• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

احادیث اور اہل حدیث کا عمل بالرفع الیدین

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اصل، عدم ذکر عدم کو مستلزم نہیں، کے تحت بقیہ جگہ کی رفع الیدین کیا منسوخ ہے؟
بقیہ جگہ کی رفع الیدین کا اثبات کہاں ہے؟

اور آپ نے یہ نہیں بتلایا:
لیکن آپ کے نزدیک یہ روایات سے چار مقام کے علاوہ دیگر مقام پر بھی رفع الیدین ثابت ہوتا ہے،
اور آپ کے نزدیک یہ منسوخ بھی نہیں!
تو آپ اس پر عمل کیوں نہیں کرتے!
یعنی کہ جو بات آپ کے نزدیک صحیح حدیث سے ثابت بھی ہو، اور منسوخ بھی نہ ہو! اس پر بھی آپ عمل کے قائل نہیں!
یعنی آپ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح ثابت غیر منسوخ احادیث پر عمل کے قائل نہ ہوتے ہوئے، منکرین حدیث میں شامل ہو!
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
عداوت و دشمنی میں بھٹی صاحب نجانے کیا کیا گل کھلائیں گے
 
شمولیت
ستمبر 21، 2017
پیغامات
548
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
61
بقیہ جگہ کی رفع الیدین کا اثبات کہاں ہے؟
بھائی احادیث لکھی ہیں مگر ان سے اعراض کے لئے عجیب تأویلات سے کام لے رہے ہو۔ چلیں ایک اور ثبوت لکھ رہا ہوں ملاحظہ فرمائیں۔
المعجم الأوسط (1 / 9):
16 - حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ قَالَ: نا أَبِي قَالَ: نا الْجَرَّاحُ بْنُ [ص:10] مَلِيحٍ، عَنْ أَرْطَاةَ بْنِ الْمُنْذِرِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ «يَرْفَعُ يَدَيْهِ عِنْدَ التَّكْبِيرِ لِلرُّكُوعِ، وَعِنْدَ التَّكْبِيرِ حِينَ يَهْوِي سَاجِدًا»
اس میں واضح طور پر سجدہ کے لئے جھکتے وقت رفع الیدین کا ثبوت ہے۔

المعجم الأوسط (8 / 208):
8417 - وَبِهِ، حَدَّثَنَا عَبَّادٌ قَالَ: نا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَرَّرٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، «أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ عِنْدَ التَّكْبِيرِ فِي كُلِّ صَلَاةٍ، وَعَلَى الْجَنَائِزِ»
اس میں بھی ہر تکبیر کے ساتھ رفع الیدین کا اثبات ہے۔​
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
المعجم الأوسط (1 / 9):
16 - حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ قَالَ: نا أَبِي قَالَ: نا الْجَرَّاحُ بْنُ [ص:10] مَلِيحٍ، عَنْ أَرْطَاةَ بْنِ الْمُنْذِرِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ «يَرْفَعُ يَدَيْهِ عِنْدَ التَّكْبِيرِ لِلرُّكُوعِ، وَعِنْدَ التَّكْبِيرِ حِينَ يَهْوِي سَاجِدًا»
جہاں یہ حدیث ہے، اسے سے متصل یہ بھی لکھا ہوا ہے:
لَمْ يَرْوِ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ أَرْطَاةَ ، إِلا الْجَرَّاحُ .
یعنی کہ اس روایت کو روایت کرنے میں الجراح بن ملیح منفرد ہیں،
الجراح بن مليح الحمصي
1أبو أحمد بن عدي الجرجاني: لا بأس به وبرواياته وله أحاديث صالحة جياد وهو في نفسه صالح مشهور في أهل الشام
2
أبو حاتم الرازي: صالح الحديث
3
أحمد بن شعيب النسائي: ليس به بأس
4
ابن حجر العسقلاني: صدوق
5
يحيى بن معين: لا أعرفه، ومرة: ليس به بأس

