• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آپ کے مسائل اور ان کا حل

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
نماز میں قرآن مجید دیکھ کر قرأ ت کرنا

س: نماز تراویح میں قرآن ہاتھ میں اٹھا کر پڑھا جا سکتا ہے ۔ صحابہ کرام کی اس سے کیا دلیل ہے۔ احانف کہتے ہیں کہ یہ عمل کثیر ہے اور عمل کثیر سے نماز ٹوٹ جاتی ہےا س بات کی وضاحت فرمائیں۔

ج: نماز میں قرآن مجید کو اٹھا کر قرأت کرنا جائز و درست ہے لیکن اسے معمول نہیں بنانا چاہئے اس کی لدیل یہ ہے کہ بکاری شریف میں آتا ہے کہ :
'' سیدہ عائشہ رضی اللہ عن کی امامت ان کا غلام ذکوان قرآن دیکھ کر کرتا تھا ''۔(بخاری ۱/۱۷۷)

ابو داؤد نے کتاب المصاحف میں اس اثر کو بطریق ایوب عن ابن ابی ملیکہ اور اسی طرح ابن ابی شیبہ نے وکیع عن ہشام بن عروۃ عن ابن ابی ملیکہ اور امام شافعی اور عبدالرزاق نے بھی اس کو دوسرے واسطوں سے موصولاً بیان کیا ہے۔
امام مر وزی نے قیام الیل ١٦٨ پر لکھا ہے کہ امام ابن شہاب زہری سے ایسے آدمی کے متعلق سوال کیا گیا جو رمضان میں لوگوں کی امامت قرآن سے دیکھ کر کرتا تھا ۔ تو امام زہری نے فرمایا جب سے اسلام آیا ہے اس وقت سے وہ لوگ جو ہم سے بہتر تھے قرأ ت قرآن مجید سے کرتے رہے ہیں ۔
اس کے علاوہ امام مر وزی نے امام ابراہیم بن سعد، فتاوہ ، سعید بن سمیب ، ایوب، عطاء ، یحییٰ بن سعید ، بعداللہ بن وہب اور امام احمد بن جنبل سے اس کا جواز نقل کیا ہے۔ نماز میں قرآن مجید سے قرأ ت کرنے سے امام ابو حنیفہ کے نزدیک نماز فاسد ہو جاتی ہے لیکن ان کے شا گردوں قاضی ابو یوسف اور امام محمد نے اس مسئلہ میں انکی مخالفت کی ہے جیسا کہ ہدایہ ۱/۱۳۷ پر لکھا ہے کہ واذا فر الامام من المصحف فسدت صلاتہ عند ابی حنفیۃ وقالا ھی ما مۃ جب امام قرآن مجید دیکھ کر قرأ ت کرے تو اما م ابو حنیفہ کے نزدیک نماز فاسد ہو جاتی ہے جب اکہ انکے شاگردوں کے نزدیک نماز پوری ہو جاتی ہے ( فاسد نہیں ہوتی ) امام ابو حنیفہ پر تعجب ہے کہ ان کے نزدیک اگر نمازی قرآن دیکھ کر قرأت کرے تو نماز فاسد لیکن اگر نماز میں کسی عورت کی طرف بنظر شہوت دیکھے تو نماز فاسد نہیں ۔ امام بن نجیم حنفی الا شباہ والناظئر ٤١٨ پر لکھا ہے کہ ولو نظر المصلی الی المحصف و قراء منہ فسدت صلوٰتہ لا الی فرج امراہ بشھوۃ
علماء احناف کا اسے عمل کثیر کہہ کر رد کرنا تحکم اور سراسر باطل ہے اگر اتنے عمل کو عمل کثیرہ کہہ کر نماز کو باطل قرار دے دیں تو اس قدر عمل کثیر نماز کے اندر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے ۔ جیسا کہ صحیح بخاری میں آتا ہے کہ :
'' ابو قتادۃ انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امامہ بنت زینب بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے ہوئے اٹھائے رہتے تھے۔ ابو العاص بن ربیعہ بن عبد شمس کی حدیث میں ہے کہ جب سجدہ میں جاتے تو اتار دیتے اور جب قیام فرماتے تو اٹھا لیتے ''۔(بخاری۱/۱۳۷)

اسی طرح بخاری شریف میں آتا ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک رات ام المومنین میمونہ کے گھر سویا اس رات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی وہیں سونے کی باری تھی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضوکیا اور نماز پڑھنے کیلئے کھڑے ہو گئے اور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بائیں طرف کھڑا ہو گیا اس لئے آپ نے مجھے پکڑ کر دائیں طرف کر دیا''۔

