السلام عليكم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ !
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
لہذا بار بار ایک ہی راگ نہ الاپیں اگر کوئی نئی بات ہے تو فرمائیں تاکہ آپ کوفت سے بچ جائیں ۔
کوفت اس لئے ہورہی ہے کہ آپ سے پوچھاجاتاہے کہ زیدکون ہے توجواب ملتاہے کہ عمر کا بھائی اورپھر پوچھاجاتاہے کہ عمر کابھائی کون ہے توجواب ملتاہے کہ زید ہے ۔اس طرح تعریف المجہول بالمجہول سے کنفیوژن توضرور پیداہوتاہے لیکن بات سلجھتی نہیں ہے۔
ایک طرف تو آپ کو اتباع کی تعریف ہی سمجھ نہیں آتی ہے اور دوسری طرف آپ اتباع کی مختلف حیثیتیں بھی سمجھ رہے ہیں ۔ آپ کو اصول فقہ کی کتابوں سے تعریف تو مل نہیں سکی یہ حیثیتیں کیسے ڈھونڈ نکالی ہیں حوالہ دیں ۔ یہ وضاحت کریں کہ قرآن کی آیت اتبعوا ماأنزل إلیکم من ربکم سے ان دونون حیثیتوں میں کون سی حیثیت مراد ہے ؟ اور اس تخصیص کی دلیل بھی ساتھ واضح کریں ؟
اتباع کی تعریف اس لئے سمجھ میں نہیں آتی ہے کہ اولاتویہ تعریف خانہ زاد اورطبع زاد ہے۔کتب اصول فقہ میں اس کاکہیں کوئی وجود نہیں ۔اصول فقہ کی تعریف سے اگرآپ کو ہی مذکورہ تعریف مل گئی ہوتی توپھر آپ نے ہی بیان کردیناتھا ۔لیکن چونکہ آنجناب کوکوشش میں ناکامی ہوئی ہے اورسوائے قاضی شوکانی کی کتاب کے کہیں بھی نہیں ملی۔اتباع کی یہ دوحیثیتیں توجگ ظاہر ہیں۔ میں نے ماقبل میں مثال بھی دی کہ عبادت ایک عام لفظ ہے جس کا اطلاق تمام عبادتوں پر ہوتاہے لیکن جب شکل بدلتی ہے تونام بھی بدل جاتاہے کبھی اس کانام نماز ہوتاہے کبھی روزہ ،کبھی زکوٰۃ اورکبھی حج اورکبھی کچھ دوسرا۔بعینہ یہی شکل اتباع کی بھی ہے ۔اگرآدمی صاحب علم ونظرہے تواس کیلئے اتباع یہ ہے کہ وہ خود سے اجتہاد کرے۔اگراجتہاد کی صلاحیت سے متصف نہیں ہے۔لیکن دلائل مین غوروفکر کرسکتاہے تواس کوجودلائل سے راجح معلوم ہواس پر عمل کرے اس کیلئے یہی اتباع ہے ۔(نوٹ:حافظ ابن عبدالبر نے جامع بیان العلم میں تقلید کی نفی کرنے کے بعد کہ آدمی اتباع کرے گا۔ اوراس پر دلائل دینے کے بعد آخر میں عوام کیلئے تقلید کی ضرورت کومحسوس کیاہے۔اس سے بھی پتہ چلتاہے کہ ان کے نزدیک اتباع اہل علم کاکام ہے۔ عامیوں کاکام نہیں ہے)اوراگراس کی بھی صلاحیت سے محروم ہے تو وہ تقلید کرے ۔یہی اس کے حق میں اتباع ہے۔یہ توہماراموقف ہے جو میں کئی مواقع پر ظاہر کرچکاہوں۔اجتہاد اورتقلید کی واضح تعریف کتب اصول فقہ میں مذکورہ ہے۔
آپ کا موقف یہ ہے کہ عامی بھی اتباع کرے۔اس لحاظ سے جب اتباع کی تعریف پوچھی جاتی ہے توآپ اتباع کی عمومی تعریف بیان کرنے لگتے ہیں۔اورجب اس پر اعتراض کیاجاتاہے توآنجناب چیں بجبیں ہوتے ہیں۔
یہاں پھر آپ نے مجتہد اور عامی کے درمیان عدم فرق کا مطالبہ کیا ہے حالانکہ اس کی ہم پہلے وضاحت کرچکے ہیں کہ :
میرے خیال سے آپ کا یہ اعتراض اتباع کی تعریف پر بالکل بھی مناسب نہیں ہے ۔ کیونکہ تعریف کا جامع و مانع ہونا ایک الگ بات ہے جبکہ اس کے تحت آنے والے افراد کا تفاوت درجات ایک الگ بحث ہے ۔ تعریف کی یہ شرط کس نے لگائی ہے کہ وہ اپنے تحت آنے والے تمام افراد میں پائےجانے والے فرق کی وضاحت پر بھی مشتمل ہو ۔
