وہ صحیح احادیث جو تکبیر تحریمہ کے سوا بقیہ جگہ پر ترکِ رفع الیدین پر دلالت کرتی ہیں ملاحظہ فرمائیں؛
سنن أبي داود (1 / 200):
751 - حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ، وَخَالِدُ بْنُ عَمْرٍو، وَأَبُو حُذَيْفَةَ، قَالُوا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، بِإِسْنَادِهِ بِهَذَا قَالَ: «فَرَفَعَ يَدَيْهِ فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ» ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: «مَرَّةً وَاحِدَةً»
[حكم الألباني] : صحيح
سنن الترمذي ت شاكر (2 / 40):
257 - حَدَّثَنَا هَنَّادٌ قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الأَسْوَدِ، عَنْ عَلْقَمَةَ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ: «أَلَا أُصَلِّي بِكُمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَصَلَّى، فَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ إِلَّا فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ» . وَفِي البَابِ عَنْ البَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ. [ص:41] حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ، [ص:42] وَبِهِ يَقُولُ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ العِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالتَّابِعِينَ، [ص:43] وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَأَهْلِ الكُوفَةِ
[حكم الألباني] : صحيح
سنن النسائي (2 / 182):
1026 - أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِصَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «فَقَامَ فَرَفَعَ يَدَيْهِ أَوَّلَ مَرَّةٍ ثُمَّ لَمْ يُعِدْ»
[حكم الألباني] صحيح
السنن الكبرى للنسائي (2 / 31):
1100 - أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللهِ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللهِ، قَالَ: أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِصَلَاةِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «فَقَامَ فَرَفَعَ يَدَيْهِ أَوَّلَ مَرَّةٍ ثُمَّ لَمْ يَرْفَعْ»
یہ تمام احادیث اس پر دلالت کرتی ہیں کہ تکبیر تحریمہ کے سوا نماز میں رفع الیدین مشروع نہ رہی گو کہ احادیث میں دیگر جگہوں کی رفع الیدین کا اثبات ضرور ہے۔
شاید آپ نے جان بوجھ کر ایسا کیا ، یا لاعلمی میں ، ورنہ سنن ابو داود سے آپ نے یہ روایت نقل کی ہے ، اور امام صاحب اسی روایت کو پہلےذکر کرکے ضعیف قرار دے چکے ہیں :
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَاصِمٍ يَعْنِي ابْنَ كُلَيْبٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَلْقَمَةَ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ: " أَلَا أُصَلِّي بِكُمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: فَصَلَّى فَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ إِلَّا مَرَّةً "، قَالَ أَبُو دَاوُدَ: هَذَا حَدِيثٌ مُخْتَصَرٌ مِنْ حَدِيثٍ طَوِيلٍ وَلَيْسَ هُوَ بِصَحِيحٍ عَلَى هَذَا اللَّفْظِ
سنن أبي داود (1/ 199)748 )
ممكن ہے آپ کہیں ، پہلی روایت ضعیف ہے ، جبکہ دوسری ضعیف نہیں تھی ، ورنہ امام صاحب دوسری جگہ پر بھی اس کی تضعیف کرتے ہیں ، حالانکہ دونوں جگہوں پر متن ایک ہی ہے ، اور سند میں موجود سبب ضعف بھی برقرار ہے ۔
امام ترمذی بھی صرف ایک نمبر پہلے معروف مقامات رفع اليدين والی روایت ذکر کرکے حدیث ابن مسعود کی تضعیف ابن مبارک رحمہ اللہ سے نقل کر چکے ہیں :
وقال عبد الله بن المبارك: قد ثبت حديث من يرفع، وذكر حديث الزهري، عن سالم، عن أبيه، ولم يثبت حديث ابن مسعود أن النبي صلى الله عليه وسلم لم يرفع إلا في أول مرة.
سنن الترمذي ت شاكر (2/ 38)
یہ کہا جاسکتا ہے کہ امام ترمذی نے اسے ’ حسن ‘ قرار دیا ہے ، حالانکہ یہ بھی معروف ہے کہ امام ترمذی کی ’ حسن ‘ سے مراد معروف حسن حدیث مراد نہیں ہے ، بلکہ یہ ان کی خاص اصطلاح ہے ، جس میں حدیث کے ضعیف ہونے کی نفی نہیں ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ اس حدیث پر ائمہ علل اور محدثین کی جرح بالکل واضح ہے ، جیساکہ امام ابوداود رحمہ اللہ نے فرمایا کہ دراصل یہ رکوع میں تطبیق والی روایت سے خلط ملط ہوگئی ہے ، ورنہ رفع الیدین کے متعلق لم یرفع یدیہ إلا مرۃ والی بات سرے سے ثابت ہی نہیں ۔
متقدمین و متاخرین اکثر علماء کا یہی فیصلہ ہے ، لیکن بعض متاخرین اہل علم نے ائمہ علل کی بات کو تسلیم نہ کرتے ہوئے اس روایت کو ظاہری سند کا اعتبار کرتے ہوئے صحیح کہا ہے ۔ حالانکہ اگر ظاہری سند ہی دیکھنی ہے تو اس میں بھی سفیان ثوری کی تدلیس ہے ، اس کا شاید کوئی جواب نہیں ۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاتا ہے کہ سفیان ثوری کی تدلیس کو علما علل نے قبول کیا ہے ، حالانکہ ’ وہی علماء ‘ جنہوں نے ثوری کی تدلیس قبول کی ہے ، انہوں نے ہی اس روایت کو ثوری یا ان کے شیخ وکیع کی غلطی اور وہم قرار دیا ہے ۔