ان ہر دو حدیثوں سے سے یہ بات واضھ ہوتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا امامہ بنت زینب رضی اللہ عنہا کو اٹھا کر نماز پڑھنا اور ابن عبس رضی اللہ عنہ کو بائیں طرف سے دائیں طرف کرنا عمل کثیر نہیں اور اس سے نماز فاسد نہیں ہوتی قرآن دیکھ کر قرأ کرنا بھی عمل کثیر نہیں اور نہ ہی اس سے نماز فاسد ہوتی ہے عمل کثیر احناف کا من گھڑت مفروضہ ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں اور تعجب اس بات پر ہے کہ حنفی اسی قانون کی خود بھی کئی مقامات پر مخالفت کرتے ہیں جیسا کہ رد مختار صفحہ ۲۰پر ہے کہ کتے کے بچے کو اٹھا کر نماز پڑھنا جائز ہے اور منیۃ المصلی ۱۰۰پر ہے کہ نماز میں ٹھہر ٹھہر کر جوئیں مارنے سے نماز فاسد نہیں ہوتی ۔ تو کیا کتے کے بچے کو اٹھا کر نماز پڑھنا اور نماز میں جوئیں مارنا عمل کثیر نہیں احناف کا وطیرہ ہے کہ جو حدیث قولِ امام کے خلاف ہو اسے حیل و حجت سے رد کر دیتے ہیں اور جو قول امام کے موافق ہو خوا وہ کتنی ہی ضعیف کیوں نہ ہو وہ ان کے ہاں حجت ٹھہرتی ہے۔ جیسا کہ اس کی مثالیں نور الا نوار، اصول شاشی ، اصول بز ودی وغیرہ جو احناف کی معتبر کتب ہیں ان میں موجود ہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
نماز میں سورتوں کی ترتیب

س: کیا نماز کے اندر ترتیب قران کے مطابق سورتیں پڑھنی چاہئیے یا آگے پیچھے کر کے بھی پڑھ سکتے ہیں ؟ ہمارے اما م صاحب نماز میں ترتیب قرآن کا لحاظ نہیں رکھتے۔ سورتوں میں تقدیم وتاخیر کر جاتے ہیں ، کیا یہ درست ہے ؟

ج: امام کا موجودہ ترتیب قرآن سے ہٹ کر سورتوں کو نماز میں تقدیم و تاخیر سے پڑھنا درست ہے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور سلف صالحین رحمہ اللہ سے اس کا ثبوت ملتا ہے ۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح '' باب الجمع بین السورین فی الرکعۃ والقراۃ بالخواتیم و بسورۃ قبل سورۃ و بال سورۃ ''کا عنوان قائم کیا ہے ۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ دو سورتیں ایک رکعت میں پڑھنا یا سورتوں کی آخری آیات یا سورتوں کی پہلی آیات پڑھنا جائز ہے یا نہیں ۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کے جواز کیلئے کچھ آثار و احادیث نقل کی ہیں۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک انصاری مسجد قبا میں ان کی امامت کراتا تھا ۔ وہ جب بھی کوئی سورۃ پڑھتا تو پہلے قل ھو اللہ احد پڑھتا پھر اس کے بعد کوئی اور سورۃ اس کے ساتھ ملاتا اور ہر رکعت میں اسی طرح کرتا تو اس کی قوم نے اسے کہا تم قل ھو اللہ پر اکتفا کیوں نہیں کرتے بلکہ اس کے بعد اور سورۃ ملاتے ہو تو صرف قل ھو اللہ پڑھ لیا کرو یا اسے چھوڑ کر کوئی دوسری سور ۃپڑھا کرو تو اس نے جواب دیا کہ میں یہ کام ترک نہیں کروں گا۔ اگر تم پسند کرو گے تو تمہاری امامت کروں گا ۔ اور اگر تم نا پسند کرتے ہو تو امامت چھوڑ دیتا ہوں ۔ قو م نے ان کے علاوہ کسی کی امامت کو پسند نہ کیا کیونکہ وہ ان تمام سے افضل تھا ۔ جب اس قوم میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کی خبر دی تو آپ نے اس سے کہا تجھے اپنےساتھیوں کی بات ماننے سے کونسی چیز روکتی ہے اور ہر رکعت میں اس سورۃ کے لازمی پڑھنے پر تجھے کس چیز سے ابھارا ہے ، توا سنے کہا ، مجھے اس سورۃ سے محبت ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، تیری اس سورۃ کے ساتھ محبت تجھے جنت میں داخل کردے گی ۔

