• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آیت خاتم النبیینْ کا لغوی پہلو۔

شمولیت
ستمبر 28، 2017
پیغامات
18
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
6
مفردات امام راغب ؒ جو اہل علم میں قرآن کریم کی معتبر اور مستند لغت کی کتاب مانی جاتی ہے اس میں لفط ’ختم‘ کے اصل اور مجازی معانوں کے بارہ میں امامؒ فرماتے ہیں:
’’الخَتْمُ والطَّبْع: يقال على وجهين: مصدر خَتَمْتُ وطبعت ، وهو تأثير الشئ كنقش الخاتم والطابع . والثاني: الأثر الحاصل عن النقش ، ويتجوز بذلك تارةً في الإستيثاق من الشئ والمنع منه ، اعتباراً بما يحصل من المنع بالختم على الكتب والأبواب ، نحو: خَتَمَ  اللهُ عَلى قُلُوبِهِمْ  «البقرة: 7 » وَخَتَمَ عَلى سَمْعِهِ وَقَلْبِهِ  «الجاثية: 23 » .وتارةً في تحصيل أثر عن شئ ، اعتباراً بالنقش الحاصل . وتارةً يُعتبر منه بلوغ الآخر ، ومنه قيل:ختمت القرآن ، أي انتهيت إلى آخره .‘‘
ترجمہ: (اصل معانی ) الختم اور الطبع : کے لفظ دو طرح استعمال ہوتے ہیں کبھی تو ختمتُ اور طبعتُ کے مصدر ہوتے ہیں اور اس کے معنیٰ
(1)کسی چیز پر مہر کی طرح نشان لگاناکے ہیں۔اور کبھی
(2)اس نشان کو کہتے ہیں جو مہر لگانے سے بن جاتا ہے ۔
(مجازی معانی) مجازاً (3)کبھی اس سے کسی چیز کے متعلق وثوق حاصل کر لینا اور اسکو محفوظ کر لینا مراد ہوتا ہے ۔ جیسے کتابوں یا دروازوں پر مہر لگا کر انہیں محفوظ کر دیا جاتا ہے کہ کوئی چیز ان کے اندر داخل نہ ہو۔ قرآن کریم میں ہے :’’خَتَمَ  اللهُ عَلى قُلُوبِهِمْ  «البقرة: 7 »اللہ نے انکے دلوں پر مہر لگا دی وَخَتَمَ عَلى سَمْعِهِ وَقَلْبِهِ  «الجاثية: 23 »اسکے کانوں پر اور دل پر مہر لگا دی ۔

(4) کبھی کسی چیز کا اثر حاصل کر لینے کی طرف اشارہ ہوتا ہے جیسا کہ مہر سے نقش ہو جاتا ہے اور اسی سے ختمت القرآن کا محاورہ ہے یعنی قرآن پاک ختم کر لیا۔

اس سے ’خاتَم النبیین ‘ کے ’’اصلی ‘‘ لغوی معانی ہوئے۔(ا) نبیوں پر مہر لگا کر اپنی چھاپ چھوڑنے والے۔ (ب)وہ نشان جو ہر نبی پر لگا ہو۔
ان معانوں کی رُو سے بہت خوبصورت تشریح آپ ؐ کی اس حدیث سے بھی ہوتی ہے کہ آپؐ نے فرمایا’’إني عند الله مكتوب: خاتم النبيين وإن آدم لمنجدل في طينته‘‘ (مسند احمد ، مشکوٰۃ، مستدرک، ترمذی و غیرہ ) ترجمہ: میں تو اللہ کے حضور تب سے خاتم النبیین ہوں جب کہ آدم کا خمیر ابھی مٹی سے بن رہا تھا ۔ یعنی آپؐ بطور خاتم تب سے تھے جب کہ ابھی سلسلہ نبوت شروع بھی نہ ہوا تھا ۔ سبحان اللہ ۔تو مراد یہ ہوئی کہ ہر نبی پر آپؐ کی ہی مہر لگی اور ہر نبی آپؐ ہی کا نقش لے کر دنیا میں آیا۔

اس لحاظ سے جو معانی عموماً کئے جاتے ہیں کہ ختم کے معانی اس مہر کے ہیں جو لفافہ پر اس لئے لگائی جائے کہ کوئی چیز نہ اندر جا سکے نہ باہر آ سکے ’ختم ‘ کے اصلی معانی نہیں بلکہ مجازی معانی ٹھہرتے ہیں۔ اصل معانی وہی ہیں کہ جس نبی پر بھی آپکی مہر نہیں وہ نبی نہیں اور جس پر آپکی مہر ہے وہی نبی ٹھہرے گا وہ ماضی میں آ چکا ہو یا مستقبل میں آنے والا ہو۔ اس کلام سے نبی ؐ کی شان کا اندازہ لگائیں کہ آپؐ گویا انبیاء بنانے والے ہیں ۔ جیسا کہ جب کوئی کمپنی اپنا کوئی پراڈکٹ تیار کر لیتی ہے تو اس پر اپنی کمپنی کی مہر لگا دیتے ہیں تاکہ گاہک کو پتہ چل جائے کہ یہ اصل ہے اور وہ نقلی چیز میں امتیاز کر سکے ۔

دوسرا پہلو :
لفظ ’خاتَم ‘ اسم آلہ ہے جسکے معانی ہیں نشان لگانے کا ذریعہ یعنی مہر ۔ اور ’خاتِم ‘اسم فاعل ہے جسکے معانی ہیں نشان لگانے والا یعنی مہر لگانے والا۔لغتِ عربی اور عربی محاورہ کی کی رُو سے جب اسم آلہ (جیسا کہ آیت میں ’خاتَم‘ آیا ہے ) جمع کی طرف (جیسا کہ آیت میں ’النبیین ‘ جمع کا صیغہ ہے ) مضاف کیا جائے تو اسکے معانی ہونگے نبیوں پر چھاپ چھوڑنے والا ایسا نبی جسکی تاثیر سےانبیاء ظہور میں آئیں۔ ایسے نبی کے لئے ضروری ہے کہ وہ مرتبہ میں سب سے بڑھ کر ہو اور افضل ترین ہو۔ یعنی خاتَم ہونا مقام مدح ہے ۔
حضرت مولانا قاسم نانوتوی ؒ کے نزدیک بھی آپؐ کی خاتمیت مرتبہ کے لحاظ سے تھی نہ کہ زمانی فرماتے ہیں :-
عوام کے خیال میں تو رسول اللہ ؐ کا خاتم ہونا بایں معنی ہے کہ آپؐ کا زمانہ انبیاء سابق کے زمانے کے بعد اور آپؐ سب میں آخری نبی ہیں مگر اہل علم پر روشن ہو گا کہ تقدم یا تاخّر زمانی میں بالذات کچھ فضیلت نہیں پھر مقام مدح میں ولٰکن رسول اللہ و خاتَم النبیین فرمانا اس صورت (یعنی آپؐ کو زمانی طور پر آخری ماننا ) میں کیونکر صحیح ہو سکتا ہے ۔(تحذیر الناس صفحہ 3 )
 
