حیدرآبادی
مشہور رکن
- شمولیت
- اکتوبر 27، 2012
- پیغامات
- 287
- ری ایکشن اسکور
- 500
- پوائنٹ
- 120
ابتدائے عشق ہے ہنستا ہے کیا راجہ ۔۔۔
کیا دیکھتے ہیں کہ ٹی وی کا رابطہ غائب ہے اور سیاہ اسکرین ماتم کناں ہے، سوچا قیامت کی گھڑی آگئی ہوگی ورنہ اہل خبر و نظر کب ترک تعلق کرتے ہیں- ابھی چلو بھر پانی اور ٹی وی کو گھورتے بیٹھے ہی تھے کہ شیفتہ کا برقی پیام آگیا ۔۔۔ لکھا تھا " ابتدا ئے عشق ہے، ہنستا ہے کیا راجہ"۔۔۔۔ سوچا شیفتہ کو اس وقت شاعری کی یونہی نہیں سو جھی ہوگی۔۔۔۔۔ اہل ادب کی ہر بات میں کو ئی بات ہوتی ہے- الله خیر کرے۔۔۔۔۔۔ضرور کو ئی انہونی ہو ئی ہے۔۔۔۔۔
ابھی اسی کشمکش میں تھے کہ ٹی وی اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ جلوہ گرہوگیا۔۔۔ الکشن کے نتایج دیکھ حلق سوکھنے لگا اور ہم نے چلو بھر پانی سے حلق تر کرلیا۔۔۔ سوچا کانگریسی کب اس کا استعمال کریں گے اور ہم اسے ضائع کیوں کریں۔۔۔۔
فاتح امیدوار کو اسکرین پر ہنستا ہوا پایا۔۔۔۔۔ اور روایت کی تقلید میں ایک دنیا کو اسکے ساتھ ملکر قہقہے لگاتے پایا۔۔۔۔۔۔۔
کوئی دبی دبی ہنسی کا شکار تھا ۔۔۔۔۔۔۔ کوئی قہقہہ لگا کر اپنی جاں نثاری کا اظہار کر رہا تھا۔۔ تو کو ئی تبسم ریز ہو کر اپنی وفاؤں کا۔۔۔۔۔۔۔کوئی روتے روتے ہنس رہا تھا اور کوئی ہنستے ہنستے رو رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔ کسی کے آنسووں کے سوتے پھوٹ پڑے تو کسی کے خشک دکھائی دئے۔۔۔۔ چند لوگوں کو یونہی ہنستے بھی دیکھا۔۔۔۔۔۔ ٹی وی پر اہل خبر و نظر کو ہما ری طرف دیکھ دیکھ کر مسکراتے پایا ۔۔۔۔۔۔ ہمیں کچھ دیر کے لئے محسوس ہوا وہ سب ہمیں بھی ہنسنے پر آمادہ کر رہے ہیں، جیسے کہہ رہے ہوں اب آبھی جائیے حضور۔۔۔ دنیا جب ہنستی ہے تو چوں چراں اور ایں آں نہیں کرنا چاہیے۔۔۔ دنیا جب ہنستی ہے تو بہتی ندی کی مانند ہو تی ہے۔۔۔۔۔۔۔ بے دھڑک کود پڑنا چاہیے۔۔۔۔۔۔ ہم نے سوچا یہ سب بجا سہی۔۔۔۔ لیکن معلوم تو ہو یہ ندی بلآخر سمندر میں گرے گی یا کسی گڈھے میں۔۔۔۔۔۔یہ سوچتے ہی ہما ری ہنسی چھوٹ گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الغرض اندھے کانگریسیوں کی کوتاہیوں کی وجہ سے بی جے پی کے راجہ کو منتخب ہوتے دیکھا۔۔۔۔۔۔ اندھوں میں اب بھلا اندھا راجہ تو ہونے سے رہا۔۔۔۔۔۔۔۔ ظاہر ہے یا تو آنکھوں والا ہوگا یا کانا ہوگا۔۔۔۔ اب یہ تو اہل بصیرت پر منحصر ہے کہ انہیں راجہ کیسا دکھائی دیا۔۔۔۔۔۔۔۔ابھی چائے کا پہلا گھونٹ لیا ہی تھا کہ بقراط کا برقی پیام آیا۔۔ حلق میں کچھ پھنستا محسوس ہوا۔۔۔۔شیفتہ کے جواب میں اس نے لکھ بھیجا ۔۔
ابتدائے عشق ہے، ہنستا ہے کیا راجہ۔۔۔۔ آگے آگے دیکھ لے ہوتا ہے کیا راجہ۔۔۔۔۔۔