اب صدوق درجہ کے راوی کی حدیث، متفق علیہ احادیث کی موجودگی میں، کہ عبد اللہ عمر رضی اللہ عنہما سے ہی سجدوں میں رفع الیدین کا نہ کرنا ثابت ہے، شاذ و معلول قرار پاتی ہے!
اور اسی کی طرف صاحب کتاب نے اشارہ بھی کردیا تھا!
اور ڈوبتے کو تنکہ کا سہارا کے تحت صاحب نے بقیہ مقامات پر رفع الیدین کے اثبات پر پیش کر دی!
اس میں واضح طور پر سجدہ کے لئے جھکتے وقت رفع الیدین کا ثبوت ہے۔
پہلے حدیث تو مقبول ثابت ہو! شاذ و معلول حدیث سے اثبات نہیں ہوتا!
المعجم الأوسط (8 / 208):
8417 - وَبِهِ، حَدَّثَنَا عَبَّادٌ قَالَ: نا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَرَّرٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، «أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ عِنْدَ التَّكْبِيرِ فِي كُلِّ صَلَاةٍ، وَعَلَى الْجَنَائِزِ»
اسی روایت کے متصل یہ بھی لکھا ہے:
لَمْ يَرْوِ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ نَافِعٍ ، وَعَلَى الْجَنَائِزِ ، إلا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَرَّرٍ ، تَفَرَّدَ بِهِ : عَبَّادُ بْنُ صُهَيْبٍ .
اور اب ان کا احوال بھی دیکھ لیں:
عبد الله بن محرر العامري

1أبو أحمد بن عدي الجرجاني: رواياته غير محفوظة
2
أبو بكر البيهقي: متروك الحديث لا تقوم له حجة
3
أبو حاتم بن حبان البستي: كان من خيار عباد الله، ممن يكذب ولا يعلم، ويلقب الأخبار ولا يفهم
4
أبو زرعة الرازي: ضعيف الحديث، ومرة: امتنع عن قراءة حديثه
5
أبو نعيم الأصبهاني: ضعيف، روى المناكير
6
أحمد بن حنبل: ترك الناس حديثه
7
أحمد بن شعيب النسائي: متروك الحديث، ومرة: ليس بثقة، ولا يكتب حديثه
8
إبراهيم بن يعقوب الجوزجاني: هالك
9
ابن أبي حاتم الرازي: متروك الحديث، منكر الحديث، ضعيف الحديث، ترك حديثه عبد الله بن المبارك، روى عن قتادة، ويزيد بن الأصم، روى عنه أبو نعيم
10
ابن حجر العسقلاني: متروك الحديث
11
الدارقطني: متروك، ومرة: ضعيف
12
علي بن الجنيد الرازي: متروك الحديث
13
عمرو بن علي الفلاس: متروك الحديث
14
محمد بن إسماعيل البخاري: عن قتادة منكر الحديث
15
محمد بن سعد كاتب الواقدي: ضعيف ليس بذاك
16
محمد بن عبد الله المخرمي: ترك حديثه، ومرة: بعرة أحب إلي منه
17
هلال بن العلاء الرقي: منكر الحديث حدث بأحاديث مناكير
18
يحيى بن معين: في رواية العباس بن محمد الدوري، قال: ليس بشيء، ومرة: ضعيف، ومرة: ليس بثقة
19
يعقوب بن سفيان الفسوي: متروك، ضعيف

