• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آپ کے مسائل اور ان کا حل

شمولیت
جون 10، 2011
پیغامات
22
ری ایکشن اسکور
48
پوائنٹ
52
حائضہ عورت کا قرآن پڑھنا

س: کیا حائضہ عورت قرآن مجید کی تلاوت کر سکتی ہے؟ ہم ایک مدرسہ میں قرآن مجید حفظ کرتی ہیں ۔ بعض اہل علم کے بارہ میں ہمیں معلوم ہوا ہے کہ وہ جائز کہتے ہیں اور بعض اس سے روکتے ہیں ۔ ہمیں صرف قرآن و سنت سے اس مسئلہ کی وضاحت درکار ہے ۔ (بعض طلبات ، فیصل آباد۔م۔ن، بہاولپور )

ج: اس میں کوئی شک نہیں کہ اہل علم کی اس میں آراء مختلف ہیں ۔ امام بخاری، ابن جریر طبری، ابن المنذر ، امام مالک ، امام شافعی، ابراہیم نخصی رحمتہ اللہ علیہ ان سب کے نزدیک حائضہ عورت کا قرآن کی تلاوت میں کوئی مضائقہ نہیں ۔ راحج بات بھی یہی معلوم ہوتی ہے کیونکہ قرآن و سنت میں کوئی صریح اور صحیح دلیل موجود نہیں جس میں حیض والی عورتوں کو قرآن مجید کی تلاوت سے روکا گیا ہو اور یہ ظاہر ہے کہ عورتیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی حائضہ ہوتی تھیں ۔ اگر قرآن مجید کی تلاوت ان کیلئے حرام ہوتی تو اللہ کے رسول انہیں قرآن مجید کی تلاوت سے روک دیتے جسے طرح کہ نماز پڑھنے اور ورزہ رکھنے سے روک دیا تھا اور جب حیض کی کثرت کے باوجود کسی صحابی رسول نے یا اُمہات المؤ منین رضی اللہ عنہ میں سے کسی نے بھی امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی ممانعت نقل نہیں کی تو معلوم ہوا کہ جائز ہے۔ اب اس چیز کا علم ہونے کے باوجود کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی ممانعت بالکل منقول نہیں اس کو حرام کہنا درست نہیں ۔
یہ بھی یاد رہے کہ اس بار ے میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے جو حدیث مروی ہے کہ :
( ابو داؤد، ترمذی، ابن ماجہ )
یہ حدیث ضعیف ہے کیونکہ اس کی سند میں اسماعیل بن عیاش ہے۔ جب یہ شخص حجازیوں سے کوئی روایت بیان کرے تو وہ قابل اعتماد نہیں ہوتی اور یہ روایت حجازیوں سے ہے اور دوسری جابر بن عبداللہ کی حدیث کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
یہ حدیث بھی پایہ ثبوت کو نہیں پہنچتی ۔ اس کی سند میں محمد بن افضل ہے۔ جسے محدثین نے متروک الحدیث قرار دیا ہے ۔ یہ احادیث گھڑنے کا بھی اس پر الزام ہے ۔

یہی حدیث جابر رضی اللہ عنہ سے موقوفاً بھی مروی ہے۔ اس کی سند میں یحییٰ ابن عبی انیسہ ہے او ریہ کذاب ہے۔
امام شو کافی رحمتہ اللہ علیہ ان دونوں احادیث کے بارے میں لکھتے ہیں :
ان دونوں کے حدیثوں کو حائضہ عورت کیلئے قرآن مجید کی تلاوت کی ممانعت کی دلیل نہیں بنایا جا سکتا اور بغیر دلیل کے اسے حرام نہیں کہا جا سکتا۔
باقی مفتی اعظم شیخ ابنِ باز نے کہا ہے کہ ایسی عورت قرآن کو چھو نہیں سکتی۔ منہ زبانی پڑھ سکتی ہے لیکن مجھے اس کی کوئی دلیل نہیں ملی۔
کہ قرآں کو طہار کے سواء کوئی نہ چھوئے، سے اسے پر استدلال درست نہیں ہے کیونکہ الاطاہر کا معنی بخاری شریف ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ والی حدیث متعین کرتی ہے۔ کہ اس کا معنی ہے مومن کے سوا ء قرآن کو کوئی نہ چھوئے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔
 