کانگریس کے اندھیر نگری چوپٹ راج میں جو کچھ ہوا تھا اسکا فائدہ بی جے پی نے الکشن میں خوب اٹھایا۔۔۔۔۔ اور اب اس کا خمیازہ دیکھیں کون کون اٹھاتا ہے۔۔۔۔۔۔مودی کا وزیراعظم کا خواب شرمندہ تعبیر ہوا، پھر بھی حزب مخالف کا کو ئی بھی سیاستداں شرمندہ نہ ہوا - انہوں نے ابھی عہد اور عہدہ برآوری کے مراحل طے بھی نہیں کئے تھے کہ پاکستان اور بنگلہ دیش سے دلی مبارکباد اور دورۂ خیرسگالی کی دعوت بھی دے دی گئی - بین الاقوامی سیاسی امور کے آداب کہہ لیجیے یا تجدید وفا میں عجلت کا مظاہرہ۔۔۔۔۔۔۔ اہل مغرب نے مبارکباد ضرور دی لیکن وہاں تک نہ پہنچے جہاں تک پڑوسی ممالک جا پہنچے۔۔۔۔۔۔۔ پڑوس میں جبکہ چین ،نیپال بھوٹان اور سری لنکا بھی ہیں اور وہ بھی یہ آداب جانتے ہیں اور ان کا پاس رکھنا بھی-
الغرض پڑوسیوں کے علاوہ اہل وطن بھی کچھ کم عجلت زدہ نہیں تھے۔۔۔۔۔۔۔۔ تقریبا 70- 60 فیصد عوام نے رائے شماری میں حصہ لیا ہوگا اور ان میں سے بھی تقر یبا 30 – 35 فیصد رائے دہندگان کی رائے سے فاتح کو اور انکی سیاسی جماعت کو حکومت کے لئے چنا گیا۔۔ اس سے یہ ثابت بھی ہوتا ہے کہ ملک کی اکثریت اس فیصلہ میں یا تو شامل نہیں ہے یا اسکی ترجیحات مختلف ہیں، اور وہ فاتح کے ساتھ نہیں ہیں- امیدواروں، گدیوں اور علاقوں کی اہمیت اپنی جگہ اور وہ نتائج پر جس طرح اثرانداز ہوتے ہیں وہ حقیقت بھی جمہوریت میں اپنی جگہ -
الغرض جمہوریت میں سب کچھ جائز ہے صرف کثیر تعداد کا ساتھ چاہیے جو پولنگ بوتھ پر انگلی پیش کرنے کے لئے تیار ہو-
حالیہ الکشن میں فی الحقیقت بی جے پی کی کامیابی کے لئے دعا کرنے والے اسقدر نہیں تھے جتنے کانگریس کے لئے بددعا کرنے والے- اور جس کا نتیجہ سامنے تھا کہ فاتح خوشی سے چیخ اٹھا۔۔۔ اور کہا ۔۔۔ "اوپر والا جب دیتا ہے تو چھپر پھاڑ کر دیتا ہے"-
واقعی یہ تو ایک دنیا جانتی ہے ۔۔۔ لیکن کمبخت دنیا یہ نہیں جانتی، اور جاننا بھی نہیں چا ہتی۔۔۔۔۔ کہ دراصل یہ اوپر والا ہے کون!!!۔۔۔۔۔ جو ہم جیسے ایرے غیرے اور نتھو خیروں کو یونہی چھپر پھاڑ پھاڑ کر نہیں دے دیتا۔۔۔ کو ئی تو وجہ ہوگی اور جسے سمجھنے کے لئے پھٹے ہوئے چھپر پر غور و فکر کرنے سے بہتر ہے اس اوپر والے پر غور و فکر کیا جائے تاکہ اس چھپر پھاڑ رحمت کی وجہ سمجھ میں آجائے۔۔۔ ورنہ یہی چھپر کبھی بغیر پھٹے سر پربھی آ گرتا ہے ۔۔۔۔یہی وہ نکتہ تھا جو کانگریسیوں نے سوچا نہیں۔۔۔۔۔۔۔
مودی راجہ اس وقت کیا کریں گے پتہ نہیں جب ہر جاں نثار سرمایہ دار یاد دہانی میں منہمک ہو گا۔۔۔۔۔ اور ہر سیاسی وفادار قطرہ قطرہ پانی کا معاوضہ طلب کرے گا۔۔۔۔جو اس نے پیا اور پلایا ہے۔۔۔۔ اور عوام کی نصف اکثریت جس نے جو قطرے بہائے ہیں وہ ادائیگی کا تقاضہ کریگی۔۔۔ بلکہ بقیہ نصف اکثریت بھی راجہ کو کہاں چھوڑے گی۔۔۔۔۔عوام جو جمہوریت میں اپنے ووٹوں اور تمناؤں کا صلہ چاہنے میں عجلت زدہ واقع ہوئے ہیں۔۔۔۔۔۔۔اور پھر مودی راجہ نے اپنے مخالفین کو زیر کرنے میں جو الزامات، حقائق اور نقائص ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالے تھے، اور جو دعوی کیے تھے ان سب کا کیا ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔ سیاست دانوں اور سرکاری افسروں کی کوتاہیوں کی تفتیش اور خرد برد ان کا ازالہ کیسے ہوگا۔۔۔۔عوام کی بے شمار توقعات کا کیا ہوگا ۔۔۔۔۔۔ جس میں سب سے اول نمبر پر ہے :
