس لئے مذہب و سیاست کو الگ الگ رکھا جائے-جب کہ الله رب العزت نے تو اسلام کو "الدین" قرار دیا ہے- یعنی اس میں تو عبادات و معاشرت سے لے کر احکام اولی الامر تک ایک ایک چیز کی وضاحت اور حکم موجود ہے- کہ کس طرح اور کس طرز احکام اولی الامر کو تشکیل دینا ہے- جب کہ جمہوری نظام تو ہے ہی مادر پدر آزاد کہ جو جاہل عوام کی اکثریت کی بنیاد پر فیصلوں کو "حرف آخر" قرار دیتا ہے - یہ کیسے ممکن ہے کہ اسلام جو ایک ایسا دین ہے کہ جس میں ایک انسان جس کے استنجاء کرنے تک کے احکامات موجود ہوں اسی دین حنیف میں "اولی الامر" کے احکام موجود نہ ہوں یا مبہم ہوں؟؟ اور یہ کہہ کر جان چھڑا لی جائے کہ نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم نے مسلمانوں کو اپنا خلیفہ چننے کے لئے اس کو عوام کی صواب دید پر چھوڑ دیا وہ جس طرح چاہیں اس کا انتخاب کرلیں؟؟- مزید یہ کہ اس معاملے میں ہمارے یہ عقل سے عاری مشائخ اس کج روی کا شکار ہیں کہ ایک طرف تو کہتے ہیں کہ اگر کسی نظام حکومت سے متعلق شریعت میں واضح ممانعت موجود نہ ہو تو اس کو اختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں کہ اس میں فوائد بھی ہیں- دوسری طرف جب اہل حق کی طرف سے اس نظام کے کفر کی دلیلیں دی جاتی ہیں تو کہنے لگتے ہیں کہ خلفاء راشدین وغیرہ کا تقرر بھی خالص جمہوری طریق پر ہو تھا - گویا ان کے نزدیک یہ نظام "جمہوریت" یہود و نصاریٰ کا ایجاد کردہ نہیں بلکہ حقیقت میں مسلمانوں کا ہی اخذ کردہ نظام ہے؟؟ - تو سوال ہے کہ پھر آخر یہ کیوں کہا جاتا کہ نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم نے مسلمانوں کو خلیفہ نامزد کرنے کے لئے کوئی جامع احکام نہیں دیے - پھر تو جمہوری نظام حکومت سنّت نبوی ہونا چاہیے؟؟ -جب کہ یہ دونوں باتیں متضاد ہیں-

آپ کہتے ہیں کہ پاکستان کے آئین میں یہ واضح ہے کہ کوئی قانون اسلامی احکامات کے خلاف نہیں بنایا جائے گا - لیکن ہماری اس پارلیمنٹ کو یہ بھی اختیار دیا گیا ہے کہ اس آئین میں جب چاہے ترمیم کرسکتی ہے - اور پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ اس میں متعدد بار ترامیم کی جاچکی ہیں- جب کہ اسلامی قوانین ترمیم کے متمنی نہیں وہ تو اٹل ہیں - بلفرض اگر ناگزیر حالات کے پیش نظر اسلامی قوانین میں ترمیم مقصود ہو بھی تو یہ کام ایک مجتہد عالم جس کے پاس دین کا کافی و شافی علم ہو وہی سرانجام دے سکتا ہے- پارلیمنٹ کے جاہل نمائندگان ہرگز سر انجام نہیں دے سکتے- لیکن پاکستان ایک ایسا اسلامی جمهوری ملک ہے کہ جس کے اسلامی قوانین پارلیمنٹ کے جاہل و منافق نمائندگان کے زیر اثر طرف تماشہ بنے ہوے ہیں-

آپ کہتے ہیں کہ " اس بنیاد پر پارلیمنٹ کی اکثریت کو خدائی اختیار کے طعن کی سزاوار ہے، تو پھر اس طعن کے سزوار بادشاہ و خلیفہ بھی قرار پائیں گے! اور نہ ہی شوری کا نظام اس طعن سے بچ سکتا ہے" -

تو محترم باشاہت اور خلافت میں اگر کوئی اسلامی قوانین کے نفاذ سے سرتابی کرتا ہے تو اس کا قصوروار فرد واحد ہوتا ہے- یعنی خود وقت کا بادشاہ یا خلیفہ ہی قصور وار ٹھہرتے ہیں- اسں کو حاکم بنانے والا نظام قصور وار نہیں ہوتا - اگرچہ تاریخ میں اس کی مثالیں ضرور ملتیں ہیں کہ فاسق و فاجر حکمران مسلمانوں پر قابض رہے لیکن اس سے نظام حکومت پر کوئی حرف نہیں اتا - ورنہ نبی کریم صل الله علیہ وآ لہ وسلم یہ نہ فرماتے کہ : "تم میں نبوت کا وجود اس وقت تک رہے گا جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ نبوت کو اٹھالے گا اور اس کے بعد خلافت ہو گی جو نبوت کے طریقہ پر ہوگی۔ پھر خلافت کو اٹھالے گا اور اس کے بعد بادشاہت ہو گی کاٹنے والی (یعنی جس میں بعض لوگ بعض پر زیادتی اور ظلم کریں گے) پھر جب تک اللہ چاہے گا اسے قائم رکھے گا پھر اس کو بھی اللہ تعالیٰ اٹھا لے گا۔ پھر تکبر اور غلبہ کی حکومت ہو گی اور جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا وہ قائم رہے گی پھر اللہ تعالیٰ اس کو اٹھا لے گا اور اس کے بعد (دوبارہ ) نبوت کے طریقہ پر خلافت قائم ہو گی- اتنا فرما کر آپ خاموش ہو گئ ۔ (مسند احمد)-

