محترم
@شاہد نذیر
آپ نے فرمایا کہ پوسٹ نمبر 106 کا جواب "سب" پر ادھار ہے۔ اس لیے میں نے پوسٹ نمبر 106 کھول کر دیکھ لی۔
محترم بھائی!
آپ نے ایک عدد قیاس مع الفارق کرنے کی کوشش کی ہے۔ (کوشش اس لیے کہ آپ وہ بھی نہ کر سکے)۔ حضرت عمر رض نے فیصلہ کیا اور کسی نے انکار نہیں کیا تو اسے اجماع اس لیے کہا گیا ہے۔
جب کہ چھٹی صدی سے پہلے تو کسی نے فیصلہ کیا ہی نہیں۔ پھر اس زمانے میں اجماع کیسا؟ یہ تو آپ کے قیاس مع الفارق کی تفصیل تھی۔
بجایا فرمایا آپ نے یہ قیاس مع الفارق اس وجہ سے ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاقوں کے تین ہونے پر کبھی اجماع ہوا ہی نہیں۔
اجماع کی خوب دلیل بیان فرمائی ہے آپ نے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے فیصلہ کیا اور کسی نے انکار نہیں کیا اس لئے اسے اجماع کہا جاتا ہے۔ اول تو یہ کوئی دلیل نہیں اگر کسی نے انکار نہیں کیا تو اقرار بھی نہیں کیا پھر اجماع کیسے ہوا؟ اگر کسی صحابی نے اس پر اجماع کی بات کی ہے تو بطور دلیل پیش کریں۔ آپ کا ذاتی خیال تو اس خود ساختہ اجماع کی دلیل نہیں بن سکتا۔
دوم اگر کسی کا انکار نہ کرنا ہی اجماع کی دلیل ہے تو چھٹی صدی سے پہلے کسی نے بخاری کے ’’اصح الکتب‘‘ ہونے کا ایسا انکار نہیں کیا جسے امت نے کوئی اہمیت دی ہو لہٰذا آپ کے اصول پر بخاری چھٹی صدی سے پہلے بھی ’’اصح الکتب‘‘ ثابت ہوگئی۔
آگے یہ سنئے کہ عمر رضی اللہ عنہ صحابہ کرام کے مجمع میں فیصلے کیا کرتے تھے اور صحابہ کے سامنے کوئی بھی معاملہ غلط ہوتا تھا تو وہ اس پر نکیر فرماتے تھے۔ صحابہ دین کے معاملے میں لایخافون لومۃ لائم کی عملی مثال تھے۔ ان کے سامنے فیصلہ ہوا اور انہوں نے انکار نہیں کیا۔ اسے اجماع سکوتی کہا جاتا ہے۔
ایک مجلس کی تین طلاقوں کو تین طلاق شمار کرنا کوئی شرعی فیصلہ نہیں تھا بلکہ ایک انتظامی فیصلہ تھا جو ایک حاکم وقتی طور پر نافذ کرسکتا ہے۔ لہٰذا اس پر صحابہ کی خاموشی اس پر اجماع کی دلیل نہیں بنتی۔ آخر یہ حنفیوں کا کیسا اجماع تھا جس کے سب سے بڑے مخالف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ تھے؟ صحیح مسلم کی روایت کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور مبارک میں ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک شمار کیا جاتا تھا۔ کیا عمر رضی اللہ عنہ کو یہ اختیار حاصل تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ کو بدل سکیں اور ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک کے بجائے تین شمار کرنے لگیں؟ ہرگز نہیں! بلکہ یہی بات اس بات کا ثبوت ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ کا فیصلہ شرعی نہیں انتظامی تھا۔ شرعی فیصلہ کو چھوڑ کر ایک انتظامی فیصلہ پر اجماع کیسے ممکن ہے؟؟؟
پس اسی لئے ہم دیوبندیوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اپنے اس خود ساختہ اجماع کا ثبوت پیش کریں اور اس صحابی کا نام بمعہ قول پیش کریں جس نے اس پر امت کے اجماع کا دعویٰ کیا ہو؟
اب ذرا آپ یہاں بتائیے کہ امام بخاری کے بخاری لکھنے کے فورا بعد سے لے کر چھٹی صدی تک اس کے "اصح" ہونے (یاد رکھیے "اصح" ہونے کا "صحیح" ہونے کا نہیں۔) کا دعوی کس نے کیا؟ اور علماء کے کس مجمع میں کیا؟ اور کن کن علماء کے سامنے کیا جنہوں نے اس کا رد نہیں کیا؟
صحیح بخاری کا ’’اصح الکتب بعد کتاب اللہ‘‘ ہونا کسی عالم کے دعویٰ کا محتاج نہیں۔ بلکہ بخاری اپنے وجود سے ہی ’’اصح الکتب بعد کتاب اللہ‘‘ ہے اور قیامت تک رہے گی۔ان شاء اللہ۔
