سماک بن حرب کوبعض محدثین ضعیف کہ رہے ہیں اور بعض ثفہ ۔ جو محدثین ضعیف کہ رہے ہیں ان کو چھوڑ کر ثقہ بیان کرنے والے محدثین کے قول کو کیوں قبول کرنا چاھئیے اس کا ٹھوس جواب نہیں آیا ۔۔ سماک بن حرب:صدوق وروایتہ عن عکرمۃ خاصۃ مضطربۃ وقد تغیر باخرۃ فکان ربما تلقن۔ (تقریب التہذیب: ۲۶۲)
سماک کی یہ روایت عکرمہ سے نہیں ہے، لہٰذا اضطراب کا خدشہ نہیں، سفیان الثوری نے سماک سے حدیث کا سماع قدیماً (اختلاط سے پہلے) کیا ہے لہٰذا ان کی سماک سے حدیث مستقیم ہے۔
(دیکھئے بذل المجہود ج ۴ ص۴۸۳، تصنیف خلیل احمد سہارنپوری دیوبندی)
اور مزید تفصیل سے سنیئے۔۔۔
امام عجلی رح فرماتے ہیں کہ وہ عکرمہ رح کے ماسوا جائز الحدیث ہیں۔ امام علی بن مدینی ر فرماتے ہیں کہ ان کی مرویات ذہی مضطرب ہیں جو وہ عکرمہ سے بیان کرتے ہیں ۔امام یعقوب کہتے ہیں کہ ان کی وہ روایات جو وہ عکرمہ سے بیان کرتے ہیں ان میں اضطراب ہے اور دیگر اساتذہ سے ان کی روایات درست ہیں۔ امام نسائی فرماتے ہیں ان کی روایات قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ امام البراز فرماتے ہیں وہ نامور آدمی تھے میری معلومات کے مطابق انہیں کسی نے غیر معتبر سمجھ کر نہیں چھوڑا۔ تہذیب التہذیب:ج٤ص٢٠٥
پچھلی پوسٹ میں آپ نے ان کی تردید کچھ کمزور دلائل سے کی لیکن میں نے جب ان دلائل پر اعتراضات کیے آپ کے طرف کو جواب نہیں آیا ۔ اگر تحقیق میں ہیں تو بھی کم از کو بتا دیتے ۔
آپ کے وہ دلائل یہ ہیں
میرے اعتراضات ان دلائل پر یہ تھے۔شعبہ: اس روایت کو یحی بن معین نے روایت کیا ہے اور یحی بن معین ١٥٧ ھ میں پیدا ھوے اور
شعبہ بن الحجاج ١٦٠ ھ میں فوت ھوے، یعنی یہ روایت منقطع ہونے کی وجہ سے مردود ہے،
(تاریخ بغداد ٢١٥ ،٩،ت ٤٧٩٢)
٢۔سفیان الثوری :
امام العجلی (مولود ١٨٢ ھ متوفی ٢٦١ھ) نے کہا:
جائز الحدیث۔۔۔۔۔و کان فصیحا الا انہ کان فی حدیث عکرمت ربما و صل عن ابن عباس۔۔۔۔وکان
سفیان الثوری یضعفھ بعض الضعف،،، تاریخ ا الثقات:٦٢١ و تاریخ بغداد ٩ /٢١٦
سفیان الثوری ١٦١ھ میں فوت ھوے لہٰذا یہ سند بھی منقطع ہے
آپ نے تاریخ بغداد کے حوالہ سے یحیی بن معین اور شعبہ کی تاریخ پیدائش اور تاریخ وفات سے ثابت کرنا چاہا کہ یہ روایت منقطع ہونے کی وجہ سے مردود ہے ۔ لیکن یہ نہیں بتایا کہ شعبہ اور یحیی بن معین کی تاریخ پیدائش اور موت الخطیب البغدادی تک کس سند سے پہنچی ۔ اور اس روایت میں کوئی راوی مجہول تو نہیں ۔(آپ مجہول راوی کی بنیاد پر ایک روایت رد کوچکے ہیں )
اسی طرح امام العجلی اور سفیان کی تاریخ پیدائش اور موت الخطیب البغدادی تک کس سند سے پہنچی۔
خطیب بغدادی اور ان ائمہ کے بہت بعد 392 ہجری میں پیدا ہوئے ۔