بلکہ تعریف میں اس طرح کی باتیں تو تعریف کے اصول و ضوابط کے خلاف ہیں ۔ کیونکہ تعریف میں اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ تعریف جامع و مانع ہونے کے ساتھ ساتھ ممکن حد تک مختصر بھی ہو ۔ اگر تقلید کی تعریف میں آپ امام ابو یوسف ، طحاوی ، کرخی ، مرغینانی رحم اللہ الجمیع کے درجات بیان کرنا شروع کردیں گے تو کوئی بھی اس امر کو مستحسن قرار نہیں دے گا ۔ یہی وجہ ہے کہ مقلدین کی طرف سے تقلید کی جو تعریف کی جاتی ہے اس میں درجات تقلید کی وضاحت نہیں کی گئی ۔ اگر آپ اتباع پر ایسا اعتراض کرتے ہیں تو یہی اعتراض تو تقلید پر بھی وارد ہوتا ہے ۔
آپ کوچند ناموں کی مثال دی گئی تھی اوراس کو آنجناب پکڑ کر بیٹھ گئے ۔ میں نے یہ کب کہاہے کہ تمام افراد کی شمولیت ہونی چاہئے ۔زید عمر بکر اورفلاں فلاں ۔ہ
میراتوکہنایہ تھاکہ آپ کہتے ہیں کہ عامی تقلید نہیں کرے گااتباع کرے گا۔پھراتباع کی تعریف ایسی کرتے ہیں جس میں مجتہد اورغیرمجتہد سبھی شامل ہوگئے تو تعریف کا فائدہ کیاہوا۔دوسرے لفظوں میں اتباع کی تعریف کے باوجود اگر مسائل کااستنباط واستخراج کرنے والوں کیلئے کتب فقہ میں اجتہاد اورمجتہد کی تعریف الگ سے موجود ہے تو جو مسائل کا استخراج واستنباط نہیں کرسکتے اورآپ کا دعویٰ ہے کہ وہ تقلید نہیں کریں گے بلکہ اتباع کریں گے تو پھراس اتباع کی تعریف بھی توکتب اصول فقہ میں مذکور ہونی چاہئے ۔ہم اسی اتباع کی تعریف کا مطالبہ کررہے ہیں۔ ہمیں توکتب اصول فقہ میں عامیوں کیلئے اتباع کی تعریف نظرنہیں آئی ہے۔ ہوسکتاہے کہ ہمیری تلاش اورجستجو میں کمی رہ گئی ہو۔آپ خود تلاش کریں ۔ ماشاء اللہ جہاں آپ موجود ہیں وہاں وسائل بھی بہت زیادہ ہیں۔ہوسکتاہے کہ کچھ مل جائے۔
ہماری آپ سے گزارش ہے کہ ہم عامی اور مجتہد میں فرق کرتےہیں لیکن فرق کا ہمارے نزدیک یہ مطلب نہیں کہ ایک متبع اور دوسرا مقلد بن جائے ـ ۔ فافہم وفقک اللہ ۔
ہم نے آپ کی گزارش سمجھ لی۔ ہمارے نزدیک تقلید کرنے والابھی غیرمتبع نہیں ہیں اورنہ ہی اجتہاد کرنے والا۔ بلکہ دونوں اتباع ہی کررہے ہیں۔ایک استنباط کے ذریعہ اوردوسرااہل علم سے سوال کے ذریعہ۔جیساکہ ابن عبدالبر خطیب بغدادی اوردیگر اصول فقہ کے مصنفین نے واضح کیاہے۔تقلید اوراجتہاد کی واضح تعریف موجود ہے۔ آپ کا خیال ہے کہ عامی تقلید نہیں کرے گااتباع کرے گا۔ہم اسی حیثیت سے اتباع کی تعریف کا مطالبہ کررہے ہیں۔
سبحان اللہ ۔۔۔ الآن حصحص الحق ۔ قطع نظر اس بات سے کہ آپ کی اس بات میں کتنی سچائی ہے ۔ یہأں آپ نے جو دعو ی کردیا ہے کہ ہم بھی اتباع کرتے ہیں اس سے اتباع کی تعریف آپ کے نقطہ نظر سے آپ پر بھی واجب ہو جاتی ہے ۔ لہذا صرف ہمیں سے کیوں اتباع کی تعریف کا مطالبہ کیاجارہا ہے ۔ بسم اللہ کریں اور اتباع کی تعریف فرمائیں ۔
سخن فہمی شاید اب اسی کانام رہ گیاہے۔