شمولیت
جون 10، 2011
پیغامات
22
ری ایکشن اسکور
48
پوائنٹ
52
حائضہ عورت کا قرآن پڑھنا

س: کیا حائضہ عورت قرآن مجید کی تلاوت کر سکتی ہے؟ ہم ایک مدرسہ میں قرآن مجید حفظ کرتی ہیں ۔ بعض اہل علم کے بارہ میں ہمیں معلوم ہوا ہے کہ وہ جائز کہتے ہیں اور بعض اس سے روکتے ہیں ۔ ہمیں صرف قرآن و سنت سے اس مسئلہ کی وضاحت درکار ہے ۔ (بعض طلبات ، فیصل آباد۔م۔ن، بہاولپور )

ج: اس میں کوئی شک نہیں کہ اہل علم کی اس میں آراء مختلف ہیں ۔ امام بخاری، ابن جریر طبری، ابن المنذر ، امام مالک ، امام شافعی، ابراہیم نخصی رحمتہ اللہ علیہ ان سب کے نزدیک حائضہ عورت کا قرآن کی تلاوت میں کوئی مضائقہ نہیں ۔ راحج بات بھی یہی معلوم ہوتی ہے کیونکہ قرآن و سنت میں کوئی صریح اور صحیح دلیل موجود نہیں جس میں حیض والی عورتوں کو قرآن مجید کی تلاوت سے روکا گیا ہو اور یہ ظاہر ہے کہ عورتیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی حائضہ ہوتی تھیں ۔ اگر قرآن مجید کی تلاوت ان کیلئے حرام ہوتی تو اللہ کے رسول انہیں قرآن مجید کی تلاوت سے روک دیتے جسے طرح کہ نماز پڑھنے اور ورزہ رکھنے سے روک دیا تھا اور جب حیض کی کثرت کے باوجود کسی صحابی رسول نے یا اُمہات المؤ منین رضی اللہ عنہ میں سے کسی نے بھی امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی ممانعت نقل نہیں کی تو معلوم ہوا کہ جائز ہے۔ اب اس چیز کا علم ہونے کے باوجود کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی ممانعت بالکل منقول نہیں اس کو حرام کہنا درست نہیں ۔
یہ بھی یاد رہے کہ اس بار ے میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے جو حدیث مروی ہے کہ :
( ابو داؤد، ترمذی، ابن ماجہ )
یہ حدیث ضعیف ہے کیونکہ اس کی سند میں اسماعیل بن عیاش ہے۔ جب یہ شخص حجازیوں سے کوئی روایت بیان کرے تو وہ قابل اعتماد نہیں ہوتی اور یہ روایت حجازیوں سے ہے اور دوسری جابر بن عبداللہ کی حدیث کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
یہ حدیث بھی پایہ ثبوت کو نہیں پہنچتی ۔ اس کی سند میں محمد بن افضل ہے۔ جسے محدثین نے متروک الحدیث قرار دیا ہے ۔ یہ احادیث گھڑنے کا بھی اس پر الزام ہے ۔

یہی حدیث جابر رضی اللہ عنہ سے موقوفاً بھی مروی ہے۔ اس کی سند میں یحییٰ ابن عبی انیسہ ہے او ریہ کذاب ہے۔
امام شو کافی رحمتہ اللہ علیہ ان دونوں احادیث کے بارے میں لکھتے ہیں :
ان دونوں کے حدیثوں کو حائضہ عورت کیلئے قرآن مجید کی تلاوت کی ممانعت کی دلیل نہیں بنایا جا سکتا اور بغیر دلیل کے اسے حرام نہیں کہا جا سکتا۔
باقی مفتی اعظم شیخ ابنِ باز نے کہا ہے کہ ایسی عورت قرآن کو چھو نہیں سکتی۔ منہ زبانی پڑھ سکتی ہے لیکن مجھے اس کی کوئی دلیل نہیں ملی۔
کہ قرآں کو طہار کے سواء کوئی نہ چھوئے، سے اسے پر استدلال درست نہیں ہے کیونکہ الاطاہر کا معنی بخاری شریف ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ والی حدیث متعین کرتی ہے۔ کہ اس کا معنی ہے مومن کے سوا ء قرآن کو کوئی نہ چھوئے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔
یہ بھی یاد رہے کہ اس بار ے میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے جو حدیث مروی ہے کہ :
( ابو داؤد، ترمذی، ابن ماجہ )
ان میں جن احادیث کا ذکر ہے وہ تحریر نہیں ہیں
 