اسی طرح تاریخ الثقات کے مؤلف الحاقظ بن الشاہین 297 ہجری میں پیدا ہوئے ۔
امام ابن مبارک کے قول کی تھذیب التھذیب کے الحافظ ابن حجر العسقلاني تک سند بتائیںامام ابن مبارک فرماتے ہیں ہمیں ان کی فقط ان احادیث کے بارے میں تردد ہے جو ان سے ان کے تلامذہ نے ان کی آخری عمر میں سنی ہیں۔۔ تہذیب التہذیب:ج٤ص٢٠٥
اور آپ کو پہلےبھی بتا چکا ہوں کہ کتب ستہ کے راوی ہیں میں نے صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں کچھ احادیث کے حوالے دے چکا ہوں شاید آپ کو یاد نہ ہو،،
صحیح مسلم میں ان کی کم و بیش ٤٥ پینتالیس روایا ت ہیں ،،
ان روایات کو کس میں شمار کریں گے آپ ؟
اور کچھ محدثین کا حوالہ دیتا جنہوں نے سماک بن حرب کے بارے میں تعدیل کی ہے،
١۔ مسلم : احتج بہ فی صحیحہ (میزان الا عتدال ٢/٢٣٣)
٢-البخاری: امام بخاری نے اپنی صحیح میں حدیث ذکر کی ہے۔ (ح ٦٧٢٢)
اور حافظ زہبی نے اجتناب بخاری کا ذکر کرتے ہوے لکھا ہے: وقد علق لہ البخاری اسشھادابہ
امام بخاری جس رادی سے بطور استشہار روایت کریں وہ امام بخاری کے نزدیک ثقہ ہوتا ہے۔ (سیرا علام النبلا ء ٥/٢٤٨)
٣۔سفیان الثوری: ما یسقط لسماک بن حرب حدیث
سماک بن حرب کی کوئی حدیث ساقط نہیں ہوئی۔ (تاریخ بغداد ٩/٢١٥، و سند ہ حسن لذاتہ)
٤۔شعبہ : " روی عنہ " ان کی صحیح مسلم ٢٢٤ میں روایت
٥۔یحیٰ بن معین:" ثقہ " (الجرح والتعدیل ٤/٢٧٩، و تاریخ بغداد ٩/٢١٥ و سندہ صحیح)
٦۔ابو حاتم الرازی: " صدو ق ثقہ" ( الجرح و التعدیل٤/٢٨٠)
٧:احمد بن حنبل : " سماک اصلح حدیثا من عبدالمالک بن عمیر"( الجرح والتعدیل ٤/٢٧٩،٢٨٠، و سندہ صحیح)
٨۔ ابو اسحاق اسبیعی: " خزو العلم من سماک بن حرب" ( الجرح و التعدیل٤/٢٧٥)
٩۔ترمذی: انھوں نے سماک کی بہت سی حدیثوں کو "حسن صحیح " قرار دیا ہے ۔
(مثلا دیکھئے حدیث ٢٥،٢٠٢،٢٢٧)
اور تو اور امام ترمذی نے سنن کا آغاز سماک کی حدیث سے کیا ہے۔(ح١)
اس کے علاوہ بھی بہت سے محدثین کرام ہیں ۔ طوالت کے خوف سے مذید ذکر نہیں کر رہا۔
لیکن یہان ایک جرح مفسر کے جواب میں کچھ نہیں ۔ دوبارہ عرض کرتا ہوں
وقد قال الإمام النسائي رحمه الله كما في تحفة الأشراف(5/137) (لأن سماك بن حرب كان ربما لقن فقيل له عن ابن عباس ، وابن المبارك أثبت في سفيان من الفضل بن موسى ، وسماك إذا انفرد بأصل لم يكن حجة، لأنه كان يلقن فيقبل التلقين) انتهى
سماک بن حرب کے اکیلے رویات کرنے پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا ۔ اگر مسلم میں رویایت ہیں تو وہ صحیح اس بنیاد پر ہیں ان میں سماک بن حرب روایت کرنے میں اکیلے نہیں اور یہاں سینے والی رویایت میں اکیلے ہیں