جمہوریت تو ایک شرکیہ نظام حکومت ہے-یہ بادشاہت ، آمریت یا خلافت کی طرز پر انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی بگاڑ کا سبب ہے- اب اس میں کوئی اچھا حکمران ہو یا برا حکمران ہو- اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا- اصل میں یہ نظام ہی اسلامی قوانین کے نفاذ کی راہ میں حائل ہے - جس کا ثبوت یہ ہے کہ جب تک ہماری اسلامی تاریخ میں طرز حکمرانی کے طور پر خلافت قائم رہی- تو باوجود داخلی انتشار کے مسلمان بحثیت مجموعی کفار پر غالب رہے- لیکن نظام خلافت کے اختتام اور جمہوری نظام کے ابتداء کے ساتھ ہی کفار مسلمانوں پر غالب آگئے- اب جس طرح وہ چاہتے ہیں موم کی گڑیا کی طرح اسلام اور مسلمانوں کے معملات کو توڑتے مروڑتے رہتے ہیں-

اب آپ یہی دیکھ لیں کے بالفرض اگر اس جمہوری نظام کے تحت کوئی نیک صالح اور اسلام پسند حکمران یا پارٹی ہمارے ملک میں برسر اقتدار آبھی جاتی ہے- تو اس نظام کے قانون کے تحت وہ صرف پانچ سال اس ملک میں اسلام کے نفاذ کے لئے اپنے معاملات سر انجام دے سکتا یا دے سکتی ہے- اس ملک کے آئین میں یہ واضح ہے کہ ایک حکمران اور اس کی پارٹی کو حکومت کے پاس صرف پانچ سال کا عرصہ ہے کہ جو کچھ کرنا ہے اسی مدت میں کرلو -اس مدت کے بعد یہ کفریہ نظام عوام کو پھر اس کام پر لگا دیتا ہے کہ پانچ سال مکمل ہونے پر اس عوام کے خون پسینے کی کمائی سے نئے انتخابات اور اس کے انتظامات اور اس کے نفاذ پر صرف کیے جائیں- کیا یہ ایک مالک کے سیاسی معاشی اور دینی حیثیت کے لئے کوئی فائدہ مند امر ہے؟؟ -

اسلای طرز حکومت حاکم کی کوئی مدت مختص نہیں کرتا-وہ تو اس کو تا حیات حکمران رہنے کا عندیہ دیتاہے- جیسے خلفاء راشدین وغیرہ تاحیات حکمران کی حیثیت سے بخوبی اپنے امور سر انجام دیتے رہے-

البتہ کفر کی صورت میں حکمران کو معزول یا مرتد قرار دے کر فارغ کرنا بھی اسی نظام کی ذمہ داری ہے -

جب کہ جمہوری نظام حکومت ایک ایسا نظام ہے کہ جو بھی جو چاہے کرتا رہے اس پر کوئی گرفت نہیں- آج اسی گندے و بدبو دار نظام کی وجہ سے اس ملک کے عوام کا استحصال جاری و ساری ہے- شرک و بدعت ، فحاشی و بے حیائی کی دکانیں سر عام چل رہی ہیں
لیکن کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں-

الله رب العزت ہمیں ہدایت دے (آ مین)-
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
وقت کی کمی و مصروفیت کے باعث اس موضوع پر تفصیلاً اور فرداً فرداً آپ کے جمہوریت سے متعلق شبہات کے جوابات دینا بظاھر مشکل نظر آ رہا ہے -
یہ تو کفر و شرک کا معاملہ ہے! کہ آیا جمہوریت مطلقاً کفر و شرک ہے یا نہیں!
یہ انتہائی سنگین نوعیت کا مسئلہ ہے، اس پر بات کرنے کے لئے وقت بھی نکالنا ہوگا اور تفصیل بھی بیان کرنا ہوگی!
یا پھر بندہ ان امور میں گفتگو نہ کرے!
مختصراً یہ کہ آپ کو بھی جمہوریت سے متعلق وہی مغالطے لاحق ہیں جو آج کل ہمارے اکثر و بیشتر نام نہاد علماء و مشائخ کو لاحق ہیں -
میرے بھائی! مغالطہ نہ مجھے لاحق ہے نہ ان مشائخ کو جو اس مؤقف کےقائل ہیں!
میں نے اپنے مؤقف پر دلیل بھی پیش کی ہے، اور آپ کے مؤقف کا بطلان بھی دلیل سے بیان کیا ہے!
ایک اور بات، اور بہت اہم بات:
محمد علی جواد بھائی! آپ اپنے مؤقف کے برخلاف علماء و مشایخ کو ''نام نہاد'' وغیرہ کہنے سے گریز کریں!
