السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ!
لگتا ہے آپ لفظ "اکثریت" کے حقیقی مفہوم سے واقف نہیں ورنہ دوسرے لفظوں میں تو آپ کے الفاظ قرآن کی آیات جو کہ پیش کی گئی ہیں پر تہمت ثابت جاتے ہیں- (الله آپ پر رحم کرے)-
میرے بھائی! میرے اکثریت کے حقیقی مفہوم سے ناواقف ہونے کا خیال آپ کو میری کس عبارت سے آیا؟
اور میرے کون سے الفاظ قرآن کی آیات پر تہمت ثابت ہوتے ہیں؟
دیکھیں آپ کا اکثریت پر الزم یا تہمت کہاں ہے وہ میں آپ کو بتلاتا ہوں :
جب کہ جمہوریت "ملک میں اکثریت اور پارلیمنٹ" کی خدائی" کی قائل ہے جو صریح شرک ہے-
کسی اسلامی ملک میں، جیسے پاکستان میں جہاں جمہوری نظام بھی ہے، نہ جمہوریت اکثریت اور پارلیمنٹ کی خدائی کی قائل ہے، اور نہ ہی اس مملکت کی اکثریت پارلیمنٹ کی خدائی کی قائل ہے!
مملکت میں رہنے والے غیر مسلم جو کہ اقلیت میں ہیں، وہ اگر یہ نظریہ رکھتے بھی ہوں ، تو مملکت کی اکثریت کے متعلق یہ الزام و تہمت ہی ہے!
پاکستان کے جمہوری نظام میں اکثریت کو قرآن و سنت کے خلاف قانون بنانے کا حق نہیں دیا!
لہٰذا اس جمہوریت کو خدائی کا قائل کہنا بھی الزام ہی ہے!
اب آپ بتلائیے ! میرے کس کلام میں قرآن کی آیات پر تہمت ثابت ہوتی ہے؟
نا کہ میرے الفاظ اکثریت پر تہمت-
اس کا بیان ابھی کر دیا گیا!
اب اس کی آپ کیا توجیہ پیش کریں گے کہ الله کے قانون کے مطابق اکثریت "فاسق" ہوتی ہے- یہ تو الله کریم کی وحی کے الفاظ ہیں- میرے نہیں-
میں یہ توجیہ کیوں پیش کروں! میرے بھائی اسے قانون آپ قرار دے رہے ہیں، اور ابھی آپ اگلے ہی جملہ میں اس کی نفی بھی فرمادیں گے، وہ بھی دو اعتبار سے، ایک تو خود اپنے الفاظ میں اقرار کریں گے، اور دسری نفی غالباً آپ سے مخفی ہوگی!
دوم کہ آپ نے یہ بڑی جسارت کی ہے کہ آپ اپنے الفاظ کو اللہ کریم کی وحی کے الفاظ قرار دے رہے ہیں!
اللہ تعالیـ کی وحی کے الفاظ میں اسے ''قانون'' نہیں کہا گیا!
اور میرا آپ سے اسی بابت اختلاف ہے، کہ اسے آپ نے قانون کیونکر قرار دیا؟
بات صرف اتنی ہے کہ "اکثریت" ہمیشہ باطل نہیں ہوتی لیکن اکثر و بیشتر باطل ہوتی ہے- اور قران کا بھی یہی منشاء ہے-
ابھی تک تو آپ کا مدعا تھا کہ یہ اللہ کا قانون ہے کہ اکثریت باطل ہوتی ہے، اور اب آپ کہتے ہیں کہ :
"اکثریت" ہمیشہ باطل نہیں ہوتی
تو میرے بھائی یہ قانون کہاں رہا!
پھر حق و باطل کا پیمانہ اکثریت یا اقلیت کہاں رہا!
