• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

احادیث کی صحت درکار ہے

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
آپ نے جو روایت پیش کی اس میں جہرا آمین کا تو ذکر ہی نہیں اور مطلقا آمین تو احناف بھی کہتے ہیں۔
پھر اگر جہرا آمین مراد ہو تو سری نمازوں میں جب یہود مساجد کے آس پاس بازاروں میں ہوتے ہیں تب بھی کہنی چاہیے۔ تب تو آپ بھی چڑتے ہیں۔

بہر حال اس کا تعلق موجودہ بحث سے نہیں۔ براہ کرم موضوع کی طرف آئیے۔
محترم -

اگر آپ کی یہ بات مان لی جائے کہ - سری نمازوں میں یہودیوں کو چڑانے کے لئے آمین بالجہر کیوں نہیں کی جاتی -

تو میرا سوال ہے کہ آپ احناف جو "فاتحہ خلف الامام" کے قائل نہیں تو آپ کے نزدیک اس کی بنیاد قرآن کی یہ آیت ہے کہ اذا قری القرآن فاتمعو له وانصتوا ( سوره الاعراف) "جب قرآن پڑھا جائے تو خاموشی سے سنو"- تو سری نماز میں جب امام قرآن پڑھتا ہے تو کیا وہ احناف کو سنائی دیتا ہے ؟؟ کیوں کہ سری نماز میں بھی احناف امام کے پیچھے سوره فاتحہ پڑھنے کے قائل نہیں ہیں ؟؟؟

اگر سری نماز میں احناف کو امام کا قرآن پڑھنا سنائی دیتا ہے تو یہ ایک معجزہ سے کم نہیں- اور اگر نہیں سنائی دیتا تو پھر فاتحہ خلف الامام نہ پڑھنے کا کیا جواز ہے ان کے پاس ؟؟

کیا کہتے ہیں آپ ؟؟
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
محترم -

اگر آپ کی یہ بات مان لی جائے کہ - سری نمازوں میں یہودیوں کو چڑانے کے لئے آمین بالجہر کیوں نہیں کی جاتی -

تو میرا سوال ہے کہ آپ احناف جو "فاتحہ خلف الامام" کے قائل نہیں تو آپ کے نزدیک اس کی بنیاد قرآن کی یہ آیت ہے کہ اذا قری القرآن فاتمعو له وانصتوا ( سوره الاعراف) "جب قرآن پڑھا جائے تو خاموشی سے سنو"- تو سری نماز میں جب امام قرآن پڑھتا ہے تو کیا وہ احناف کو سنائی دیتا ہے ؟؟ کیوں کہ سری نماز میں بھی احناف امام کے پیچھے سوره فاتحہ پڑھنے کے قائل نہیں ہیں ؟؟؟

اگر سری نماز میں احناف کو امام کا قرآن پڑھنا سنائی دیتا ہے تو یہ ایک معجزہ سے کم نہیں- اور اگر نہیں سنائی دیتا تو پھر فاتحہ خلف الامام نہ پڑھنے کا کیا جواز ہے ان کے پاس ؟؟

کیا کہتے ہیں آپ ؟؟
یہ اس بحث کا موضوع تو نہیں ہے۔ بہرحال میں عرض کر دیتا ہوں۔
اس میں دو امر ہیں فاستمعوا اور انصتوا۔ انصتوا کا مطلب ہے چپ رہو اور فاستمعو کا کان لگا کر سنو۔
اگر آواز نہیں بھی آئے تب بھی کان لگانے کا حکم ہے۔ اور اگر یہ حکم نہ بھی ہو تب بھی خاموش رہنے کا حکم تو موجود ہے ہی۔
جب قرآن پڑھا جائے تو کان لگا کر سنو اور چپ رہو۔
آواز آنے نہیں آنے کی کوئی قید نہیں ہے ۔
محترم بھائی ۔اس موضوع پر اگر مزید بات کرنی ہو تو الگ تھریڈ بنا لیجیے گا۔
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
البینۃ علی۔۔۔۔۔۔۔؟