مندرجہ بالا حدیث سے معلوم ہوا کہ سورتوں کی تقدیم و تاخیر ہو سکتی ہے ۔ اگر یہ درست نہ ہوتی تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم منع کر دیتے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے منع نہیں کیا اور نہ ہی اسے امت سے علیحدہ کیا ۔
اسی طرح مسلم کی ایک روایت میں آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کےا ندر پہلے سورۃ بقرہ پڑھی پھر نساء اور پھر آل عمران۔ حالانکہ آل عمران سورۃ نساء سے پہلے آتی ہے۔ بخاری شریف میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں آتا ہے کہ انہوں نے صبح کی نماز میں پہلی رکعت میں سورۃ کہف اور دوسری میں سورۃ یوسف یا یونس پڑھی ۔
مندرجہ بالا احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز میں ترتیب قرآنی ضروری نہیں اس میں تقدیم و تاخیر درست ہے
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
سجدہ میں گھٹنے پہلے رکھیں یا ہاتھ

س: کیا نماز ادا کرتے ہوئے جب سجدہ کو جائیں تو پہلے ہاتھ رکھیں یا گھٹنے ؟ صحیح حیدث کی رُو سے وضاحت فرمائیں۔

س: نماز میں سجدہ کو جاتے ہوئے پہلے ہاتھ رکھنا ہی صحیح ہے جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمای ا:
'' جب تم میں سے کوئی سجدہ کرے تو اونٹ کی طرح نہ بیٹھے بلکہ اپنے ہاتھ گھٹنوں سے پہلے رکھے ''۔

اس حدیث کی سند جید ہے ۔ امام نووی رحمہ اللہ ، امام زرقانی رحمہ اللہ ، امام عبدالحق اشبیلی رحمہ اللہ ، علامہ مبارک پوری رحمہ اللہ نے اس کو صحیح کہا ہے ۔ حافظ ابن حجر عسقلانی نے کہا یہ حدیث سید ناوائل بن حجر والی حدیث سے زیادہ قوی ہے ۔ ملا حظہ ہو مجموعہ۳ ٣/۴۲۱ ٤٢١ تحفۃ الا حوذی ۱١/۲۲۹ ٢٢٩ بلوغ المرام مع سبل السلام ۱١/ ۳۱۶٣١٦) اس حدیث کی شاہد حدیث سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ والی حدیث بھی ہے ۔ نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ گھٹنوں سے پہلے اپنے ہاتھ رکھا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا ہی کیا کرتے تھے ۔ یہ حدیث ابن خزیم (۶۲۷) دارقطنی۱/۳۴۴، بیہقی۲/۱۰۰ حاکم۱/۲۲۶ میں ہے۔ اس حیدث کو امام حاکم نے مسلم کی شرط پر صحیح کہا ہے اور امام ذہنی نے ان کی موافقت کی ہے ۔ جو لوگ سجدہ جاتے ہوئے پہلے گھنٹے رکھنے کے قائل ہیں ۔ وہ یہ روایت پیش کرتے ہیں ۔
'' وائل بن حجر رحمہ اللہ سے رویات ہے کہ میں نےر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ کرتے تو دونوں گھنٹے ہاتھوں سے پہلےز مین پر رکھتے اور جب سجدے سے اٹھتے تو دونوں ہاتھ گھٹنوں سے پہلے اٹھاتے ''۔ ( ابو داؤد (۸۳۸) ، نسائی۲/۲۰۶، ترمذی (۲۷۸) ، ابن ماجہ (۸۸۲) ، دارمی ۱/۳۰۳، ابن خزیمہ (۶۲۶)، طحاوی۱/۲۵۵، ابن حبان (۴۸۷) ، دارقطنی ، ۱/۳۴۵، بیہقی ۲/۹۸، شرح السنہ (۶۴۲)
لیکن یہ روایت ضعیف ہے اس کی سند میں شریک بن عبداللہ القاضی ضعیف راوی ہیں ۔ تفصیل کیلئے ملاحظہ ہو سلسلۃ الاحدیث الضعیفۃ۲/۳۲۹)۔