شمولیت
ستمبر 28، 2017
پیغامات
18
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
6
جزاکم اللہ محمد نعیم یونس صاحب
خاکسار کی غرض اس پوسٹ سے یہ بتلانا تھا کی آیت خاتم النبیین ؐمیں خاتمیت زمانی نہیں بلکہ مرتبی مراد ہے ۔ جسکی تصدیق عربی لغت اور عربی محاورہ کرتا ہے ۔
جیسا کہ مفردات میں امام راغب نے ختم کے حقیقی معنی نقش پیدا کرنا کئے ہیں جبکہ اس کے مجازی معنی آخری کے بھی ہو سکتے ہیں۔
چنانچہ صاحب عمدۃ البیان بیان کرتے ہیں۔
’’یہاں حقیقی معنی کے چسپاں ہونے میں ہی آنحضرت ﷺکی زیادہ شان اور فضیلت ہے یہی معنی اس حدیث کے ہیں کہ اَنَاخَاَتمُ الْاَنْبِیَاءِ وَاَنْتَ یَا عَلِیُّ خَاتَمُ الْاَوْلِیَاءِ ‘‘(تفسیر عمدۃالبیان ج۲ص۲۸۴مناقب آل ابی طالب مصنفہ محمد بن علی بن شہر اشوب متوفی۵۸۸ھ۔ج۳ص۲۶۱)
ترجمہ:۔میں خاتم الانبیاء ہوں اور اے علی تو خاتم الاولیاء ہے یعنی ولیوں میں ایسے بلند مرتبہ والا جس کی پیروی سے ولایت مل سکتی ہے ۔
لہذا یہ آیت بتاتی ہے کہ کوئی نبی آپؐ کے بعد ظاہر ہو بھی جائے تب بھی آپکی ؐ خاتمیت کو کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ یہی معانی علماءِ سلف میں بھی ملتے ہیں۔
مولانا قاسم نانوتوی ؒ فرماتے ہیں:
’’اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی ﷺ بھی کوئی نبی پیدا ہوا تو پھر بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہ آئے گا ‘‘ (تحذیر الناس ۔از مولانا محمد قاسم نانوتوی صاحب۔صفحہ۲۸)

جہاں تک حدیث’’ لا نبی بعدی ‘‘ کا تعلق ہے تو بعض علمائے سلف کے نزدیک نہ آیت خاتم النبیینؐ اور نہ حدیث لانبی بعدی مستقبل میں کسی نبی کی آمد کے امکان کو ختم کرتی ہے ۔ذیل میں اقوال درج ہیں ۔
1) حضرت امام محی الدین ابن عربی فرماتے ہیں:
اِنَّ النَّبُوَّۃَ الَّتِیْ اِنْقَطَعَتْ بِوُجُوْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلْعَمْ اِنَّمَا ھِیَ النُّبُوَّۃُ التَّشْرِیْحُ لَا مَقَامُھَا فَلَا شَرْعَ یَکُوْنُ نَاسِخًا لِشَرْعِہٖ صَلْعَمْ وَ لَا یَزِیْدُ فِیْ شَرْعِہٖ حُکْمًا اٰخَرَ وَ ھٰذَا مَعٰی قَوْلِہٖ صَلْعَمْ اِنَّ الرَّسَالَۃَ وَالنَّبُوَّۃَ قَدْ اِنْقَطَعَتْ فَلَا رَسُوْلَ بَعْدِیْ وَلَا نَبِیَّ اَیْ لَا نَبِیَّ یَکُوْنُ عَلٰی شَرْعٍ یُخَالِفُ شَرْعِیْ بَلْ اِذَا کَانَ یَکُوْنُ تَحْتَ حُکْمِ شَرِیْعَتِیْ وَلَا رَسُوْلَ اَیْ لَا رَسُوْلَ بَعْدِیْ اِلٰٰٰٰٰٰی اَحَدٍ مِنْ خَلْقِ اللّٰہِ بِشَرْعٍ یَدْعُوْھُمْ اِلَیْہِ فَھٰذَا ھُوَ الَّذِیْ اِنْقَطَعَ وَسُدَّ بَابُہٗ لَا مَقَامُ النَّبُوَّۃِ۔(فتوحات مکیہ از ابن عربی جلد ۲ صفحہ ۳ مطبوعہ دار صادر بیروت)
کہ وہ نبوت جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے وجود پر ختم ہوئی۔ وہ صرف تشریعی نبوت ہے نہ کہ مقامِ نبوت۔ پس آنحضرت صلعم کی شریعت کو منسوخ کرنے والی کوئی شریعت نہیں آ سکتی اور نہ اس میں کوئی حکم بڑھا سکتی ہے اور یہی معنی ہیں کہ آنحضرت صلعم کے اس قول کے کہ رسالت اور نبوت منقطع ہو گئی اور ’’لَا رَسُوْلَ بَعْدِیْ وَلَا نَبِیَّ‘‘ یعنی میرے بعد کوئی ایسا نبی نہیں جو میرے شریعت کے خلاف کسی اور شریعت پر ہو ہاں اس صورت میں نبی آ سکتا ہے کہ وہ میری شریعت کے حکم کے ماتحت آئے اور میرے بعد کوئی رسول نہیں یعنی میرے بعد دنیا کے کسی انسان کی طرف کوئی ایسا رسول نہیں آ سکتا جو شریعت لے کر آوے اور لوگوں کو اپنی شریعت کی طرف بلانے والا ہو۔ پس یہ وہ قسم نبوت ہے جو بند ہوئی اور اس کا دروازہ بند کر دیا گیا۔ ورنہ مقامِ نبوت بند نہیں۔

2)حضرت امام عبدالوہاب شعرانی فرماتے ہیں :۔
وَقَوْلُہٗ ﷺ ’’فَلَا نَبِیَّ بَعْدِیْ وَلَا رَسُوْلَ‘‘ اَلْمُرَادُ بِہٖ لَا مُشَرِّعَ بَعْدِیْ (الیواقیت والجواہر جز۲ صفحہ۳۴۶۔مطبوعہ بیروت)
ترجمہ:۔ آنحضرت ﷺ کا یہ فرمانا کہ میرے بعد کوئی صاحب شریعت نبی نہیں یا رسول نہیں اس سے مراد یہ ہے کہ میرے بعدکوئی تشریعی نبی نہیں ۔
پھر فرماتے ہیں:
وَاَمَّا النُّبُوَّۃُ التَّشْرِیْعُ وَالرِّسَالَۃُ فَمُنْقَطِعَۃٌ فِیْ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فَلَا نَبِیَّ بَعْدَہٗ مُشَرِّعًا …… اِلَّا اِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی لَطَفَ بِعِبَادِہٖ وَاَبْقٰی لَھُمُ النَّبُوَّۃَ الْعَامَۃَ الَّتِیْ لَا تَشْرِیْعَ فِیْھَا (فَصُوْصُ الْحِکْمِ فَصُّ حِکْمَۃٍ قَدْرِیَّۃٍ فِیْ کَلِمَۃٍ عَزِیْرِیَّۃٍ) کہ جو نبوت اور رسالت شریعت والی ہوتی ہے۔ پس وہ تو آنحضرت صلعم پر ختم ہو گئی ہے پس آپؐ کے بعد شریعت والا نبی کوئی نہیں آ سکتا …… ہاں اﷲ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر مہربانی کر کے ان میں عام نبوت جس میں شریعت نہ ہو باقی رہنے دی۔

3) حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی فرماتے ہیں :۔
خُتِمَ بِہٖ النَّبِیُّوْنَ اَیْ لَا یُوْجَدُ بَعْدَہٗ مَنْ یَّاْمُرُہُ اللّٰہُ سُبْحَانَہٗ بِالتَّشْرِیْعِ عَلَی النَّاسِ (تفہیمات الٰہیہ۔ تفہیم ۵۴)
ترجمہ:۔ آنحضرت ﷺ پر نبی ختم ہو گئے یعنی آپ کے بعد کوئی ایسا شخص نہیں ہو سکتا جس کو اللہ تعالیٰ شریعت دے کر مبعوث کرے۔

4)حضرت عائشہ ؓ کے بارہ میں آتا ہے :
قُوْلُوْا خَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ وَلَا تَقُوْلُوا لَانَبِیَّ بَعْدَہٗ (مصنف ابن ابی شیبہ جز سادس حدیث نمبر۲۱۹مکتبہ دارالفکر)
ترجمہ:۔ یہ تو کہو کہ آنحضرت ﷺ خاتم النبیین ہیں مگر یہ کبھی نہ کہنا کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا ۔

5)حضرت ملا علی قاری فرماتے ہیں:۔
قُلْتُ وَ مَعَ ھٰذَا لَوْ عَاشَ اِبْرَاہِیْمَ وَ صَارَ نَبِیًّا وَکَذَا لَوْ صَارَ عُمَرؓ نَبِیًّا لَکَانَا مِنْ اَتْبَاعِہٖ عَلَیْہِ السَّلَامُ …… فَلَا یُنَاقِضُ قَوْلَہٗ تَعَالٰی خَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ اِذَا الْمَعْنٰی اَنَّہٗ لَا یَاْتِیْ نَبِیٌّ بَعْدَہٗ یَنْسَخُ مِلَّتَہٗ وَلَمْ یَکُنْ مِنْ اُمَّتِہٖ۔(موضاعات کبیر از ملا علی قاریؒ صفحہ ۱۰۰ الناشر نور محمد، اصح المطابع و کارخانہ تجارت کتب آرام باغ کراچی مطبوعہ ایجوکیشنل پریس کراچی)
میں کہتا ہوں کہ اس کے ساتھ آنحضرت صلعم کا فرمانا کہ اگر میرا بیٹا ابراہیم زندہ رہتا تو نبی ہو جاتا اور اسی طرح اگر عمرؓ نبی ہو جاتا تو آنحضرت کے متبعین میں سے ہوتے۔ پس یہ قول خاتم النبیین کے مخالف نہیں ہے۔ کیونکہ خاتم النبیین کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت صلعم کے بعد کوئی ایسا نبی نہیں آ سکتا۔ جو آنحضرت صلعم کی شریعت کو منسوخ کرے اور آپؐ کی امت سے نہ ہو۔
 
شمولیت
ستمبر 28، 2017
پیغامات
18
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
6
اس بارہ میں نواب نورالحسن خان صاحب لکھتے ہیں:۔

’’حدیث لَا وَحْیَ بَعْدَ مَوْتِیْ بے اصل ہے ۔ہاں ’’لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ‘‘ آیا ہے جس کے معنے نزدیک اہل علم کے یہ ہیں کہ میرے بعد کوئی نبی شرع ناسخ نہ لاوے گا۔‘‘ (اقتراب السا عۃ از نواب نورالحسن خان صفحہ۱۶۲ مطبع مفیدعام الکائنہ فی الرواۃ ۱۳۰۱ھ)
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
جناب نجیب صاحب
سب سے پہلا سوال تو یہ ہے کہ "تشریعی" اور "غیر تشریعی" نبی میں کیا فرق ہے؟ یعنی وہ کون سا کام ہے جو ایک کر سکتا ہے اور دوسرا نہیں کر سکتا؟
دوسرا سوال یہ ہے کہ اسود عنسی اور مسیلمہ تشریعی نبی تھے یا غیر تشریعی؟
سر دست ان دو سوالوں کے جواب مطلوب ہیں.
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
السلام علیکم
ترجمہ: (اصل معانی ) الختم اور الطبع : کے لفظ دو طرح استعمال ہوتے ہیں کبھی تو ختمتُ اور طبعتُ کے مصدر ہوتے ہیں اور اس کے معنیٰ
(1) کسی چیز پر مہر کی طرح نشان لگانا کے ہیں۔ اور کبھی
(2) اس نشان کو کہتے ہیں جو مہر لگانے سے بن جاتا ہے ۔
(3) کبھی اس سے کسی چیز کے متعلق وثوق حاصل کر لینا اور اسکو محفوظ کر لینا مراد ہوتا ہے ۔ جیسے کتابوں یا دروازوں پر مہر لگا کر انہیں محفوظ کر دیا جاتا ہے کہ کوئی چیز ان کے اندر داخل نہ ہو۔ قرآن کریم میں ہے :


’’خَتَمَ  اللهُ عَلى قُلُوبِهِمْ  
اللہ نے انکے دلوں پر مہر لگا دی
«البقرة: 7 »
وَخَتَمَ عَلى سَمْعِهِ وَقَلْبِهِ
اسکے کانوں پر اور دل پر مہر لگا دی۔
«الجاثية: 23 »
قرآن کی ان آیات میں کانوں اور دل پر مہر SEALED والی ہے۔ جسے لگانے والا ہی کھول سکتا ہے۔

جو زمانہ میں سرکاری طور پر استعمال میں لائی جاتی ہے۔
گیس، الیکٹرسٹی اور پانی کے میٹروں پر SEALED لگی ہوتی ہیں۔
سرکاری محکموں کے کچھ کاغذات جو بہت سیکرٹ ہوتے ہیں ان پر بھی SEALED لگی ہوتی ہے۔
پراپرٹی جو کسی وجہ سے ناجائز استعمال یا کسی بھی وجہ سے کچھ ایرر ہونے سے قانون بنانے والے ادارے اس جگہ کو تالے لگا کر SEALED کر دیتے ہیں۔
یہ وہ SEALED ہیں جنہیں لگانے والے ادارے ہی کھول سکتے ہیں۔


اگر سمجھ آئے تو درست ورنہ اسے مزید تفصیل اور تصاویر کی مدد سے سے بھی بیان کیا جا سکتا ہے۔
والسلام
 