ملک و عوام کی معاشی حالت میں بہتری۔۔۔۔۔۔
بنیادی سطح سے اوپری سطح تک بدعنوانی کا خاتمہ۔۔۔۔
لال فیتہ شاہی پر روک تھام۔۔۔۔۔۔
کالے دھن کی وصولیابی۔۔۔۔۔
اور کروڑوں عوام کی ہزاروں خواہشات ۔۔۔ایسی ایسی کہ ہر ایک خواہش پہ حکومت کا دم نکلے ۔۔۔۔۔۔
یہ صحیح ہے کہ شیئر بازار، سٹہ بازار، اور دیگر بازاروں اور مالی اداروں پر مودی راجہ کے ہمنواؤں کی اجارہ داری ٹہری اور قمقموں کو کواکب بنانا انکے ہاتھوں کا کھیل ٹہرا ، لیکن 70 فیصد غریب عوام کی تمنائیں تو گھریلو بجلی کے داموں کا طواف کرتی دکھائی دینگی۔۔۔۔اکثر غریب اور متوسط طبقہ روزگار اور آمدنی کا حساب کتاب مع اہل و عیال لئے بیٹھا ہوگا ۔۔۔۔۔۔۔۔ گیس سیلنڈر، پیٹرول، تیل گھی اور دیگر ضروریات زندگی کے داموں کو انگلیوں پر گننے بیٹھا ہوگا۔۔۔۔ یہی وہ تمام باتیں ہیں ہو جمہوریت میں اہل اقتدار کا تختہ پلٹ دیتی ہیں اور مخالفین کو فاتح بنا دیتی ہیں- ۔کہتے ہیں جمہوریت نے عوام الناس کو بھگوان بنا دیا ہے۔۔۔۔ اور عوام نے جسے دل چاہا اسے اپنا بھگوان سمجھ لیا ۔۔۔۔۔لیکن یہ سب بھگوان پھر پتہ نہیں کیوں اتنے بے بس و محتاج ہوتے ہیں ۔۔۔
ہندوستان میں تو عوام کے ساتھ اکثر بھگوان کے نصیب میں گھر بلکہ چھت بھی نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔ عوام میں چند ایسے بھی ہونگے جو راجہ کو اپنے اپنے بھگوان کی یاد دلانا چاہیں گے اور یہ بھولنے نہیں دیں گے کہ آپ بھگوان کو اور ہم کوبے گھر نہیں رکھ سکتے ۔۔۔۔۔۔۔ جس کا آپ نے وعدہ کیا ہے ۔۔۔۔۔ ان لوگوں کا ذکر ہی کیا جن کے گھر مودی راجہ کی پچھلی ریاست میں چھین لئے گئے تھے، اور انکے سر پر چھت کے بجائے الزامات رکھ دیے گیے تھے ۔۔۔۔۔۔
مذکورہ مسائل کے علاوہ وہ اہل خبر و نظر بھی ہونگے جنہوں نے مودی راجہ کو فاتح بنانے میں اپنا خون جگر دیا ہوگا ۔۔۔۔۔۔۔جنہیں لہو گرم رکھنے کا بہانہ چاہیے ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔ انکے لئے عوام کا لہو سرد ہوجانا انکے ٹی آر پی کو منجمد کرنے کے مترادف ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔وہ پھر لہو گرم رکھنے کا بہانہ ڈھونڈنے نکلیں گے ۔۔۔۔۔۔ پھر ان اہل دانش و اہل نظر کا کیا جن کے افکارات انسانیت کی بھلائی اور انصاف پسندی کے علمبردار ہوتے ہیں ۔۔۔۔اور جن کی نظریں غیر متعصب ہوتی ہیں۔۔۔۔۔ اور جو راجاؤں کے قدموں کی ایک ایک چاپ کا بھی حساب رکھتے ہیں–