وجاہت

رکن
شمولیت
مئی 03، 2016
پیغامات
421
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
45
متعہ کیا چیز ہے؟

سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیبر کے دن متعہ سے منع فرما دیا اور گھریلو گدھوں کے گوشت سے۔'' (مسلم۱۴۰۷،۱۰۲۷)
صحیح مسلم میں ایک حدیث یہ بھی ہے
3427 . وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنِ الرَّبِيعِ بْنِ سَبْرَةَ، عَنْ أَبِيهِ، «أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى يَوْمَ الْفَتْحِ عَنْ مُتْعَةِ النِّسَاءِ

حکم : صحیح

معمر نے زہری سے، انہوں نے ربیع بن سبرہ سے، انہوں نے اپنے والد سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے (دنوں میں سے ایک) دن عورتوں کے ساتھ (نکاح) متعہ کرنے سے منع فرما دیا
 

Hina Rafique

رکن
شمولیت
اکتوبر 21، 2017
پیغامات
282
ری ایکشن اسکور
18
پوائنٹ
75
اگر کوئی کہیں کہ میں نے بیماری کے لیے کسی کمپنی میں ہر ماہ کچھ رقم جمع کرواتا ہوں اگر میں بیمار ہو جاوں تو کمپنی میرا فری علاج کروائے گی۔
اور میری رقم مجھے واپس نہیں ملے گی ۔اس کو کہتے ہیں میڈی کلیم
اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟؟؟ Amir بھائی
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
ماز جنازہ میں سلام ایک طرف پھیرا جائے یا دونوں طرف ؟
س: نماز جنازہ میں دونوں طرف سلام پھیرتے ہیں ۔ یہ عمل کیسا ہے ؟ اہل حدیث عامل ہیں جبکہ دار قطنی ، حاکم بیقہی نے ابو ہریرہ سے ایک طرف سلام پھیرنے کی روایت نقل کی ہے اور مسند شافعی میں سلام پھیرنے کا ذکر ہے مگر ایک یا دو کا ذکر نہیں وضاحت کریں ۔

ج: نماز جنازہ میں ایک طرف سلام پھیرنا بھی صحیح ہے اور دونوں طرف بھی ۔ ایک طرف سلام پھیرنے والی جس حدیث کی طرف سائل نے اشارہ کیا ہے ، وہ یہ ہے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے :
'' بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جنازہ پڑھا اس پر چار تکبیریں کہیں اور ایک سلام پھیر ا'' ( دار قطنی۱۹۱، حاکم۱/۳۶۰)

امام حاکم نے اس حدیث کے بعد فرمایا :
'' سیدنا علی سیدنا عبداللہ بن عمر، سیدنا عبداللہ بن عباس، سیدنا جابر بن عبداللہ، سیدنا عبداللہ بن ابی اوفی اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہم سے صحیح روایت سے ثابت ہے کہ وہ نماز جنازہ پر ایک سلام پھیرا کرتے تھے ؟
رہا یہ مسئلہ کہ عموماً جو جنازوں پر سلام پھیرا جاتا ہے وہ دنوں طرف ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا:
'' تین کلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا کرتے ہیں جنہیں لوگوں نے ترک کر دیا ہے۔ ان میں سے ایک یہ کہ نماز جنازہ پر اس طرح سلام پھیرنا جس طرح نماز میں سلام پھیرا جاتا ہے ''۔ (بیہقی۴/۴۳)
اما نووی نے۵/۲۳۹ پر اس کی سند کو جید قرار دای ہے اور اما ہیثمی نے مجمع الزوائد۳/۳۴ پر فرمایا رواہ الطبرانی فی الکبیر ورجالہ ثقات اس حدیث کو اما م طبرانی نے معجم کبیر میں روایت کیا ہے اور اس کے راوی ثقہ ہیں ۔ ملاحظہ ہو احکام لجنائز ص۱۲۷ اور سیدنا عبداللہ بن مسعود سے صحیح مسلم وغیرہ میں روایت ہے کہ :
'' نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں دو سلام پھیرا کرتے تھے ''۔