شمولیت
ستمبر 28، 2017
پیغامات
18
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
6
جناب نجیب صاحب
سب سے پہلا سوال تو یہ ہے کہ "تشریعی" اور "غیر تشریعی" نبی میں کیا فرق ہے؟ یعنی وہ کون سا کام ہے جو ایک کر سکتا ہے اور دوسرا نہیں کر سکتا؟
دوسرا سوال یہ ہے کہ اسود عنسی اور مسیلمہ تشریعی نبی تھے یا غیر تشریعی؟
سر دست ان دو سوالوں کے جواب مطلوب ہیں.
جزاکم اللہ ۔ اشماریہ صاحب
آپ کےدونوں سوالات سے لگتا ہے کہ آپ انکے جوابات کے بعد کاؤنٹر اٹیک کرنا چاہتے ہیں ۔ہاہاہا۔ بہر حال جو خاکسار کی طالب علمانہ رائے ہے وہ آپکی خدمت میں پیش ہے ۔

جہاں تک نبوت کا تعلق ہے تو قرآن کریم کہتا ہے عَالِمُ الْغَيْبِ فَلا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا إِلا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَسُولٍ( سورۃ الجن :26-27) ترجمہ :وہ غیب کا جاننے والا ہے پس وہ کسی کو اپنے غیب پر غلبہ عطا نہیں کرتا۔ بجز اپنے برگزیدہ رسول کے۔ پس یقیناً وہ اس کے آگے اور اُس کے پیچھے حفاظت کرتے ہوئے چلتا ہے۔
یعنی جہاںتک غیب کی خبریں بتانے کا تعلق ہے تو اس میں ہر نبی و رسول سانجھا ہے ۔تاہم قرآن کریم کے مطابق بعض انبیاء بعض پر فضیلت رکھتے ہیں (سورۃ البقرۃ : 253)۔(واقعہ معراج میں بھی رسول کریم ﷺ نے انبیاء ؑ کو درجہ وار دیکھا)۔بعض کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے بہت زیادہ کلام کیا اور بعض کو بیّنات دئیے ۔بعض کو شریعت دی اور بعض کو سابقہ شریعت کی خدمت کے لئے مبعوث کیا گیا۔

1)علماء نے شریعت سے مراد اوامر و نواہی، حلال و حرام، فرض، واجب، مستحب، مکروہ، جائز و ناجائز اور سزا و جزا کا ایک جامع نظام لیا ہے۔ چنانچہ لسان العرب میں شریعت کے لغوی معانی یہ کئے گئے ہیں:
من سَنَّ اﷲ من الدّين للعباد وامر به.’’بندوں کے لئے زندگی گزارنے کا وہ طریقہ جسے اللہ تعالیٰ نے تجویز کیا اور بندوں کو اس پر چلنے کا حکم دیا(جیسے نماز، روزہ، حج، زکوٰہ اور جملہ اعمال صالحہ)۔‘‘ اس لحاظ سے جن علمائے کرام کے میں نے حوالا جات بھجوائے تھے ان کے نزدیک ایسا نبی نہیں آ سکتا جو ان احکامات کو منسوخ کر دے جو محمد رسول اللہ ﷺ کی شریعت میں بیان ہوئے ہیں ۔ ہاں ایسا نبی آ سکتا ہے جو آپؐ کی شریعت کی مکمل اتباع کرے اور آپکی امت سے ہو ۔
2) قرآن کریم و حدیث نیز تاریخ بھی اسکی شاہد ہے کہ انبیاء کی مختلف اقسام ہوتی ہیں۔
اوّل) ایسے انبیاء جنکو شریعت دی گئی ۔ قرآن کریم میں ایسے انبیاء کی تعداد 4 بتائی گئی ہے (ملاحظہ ہو سورۃ التین ) حضرت آدمؑ، حضرت نوحؑ ، حضرت موسیٰ ؑ اور ہمارے آقا و مطاع سید المرسلین محمد ﷺ ۔
دوم) ایسے انبیاء جو شریعت لے کر نہیں آئے بلکہ پرانی شریعت کے تابع تھے یعنی کسی نے بھی گزشتہ احکام شریعت کو منسوخ نہ کیا ۔ ان میں سے بعض پرانی شریعت کی تجدید کرنے کے لئے اور بعض کے ذمہ شریعت کے تابع رہتے ہوئے کسی قوم کی ہدایت کی ذمہ داری لگائی گئی ۔
مثلاً حضرت ابراہیم حضرت نوح کی شریعت کے پیرو تھے (ملاحظہ ہو سورۃ الصّٰفّٰت: 83 تفسیر :لإبراهيم بمعنى أنه كان على دينه ومنهاجه فهو من شيعته وإن كان سابقاً له والأول أظهر، مفاتیح الغیب)
حضرت ہارون صاحبِ شریعت حضرت موسیٰؑ کی مدد کے لئے مأ مور تھے ۔ (سورۃ طٰہٰ:29-32 ، سورۃ مریم :53)
حضرت موسیٰؑ کے بعد حضرت عیسیٰ ؑ تک جتنے بھی نبی آئے وہ سب شریعت موسوی کے تابع تھے ۔ چنانچہ قرآن کریم فرماتا ہے :إِنَّا أَنزَلْنَا التَّوْرَاةَ فِيهَا هُدًى وَنُورٌ ۚ يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّونَ الَّذِينَ أَسْلَمُوا لِلَّذِينَ هَادُوا وَالرَّبَّانِيُّونَ وَالْأَحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُوا مِن كِتَابِ اللَّهِ وَكَانُوا عَلَيْهِ شُهَدَاءَ ۚ( سورۃ المائدہ : 44) تر
جمہ : یقیناً ہم نے تورات اتاری اُس میں ہدایت بھی تھی اور نور بھی۔ اس سے انبیاءجنہوں نے اپنے آپ کو(کلیۃً اللہ کے) فرمانبردار بنا دیا تھا یہود کے لئے فیصلہ کرتے تھے۔ اور اسی طرح اللہ والے لوگ اور علماءبھی اس وجہ سے کہ ان کو اللہ کی کتاب کی حفاظت کا کام سونپا گیا تھا (فیصلہ کرتے تھے) اور وہ اس پر گواہ تھے۔
حضرت عیسیٰ ؑ بھی شریعت ِ موسوی کے تابع تھے ۔ (ملاحظہ ہو متی باب 5 آیت 15 ’’یہ نہ سمجھو کہ مَیں موسوی شریعت اور نبیوں کی باتوں کو منسوخ کرنے آیا ہوں۔ منسوخ کرنے نہیں بلکہ اُن کی تکمیل کرنے آیا ہوں۔‘‘)
مثالیں تو اور بھی ہیں لیکن طوالتِ مضمون کے تحت یہی بس ہے۔اسلئے علماء نے آسانی کے لئے اور درجہ بندی کرنے کے لئے تشریعی نبی اور غیر تشریعی نبوت جیسی اصطلاحیں استعمال کی ہیں۔