مذکورہ بالا تفصیل سے یہ بات ظاہر ہو جاتی ہے کہ راحج اور قومی مذہب کی یہی ہے کہ سجدے میں جاتے وقت آدمی گھٹنوں کے بجاے پہلے اپنے ہاتھ زمین پر رکھے۔ امام اوزاعی، امام مالک، امام ابنِ خمر رحمہ اللہ اور ایک روایت کے مطابق امام احمد بن جنبل کا بھی یہی مذہب ہے۔
حدیث وائل بن حجرکو اگر صحیح یتسلیم کر لیا جائے تو پھر بھی ترجیح اسی موقف کو ہے۔ اسلئے کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث قولی ہے اور وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی حدیث فعلی ہے اور تعارض کی صورت میں قولی حدیث کو فعلی حدٰث پر ترجیح دی جاتی ہے اور سیدنا ابو ہریرہ رحمہ اللہ کی حدیث کی شاہد ابن عمر رضی اللہ عنہ والی صحیح حدیث بھی ہے۔ علاوہ ازیں سیدنا ابو ہریرہ رحمہ اللہ کی حدیث میں ہاتھوں سے قبل گھنٹے رکھنے کی مامنعت ہے اور تعارض کی صورت میں ممانعت والی رویات کو لیا جات اے ۔ تفصیل کیلئے دیکھیں ۔(محلی ابن حزم ۴/۱۲۹، ۱۳۰)
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
سجدہ سہو کی صورتیں

س: نماز میں بھول کر ایک رکعت کم پڑھی جائے تو کیا کیا جائے؟ پوری نماز دہرائی جائے یا صرف ایک رکعت پڑھی جائے نیز سجدہ سہو کی صورت کیا ہو گی ۔ حنفی حضرات ایک طرف سلام پھیر کر سجدے کرتے ہیں اور التحیات دوبارہ پڑھتے ہیں اس کی اصل کیا ہے ؟

ج: اگر کوئی آدمی بھول کر ایک رکعت کم پڑھ لے یا اسے پھر یاد آجائے کہ میں نے ایک رکعت کم پڑھی ہے تو اسے پوری نماز دہرانے کی بجائے ایک رکعت ہی ادا کرنی چاہئے جیسا کہ صحیح مسلم۲/۸۷ پر سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصری کی نماز پڑھائی اور تین رکعت ادا کر کے سالم پھیر دیا پھر اپنے گھر چلے گئے پھر ایک شخص جسے خرباق کہا جاتا تھا اس نےر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جا کر بتایا کہ نماز میں سہو واقع ہوا ہے ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم غصے کی حالت میں اپنی چادر کھینچے ہوئے لوگوں کے پاس آئے اور پوچھا :
'' کیا اس نے سچ کہا ہے صحابہ رضی اللہ تعالٰی عنہم نے کہا ہاں ! پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رکعت نماز دا کی پھر دو سجدے کیے پھر سلام پھیرا ''۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کسی آدمی کی نماز ایک رکعت کم ہو گی اور اس نے تین رکعت ادا کر لی ہوں اگر چہ اس دوران کچھ باتیں بھی ہو چکی ہیوں تو وہ بقیہ ایک رکعت ہی ادا کر کے سلام پھیرے اور سجدہ سہو کرے۔
سجدہ سہو کے بارے میں دو قسم کی احادیث مروی ہیں ایک حدیث میں سلام سے قبل سجدہ سہو کا ذکر ہے اور ایک حدیث میں سلام کے بعد سجدہ سہو کا ذکر ہے جیسا کہ مسلم کی ایک روایت میں آتا ہے کہ :
'' کہ پھر سلام سے قبل دو سہو کے سجدہ کرے ''۔

جس کا طریقہ یہ ہے کہ آخری قعدہ میں تشہد درود اور دُعا کے بعد االلہ اکبر کہہ کر سجدے میں جائے پھر اٹھ کر بیٹھ جائے پھر سجدہ کرے سلام پھیر دے سلام سے قبل سجدہ سہو کا جو طریقہ ہے وہ متفق علیہ اور جودہ سہو سلام کے بعدمذکور ہے وہ متفق علیہ تو نہیں لیکن صحیح حدیث سے ثابت ہے اور جائز عمل ہے ۔
احناف کے ہاں جو سجدہ کا طریقہ معروف ہے کہ التحیات عبدہ و رسولہ تک پڑھ کر ایک طرف سلام پھیرا جائے پھر پورا تشہد پڑھ کر سلام پھیر دیا جائے ۔ یہ طرقیہ کسی صحیح حدیث میں موجود نہیں اسکی کوئی اصل نہیں ۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
سجدہ میں پاؤں کی حالت

س: حالت سجدہ میں پاؤں کس طرح رکھنے چہائیں۔ کیا ایڑیوں کو ملانا ہے یا نہیں ؟قر آن و سنت کی روشنی میں جواب دیں ۔