یہ سب تو زمینی حقائق ہیں اور ساحل سمندر کے عقب کا منظر پیش کرتے ہیں۔۔۔۔جب مودی راجہ ساحل سے اٹھ کر دنیا کے سمندر میں کودیں گے۔۔۔۔۔۔ تو انہیں من موہن کا بھنور میں پھنس کر صحیح سلامت نکلنے اور نکالنے کا اندازہ ہوگا- انہیں مغربی اہل اقتدار کے سمندر میں مسلسل غوطہ کھانے کے اسباب بھی پتہ چل جائیں گے، جہاں کتنے راجہ ڈوب کر کبھی نکل نہ پائے اور کتنے آج بھی تیر رہے ہیں۔۔۔
انسانی تاریخ میں چند راجاؤں کی تو لاش بھی سمندر میں تیرتی پا ئی گئی ہے۔۔۔۔۔ جنہوں نے انسانیت پر ظلم و جبر سے کام لیا تھا اور توبہ کا موقع ملنے کے باوجود بھی رجوع نہ کرسکے۔۔۔۔۔ الغرض یہ جو دنیا سمجھ رہی ہے کہ مودی راجہ کو دنیا نے موقع دیا ہے، اور شاید مودی راجہ خود بھی یہی سمجھ رہے ہونگے۔۔۔۔ تو انہیں اس سمندر اور اس کی تاریخ کا کچھ تو علم ہوگا۔۔ اور اگر نہیں ہے تو انہیں یہ علم حاصل کر لینا چاہیے کہ اس دنیا نے جہاں اشوک اعظم کو پچھتاوے کی آگ میں جلتے اور ازالہ کرتے دیکھا۔۔۔دارا و سکندر و اکبر کے جاہ و جلال کو مٹی ہوتے دیکھا، سبکتگین و ہارون و مامون کے انصاف و قانون اور انجام کو تاریخ میں رقم ہوتے دیکھا ہے تو شداد و فرعون و چنگیز و ہٹلر کا غرور خاک ہوتے بھی دیکھا ہے ۔۔۔۔۔
تاریخ شاہد ہے کہ ان تمام راجاوں کے جاں نثاروں میں گردن پیش کرنے والوں کی تعداد پولنگ بوتھ پر انگلیاں دکھا کر وفاؤں کی سندیں پیش کرنے والوں سے ہزار گناہ زیادہ تھی، لیکن انجام کار تاریخ میں انکا نام کس کس باب میں درج ہے اس کا علم مودی راجہ کو ضرور ہوگا ۔۔۔۔۔اور راجہ کو ہونا بھی چاہیے۔۔۔۔۔۔
ورنہ آج کل وقت کسی کی توبہ اور نیکیوں کا کہاں دس سال انتظار کرتا ہے۔۔۔ اگر توبہ کا وقت مل جاتاہے تو نیکیوں کے لئے وقت پورا نہیں ہوپاتا۔۔۔۔۔اگر نیت میں فتور آجایے تو خالق حقیقی کو اکثر توبہ اور نیکی کے درمیان ہی رسی کھینچتے دنیا نے دیکھا ہے۔۔۔۔پھر چاہے وہ رسی عوام کے ہاتھوں کھنچوائے یا کو ئی اور اسباب پیدا کرے۔۔۔ہاں خالق حقیقی کے پاس در توبہ کھلا رہتا ہے ۔۔
مودی راجہ ۔۔۔
۔۔۔۔اپنی ترجیحات درست کرلیں اور اپنی نیت بھی ۔۔۔۔ تب ہی بقول آپ کے اچھے دن آئیں گے۔۔۔۔اور انشاءاللہ ضرورآئیں گے۔۔۔۔ اور سب کے آئیں گے۔۔۔ساری انسانیت کے آئیں گے۔۔
پھر آپ ساری دنیا کو اپنے ساتھ پائیں گے ۔۔۔۔ پھر وقت کی کوئی قید نہیں ہوگی۔۔ دس سال کیا تمھارے نام سے ہزاروں سالوں تک حکومت چلتی رہے گی ۔۔۔۔۔۔
صبح سویرے ہم ٹی وی کے سامنے الکشن کے نتائج دیکھنے اہتمام کے ساتھ بیٹھے تھے، جس میں تولیہ، ٹشو پیپرز، چلوبھر پانی، زہر ہلال ( یہ سب سیاسی لیڈروں کے لئے) اور کچھ تریاق اور چائے کی پیالی کا اپنے لئے خاص اہتمام کیا تھا۔۔۔۔۔حالیہ الکشن میں فی الحقیقت بی جے پی کی کامیابی کے لئے دعا کرنے والے اسقدر نہیں تھے جتنے کانگریس کے لئے بددعا کرنے والے- اور جس کا نتیجہ سامنے تھا کہ فاتح خوشی سے چیخ اٹھا۔۔۔ اور کہا ۔۔۔ "اوپر والا جب دیتا ہے تو چھپر پھاڑ کر دیتا ہے"-