دوسرے سوال کا جواب:
میں آپ کا ممنون ہوں کہ آپ نے یہ سوال کیا ۔ کیونکہ اس سے لا نبی بعدی کی بھی تشریح ہو جاتی ہے ۔ چنانچہ بخاری میں حدیث آئی ہے ( ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ ) مجھے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے خبردی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا ، میں سویا ہوا تھا کہ میں نے ( خواب میں ) سونے کے دوکنگن اپنے ہاتھوں میں دیکھے ۔ مجھے اس خواب سے بہت فکر ہوا ، پھر خواب میں ہی وحی کے ذریعہ مجھے بتلایا گیا کہ میں ان پر پھونک ماروں ۔ چنانچہ جب میں نے پھونک ماری تو وہ دونوں اڑگئے ۔’’فَأَوَّلْتُهُمَا كَذَّابَيْنِ، يَخْرُجَانِ بَعْدِي‘‘ میں نے اس سے یہ تعبیر لی کہ میرے بعد جھوٹے نبی ہوں گے ۔ پس ان میں سے ایک تو اسود عنسی ہے اور دوسرا یمامہ کا مسیلمہ کذاب تھا ۔
اب یہاں لفظ ’بعد‘ استعمال ہوا ہے ۔ حالانکہ یہ مسلّمہ بات ہے کہ اسود عنسی نے بھی اور مسیلمہ نے بھی آنحضرتﷺ کی زندگی میں نبوت کا دعویٰ کیا اور آپؐ کو اسکی اطلاع بھی موصول ہوئی ۔چنانچہ دوسری جگہ آیا ہے ’’انا بینھما‘‘ کہ میں ان دونوں کے درمیان ہوں۔ تو یہاں ’’بعد‘‘ کے معانی کیا ہوئے ؟؟۔
یہاں ’’بعد‘‘ سے مراد مدّ مقابل اور مخالف ہو نا ہے ۔ یعنی مراد یہ ہوئی کہ کہ وہ دونوں میری مخالفت میں اور میرے مقابل نبوت کا جھوٹا دعویٰ کریں گے ۔ عربی زبان کے اس اسلوب کی تائید قرآن کریم کی اس آیت سے بھی ہوتی ہے ۔ فرمایا:
فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَ اللَّهِ وَآيَاتِهِ يُؤْمِنُونَ(الجاثیہ:6) ترجمہ :
پس اللہ اور اس کی آیات کے بعد پھر اَور کس بات پر وہ ایمان لائیں گے؟
یہاں بھی بعد سے مراد مدّ مقابل اور مخالف ہے ۔
اب تاریخی حقائق کو دیکھیں تو دونوں نے آنحضرت ﷺ کی مدّ مقابل ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔ اسود عنسی نے آنحضرت ﷺ کے خلاف فوج کھڑی کی ۔ حضور ؐ کے صحابی شہر بن باذان ؓ کو جو صنعاء پر حاکم مقرر کئے گئے تھے قتل کیا اور انکی بیوہ سے زبر دستی شادی کی ۔ حضر موت کے صحراء سے طائف اور بحرین تک اور دوسری طرف احساء سے عدن تک کے علاقہ پر تسلّط قائم کر لیا۔ تمام مؤرخین اس بات پر متفق ہیں کہ اس نے رسول کریم ﷺ کے خلاف علم ِ بغاوت بلند کیا تھا۔
دوسری طرف مسلیمہ کو لے لیں۔ اس نے نبوت کا دعویٰ کیا اور قرآن کریم کی نقل میں مسجع عبارتیں تشکیل دینے لگا۔ اسی طرح اپنے ماننے والوں کی نماز معاف کر دی ۔ شراب زنا وغیرہ جائز کر دیا۔یہ ساری تعلیمات جو عملاً حضرت رسول کریم ﷺ کی شریعت کے خلاف تھیں انکی تنشیر کی ۔

گویا ان دونوں نے عملاً بھی اور قولاً بھی آنحضرت ﷺ کی شریعت کے خلاف دعویٰ نبوت کیا ۔
جن علماء کرام کے حوالہ جات خاکسار نے پہلے بھجوائے تھے ان کا یہی مؤقف ہے کہ کوئی ایسا نہیں آ سکتا جو آنحضرت ﷺ کی شریعت کو کلّی یا اسکے چند حصو ں کو بھی منسوخ کر دے ۔ جیسا کہ نواب حسن خان صاحب نے لانبی بعدی کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ ایسا کوئی نہ آئے گا جو آپؐ کی نبوت و شریعت کے مخالف ہو اور اسکا ناسخ ہو۔
جزاکم اللہ
 
Last edited:
شمولیت
ستمبر 28، 2017
پیغامات
18
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
6
السلام علیکم

قرآن کی ان آیات میں کانوں اور دل پر مہر SEALED والی ہے۔ جسے لگانے والا ہی کھول سکتا ہے۔

جو زمانہ میں سرکاری طور پر استعمال میں لائی جاتی ہے۔
گیس، الیکٹرسٹی اور پانی کے میٹروں پر SEALED لگی ہوتی ہیں۔
سرکاری محکموں کے کچھ کاغذات جو بہت سیکرٹ ہوتے ہیں ان پر بھی SEALED لگی ہوتی ہے۔
پراپرٹی جو کسی وجہ سے ناجائز استعمال یا کسی بھی وجہ سے کچھ ایرر ہونے سے قانون بنانے والے ادارے اس جگہ کو تالے لگا کر SEALED کر دیتے ہیں۔
یہ وہ SEALED ہیں جنہیں لگانے والے ادارے ہی کھول سکتے ہیں۔


اگر سمجھ آئے تو درست ورنہ اسے مزید تفصیل اور تصاویر کی مدد سے سے بھی بیان کیا جا سکتا ہے۔
والسلام
کنعان صاحب۔ جزاکم اللہ
قرآن کے کسی لغت کا حوالہ دئیے بغیر آپ کے اس طرح کہنے سے تو میں ماننے والا نہیں۔ میں نے مفردات امام راغبؒ کا حوالہ دے کر ثابت کیا ہے کہ عربی میں خَتَم کے اصلی معانی 2 ہیں ۔1) کسی چیز پر مہر کی طرح نشان لگانا خَتَمہ کا معنی ہے یا دوسرے 2) وہ نقش جو مہر کا کاغذ پر یا جس چیز پر لگایا جائے رہ جائے ۔
باقی سیل کر نے کے معانی بھی ہیں لیکن وہ مجازی ہیں اصلی نہیں۔ جو کسی لفافے پر لگائی جائے کہ نہ کوئی چیز اندر جائے نہ باہر آئے ۔
جزاکم اللہ
 
شمولیت
ستمبر 28، 2017
پیغامات
18
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
6
تصحیح فرما لیں خاکسار نے لکھا ہے کہ شریعت کے لغوی معانی لسان العرب میں یہ لکھے ہیں۔
لغوی غلط لکھا گیا ہے مراد اصطلاحی تھی ۔