ہم اس کی وضاحت کرچکے ہیں کہ اتباع کا لفظ عمومی ہے۔مجتہد اپنے اجتہاد کے ذریعہ اتباع کررہاہے۔ عامی تقلید کے ذریعہ اتباع کررہاہے۔ہمارے پاس مجتہد کی بھی واضح تعریف ہے۔تقلید کی بھی واضح تعریف ہے۔ نہ اجتہاد تقلید سے گڈمڈ ہوتاہے اورنہ ہی تقلیدکے ڈانڈے اجتہاد سے جاملتے ہیں۔آپ کا دعویٰ ہے کہ مجتہد بھی اتباع کرے گا۔عامی بھی اتباع کرے گا۔اس کے بعد اتباع کی تعریف ایسی نقل کی جاتی ہے جس میں پتہ ہی نہیں چلتاکہ کون مجتہد ہے اورکون عامی ہے۔ہم یہ نہیں کہتے ہیں کہ تعریف میں زید بکر عمر کا نام شامل ہوناچاہئے جیساکہ آپ میری ایک ذکرکردہ مثال سے سمجھ لی ہے۔لیکن طبقہ کی تقسیم توہونی چاہئے کہ مجتہد کاخانہ الگ رہے اورعامی کا خانہ الگ رہے۔ دونوں ایک دوسرے سے مخلوط نہ ہوں۔ اگریہ بھی نہ ہوتوپھر توہ تعریف کاہے کی ہو۔ نہ وہ تعریف جامع ہوئی اورنہ مانع ہوئی۔
ویسے آپ کی مذکورہ عبارت او ر اس عنوان میں شروع شروع میں لکھی گئی ایک عبارت میں کافی فرق نظر آرہا ہے اگر بھول گئے ہیں تو ذرا ملاحظہ فر مائیں :
مجھے توکچھ بھی فرق نظرنہیں آرہاہے آپ کو جوکچھ آرہاہے بیان کردیں شاید آنجناب نے سمجھنے میں غلطی کی ہو۔ غلطی درست کردی جائے گی۔ان شاء اللہ
آپ سے گزارش ہے کہ ان ’’ جو لوگوں ‘‘ میں اب آپ بھی شامل ہو گئے ہیں اب تو کوئی کوشش کریں ۔
یہ وضاحت توکی جائے کہ ہم کس طرح ان لوگوں میں شامل ہوگئے ہیں۔ ہم شروع سے اجتہاد اورتقلید کی تقسیم کے قائل ہیں اوردونوں کی تعریف بھی الگ کرتے ہیں جس میں دونوں کی حدود قائم رہتی ہیں۔یہ توآپ کا ’’لامحدود‘‘اتباع ہے جس میں عامی اورمجتہد دونوں ایک دوسرے کے شانہ بشانہ اورصف بصف نظرآتے ہیں۔
یہاں بھی وہی بیچارے فرق کا آپ نے رونا رویا ہے جس کا تعریف کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ۔
جب آپ ایک طبقہ کی تعریف کی تعریف کررہے ہیں یعنی عامی شرعی مسائل سے کیسے رہنمائی حاصل کرے۔توآپ اس کی ایسی غیرمتعین تعریف کردیتے ہیں جس میں دوسراطبقہ مجتہدین کا شامل ہوجاتاہے۔اس کو اگرآپ سمجھ لیں توشاید بات آگے بڑھے۔
آپ نے عقلی انداز میں حصر کرنے کی کوشش کی تھی ہم نے اس کو توڑ کر دکھادیا ۔ اب بھی کوئی کسر باقی ہے ۔؟ باقی آپ کے باربار اہل الرائے والا مراسلہ پڑھنےکی تلقین کا شکریہ ۔ آپ بات کو آگے چلنے تو دیں سب کچھ اپنے مقام پر آتا رہے گا ۔
آپ نے فرمایا :
پتہ نہیں آپ کس سوال پر بے معنی ہونے کا فتوی صادر کر رہے ہیں اور فرمارہے ہیں کہ دلیل سننے اور سمجھنے میں بہت فرق ہے ۔ ہم نے یہ سوال کیے تھے جن کو آپ نے چھوا تک نہیں کہ :
(١)آپ کہتے ہیں کہ کسی نے اتباع کی تعریف نہیں کی تو کیا علماء اتباع کا انکار کرتے تھے ؟
(٢) آئمہء مقلَدین( مثلا آئمہ اربعہ ) تقلید کرتے تھے یا اتباع کرتے تھے ؟ اگر اتباع کرتے تھے تو کیا انہوں نے اس اتباع کی تعریف کی ہے ؟
(٣) کیا ہر چیز کی ایک خاص تعریف ہونا ضروری ہے ؟
اب میں کتنی مرتبہ وضاحت کروں کہ اہل علم کیلئے اتباع کی شکل اجتہاد کی ہے ۔اس اجتہاد کی تعریف کتب اصول فقہ میں مذکور ہے۔
پھراجتہاد کے جتنے مراتب ہیں ان سب کی بھی تعریف موجود ہے۔
عامیوں کیلئے اتباع جو شکل ہے وہ تقلید ہے اس کی بھی تعریف کتب اصول فقہ میں موجود ہے۔آپ اہل علم کیلئے اجتہاد کی تعریف سے تومتفق ہیں لیکن عامیوں کیلئے اتباع کی عام تعریف کو ہی دوہرادیتے ہیں جس کی وجہ سے اسے ماننا مشکل ہے۔
اس عبارت میں آپ کے ملتے جلتے دو سوال ہیں ۔
(١) یہ فیصلہ کیسے کیا جائے گا کہ مفتی کا فتوی قرآن وسنت کے مطابق ہے یا خلاف ؟
