السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اس سے جو فرق پڑتا ہے، وہ بتایا تھا:
یعنی کہ اس روایت کو روایت کرنے میں الجراح بن ملیح منفرد ہیں،
الجراح بن مليح الحمصي
1أبو أحمد بن عدي الجرجاني: لا بأس به وبرواياته وله أحاديث صالحة جياد وهو في نفسه صالح مشهور في أهل الشام
2 أبو حاتم الرازي:
صالح الحديث
3 أحمد بن شعيب النسائي: ليس به بأس
4 ابن حجر العسقلاني: صدوق
5 يحيى بن معين:
لا أعرفه، ومرة: ليس به بأس
اب صدوق درجہ کے راوی کی حدیث، متفق علیہ احادیث کی موجودگی میں، کہ عبد اللہ عمر رضی اللہ عنہما سے ہی سجدوں میں رفع الیدین کا نہ کرنا ثابت ہے، شاذ و معلول قرار پاتی ہے!
اور اسی کی طرف صاحب کتاب نے اشارہ بھی کردیا تھا!
اور ڈوبتے کو تنکہ کا سہارا کے تحت صاحب نے بقیہ مقامات پر رفع الیدین کے اثبات پر پیش کر دی!
میرے پیارے بھائی آپ بات کو گھمانے میں بڑے ماہر معلوم ہوتے ہیں۔
میں نے جس حدیث کا حوالہ دیا اس میں سجدہ کے لئے جھکتے وقت کی رفع الیدن کا ذکر ہے نہ کہ سجدوں کی رفع الیدین کا۔ حدیث کے الفاظ ہیں؛
وَعِنْدَ التَّكْبِيرِ حِينَ يَهْوِي سَاجِدًا
لہٰذا خواہ مخواہ اس کو دوسری صحیح حدیث سے متصادم نہ کریں۔
اپنی ہی پیش کردہ احادیث کو بھول گئے؛
وہ کہتے ہیں کہ دروغ گو حافظہ ناباشد
صحيح البخاري (1 / 148):
735 - حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ: " أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلاَةَ، وَإِذَا كَبَّرَ لِلرُّكُوعِ، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ، رَفَعَهُمَا كَذَلِكَ أَيْضًا، وَقَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، رَبَّنَا وَلَكَ الحَمْدُ، وَكَانَ لاَ يَفْعَلُ ذَلِكَ فِي السُّجُودِ "
اس میں تین جگہ کا اثبات اور سجدوں میں رفع الیدین کا انکار ہے۔
صحيح البخاري (1 / 148
738 - حَدَّثَنَا أَبُو اليَمَانِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنَا سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: " رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ افْتَتَحَ التَّكْبِيرَ فِي الصَّلاَةِ، فَرَفَعَ يَدَيْهِ حِينَ يُكَبِّرُ حَتَّى يَجْعَلَهُمَا حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ، وَإِذَا كَبَّرَ لِلرُّكُوعِ فَعَلَ مِثْلَهُ، وَإِذَا قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، فَعَلَ مِثْلَهُ، وَقَالَ: رَبَّنَا وَلَكَ الحَمْدُ، وَلاَ يَفْعَلُ ذَلِكَ حِينَ يَسْجُدُ، وَلاَ حِينَ يَرْفَعُ رَأْسَهُ مِنَ السُّجُودِ "
اس میں تین جگہ کا اثبات اور سجدہ کے لئے جھکتے اور دو سجدون کے بعد اٹھتے وقت کی رفع الیدین کا انکار ہے مگر سجدوں کی رفع الیدین کا انکار نہیں۔
یہاں آپ نے خود لکھا ہے کہ ''سجدہ کے لئے جھکتے اور دو سجدوں کے بعد اٹھتے وقت کی رفع الیدین کا انکار ہے''۔
میرا ان احادیث کو لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ جہاں تک رفع الیدین کے ’’ثبوت‘‘ کی بات ہے تو وہ ہر تکبیر کے ساتھ رفع الیدین کا بھی ہے۔
عمل اگر ’’ثبوت‘‘ کرنا ہے تو اہل حدیث کہلانے والوں پر لازم ہے کہ ان پر بھی عمل کریں۔
بصورتِ دیگر ان کا منسوخ و متروک ہونا ثابت کریں۔
ثبوت تو اب تک کسی صحیح و مقبول حدیث سے نہ ہو سکا!
مگر جب آپ کے نزدیک یہ ثابت ہیں، اور منسوخ بھی نہیں!
تو آپ اس کے قائل فائل نہ ہو کر منکر حدیث کیوں بنتے ہو؟
احناف کا عمل مکمل احادیث پر ہے۔ وہ جو حدیث پیش کرتے ہیں اس میں سوائے تکبیر تحریمہ کے بقیہ کی نفی ثابت ہے۔
جو حدیث آپ اس مسئلہ پر پیش کرتے ہو، فقہ حنفی کے اصول کے مطابق بھی اس سے نسخ ثابت نہیں ہوتا!
لہٰذا احناف کا عمل بالرفع الیدین حدیث کے مطابق اور اہل حدیث کا حدیث کے خلاف ہے۔
احناف کا عمل ایک شاذ و معلول و ضعیف حدیث پر ہے، اور کئی صحیح احادیث کے خلاف!
اور اہل حدیث کا عمل ہر صحیح و مقبول حدیث کے موافق ہے!