واقعی یہ تو ایک دنیا جانتی ہے ۔۔۔ لیکن کمبخت دنیا یہ نہیں جانتی، اور جاننا بھی نہیں چا ہتی۔۔۔۔۔ کہ دراصل یہ اوپر والا ہے کون!!!۔۔۔۔۔ جو ہم جیسے ایرے غیرے اور نتھو خیروں کو یونہی چھپر پھاڑ پھاڑ کر نہیں دے دیتا۔۔۔ کو ئی تو وجہ ہوگی اور جسے سمجھنے کے لئے پھٹے ہوئے چھپر پر غور و فکر کرنے سے بہتر ہے اس اوپر والے پر غور و فکر کیا جائے تاکہ اس چھپر پھاڑ رحمت کی وجہ سمجھ میں آجائے۔۔۔ ورنہ یہی چھپر کبھی بغیر پھٹے سر پربھی آ گرتا ہے ۔۔۔۔یہی وہ نکتہ تھا جو کانگریسیوں نے سوچا نہیں۔۔۔۔۔۔۔
کیا دیکھتے ہیں کہ ٹی وی کا رابطہ غائب ہے اور سیاہ اسکرین ماتم کناں ہے، سوچا قیامت کی گھڑی آگئی ہوگی ورنہ اہل خبر و نظر کب ترک تعلق کرتے ہیں- ابھی چلو بھر پانی اور ٹی وی کو گھورتے بیٹھے ہی تھے کہ شیفتہ کا برقی پیام آگیا ۔۔۔ لکھا تھا " ابتدا ئے عشق ہے، ہنستا ہے کیا راجہ"۔۔۔۔ سوچا شیفتہ کو اس وقت شاعری کی یونہی نہیں سو جھی ہوگی۔۔۔۔۔ اہل ادب کی ہر بات میں کو ئی بات ہوتی ہے- الله خیر کرے۔۔۔۔۔۔ضرور کو ئی انہونی ہو ئی ہے۔۔۔۔۔
ابھی اسی کشمکش میں تھے کہ ٹی وی اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ جلوہ گرہوگیا۔۔۔ الکشن کے نتایج دیکھ حلق سوکھنے لگا اور ہم نے چلو بھر پانی سے حلق تر کرلیا۔۔۔ سوچا کانگریسی کب اس کا استعمال کریں گے اور ہم اسے ضائع کیوں کریں۔۔۔۔
فاتح امیدوار کو اسکرین پر ہنستا ہوا پایا۔۔۔۔۔ اور روایت کی تقلید میں ایک دنیا کو اسکے ساتھ ملکر قہقہے لگاتے پایا۔۔۔۔۔۔۔
کوئی دبی دبی ہنسی کا شکار تھا ۔۔۔۔۔۔۔ کوئی قہقہہ لگا کر اپنی جاں نثاری کا اظہار کر رہا تھا۔۔ تو کو ئی تبسم ریز ہو کر اپنی وفاؤں کا۔۔۔۔۔۔۔کوئی روتے روتے ہنس رہا تھا اور کوئی ہنستے ہنستے رو رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔ کسی کے آنسووں کے سوتے پھوٹ پڑے تو کسی کے خشک دکھائی دئے۔۔۔۔ چند لوگوں کو یونہی ہنستے بھی دیکھا۔۔۔۔۔۔ ٹی وی پر اہل خبر و نظر کو ہما ری طرف دیکھ دیکھ کر مسکراتے پایا ۔۔۔۔۔۔ ہمیں کچھ دیر کے لئے محسوس ہوا وہ سب ہمیں بھی ہنسنے پر آمادہ کر رہے ہیں، جیسے کہہ رہے ہوں اب آبھی جائیے حضور۔۔۔ دنیا جب ہنستی ہے تو چوں چراں اور ایں آں نہیں کرنا چاہیے۔۔۔ دنیا جب ہنستی ہے تو بہتی ندی کی مانند ہو تی ہے۔۔۔۔۔۔۔ بے دھڑک کود پڑنا چاہیے۔۔۔۔۔۔ ہم نے سوچا یہ سب بجا سہی۔۔۔۔ لیکن معلوم تو ہو یہ ندی بلآخر سمندر میں گرے گی یا کسی گڈھے میں۔۔۔۔۔۔یہ سوچتے ہی ہما ری ہنسی چھوٹ گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الغرض اندھے کانگریسیوں کی کوتاہیوں کی وجہ سے بی جے پی کے راجہ کو منتخب ہوتے دیکھا۔۔۔۔۔۔ اندھوں میں اب بھلا اندھا راجہ تو ہونے سے رہا۔۔۔۔۔۔۔۔ ظاہر ہے یا تو آنکھوں والا ہوگا یا کانا ہوگا۔۔۔۔ اب یہ تو اہل بصیرت پر منحصر ہے کہ انہیں راجہ کیسا دکھائی دیا۔۔۔۔۔۔۔۔ابھی چائے کا پہلا گھونٹ لیا ہی تھا کہ بقراط کا برقی پیام آیا۔۔ حلق میں کچھ پھنستا محسوس ہوا۔۔۔۔شیفتہ کے جواب میں اس نے لکھ بھیجا ۔۔