ویسے اس بحث کی پہلی روایت پڑھ لیجیے۔ شاید تحقیقی جذبے میں جوش آ جائے۔[/q
جزاک اللہ خیرا۔
آپ کے الفاظ نے مجھے تکلیف دی۔ میرے تو عینک کے بولنے کو آپ نے طعنہ گردانا تھا۔
آپ کی بات درست ہے۔
کوئی قابل ہو تو ہم شان کئی دیتے ہیں
ڈھونڈے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
محترم حافظ بھائی۔ جس چیز کو آپ بآسانی تاویل فرماتے ہیں وہی بسا اوقات تحقیق ہوتی ہے۔ تاویل کا جو معنی آپ حضرات لیتے ہیں وہ اکثر درست ہی نہیں ہوتا۔ یہ تاویل اردو والی نہیں عربی والی ہو رہی ہوتی ہے۔ اس تاویل کو اپنے اصل معنی میں دیکھنا چاہیں تو تفسیر طبری میں دیکھیے جہاں ابو جعفر طبری رح ہر تفسیر کو تاویل کہتے ہیں۔ کیا اس کا مطلب تاویل مذمومہ ہوتی ہے؟
جس تاویل کے بارے میں نے بات کی ہے وہ یہ ہے،اور یہ فقہ حنفیہ کا بنیادی اصول ہے:
الاصل : ان كل آية تخالف قول اصحابنا فانها تحمل على النسخ او على الترجيح والاولى ان تحمل على التاويل من جهة التوفيق۔
بیشک ہر وہ آیت جو ہمارے اصحاب کے قول کے مخالف آجائے اسکو منسوخ ہونے پر محمول کیا جائے گا یا پھر اسکو مرجوع سمجھا جائے گا (یعنی فقہا احناف قول کو ترجیح دینگے) اور بہتر یہ ہے کہ اپنی پوری صلاحیت اسکو تاویل پر محمول کیا جائے (یعنی قرآن کی آیت کی تاویل کر لی جائے) تا کہ دونوں میں تطبیق ہو جائے۔
اور جناب اشماریہ صاحب بھی اپنی تمام تر صلاحیتیں تاویل صرف کر رہے ہیں ، اور یا د رکھو! اس کا حساب تمہیں اللہ کے ہاں دینا پڑے گا
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
اس روایت کی سند جیسے آپ نے بیان فرمائی درست ہے۔ اب اس کےمتن کا جائزہ لیتے ہیں:۔
اس کا متن یہ ہے:۔
عن ابن جريج، عن عطاء قال: قلت له: أكان ابن الزبير يؤمن على إثر أم القرآن؟ قال: «نعم، ويؤمن من وراءه حتى أن للمسجد للجة»، ثم قال: إنما آمين دعاء
"ابن جریج عطاء سے روایت کرتے ہیں۔ کہتے ہیں میں نے انہیں کہا: کیا ابن زبیر فاتحہ کے بعد آمین کہتے تھے؟ انہوں نے فرمایا: جی ہاں، اور جو ان کے پیچھے ہوتے وہ بھی کہتے حتی کہ مسجد میں ایک گونج سی ہو جاتی۔ پھر کہا: آمین تو دعا ہے۔"
اس روایت کے بارے سب سے پہلے جناب اشماریہ صاحب نے فرمایا کہ اس کی سند نہیں ہے، تو بندہ نےسند پیش کردی ، لیکن جب احناف صاحبان کا یہ خاصا ہے کہ جو بات امام صاحب کے قول کے مخالف ہو تو اس کو رد کرنا واجب ہے اور فرض ہے اس لیے سند کو در کر دیا گیا، اس کے سند پر کلام کیا گیا کہ ابن جریج مدلس ہے اور سماع کیا صراحت نہیں ہے ، حالاں کہ سماع کی صراحت بھی موجود تھی لیکن آنکھوں پر تقلیدی پٹی بندھی تھی ، اس لیے سماع نظر سے اوجھل رہا، اور اب جب کہ کوئی بھاگنے کی کوئی سبیل باقی نہ رہی تو اب یہ کہنا شروع کر دیا کہ اس روایت سے آمین بالجہر ثابت ہی نہیں ہے، اسی کو اندھی تقلید کہتے ہیں کہ واضح دلائل کے آجانے کے بعد بھی صرف امام کے قول کو ہی بالا رکھنا، اور واضح روایات کو رد کر دینا الامان و الحفیظ
ایک بات سے اشماریہ صاحب اور بھاگے ہیں اور وہ بھی واضح حدیث ہے، ان کا کہنا ہے کہ اس حدیث سے آمین بالجہر ثابت ہی نہیں ہے، وہ حدیث یہ ہے:
عن أبي هريرة رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : { إذا أمن الإمام فأمنوا ، فإنه من وافق تأمينه تأمين الملائكة : غفر له ما تقدم من ذنبه
اس حدیث کی تاویل کرتے ہوئے اشماریہ صاحب فرماتے ہیں:اس سے جہر پر استدلال اس طرح کیا گیا ہے کہ زور سے آمین کہیں گے تو فرشتوں سے موافقت ہوگی۔ حالاں کہ فرشتوں کی آمین کی آواز ہی نہیں آتی۔ اس لیے ان کی آمین تو سری ہوئی تو اس سے تو اخفاء پر استدلال ہونا چاہیے۔