اس سوال کا اتباع کی تعریف سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ بہر صورت پھر بھی عرض کرتے ہیں کہ مطابق یا خلاف ہونے کا معیار تو قرآن وسنت ہی ہیں۔ اور اس کا فیصلہ علماء کریں گے ۔ اور عامی کو اگر اس طرح کی صورت حال پیش آئی کہ وہ صحیح غلط میں فرق نہیں کرسکے گا تو علماء سے رجوع کرے جو بات دلیل کے ساتھ ہو اس پر عمل کر لے ۔ باقی اگر پھر بھی اس سے غلطی ہوگئی ہے تو اللہ تعالی معاف کرنے والا ہے ۔ لا یکلف اللہ نفسا إلا وسعہا
لیکن یہاں سے عامی کے لیے تقلید تو کسی صورت ثابت نہیں ہوتی کہ وہ آئمہ اربعہ میں سے کسی ایک کی بات کی تقلید اپنے اوپر لازم کر لے ۔ یہی مسئلہ تو مجتہد کو بھی پیش آسکتا ہےکہ وہ کسی مسئلہ میں اجتہاد کرے لیکن اس سے غلطی ہوجائے تو کیا وہ بھی تقلید کرے گا ؟
اور ویسے ہم نے پہلے بھی آپ سے عرض کی تھی کہ کسی مسئلہ میں مقلَد کا قول تلاش کرنے کے لیے جتنی مشقت یا علم کی ضرورت ہوتی ہے قرآن وسنت سے حکم تلاش کرنا اس سے زیادہ مشکل نہیں ہوتا ۔ بلکہ قرآن وسنت کے مطابق حکم تلاش کرنا مقلَد کا قول تلاش کرنے سے کئی گنا آسان ہے ۔
اگر آپ اس سے واقف نہیں ہیں تو تجربہ کرکے دیکھ لیں کسی عام آدمی کو قرآن یا حدیث کا ترجمہ و تفسیر پڑھنے کے لیے دیے دیں اور اس کی رہنمائی کردیں ۔ پھر کچھ دیر کیلیے اس کو قدوری ، ہدایہ وغیرہ کا ترجمہ بھی سامنےرکھ دیں آپ کو پتہ چل جائے گا حقیقت کیا ہے ۔بلکہ اگر عوام کو پتہ چل جائے کہ آپ کی فقہ کی کتب کیسی ہیں تو ضرور تقلید سے توبہ کرلیں ۔
صحیح فرمایاآپ نے ۔سخن فہمی اب اسی کانام رہ گیاہے۔ہم توعامی کیلئے براہ راست کتب فقہ سے استفادہ کوبھی درست نہیں سمجھتے پتہ نہیں وہ کیاسے کیاسمجھ لے بلکہ وہ کسی مفتی اورعالم سے اس بارے میں سوال کرے۔
کسی عامی کو ہم حدیث ربادکھادیں ۔وہ اس کو صرف انہی چیزوں میں رباکا حصر مان لے اوراس کے بعد کرنسی کے ذریعہ خوب رباکاکاروبار کرےکیونکہ حدیث میں توموجودہ کرنسی کا کوئی ذکر نہیں ۔
اسی طرح عامی کے سامنے کوئی منسوخ حدیث آئے وہ اس پربے دغدغہ عمل کرتاچلاجائے ۔کیونکہ وہ بھی توحدیث میں ہی مذکور ہے۔ہمیں حیرت ہے کہ آپ کی یہ دلنشیں توجیہہ تک پرانے علماء اورفقہاء کیوں نہیں پہنچے۔ ان کا ذہن آپ کے اس بلند خیال کی طرف کیوں نہیں گیا۔
خطیب ،خطابی ،ابن جوزی اوردیگر علماء نے خواہ مخواہ ہی محدثین کو یہ نصیحت کرڈالی کہ وہ فقہ کی بھی تحصیل کیاکریں۔ حدیث کے ضمن میں فقہ تو خود بخود حاصل ہورہی تھی۔ اب اس موضوع پر زیادہ کیاعرض کروں۔ اسی فورم پر اس تعلق سے کچھ لکھاہے۔ بارخاطرنہ ہو تومطالعہ کرلیجئے گا۔
http://www.kitabosunnat.com/forum/شرح-وفوائد-44/ہرمحدث-فقیہہ-نہیں-ہوتا-2714/
اگرعامیوں کیلئے براہ راست کتاب وسنت سے استفادہ درست ہوتا توفقہ کی تحصیل کی ضرورت کیاباقی رہ جاتی ہے۔ شاید اس گوشہ پر آپ کی نظردوررس نہیں پہنچی۔ویسے مجتہد اجتہاد کرے ۔صحیح ہونے کی صورت میں دوہرااجر،صحیح نہ ہونے کی صورت میں اکہرااجر،عامی اجتہاد کرے تو درست ہونے کی صورت میں کیاہوگا اورغلط ہونے کی صورت میں کیاہوگا۔ اس پر بھی ذراتفصیلی روشنی ڈالیں اوراپنا"غبارخاطر" پیش نہ کریں۔ علماء کے اقوال پیش کریں۔