ابتدائے عشق ہے، ہنستا ہے کیا راجہ۔۔۔۔ آگے آگے دیکھ لے ہوتا ہے کیا راجہ۔۔۔۔۔۔
کانگریس کے اندھیر نگری چوپٹ راج میں جو کچھ ہوا تھا اسکا فائدہ بی جے پی نے الکشن میں خوب اٹھایا۔۔۔۔۔ اور اب اس کا خمیازہ دیکھیں کون کون اٹھاتا ہے۔۔۔۔۔۔مودی کا وزیراعظم کا خواب شرمندہ تعبیر ہوا، پھر بھی حزب مخالف کا کو ئی بھی سیاستداں شرمندہ نہ ہوا - انہوں نے ابھی عہد اور عہدہ برآوری کے مراحل طے بھی نہیں کئے تھے کہ پاکستان اور بنگلہ دیش سے دلی مبارکباد اور دورۂ خیرسگالی کی دعوت بھی دے دی گئی - بین الاقوامی سیاسی امور کے آداب کہہ لیجیے یا تجدید وفا میں عجلت کا مظاہرہ۔۔۔۔۔۔۔ اہل مغرب نے مبارکباد ضرور دی لیکن وہاں تک نہ پہنچے جہاں تک پڑوسی ممالک جا پہنچے۔۔۔۔۔۔۔ پڑوس میں جبکہ چین ،نیپال بھوٹان اور سری لنکا بھی ہیں اور وہ بھی یہ آداب جانتے ہیں اور ان کا پاس رکھنا بھی-
الغرض پڑوسیوں کے علاوہ اہل وطن بھی کچھ کم عجلت زدہ نہیں تھے۔۔۔۔۔۔۔۔ تقریبا 70- 60 فیصد عوام نے رائے شماری میں حصہ لیا ہوگا اور ان میں سے بھی تقر یبا 30 – 35 فیصد رائے دہندگان کی رائے سے فاتح کو اور انکی سیاسی جماعت کو حکومت کے لئے چنا گیا۔۔ اس سے یہ ثابت بھی ہوتا ہے کہ ملک کی اکثریت اس فیصلہ میں یا تو شامل نہیں ہے یا اسکی ترجیحات مختلف ہیں، اور وہ فاتح کے ساتھ نہیں ہیں- امیدواروں، گدیوں اور علاقوں کی اہمیت اپنی جگہ اور وہ نتائج پر جس طرح اثرانداز ہوتے ہیں وہ حقیقت بھی جمہوریت میں اپنی جگہ -
الغرض جمہوریت میں سب کچھ جائز ہے صرف کثیر تعداد کا ساتھ چاہیے جو پولنگ بوتھ پر انگلی پیش کرنے کے لئے تیار ہو-
حالیہ الکشن میں فی الحقیقت بی جے پی کی کامیابی کے لئے دعا کرنے والے اسقدر نہیں تھے جتنے کانگریس کے لئے بددعا کرنے والے- اور جس کا نتیجہ سامنے تھا کہ فاتح خوشی سے چیخ اٹھا۔۔۔ اور کہا ۔۔۔ "اوپر والا جب دیتا ہے تو چھپر پھاڑ کر دیتا ہے"-
واقعی یہ تو ایک دنیا جانتی ہے ۔۔۔ لیکن کمبخت دنیا یہ نہیں جانتی، اور جاننا بھی نہیں چا ہتی۔۔۔۔۔ کہ دراصل یہ اوپر والا ہے کون!!!۔۔۔۔۔ جو ہم جیسے ایرے غیرے اور نتھو خیروں کو یونہی چھپر پھاڑ پھاڑ کر نہیں دے دیتا۔۔۔ کو ئی تو وجہ ہوگی اور جسے سمجھنے کے لئے پھٹے ہوئے چھپر پر غور و فکر کرنے سے بہتر ہے اس اوپر والے پر غور و فکر کیا جائے تاکہ اس چھپر پھاڑ رحمت کی وجہ سمجھ میں آجائے۔۔۔ ورنہ یہی چھپر کبھی بغیر پھٹے سر پربھی آ گرتا ہے ۔۔۔۔یہی وہ نکتہ تھا جو کانگریسیوں نے سوچا نہیں۔۔۔۔۔۔۔
