احناف بھی اونچی آواز سے آمین کو درست قرار دیتے تھے
امام ابن الہمام رحمۃ اللہ علیہ:
احناف کے جد امجد ہیں۔ حنفی مذہب کی مشہور کتاب شامی ( رد المختار ) کی جلد : 4، /ص: 388 میں لکھا ہے۔ کمال ابن الہمام بلغ رتبۃ الاجتہاد یعنی امام ابن الہمام مرتبہ اجتہاد کو پہنچ گئے وہ اپنی کتاب فتح القدیر میں لکھتے ہیں:
و لو کان الی فی ہذا شیئی لوفقت بان روایۃ الخفض یراد بہا عدم القرع العنیف و روایۃ الجہر بمعنی قولہا فی زیر الصوت و ذیلہ ( فتح القدیر، ج: 117/1 )
( ترجمہ ) اگر فیصلہ میرے سپرد ہوتا تو میں یوں موافقت کرتا کہ آہستہ کہنے کی حدیث سے یہ مراد ہے کہ چلا کر نہ کہے اور جہر کی حدیث سے درمیانی آواز ہے۔
امام ابن امیر الحاج رحمۃ اللہ علیہ:
یہ امام ابن الہمام رحمۃ اللہ علیہ کے ارشد تلامذہ میں سے ہیں۔ یہ اپنے استاد کے فیصلہ پر صاد فرماتے ہیں چنانچہ اپنی کتاب " حلیہ " میں لکھتے ہیں: و رجع مشایخنا بما لا یعری عن شیئی لمتاملہ فلا جرم ان قال شیخنا ابن الہمام و لو کان الی شیئی الخ ( تعلیق الممجد علی موطا الامام المحمد، ص: 9-10 )
( ترجمہ ) ہمارے مشائخ نے جن دلائل سے اپنے مذہب کو ترجیح دی ہے وہ تامل سے خالی نہیں اس لیے ہمارے شیخ ابن الہمام رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا اگر فیصلہ میرے سپرد ہوتا الخ۔
شاہ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ :
جن کی فارسی عبارت شرح سفر السعادت کے حوالہ سے ابھی گزری ہے۔ یہ شاہ ولی اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے بہت پہلے ہوئے ہیں۔ انہوں نے حنفی مذہب کے ترک کا ارادہ کیا لیکن علماءمکہ نے مشورہ دیا کہ جلدی نہ کرو۔ حنفی مذہب کے دلائل پر غور کرو۔ چنانچہ اس کے بعد انہوں نے " فتح سر المنان " لکھی۔ اس میں حنفی مذہب کے دلائل جمع کئے۔ مسئلہ آمین کے متعلق یہی عبارت لکھی جو امام ابن الہمام رحمۃ اللہ علیہ نے لکھی اور امام ابن الہمام رحمۃاللہ علیہ والا ہی فیصلہ کیا۔
مولانا عبدالحئی صاحب لکھنؤی رحمۃ اللہ علیہ :
حنفی مذہب کے مشہور بزرگ گزرے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں: والانصاف ان الجہر قوی من حیث الدلیل ( التعلیق الممجد علی موطاالامام محمد، ص: 105 )
( ترجمہ ) یعنی انصاف یہ ہے کہ دلیل کی رو سے آمین بالجہر قوی ہے۔
مولانا سراج احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ:
یہ بھی حنفی مذہب کے مشور بزرگ ہیں۔ شرح ترمذی میں لکھتے ہیں:
احادیث الجہر بالتامین اکثر واصح۔ ( ترجمہ ) یعنی بلند آواز سے آمین کہنے کی احادیث کثیر ہیں اور زیادہ صحیح ہیں۔
مولانا عبدالعلی بحر العلوم لکھنؤی حنفی رحمۃ اللہ علیہ بھی " ارکان الاسلام " میں یہی لکھتے ہیں کہ " آمین آہستہ کہنے کی بابت کچھ ثابت نہیں ہوا۔ "
مولانا سلام اللہ الحنفی
: انھوں نے موطا کی شرح المحلی میں یہی موقف اختیار کیا ہے۔
ومولانا محمد اسماعیل رحمۃ اللہ علیہ:
در سالہ تنویر العینین می فرمایند، کہ بجہر آمین گفتن اولیٰ است از آہستہ گفتن و عبارہ ھکذا و التحقیق ان الجھر بالتامین اولیٰ من خفضہ
موصوف نے رسالہ تنویر العینین میں لکھا ہے کہ بلند آمین کہنا اولی ہے
عبدالرشید گنگوہی :
انھوں نے فتاوی رشیدیہ میں لکھا ہے کہ احناف بلند آواز سے آمین کہنے کے قائل ہیں،
تلک عشرۃ کاملۃ
لیکن پھر بھی احادیث کی تاویل کرتے چلے جانا یہ کس کا شیوہ ہے؟