ج: سجدہ کی حالت میں دونوں پاؤں کو ملا کر کھڑا رکھنا چہائے اور پاؤں کی انگلیوں کو قبلہ رو کرنا چہائے اور دنوں ایڑیاں ملا کر رکھنی چاہئیں۔ حدیث پاک میں آتا ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے بستر پر تھے اور رات کو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بستر پر نہ پایا تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تلاش کرنا شروع کیا:
میرا ہاتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں کے تلوں پر لگا۔ آپ سجدہ کے حالت میں تھے اور آپ کے قدم مبارک کھڑے تھے ۔
اسی طرح ایک د وسری روایت میں آتا ہے :
میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سجدے کی حالت میں اس طرح پایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ایڑیوں کو ملانے والے اور اپنی انگلیوں کے سروں کو قبلہ رخ کرنے والے تھے ''۔(صحیح ابن خزیمہ۱/۱۲۸، سنی کبری بیہقی۱/۱۱۶، مستدرک حاکم ۱/۱۲۸ )
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
پہلے تشہد میں درود

س: کیا نماز کے اند ر پہلے تشہد میں درود پڑھنا سنت ہے ؟ قرآن وسنت کی رو سے وضاحت کریں ؟

ج: قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
'' بے شک اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر صلوٰۃ بھیجتے ہیں اے ایمان والو تم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر صلاۃ و سلام بھیجو ''۔(الاحزاب : ۵۶)

اس آیت کریمہ کا حکم عام ہے اور یہ نماز کو بھی شامل ہے۔ کیونکہ جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی تو صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے آکر سوال کیا کہ ہم نے سلام کہنا تو سیکھ لیا ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں بتائیں کہ ہم صلاۃ کیسے پڑھیں اور بعض روایات میں نماز کی صراحت بھی آتی ہے جیسا کہ سنن دارقطنی میں حدیث ہے :
'' ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، ایک آدمی آیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھ گیا ۔ اور ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے اس نے کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سلام تو ہم نے جان لیا ہے پس ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر صلاۃ کیسے بھیجیں جب ہم نماز پڑھ رہے ہوں ۔ توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اللھم صل علی الخ کہو ''۔ (سنن دارقطنی۱/۳۵۵)

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم نماز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام تو پہلے ہی پڑھتے تھے لیکن جب یہ آیت نازل ہوئی توا سکے بعد انہوں نے سالم کے ساتھ صلاۃ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھی۔
مذکورہ بالا آیات سورہئ احزاب کی ہے جو ٥ھ کو نازل ہوئی ۔ا س آیت میں اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر صلاۃ و سالم پڑھنے کا حکم دیا تو صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم جو تشہد میں سلام جو پہلے ہی پڑھتے تھے۔ اب انہوں نے نے اس کے ساتھ صلاۃ کا بھی اضافہ کر لیا ۔ یعنی جہاں سلام پڑھنا ہے، اس کے ساتھ ہی صلاۃ پڑھی ہے یہ دونوں لازم و ملزوم ہیں ۔ اگر ہم پہلے تشہد میں صرف سلام پڑھیں ، صلاۃ نہ پڑھیں تو وسلمو تسلیماً پر تو عمل ہوگا لیکن صلو ا علیہ پر عمل نہیں ہوگا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آخری تشہد سے پہلے تشہد میں صلاۃ پڑھنا صحیح حدیث سے ثابت ہے ۔ سعد بن ہشام سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قیام اللیل کے متعلق روایت کرتے ہیں اور کہتے ہیں :
'' میں نے کہا اے اُم المؤ منین ، آپ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وتر کے متعلق بتائیں تو انہوں نے کہا ہمر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے مسواک اور طہارت کیلئے اپنی تیار کر دیتے ۔ رات کے وقت جب اللہ تعالیٰ چاہتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اٹھا دیتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسواک کرتے اور وضو کرتے پھر نو رکعتیں ادا کرتے آٹھویں کے سوا کسی رکعت میں نہیں بیٹھتے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں اپنے رب سے دعا کرتے اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے پھر کھڑے ہو جاتے اور سلام نہیں پھیرتے تھے۔ پھر نویں رکعت ادا کر کے بیٹھتے اور اللہ کی حمد اس کے نبی پر درود بھیجتے اور دعا کرتے پھر سلام پھیر دیتے۔ (مسند ابی عوانہ ۲/۳۲۴، بہیقی۲/۵۰۰، سنن نسائی )