مودی راجہ اس وقت کیا کریں گے پتہ نہیں جب ہر جاں نثار سرمایہ دار یاد دہانی میں منہمک ہو گا۔۔۔۔۔ اور ہر سیاسی وفادار قطرہ قطرہ پانی کا معاوضہ طلب کرے گا۔۔۔۔جو اس نے پیا اور پلایا ہے۔۔۔۔ اور عوام کی نصف اکثریت جس نے جو قطرے بہائے ہیں وہ ادائیگی کا تقاضہ کریگی۔۔۔ بلکہ بقیہ نصف اکثریت بھی راجہ کو کہاں چھوڑے گی۔۔۔۔۔عوام جو جمہوریت میں اپنے ووٹوں اور تمناؤں کا صلہ چاہنے میں عجلت زدہ واقع ہوئے ہیں۔۔۔۔۔۔۔اور پھر مودی راجہ نے اپنے مخالفین کو زیر کرنے میں جو الزامات، حقائق اور نقائص ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالے تھے، اور جو دعوی کیے تھے ان سب کا کیا ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔ سیاست دانوں اور سرکاری افسروں کی کوتاہیوں کی تفتیش اور خرد برد ان کا ازالہ کیسے ہوگا۔۔۔۔عوام کی بے شمار توقعات کا کیا ہوگا ۔۔۔۔۔۔ جس میں سب سے اول نمبر پر ہے :
ملک و عوام کی معاشی حالت میں بہتری۔۔۔۔۔۔
بنیادی سطح سے اوپری سطح تک بدعنوانی کا خاتمہ۔۔۔۔
لال فیتہ شاہی پر روک تھام۔۔۔۔۔۔
کالے دھن کی وصولیابی۔۔۔۔۔
اور کروڑوں عوام کی ہزاروں خواہشات ۔۔۔ایسی ایسی کہ ہر ایک خواہش پہ حکومت کا دم نکلے ۔۔۔۔۔۔
یہ صحیح ہے کہ شیئر بازار، سٹہ بازار، اور دیگر بازاروں اور مالی اداروں پر مودی راجہ کے ہمنواؤں کی اجارہ داری ٹہری اور قمقموں کو کواکب بنانا انکے ہاتھوں کا کھیل ٹہرا ، لیکن 70 فیصد غریب عوام کی تمنائیں تو گھریلو بجلی کے داموں کا طواف کرتی دکھائی دینگی۔۔۔۔اکثر غریب اور متوسط طبقہ روزگار اور آمدنی کا حساب کتاب مع اہل و عیال لئے بیٹھا ہوگا ۔۔۔۔۔۔۔۔ گیس سیلنڈر، پیٹرول، تیل گھی اور دیگر ضروریات زندگی کے داموں کو انگلیوں پر گننے بیٹھا ہوگا۔۔۔۔ یہی وہ تمام باتیں ہیں ہو جمہوریت میں اہل اقتدار کا تختہ پلٹ دیتی ہیں اور مخالفین کو فاتح بنا دیتی ہیں- ۔کہتے ہیں جمہوریت نے عوام الناس کو بھگوان بنا دیا ہے۔۔۔۔ اور عوام نے جسے دل چاہا اسے اپنا بھگوان سمجھ لیا ۔۔۔۔۔لیکن یہ سب بھگوان پھر پتہ نہیں کیوں اتنے بے بس و محتاج ہوتے ہیں ۔۔۔
ہندوستان میں تو عوام کے ساتھ اکثر بھگوان کے نصیب میں گھر بلکہ چھت بھی نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔ عوام میں چند ایسے بھی ہونگے جو راجہ کو اپنے اپنے بھگوان کی یاد دلانا چاہیں گے اور یہ بھولنے نہیں دیں گے کہ آپ بھگوان کو اور ہم کوبے گھر نہیں رکھ سکتے ۔۔۔۔۔۔۔ جس کا آپ نے وعدہ کیا ہے ۔۔۔۔۔ ان لوگوں کا ذکر ہی کیا جن کے گھر مودی راجہ کی پچھلی ریاست میں چھین لئے گئے تھے، اور انکے سر پر چھت کے بجائے الزامات رکھ دیے گیے تھے ۔۔۔۔۔۔
