• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

احادیث کی صحت درکار ہے

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
ٹھیک ہے اگر ابن ہمام رتبہ اجتہاد تک پہنچ گئے ہیں تو یہ ان کا اجتہاد ہے۔ اسے دیگر احناف نے تسلیم نہیں کیا۔
عرف الشذی میں علامہ کشمیری نے اس کا رد بھی کیا ہے۔
(ویسے میں نے اپنی رائے یہی ظاہر کی تھی۔)

امام ابن امیر الحاج رحمۃ اللہ علیہ:
یہ امام ابن الہمام رحمۃ اللہ علیہ کے ارشد تلامذہ میں سے ہیں۔ یہ اپنے استاد کے فیصلہ پر صاد فرماتے ہیں چنانچہ اپنی کتاب " حلیہ " میں لکھتے ہیں: و رجع مشایخنا بما لا یعری عن شیئی لمتاملہ فلا جرم ان قال شیخنا ابن الہمام و لو کان الی شیئی الخ ( تعلیق الممجد علی موطا الامام المحمد، ص: 9-10 )
( ترجمہ ) ہمارے مشائخ نے جن دلائل سے اپنے مذہب کو ترجیح دی ہے وہ تامل سے خالی نہیں اس لیے ہمارے شیخ ابن الہمام رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا اگر فیصلہ میرے سپرد ہوتا الخ۔
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
ٹھیک ہے اگر ابن ہمام رتبہ اجتہاد تک پہنچ گئے ہیں تو یہ ان کا اجتہاد ہے۔ اسے دیگر احناف نے تسلیم نہیں کیا۔
بھائی جان شاید آپ اس معاملے میں اپنے علماء کے اقوال سے بابلد ہیں، امام ابن امیر الحاج حنفی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی یہی رائے دی ہے:
یہ امام ابن الہمام رحمۃ اللہ علیہ کے ارشد تلامذہ میں سے ہیں۔ یہ اپنے استاد کے فیصلہ پر صاد فرماتے ہیں چنانچہ اپنی کتاب " حلیہ " میں لکھتے ہیں: و رجع مشایخنا بما لا یعری عن شیئی لمتاملہ فلا جرم ان قال شیخنا ابن الہمام و لو کان الی شیئی الخ ( تعلیق الممجد علی موطا الامام المحمد، ص: 9-10 )
( ترجمہ ) ہمارے مشائخ نے جن دلائل سے اپنے مذہب کو ترجیح دی ہے وہ تامل سے خالی نہیں اس لیے ہمارے شیخ ابن الہمام رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا اگر فیصلہ میرے سپرد ہوتا الخ۔
شاہ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ :
جن کی فارسی عبارت شرح سفر السعادت کے حوالہ سے ابھی گزری ہے۔ یہ شاہ ولی اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے بہت پہلے ہوئے ہیں۔ انہوں نے حنفی مذہب کے ترک کا ارادہ کیا لیکن علماءمکہ نے مشورہ دیا کہ جلدی نہ کرو۔ حنفی مذہب کے دلائل پر غور کرو۔ چنانچہ اس کے بعد انہوں نے " فتح سر المنان " لکھی۔ اس میں حنفی مذہب کے دلائل جمع کئے۔ مسئلہ آمین کے متعلق یہی عبارت لکھی جو امام ابن الہمام رحمۃ اللہ علیہ نے لکھی اور امام ابن الہمام رحمۃاللہ علیہ والا ہی فیصلہ کیا۔
مولانا عبدالحئی صاحب لکھنؤی رحمۃ اللہ علیہ : حنفی مذہب کے مشہور بزرگ گزرے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں: والانصاف ان الجہر قوی من حیث الدلیل ( التعلیق الممجد علی موطاالامام محمد، ص: 105 )
( ترجمہ ) یعنی انصاف یہ ہے کہ دلیل کی رو سے آمین بالجہر قوی ہے۔
مولانا سراج احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہیہ بھی حنفی مذہب کے مشور بزرگ ہیں۔ شرح ترمذی میں لکھتے ہیں:
احادیث الجہر بالتامین اکثر واصح۔ ( ترجمہ ) یعنی بلند آواز سے آمین کہنے کی احادیث کثیر ہیں اور زیادہ صحیح ہیں۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
بھائی جان شاید آپ اس معاملے میں اپنے علماء کے اقوال سے بابلد ہیں، امام ابن امیر الحاج حنفی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی یہی رائے دی ہے:
یہ امام ابن الہمام رحمۃ اللہ علیہ کے ارشد تلامذہ میں سے ہیں۔ یہ اپنے استاد کے فیصلہ پر صاد فرماتے ہیں چنانچہ اپنی کتاب " حلیہ " میں لکھتے ہیں: و رجع مشایخنا بما لا یعری عن شیئی لمتاملہ فلا جرم ان قال شیخنا ابن الہمام و لو کان الی شیئی الخ ( تعلیق الممجد علی موطا الامام المحمد، ص: 9-10 )
