اصول اور قواعد وشرائط امام ابوحنیفہؒ
السلام علیکممفتی صاحب !
ہمیں چھوڑ کر کہاں جاتے ہیں ؟؟
ہم نے تو دلیل ہی مانگی تھی بس !
خیر آپ چلے ہیں تو ہم بھی آپکے پیچھے ہی چلتے ہیں
وعلیکم السلام!
بحمد اللہ ایک مقلد کے پیچھے چلے ہیں لیکن اسکی تقلید میں نہیں تعاقب میں ! لہذا خوش فہمی میں مبتلا نہ رہیے گا !!!السلام علیکم
چلئے آج آپ ایک مقلد کے پیچھے چلے تو صحیح(ابتسام)
(۱)دراصل میں اس کنفیوزم میں ہوں کہ آپ کس چیز کی دلیل مانگ رہے ہیں ،ان اصولوں کی جو امام صاحب کی طرف منسوب ہیں کہ واقعی یہ امام صاحب کے بیان کردہ ہیں یا کسی اور کے ،یا من گھڑنت؟
(۲) یا ان اصولوں سے متعلق کوئی دلیل؟
(۳) اور سند صحیح سے کیا مراد ہے ؟ میں اسی لفظ سے کنفیوز ہو رہا ہوں
اب چونکہ موٹی عقل ہے بات سمجھ میں نہیں آرہی تھی اس لئے میں نے سلام کہنے میں ہی عافیت سمجھی۔ دیگر عرض کردوں کہ مجھےسر کی تکلیف ہے اس لئے میں دماغ پر زیادہ زور نہیں ڈالتا(میرے سر میں ٹیومر ہے) آپ سب حضرات اہل اللہ ہیں دعاء فرمائیں کافی آرام ہے۔ویسے کوئی تکلیف نہیں اللہ کا کرم ہے مطالعہ کے وقت آنکھوں پر زور پڑتاہے ۔(ورنہ ہم بھی آدمی تھےکام کے)بس ساری وجہ یہ تھی فرار کرنا میرے خون میں شامل نہیں اسی طرح شخصیت پرستی بھی نہیں کرتا اور یہ دونوں چیزیں مجھے اپنے والد محترم سے وراثت میں ملی ہیں ۔بہر حال میرا جو مطالبہ ہے اس پر غور فرمائیں گے ۔ فقظ والسلام
السلام علیکمبحمد اللہ ایک مقلد کے پیچھے چلے ہیں لیکن اسکی تقلید میں نہیں تعاقب میں ! لہذا خوش فہمی میں مبتلا نہ رہیے گا !!!
۱۔ جی جناب اسی بات کی دلیل ہی مانگ رہا ہوں ۔ کہ باسند صحیح یہ اصول امام صاحب سے ثابت کیے جائیں ۔
۲۔ ان اصولوں کی کیا دلیل ہے یعنی امام صاحب نے کتاب وسنت کی کس نص سے استدلال کرکے یہ اصول بنائے ہیں اس بات کی باری بعد میں آئے گی ‘ پہلے ان اصولوں کا امام صاحب کی طرف صحیح النسبت ہونا ثابت کیا جائے۔
۳۔ جی ہم اس میدان میں آپکو معذور سمجھتے ہیں ‘ کیونکہ آل تقلید "صحیح سند" سے نا آشنا ہوتے ہیں اور مثل مشہور ہے کہ " الناس اعداء لما جہلوا"
اللہ سے دعاء کرتے ہیں کہ وہ آپکو صحت وعافیت عطاء فرمائے ‘ ویسے دماغی خرابی کے بعد آل تقلید بڑے بڑے کام کرتے ہیں مثلا اشرفِعلی تھانوی کو ہی دیکھ لیجئے کہ انہوں نے خرابی دماغ کے بعد کیا کیا کام کیے ہیں ۔
السلام علیکمبحمد اللہ ایک مقلد کے پیچھے چلے ہیں لیکن اسکی تقلید میں نہیں تعاقب میں ! لہذا خوش فہمی میں مبتلا نہ رہیے گا !!!