اسی طرح قرآن وسنت میں ہر مسئلہ کا حل موجود ہے کیا امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے بھی ہر ہر مسئلہ میں گفتگو کی ہے ؟ یقینا نہیں ۔ جن مسائل کا حکم امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے اقوال سے نہیں ملتا اس کے لیے آپ کیا کرتے ہیں ۔ آپ کہیں گے کہ ان کے اقوال میں اجتہاد کرکے حکم تلاش کرتے ہیں ۔ تو یہی اجتہاد قرآن وسنت کی نصوص میں کرنا ممکن کیوں نہیں ہے ؟
قرآن وسنت میں ہرمسئلہ کا حل موجود ہے لیکن کیابالصراحت موجود ہے؟کیااس حکم کے حصول کیلئے علم اورلیاقت کی کوئی شرط اورضرورت بھی باقی نہیں ہے۔ یاپھر ہربوالہوس کو اجازت ہے کہ وہ حسن پرستی شعار کرے اوراجتہاد کا نعرہ لگاکر دین کا حلیہ بگاڑے۔ہمارے خیال سے آپ کے موقف کو دیکھتے ہوئے پھر آپ کے قبیل کے لوگ جوجاوید احمد غامدی وغیرہ پر برستے ہیں وہ نہایت بے معنی رہ جاتاہے کیونکہ جاوید غامدی بہرحال ایک عامی سے توبہتر ہے۔پھر جیساوہ قرآن وحدیث (بقول غامدی)سے سمجھ رہاہے۔ اس کو مان رہاہے۔اس پر تیروتفنگ چلانے کی ضرورت کیاہے؟۔کیاآپ کا موقف نہایت متضاد نہیں ہے اور دوہرے رویہ کی نشاندہی نہیں کرتاہے۔یاپھر مخالفت کی واحد وجہ یہ ہے کہ وہ آپ کے گروپ میں شامل نہیں ہے؟جس کو اجتہاد کرناہو وہ آپ کے گروپ میں شامل ہوکر اجتہاد کرے ۔
ایک اور سوال آپ سے یہ ہے کہ آپ کے نزدیک تقلید واجب ہے ۔ کیا امام ابوحنیفہ کی تقلید واجب ہے یا آج کے کسی عالم کی ؟اوپر جو بات کی گئی ہےیہ اس صورت میں ہے جب آپ امام ابو حنیفہ کی تقلید واجب قرار دیتےہیں ۔ اگر کسی آج کے عالم کی تقلید کو واجب قرار دیتے ہیں تو پھر امام ابو حنیفہ کی تقلید کا کیا معنی ہے ؟
یہ سوال ناچیز کی سمجھ میں قطعانہیں آیا۔کہ اس کا شان نزول کیاہے۔ویسے تقلید پربات کیلئے ہم تیار ہیں لیکن بس ذرایہ اتباع کامعنی ومفہوم صاف ہوجائے کیاپتہ اتباع کا معنی ومفہوم صاف ہونے کے بعد جوچیز نکلے وہ تقلید ہی ہو۔پھر تقلید پرابھی سے بات کرنے سے خدشہ ہے کہ بحث کا رخ دوسری سمت مڑجائے گا اورپھر معاملہ ہنوزروز اول والاہوگا۔
(٢) صحابہ کرام و تابعین عظام سے ایک ایک مسئلے میں مختلف اقوال ہیں آپ نے کہا کہ ظاہر ہے قرآن وسنت کے مطابق تو ایک ہی ہوگا ۔ باقی دیگر فتاوی پر عمل کرنا تو تقلید ہی ہوگا ؟یہ ہی اعتراض اگر یوں کہا جائے کہ جن صحابہ کرام کے ایک مسئلہ میں مختلف اقوال ہیں تو کیا ایک صحابی کے علاوہ جس کا قول قرآن وسنت کے مطابق ہے باقی سب نے قرآن وسنت کی مخالفت کی تھی ؟ توشاید اگلے اعتراض کی ضرورت نہیں پیش آئے گی ۔
غالب کا ایک شعر ہے جس کا پہلامصرعہ طبع نازک پر ناگوار گزرے ۔دوسرامصرعہ عرض کرتاہوں۔ کچھ نہ سمجھے خداکرے کوئی۔آپ نے سابق میں میرے ایک سوال کے جواب میں فرمایاتھا۔
تو اس میں جو مسائل قرآن وسنت کےمطابق ہیں ان میں صحابہ کرام کی پیروی کرنا دراصل قرآن وسنت کی ہی پیروی کرنا ہے لہذا یہ اتباع ہے نہ کہ تقلید ۔
اور جن مسائل میں قرآن وسنت کے موافق نہیں ہیں ان میں ان کی بات ماننا اتباع نہیں ہے ۔ بلکہ ایسی صورت میں ان کی بات کو چھوڑ دیا جائے گا ۔