پھر کوئی بھی قرینہ اس پر نہیں ہے کہ موافقت جہر یا اخفاء میں مراد ہے۔ تلفظ یا سرعت و تاخیر میں موافقت مراد ہونا بھی اتنا ہی وزن رکھتا ہے جتنا جہر یا اخفاء میں موافقت مراد ہونا۔
حقیقتا یہ دلیل اداء تامین پر ہے صرف۔
بھائی میری مراد یہ ہے کہ وہ روایات بتا دیں جن سے شعبہ کو وہم ہونا سمجھ میں آتا ہے۔ یعنی جن میں شعبہ کے استاد سے کسی اور نے مد صوت کی روایت کی ہو۔
میں نے جب بحث کی اور محدثین کا اقوال پیش کیے تو اشماریہ نے اس بات کو چھوڑ کر دوسری بات شروع کر دی ، اس حدیث سے محدثین نے آمین بالجہر ہی مراد لیا ہے ، اس کی تفصیل درج ذیل ہے:
اس حدیث پر تما م محدثین نے آمین بالجہر کا باب وائم کر کے احناف کے جھوٹا ہونے پر کیل ثبت کر دیا
امام البخاری (باب جہر الامام بالتامین)
امام ابن خزیمہ (باب الجہر بآمین عند انقضاء فاتحہ الکتاب۔۔۔۔۔)
امام نسائی (جہر الامام بآمین)
امام ابن ماجہ (باب الجہر بآمین)
سنن الکبری للبیہقی: بَابُ جَهْرِ الْإِمَامِ بِالتَّأْمِينِ
السنن الصغیر للبیہقی:بَابُ الْإِمَامِ يَجْهَرُ بِالتَّأْمِينِ فِي صَلَاةِ الْجَهْرِ وَيَقْتَدِي بِهِ الْمَأْمُومُ
المسند المستخرج علی صحیح مسلم:بَابُ الْجَهْرِ بِآمِينَ
السنن الصغری للنسائی:بَابُ الْجَهْرِ بِآمِينَ
ناسخ الحدیث و منسوخہ لاثرم:باب الجهر بالتأمين
اس کے بعد شارحین حدیث بھی اس حدیث کا یہی معنی بیان کرتے ہیں، لیکن کیا کریں احناف کا جن کو تقلید کی عینک اندھا کیے جا رہی ہے، سنن ابو داود کی شرح معالم السنن میں امام الخطابي (المتوفى: 388هـ) نےلکھا ہے:قلت فيه دليل على أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يجهر بآمين ولولا جهره به لم يكن لمن يتحرى متابعته في التأمين على سبيل المداركة طريق إلى معرفته فدل أنه كان يجهر به جهرا يسمعه من وراءه
"مذکورہ حدیث آمین بالجہر کی دلیل ہے"
اسی طرح ابن بطال نے بخاری کی شرح میں لکھا ہے:وحجة من جهر بها قوله عليه السلام: (إذا أمن الإمام فأمنوا)
یہ حدیث آمین بالجہر والوں کی دلیل ہے"
اشماریہ صاحب اللہ سے ڈر جاؤ اور انصاف سے بتاؤ کہ کیا تم احادیث میں تاویل سے کام نہیں لے رہے ہو ، اللہ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ مین نے تم تک حق بات کو پہچا دیا ہے ،ہماری طرف سے حجت تمام ہو گئی ہے، اللہ ہی تمہیں ہدایت دے آمین یا رب العالمین
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
عن ابن جريج، عن عطاء قال: قلت له: أكان ابن الزبير يؤمن على إثر أم القرآن؟ قال: «نعم، ويؤمن من وراءه حتى أن للمسجد للجة»، ثم قال: إنما آمين دعاء
"ابن جریج عطاء سے روایت کرتے ہیں۔ کہتے ہیں میں نے انہیں کہا: کیا ابن زبیر فاتحہ کے بعد آمین کہتے تھے؟ انہوں نے فرمایا: جی ہاں، اور جو ان کے پیچھے ہوتے وہ بھی کہتے حتی کہ مسجد میں ایک گونج سی ہو جاتی۔ پھر کہا: آمین تو دعا ہے۔"
یہاں استدلال لفظ لجۃ سے ہے۔ اس کے معنی یوں کیے جاتے ہیں کہ "مسجد گونج اٹھی۔" حالاں کہ اردو میں یہ ترجمہ جو معانی سمجھا رہا ہے وہ عربی لفظ لجۃ کے نہیں ہیں۔ یہ اردو میں عام ہے کہ جو معنی عربی الفاظ کے ہوتے ہیں اردو ترجمہ وہ مکمل ادا نہیں کر سکتا۔
لجۃ کا اصل معنی ہے آوازوں کا ایک دوسرے سے مختلط ہوجانا، مل جانا، گڈمڈ ہوجانا۔ ایک نارمل آواز میں جو ایک یا دو فرد سن سکتے ہوں اگر بہت سے لوگ بول اٹھیں تو ان کی آوازیں گڈمڈ ہو جاتی ہیں۔ لجۃ کا مکمل معنی اصوات سے کیا گیا ہے یعنی آوازیں۔
تاج العروس میں ہے:۔
و في حديث عكرمة: سمعت لهم لجة بآمين يعني أصوات المصلين.
"حدیث عکرمہ میں ہے میں نے ان کی آمین کی "لجۃ" سنی یعنی نماز پڑھنے والوں کی آوازیں۔"
لسان العرب میں ہے:۔
ولجة القوم: أصواتهم. واللجة واللجلجة: اختلاط الأصوات. ۔۔۔۔ وفي حديث عكرمة: سمعت لهم لجة بآمين، يعني أصوات المصلين.