اس حدیث میں واضح ہو گیا کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آکری قعدہ سے پہلے والے قعدہ میں درود پڑھا ۔ لہٰذا ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق آخری قعدہ سے پہلے والے قعدہ میں دورود پڑھنا چاہئے۔
نوٹ: اس مسئلہ پر دوسرے فریق کے دلائل بھی موجود ہیں انشاء اللہ بعد میں ان پر مفصل بحث کریں گے۔ بہر حال یہ ایک فریق کا موقف ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
تشہد میں انگلی کو حرکت کس وقت دیں ؟

س: تشہد میں انگلی کو حرکت دینے کے بارے میں دو طرح کی احادیث آتی ہیں ایک میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انگلی کو حرکت دیتے تھے۔ دوسری میں ہے ، نہیں دیتے تھے۔ ان احادیث کی وضاحت کریں اور یہ بھی بتلائیں کہ تشہد میں انگلی کو حرکت کس وقت دینی ہے؟

ج: تشہد میں سبابہ انگلی کو حرکت دینا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے ثابت ہے جیسا کے وائل بن حجر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی حدیث ٘میں یہ لفظ ہیں: کہ میں دیکھا نبی صلی اللہ عیہ وسلم نے اپنی انگلی کو اٹھایاپھر اس کو حرکت دیتے رہے اور دعا کرتے رہے ''۔ (صحیح سنن النسائی ،ج۱١، ص۱۹۴)
'' کہ اس حدیث میں ہے کہ انگلی کو تشہد میں ہمیشہ حرکت دیتے رہنا ہے کیونکہ دعا تشہد کے بعد ہوتی ہے''۔

علامہ ناصر الدین البانی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں :
' ' اس حدیث میں دلیل ہے کہ سنت طریقہ یہ ہے کہ انگلی کا اشارہ اور حرکت سلام تک جاری ر ہے کیونکہ دعا سلام سے متصل ہے''۔(صفۃ صلوۃ النبی/۱۵۸)
اس کے علاوہ صرف ایک مرتبہ انگلی اٹھا کر رکھ دینا یا اشھد ان الا الہ الا اللہ پر اٹھانا ، اس کے بار ے میں صحیح احادیث کی کوئی لدیل نہیں ملتی جبکہ یہ عمل مذکورہ ہے حدیث کے منافی ہے ۔ جس روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشہد میں انگلی کو حرکت نہیں دیتے تھے وہ حدیث بھی ضعیف ہے ۔ کیونکہ اس میں محمد بن عجلان عامر بن عبداللہ بن الزبیر سے بیان کرتا ہے اور محمد بن عجلان متکلم فیہ راوی ہے۔ اس کے عالوہ چار ثقہ راویوں نے عامر بن عدباللہ سے اسی روایت کو بیان کیا ہے لیکن اس میں لایحر کھا کا لفظ نہیں ہے۔معلوم ہوا یہ لفظ شاذ ہے۔ امام مسلم نے بھی محمد بن عجلان کے طریق سے اسی روایت کو ذکر کیا ہے اس میں بھی لا یحر کھا کا لفظ نہیں ہے ۔ جبکہ اس کے مقابلے میں وائل بن حجر والی روایت کو ابن المقلن، ابن القیم، امام نودی کے علاوہ علامہ ناصر الدین البانی نے بھی صحیح قرار دیا ہے۔ صرف اہلدایہ فی تخریج احادیث کو شاذ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ یحر کھا والے لفظ صرف زائدہ بن قدامہ عاصم بیان کرتا ہے زائد کے علاوہ عاصم کے دوسرے شاگرد یشیر بیدہ کا لفظ ذکر کتے ہیں ۔ لیکن یہ بات تحقیق اور انصاف سے عاری ہے۔

پہلی بات تویہ ہے کہ سب محدثین نے اس حدیث کی صحت کو تسلیم کیا ہے جیسا کہ معلوم ہو چکا ہے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ اشاری والی حدیث کے ثبوت سے حرکت دینے کی نفی نہیں ہوتی ۔ مثال کے طور پر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی صحیح حدیث ہے۔ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ رضی اللہ تعالٰی عنہم کو بیٹح کر نماز پڑھا رہے تھے اور صحابہ پیچھے کھڑے تھے فا شار الیھم ان اجلسو ا ان کی طرف اشارہ کیا کہ بیٹھ جاؤ۔ تفق علیہ ۔