"اگر" کہ کر کوئی بات کی جائے تو یہ دوغلی پالیسی نہیں ہوتی ۔ بلکہ یہ طرز خطاب ہے۔اگر ہم ایک لمحہ کے لئیے امام بخاری کا قول کو الگ بھی کرلیں
آپ کے ان دو اقوال میں تضاد ہے ان میں سے ایک اپنائیے۔۔ دوغلی پولیسی نا اپنایئے ۔۔
آپ اس میں فیصلہ کریں گیں
ولو كان من عند غير الله لوجدوا فيه اختلافاً كثيرا (القرآن)
کیا قرآن کی اس آیت کے مطلب میں آپ یہ لیں گے کبھی تو اللہ کہ رہے ہیں قرآن اللہ کی طرف سے ہے اور کبھی کہ رہے ہیں کہ اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو معاذ اللہ یہ دوغلی پالیسی ہے۔
ذرا وہ احاديث لکھ کر بتا دیجئیے جو مؤمل کی روایت سے صحیح بخاری میں آئی ہیں ۔ یا باب کا نام بتادیں ۔تینوں محولہ کتابوں میں یہ قول بلا سند وبلاحوالہ درج ہے جبکہ اس کے برعکس امام بخاری نے مؤمل بن اسماعیل کو التاریخ الکبیر (ج۸ ص۴۹ ت۲۱۰۷) میں ذکر کیااور کوئی جرح نہیں کی۔امام بخاری کی کتاب الضعفاء میں مؤمل کا کوئی ذکر موجود نہیں ہے۔ اور صحیح بخاری میں مؤمل کی روایتیں موجود ہیں۔
(دیکھئے ح۲۷۰۰، ۷۰۸۳ فتح الباری)
حافظ مزی فرماتے ہیں:"استشھد بہ البخاری"[/ ARB]
اس سے بخاری نے بطور استشہاد روایت لی ہے۔ (تہذیب الکمال ۵۲۷/۱۸)
محمد بن طاہر المقدسی (متوفی ۵۰۷ھ) نے ایک راوی کے بارے میں لکھا ہے:
[بل استشھد بہ فی مواضع لبیین انہ ثقۃ"
بلکہ انھوں (بخاری) نے کئی جگہ اس سے بطور استشہاد روایت لی ہے تاکہ یہ واضح ہو کہ وہ ثقہ ہے۔ (شروط الائمۃ الستہ ص۱۸)
معلوم ہوا کہ مؤمل مذکور امام بخاری کے نزدیک ثقہ ہے ، منکر الحدیث نہیں ہے۔
اس کے متعلق تب لکھوں گا ۔ جب آپ مؤمل بن اسماعیل کی بخاری والی احادیث بتائیں گے۔
کیا ربما اخطا کہنا شکوک و شبہات پیدا نہیں کرتا ؟ پھر بھی وہ ثقہ ہیں حیرت ہےابن حبان: "ذکرہ فی کتاب الثقات (۱۸۷/۹) وقال : "ربما اخطا"
یہ رائے آپ نے اس لئیے قائم کی کہ شاید آپ سمجھ رہے ہیں کہ ابن حبان کا کہنا کا ربما اخطاء قدیم قول ہے ۔ یہ طرف احتمال ہے ۔ ہوسکتا ہے یہ قول ان کا صحیح ابن حبان کی تالیف کے بعد کا ہو ۔ پھر ان کی جرح معتبر ہوگی۔ اپنی بات کی پکی دلیل دیں ۔ایسا راوی ابن حبان کے نزدیک ضعیف نہیں ہوتا، حافظ ابن حبان مؤمل کی حدیثیں خود صحیح ابن حبان میں لائے ہیں۔ (مثلاً دیکھئے الاحسان بترتیب صحیح ابن حبان ج۸ ص ۲۵۳ ح ۶۶۸۱)
ابن حبان نے کہا:
"اخبرنااحمد بن علی بن المثنیٰ قال: حدثنا ابوعبیدۃ بن فضیل ابن عیاض قال: حدثنا مؤمل بن اسماعیل قال: حدثنا سفیان قال: حدثنا علقمۃ بن یزید۔۔۔"الخ (الاحسان ۲۷۴/۹ ح ۷۴۱۷)
معلوم ہوا کہ مؤمل مذکور امام ابن حبان کے نزدیک صحیح الحدیث یا حسن الحدیث ہے، حسن الحدیث راوی پر "ربما اخطا" والی جرح کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔
کیا کسی غلطی کرنے والے کی حدیث کو صحیح اور اس راوی کو ثفہ سمیجھنا چاہئیے ؟ابو حاتم الرازی کا مکمل قول پڑھیے جناب ۔۔
ابو حاتم الرازی: "صدوق، شدید فی السنۃ ، کثیر الخطا، یکتب حدیثہ"
وہ سچے (اور) سنت میں سخت تھے۔ بہت غلطیاں کرتے تھے، ان کی حدیث لکھی جاتی ہے۔(کتاب الجرح والتعدیل ۳۴۷/۸)
کسی راوی کا عدم تذکرہ اس کے ثقہ ہونے کی دلیل نہیں ۔ اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان محدث نے ان کو اتنا ضعیف خیال کیا کہ ان کو لائق تذکرہ نہ سمجھاامام دار قطنی: امام دار قطنی نے کثیر الخطا کہا ہے """"
یہ قول امام دارقطنی کی توثیق سے متعارض ہے امام دارقطنی کی کتاب الضعفاء والمتروکین میں مؤمل کا تذکرہ موجود نہیں ہے جو اس کی دلیل ہے کہ امام دارقطنی نے اپنی جرح سے رجوع کرلیا ہے۔
سنن الترمذی و ابن ماجہ میں ضعیف حدیث بھی ہیں ۔ ہاں مجھے بخاری میں حدیث نہیں ملی ۔ براہ مہربانی اس کا باب کا نام ضرور بتائیں ۔اس جرح کے مقابلے میں درج ذیل محدثین سے مؤمل بن اسماعیل کی توثیق:
ابو عبداللہ مؤمل بن اسماعیل القرشی العدوی البصری نزیل مکہ کے بارے میں مفصل تحقیق درج ذیل ہے ، کتب ستہ میں مؤمل کی درج ذیل روایتیں موجود ہیں:
صحیح البخاری = (ح۲۷۰۰، اور بقول راجح ح ۷۰۸۳، تعلیقاً)
سنن الترمذی = (ح ۴۱۵، ۶۷۲، ۱۸۲۲، ۱۹۴۸، ۲۱۳۵، ۳۲۶۶، ۳۵۲۵، ۳۹۰۶، ۳۹۴۹)
سنن النسائی الصغریٰ= (ح ۴۰۹۷، ۴۵۸۹)
سنن ابن ماجہ = (ح ۲۰۱۳، ۲۹۱۹، ۳۰۱۷)
ان مذکورہ احادیث کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟
کسی راوی کا عدم تذکرہ اس کے ثقہ ہونے کی دلیل نہیں ۔ابن حجر العسقلانی: "ذکر حدیث ابن خزیمۃ (وفیہ مؤمل بن اسماعیل) فی فتح الباری ۲۲۴/۲ تحت ح ۷۴۰) ولم یتکلم فیہ"
کیا ظفر احمد کے علم میں تھا کا مؤمل امام احمد کے استاد تھے ۔ دلیل سے بتائین ۔ اگر ان کے علم میں نہیں تھا تو یہ دلیل باطل ہو جائے گی ۔ظفراحمد تھانوی دیوبندی نے لکھا ہے: "وکذا شیوخ احمد کلھم ثقات"
اور اسی طرح احمد کے تمام استاد ثقہ ہیں۔ (قواعد فی علوم الحدیث ص ۱۳۳، اعلاء السنن ج ۱۹ ص ۲۱۸)
بعض راویوں کے استثناء کے ساتھ کیوں ۔ یہ جملہ حوالے میں کیوں گسھیڑ دیا ۔ اس سے آپ کی دلیل خود کمزور ہوگئی ۔ یہ استثناء والے راوی کون ہیں ؟ اور کیا ان میں میں مؤمل شامل ہیں ۔ ٹھوس دلیل سے بتائیں ۔حافظ ہیثمی نے فرمایا: "روی عنہ احمد وشیوخہ ثقات"
اس سے احمد نے روایت کی ہے اور ان کے استاد ثقہ ہیں۔ (مجمع الزوائد ۸۰/۱)
یعنی عام طور پر بعض راویوں کے استثنا کے ساتھ امام احمد کے سارے استاد (جمہور کے نزدیک) ثقہ ہیں ۔