گونج اٹھنے کے اصل الفاظ کیا ہیں؟ القاموس الجدید اردو۔عربی میں اس کے لیے الفاظ استعمال ہوئے ہیں:۔
دوّی المکان و دوی، ضج المکان بہتافات، تجاوبت الصدی
تجاوب ، جواب سے باب تفاعل ہے یعنی آپ نے آواز دی اور وہ آواز دیواروں وغیرہ سے ٹکرا کر واپس آئے۔ دیواریں یا پہاڑیاں آپ کی بات کا جواب دیں۔
ضجۃ گونج کے لیے اصل لفظ ہے۔ اس کا معنی معجم الوسیط میں مذکور ہے:۔
(الضجة) الجلبة والصياح
جلبہ کے معنی بھی آوازوں کے ہیں اور صیاح کے معنی تیز آواز، چیخ کے ہیں۔ لغت میں تفسیر بالاعم کی جاتی ہے۔ دونوں کو ملا کر ہم ترجمہ کریں تو اردو میں گونج کا ترجمہ بنتا ہے۔
تاج العروس میں لجۃ کے معنی میں بھی ضجۃ کا لفظ لکھا گیا لیکن یہ بھی تفسیر بالاعم ہے۔ کیوں کہ اس کا عمومی ترجمہ اصوات اور اختلاط اصوات سے ہی کیا گیا ہے۔ جیسے اوپر واضح کیا گیا ہے۔
مقاییس اللغہ میں ہے:۔
واللجة: الجلبة.
اور جلب کا معنی تاج العروس میں ہے:۔
(و) الجلب: الأصوات، وقيل (اختلاط الصوت كالجلبة)
معجم الوسیط میں ہے:۔
(اللجة) اخْتِلَاط الْأَصْوَات وَيُقَال سَمِعت لجة النَّاس أَصْوَاتهم وصخبهم والجلبة
تو ان سب لغات سے معلوم ہوتا ہے کہ لجۃ کا معنی گونج اٹھنا کرنا ،مکمل معنی نہیں۔ اور نہ ہی لجۃ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ سب مل کر آاااامی ی ی ی ن کہتے ہوں گے۔ بلکہ اس سے سب میں ایک اٹھتی ہوئی آواز ثابت ہوتی ہے جو سب کے ہلکی یا نارمل آواز سے آمین کہنے سے پیدا ہوجاتی ہے۔ اس کے لیے اتنے زور سے کہنا ضروری نہیں۔
کیا رنگین الفاظ اس بات کی دلیل نہیں ہیں کہ صحابہ کرام کی آمین ظاہری ہوتی تھی؟
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
پھر اگر ہم اس روایت سے جہر کا ثبوت مان بھی لیں تو اس کے مقابلے میں قوی دلائل ایسے ہیں جو خفا پر دلالت کرتے ہیں۔ جیسے آیت مبارکہ "ادعوا ربکم تضرعا و خفیۃ" جب کہ اسی روایت میں عطا کا یہ قول ہے کہ آمین تو دعا ہے۔ تو اگر احناف ایک جانب کے دلائل کو راجح جان کر ان کے مطابق عمل کرتے ہیں تو اس میں اعتراض کی کیا بات ہے؟؟
آپ کے اس استدلال پر مجھے بہت زیادہ ہنسی آرہی ہے ،اگر تھوڑا سا غور کر لیتے توایسے بہت سارے مقامات آپ کے سامنے آجاتے جن میں تم اس آیت کی مخالفت کرتے ہو،کیا حنفی کبھی بلند آوازسے دعا نہیں کرتے؟کتنا بھونڈا استدلال ہے
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
عن الثوري، عن منصور، عن إبراهيم قال: " خمس يخفين: سبحانك اللهم وبحمدك، والتعوذ، وبسم الله الرحمن الرحيم، وآمين، واللهم ربنا لك الحمد "
مصنف عبد الرزاق 2۔87 مجلس العلمی
"ابراہیم کہتے ہیں: پانچ چیزیں امام پوشیدہ ادا کرے گا: سبحانک اللہم، تعوذ، تسمیہ، آمین اور اللہم ربنا لک الحمد۔"
ہم نے آمین بالجہر پر صرف ایک حدیث طلب کی تھی لیکن اب تک کوئی جواب نہ آیا ایک تابعی کا قول سامنے آیا ہے جس کا کئی سر پیر نہیں ہے
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: عن ابی ہریرۃ قال ترک الناس التامین کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا قال غیر المغضوب علیہم ولا الضالین قال آمین حتی یسمعہا اہل الصف الاول فیرتج بہا المسجد۔
ترجمہ: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، لوگوں نے آمین چھوڑ دی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب غیر المغضوب علیہم ولا الضالین کہتے تو آمین کہتے۔ یہاں کہ پہلی صف سن لیتی۔ پس ( بہت آوازوں کے ملنے سے ) مسجد گونج جاتی۔ ( ابن ماجہ، ص: 62، طبع دہلی )
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
احناف بھی اونچی آواز سے آمین کو درست قرار دیتے تھے