عباد بن صهيب الكليبي

1أبو أحمد بن عدي الجرجاني: له تصانيف كثيرة وحديث كثير عن المعروفين وعن الضعفاء ويتبين على حديثه الضعف ومع ضعفه يكتب حديثه، ومن الرواة من إذا حدث عنه يقول ثنا أبو بكر الكليبي ولا يسميه لضعفه عنده
2
أبو الحسن بن سفيان الكوفي: متروك الحديث
3
أبو بكر بن أبي شيبة: تركنا حديثه قبل أن يموت بعشرين سنة
4
أبو حاتم الرازي: متروك الحديث، ضعيف الحديث تركت حديثه
5
أبو حاتم بن حبان البستي: كان قدريا داعيا إلى القدر ومع ذلك يروي المناكير عن المشاهير التي إذا سمعها المبتدىء في هذه الصناعة شهد لها بالوضع
6
أبو دواد السجستاني: صدوق قدري
7
أحمد بن حنبل: ما كان بصاحب كتب وكان عنده من الحديث أمر عظيم، ومرة: إنما أنكروا عليه مجالسته لأهل القدر وأما الحديث فلا بأس به فيه
8
أحمد بن شعيب النسائي: متروك الحديث
9
أحمد بن صالح الجيلي: كان يرى القدر ويدعو له فترك حديثه
10
إبراهيم بن يعقوب الجوزجاني: غال في بدعته بأباطيله
11
ابن حجر العسقلاني: أحد المتروكين
12
الذهبي: أحد المتروكين، ومرة: واه
13
زكريا بن يحيى الساجي: قدري وكانت كتبه ملأى من الكذب
14
عبدان بن أحمد الأهوازي: لم يكذبه الناس إنما لقنه صهيب بن محمد بن صهيب أحاديث في آخر الأمر
15
علي بن المديني: تركت من حديثي مائة ألف منها عن عباد بن صهيب خمسين ألف
16
محمد بن إسماعيل البخاري: يرى القدر، تركوه، سكتوا عنه
17
محمد بن سعد كاتب الواقدي: كان يرى القدر ويدعو له فترك حديثه
18
يحيى بن معين: كان من الحديث بمكان ما كتبت عنه شيئا، ومرة: أثبت من أبي عاصم النبيل
یعنی کہ یہ دونوں متروک الحدیث راوی ہیں۔
اس میں بھی ہر تکبیر کے ساتھ رفع الیدین کا اثبات ہے۔
میاں جی! ایسی متروک الحدیث راوة کی احادیث سے وہہ بھی ایک نہیں بلکہ دو دو متروک الحدیث راوی کی حدیث سے اثبات نہیں ہوتا!
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
@جی مرشد جی !
آپ نے اب تک یہ نہیں بتلایاکہ؛
آپ کے نزدیک یہ روایات سے چار مقام کے علاوہ دیگر مقام پر بھی رفع الیدین ثابت ہوتا ہے،
اور آپ کے نزدیک یہ منسوخ بھی نہیں!
تو آپ اس پر عمل کیوں نہیں کرتے!
یعنی کہ جو بات آپ کے نزدیک صحیح حدیث سے ثابت بھی ہو، اور منسوخ بھی نہ ہو! اس پر بھی آپ عمل کے قائل نہیں!
یعنی آپ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح ثابت غیر منسوخ احادیث پر عمل کے قائل نہ ہوتے ہوئے، منکرین حدیث میں شامل ہو!
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ قَالَ: نا أَبِي قَالَ: نا الْجَرَّاحُ بْنُ [ص:10] مَلِيحٍ، عَنْ أَرْطَاةَ بْنِ الْمُنْذِرِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ «يَرْفَعُ يَدَيْهِ عِنْدَ التَّكْبِيرِ لِلرُّكُوعِ، وَعِنْدَ التَّكْبِيرِ حِينَ يَهْوِي سَاجِدًا»
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی مشہور روایت کی روشنی میں اس کا درست مفہوم یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہاں مراد "اراد ان یہوی" ہو۔ یعنی آپ رکوع کے بعد اور سجدے میں جانے سے قبل رفع یدین فرماتے تھے۔ کسی فعل کے بیان میں اس طرح کی چھوٹی موٹی تبدیلی عام سی بات ہے لیکن اس سے متفق علیہ معنی نہیں بدلتا۔ اس طرح دونوں روایات میں تطبیق بھی ہو جاتی ہے۔
و اللہ اعلم
 
شمولیت
ستمبر 21، 2017
پیغامات
548
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
61
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
جہاں یہ حدیث ہے، اسے سے متصل یہ بھی لکھا ہوا ہے:
لَمْ يَرْوِ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ أَرْطَاةَ ، إِلا الْجَرَّاحُ .
یعنی کہ اس روایت کو روایت کرنے میں الجراح بن ملیح منفرد ہیں،
اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟

اب صدوق درجہ کے راوی کی حدیث، متفق علیہ احادیث کی موجودگی میں، کہ عبد اللہ عمر رضی اللہ عنہما سے ہی سجدوں میں رفع الیدین کا نہ کرنا ثابت ہے، شاذ و معلول قرار پاتی ہے!
میرے پیارے بھائی آپ بات کو گھمانے میں بڑے ماہر معلوم ہوتے ہیں۔
میں نے جس حدیث کا حوالہ دیا اس میں سجدہ کے لئے جھکتے وقت کی رفع الیدن کا ذکر ہے نہ کہ سجدوں کی رفع الیدین کا۔ حدیث کے الفاظ ہیں؛
وَعِنْدَ التَّكْبِيرِ حِينَ يَهْوِي سَاجِدًا
لہٰذا خواہ مخواہ اس کو دوسری صحیح حدیث سے متصادم نہ کریں۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2017
پیغامات
548
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
61
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی مشہور روایت کی روشنی میں اس کا درست مفہوم یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہاں مراد "اراد ان یہوی" ہو۔ یعنی آپ رکوع کے بعد اور سجدے میں جانے سے قبل رفع یدین فرماتے تھے۔ کسی فعل کے بیان میں اس طرح کی چھوٹی موٹی تبدیلی عام سی بات ہے لیکن اس سے متفق علیہ معنی نہیں بدلتا۔ اس طرح دونوں روایات میں تطبیق بھی ہو جاتی ہے۔
و اللہ اعلم
بھائی آپ کی بات ٹھیک ہے اور یہاں یہی مطلب ہے اور اسی کو میں نے دلیل بنایا ہے۔
یہ بات ذہن نشیں رہے کہ رکوع سے اٹھ کر سجدہ میں جھکنے سے پہلے ایک رکن ’’قومہ‘‘ کا ہے۔ رکوع سے اٹھ کر کی جانے والی رفع الیدین کی احادیث کو اس سے خلط نہیں کیا جاسکتتا کہ یہ سجدہ کو جھکتے وقت کی رفع الیدین کے اثبات میں ہے۔ یاد رہے کہ اس میں دوسری جگہوں کی رفع الیدین سے انکار نہیں ہے بالکہ عدم ذکر عدم کو مستلزم نہیں کے اصول کے مطابق بقیہ جگہ کی رفع الیدین کا ثبوت اپنی جگہ موجود ہے۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2017
پیغامات
548
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
61
میرا ان احادیث کو لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ جہاں تک رفع الیدین کے ’’ثبوت‘‘ کی بات ہے تو وہ ہر تکبیر کے ساتھ رفع الیدین کا بھی ہے۔
عمل اگر ’’ثبوت‘‘ کرنا ہے تو اہل حدیث کہلانے والوں پر لازم ہے کہ ان پر بھی عمل کریں۔
بصورتِ دیگر ان کا منسوخ و متروک ہونا ثابت کریں۔
احناف کا عمل مکمل احادیث پر ہے۔ وہ جو حدیث پیش کرتے ہیں اس میں سوائے تکبیر تحریمہ کے بقیہ کی نفی ثابت ہے۔
لہٰذا احناف کا عمل بالرفع الیدین حدیث کے مطابق اور اہل حدیث کا حدیث کے خلاف ہے۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟
اس سے جو فرق پڑتا ہے، وہ بتایا تھا:
یعنی کہ اس روایت کو روایت کرنے میں الجراح بن ملیح منفرد ہیں،
الجراح بن مليح الحمصي
1أبو أحمد بن عدي الجرجاني: لا بأس به وبرواياته وله أحاديث صالحة جياد وهو في نفسه صالح مشهور في أهل الشام
2
أبو حاتم الرازي: صالح الحديث
3
أحمد بن شعيب النسائي: ليس به بأس
4
ابن حجر العسقلاني: صدوق
5
يحيى بن معين: لا أعرفه، ومرة: ليس به بأس