۱۔ جی جناب اسی بات کی دلیل ہی مانگ رہا ہوں ۔ کہ باسند صحیح یہ اصول امام صاحب سے ثابت کیے جائیں ۔
۲۔ ان اصولوں کی کیا دلیل ہے یعنی امام صاحب نے کتاب وسنت کی کس نص سے استدلال کرکے یہ اصول بنائے ہیں اس بات کی باری بعد میں آئے گی ‘ پہلے ان اصولوں کا امام صاحب کی طرف صحیح النسبت ہونا ثابت کیا جائے۔
۳۔ جی ہم اس میدان میں آپکو معذور سمجھتے ہیں ‘ کیونکہ آل تقلید "صحیح سند" سے نا آشنا ہوتے ہیں اور مثل مشہور ہے کہ " الناس اعداء لما جہلوا"
اللہ سے دعاء کرتے ہیں کہ وہ آپکو صحت وعافیت عطاء فرمائے ‘ ویسے دماغی خرابی کے بعد آل تقلید بڑے بڑے کام کرتے ہیں مثلا اشرفِعلی تھانوی کو ہی دیکھ لیجئے کہ انہوں نے خرابی دماغ کے بعد کیا کیا کام کیے ہیں ۔
یہ اصول اور قواعد وشرائط اگرچہ آپ نے باقاعدہ نہیں لکھے؛ لیکن آپ کے شاگردوں نے آپ کے بیان کردہ مسائل سے انھیں مستنبط کیا ہے، جس قدر قواعد تلاش وجستجو سے معلوم ہوسکے، انھیں ذیل میں نہایت اختصار کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے
(۱)امام صاحب قبولیت حدیث کے لیے ضبط کتاب کے بجائے ضبط صدر کے قائل تھے اور صرف اسی راوی سے حدیث لیتے تھے جو اس روایت کوزبانی اپنے حافظہ سے بیان کرتا ہو
آپؒ صحابہؓ اور فقہاء تابعین کے علاوہ اور کسی کی روایت بالمعنی کوقبول نہیں کرتے تھے، جب کہ آپ کے دور میں روایت بالمعنی کا رواج ہوچکا تھا
(۲)آپ اس بات کو ضروری قرار دیتے تھے کہ صحابہ کرامؓ سے روایت کرنے والے ایک یادونہ ہوں بلکہ اتقیاء کی ایک جماعت نے صحابہؓ سے اس حدیث کوروایت کیا ہو، جوحدیث اس معیار پر نہ اترتی آپ اسے قبول نہیں کرتے تھے
(۳)عمولاتِ زندگی سے متعلق عام احکام میں آپ یہ ضروری قرار دیتے تھے کہ ان احکام کوایک سے زیادہ صحابہؓ نے بیان کیا ہو
(۴) جوحدیث عقل قطعی کے مخالف ہو (یعنی اس سے اسلام کے کسی مسلمہ اصول کی مخالفت لازم آتی ہو) اسے آپ قبول نہیں کرتے تھے
(۵)خبرِواحد سے قرآن کریم پر زیادتی یااس کے عموم کوخاص کرنا آپ جائز نہیں سمجھتے تھے، ایسی روایت کی بہرصورت تاویل یااس کا صحیح درجہ متعین کرنے کے بعد ہی عمل کرتے تھے
(۶) جوخبرِواحد قرآن کے نص صریح کے مخالف ہوتی وہ بھی آپ قبول نہیں کرتے تھے
(۷) جوخبرِواحد سنت مشہورہ کے خلاف ہوتی وہ بھی آپ قبول نہیں کرتے تھے
(۸) اگرراوی کا عمل اس کی روایت کے خلاف ہوتا تووہ روایت بھی آپ کے یہاں قابل قبول نہ ہوتی تھی
(۹) جب ایک مسئلہ میں مبیح اور محرم دوروایتیں ہوتیں توآپ محرم کے مقابلہ میں مبیح کوقبول نہیں کرتے تھے
(۱۰)ایک ہی واقعہ کے بارے میں اگر ایک راوی کسی امرزائد کی نفی کرے اور دوسرا اثبات کرے تواگرنفی کسی دلیل پر مبنی نہ ہوتی تونفی کی روایت قبول نہیں کرتے
(۱۱) اگرایک حدیث میں کوئی حکم عام ہو اور دوسری حدیث میں چند خاص چیزوں پر اس کے برخلاف حکم ہو تو آپ حکمِ عام کے مقابلہ میں خاص کوقبول نہیں کرتے
(۱۲) خبرِواحد سےحضورصلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی قول یافعل ثابت ہو اور صحابہؓ کی ایک معتدبہ جماعت نے اس سے اختلاف کیا ہو توآثارِ صحابہؓ پر عمل کیا جائے گا؛
(۱۳) حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے صریح قول یافعل کے خلاف اگرکسی ایک صحابی کاقول یافعل ہوتو وہ مقبول نہیں، صحابی کے خلاف کواس پر محمول کیا جائے گا کہاانہیں یہ حدیث نہیں پہونچی
(۱۴) ایک واقعہ کے مشاہدہ کے بارے میں متعارض روایات ہوں تواس کی روایت کوقبول کیا جائے گا جوان میں زیادہ قریب سے مشاہدہ کرنے والا ہو
(۱۵) اگردومتعارض حدیثیں ایسی سندوں کے ساتھ مروی ہوں کہ ایک میں قلت وسائط ہوں اور دوسری میں کثرت تفقہ؛ توکثرت تفقہ کوقلت وسائط پر ترجیح دی جائے گی
(۱۶) کوئی حدیث حد یاکفارہ کے بیان میں وارد ہوئی ہو اور وہ صرف ایک صحابی سے مروی ہو توقبول نہیں ہوگی؛