آپ نے اپنے پہلے مدعا کے برخلاف خود رقم فرمایا کہ :
لیکن اکثر و بیشتر باطل ہوتی ہے-
میرے بھائی! جب آپ خود یہ کہتے ہو کہ ہمیشہ باطل نہیں ہوتی لیکن اکثر و بیشتر باطل ہوتی ہے، تو میرے بھائی! جب اکثر و بیشتر، بسا اوقات والا معاملہ آجائے، تو وہ قانون، کلیہ وقاعدہ نہیں ہوتا! فتدبر!
لہٰذا یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ کسی معاملہ میں اکثریت کے قائل ہونے سے وہ باطل ثابت نہیں ہوتی! ایسا کوئی قانون نہ قرآن کی ان آیات میں بیان ہوا ہے، جو پیش کی گئیں، اور نہ کسی اور آیت میں، اور نہ ہی کسی صحیح حدیث میں ایسا کوئی قانون بیان ہوا ہے!
اگر اکثریت کو ہمیشہ "حق" سمجھ لیا جائے تو وہ قانون بن جاتا ہے اور یہی جمہوریت کا شاخسانہ ہے- جمہوریت کی بنیاد ہی یہی ہے کہ ہر وہ حکم چاہے قرآن و حدیث سے کیوں نہ ٹکراتا ہو- جمہوری فیصلے کی بنیاد پر ملک کا قانون بن جاتا ہے-
اکثریت کا ہمیشہ حق ہونا بھی ثابت نہیں! اور نہ ہی پاکستان کی جمہورت میں یہ جائز ہے کہ قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون بنایا جائے!
کبھی ہم جن پرستی اس قانون کے تحت جائز قرار پاتی ہے تو کبھی بیوی پر ہاتھ اٹھانے پر مرد کو سزا ہو جاتی ہے تو کبھی سودی نظام کے خلاف رٹ کو خارج کردیا جاتا ہے تو کبھی چوری کی سزا ہاتھ کاٹنے کو وحشیانہ قرار دے کر کالعدم قرار دے دیا جاتا ہے-
میرے بھائی! دنیا میں ایک ہی جمہورت کا وجود نہیں! امریکہ کی جمہوریت، یورپ کی جمہوریت سے مختلف ہے، اور یورپ کے ممالک میں بھی الگ الگ جمہوری نظام ہیں، اور پاکستان کا جمہوری نظام الگ ہے!
پاکستان کے جمہوری نظام میں آپ کے بیان کردہ امور جائز نہیں!
ہمارے اس "اسلامی جمہوریہ" پاکستان میں آپ کو اس قسم کے صریح کفر کی بے شمار مثالیں ملیں گی-
جی! پاکستان کی قوانین میں اس کی بہت سی امثال ہیں، لیکن وہ تمام پاکستان کے دستور میں بیان کردہ جمہوری نظام کے خلاف ہیں! پاکستان کا جمہوری نظام کسی کفریہ قانون کو جائز قرار نہیں دیتا!
جہاں تک آپ کی یہ بات کہ "جمہور فقہاء اور جمہور محدثین کے مؤقف کو باطل اور شذوذ کو حق قرار دینا چاہئے، جبکہ اس کا قائل کوئی بھی نہیں" تو اس سے مراد ان کی مجموعی تعداد ہے- ناکہ کسی گروه کے مقابلے میں اکثریت ہے -
میں یہ بات سمجھنے سے قاصر ہوں!
میرے بھائی! جمہور فقہاء اور جمہور محدثین کا جب ایک مؤقف پر اتفاق ہے اور دوسروں کا مؤقف ان سے علیحد ہ ہے، تو آپ کے بیان کردہ ''قانون'' کے مطابق تو جمہور کا مؤقف باطل قرار پانا چاہئے!
اور اب جو آپ نے اپنے مؤقف میں ترمیم کی ہے اس ترمیم شدہ مؤقف کے مطابق بھی جمہور کا مؤقف اکثر و بیشتر باطل قرار پانا چاہئے! جبکہ ایسابھی نہیں!
میرے بھائی! میں نے جمہور کے مؤقف کی بات کی ہے، اور جب بات جمہور کی ہے، تو اس کے مقابلہ میں دیگر کا مؤقف بھی ہے لیکن وہ قلیل فقہاء و محدثین ہیں!