اب صدوق درجہ کے راوی کی حدیث، متفق علیہ احادیث کی موجودگی میں، کہ عبد اللہ عمر رضی اللہ عنہما سے ہی سجدوں میں رفع الیدین کا نہ کرنا ثابت ہے، شاذ و معلول قرار پاتی ہے!
اور اسی کی طرف صاحب کتاب نے اشارہ بھی کردیا تھا!
اور ڈوبتے کو تنکہ کا سہارا کے تحت صاحب نے بقیہ مقامات پر رفع الیدین کے اثبات پر پیش کر دی!
میرے پیارے بھائی آپ بات کو گھمانے میں بڑے ماہر معلوم ہوتے ہیں۔
میں نے جس حدیث کا حوالہ دیا اس میں سجدہ کے لئے جھکتے وقت کی رفع الیدن کا ذکر ہے نہ کہ سجدوں کی رفع الیدین کا۔ حدیث کے الفاظ ہیں؛
وَعِنْدَ التَّكْبِيرِ حِينَ يَهْوِي سَاجِدًا
لہٰذا خواہ مخواہ اس کو دوسری صحیح حدیث سے متصادم نہ کریں۔
اپنی ہی پیش کردہ احادیث کو بھول گئے؛
وہ کہتے ہیں کہ دروغ گو حافظہ ناباشد
صحيح البخاري (1 / 148):
735 - حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ: " أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلاَةَ، وَإِذَا كَبَّرَ لِلرُّكُوعِ، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ، رَفَعَهُمَا كَذَلِكَ أَيْضًا، وَقَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، رَبَّنَا وَلَكَ الحَمْدُ، وَكَانَ لاَ يَفْعَلُ ذَلِكَ فِي السُّجُودِ "
اس میں تین جگہ کا اثبات اور سجدوں میں رفع الیدین کا انکار ہے۔
صحيح البخاري (1 / 148
738 - حَدَّثَنَا أَبُو اليَمَانِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنَا سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: " رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ افْتَتَحَ التَّكْبِيرَ فِي الصَّلاَةِ، فَرَفَعَ يَدَيْهِ حِينَ يُكَبِّرُ حَتَّى يَجْعَلَهُمَا حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ، وَإِذَا كَبَّرَ لِلرُّكُوعِ فَعَلَ مِثْلَهُ، وَإِذَا قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، فَعَلَ مِثْلَهُ، وَقَالَ: رَبَّنَا وَلَكَ الحَمْدُ، وَلاَ يَفْعَلُ ذَلِكَ حِينَ يَسْجُدُ، وَلاَ حِينَ يَرْفَعُ رَأْسَهُ مِنَ السُّجُودِ "
اس میں تین جگہ کا اثبات اور سجدہ کے لئے جھکتے اور دو سجدون کے بعد اٹھتے وقت کی رفع الیدین کا انکار ہے مگر سجدوں کی رفع الیدین کا انکار نہیں۔
یہاں آپ نے خود لکھا ہے کہ ''سجدہ کے لئے جھکتے اور دو سجدوں کے بعد اٹھتے وقت کی رفع الیدین کا انکار ہے''۔
میرا ان احادیث کو لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ جہاں تک رفع الیدین کے ’’ثبوت‘‘ کی بات ہے تو وہ ہر تکبیر کے ساتھ رفع الیدین کا بھی ہے۔
عمل اگر ’’ثبوت‘‘ کرنا ہے تو اہل حدیث کہلانے والوں پر لازم ہے کہ ان پر بھی عمل کریں۔
بصورتِ دیگر ان کا منسوخ و متروک ہونا ثابت کریں۔
ثبوت تو اب تک کسی صحیح و مقبول حدیث سے نہ ہو سکا!
مگر جب آپ کے نزدیک یہ ثابت ہیں، اور منسوخ بھی نہیں!
تو آپ اس کے قائل فائل نہ ہو کر منکر حدیث کیوں بنتے ہو؟
احناف کا عمل مکمل احادیث پر ہے۔ وہ جو حدیث پیش کرتے ہیں اس میں سوائے تکبیر تحریمہ کے بقیہ کی نفی ثابت ہے۔
جو حدیث آپ اس مسئلہ پر پیش کرتے ہو، فقہ حنفی کے اصول کے مطابق بھی اس سے نسخ ثابت نہیں ہوتا!
لہٰذا احناف کا عمل بالرفع الیدین حدیث کے مطابق اور اہل حدیث کا حدیث کے خلاف ہے۔
احناف کا عمل ایک شاذ و معلول و ضعیف حدیث پر ہے، اور کئی صحیح احادیث کے خلاف!
اور اہل حدیث کا عمل ہر صحیح و مقبول حدیث کے موافق ہے!
 
Top