جمہور محدثین کے جو قول آپ نے زکر کیے ان جوابات آچکے ۔ ان پر تحقیق کے بعد یہ رائے قائم کریں۔ظفر احمد تھانوی نے کہا:
"ما ذکرہ الحافظ من الاحادیث الزائدۃ فی فتح الباری فھو صحیح عندہ او حسن عنہ کما صرح بہ فی مقدمتہ۔۔۔۔" (قواعد فی علوم الحدیث ص۸۹)
معلوم ہوا کہ تھانوی صاحب کے بقول حافظ ابن حجر کے نزدیک مؤمل مذکور صحیح الحدیث یا حسن الحدیث ہے گویا انھوں نے تقریب التہذیب کی جرح سے رجوع کرلیا ہے۔ اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ جمہور محدثین کے نزدیک مؤمل بن اسماعیل ثقہ وصدوق یا صحیح الحدیث ، حسن الحدیث ہیں لہٰذا بعض محدثین کی جرح مردود ہے۔ جارحین میں سے امام بخاری وغیرہ کی جرح ثابت ہی نہیں ہے۔ امام ترمذی وغیرہ جمہور محدثین کے نزدیک مؤمل اگر سفیان ثوری سے روایت کرے تو وہ ثقہ و صحیح الحدیث ہے
حافظ ابن حجر کا قول: "فی حدیثہ عن الثوری ضعف" (فتح الباری ۲۳۹/۹ تحت ح ۵۱۷۲) جمہور کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہے ۔
یہ فیصلہ کن نتیجہ پہلے میرے اعتراضات کے تسلی بخش جوابات کے بعد قائم کیجئیے گا ۔جب یہ ثابت ہوگیا کہ مؤمل عن سفیان: صحیح الحدیث ہے تو بعض محدثین کی جرح کو غیرسفیان پر محمول کیا جائے گا۔ آخر میں بطور خلاصہ یہ فیصلہ کن نتیجہ ہے:
مؤمل عن سفیان الثوری: صحیح الحدیث اور عن غیر سفیان الثوری: حسن الحدیث ہے۔
آپ حضرات نے خود اس فورم میں کہا ہے کہ جب سفیان عن سے روایت کرے تو رد ہے تو اب سے دلیل کیوں پکڑ رہیے ہیں
جن احناف نے مؤمل بن اسماعیل کو ضعیف کہا ان کا تذکرہ کیوں نہ کہا ۔والحمدللہ ظفر احمد دیوبندی صاحب نے مؤمل عن سفیان کی ایک سند نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ "رجالہ ثقات" اس کے راوی ثقہ ہیں۔ (اعلاء السنن ج۳ص۱۳۳تحت ح ۸۶۵)
نیز تھانوی صاحب مؤمل کی ایک دوسری روایت کے بارے میں لکھتے ہیں:
"فالسند حسن" پس سند حسن ہے۔ (اعلاء السنن ۱۱۸/۳ تحت ح ۸۵۰)
یعنی دیوبندیوں کےنزدیک بھی مؤمل ثقہ ہے۔
جب آپ ان کا تذکرہ کریں گے تو پھر انشاء اللہ جواب دیا جائے گا۔اس کے علاوہ بھی بہت سے محدثین کرام ہیں ۔ طوالت کے خوف سے مذید ذکر نہیں کر رہا۔
میں نے اس تفصیل کا جواب دے دیا ہے۔سینے پر ہاتھ رکھنے کے متعلق جتنی بھی احادیث ہیں ان میں سب سے قوی مومل بن بن اسماعیل کی روایت ہے اس کی سند ہے
مؤمَّل بن إسماعيل، عن سفيان الثوري، عن عاصم بن كليب بن شهاب، عن أبيه، عن وائل بن حجر
یہ روایت مومل بن اسماعیل کی وجہ سے منکر ہے ۔(اس کے بارے میں مختلف محثین کے قول ذکر کیے جاچکے ہیں )
آپ کو میں نے اس حدیث کی تفصیل لکھ دی ہے، والحمد للہ