امام ابن الہمام رحمۃ اللہ علیہ:

احناف کے جد امجد ہیں۔ حنفی مذہب کی مشہور کتاب شامی ( رد المختار ) کی جلد : 4، /ص: 388 میں لکھا ہے۔ کمال ابن الہمام بلغ رتبۃ الاجتہاد یعنی امام ابن الہمام مرتبہ اجتہاد کو پہنچ گئے وہ اپنی کتاب فتح القدیر میں لکھتے ہیں:
و لو کان الی فی ہذا شیئی لوفقت بان روایۃ الخفض یراد بہا عدم القرع العنیف و روایۃ الجہر بمعنی قولہا فی زیر الصوت و ذیلہ ( فتح القدیر، ج: 117/1 )
( ترجمہ ) اگر فیصلہ میرے سپرد ہوتا تو میں یوں موافقت کرتا کہ آہستہ کہنے کی حدیث سے یہ مراد ہے کہ چلا کر نہ کہے اور جہر کی حدیث سے درمیانی آواز ہے۔
امام ابن امیر الحاج رحمۃ اللہ علیہ:

یہ امام ابن الہمام رحمۃ اللہ علیہ کے ارشد تلامذہ میں سے ہیں۔ یہ اپنے استاد کے فیصلہ پر صاد فرماتے ہیں چنانچہ اپنی کتاب " حلیہ " میں لکھتے ہیں: و رجع مشایخنا بما لا یعری عن شیئی لمتاملہ فلا جرم ان قال شیخنا ابن الہمام و لو کان الی شیئی الخ ( تعلیق الممجد علی موطا الامام المحمد، ص: 9-10 )
( ترجمہ ) ہمارے مشائخ نے جن دلائل سے اپنے مذہب کو ترجیح دی ہے وہ تامل سے خالی نہیں اس لیے ہمارے شیخ ابن الہمام رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا اگر فیصلہ میرے سپرد ہوتا الخ۔
شاہ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ :

جن کی فارسی عبارت شرح سفر السعادت کے حوالہ سے ابھی گزری ہے۔ یہ شاہ ولی اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے بہت پہلے ہوئے ہیں۔ انہوں نے حنفی مذہب کے ترک کا ارادہ کیا لیکن علماءمکہ نے مشورہ دیا کہ جلدی نہ کرو۔ حنفی مذہب کے دلائل پر غور کرو۔ چنانچہ اس کے بعد انہوں نے " فتح سر المنان " لکھی۔ اس میں حنفی مذہب کے دلائل جمع کئے۔ مسئلہ آمین کے متعلق یہی عبارت لکھی جو امام ابن الہمام رحمۃ اللہ علیہ نے لکھی اور امام ابن الہمام رحمۃاللہ علیہ والا ہی فیصلہ کیا۔
مولانا عبدالحئی صاحب لکھنؤی رحمۃ اللہ علیہ :
حنفی مذہب کے مشہور بزرگ گزرے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں: والانصاف ان الجہر قوی من حیث الدلیل ( التعلیق الممجد علی موطاالامام محمد، ص: 105 )
( ترجمہ ) یعنی انصاف یہ ہے کہ دلیل کی رو سے آمین بالجہر قوی ہے۔
مولانا سراج احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ:

یہ بھی حنفی مذہب کے مشور بزرگ ہیں۔ شرح ترمذی میں لکھتے ہیں:
احادیث الجہر بالتامین اکثر واصح۔ ( ترجمہ ) یعنی بلند آواز سے آمین کہنے کی احادیث کثیر ہیں اور زیادہ صحیح ہیں۔
مولانا عبدالعلی بحر العلوم لکھنؤی حنفی رحمۃ اللہ علیہ بھی " ارکان الاسلام " میں یہی لکھتے ہیں کہ " آمین آہستہ کہنے کی بابت کچھ ثابت نہیں ہوا۔ "

مولانا سلام اللہ الحنفی
: انھوں نے موطا کی شرح المحلی میں یہی موقف اختیار کیا ہے۔
ومولانا محمد اسماعیل رحمۃ اللہ علیہ:

در سالہ تنویر العینین می فرمایند، کہ بجہر آمین گفتن اولیٰ است از آہستہ گفتن و عبارہ ھکذا و التحقیق ان الجھر بالتامین اولیٰ من خفضہ
موصوف نے رسالہ تنویر العینین میں لکھا ہے کہ بلند آمین کہنا اولی ہے
عبدالرشید گنگوہی :

انھوں نے فتاوی رشیدیہ میں لکھا ہے کہ احناف بلند آواز سے آمین کہنے کے قائل ہیں،تلک عشرۃ کاملۃ
لیکن پھر بھی احادیث کی تاویل کرتے چلے جانا یہ کس کا شیوہ ہے؟
 
Top