حق اور باطل کا پیمانہ آپ کے مؤقف سے متفق ہونا نہیں!
اور آپ کے پاس تو اپنے مؤقف پر دلیل بھی نہیں،یا کم از کم اب تو پیش نہ کر پائے!
اور وجہ اس کی یہی ہے کہ آپ کسی بھی طرز حکومت اور اس سے متعلق احکامات کو دین کا جزو قرار نہیں دیتے -
بھائی! کسی طرز حکومت کو دین میں لازم کیوں قرار دوں!
میرے بھائی! دین میں امور دو طرح کے ہیں! ایک عبادات کے دوسرے معاملات کے!
امور مملکت کا امور معاملات سے ہونے کی دلیل پیش کی جا چکی ہے!
اور امور معاملات میں ہر چیز جائز ہے، سوائے اس کے کس کی نکیر قرآن و سنت میں وارد ہوئی ہو!
آپ اور اکثر علماء کے نزدیک طرز حکومت سے متعلق احکامات اور اس کے قیام سے متعلق تمام تر ذمہ داری اسلام نے انسانوں پر ڈال دی کہ وہ جس طرز پر چاہیں اور جس طرح چاہیں اپنے لئے حٰاکم مقرر کرلیں-
اس پر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث دلیل ہے، جو پیش کی جا چکی ہے!
اب چاہے وہ نظام یہود و نصاریٰ سے متاثر ہو کر ہی کشید کیوں نہ کیا گیا ہو-
اس پر بھی دلیل پیش کی جا چکی ہے! کہ امور معاملات میں یہود و نصاریٰ کے نظام کا باطل ہونا لازم نہیں!
جب کہ آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہود و ہنود نے "سیکولرزم " کی بنیاد ہی اس عقیدے پر رکھی تھی کہ مذہب میں سیاست کا کوئی عمل دخل نہیں ہوگا ان کے اصول کبھی ایک نہیں ہو سکتے بلکہ جدا جدا ہیں- اس لئے مذہب و سیاست کو الگ الگ رکھا جائے-
ویسے یہ بات تو اسلام کی ہے کہ مذہب میں سیاست کا عمل دخل نہیں ہو گا! یعنی کہ مذہبی امور سیاسی بنیادوں پر مبنی نہیں!
آپ غالباً سیاست میں مذہب کا کوئی عمل دخل نہ ہونے کا کہنا چاہتے ہیں اور لکھنے میں غلطی ہو گئی!
تو میرے بھائی!
اول تو یہ مسائل عقائد سے نہیں!
دوم کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے جمہوری نظام میں قطعاً ایسا نہیں!
لہٰذا اس بنیاد پر پاکستان کے جمہوری نظام پر نقد کرنا باطل ہے!
سوم کہ میرا دعوی ہے کہ دنیا کے کسی ملک کی سیاست مذہب کے دخل سے خالی نہیں! خواہ وہ یورپ ہو، یا امریکہ!
ہاں!وہ مملکت کسی کو عبادات و مذہب کا پاپند نہیں کرتی!
ب کہ الله رب العزت نے تو اسلام کو "الدین" قرار دیا ہے- یعنی اس میں تو عبادات و معاشرت سے لے کر احکام اولی الامر تک ایک ایک چیز کی وضاحت اور حکم موجود ہے- کہ کس طرح اور کس طرز احکام اولی الامر کو تشکیل دینا ہے-
جی میرے بھائی!
اور اسی ''الدین'' میں یہ وضاحت موجود ہے کہ امور معاملات میں ہر چیز جائز ہے، سوائے اس کے کہ جس کی نکیر قرآن و سنت میں وارد ہوئی ہو!
اور اگر آپ کا مؤقف یہ ہے کہ وہ طریقہ اس ''الدین'' میں بیان کیا گیا ہے، تو میرے بھائی!
مجھے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ، عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ، عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو خلیفہ منتخب کرنے کا طریقہ قرآن و سنت سے بیان کر دیں! یاد رہے کہ ان چاروں کا انتخاب الگ الگ طریقہ سے ہوا ہے!
آپ قرآن کی آیات اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث سے یہ طریق پیش کر دیں!
جب کہ جمہوری نظام تو ہے ہی مادر پدر آزاد کہ جو جاہل عوام کی اکثریت کی بنیاد پر فیصلوں کو "حرف آخر" قرار دیتا ہے -
نہیں میرے بھائی! پاکستان کا جمہوری نظام مادر پدر آزاد نہیں اس میں قرآن و سنت کی پابندی کی قید ہے!
اور اسی کا حوالہ بھی آپ کو دیا جا چکا ہے!
ہ کیسے ممکن ہے کہ اسلام جو ایک ایسا دین ہے کہ جس میں ایک انسان جس کے استنجاء کرنے تک کے احکامات موجود ہوں اسی دین حنیف میں "اولی الامر" کے احکام موجود نہ ہوں یا مبہم ہوں؟؟
میرے بھائی! یہ پھر وہی دلفریب بات ہے!
اسلام میں استنجاء کرنے میں جن باتوں کی نکیر قرآن و سنت میں وارد ہوئی ہیں، ان کے علاوہ ہر ایک بات جائز ہے!