سوال یہ ہے کہ جن مسائل میں صحابہ کرام کی رائے قرآن وسنت کے مطابق نہیں تھی اس میں ان کی بات ماننا اتباع نہیں ہے توپھر تقلید ہے یاپھر آپ کے نزدیک اتباع اورتقلید کے درمیان منزلۃ بین المنزلتین کی کوئی کٹیگری ہے۔
آپ کہتے ہیں کہ اتباع وہ ہے جس پر دلیل ہونی چاہئے۔
جب کہاجاتاہے کہ صحابہ کرام کے بہت سارے فتاوی ایسے ہیں کہ نہ انہوں نے دلیل ذکر کی اورنہ سائلین نے دلیل کامطالبہ کیا۔
اس پر آنجناب نے جوکچھ "فرمایا"تھاوہ یہ ہے
تو اگر مسئلہ قرآن وسنت کےمطابق بتائے گا تو اتباع ہے اور اگر اپنی رائے یا کسی دوسرے کی رائے جو قرآن وسنت کے مخالف ہے بتاے گا تو اس پر عمل کرنے والا تقلید کا ارتکا ب کرے گا ۔
قرآن وسنت کےمطابق ہونے کے لیے دلیل کا ہونا ضروری ہے ۔ لیکن سائل کا دلیل طلب کرنا یا نہ کرنا یہ دلیل کےوجود یا عدم کو لازم نہیں ہے ۔
لیکن ضروری ہےکہ مسئلہ اسی سے پوچھا جائے جو قرآن وسنت کےمطابق جواب دیتا ہو ۔ ایسے آدمی سے مسئلہ نہیں پوچھا جائے گا جو قرآن وسنت کےخلاف فتوی دیتا ہو ۔
اگر کسی ایسے آدمی سے مسئلہ پوچھاجائے جو ویسے تو قرآن وسنت کےمطابق جواب دیتا ہو لیکن اس مسئلہ میں اس کاجواب قرآن وسنت کےخلاف ہو تو پیروی اسی کی کی جائے گی جودلیل بیان کرے گا ۔
میراخیال ہے کہ آپ کا ذہن خود اس بارے میں واضح نہیں ہے کہ اتباع کیاہے۔ اسی لئے آپ مذکورہ الجھاؤ اورکنفیوژن کاشکار ہورہے ہیں۔اورپڑھنے والوں کوبھی اسی الجھن میں مبتلاکررہے ہیں۔جب کوئی بات قائل کے ذہن میں واضح نہ ہو تواس کا اظہار تحریر اورتقریر کی بھی شکل میں ہواکرتاہے۔ گزارش ہے کہ پہلے اپنے ذہن کو اتباع کے تعلق سے صاف کرلیں۔ اس کی حدود متعین کرلیں ۔ورنہ ہم پوچھیں گے کہ زیدکون ہے۔آپ کہیں گے کہ عمر کا بھائی ہے ہم عمر کے بھائی کے بارے میں پوچھیں گے توآنجناب دوبارہ زید کا نام لے لیں گے اورتعریف المجہول بالمجہول لازم آئے گی۔
ہم جب عامی کا لفظ بولتے ہیں تواس سے مرادلیتے ہیں ایساشخص جسے علوم دینیہ سے واقفیت نہیں ہے ۔ایک عامی کیلئے یہ معلوم کرناکہ مفتی نے میرے جس سوال کا جواب دیاہے وہ دلیل کے مطابق ہے یادلیل کے خلاف ہے۔اورقرآن وسنت کے مطابق کے مطابق ہے یاقرآن وسنت کے خلاف ہے۔نہایت دشوار امر ہے۔
صاف سیدھی بات یہ ہے کہ اتباع کیلئے اگردلیل ضروری ہے تو صحابہ کرام اورتابعین عظام نے اپنے کثیرفتاوی جات میں دلائل کے ذکر کااہتمام نہیں کیاہے۔اگرخضرحیات فرماتے ہیں کہ نفس الامر میں قول پر دلیل کاہوناضروری ہے۔سائل کے جواب میں دلیل کا ذکر کرناضروری نہیں ۔توانہوں نے یہ کہاں سے فرض کرلیاہے کہ امام ابوحنیفہ،امام شافعی یابقیہ دو کے اقوال پر عمل کرنے والوں کے پاس دلیل نہیں ہوتی ہے۔
اور یہأں سے تقلید ثابت ہونےکا کوئی امکان نہیں ہے ۔ کیونکہ ہر کسی نے حسب استطاعت قرآن وسنت کا حکم تلاش کرنےکی کوشش کی ہے ۔ یہاں نہ تو مفتیان کی نیت قرآن وسنت کے علاوہ کسی کے قول پر فتوی مقصود تھا اور نہ سائلین کا مطمع نظر قرآن و سنت سے ہٹ کر کسی کی رائے تھی ۔ اس میں اور تقلید میں بعد المشرقین ہے ۔ کیوں کہ یہاں کسی نے نہیں کہاتھا نحن مقلدون یجب علینا تقلید فلان اور اگر کسی نے ایسا کیا ہے تو یہ تقلید ہے جو کہ منہی عنہ ہے ۔ بینہما برزخ لا یبغیان