مذکورہ مسائل کے علاوہ وہ اہل خبر و نظر بھی ہونگے جنہوں نے مودی راجہ کو فاتح بنانے میں اپنا خون جگر دیا ہوگا ۔۔۔۔۔۔۔جنہیں لہو گرم رکھنے کا بہانہ چاہیے ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔ انکے لئے عوام کا لہو سرد ہوجانا انکے ٹی آر پی کو منجمد کرنے کے مترادف ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔وہ پھر لہو گرم رکھنے کا بہانہ ڈھونڈنے نکلیں گے ۔۔۔۔۔۔ پھر ان اہل دانش و اہل نظر کا کیا جن کے افکارات انسانیت کی بھلائی اور انصاف پسندی کے علمبردار ہوتے ہیں ۔۔۔۔اور جن کی نظریں غیر متعصب ہوتی ہیں۔۔۔۔۔ اور جو راجاؤں کے قدموں کی ایک ایک چاپ کا بھی حساب رکھتے ہیں–
یہ سب تو زمینی حقائق ہیں اور ساحل سمندر کے عقب کا منظر پیش کرتے ہیں۔۔۔۔جب مودی راجہ ساحل سے اٹھ کر دنیا کے سمندر میں کودیں گے۔۔۔۔۔۔ تو انہیں من موہن کا بھنور میں پھنس کر صحیح سلامت نکلنے اور نکالنے کا اندازہ ہوگا- انہیں مغربی اہل اقتدار کے سمندر میں مسلسل غوطہ کھانے کے اسباب بھی پتہ چل جائیں گے، جہاں کتنے راجہ ڈوب کر کبھی نکل نہ پائے اور کتنے آج بھی تیر رہے ہیں۔۔۔
انسانی تاریخ میں چند راجاؤں کی تو لاش بھی سمندر میں تیرتی پا ئی گئی ہے۔۔۔۔۔ جنہوں نے انسانیت پر ظلم و جبر سے کام لیا تھا اور توبہ کا موقع ملنے کے باوجود بھی رجوع نہ کرسکے۔۔۔۔۔ الغرض یہ جو دنیا سمجھ رہی ہے کہ مودی راجہ کو دنیا نے موقع دیا ہے، اور شاید مودی راجہ خود بھی یہی سمجھ رہے ہونگے۔۔۔۔ تو انہیں اس سمندر اور اس کی تاریخ کا کچھ تو علم ہوگا۔۔ اور اگر نہیں ہے تو انہیں یہ علم حاصل کر لینا چاہیے کہ اس دنیا نے جہاں اشوک اعظم کو پچھتاوے کی آگ میں جلتے اور ازالہ کرتے دیکھا۔۔۔دارا و سکندر و اکبر کے جاہ و جلال کو مٹی ہوتے دیکھا، سبکتگین و ہارون و مامون کے انصاف و قانون اور انجام کو تاریخ میں رقم ہوتے دیکھا ہے تو شداد و فرعون و چنگیز و ہٹلر کا غرور خاک ہوتے بھی دیکھا ہے ۔۔۔۔۔
تاریخ شاہد ہے کہ ان تمام راجاوں کے جاں نثاروں میں گردن پیش کرنے والوں کی تعداد پولنگ بوتھ پر انگلیاں دکھا کر وفاؤں کی سندیں پیش کرنے والوں سے ہزار گناہ زیادہ تھی، لیکن انجام کار تاریخ میں انکا نام کس کس باب میں درج ہے اس کا علم مودی راجہ کو ضرور ہوگا ۔۔۔۔۔اور راجہ کو ہونا بھی چاہیے۔۔۔۔۔۔
ورنہ آج کل وقت کسی کی توبہ اور نیکیوں کا کہاں دس سال انتظار کرتا ہے۔۔۔ اگر توبہ کا وقت مل جاتاہے تو نیکیوں کے لئے وقت پورا نہیں ہوپاتا۔۔۔۔۔اگر نیت میں فتور آجایے تو خالق حقیقی کو اکثر توبہ اور نیکی کے درمیان ہی رسی کھینچتے دنیا نے دیکھا ہے۔۔۔۔پھر چاہے وہ رسی عوام کے ہاتھوں کھنچوائے یا کو ئی اور اسباب پیدا کرے۔۔۔ہاں خالق حقیقی کے پاس در توبہ کھلا رہتا ہے ۔۔
مودی راجہ ۔۔۔
۔۔۔۔اپنی ترجیحات درست کرلیں اور اپنی نیت بھی ۔۔۔۔ تب ہی بقول آپ کے اچھے دن آئیں گے۔۔۔۔اور انشاءاللہ ضرورآئیں گے۔۔۔۔ اور سب کے آئیں گے۔۔۔ساری انسانیت کے آئیں گے۔۔
پھر آپ ساری دنیا کو اپنے ساتھ پائیں گے ۔۔۔۔ پھر وقت کی کوئی قید نہیں ہوگی۔۔ دس سال کیا تمھارے نام سے ہزاروں سالوں تک حکومت چلتی رہے گی ۔۔۔۔۔۔