سیدنا ابو مسعود کی اس حدیث سے معلوم ہوا کہ انہوں نے نماز جناز کے متعلق جو فرمایا کہ اس پر نماز کی طرح سلام پھیرتے تھے تو وہ سلام دونوں طرف پھیرتے ہیں بالکل جائز درست ہے اور ایک طرف سلام پھیرنا بھی روا اور مشروع ہے
اس متعلق کسی نے سوال پوچھا، یہاں سے دیکھ کر جواب دیا ہے۔
 

فرحان

رکن
شمولیت
جولائی 13، 2017
پیغامات
48
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
57
ک
کتا، شریعت کی نظر میں
س: میرے باپ نے گھرکی رکھوالی کے لئے ایک کتا رکھا ہوا ہے۔ مجھے کئی ساتھیوں نے کہا کہ اس کو ماردو۔ سوال آپ سے یہ ہے کہ کیا کتے کا گھر میں رہنا جائز ہے یا نا جائز؟ اور کیا اگر میں اسے مار دوں تو مجھ پر کوئی گناہ تو نہ ہوگا؟

ج: اگرچہ غیر مسلم اقوام میں کتے کو بہت اہمیت حاصل ہے حتیٰ کہ وہ گھر کے ایک فرد کی حیثیت اختیار کر گیا ہے اور ان کے ہاں یہ محاورہ بن گیا ہے کہ اگر تمہیں مجھ سے محبت ہے تو میرے کتے سے بھی محبت کرنا ہو گی۔ یہاں تک کہ اب یہ محبت بڑھ کر غلط مراحل میں داخل ہو چکی ہے۔ اسلام میں کتاب ایک نا پسندیدہ جانور ہے اسے گھر میں رکھنے سے رحمت کے فرشتے گھر میں داخل نہیں ہوتے:
''ابو طلحہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا(رحمت کے)فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتا ہو یا تصویریں ہوں۔''(بخاری و مسلم ، مشکوٰةباب التصاویر)
ایک دفعہ وعدہ کے باوجو دجبریل علیہ السلام گھر میں نہیں آئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہت غمگین ہوئے بعد میں معلوم ہوا کہ حسن رضی اللہ عنہ یا حسین رضی اللہ عنہ جو ابھی بچے تھے گھر میں کتے کا پلا لے آئے تھے۔
۱) اگر کتا کسی برتن میں منہ ڈال دے تو اس کا پانی گرا دینے اور اسے ساتھ دفعہ دھونے کا حکم ہے:
''ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کسی شخص کے برتن میں کتاب منہ ڈال جائے تو اسے پاک کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اسے ساتھ مرتبہ دھوئے جن میں سے پہلی مرتبہ مٹی کے ساتھ ہو۔ اسے مسلم نے روایت کیا ہے اور اس کے ایک لفظ میں ہے کہ اسے گرادو۔ '' (بلوغ المرام، باب المیاہ ، کتاب الطھارة)
۲) خالص سیاہ رنگ کا کتا نمازی کے آگے سے گزر جائے تو نماز ٹوٹ جاتی ہے اگر اس کے سامنے سترہ نہ ہو اور اس کی وجہ یہ بیان فرمائی کہ : ''سیاہ کتا شیطان ہے ۔'' (صحیح مسلم باب مایستر المصلی)
۳) خالص سیاہ کتے کو قتل کرنے کا حکم دیا گیا ہے:
''عبداللہ بن مغفل راوی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر یہ بات نہ ہوتی کہ کتے امتوں میں سے ایک امت ہیں تو میں تمام کتے مار ڈالنے کا حکم دے دیتا تو تم ان میں سے خالص سیاہ کو مارد و۔'' (ابو دائود، ترمذی ، مشکوة باب ذکر الکتاب)
۴) اسی طرح دو نقطوں والے سیاہ کتے کو بھی مارنے کا حکم دیا:
''جابر رضی الہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں کتے مار ڈالنے کا حکم دیا یہاں تک کہ بادیہ سے کوئی عورت اپنا کتا لے کر آتی تو ہم اسے مار ڈالتے ۔ پھر رسول اللہ نے انہیں قتل کرنے سے منع فرما دیا اور فرمایا تم دو نقطوں والے کالے سیاہ کتے کو مارو کیونکہ وہ شیطان ہے (دو نقطوں سے مراد ہے جس کی آنکھوں کے اوپر دو نقطے ہوں )۔'' (رواہ مسلم)
۵) اللہ تعالیٰ کی آیات کا علم حاصل ہونے کے بعدخواہشات نفس کی پیروی کی وجہ سے ان سے نکل جانے والے کی مثال کتے کے ساتھ دی گئی ہے (دیکھئے اعراف :۱۷۵،۱۷۶)
بدترین انسان یعنی برے عالم کی مثال کتے کے ساتھ دینے سے اس کی خست (ذلت) واضح ہے۔
۶) اپن ہبہ کو واپس لینے والے کی مثال کتے کے ساتھ دی گئی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
''بری مثال ہمارے لئے نہیں ہے جو شخص اپنا ہبہ واپس لیتا ہے ، وہ کتے کی طرح ہے جو اپنی قے دوبارہ چاٹ لیتا ہے۔'' (صحیح بخاری کتاب الھبۃ)
اس سے معلوم ہوا کہ جو لوگ اپنے آپ کو کتا قرار دیتے ہیں خواہ وہ شیخ جیلانی کے کتے بنیں یا مدینہ کے کتے (سگ مدینہ) یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کتے، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس جانور کے ساتھ نفرت کو ملحوظ نہیں رکھا۔ اس چیز کے ساتھ خود کو تشبہیہ دینا کیسے درست ہو سکتا ہے جس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سخت نفرت رکھتے ہوں۔


السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ


کتے کے نجس ہونے کی وجہ درکار ہے جزاک اللہ خیر
 

فرحان

رکن
شمولیت
جولائی 13، 2017
پیغامات
48
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
57
عرش اور استویٰ کی وضاحت قرآن و حدیث سے کر دیجئے؟


السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

ایک ادنی سا طالب علم ہونے کی حیثیت سے علم حاصل کرنے کی غرض سے صرف مزید عامر بھائ رہنمائ کریں گے ان شاءاللہ

و
عرش ہے بلند ہونے والی جگہ اور استوی اس بلند ہونے والی جگہ پر بلند ہونا قائم ہونا اس کی حقیقی کیفیت اللہ ہی بہتر جانتا ہے ہمارا حق من وعن ماننا ہے بس اللہ اپنے عرش پر مستوی ہے الحمدللہ اسی پر فل سٹاپ لگا دینا چاہییے اس پر قانون سازی نہیں کرنی چاہیئے کے عرش کیسا ہے کس طرح کا ہے بڑا کے چھوٹا ہے گول ہے وغیرہ ایسے اس پر بات نہیں کرنی چاہیئئے واللہ اعلم بالصواب جزاک اللہ خیرا کثیرا
 
شمولیت
جولائی 22، 2018
پیغامات
637
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
62
عرش ہے بلند ہونے والی جگہ اور استوی اس بلند ہونے والی جگہ پر بلند ہونا قائم ہونا اس کی حقیقی کیفیت اللہ ہی بہتر جانتا ہے ہمارا حق من وعن ماننا ہے بس اللہ اپنے عرش پر مستوی ہے الحمدللہ اسی پر فل سٹاپ لگا دینا چاہییے اس پر قانون سازی نہیں کرنی چاہیئے کے عرش کیسا ہے کس طرح کا ہے بڑا کے چھوٹا ہے گول ہے وغیرہ ایسے اس پر بات نہیں کرنی چاہیئئے واللہ اعلم بالصواب جزاک اللہ خیرا کثیرا
اگر کوئی یوں کہے کہ ’’اللہ تعالیٰ بلندی پر فائز ہؤا‘‘ تو کیا صحیح ہے ؟
 

abulwafa80

رکن
شمولیت
مئی 28، 2015
پیغامات
64
ری ایکشن اسکور
5
پوائنٹ
57
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

کیا شہدا کو غسل دینا اور کفن دینا ضروری ہے
 
Top