جیسے دائیں سے عضوء کو چھونے کی نکیر، تین پتھر سے کم استعمال کرنے کی نکیر! چاہے تو وہ پتھر دو انگلیوں سے پکڑے یا پانچوں انگلیوں سے! ہر ایک جائز ہے! چاہے تو آگے سے پیچھے کرتے ہوئے، یا پیچھے سے آگے کرتے ہوئے! ہر طرح جائز ہے!
چلتے چلتےایک ''قفہی'' نکتہ بیان کردوں کہ بعض الناس نے سردی اور گرمی کے استنجاء میں فرق کیا ہے کہ سردی میں پتھر آگے سے پیچھے کو لو جائے، اور گرمی میں پیچھے سے آگے کو!
پانی سے استنجاء کرتے ہوئے، ہتھیلی کا استعمال کرے یا انگلیوں کا! دین اسلام میں ہر ایک جائز ہے، مگر بعض الناس نے اس مسئلہ میں بھی بڑے تکلف سے کام لیا ہے، تفصیل کے لئے الیاس قادری کی ''فیضان سنت'' کا مطالعہ کریں!
اسی طرح امور مملکت کا معاملہ ہے!
اسلام میں جمہوریت کے نکیر کی دلیل مطلوب ہے! اگر کوئی واقعتاً اس کی دلیل پیش کر دے تو بندہ اپنے مؤقف سے رجوع کر لے گا!
اور یہ کہہ کر جان چھڑا لی جائے کہ نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم نے مسلمانوں کو اپنا خلیفہ چننے کے لئے اس کو عوام کی صواب دید پر چھوڑ دیا وہ جس طرح چاہیں اس کا انتخاب کرلیں؟؟-
میرے بھائی! یہ جملہ پڑھ کر مجھے غصہ بھی آیا! کہ ہم نے تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دلیل پیش کی!
اب اس پر الزم کہ جان چھڑانے کا الزام!
تو میرے بھائی! ہم کسی بھی خود ساختہ شریعت کو نہیں مانتے! کہ جس کا پابند ہمیں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ تو نہ کریں، اور بعد میں کوئی شریعت سازی کرے!
لیکن سوال تو ان سے ہے کہ ہم نے جب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پیش کردی کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خلیفہ کے انتخاب کا معاملہ بندوں کی صوابدید پر چھوڑا ہے، تو وہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ کی اس بات کو کیوں نہیں مانتے! وہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کا انکار کیوں کرتے ہیں؟
یہ ہے وہ معاملہ کہ ایسے لوگ اپنی اٹکل کو اقامت دین، و حکومت اسلامیہ کے مسائل میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ کے فرامین سے بہتر گردانتے ہیں!
مزید یہ کہ اس معاملے میں ہمارے یہ عقل سے عاری مشائخ اس کج روی کا شکار ہیں کہ ایک طرف تو کہتے ہیں کہ اگر کسی نظام حکومت سے متعلق شریعت میں واضح ممانعت موجود نہ ہو تو اس کو اختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں کہ اس میں فوائد بھی ہیں-
محمد علی جواد بھائی! گفتگو اس طرح نہ کیجئے ہم سے! وگرنہ ہمارے قلم کی تیزی اور ترشی اس فورم پر پوشیدہ نہیں!
عقل سے عاری کون ہیں اور کج رو وہ ہیں، کہ جو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کی موجودگی میں اپنی اٹکل کو دین اسلام قرار دیتے ہیں!
کسی نظام حکومت سے متعلق شریعت میں ممانعت موجود نہ ہونے پر اس کو اختیار کرنے میں کوئی حرج نہ ہونے کے قائل کا مؤقف اللہ تعالیٰ کے قرآن اور اللہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث پر مبنی ہے، جس کی ایک دلیل پیش کی جا چکی ہے!
دوسری طرف جب اہل حق کی طرف سے اس نظام کے کفر کی دلیلیں دی جاتی ہیں تو کہنے لگتے ہیں کہ خلفاء راشدین وغیرہ کا تقرر بھی خالص جمہوری طریق پر ہو تھا - گویا ان کے نزدیک یہ نظام "جمہوریت" یہود و نصاریٰ کا ایجاد کردہ نہیں بلکہ حقیقت میں مسلمانوں کا ہی اخذ کردہ نظام ہے؟؟
وہ دلیلیں کہاں ہیں؟ کہ جن سے جمہوریت کفر ثابت ہو!
باقی یہ دعوی میں نے نہیں کیا، کہ خلفاء راشدین کا تقرر ''خالص جمہوری'' طریق پر ہوا تھا۔ البتہ اتنا ضرور کہتا ہوں کہ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کا انتخاب میں اس وقت ممکنہ جمہوری انتخاب کا عمل ضرور شامل تھا!
تو سوال ہے کہ پھر آخر یہ کیوں کہا جاتا کہ نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم نے مسلمانوں کو خلیفہ نامزد کرنے کے لئے کوئی جامع احکام نہیں دیے - پھر تو جمہوری نظام حکومت سنّت نبوی ہونا چاہیے؟؟ -جب کہ یہ دونوں باتیں متضاد ہیں-
میرے بھائی! اگر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو خلیفہ نامزد کرنے کے لئے جامع احکام دیئے ہیں ، تو وہ پیش کردیں!