نیز لفظ ’’بعد‘‘ کی تشریح میں ایک بات رہ گئی وہ یہ کہ رسول کریم ؐ کی ایک حدیث ہے إذا هَلَكَ كِسْرَى فلا كِسْرَى بعدَه وإذا هَلَكَ قَيْصَرُ فلا قَيْصَرَ بعدَه (بخاری) کہ جب کسریٰ مرے گا تو اسکے بعد کسریٰ نہ ہو گا۔ اور جب یہ قیصر مرے گا تو اسکے بعد قیصر نہ ہوگا۔
حالانکہ جو کسریٰ آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں تھا اسکے مرنے کے بعد اور بھی کسریٰ ہوتے رہے اور ایسا ہی قیصر بھی ہوتے رہے ۔ تو یہاں بعد سے مراد کیا تھی؟
امام ابن حجر ؒ فرماتے ہیں:’’ معناہ فلا قیصر بعدہ یملک مثل ما یملک‘‘ ۔ یعنی جب یہ قیصر مرے گا تو اس جیسا طاقتور قیصر نہ آئے گا۔ یعنی ایسی شان والا قیصر نہ آئے گا ۔
تو یہاں بعد کے معنی ہوئے اس شان والا ۔ لہذا اس لحاظ سے لا نبی بعدی کے معنی ہوئے کہ میرے جیسی شان والا نبی نہیں آئے گا۔
(اسی طرح بعد کے حدیث : لا ھجرۃ بعد الفتح ۔ میں جو بعد ہے وہ بھی یہی معنی رکھتا ہے ۔)
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
جزاکم اللہ ۔ اشماریہ صاحب
آپ کےدونوں سوالات سے لگتا ہے کہ آپ انکے جوابات کے بعد کاؤنٹر اٹیک کرنا چاہتے ہیں ۔ہاہاہا۔ بہر حال جو خاکسار کی طالب علمانہ رائے ہے وہ آپکی خدمت میں پیش ہے ۔

جہاں تک نبوت کا تعلق ہے تو قرآن کریم کہتا ہے عَالِمُ الْغَيْبِ فَلا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا إِلا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَسُولٍ( سورۃ الجن :26-27) ترجمہ :وہ غیب کا جاننے والا ہے پس وہ کسی کو اپنے غیب پر غلبہ عطا نہیں کرتا۔ بجز اپنے برگزیدہ رسول کے۔ پس یقیناً وہ اس کے آگے اور اُس کے پیچھے حفاظت کرتے ہوئے چلتا ہے۔
یعنی جہاںتک غیب کی خبریں بتانے کا تعلق ہے تو اس میں ہر نبی و رسول سانجھا ہے ۔تاہم قرآن کریم کے مطابق بعض انبیاء بعض پر فضیلت رکھتے ہیں (سورۃ البقرۃ : 253)۔(واقعہ معراج میں بھی رسول کریم ﷺ نے انبیاء ؑ کو درجہ وار دیکھا)۔بعض کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے بہت زیادہ کلام کیا اور بعض کو بیّنات دئیے ۔بعض کو شریعت دی اور بعض کو سابقہ شریعت کی خدمت کے لئے مبعوث کیا گیا۔

1)علماء نے شریعت سے مراد اوامر و نواہی، حلال و حرام، فرض، واجب، مستحب، مکروہ، جائز و ناجائز اور سزا و جزا کا ایک جامع نظام لیا ہے۔ چنانچہ لسان العرب میں شریعت کے لغوی معانی یہ کئے گئے ہیں:
من سَنَّ اﷲ من الدّين للعباد وامر به.’’بندوں کے لئے زندگی گزارنے کا وہ طریقہ جسے اللہ تعالیٰ نے تجویز کیا اور بندوں کو اس پر چلنے کا حکم دیا(جیسے نماز، روزہ، حج، زکوٰہ اور جملہ اعمال صالحہ)۔‘‘ اس لحاظ سے جن علمائے کرام کے میں نے حوالا جات بھجوائے تھے ان کے نزدیک ایسا نبی نہیں آ سکتا جو ان احکامات کو منسوخ کر دے جو محمد رسول اللہ ﷺ کی شریعت میں بیان ہوئے ہیں ۔ ہاں ایسا نبی آ سکتا ہے جو آپؐ کی شریعت کی مکمل اتباع کرے اور آپکی امت سے ہو ۔
2) قرآن کریم و حدیث نیز تاریخ بھی اسکی شاہد ہے کہ انبیاء کی مختلف اقسام ہوتی ہیں۔
اوّل) ایسے انبیاء جنکو شریعت دی گئی ۔ قرآن کریم میں ایسے انبیاء کی تعداد 4 بتائی گئی ہے (ملاحظہ ہو سورۃ التین ) حضرت آدمؑ، حضرت نوحؑ ، حضرت موسیٰ ؑ اور ہمارے آقا و مطاع سید المرسلین محمد ﷺ ۔
دوم) ایسے انبیاء جو شریعت لے کر نہیں آئے بلکہ پرانی شریعت کے تابع تھے یعنی کسی نے بھی گزشتہ احکام شریعت کو منسوخ نہ کیا ۔ ان میں سے بعض پرانی شریعت کی تجدید کرنے کے لئے اور بعض کے ذمہ شریعت کے تابع رہتے ہوئے کسی قوم کی ہدایت کی ذمہ داری لگائی گئی ۔
مثلاً حضرت ابراہیم حضرت نوح کی شریعت کے پیرو تھے (ملاحظہ ہو سورۃ الصّٰفّٰت: 83 تفسیر :لإبراهيم بمعنى أنه كان على دينه ومنهاجه فهو من شيعته وإن كان سابقاً له والأول أظهر، مفاتیح الغیب)
حضرت ہارون صاحبِ شریعت حضرت موسیٰؑ کی مدد کے لئے مأ مور تھے ۔ (سورۃ طٰہٰ:29-32 ، سورۃ مریم :53)
حضرت موسیٰؑ کے بعد حضرت عیسیٰ ؑ تک جتنے بھی نبی آئے وہ سب شریعت موسوی کے تابع تھے ۔ چنانچہ قرآن کریم فرماتا ہے :إِنَّا أَنزَلْنَا التَّوْرَاةَ فِيهَا هُدًى وَنُورٌ ۚ يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّونَ الَّذِينَ أَسْلَمُوا لِلَّذِينَ هَادُوا وَالرَّبَّانِيُّونَ وَالْأَحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُوا مِن كِتَابِ اللَّهِ وَكَانُوا عَلَيْهِ شُهَدَاءَ ۚ( سورۃ المائدہ : 44) تر
جمہ : یقیناً ہم نے تورات اتاری اُس میں ہدایت بھی تھی اور نور بھی۔ اس سے انبیاءجنہوں نے اپنے آپ کو(کلیۃً اللہ کے) فرمانبردار بنا دیا تھا یہود کے لئے فیصلہ کرتے تھے۔ اور اسی طرح اللہ والے لوگ اور علماءبھی اس وجہ سے کہ ان کو اللہ کی کتاب کی حفاظت کا کام سونپا گیا تھا (فیصلہ کرتے تھے) اور وہ اس پر گواہ تھے۔
حضرت عیسیٰ ؑ بھی شریعت ِ موسوی کے تابع تھے ۔ (ملاحظہ ہو متی باب 5 آیت 15 ’’یہ نہ سمجھو کہ مَیں موسوی شریعت اور نبیوں کی باتوں کو منسوخ کرنے آیا ہوں۔ منسوخ کرنے نہیں بلکہ اُن کی تکمیل کرنے آیا ہوں۔‘‘)
مثالیں تو اور بھی ہیں لیکن طوالتِ مضمون کے تحت یہی بس ہے۔اسلئے علماء نے آسانی کے لئے اور درجہ بندی کرنے کے لئے تشریعی نبی اور غیر تشریعی نبوت جیسی اصطلاحیں استعمال کی ہیں۔