( ترجمہ ) ہمارے مشائخ نے جن دلائل سے اپنے مذہب کو ترجیح دی ہے وہ تامل سے خالی نہیں اس لیے ہمارے شیخ ابن الہمام رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا اگر فیصلہ میرے سپرد ہوتا الخ۔
شاہ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ :
جن کی فارسی عبارت شرح سفر السعادت کے حوالہ سے ابھی گزری ہے۔ یہ شاہ ولی اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے بہت پہلے ہوئے ہیں۔ انہوں نے حنفی مذہب کے ترک کا ارادہ کیا لیکن علماءمکہ نے مشورہ دیا کہ جلدی نہ کرو۔ حنفی مذہب کے دلائل پر غور کرو۔ چنانچہ اس کے بعد انہوں نے " فتح سر المنان " لکھی۔ اس میں حنفی مذہب کے دلائل جمع کئے۔ مسئلہ آمین کے متعلق یہی عبارت لکھی جو امام ابن الہمام رحمۃ اللہ علیہ نے لکھی اور امام ابن الہمام رحمۃاللہ علیہ والا ہی فیصلہ کیا۔
مولانا عبدالحئی صاحب لکھنؤی رحمۃ اللہ علیہ : حنفی مذہب کے مشہور بزرگ گزرے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں: والانصاف ان الجہر قوی من حیث الدلیل ( التعلیق الممجد علی موطاالامام محمد، ص: 105 )
( ترجمہ ) یعنی انصاف یہ ہے کہ دلیل کی رو سے آمین بالجہر قوی ہے۔
مولانا سراج احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہیہ بھی حنفی مذہب کے مشور بزرگ ہیں۔ شرح ترمذی میں لکھتے ہیں:
احادیث الجہر بالتامین اکثر واصح۔ ( ترجمہ ) یعنی بلند آواز سے آمین کہنے کی احادیث کثیر ہیں اور زیادہ صحیح ہیں۔
جزاک اللہ خیرا
اب اس کے مقابلے میں میں کتنے علماء کی یہ رائے یہاں بیان کروں کہ اخفاء افضل ہے اور جہر تعلیم وغیرہ کے لیے تھا؟؟ ماردینی کی، کشمیری کی یا اور کسی کی؟
میرے محترم بھائی یہ اس مسئلے کا حل نہیں ہے۔ ظاہر ہے میں زیادہ علماء کی رائے پیش کرسکتا ہوں خصوصا ائمہ کرام کی۔
میں آپ کی بیان کردہ کسی جگہ پر اصل عبارت دیکھے بغیر درخواست کرتا ہوں کہ آپ یہاں دلائل کی بحث کو آگے فرمائیے۔
ماقبل میں جو آپ نے فرمایا کہ میں نے امام کے جہر کو تسلیم کر لیا ہے وہ بھی درست نہیں۔ البتہ آپ اپنے دل کو تسلی دے سکتے ہیں۔
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
یہ تو اس حدیث میں کہیں نہیں لکھا۔
اس کا تو اس سے آسان مطلب یہ لگتا ہے کہ امام جب ولاالضالین کے بعد آمین (چاہے دل میں چاہے آواز سے) کہے تو تم بھی آمین کہو۔
کیا مندرجہ بالا جملہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ آپ نے امام کی جہری آمین کو تسلیم کیا ہے؟
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
عن أبي هريرة رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : { إذا أمن الإمام فأمنوا ، فإنه من وافق تأمينه تأمين الملائكة : غفر له ما تقدم من ذنبه }
جناب الله سے ڈرتے هوئے صرف یہ بتا دیں کہ اس حدیث میں امام کی آمین کا پتہ کیسے چلے گا؟
اس کی ایک مثال دوسری جگہ اس طرح ہے اذا قال الامام : سمع اللہ لمن حمدہ، فقولو ربنا لک الحمد، اس حدیث کا مطلب یہ کہ امام کی سمع اللہ سن کر ہی مقتدی ربنا لک الحمد کہیں گے، اگرامام کی آوازہی نہ آئے تو مقتدین تو کچھ کہنے سے محروم رہیں گے، اس لیے امام کا سمع اللہ بلند آواز سے ہی ہوگا ۔ اسی طرح امام کی آمین بلند ہوگی
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
کیا مندرجہ بالا جملہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ آپ نے امام کی جہری آمین کو تسلیم کیا ہے؟
حافظ بھائی آپ عینک لگاتے ہیں؟
یہ آپ کو نظر نہیں آیا؟
(چاہے دل میں چاہے آواز سے)
اس کا مطلب یہی ہے کہ قول آمین دونوں طرح مراد ہو سکتا ہے۔ یہاں حدیث میں تصریح نہیں ہے۔