یہ آپ نے عجیب کہی! کہ ہر عمل جسے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جائز رکھا ہو، اسے سنت نبوی ہونا چاہئے!
نہیں ایسا نہیں ! اب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اردو زبان نہیں بولی، تو کیا اسے جائز کہنے سے یہ لازم آتا ہے اردو زبان کو سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم بھی کہا جائے؟
نہیں ! بلکہ یوں کہا جائے گا کہ سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے اردو زبان جائز ہے!
آپ کہتے ہیں کہ پاکستان کے آئین میں یہ واضح ہے کہ کوئی قانون اسلامی احکامات کے خلاف نہیں بنایا جائے گا - لیکن ہماری اس پارلیمنٹ کو یہ بھی اختیار دیا گیا ہے کہ اس آئین میں جب چاہے ترمیم کرسکتی ہے - اور پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ اس میں متعدد بار ترامیم کی جاچکی ہیں-
نہیں میرے بھائی! ایسا نہیں ہے کہ پارلیمنٹ جو چاہے ترمیم کردے! اگر پارلیمنٹ کو آئین میں ایسی ترمین کی اجازت نہیں جو اس کی بنیاد کے خلاف ہو! اور معلوم ہونا چاہئے، ابھی ماضی قریب میں ایسی ایک ترمیم کو عدالتی حکم نے روک دیا تھا!
جب کہ اسلامی قوانین ترمیم کے متمنی نہیں وہ تو اٹل ہیں -
پھر وہی دلفریب نعرہ!
میرے بھائی! اسلامی قوانین حاکم کو وقت وحالات کے مطابق قوانین وضع کرنے کی اجازت دیتا ہے! اور قوانین وضع کرنے میں قوانین میں ترمیم کرنا بھی شامل ہے! جو بات اٹل ہے وہ شرعی احکام ہیں!
آپ کو غالباً شرعی احکام اور مملکت کے قوانین کے فرق کا علم نہیں!
بلفرض اگر ناگزیر حالات کے پیش نظر اسلامی قوانین میں ترمیم مقصود ہو بھی تو یہ کام ایک مجتہد عالم جس کے پاس دین کا کافی و شافی علم ہو وہی سرانجام دے سکتا ہے- پارلیمنٹ کے جاہل نمائندگان ہرگز سر انجام نہیں دے سکتے-
میرے بھائی! بالفرض نہیں، بلکل ایسا ہے!
لیکن آپ کی یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ مجتہد عالم کس طرح قوانین کا نفاذ کرے گا؟
اور اجتہاد میں اختلاف کی ممکن ہے، کہ کسی ایک مجتہد عالم کا اجتہاد کچھ ہوگا، اور دوسرے کا مجتہد عالم کا اجتہاد کچھ اور ہوگا تو یہ اپنے اپنے قوانین کس طرح نافظ کریں گے؟
یہ ممکن ہے کہ مجتہد عالم اگر حاکم ہو تو اس کا اجتہاد نافذ العمل قرار پائے، مگر پھر سوال یہ ہے کہ حاکم کا مجتہد عالم ہونا کب سے شرط ہو گیا؟
اور کیا یہ مجتہد عالم کیا ٹاون پلاننگ، اور میونسپل سروسسز، کے معاملات میں بھی صاحب اجتہاد ہوتے ہیں کہ یہ ان کا ہی حق ہوگا!
لیکن پاکستان ایک ایسا اسلامی جمهوری ملک ہے کہ جس کے اسلامی قوانین پارلیمنٹ کے جاہل و منافق نمائندگان کے زیر اثر طرف تماشہ بنے ہوے ہیں-
میرے بھائی! اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ملاحظہ فرمائیں:
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَعَمْرٌو النَّاقِدُ، كِلَاهُمَا عَنِ الْأَسْوَدِ بْنِ عَامِرٍ، قَالَ: أَبُو بَكْرٍ، حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، وَعَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِقَوْمٍ يُلَقِّحُونَ، فَقَالَ: «لَوْ لَمْ تَفْعَلُوا لَصَلُحَ» قَالَ: فَخَرَجَ شِيصًا، فَمَرَّ بِهِمْ فَقَالَ: «مَا لِنَخْلِكُمْ؟» قَالُوا: قُلْتَ كَذَا وَكَذَا، قَالَ: «أَنْتُمْ أَعْلَمُ بِأَمْرِ دُنْيَاكُمْ»
حماد بن سلمہ نے ہشام بن عروہ سے، انھوں نے اپنے والد سے، انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ۔اور حماد ہی نے ثابت سے انھوں نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کچھ لوگوں کے پاس سے گزر ہوا جو کھجوروں میں گابھہ لگا رہے تھے ،آپ نے فر ما یا :" اگر تم یہ نہ کروتو(بھی ) ٹھیک رہے گا۔"کہا:اس کے بعد گٹھلیوں کے بغیر روی کھجور یں پیدا ہو ئیں ،پھرکچھ دنوں کے بعد آپ کا ان کے پاس سے گزر ہوا تو آپ نے فر ما یا :" تمھا ری کھجوریں کیسی رہیں ؟"انھوں نے کہا : آپ نے اس اس طرح فر ما یا تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا :"تم اپنی دنیا کے معاملا ت کو زیادہ جاننے والے ہو۔"
صحيح مسلم: كِتَابُ الْفَضَائِلِ (بَابُ وُجُوبِ امْتِثَالِ مَا قَالَهُ شَرْعًا دُونَ مَا ذَكَرَهُ مِنْ مَعَايِشِ الدُّنْيَا عَلَى سَبِيلِ الرَّأْيِ)
صحیح مسلم: کتاب: أنبیاء کرامؑ کے فضائل کا بیان (باب: شریعت کے حوالے سے نبی ﷺ نے جو فر ما یا اس پر عمل واجب ہے جہاں آپ نے دنیوی امور کے بارے میں محض اپنی را ئے کا اظہار فرما یا ہے(اس پر عمل واجب نہیں))
دیکھ لیں ! اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود کہ جن سے بڑھ کر کوئی مجتہد عالم نہیں ہو سکتا، لوگوں کو اپنے معاملات مین بہتر جاننے والا کہا ہے!