دوسرے سوال کا جواب:
میں آپ کا ممنون ہوں کہ آپ نے یہ سوال کیا ۔ کیونکہ اس سے لا نبی بعدی کی بھی تشریح ہو جاتی ہے ۔ چنانچہ بخاری میں حدیث آئی ہے ( ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ ) مجھے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے خبردی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا ، میں سویا ہوا تھا کہ میں نے ( خواب میں ) سونے کے دوکنگن اپنے ہاتھوں میں دیکھے ۔ مجھے اس خواب سے بہت فکر ہوا ، پھر خواب میں ہی وحی کے ذریعہ مجھے بتلایا گیا کہ میں ان پر پھونک ماروں ۔ چنانچہ جب میں نے پھونک ماری تو وہ دونوں اڑگئے ۔’’فَأَوَّلْتُهُمَا كَذَّابَيْنِ، يَخْرُجَانِ بَعْدِي‘‘ میں نے اس سے یہ تعبیر لی کہ میرے بعد جھوٹے نبی ہوں گے ۔ پس ان میں سے ایک تو اسود عنسی ہے اور دوسرا یمامہ کا مسیلمہ کذاب تھا ۔
اب یہاں لفظ ’بعد‘ استعمال ہوا ہے ۔ حالانکہ یہ مسلّمہ بات ہے کہ اسود عنسی نے بھی اور مسیلمہ نے بھی آنحضرتﷺ کی زندگی میں نبوت کا دعویٰ کیا اور آپؐ کو اسکی اطلاع بھی موصول ہوئی ۔چنانچہ دوسری جگہ آیا ہے ’’انا بینھما‘‘ کہ میں ان دونوں کے درمیان ہوں۔ تو یہاں ’’بعد‘‘ کے معانی کیا ہوئے ؟؟۔
یہاں ’’بعد‘‘ سے مراد مدّ مقابل اور مخالف ہو نا ہے ۔ یعنی مراد یہ ہوئی کہ کہ وہ دونوں میری مخالفت میں اور میرے مقابل نبوت کا جھوٹا دعویٰ کریں گے ۔ عربی زبان کے اس اسلوب کی تائید قرآن کریم کی اس آیت سے بھی ہوتی ہے ۔ فرمایا:
فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَ اللَّهِ وَآيَاتِهِ يُؤْمِنُونَ(الجاثیہ:6) ترجمہ :
پس اللہ اور اس کی آیات کے بعد پھر اَور کس بات پر وہ ایمان لائیں گے؟
یہاں بھی بعد سے مراد مدّ مقابل اور مخالف ہے ۔
اب تاریخی حقائق کو دیکھیں تو دونوں نے آنحضرت ﷺ کی مدّ مقابل ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔ اسود عنسی نے آنحضرت ﷺ کے خلاف فوج کھڑی کی ۔ حضور ؐ کے صحابی شہر بن باذان ؓ کو جو صنعاء پر حاکم مقرر کئے گئے تھے قتل کیا اور انکی بیوہ سے زبر دستی شادی کی ۔ حضر موت کے صحراء سے طائف اور بحرین تک اور دوسری طرف احساء سے عدن تک کے علاقہ پر تسلّط قائم کر لیا۔ تمام مؤرخین اس بات پر متفق ہیں کہ اس نے رسول کریم ﷺ کے خلاف علم ِ بغاوت بلند کیا تھا۔
دوسری طرف مسلیمہ کو لے لیں۔ اس نے نبوت کا دعویٰ کیا اور قرآن کریم کی نقل میں مسجع عبارتیں تشکیل دینے لگا۔ اسی طرح اپنے ماننے والوں کی نماز معاف کر دی ۔ شراب زنا وغیرہ جائز کر دیا۔یہ ساری تعلیمات جو عملاً حضرت رسول کریم ﷺ کی شریعت کے خلاف تھیں انکی تنشیر کی ۔

گویا ان دونوں نے عملاً بھی اور قولاً بھی آنحضرت ﷺ کی شریعت کے خلاف دعویٰ نبوت کیا ۔
جن علماء کرام کے حوالہ جات خاکسار نے پہلے بھجوائے تھے ان کا یہی مؤقف ہے کہ کوئی ایسا نہیں آ سکتا جو آنحضرت ﷺ کی شریعت کو کلّی یا اسکے چند حصو ں کو بھی منسوخ کر دے ۔ جیسا کہ نواب حسن خان صاحب نے لانبی بعدی کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ ایسا کوئی نہ آئے گا جو آپؐ کی نبوت و شریعت کے مخالف ہو اور اسکا ناسخ ہو۔
جزاکم اللہ
میں ان دونوں جوابات پر آپ کا شکرگزار ہوں۔