اس حدیث سے ہر عقلمند آدمی یہ سمجھے گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اشارہ صرف ہاتھ کو اٹھا دیان نہیں تھا جیسا کہ سلام کے جواب میں کرتے تھے۔ بلکہ اشارہ تھا جس میں سمجھ آتی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھنے کا حکم دے رہے ہیں ۔ یہ اشارہ حرکت کے بغر ہو ہی نہیں سکتا۔
اس مثال سے یہ بات واضح ہو گیا کہ ا شارہ والی احادیث کو تحریک والی احادیث کے مخلاف قرار دیان درست نہیں ہے۔ اس طرح بعداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ والی روایت ہے کہ :
'' یہ انگلی شیطان کلئے ہوے سے بھی زیادہ سخت ہے ''۔

اس حدیث کو حرکت نہ دینے کی دلیل نہیں بنایا جا سکتا کیونکہ اس میں حرکت دینے یا نہ دینے کی صراحت موجود ہی نہیں ہے جبکہ حرکت دینا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی حدیث سے ثابت ہو چکا ہے اگر اس کو تسلیم کرلیں کہا س مٰن حرکت نہ دینے کی صراحت ہے تو پھر صرف اتنا کہہ سکتے ہیں کہ دونوں امر جائز ہیں جیسا کہ علامہ صنعانی نے سبل اسلالم میں اےس ترجیح دی ہے۔ لیکن پہلی بات زیادہ پختہ ہے کیونکہ وائل بن حجر رضی اللہ عنہ ایک خاص اہتمام کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا طریقہ بیان کر رہے ہیں اور خاص کر تشہد کی ھالت کا اور تشہد میں ایسی چیزں انہو ں نے بیان کی ہیں جو زیادہ کسی نے بیان نہیں کیں۔ اس لئے ان کی روایت کو ترجیح ہو گی۔ واللہ اعلم
زیادہ تفصیل کیلئے علامہ ناصر الدین البانی کی کتاب تمام المنہ کی طرف رجوع کیا جا سکتا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
نماز کے بعد اجتماعی دُعا کا مسئلہ

س: ہمارے یہاں راولپنڈی کی مرکزی مسجد میں مدینہ یونیورسٹی کے ایک فاضل عالم دین ہیں وہ فرض نماز کے بعد اجتماعی دعا کا اہتمام ضرور کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میں لوگوں کو اہستہ آہستہ قریب لانے کیلئے کر لیتا ہوں۔ اس بارے میں شرعی وضاحت فرمائیں کہ یہ اجتماعی دُعا جو فرضوں کے بعد مانگی جاتی ہے اس کا کیا ثبوت ہے ؟

ج: اجتماعی دُعا جو فرضوں کے بعد کی جاتی ہے، اس کا پابندی سے اہتمام کرنا بدعت ہے جس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم سے کوئی ثبوت نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ طیبہ میں دس سال پانچوں نمازیں پڑھائیں۔ صحابہ رضی اللہ تعالٰی عنہم کی کثیر تعداد نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پڑھیں مگر ان میں سے کسی ایک نے بھی اس اجتماعی دعا کا اہتمام کا ذکر نہیں کیا۔ اس مسئلہ کے بارے میں مصنف ابنِ ابی شیبہ سے یہ روایت پیش کی جاتی ہے کہ یزید عامری کہتے ہیں کہ:
'' رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ میں نے فجر کی نماز پڑھی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب سلام پھیرا تو صحابہ کی طرف متوجہ ہوئے اور ہاتھ اٹھا کر دُعا کی''۔
اگر چہ اس کی سند حسن ہے مگر ابن ابی شیبہ میں و رف ع یدیہ و دعا ( ہات اٹھائے اور دعا کی ) کے الفاظ نہیں ہیں ۔
یہ روایت جس طویل روایت کا اختصار ہے وہ اسی سند کے ساتھ مسند احمد، ترمذی ، ابو داؤد ، نسائی ، دارقطنی ، مسدرک حاکم، بہیقی، ابن حبان، ابن سکن مصنف عبدالرزاق موجود ہے مگر اس میں مندرجہ بالا الفاظ نہیں ہیں۔ اسی طرح باقی روایات کا حال ہے یہی وجہ ہے کہ کبار علماء محدثین نے اسے بدعت کہا ہے چنانچہ شیخ الاسلام امام ابن تیمہ الفتاوی الکبری ۱/۱۸۴ پر ایک سائل کے جواب میں لکھتے ہیں ۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
امام اور مقتدی فرضی نماز کے بعد دعا کرنا