اور آپ فرماتے ہیں ان امور معاملات میں بھی مجتہد عالم ہونا لازم ہے!
آپ کہتے ہیں کہ " اس بنیاد پر پارلیمنٹ کی اکثریت کو خدائی اختیار کے طعن کی سزاوار ہے، تو پھر اس طعن کے سزوار بادشاہ و خلیفہ بھی قرار پائیں گے! اور نہ ہی شوری کا نظام اس طعن سے بچ سکتا ہے" -

تو محترم باشاہت اور خلافت میں اگر کوئی اسلامی قوانین کے نفاذ سے سرتابی کرتا ہے تو اس کا قصوروار فرد واحد ہوتا ہے- یعنی خود وقت کا بادشاہ یا خلیفہ ہی قصور وار ٹھہرتے ہیں- اسں کو حاکم بنانے والا نظام قصور وار نہیں ہوتا -
میرے بھائی! آپ نے اس بنیاد کو اب بالکل نظر انداز کر گئے ہیں:
میں ایک بار پھر وہ بنیاد پیش کرتا ہوں کہ جس بنا پر آپ نے طعن کیا ہے:

آپ کی نالج کے لئے یہ بات عرض کردوں کہ کہ قیام پاکسان کے وقت قائد محمّد علی جناح نے اس ملک میں پارلیمانی نظام جمہوریت قائم کرنے بارے میں ہی تلقین تجاویز پیش کی تھیں- جس کی بنیاد پر ہی آج اس ملک میں پارلیمانی نظام جمہوریت قائم ہے- یہ سیاسی نظام چاہے کسی کافر ملک میں ہو یا نام نہاد مسلمان ملک میں ہو اس میں قانون کے نفاذ کا اختیار صرف پارلیمنٹ میں عوام کے منتخب نمائندوں کو حاصل ہوتا ہے- اور یہ نفاذ نمائندوں کے اکثریتی ووٹوں کی بنا پر بل پاس ہونے کی صورت میں کیا جاتا ہے - کوئی پارلیمانی نمائندہ از خود کھڑا ہو کر کوئی قانون نافذ نہیں کرسکتا چاہے وہ کوئی اسلامی قانون ہو یا کوئی ملکی قانون ہو یا کوئی شہری قانون ہو- از خود اس کا نفاذ ممکن نہیں جب تک کہ اکثریتی نمائندے اس بل کو پاس نہیں کرتے- اب صاف ظاہر ہے کہ خدائی اختیار کس کو حاصل ہوا ؟؟- ظاہر اکثریت کو-
میرے بھائی! کسی بھی نظام کے تحت مملکت میں نفاظ قانون کسی کے حکم سے ہی ہوگا، کسی بھی نظام میں اذ خود نفاذ قانون نہیں ہو سکتا! یعنی کہ پارلیمانی جمہورت میں پارلیمنٹ سے منظوری سے ہو گا، تو بادشاہت میں بادشاہ کے حکم سے ہوگا! اور اگر یہ بھی کہا جائے کہ خلافت میں بھی خلیفہ کے حکم سے ہو گا!
اور ''شوری'' کے نظام کے تحت بھی کسی شوری کے ممبر کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ خود کھڑا ہو کر کوئی قانون نافظ کر سکے!
لہٰذا اگر اس بنیاد پر پارلیمنٹ کی اکثریت کو خدائی اختیار کے طعن کی سزاوار ہے، تو پھر اس طعن کے سزوار بادشاہ و خلیفہ بھی قرار پائیں گے! اور نہ ہی شوری کا نظام اس طعن سے بچ سکتا ہے!


اگرچہ تاریخ میں اس کی مثالیں ضرور ملتیں ہیں کہ فاسق و فاجر حکمران مسلمانوں پر قابض رہے لیکن اس سے نظام حکومت پر کوئی حرف نہیں اتا -
جی !یہی بات ارکان پارلیمنٹ کے ارکان کے لئے بھی اختیار کرلیں کہ نقص ارکان میں ہے، نظام میں نہیں!