(۱۷) جس حدیث پر اسلاف نے طعن کیا ہو وہ بھی مقبول نہیں ہے
ان شرائط پر اگرسرسری نظر بھی ڈالی جائے تویہ واضح ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے امام اعظم ابوحنیفہ علیہ الرحمہ کوحدیث پاک میں غیرمعمولی درک عطا فرمایا تھا؛ بلکہ آپ ان حضرات کے زمرے میں داخل ہیں جوحدیث کے جرح وتعدیل کے سرخیل اور اس میں بلند مقام رکھتے ہیں، خود آپ کے اقوال سے فن جرح وتعدیل کے امام بھی استدلال کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، حافظ ابن حجر اور علامہ ذہبی کی اسماء الرجال پر لکھی ہوئی کتابیں اس پر شاہدہیں۔
(۱)مستدلات الامام ابی حنیفہؒ(۲)تذکرۃ النعمان(۳)امام اعظم امام المحدثین(۴)الکفایہ فی علوم الروایہ (۵)الاحکام فی اصول الاحکام(۶)امام اعظم اور علم حدیث (۷)حسامی (۸)تذکرۃ المحدثین(۹)حیات امام اعظم ابوحنیفہؒ(۱۰)تانیب الخطیب(۱۱)فتح الملہم۔وغیرہ
خیرمعلوم رہے مقلد وہ ہے جو اپنے اکا بر مجتہدین پر اعتماد کلی رکھے اور ان کو ثقہ اور عادل جا نے،اس لئے جنہوں نے ان اصولوں کی نسبت امام صاحب کی طرف کی ہے ہم ان کے علم اور ان کے ثقہ ہونے پر اعتماد کلی رکھتے ہیں ۔ اب سند صحیح کا کیا معیار ہے وہ ہمیں معلوم نہیں ۔آپ بیان فرمادیں گے تو ضرور کوشش کی جائے گی۔ ان شاءاللہ
ابھی تو مفتی صاحب ابو حنیفہ صاحب کو جعلی مدون اول قرار دے رہے تھے ۔ اور اب اصلی وجعلی کی بحث تو کیا "مدون" کے دعوے سے ہی ہاتھ چھوڑ گئے ؟!!!السلام علیکم
لیجئے حضرت میری دماغ کی خرابی ملاحظہ فرمائیں۔ مگر برائے کرم اس سے آگے میرا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اصول اور قواعد وشرائط امام ابوحنیفہؒ
یہ اصول اور قواعد وشرائط اگرچہ آپ نے باقاعدہ نہیں لکھے؛ لیکن آپ کے شاگردوں نے آپ کے بیان کردہ مسائل سے انھیں مستنبط کیا ہے، جس قدر قواعد تلاش وجستجو سے معلوم ہوسکے، انھیں ذیل میں نہایت اختصار کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے
جی معاف کرنا لکھنا ہی تدوین میں شمار نہیں ہوتا املاء کرانا بھی لکھنے میں ہی شمار ہوتا ہے قران پاک اور احادیث کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ابھی تو مفتی صاحب ابو حنیفہ صاحب کو جعلی مدون اول قرار دے رہے تھے ۔ اور اب اصلی وجعلی کی بحث تو کیا "مدون" کے دعوے سے ہی ہاتھ چھوڑ گئے ؟!!!
مدون اسے کہا جاتا ہے جو باقاعدہ طور پر کسی چیز کو لکھے ترتیب دے ۔
وگرنہ تو فقہ و حدیث کے تمام تر صحیح اصول کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم میں ہی موجود ہیں !!!
فتدبر !
اللہ رب العالمین سے ہم آپ کی صحیابی کے لئے دُعا گوہیں۔۔۔السلام علیکم
مجھےسر کی تکلیف ہے اس لئے میں دماغ پر زیادہ زور نہیں ڈالتا(میرے سر میں ٹیومر ہے) آپ سب حضرات اہل اللہ ہیں دعاء فرمائیں کافی آرام ہے۔ویسے ۔ فقظ والسلام
بالکل درست کہ املاء کروانا بھی لکھنے میں ہی شمار ہوتا ہے ۔ لیکن آنجناب نے لکھا ہے :جی معاف کرنا لکھنا ہی تدوین میں شمار نہیں ہوتا املاء کرانا بھی لکھنے میں ہی شمار ہوتا ہے قران پاک اور احادیث کی مثال ہمارے سامنے ہے۔
اور اس طرح کی بے شمار روایات ہیں کی استاذ بیان کرتے تھے اور تلامیذ اس کو ضبط فرماتے تھے اور اسی کی نسبت استاذکی طرف کی جاتی تھی۔
وہ اصول ہمیں بھی بتادیں جو آپ نے قرآن و احادیث سے لئے ہوں بڑی عنایت ہوگی
یعنی ان اصولوں کو ابو حنیفہ صاحب نے املاء بھی نہیں کروایا بلکہ یہ اصول انکی کلام سے انکے شاگردوں نے استنباط کیے ہیں !آپ کے شاگردوں نے آپ کے بیان کردہ مسائل سے انھیں مستنبط کیا ہے
پہلے غلطی سے لکھ دیا ہے اور آنجناب کے ہاں حقیقت حال یہ ہے کہ یہ اصول ابو حنیفہ صاحب نے املاء کروائے ہیں یا اپنی زبان سے ادا فرمائے ہیں تو اسکی دلیل پیش کر دیں ۔ بارک اللہ فیکم وجزاکم خیرا۔آپ کے شاگردوں نے آپ کے بیان کردہ مسائل سے انھیں مستنبط کیا ہے