س: ج امام اور مقتدی فرضی نماز کے بعد دعا کریں تو یہ جائز ہے یا نہیں ؟

ج: نماز کے بعد اما م او رمقتدیوں کا مل کر دُعا کرنا بدعت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں یہ طریقہ نہ تھا سوائے اس طریقہ اس طریقہ کے کہ آپ دُعا نماز کے اندر مانگتے تھے کیونکہ نمازی اپنے رب کے ساتھ مناجات کرتا ہے پس مناجات کے وقت دُعا کرنا اس لئے مناسب ہے اور نماز کے بعد سنت کے مطابق ذکرنا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے ۔ یعنی لا الہ الا اللہ اکبر کہنا۔
(مجموعہ الفتاوی۲۲/۵۱۹)
امام شا طبی کتاب الاعتصام۱/۲۵۲ میں بدعات اضافیہ سے مفصل بحث کے نتیجے میں ایک جگہ راقم ہیں ۔ امثلۃ ھذا الاصل التزام الدعاء بعدا لصلوٰت بالھیئۃ الاجمتاع مقصود اس سے یہ ہے کہ اس چیز اصل میں صحیح اور نا جائز ہوتی ہے مگر تخصیص کی وجہ سے بدعت ہو جاتی ہے نماز کے بعد اجتماعی صورت میں دُعا کو ضروری سمجھنا اور پاندی کرنا اسی قسم سے ہے۔ اسی طرح ایک ا ور مقام پر لکدھتے ہیں :
'' اجتماعی شکل میں دُعا مانگنے اور ذکر کرنے میں جس کیلئے اہل بدعت جمع ہو کر مانگتے ہیں سلف صالحین سے منع وارد ہے۔" البتہ اگر کوئی شخص دُعا کیلئے اپیل کرے تو پھر ہاتھ اٹھا کر دُعا مانگی جا سکتی ہے ۔
(تحفہ الا حوذی )
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
امامت کے احکامات

س: نماز پنج گانہ میں امامت کون کروا سکتا ہے ؟ امام کیلئے کیا احکام ہیں ؟

ج: امام کے احکامات کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے ۔ سیدنا ابو مسعود انصاری سے مروی ہے ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
'' لوگوں کا امام ہونا چاہئے جو ان میں اچھی طرح قرآن کی قرأ جانتا ہو۔،۔ اگر وہ قراٌ مین برابر ہوں تو پھر وہ امامت کرائے جو سنت کو زیادہ جاننے والا ہو ، اگر سنت میں برابر ہو تو جوان میں سے ہجرت میں مقدم ہو، اگر ہجرت میں بھی برابر ہوں تو سب سے پہلے اسلام لانے والا ہو، کوئی آدمی دوسرے آدمی کی جگہ امامت نہ کرائے اور نہ اس کے گرھ میں اس کے اپنی بیٹھنے والی جگہ پر بیٹھے مگر اس کی اجازت لے کر ''۔( مسلم۱/۴۶۵(۶۷۳)

حدیث کے بعض فرق میں اسلا م کی جگہ عمر کا بھی ذکر آتاہے۔ اس روایت سے معلوم ہوا کہ قاری قرآن پھر سنت کا عالم علی الترتیب امامت کا انتخاب ہونا چاہئے اور جو امام منتخب ہو اس کیلئے لازم ہے کہ وہ اپنے مقتدیوں کا لحاظ رکھتے ہوئے امامت کرائے کیونکہ اس کے پیچھے بچے، ضیعف ، بیمار، مسافر اور مختلف قسم کے افراد ہوتے ہیں، لہٰذا نہ ہی زیادہ لمبی نماز پڑھے اور نہ ہی اس قدر مختصر ہو کہ قیام، رکوع و جود وغیرہ کا بھی خیال نہ رکھے۔
نوٹ: یاد رہے کہ حنفی حضرات نے امامت کے متعلق کچھ لا یعنی فضلو اور مضحکہ خیز شرائط ذکر کی ہیں جیسا کہ در مختار میں امامت کے بیان میں امامت کی مختلف شرائط ذکر کرتے ہوئے یہ بھی لکھا مارا کہ امام کی بیوی سب سے حین ہو ، امام کا سر بڑا ہو ، امام کا آلہ تناسل چھوٹا ہو وغیرہ یہ شرائط انتہائی مضحکہ خیز اور باعث عار ہیں جن کا کتاب و سنت میں کہیں بھیو جود نہیں پایا جاتا نہ کسی صحیح سند سے اور نہ ہی کسی ضعیف سند سے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں کتاب و سنت جیسی عظیم شاہراہ پر ہی قائم رکھے۔ آمین
 
Top