ورنہ نبی کریم صل الله علیہ وآ لہ وسلم یہ نہ فرماتے کہ : "تم میں نبوت کا وجود اس وقت تک رہے گا جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ نبوت کو اٹھالے گا اور اس کے بعد خلافت ہو گی جو نبوت کے طریقہ پر ہوگی۔ پھر خلافت کو اٹھالے گا اور اس کے بعد بادشاہت ہو گی کاٹنے والی (یعنی جس میں بعض لوگ بعض پر زیادتی اور ظلم کریں گے) پھر جب تک اللہ چاہے گا اسے قائم رکھے گا پھر اس کو بھی اللہ تعالیٰ اٹھا لے گا۔ پھر تکبر اور غلبہ کی حکومت ہو گی اور جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا وہ قائم رہے گی پھر اللہ تعالیٰ اس کو اٹھا لے گا اور اس کے بعد (دوبارہ ) نبوت کے طریقہ پر خلافت قائم ہو گی- اتنا فرما کر آپ خاموش ہو گئ ۔ (مسند احمد)-
ویسے ایک بات بتلائیے! اس حدیث میں خلافت علی منہاج النبوہ کے علاوہ بادشاہت کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے، کیا یہ بھی کفر یہ شرکیہ نظام ہے؟ اگر نہیں تو آپ کی پچھلی تحریر کے مطابق بادشاہت کے متعلق بھی جامع احکام قرآن و حدیث میں وارد ہونا لازم ہے!
اور بادشاہت کے اٹھنے کے بعد جو نظام کا ذکر ہے اس کے متعلق آپ کا کیا مؤقف ہے کہ آیا وہ اسلام ميں جائز نظام ہے یا وہ کفریہ شرکیہ نظام ہے؟
اگر اسلامی ہے ، تو آپ کو مؤقف کے مطابق تو اس نظام کے جامع احکامات بھی قرآن و حدیث میں وارد ہونا لازم ہیں!
اور اگر آپ کا مؤقف یہ ہے کہ یہ کفریہ شرکیہ نظام ہے تو دنیا میں اسلامی ریاست ہو گی ہی نہیں!
آپ ذرا ان معاملات سے متعلق اپنا مؤقف بیان فرمائیں!
جمہوریت تو ایک شرکیہ نظام حکومت ہے-
میرے بھائی! دلیل ہنوز مطلوب است!
آپ بڑے وثوق سے ایک حکم صادر فرماتے ہیں، لیکن اس کی دلیل طلب کرنے پر بھی نہیں دی جاتی!
آپ اس کی دلیل پیش کریں کہ جمہوریت مطلقاً شرکیہ نظام حکومت ہے، (مطقاً اس کی قید اس لئے کہ ہم پاکستان کے جمہوری نظام کی بات کر رہے ہیں)
یہ بادشاہت ، آمریت یا خلافت کی طرز پر انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی بگاڑ کا سبب ہے- اب اس میں کوئی اچھا حکمران ہو یا برا حکمران ہو- اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا-
بات کچھ سمجھ نہیں آئی! میرے بھائی! اجتماعی بگاڑ ہر طرز حکومت میں ممکن ہے، یہ طرز حکومت پر نہیں بلکہ اس میں عوام پر نافذ قوانین کے سبب ہے!
کسی حکمران کا اچھا ہونا یا برا ہونا، ہر طرز حکومت میں انفرادی عمل ہی ہے!
اصل میں یہ نظام ہی اسلامی قوانین کے نفاذ کی راہ میں حائل ہے - جس کا ثبوت یہ ہے کہ جب تک ہماری اسلامی تاریخ میں طرز حکمرانی کے طور پر خلافت قائم رہی- تو باوجود داخلی انتشار کے مسلمان بحثیت مجموعی کفار پر غالب رہے- لیکن نظام خلافت کے اختتام اور جمہوری نظام کے ابتداء کے ساتھ ہی کفار مسلمانوں پر غالب آگئے- اب جس طرح وہ چاہتے ہیں موم کی گڑیا کی طرح اسلام اور مسلمانوں کے معملات کو توڑتے مروڑتے رہتے ہیں-
یہ آپ نے دو باتوں کو گڈ مڈ کر دیا ہے۔
ایک ہے اسلامی قوانین کا نفاذ اور دوسرا کفار کا غلبہ
آپ کی اس بات پر وضاحت آپ کی ابھی پیش کردہ حدیث سے متعلق سوالات کے جوابات کے بعد عرض کروں گا۔
اب آپ یہی دیکھ لیں کے بالفرض اگر اس جمہوری نظام کے تحت کوئی نیک صالح اور اسلام پسند حکمران یا پارٹی ہمارے ملک میں برسر اقتدار آبھی جاتی ہے- تو اس نظام کے قانون کے تحت وہ صرف پانچ سال اس ملک میں اسلام کے نفاذ کے لئے اپنے معاملات سر انجام دے سکتا یا دے سکتی ہے- اس ملک کے آئین میں یہ واضح ہے کہ ایک حکمران اور اس کی پارٹی کو حکومت کے پاس صرف پانچ سال کا عرصہ ہے کہ جو کچھ کرنا ہے اسی مدت میں کرلو -اس مدت کے بعد یہ کفریہ نظام عوام کو پھر اس کام پر لگا دیتا ہے کہ پانچ سال مکمل ہونے پر اس عوام کے خون پسینے کی کمائی سے نئے انتخابات اور اس کے انتظامات اور اس کے نفاذ پر صرف کیے جائیں- کیا یہ ایک مالک کے سیاسی معاشی اور دینی حیثیت کے لئے کوئی فائدہ مند امر ہے؟؟ -
میرے بھائی! میرے بھائی! پاکستان کی جمہوریت میں ایسا نہیں ہے، بلکہ یہ کسی بھی جمہوریت میں ایسا نہیں کہ پچھلی حکومت کا بنایا ہوا قانون دوسری حکومت میں ختم ہی ہو جائیں گے، بلکہ تمام قوانین قائم رہتے ہیں، جب تک کسی قانون کی ترمیم و تنسیخ نہ کی جائے!