ورنہ کیا اسلام کی ابتدائی و مکی دور میں مسلمان کفار کی نسبت اقلیت میں نہیں تھے - تو کیا اس وقت ان مسلمانوں کے موقف کو باطل سمجھنا صحیح ہوتا ؟؟
میرے بھائی! اب کیا پاکستان کے جمہوری نظام میں امریکہ و ہندوستانی، و پوری دنیا کے باسیوں کا بھی دخل ہے؟ نہیں بھائی! یہاں صرف پاکستانیوں کا معاملہ ہے! اس میں پاکستانیوں کی اکثریت کو دیکھا جائے گا!
دوم کہ نہ میرا یہ مؤقف ہے، اور نہ کبھی میں نے یہ بات کہی ہے کہ اقلیت ہمیشہ باطل ہوگی!
سوم کہ آپ نے جو آیت پیش کی تھی، اس میں ایمان لانے والوں کی اکثریت کا ذکر تھا!
چہارم کہ اس معاملہ میں میں نے آپ سے عرض کی تھی جس کا آپ نے جواب نہیں دیا! ایک بار پھر پیش کرتا ہوں:
جب الله کے قانون کے مطابق اکثریت فاسق و فاجر ہوتی ہے تو پھر اس کو زبردستی اسلام کا لبادہ اڑھانے کی کیا ایسی ضرورت ہے- اب کیا کہیں ان عقل سے پیدل و جاہل مشائخ کو جو جمہوریت کو زبردستی "مشرف با اسلام" کرنے پر تلے ہوے ہیں-
پھر کیا کہیئے گا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت مدینہ کی اکثریت کے بارے میں؟
قرآن میں تو الله رب العزت کا فرمان ہے کہ :
قَالَ الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُمْ مُلَاقُو اللَّهِ كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً بِإِذْنِ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ مَعَ الصَّابِرِينَ سوره البقرہ ٢٤٩
وہ کہنے لگے - بارہا ایسا ہوا کہ بڑی جماعت پر چھوٹی جماعت الله کے حکم سے غالب ہوئی ہے اور الله صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے
جی میرے بھائی! نہ اکثریت ہمیشہ باطل ہوتی ہے اور نہ اقلیت ہمیشہ باطل!
محترم -میرا بھی یہی موقف ہے کہ اللہ کے قانون اخذ کرنے سے قبل اچھی طرح سوچ بچار کرنا چاہئے اور اصول تفسیر و فقہ کو صرف نظر نہیں کرنا چاہئے!
کیا آپ کو معلوم نہیں کہ اصحاب کرام رضوان الله اجممین اور خود نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم کے دور میں متعدد فیصلے جمہور کے خلاف جا کر کیے گئے - حضرت ابو بکر صدیق رضی الله عنہ نے معدنین زکات کے خلاف تلوار اٹھانے کا فیصلہ اکثریت صحابہ کے مشورے کو نظر انداز کرکے کیا- بدر کے قیدیوں کے معاملے میں نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم اور ابو بکر صدیق رضی الله عنہ کا ایک موقف ہونے کے باوجود وحی الہی فرد واحد حضرت عمر رضی الله عنہ کے فہم کے مطابق نازل ہوئی- غزوہ احد میں بعض صحابہ نے مدینہ سے باہر نکل کرلڑنے کے حوالے سے شدید خواہش اورجوش وخروش کا مظاہرہ کیا لیکن بعد میں یہ صحابہ کرام مدینہ سے باہر جنگ کرنے کے اپنے فیصلے سے دستبردار ہوگئے - لیکن نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم نے اس کے باوجود یہ فرما کر کہ "جب ایک نبی جنگ کے لئے ہتھیار پہن لے تو اس وقت تک نہیں اتارتا جب تک کہ اللہ اس کے درمیان اور اس کے دشمن کے درمیان فیصلہ فرما دے"- جنگ شہر سے باہر ہی لڑنے کا فیصلہ کیا-- اس کے علاوہ اور بھی بہت سی مثالیں ہیں جو اقلیت کے حکم کی اکثریت پر فوقیت کی دلیل ہیں -یہ تو اس سنھرے دور کی مثالیں ہیں کہ اگر اس وقت اکثریت کے فیصلے کو بھی ترجیح دی جاتی تو معاشرے پر شاید اس کے کوئی برے اثرات مرتب نہ ہوتے-