جناب الله سے ڈرتے هوئے صرف یہ بتا دیں کہ اس حدیث میں امام کی آمین کا پتہ کیسے چلے گا؟
اس کی ایک مثال دوسری جگہ اس طرح ہے اذا قال الامام : سمع اللہ لمن حمدہ، فقولو ربنا لک الحمد، اس حدیث کا مطلب یہ کہ امام کی سمع اللہ سن کر ہی مقتدی ربنا لک الحمد کہیں گے، اگرامام کی آوازہی نہ آئے تو مقتدین تو کچھ کہنے سے محروم رہیں گے، اس لیے امام کا سمع اللہ بلند آواز سے ہی ہوگا ۔ اسی طرح امام کی آمین بلند ہوگی
دوسری روایت میں ہے:۔
إذا قال الإمام: {غير المغضوب عليهم ولا الضالين}فقولوا: آمين
بخاری

آپ کا کیا خیال ہے اس روایت کے مطابق امام آمین نہیں کہے گا یا مقتدی اس کے آمین کہنے سے پہلے ہی آمین کہ دیں گے؟
دونوں روایتوں کو جمع کریں تو علم ہوتا ہے کہ مقتدیوں کی آمین کا اصل مقام ولاالضالین کے بعد ہے۔ اور یہی مقام امام کی آمین کا بھی ہے۔ اس لیے اس مقام پر مقتدی آمین کہیں گے چاہے امام کی آواز سنیں یا نہیں۔
اسی بات کو آپ دوسرے انداز سے لے لیں کہ اس روایت میں جو میں نے اوپر لکھی ہے آپ "ف" کو تعقیب کے لیے لیتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ امام کے ولا الضالین کہنے کے بعد مقتدی آمین کہیں گے ولا الضالین کے ساتھ نہیں۔ تو پھر اگر امام کی آمین کو آواز سے قرار دیں تو مقتدیوں کو اس کے بعد آمین کہنی چاہیے کیوں کہ یہی انداز و الفاظ وہاں بھی ہیں۔
إذا أمن الإمام فأمنوا
إذا قال الإمام: {غير المغضوب عليهم ولا الضالين}فقولوا: آمين
یعنی جب امام آمین کہے تو تم اس کے فورا بعد آمین کہو۔ بلکل اسی طرح جیسے کہ جب امام ولا الضالین کہے تو تم اس کے فورا بعد آمین کہو۔
آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ دونوں روایات میں جمع کیا گیا ہے کہ مقتدیوں کا اصل وقت ولا الضالین کے بعد آمین کہنا ہے اور امام بھی اسی وقت آمین کہے گا۔
لیکن اس سے آپ کا اپنا دعوی باطل ہو جائے گا کہ امام کی آمین سن کر مقتدی آمین کہیں گے۔ اور یہی میں بھی عرض کر رہا ہوں۔