باقی رہی انتخابات پر پیسہ خرچ ہونا، تو یہ تو بہت سے معاملات میں ہوتا ہے۔ پر سکون و بغیر قتال کے کے انتقال اقتدار پر اگر کچھ پیسہ خرچ ہو جائے تو غنیمت جاننا چاہئے! وگرنہ تو انتقال اقتدار اکثر بہت خونریز رہا ہے!
لیکن کیا آپ کا مؤقف یہ ہے کہ پاکستان کا جمہوری نظام اس لئے کفریہ شرکیہ ہے کہ اس پر پیسہ خرچ ہوتا ہے؟
اگر یہ بات ہے تو اس کی دلیل مطلوب ہے کہ جس پر پیسہ خرچ ہو وہ کفریہ شرکیہ نظام ہے؟
اگر آپ کا مؤقف یہ نہیں تو اس پر تو اس وقت گفتگو ہو، جب آپ پاکستان کی جمہوریت کو جائز تسلیم کریں اور اولیٰ اور غیر اولیٰ کی بحث ہو!
ویسے میں کوئی ''بچہ جمہوری'' نہیں کہ جمہوریت وبادشاہت وآمریت میں ہر صورت جمہوریت کو ہی بہتر قرار دوں!
اسلای طرز حکومت حاکم کی کوئی مدت مختص نہیں کرتا-وہ تو اس کو تا حیات حکمران رہنے کا عندیہ دیتاہے- جیسے خلفاء راشدین وغیرہ تاحیات حکمران کی حیثیت سے بخوبی اپنے امور سر انجام دیتے رہے-
جب آپ خود کہتے ہیں کہ اسلامی طرز حکومت میں حاکم کی کوئی مدت مختص نہیں، یعنی کہ ایسا کوئی تعین قرآن وحدیث میں نہیں ہے کہ حاکم کتنے وقت تک کے لئے منتخب ہو گا، تو پھر یہ جائز ٹھہرا کہ کوئی بھی مدت متعین کی جا سکتی ہے، کیونکہ اسلام نے حاکم کے تاحیات حاکم رہنے کا حکم تو نہیں دیا!
اگر اسلام میں ایسی کوئی شرط وارد ہوئی ہے کہ حاکم کو تاحیات حاکم بنایا جائے، تو اس کی دلیل قرآن و سنت سے مطلوب ہے!
البتہ کفر کی صورت میں حکمران کو معزول یا مرتد قرار دے کر فارغ کرنا بھی اسی نظام کی ذمہ داری ہے -
جی بالکل! اور پاکستان کے جمہوری نظام میں بھی ایسی صورت میں یہی حکم موجود ہے!
جب کہ جمہوری نظام حکومت ایک ایسا نظام ہے کہ جو بھی جو چاہے کرتا رہے اس پر کوئی گرفت نہیں-
نہیں میرے بھائی! ایسا نہیں! پاکستان کے جمہوری نظام پر قرآن وسنت کی گرفت ہے! اس کا حوالہ آپ کو پیش کیا گیا تھا!
آج اسی گندے و بدبو دار نظام کی وجہ سے اس ملک کے عوام کا استحصال جاری و ساری ہے- شرک و بدعت ، فحاشی و بے حیائی کی دکانیں سر عام چل رہی ہیں
لیکن کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں-
میرے بھائی! عوام کا استحصال تو بادشاہت میں بھی ہوا ہے، اور پاکستان میں بھی دور آمریت میں عوام کا زیادہ استحصال ہوا ہے!
دوم کہ یہ شرک وبدعت، فحاشی و بے حیائی کی دکانیں اس جمہوریت میں شروع نہیں ہوئیں، بلکہ اس کی تاریخ بہت پرانی ہے!
آپ نے بہت ہی عجیب بات کردی! آپ کو غالباً خلافت عباسیہ اور خلافت عثمانیہ کے حالات کا علم نہیں!
ویسے یہ تو ایک عام رویہ ہے کہ کہ جس پر چوری کا الزام پر کوئی جرح کرے، تو اس چور کو صرف چور ہی ثابت کرنے کی سعی نہیں کی جاتی، بلکہ دنیا بھر کی ساری برائیوں کا سبب اسے ہی قرار دے دیا جاتا ہے!
الله رب العزت ہمیں ہدایت دے (آ مین)-
آمین!
 
Last edited:
Top