ان میں سے کون سی بات یہ قاعدہ، قانون و کلیہ بتلاتی ہے کہااکثریت باطل ہوتی ہے؟
لیکن آج کے اس پرفتن دور میں حکم ، قانون اورفیصلے کے لئے انسانوں کی اکثریت کی طرف رجوع کرنا اور ان کی ا کثریت کے علمِ حقیقی سے جاہل، دین سے بے بہرہ اور فاسق ہونے کی بنا پر ان کی اکثریت کے فیصلے کو قانون کادرجہ دینا جاہلیت کے فیصلے کو قانون بنانے کے سواء اور کیا ہو سکتا ہے-
میرے بھائی!پاکستان کا جمہوری نظام عوام کی کثرت رائے سے حلال و حرام دینے کے لئے نہیں، بلکہ حکومت کرنے والوں کے انتخاب کا نام ہے، کہ وہ کسے معتبر و قابل اعتماد سمجھتے ہیں! اور یہ عوام خود قانون نہیں بناتی، قانون ان کے منتخب نمائندے بناتے ہیں!
جب کہ قرانی نقطہ نظر سے ہو بھی جمہوری نظام ناجائز-
قرآن سے اس کی دلیل درکار ہے!
یار دہے کہ جمہوری نظام کے ناجائز ہونے کی دلیل مطلوب ہے!
ویسے بھی جمہوریت تو ایک ایسا نظام حکومت ہے کہ جس میں اقتدار حاصل کرنے کی بہت حرص پائی جاتی ہے -اور اس معاملے میں بھی یہ حکم نبوی سے براہ راست متصادم ہے -
ابو موسٰی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں اپنے دو چچا زاد بھائیوں کے ساتھ نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم کے پاس حاضر ہوا ان میں سے ایک بولا- اللہ کے رسول ہمیں کسی ملک کی حکومت دے دیجئے ان ملکوں میں سے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو دئیے ہیں اور دوسرے نے بھی ایسا ہی کہا آپ نے فرمایا اللہ کی قسم ہم نہیں دیتے اس شخص کو جو اس کو مانگے اور نہ اس کو جو اس کی حرص کرے۔ (مسلم:)
پاکستان کے جمہوری نظام میں دو افراد الیکش میں حصہ لینے کے لئے کسی کو نامزد کرتے ہیں!
غرض یہ ایک طاغوتی نظام ہے جس کی ترویج و اشاعت میں یہود و نصاریٰ دن رات لگے رہتے ہیں - ورنہ اگر یہ نظام حکومت جائز یا مستحسن ہوتا تو یہ کافر دن رات اس کی حمایت میں اپنا وقت کیوں برباد کرتے ؟؟-
فَمَنْ یَّکْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَ یُؤْمِنْم بِاللّٰہِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰی ق لَاانْفِصَامَ لَھَا ط وَاللّٰہُ سَمِیْعٌ عَلِیْم ٌ سوره البقرہ
پس جس نے طاغوت سے کفر کیااور اللہ پر ایمان لایا وہ ایک مضبوط سہارے سے یوں وابستہ ہو گیا کہ کبھی اس سے جدا کیا جانے والا نہیں اور اللہ سنتا و جانتا ہے۔
الله ہماری صحیح راستے کی طرف رہنمائی فرمایے (آمین)-
یہ کون سا قاعدہ ہے کہ یہود ونصاری کا اختیار کردہ یا ایجاد کردہ ہر نظام باطل ہی ہے!
ویسے ایک بات بتلائیے گا یہ دینار کا نظام جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار کیا، وہ کس کا بنایا ہوا نظام تھا؟