کیاامام ابوحنیفہ اوردیگر مجتہدین نے شرعی مسائل قرآن وحدیث سے مستنبط کئے ہیں۔ انکی نیت قرآن وسنت کی مخالفت کی تھی سبحان اللہ اورکوئی اسی نیت سے امام ابوحنیفہ کے اقوال پر عمل کرتاہے کہ انہوں نے جوشرعی مسائل مستبط کئے ہیں وہ قرآن وسنت سے ہی ماخوذ ہیں تویہ تقلید کیسے ہوگئی اوردوسراکسی اہل حدیث عالم سے فتوی پوچھتاہے تو وہ اتباع کیسے ہوگیا۔آپ نے نیت کی بات کی ہے۔ نیت ایک مخفی امر ہے۔ ہمیں کیسے پتہ چلے گاکہ کس نے اتباع کی نیت سے ایساکیاہے اورکس نے تقلید کی نیت سے ایساکیاہے۔اس لئے نیت کو چھوڑ کر ایسی بات عرض کریں جو ہمیں واضح طورپر نظرآئے۔
بھائی آپ سے گزارش ہے کہ ذرا حوصلے سے بات کیا کریں جوش کی بجائے ہوش میں آ کر لکھیں تاکہ کوئ فائدہ مند گفتگو ہو سکے ۔ آپ کی مذکورہ عبارت اخلاقی حوالے سے کیسی ہے اس سے غض النظر کرتے ہوئے دیگر کئی اعتبار سے محل نظر ہے مثلا :
(١) آ پ نے یہأں عامی کی اتباع کو لا یعنی بات قرار دیا ہے ۔ اس اتباع کا حکم ہم قرآن سے ثابت کرچکےہیں گویا کہ آپ نے قرآن کی آیت سے ثابت حکم کی اتباع و پیروی کو لا یعنی قراردیا ہے ۔ یا تو آپ کہیں کہ عامی کی اتباع قرآن کی آیت اتبعوا ما أنزل إلیکم من ربکم سے نہیں نکلتی یا پھر اپنے الفاظ پر غور کریں ۔
(٢ ) یہاں آپ نے عامی کو خاص کیوں کیا ہے ہم نے تو اس میں کوئی فرق نہیں کیا بلکہ ہم تو کہتے ہیں تمام لوگ اتباع کے مکلف ہیں ۔ چاہےکوئ مجتہد ہو یا عامی ۔ یہاں سے لگتا ہے کہ مجتہد کے بارے میں آپ کا نظریہ ہےکہ وہ اتباع کر سکتا ہے ۔ ذرا مجتہد کی اتباع کا حکم کیا فتوی صادر فرمائیں ۔
(٣) آپ نے کہا کہ عامی کی اتباع کی اصول فقہ کی کتب سے قطعا تائید نہیں ہوتی ۔ تو کیا مجتہدین کی اتباع کی تائید ہوتی ہے ؟ اور کیا آپ کے نزدیک کوئی ایسا مجتہد ہے جو امام ابوحنیفہ کی تقلید سے نکل کر اجتہاد کر سکتا ہے ؟
عامی کی اتباع کی بات کوہم نے اسی لئے لایعنی قراردیاہے کہ اگربات دلیل کی ہے تو وہ دلیل میں غوروفکر کی صلاحیت نہیں رکھتا۔کسی چیز کا سن لینااور چیز ہے اورکسی چیز کا سمجھنااورچیز ہے۔ سائنس کے اصطلاحات ہم آپ سن سکتے ہیں لیکن اسکو سمجھنے کیلئے سائنس سے آشنائی ضروری ہے۔آئن اسٹائن کے اصول انگلش میں لکھے ہوئے ہیں لیکن ان کا سمجھنا ایک دوسری چیز ہے۔ منطق کی کتاب کوئی بھی شخص پڑھ سکتاہے لیکن اس کا سمجھنا منطق سے آشنائی کے بغیر مشکل ہوگا۔
یہ صرف ہماری بات نہیں ہے بلکہ امام شاطبی نے جو مقاصدشریعت کے گہرے رازداں ہیں۔ انہوں نے بھی یہی بات کہی ہے۔ دیکھئے۔
فَتَاوَى الْمُجْتَهِدِينَ بِالنِّسْبَةِ إِلَى الْعَوَامِّ كالأدلة1 الشرعية بالنسبة إلىالْمُجْتَهِدِينَ.وَالدَّلِيلُ عَلَيْهِ أَنَّ وُجُودَ الْأَدِلَّةِ بِالنِّسْبَةِ إِلَى الْمُقَلِّدِينَ وَعَدَمَهَا سَوَاءٌ؛ إِذْ كَانُوا لَا يَسْتَفِيدُونَ مِنْهَا شَيْئًا؛ فَلَيْسَ النَّظَرُ فِي الْأَدِلَّةِ وَالِاسْتِنْبَاطُ مِنْ شَأْنِهِمْ، وَلَا يَجُوزُ ذَلِكَ لَهُمْ أَلْبَتَّةَ وَقَدْ قَالَ تَعَالَى: {فَاسْأَلوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ} [النَّحْلِ: 43] .