آپ نے جو اس کی مثال دی وہ ممثل لہ کے مطابق نہیں ہے۔
اسپیکر تو موجودہ دور کی ایجاد ہے۔ اس سے پہلے مکبرین ربنا لک الحمد پکارتے تھے۔ آج کل بھی جہاں لائٹ نہ ہو وہاں یہی ہوتا ہے۔ اب ذرا سوچ کر بتائیے کہ وہ مقتدی جو امام سے دور کھڑا ہے اور اسے امام کی تسمیع سنائی نہیں دیتی اور وہ مکبر کی تحمید سنتا ہے صرف، کیا وہ ربنا لک الحمد نہیں کہے گا؟ اس نے تو تسمیع سنی ہی نہیں۔ مالکم کیف تحکمون؟
اصل میں یہاں بھی مقام مراد ہے جو تسمیع کے بعد کا ہے نہ کہ آواز سننا ورنہ اس دور کھڑے مقتدی پر تو ربنا لک الحمد کا حکم وارد ہی نہیں ہوا۔

اس کے برعکس یہ دلیل آپ کے ایک دعوی کو رد کرتی ہے۔ آپ یہاں قولوا آمین سے آواز سے آمین کہنا مراد لیتے ہیں تو پھر آخر کیا وجہ ہے کہ قولوا ربنا لک الحمد میں آپ آواز سے تحمید کہنا مراد نہیں لیتے؟ جن الفاظ سے آپ یہاں استدلال کر رہے ہیں وہی الفاظ وہاں بھی تو ہیں؟
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
حافظ عمران الٰہی بھائی اس حُسنِ ظن پر میں آپ کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں۔

جزاک اللہ خیرا
ابو عبدالله میں اللہ سے ڈرتا ہوں اور اسی کی دی ہوئی توفیق سے یہ بات کر رہا ہوں۔
حافظ عمران الہی میرے بھائی ہیں اور مجھے ان کی نیت پر بھی کوئی شک نہیں۔
ایک چیز کو ہم ایک طرح سمجھتے ہیں اور وہ دوسری طرح تو یہ فروع دین کا معاملہ ہے اور اس میں درست اور غلط دونوں عند اللہ ماجور ہیں۔ یہاں صرف اپنی سمجھ کے مطابق دوسرے کو سمجھا رہے ہیں۔

اگر آپ کوئی علمی بات نہیں کر سکتے تو ایسے معنی خیز جملوں کے استعمال سے اپنی زبان کو محفوظ رکھیئے۔
 

ابو عبدالله

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 28، 2011
پیغامات
723
ری ایکشن اسکور
448
پوائنٹ
135
ابو عبدالله میں اللہ سے ڈرتا ہوں اور اسی کی دی ہوئی توفیق سے یہ بات کر رہا ہوں۔
حافظ عمران الہی میرے بھائی ہیں اور مجھے ان کی نیت پر بھی کوئی شک نہیں۔
ایک چیز کو ہم ایک طرح سمجھتے ہیں اور وہ دوسری طرح تو یہ فروع دین کا معاملہ ہے اور اس میں درست اور غلط دونوں عند اللہ ماجور ہیں۔ یہاں صرف اپنی سمجھ کے مطابق دوسرے کو سمجھا رہے ہیں۔

اشماریہ بھائی یہ بھی تو ہوسکتا تھا کہ حافظ عمران الٰہی بھائی آپ کو اللہ سے نہ ڈرنے کا طعنہ دے کر بات شروع کرتے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا جو کہ ایک قابلِ تحسین عمل ہے اس لیے جب کسی بھائی کے غلط رویہ اختیار کرنے پر اُسے ٹوکا جاتا ہے تو اگر کوئی شخص مثبت رویہ اختیار کرتا ہے تو ہمیں اس کی تحسین بھی کرنا چاہیے۔

اگر آپ کوئی علمی بات نہیں کر سکتے تو ایسے معنی خیز جملوں کے استعمال سے اپنی زبان کو محفوظ رکھیئے۔

