لوّلی ٹائم نے لکھا ہے کہ "میرے بھائی آپ سے پہلے بھی پوچھا تھا کہ آپ کی بات کا ثبوت درکار ہے تا کہ ہمارے علم میں اضافہ ھو - اگر آپ نے سچ بولا ہے تو حوالہ پیش کرنے میں آپ کو حکم نامہ کی کیا ضرورت ہے"
محترم اس دھاگہ میں جو بات چل رہی ہے اُدھر کوئی آتا ہی نہیں ہے، اتنا بڑا جھوٹ لکھ کر لکھنے والا غائب ہےآپ ہی ارشاد فرمائیں کہ(امت کے تمام محدثین ، مفسریں،علماء، فقہاء نے بالاتفاق تلقی بلقبول کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ صحیح بخاری قرآن کے بعد سب سے صحیح کتاب ہے) یہ بات کس محدث نے کس مفسر نے کس فقیہ نے کس کس صدی میں کہی ہے اسکا نام باحوالہ نقل کر دیں،تاکہ یہ بات کلیر ہو جائے پھر دوسری بات کے حوالے نقل کرنا میرے ذمہ ہے
میرے بھائی امام بخاری رحمہ اللہ نے جب سے صحیح بخاری لکھی اس وقت سے آج تک سب کا اجماع ہے کہ قرآن کے بعد سب سے صحیح کتاب صحیح بخاری ہے
اس کو بھی پڑھ لے یہ آپ کے دیوبند سے لیا گیا ہے
لنک
بخاری شریف، امام بخاریؒ اور حاملینِ بخاری
مفتی محمد مجیب الرحمن دیودرگی
پچھلا صفحہ ►
◄ اگلا صفحہ
فہرست
درسِ نظامی میں بخاری شریف سب سے اخیر میں پڑھائی جاتی ہے، اس کے بعد طلبہ کو فراغت وفضیلت کی سند عطا کی جاتی ہے، اب طلبہ کاایک معنی میں مخصوص انداز کا تعلیمی مرحلہ اختتام پذیر ہوا، اگر کوئی خواہش مند تخصص وغیرہ کرنا چاہے تو اس کے لیے راہیں کھلی ہیں، ماہِ شعبان مدارس اسلامیہ میں سال کا آخری حصہ ہے، بیشتر مدارس میں ختم بخاری شریف کی تقریب وغیرہ منعقد ہوتی ہے، جس میں بخاری شریف کی آخری حدیث کی تلاوت، پھر اس پر سیر حاصل کلام بھی کیا جاتا ہے، جس کے ساتھ تعلیمی دورانیہ کا اختتام عمل میں آتا ہے،
احادیث کی کتابوں میں جن کتابوں کو اللہ تعالیٰ نے شرفِ قبولیت سے نوازا ہے ا ن میں صفِ اول میں بخاری شریف ہے، اس کتاب کے لکھے جانے کے بعد سے اب تک اس کی عظمت کے بے شمار قائلین ہیں؛ بلکہ اس کتاب کے بارے میں بیشتر محدثین نے فرمایا کہ یہ اصح الکتب بعد کتاب اللہ ہے، یعنی قرآن کریم کے بعد روئے زمین پر سب سے صحیح ترین کتاب بخاری شریف ہے، امام بخاری نے اپنی اس کتاب میں صحیح احادیث نقل کرنے کا اہتمام فرمایا ہے؛ البتہ تمام کی تمام صحیح اور قابلِ عمل احادیث صرف بخاری شریف ہی میں نہیں ہے؛ بلکہ جواحادیث امام بخاری کی مخصوص شرائط پر پوری اتری ہیں اسی کو انہوں نے نقل کرنے کا التزام فرمایا ہے؛ الغرض اس کتاب کی قبولیت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ
امام بخاری کا انتقال 256ھ میں ہوا ،اس کے بعد سے اب تک امتِ محمدیہ اس کتاب سے مستفید ہورہی ہے ، امام بخاری کی حسن نیت وخلوص اور عرق ریزی کا نتیجہ خود دنیا میں یہ ظاہر ہوا کہ بلا واسطہ نوے ہزار حضرات نے آپ سے بخاری شریف کا سماع کیا، حضرت شیخ الہند فرماتے ہیں کہ امام بخاری زمانہٴ تصنیف کے پورے سولہ سال روزہ دار رہے اور کسی کو اس کا علم نہ تھا، حتی کہ گھر والوں کو بھی معلوم نہ تھا ،گھر سے جو کھانا آتا کسی مسکین کو کھلادیتے، جب بھی کوئی حدیث درج کرنے کاارادہ کرتے تو پہلے غسل فرماتے، دو رکعت نفل نماز ادا کرتے، پھر حدیث درج فرماتے، اسی کا اثر تھا کہ ابو زید مروزی فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حجر اسود اور مقامِ ابراہیم کے درمیان سویا ہوا تھا کہ خواب میں حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کی زیارت ہوئی، آپ صلی الله علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ابو زید! تم امام شافعی کی کتاب کا درس کب تک دوگے؟ میری کتاب کا درس کیوں نہیں دیتے؟ میں نے عرض کیا حضور! آپ کی کون سی کتاب ہے؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: محمد بن اسماعیل کی جامع صحیح۔ بقول حافظ ابن کثیرپریشانی خوفِ ودشمن، سختی مرض، قحط سالی اور دیگر بلاوٴں میں بخاری شریف کا پڑھناتریاق کاکا م دیتا ہے، ایک محدث نے اس کتاب کو ایک سو بیس مرتبہ مختلف مقاصد کے لیے پڑھا اور ہر مرتبہ ان کو کام یابی ملی، یہ بھی مقبولیت کی بات ہے کہ علماء اس کتاب کی خدمت کی طرف خاص طور سے متوجہ ہوئے ،35 زائد شرحیں لکھی گئیں اورآج تک اس کا سلسلہ جاری ہے ، 22سے زائد مستخرج لکھے گئے۔ (بخاری شریف کی پہلی حدیث ص:72 )
اس کتاب کی قبولیت میں جہاں امام بخاری کے تقوی وطہارت کا دخل ہے، وہیں ان کے والدین کے احتیاط وتقوی کا بھی بڑا دخل ہے، امام بخاری کے والد کے سلسلہ میں ابن حجر عسقلانی (متوفی 852ھ)رقم طراز ہیں: ان کے والد انتقال کے وقت فرمارہے تھے کہ میرے مال میں ایک درہم بھی حرام یا مشتبہ نہیں ہے۔ (فتح الباری1/478) غورکیجیے جس شخص نے اپنی زندگی میں حلال رزق کا اس قدر اہتمام کیا ہو اس کی اولاد میں صلاح وتقوی نہ آئے گا تو کیا آئے گا؟ خود قرآن کریم نے بھی اپنے رسولوں کو حلال رزق کھانے اور عملِ صالح کرنے کی تلقین کی ہے، اس آیت کریمہ کے تحت مفسرین فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے طیب رزق اور عمل کو ایک ساتھ ذکر فرمایا ہے ،جس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ پاکیزہ رزق انسان کو نیک عمل پر ابھارتا ہے، امام بخاری کی والد ہ بھی بڑی عابدہ ،زاہدہ اور خدا رسیدہ خاتون تھیں، امام بخاری کمسن ہی تھے کہ باپ کا سایہ اٹھ گیا اور ظاہر ا صرف والدہ کا سہارا باقی رہ گیا تھا، والدہ نے ان کی پرورش اور تعلیم وتربیت کا بیڑہ اٹھایا، امام بخاری بچپن ہی میں کسی عارضہ کی وجہ سے نابیناہوگئے تھے، علاج ومعالجہ کرانے کے باوجود بینائی واپس نہ ہوئی، آپ کی والدہ اس تعلق سے بڑی فکر مند رہتی اور رو رو کر بارگاہ الہٰی میں آپ کی بینائی کے لیے دعائیں مانگا کرتی تھیں، ایک مرتبہ خواب میں حضرت ابراہیم خلیل اللہ ں کی زیارت ہوئی آپں نے بشارت دی کہ تمہاری دعائیں قبول ہوگئیں او رتیرے لخت جگر کوپھر نور بصیرت سے نوازدیا گیا۔ چناں چہ جب وہ بیدار ہوئیں تو کیا دیکھتی ہیں کہ بیٹے کی دونوں آنکھیں بالکل بے عیب ہوگئیں اور صحیح سالم ہیں۔ آپ کی بصارت اس قدر بڑھ گئی کہ تاریخ کبیر کا مسودہ چاندنی راتوں میں تحریر فرمایا۔ (بخاری شریف کی پہلی حدیث ص: 29)خود امام بخاری کی زندگی تقوی وطہارت ہی سے عبارت تھی، خو دانہوں نے اپنے سلسلہ میں فرمایا :”ما اغتبت أحدا منذ علمت أن الغیبة حرام“․(ہدی الساری665) جب سے مجھے معلوم ہوا کہ غیبت حرام ہے تب سے میں نے کسی کی غیبت نہ کی۔ غور طلب امر یہ ہے کہ امام بخاری کو کن کن مسائل سے دو چار ہونا نہ پڑا؟کیسی کیسی مصیبتیں آفتیں ان پر آئیں، ارباب ِحکومت کی طرف سے انہیں تنگ کیا گیا، اربابِ علم کی جانب سے ان پرطعنہ کشی کی گئی ،ان کے خلاف زہر آلودسازشیں کی گئیں، حتی کہ ان کے سلسلہ میں منقول ہے کہ ایک دفعہ ان مصائب وآلام سے تنگ ہو کر فرمایا تھا: اے اللہ! میرے اوپر تیری زمین اپنی تمام تر وسعتوں کے باوجود تنگ ہو گئی ہے، اسی لیے مجھے اپنے پاس بلا لیجیے (کوثر المعانی1/106) ان سب کے ہوتے ہوئے زبان بندی پر عمل انتہائی قابل تعریف وقابلِ تقلید عمل ہے، جہاں تک عبادات کا تعلق ہے اس کا امام بخاری غیر معمولی اہتمام فرماتے تھے، ایک دفعہ ایک باغ میں ظہر کی نماز کے بعد نوافل میں مصروف ہوگئے، نوافل سے فارغ ہونے کے بعد قمیص کا دامن اٹھا کر لوگوں سے کہا کہ دیکھو! قمیص کے اند ر کیا چیز ہے؟ لوگوں نے دیکھا تو ایک بچھو تھا جس نے سولہ یا سترہ دفعہ ڈنک ماردیا تھا، جس سے آپ کا جسم اچھا خاصا متأثر ہوگیا تھا، لوگوں نے عرض کیاحضرت! آپ نے نماز کیوں نہ توڑی، نماز نفل تھی، بعد میں قضا کرلیتے؟ آپ نے فرمایا: جس سورہ کی تلاوت شروع کی تھی اس میں اتنا مزہ آرہا تھا کہ اس کے مقابلے میں یہ تکلیف کچھ بھی محسوس نہ ہوئی۔(ہدی الساری ص: 666،بحوالہ بخاری شریف کی پہلی حدیث کا درس)اسی طرح ابن حجر عسقلانی (متوفی 852ھ )نے جو آپ کے رمضان کا معمول نقل کیا ہے وہ بھی قابل مطالعہ ہے۔اما م بخاری رمضان کی پہلی رات میں اپنے ساتھیوں کو جمع کرتے، ان کی امامت فرماتے، ہر رکعت میں بیس آیتوں کی تلاوت فرماتے، نیز اسی ترتیب پر قرآن ختم فرماتے، ہر دن سحری تک قرآ ن کریم کا ایک تہائی حصہ تلاوت فرماتے، اس طرح تین رات میں قرآن ختم فرماتے اور مضان کے ہر دن میں ایک قرآن ختم کرتے،اور یہ ختم افطار کے موقعہ پر ہوتا اور ہر مرتبہ ختم کرتے ہوئے دعا کا اہتمام کرتے۔ (فتح الباری1/481)یہی تقوی طہارت کا ہی اثر تھاکہ اللہ تعالیٰ نے امام بخاری کو قبولیت عامہ سے نوازا۔
آج مدارس اسلامیہ سے ہزاروں طلباء تعلیم پاکر فارغ ہورہے ہیں، انہوں نے اپنا اختتام بخاری شریف کے ذریعہ کیاہے تو ان سے حدیث کی یہ کتابیں، محدثین کی روحیں تقاضا کررہی ہیں کہ جس طرح انہوں نے اپنے زمانے میں حدیث رسول کے خلاف اٹھنے والی سازشوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا، انہوں نے احادیثِ نبویہ کے خلاف ابھرنے والے ہر فتنہ کا منھ توڑجواب دیا اور ان فتنوں کو ایسی مات دی کہ پھروہ فتنے نہ ابھرسکے، جیسے اس زمانے میں وضع حدیث کافتنہ تھا، سندوں میں اختلاط وہیرا پھیری کافتنہ تھا، ان سب کا محدثین نے خداداد حافظہ وذہانت کے ذریعہ خاتمہ کردیا، اسی طرح حاملینِ بخاری سے وقت یہ تقاضہ کررہاہے کہ وہ فراغت کے بعدخدمتِ حدیث کے لیے اپنے آپ کو وقف کردیں، خد متِ حدیث کو اپنے لیے سعادت سمجھیں ، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے ہیں جو شخص خدمت حدیث میں مصروف ہوتا ہے اس کا تعلق نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے قلب اطہر سے ہوجاتا ہے۔ آج تاریخ اپنے آپ کو دوہرا رہی ہے احادیث رسول کے خلاف انتہائی گھناوٴنا طرزِ عمل اپنایا جارہا ہے، کہیں احادیث کی حجیت کا انکار ہو رہا ہے تو کہیں احادیث کی من مانی تشریحات کے ذریعہ دیگر احادیث کو ناقابل عمل کہہ کر کوڑے دان کی نذر کیا جارہا ہے، اسلام کے نام پر اٹھنے والے یہ فتنے احادیث مبارکہ کو اپنا تختہٴ مشق بنائے ہوئے ہیں، احادیثِ مبارکہ کے ساتھ وہ طرز عمل اپنایا جارہا ہے جس کی محدثین نے کبھی اجازت نہ دی، ایک وہ طبقہ بھی ہے جو احادیث مبارکہ کو ان کے متعینہ مطالب اور سلف صالحین کے بتائے ہوئے مطالب سے ہٹا کر غلط تاویلات کا سہارا لے کر من چاہا مطلب بیان کررہا ہے، ایسے میں حاملینِ حدیث کی ذمہ داری دو چند ہوجاتی ہے کہ انہوں نے جس حدیث کی تعلیم حاصل کی ہے اس حدیث کی خدمت میں مگن ومست رہیں، کہیں خدا نخواستہ مادیت کے گرداب میں پھنس کر خدمتِ حدیث جیسی عظیم الشان نعمت سے محروم نہ ہوجائیں، اس عظیم نعمت کے ہاتھ آنے کے بعد دولت کی لالچ وطمع میں ہم نہ گھِر جائیں، اس لیے امام بخاری نے بھی جو دین کی خدمت کی ہے وہ سوکھی روٹی کھا کر کی ہے، ایک دفعہ علاج کے لیے طبیب کو قارو رہ دکھایا گیا توطبیب نے کہا کہ یہ اس شخص کا قارورہ ہے جو بغیر سالن کے روٹی کھاتاہے، آپ سے اصرار کیا گیاروٹی کے ساتھ سالن استعمال کریں۔ آپ نے انکار کیا اور صرف روٹی کے ساتھ بعض دفعہ شکر استعمال کرنے لگے،جب علمِ حدیث کی دولت سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں مالا مال کیا ہے تو کم از کم روز انہ ایک حدیث یاد کرنے کا اہتمام کریں، ایک حدیث اور اس کا مطلب امت کے سامنے بیان کریں، کسی بھی موضوع پر چالیس احادیث منتخب کر کے اس پر کام کریں، بعض محدثین تو وہ ہیں جنہوں نے احادیث کے یاد کرنے کے لیے ایک آسان طرز یہ اپنایا تھا کہ وہ حدیث پر کم از کم زندگی میں ایک دفعہ عمل کرلیتے تاکہ وہ حدیث یاد رہے، الغرض حدیث کی دولت حاصل ہونے کے بعد اس کی قدر دانی کی ضرورت ہے اوراس راہ میں ترقی کی ضرورت ہے، دورِ حاضر میں بالخصوص ”مکتبہٴ شاملہ“ سافٹ ویئر کے آنے کے بعد ہر عالم کی رسائی اس تک ہے، اب کتابوں کی عدم فراہمی کا کوئی عذرلنگ نہیں کرسکتے، بالخصوص اس سافٹ ویئر میں جو سرچ کی صلاحیت ہے اس کی افادیت ناقابل بیان ہے، اسی لیے ہر عالم دین اس سافٹ ویئر سے استفادہ کرتے ہوئے خدمتِ حدیث میں نمایاں خدمات انجام دے سکتا ہے، ان احادیث کے پڑھنے کے بعد کم از کم محدثین کے اس مجاہدے کو ذہن نشین رکھے کہ انہوں نے ایک ایک حدیث کے حصول کے لیے کتنی جاں فشانی سے کام لیا ہے؟ کتنا کتنا لمبا سفرطے کیا ہے؟ احادیث کے حاصل کرنے کے لیے کتنی جدوجہد کی ہے؟ اگر ان باتوں کو ہم نے ذہن نشین رکھا تو ان شاء اللہ اس دولت حدیث سے بے اعتنائی وبے توجہی نہ کریں گے، اگر ہم ان مجاہدات کو پسِ پشت ڈال دیں یا ان سے صرف نظر کرلیں تو پھر سوائے نقصان وخسارے کے کوئی فائدہ نہ ہوگا۔اللہ تعالیٰ تمام طالبانِ علوم نبوت کو خدمتِ حدیث کی دولت سے مالا مال کرے، آمین!