وَالْمُقَلِّدُ غَيْرُ عَالِمٍ؛ فَلَا يَصِحُّ لَهُ إِلَّا سُؤَالُ أَهْلِ الذِّكْرِ، وَإِلَيْهِمْ مَرْجِعُهُ فِي أَحْكَامِ الدِّينِ عَلَى الإطلاق، فهم إذن الْقَائِمُونَ لَهُ مَقَامَ الشَّارِعِ، وَأَقْوَالُهُمْ قَائِمَةٌ مَقَامَ [أَقْوَالِ] الشَّارِعِ.الموافقات5/337
ترجمہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ امام شاطبی واضح طورپر کہتے ہیں کہ دلیل کا وجود اورعدم مقلدین کیلئے برابر ہے کیونکہ وہ اس سے مستفید ہونی کی صلاحیت نہیں رکھتے۔وہ توکہتے یہں کہ دلائل مین غوروفکر نہ مقلدین کاکام ہے اورنہ ان کیلئے جائز ہے اوران کیلئے مجتہدین کے فتاوی ادلہ شرعیہ کی طرح ہیں۔
اہل علم کیلئے اتباع کی شکل اجتہاد ہے ۔اجتہاد کی تعریف اورحدودوقیود متعین ہیں۔ عامی کیلئے ہمارے نزدیک اتباع کی شکل تقلید ہے اس کی بھی حدود قیود متعین ہیں۔ آپ اجتہاد میں توہمارے ہم زبان ہیں۔ عامی کے بارے میں اتباع کی بات ضرور کرتے ہیں لیکن تعریف ایسی کرتے ہیں جس کا دائرہ مجہتدین تک وسیع ہو۔ اسی لئے گزارش ہے کہ اتباع کی وہی تعریف کریں جو صرف عامیوں پر فٹ بیٹھے کیونکہ بات یہاں پر عامیوں کے حوالہ سے چل رہی ہے۔
گزارش ہےکہ اب تو آپ نے بھی ماشاء اللہ اتباع کا دعوی کردیا ہے ۔ آپ بھی تو اس کی تعریف کرنےکے اتنےہی ذمہ دار ہیں جتنا ہمیں ٹھہرا رہےہیں ۔ یا پھر آپ کی اتباع کا تقلید کے ساتھ بھائی چارہ ہے اس لیے تعریف کی محتاج نہیں ہے ؟
رہی یہ بات کہ ہم اتباع کی تعریف کریں تو وہ ہم پہلے کر چکے ہیں اسے چاہے آپ عمومی سمجھیں یا خصوصی ہمارے نزدیک یہی اتباع ہے ۔ اور اس سے اتنا خوف نہ کھائیں یہی قرآن کا حکم ہے اور یہ ہی نجات کا راستہ ہے ۔
ہم اورکتنی مرتبہ دوہرائیں۔ کہ اہل علم کیلئے اتباع کی شکل اجتہاد ہے اس کی تعریف واضح ہے۔ عامیوں کیلئے اتباع کی شکل تقلید ہے اس کی بھی تعریف واضح ہے۔ آپ اہل علم کیلئے اجتہاد میں توہمارے ہمز بان ہیں لیکن عامیوں کیلئے کہتے ہیں کہ وہ اتباع کریں گے ۔اس حثیت سے اتباع کی تعریف متعین کردیجئے۔ عمومی تعریف کردینے سے بات نہیں بننے والی ہے۔ جیسے عبادت کی عمومی تعریف الگ چیز ہے اورنماز روزہ حج زکوۃ سبھی کی الگ سے دوسری تعریفات موجود ہیں۔
جہاں تک خوف کھانے کی بات ہے تو خوف اس وجہ سے کھاتے ہیں کہ آپ کی جماعت کا طریقہ اوروطیرہ یہ ہے کہ اپنی ہربات کو قول رسول اورقول خدا بناکرپیش کرتی ہے۔ جیساکہ اتباع کی ایک تعریف آنجناب کی سمجھ میں آئی اوراس کو قول خدابنانے سے لمحہ بھر کیلئے بھی آنجناب نے گریز نہیں کیا۔ذرااس کی بھی زحمت نہیں گوارہ کی کہ ایک مرتبہ اس پر نظرثانی کرلیں شاید غلط سمجھاہو۔
ہم اب بھی یہی سمجھتے ہیں کہ مذکورہ آیت سے یہ توواضح ہوتاہے کہ اتباع کس چیز کی کی جائے گی یعنی اتباع کے مشمولات کیاہیں لیکن نفس اتباع کیاہے ا سکی تعریف اس آیت سے واضح نہیں ہوتی ہے۔
اور جتنا وقت آپ ہم سے تعریف کا مطالبہ کرنے میں صرف کررہے ہیں اتنا وقت مذکورہ تین سوالات کا جواب تلاش کرنے میں لگائیں کوئی بعید نہیں کہ اللہ آپ کا ذہن کھول دے اور آپ کو بات سمجھ آجائے ۔
آپ کے بقیہ دوسوال کا جواب تو اوپر دیاجاچکاہے ۔تیسراسوال کوذراواضح کریں ۔امام ابوحنیفہ کی بہت سی آراء سے صاحبین اوربعد کے دیگر حنفی فقہاء نے اختلاف کیاہے۔ اہل علم کیلئے اس کی گنجائش ہے۔عامیوں کو ہم اجتہاد کا حق تودینے سے رہے کہ اجتہاد جیسی اعلیٰ وارفع چیز کوریوڑی کی طرح بانٹ دیاجائے۔
اب اتنی وضاحت کے باوجود اگر آپ مجھ سےتحریری طور پر لکھوانا چاہتےہیں کہ میں کسی اصولی کی کتاب سے آپ کی مطلوبہ تعریف اتباع کے سلسلے میں نہیں دکھا سکا تو میں حاضر ہوں ۔
توکیااس سے ہم یہ نتیجہ نکال لیں کہ عامیوں کیلئے جس اتباع کے آپ کے دعویدار ہین اس کاوجود اصول فقہ کی کتابوں میں نہیں ہے۔تاکہ اس کے بعد بات آگے بڑھ سکے۔
ویسے یہ تھریڈ بھی دیکھ لیں کہ
http://www.kitabosunnat.com/forum/اصول-حدیث-47/کس-کے-لیے-تقلید-کرنا-جائز-ہے-اور-کس-کےلیے-نہیں؟-اصول-3599/#post31072