ارے بھائی ہم تو دین کے طالب علم ہیں اور آپ جیسے فضلاء سے کچھ نہ کچھ سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اگر آپ کتابوں کا بوجھ ڈھونے، صفحات سیاہ کرنے یا عربی اقتباسات لگانے لیکن دوسری طرف "ہر حال میں فاسد تاویلات کے ذریعے اپنی بات ہی کو حق ثابت کرنے" کو علم سمجھتے ہیں تو ہم باز آئے ایسے علم سے۔۔۔۔۔۔
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
اس کا مطلب یہی ہے کہ قول آمین دونوں طرح مراد ہو سکتا ہے۔ یہاں حدیث میں تصریح نہیں ہے۔
اشماریہ بھائی کوئی حقیقت سے لگتی بات کریں مذکورہ حدیث سے محدثین آمین بالجہر ہی مراد لیا ہے، یہ تقلید کے کرشمے ہیں کہ حدیث میں معنوی تحریف کرتے ہوے آپ کو اللہ سے ڈر نہیں لگتا ، اس حدیث کا جو معنی محدیثین نے مراد لیا ہے، وہ یہی ہے کہ امام اور مقتدی بلند آواز سے آمین کہیں گے:
امام البخاری (باب جہر الامام بالتامین)
امام ابن خزیمہ (باب الجہر بآمین عند انقضاء فاتحہ الکتاب۔۔۔۔۔)
امام نسائی (جہر الامام بآمین)
امام ابن ماجہ (باب الجہر بآمین)
سنن الکبری للبیہقی: بَابُ جَهْرِ الْإِمَامِ بِالتَّأْمِينِ
السنن الصغیر للبیہقی:بَابُ الْإِمَامِ يَجْهَرُ بِالتَّأْمِينِ فِي صَلَاةِ الْجَهْرِ وَيَقْتَدِي بِهِ الْمَأْمُومُ
المسند المستخرج علی صحیح مسلم:بَابُ الْجَهْرِ بِآمِينَ
السنن الصغری للنسائی:بَابُ الْجَهْرِ بِآمِينَ
ناسخ الحدیث و منسوخہ لاثرم:باب الجهر بالتأمين
اس کے بعد شارحین حدیث بھی اس حدیث کا یہی معنی بیان کرتے ہیں، لیکن کیا کریں احناف کا جن کو تقلید کی عینک اندھا کیے جا رہی ہے، سنن ابو داود کی شرح معالم السنن میں امام الخطابي (المتوفى: 388هـ) نےلکھا ہے:قلت فيه دليل على أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يجهر بآمين ولولا جهره به لم يكن لمن يتحرى متابعته في التأمين على سبيل المداركة طريق إلى معرفته فدل أنه كان يجهر به جهرا يسمعه من وراءه
"مذکورہ حدیث آمین بالجہر کی دلیل ہے"
اسی طرح ابن بطال نے بخاری کی شرح میں لکھا ہے:وحجة من جهر بها قوله عليه السلام: (إذا أمن الإمام فأمنوا)
یہ حدیث آمین بالجہر والوں کی دلیل ہے"
اتنے واضح دلائل کے باوجود بھی یہی رٹ لگائے رکھنا کہ اس حدیث میں آمین بالجہر کا کہیں ذکر نہیں سوائے جہالت کے کچھ بھی نہیں ہے، اور دوسری طرف یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اس حدیث کو جہر اور خفا دونوں ثابت ہو رہے ، میری اشماریہ بھائی سے گزارش ہے یہ دہرا مفہوم کہاں سے اخذ کیا گیا ہے؟ حدیث کے کس لفظ میں اس کی وضاحت موجود ہے؟
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
اس تعلیق کی سند بتائیں گے؟ پھر اس سے تو ایک بار کہنا ثابت ہوتا ہے صرف۔
کیا خوب استدلال ہے کہ ایک بار ثابت ہوگا ، چلو یارو امام کے پیچھے ایک بار ایسی آمین کہہ کر تو دکھاؤ کہ جس سے مسجد گونج جائے، لیکن آپ کا کیا کر سکتے ہین تقلید کے سامنے بے بس ہیں
 
Top