اس کا ثبوت یہ ہے کہ صحیح بخاری اپنے وجود سے ’’اصح الکتب بعد کتاب اللہ‘‘ تھی تو چھٹی صدی کے بعد اس کا دعویٰ کیا گیا اور اس دعویٰ کو تسلیم کیا گیا۔ اگر بخاری ’’اصح الکتب بعد کتاب اللہ‘‘ نہ ہوتی تو چھٹی صدی کے بعد بھی یہ دعویٰ قابل تسلیم نہ ہوتا۔ آپ کا آج اس دعویٰ کو تسلیم کرنا ہی اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ صحیح بخاری چھٹی صدی سے قبل بھی ’’اصح الکتب بعد کتاب اللہ‘‘ ہی تھی۔ والحمدللہ
پھر اس پر بحث و مباحثہ کیسا؟ اگر آپ کو بخاری سے بغض ہے اور اپنی نفرت کا اظہار چاہتے ہیں تو کوئی اور طریقہ اختیار کیجئے اور کھل کر سامنے آئیے۔ پردوں کے پیچھے سے اپنی دل کی بھڑاس نکالنا درست نہیں۔
جب ایسا کچھ ہوا ہی نہیں بلکہ بعض نے تو الٹ دعوی بھی کردیا جیسا کہ ابو علی نیسا بوریؒ کا قول میں نے ماقبل میں نقل کیا ہے تو پھر اس زمانے میں اجماع کیسے ہوا؟
ان بعض الناس کے دعویٰ کو امت نے قبول نہیں کیا بلکہ بخاری کو ’’اصح الکتب‘‘ مان کر اس دعویٰ کو رد کردیا ہے۔ اگر جمہور علماء و محدیثین نے ابوعلی نیسا بوری رحمہ اللہ یا ان کے ہم خیال لوگوں کے دعویٰ کو درست قرار دیتے ہوئے بخاری کے ’’اصح الکتب‘‘ ہونے کی نفی کی ہے تو برائے مہربانی دلیل پیش کرکے شکریہ کا موقع دیں۔
ہاں چھٹی صدی ہجری کے بعد ہمیں مختلف علماء کے اقوال وقتا فوقتا ملتے ہیں جن کی مخالفت نہیں ملتی۔ یاد رہے کہ اگر کسی زمانے میں ایک عالم کی مخالفت بھی مل جائے تو علماء کی ایک جماعت کے نزدیک اس زمانے میں اجماع نہیں پایا جاتا۔
اب اگر ہم یہ دیکھیں کہ ابن صلاح کے زمانے میں اجماع کرنے والے کہاں ہیں؟ پھر ساتویں صدی میں کون کون یہ بات کہتا ہے؟ پھر آٹھویں اور اسی طرح آج تک ہر زمانے کے تمام علماء کے اقوال مانگیں (کیوں کہ اجماع تمام سے ہوتا ہے) تو ہمیں اس پر وہ اقوال مل ہی نہیں سکتے۔ ہم تو چھٹی صدی کے بعد ان مخصوص علماء کی بات پر اعتماد کر رہے ہیں اور اجماع کہہ رہے ہیں۔
اور چھٹی صدی سے پہلے علماء کا قول بھی موجود نہیں ہے۔
آپ اس بنیاد پر بخاری کو ’’اصح الکتب بعد کتاب اللہ‘‘ نہیں مان رہے کہ چھٹی صدی سے پہلے کسی عالم کا قول نہیں ملتا۔ میں پوچھتا ہوں اس سے بخاری کی ’’اصح الکتب‘‘ ہونے کی حیثیت میں کیا فرق پڑتا ہے؟ ہم بھی مانتے ہیں کہ بخاری کے وجود میں آنے کے فوراً بعد کسی نے ’’اصح الکتب بعد کتاب اللہ‘‘ ہونے کی بات نہیں کی لیکن بات کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ بخاری ’’اصح الکتب‘‘ نہیں تھی بخاری شروع سے آج تک ’’اصح الکتب‘‘ ہے۔ آپ کے پاس کیا دلیل ہے کہ چھ صدیوں تک تو بخاری ’’اصح الکتب‘‘ نہیں تھی لیکن چھ صدیوں بعد ’’اصح الکتب‘‘ ہوگئی؟؟؟
یہاں آپ کے لیے ایک سوال اور بھی ہے کیوں کہ آپ تقلید کے سخت مخالفین میں سے ہیں۔ کیا ابن صلاح نے اس اجماع پر قرآن و حدیث سے کوئی دلیل بیان کی ہے؟ اگر نہیں تو آپ نے ان علماء کی بات کو دلیل دیکھے بغیر انہیں درست سمجھتے ہوئے قبول کیسے کر لیا؟ کیا یہ تقلید نہیں ہے؟
اور اگر دلیل بیان کی ہے تو وہ دلیل بتائیے۔
امید ہے کہ پچھلے سوالات کی طرح آپ اس سوال کو بھی ہضم کر جائیں گے۔
ہم نے تو ابن صلاح کی بات ہی نہیں کی ہم تو پوری امت مسلمہ کے اجماع کی بات کررہے ہیں اور اجماع قرآن وحدیث سے ثابت ہے۔ اس لئے یہ تقلید نہیں۔
ابن صلاح اور انکے بعد کے علماء کے اقوال پر تو آپ اعتماد کررہے ہیں تو کیا یہ ابوحنیفہ کی تقلید کو چھوڑ کر ان علماء کی تقلید نہیں؟؟؟ جبکہ ہر مسئلہ پر آپ کو تو ابوحنیفہ کا قول درکار ہے اور ابوحنیفہ کے اقوال ہی آپ کا مذہب اور دین ہیں۔ لیکن بدنصیبی کہ مقلدین کے پاس سب کچھ ہے لیکن ابوحنیفہ کے اقوال نہیں۔ ابوحنیفہ نے اپنے مقلدین کو علمی طور پر اس قدر یتیم چھوڑا ہے کہ بیچارے مقلدین خود مجتہد بن کر قرآن وحدیث سے دلائل دیتے ہیں اور مسائل میں مختلف علماء کے دروں کی کاسہ لیسی کرتے ہیں۔