آپ نے پہلی بات تشریعی و غیر تشریعی نبی کی حیثیت کے بارے میں فرمائی۔ اور اس پر جو اعتراض ہے، مجھے امید واثق ہے کہ آپ کو اس کا بھی اندازہ ہوگا۔ آپ کی تشریح یہ ہے:
ایسے انبیاء جو شریعت لے کر نہیں آئے بلکہ پرانی شریعت کے تابع تھے یعنی کسی نے بھی گزشتہ احکام شریعت کو منسوخ نہ کیا ۔ ان میں سے بعض پرانی شریعت کی تجدید کرنے کے لئے اور بعض کے ذمہ شریعت کے تابع رہتے ہوئے کسی قوم کی ہدایت کی ذمہ داری لگائی گئی ۔
اس میں پہلا مسئلہ یہ ہے کہ آپ نے عیسیؑ کو غیر تشریعی نبی قرار دیا ہے:
حضرت عیسیٰ ؑ بھی شریعت ِ موسوی کے تابع تھے ۔ (ملاحظہ ہو متی باب 5 آیت 15 ’’یہ نہ سمجھو کہ مَیں موسوی شریعت اور نبیوں کی باتوں کو منسوخ کرنے آیا ہوں۔ منسوخ کرنے نہیں بلکہ اُن کی تکمیل کرنے آیا ہوں۔‘‘)
جب کہ حضرت عیسیؑ نے خود فرمایا ہے:
ولأحل لكم بعض الذي حرم عليكم وجئتكم بآية من ربكم (آل عمران۔50)
"اور تاکہ میں تمہارے لیے بعض وہ چیزیں حلال کروں جو تم پر حرام کر دی گئی ہیں اور میں تمہارے پاس تمہارے رب کی جانب سے نشانی لے کر آیا ہوں۔"
حرام کردہ چیزوں کو حلال کرنا "نسخ" ہے۔
اس کی تاویل بعض علماء نے یہ کی ہے کہ یہ چیزیں یہود کے علماء نے حرام کر دی تھیں۔ قرآن کریم میں اس کے خلاف موجود ہے:
فبظلم من الذين هادوا حرمنا عليهم طيبات أحلت لهم وبصدهم عن سبيل الله كثيرا (160) وأخذهم الربا وقد نهوا عنه وأكلهم أموال الناس بالباطل وأعتدنا للكافرين منهم عذابا أليما (161) (النساء)
"یہود کی طرف سے ظلم کی وجہ سے ہم نے ان پر وہ پاکیزہ چیزیں حرام کر دیں جو ان پر حلال کی گئی تھیں اور ان کے اللہ کے راستے سے بہت زیادہ روکنے کی وجہ سے اور ان کے سود کھانے کی وجہ سے جب کہ انہیں اس سے روکا گیا تھا اور ان کے لوگوں کے مال باطل طریقے سے کھانے کی وجہ سے، اور ان میں کافروں کے لیے ہم نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔"
معلوم ہوا کہ حرام کردہ چیزیں اللہ پاک کی طرف سے تھیں۔
بعض علماء نے یہ تاویل کی ہے کہ یہ حرام کردہ چیزیں "ظلم" کی وجہ سے تھیں تو عیسیؑ نے انہیں ان کی اصل یعنی حلت پر واپس کر دیا۔ یہ تاویل تو واضح طور پر غلط ہے کہ یہود کے جو افعال اس آیت میں بیان ہوئے ہیں وہ تو آج تک ان میں موجود ہیں، عیسیؑ کے وقت تو بہت شدت سے تھے۔ جب تحریم کی علت موجود تھی تو وہ احکام حلت پر واپس کیسے کردیے گئے؟
معلوم یہ ہوا کہ عیسیؑ نے ان احکام کی حرمت کو باقاعدہ نئے احکام خداوندی سے منسوخ کر دیا تھا۔
آپ نے صاحب تشریع نبی کی تعریف یہ کی کہ جو پرانی شریعت کے تابع تھے اور انہوں نے کوئی حکم منسوخ نہیں کیا، مثال میں عیسیؑ کو ذکر کیا حالانکہ انہوں نے احکام کو منسوخ کیا ہے۔ اب یا تو آپ کی تعریف غلط ہے اور یا مثال۔ تعیین آپ خود فرما دیں۔

دوسرا مسئلہ اس میں ہے مرزا قادیانی کی نبوت کا۔ مجھے یہ نہیں معلوم کہ آپ قادیانی ہیں یا مسلمان لیکن چونکہ یہ ابحاث آج کل عموماً قادیانی چھیڑتے ہیں تو میں اس پر بات کرتا ہوں۔
مسئلہ یہ ہے کہ مرزا صاحب کو جہاد کو منسوخ کرنے کا بہت شوق تھا۔ چنانچہ فرماتے ہیں:
اب چھوڑ دو جہاد کا اے دوستو خیال
دین کے لیے حرام ہے اب جنگ و قتال

ایک چیز جس کے وجوب و عدم وجوب کی بحث کی جا سکتی تھی اسے مرزا قادیانی نے "حرام" کر دیا۔
دونوں میں فرق سمجھیے! حرمت کے لیے دلیل قطعی چاہیے ہوتی ہے:
الخامس: التحريم: وهو ما طلب الشارع تركه طلبًا جازمًا، أو هو طلب الترك مع المنع عن الفعل، لترتب العقاب على الفاعل، وأثره الحرمة، والمطلوب تركه والكف عن فعله هو الحرام۔۔۔
التحريم: وهو ما طلب الشارع تركه طلبًا جازمًا بدليل قطعي الثبوت قطعي الدلالة، مثل قتل النفس والزنا.
(الوجيز في اصول الفقه)

تحریم کی بھی دو قسمیں ہیں: تحریم لعینہ (جو خود کسی دلیل قطعی کی وجہ سے حرام ہو) اور تحریم لغیرہ (جو خود تو مباح ہو لیکن کسی اور چیز کی وجہ سے اس میں حرمت آ جائے)
جو چیز قرآن کریم کی دلیل قطی سے ثابت ہو اسے کسی وجہ سے وقتی طور پر منع تو کیا جا سکتا ہے لیکن مطلقاً حرام تب ہی کیا جا سکتا ہے جب اس کے خلاف کوئی دلیل قطعی (یعنی قطعی الثبوت و قطعی الدلالۃ) موجود ہو۔ ایسی کوئی دلیل قطعی جہاد کی حرمت پر تو مرزا قادیانی اور قادیانی مذہب کے پیروکار کہیں سے بھی پیش نہیں کر سکتے تو پھر اسے مرزا نے "حرام" کیسے کر دیا؟ وہ یہ بحث کرتا کہ اس کے اسباب آج کل موجود نہیں ہیں، اس میں مسلمانوں کا نقصان ہو رہا ہے، مسائل بہت ہیں وغیرہ اور ان وجوہات کی بنا پر اس قرآنی حکم پر اس زمانے میں عمل مشکل ہے یا نامناسب ہے تو ہم یہ سمجھ لیتے کہ چلو یہ بشری کمزوری ہے یا کم از کم اجتہادی مسئلہ ہے۔
لیکن ایک جانب دعوائے نبوت اور دوسری جانب فعل تحریم! حلال کو حرام یا حرام کو حلال کرنا نسخ ہوتا ہے تو یہ نسخ کا فعل مرزا نے بھی کیا۔ اب اگر وہ صاحب تشریع نبی تھا تو قادیانی حضرات کی تاویلات کے خلاف ہے اور اگر وہ غیر صاحب تشریع نبی تھا تو اس نے اللہ پاک پر جھوٹ بول دیا کہ "دین کے لیے حرام ہے۔" نیز اگر وہ غیر صاحب تشریع نبی تھا تو اس نے قرآن کریم کے واضح حکم کی بھی مخالفت کر لی:
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُحَرِّمُوا طَيِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ (المائدہ۔ 87)

مرزا قادیانی نے اس کام کے لیے حدیث میں واقع "یضع الحرب" کے الفاظ سے استدلال کرنے کی کوشش کی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اس کا مطلب یہ تو ہے کہ مسیح جنگ کو ختم کردے گا (یعنی دشمنوں کو ختم کر کے جنگ کے مواقع ختم کر دے گا) لیکن اس کا مطلب یہ کیسے بن گیا کہ مسیح جہاد کو "حرام" کر دے گا؟ حضرت مسیحؑ (اوریجنل والے، قادیان مارکہ نہیں) شریعت مصطفوی کو منسوخ نہیں کریں گے۔

دوسرے سوال کے جواب سے متعلق بات ان شاء اللہ رات کو کرتا ہوں۔
 
Top