اشماریہ
سینئر رکن
- شمولیت
- دسمبر 15، 2013
- پیغامات
- 2,682
- ری ایکشن اسکور
- 752
- پوائنٹ
- 290
آپ شاید میرا مکمل مطلب نہیں سمجھے. میرا مطلب ہے کہ اس سے مراد قومہ میں رفع کرنا ہے. اور قائلین رفع بھی رکوع کے اندر یا اٹھنے کے فعل کے دوران رفع نہیں کرتے بلکہ مکمل اٹھ کر کرتے ہیں. اس لیے معنی میں دونوں روایات ایک جیسی ہیں.بھائی آپ کی بات ٹھیک ہے اور یہاں یہی مطلب ہے اور اسی کو میں نے دلیل بنایا ہے۔
یعنی کہ اس روایت کو روایت کرنے میں الجراح بن ملیح منفرد ہیں،
الجراح بن مليح الحمصي
1أبو أحمد بن عدي الجرجاني: لا بأس به وبرواياته وله أحاديث صالحة جياد وهو في نفسه صالح مشهور في أهل الشام
2 أبو حاتم الرازي: صالح الحديث
3 أحمد بن شعيب النسائي: ليس به بأس
4 ابن حجر العسقلاني: صدوق
5 يحيى بن معين: لا أعرفه، ومرة: ليس به بأس
اب صدوق درجہ کے راوی کی حدیث، متفق علیہ احادیث کی موجودگی میں، کہ عبد اللہ عمر رضی اللہ عنہما سے ہی سجدوں میں رفع الیدین کا نہ کرنا ثابت ہے، شاذ و معلول قرار پاتی ہے!
میرا ایک خیال ہے جس سے ممکن ہے آپ اتفاق نہ کریں. حدیث رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی تصحیح اور تضعیف, دونوں ہی بہت نازک کام ہیں. یہ نبی کریم ص کی جانب کسی بات کی نسبت کرنا یا نسبت کو ختم کرنا ہے. اس لیے اگر گنجائش ہو تو تطبیق کو مقدم رکھا جانا چاہیے.