امام ابن الحوزی کی سند بتادیں ۔ پھر انشاء اللہ جواب تحریر کروں گا۔ میرے پاس یہ کتاب لہیں ہے۔* بعض لوگ مسند احمد (۲۲۶/۵ ح ۲۲۳۱۳) کے الفاظ "یضع ھذہ علی صدرہ" کے بارے میں تاویلات کے دفاتر کھول بیٹھتے ہیں حالانکہ امام ابن الجوزی نے اپنی سندکے ساتھ مسند احمد والی روایت میں "یضع ھذہ علی ھذہ علی صدرہ" کے الفاظ لکھے ہیں (۲۸۴/۱) اس سے مؤولین کی تمام تاویلات ھباء منثورا ہوجاتی ہیں اور "علی صدرہ" کے الفاظ صحیح اور محفوظ ثابت ہوجاتے ہیں۔
تذکرہ نہ کا ایک مطلب یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ محدث اتنا ضعیف سمجھا کہ لائق تزکرہ نہیں سمجھا ۔[صحیح ابن خزیمہ ۲۴۳/۱ ح ۴۷۹ ، والطحاوی فی احکام القرآن۱۸۶/۱ح۳۲۹ مؤمل: نا سفیان (الثوری) عن عاصم بن کلیب عن ابیہ عن وائل بن حجر]
قبیصہ بن ہلب کے بارے میں درج ذیل تحقیق میسر ہے:
حافظ مزی نے بغیر کسی سند کے علی بن المدینی اور نسائی سے نقل کیا کہ انھوں نے کہا:
"مجہول" (تہذیب الکمال ۲۲۱/۱۵)
یہ کلام کئی وجہ سے مردود ہے:
۱۔ بلاسند ہے۔
۲۔ علی بن المدینی کی کتاب العلل اور نسائی کی کتاب الضعفاء میں یہ کلام موجود نہیں ہے۔
جو آپ نے توثیق بتائی ان کے جوابات آگے آرہے ہیں۔۳۔ جس راوی کی توثیق ثابت ہوجائے اس پر مجہول ولائعرف وغیرہ کا کلام مردود ہوتاہے۔
آپ بیان کردہ جمہور کی توثیق کا جواب بھی ساتھ ساتھ مذکور ہے۔۴۔ یہ کلام جمہور کی توثیق کے خلاف ہے۔
امام العجلی (مولود ١٨٢ ھ متوفی ٢٦١ھ) ہیں ) سند بیان کریں اگر بغیر سند کے ہے تو رد ہےقبیصہ بن ہلب کی توثیق درج ذیل ہے:
۔ امام معتدل العجلی نے کہا: "کوفی تابعی ثقۃ" (تاریخ الثقات: ۱۳۷۹)
تاریخ الثقات کے مؤلف الحاقظ بن الشاہین 297 ہجری میں پیدا ہوئے ۔
ابن حبان کا کتاب الثقات میں زکر کرنا اس واوی کی توثیق نہیں کیون کہ کئی راویں کے متعلق انہوں نے کہا کہ لا اعرفہ اور کئی راویوں کا ذکر کر کے ان کا کچھ نہ کہنا معتبر نہیں جا نا جاتا جبتک اس کی توثیق صراحت سے نہ کریں (میزان الاعتدال )۔ ابن حبان کی کتاب توثیق پر کئی محدثین نے اعتراضات بھی کۓیے ہیں ۔۲۔ ابن حبان نے کتاب الثقات میں ذکر کیا (۳۱۹/۵)
بلکہ صرف کتاب الثقات کا حوالہ کافی نہیں کئی راويوں کو جن کو انہوں نے کتاب الثقات میں لکھا کتاب في المجروحین میں بھی لکھا اس حوالہ سے تفصیل کے ساتھ بتائین ۔ ابن حابن کس طرح کے الفاظ سے ذکر کیا ۔
۔
ان محدثیں نے صرف ایک ایک حدیث کو صحیح کہا و ۔ اس میں کوئی وجہ ہوگی اگر یہ کوئی اعلی درجہ کے ثقہ ہوتے توان کی تمام احادیث کو یہ محدثین ثقہ کہتے۳۔ ترمذی نے اس کی بیان کردہ ایک حدیث کو "حسن" کہا (ح۲۵۲)
۴۔ بغوی نے اس کی ایک حدیث کو حسن کہا۔ (شرح السنۃ ۳۱/۳ ح ۵۷۰)
۵۔ نووی نے اس کی ایک حدیث کو "باسناد صحیح" کہا۔(المجموع شرح المہذب ج۳ ص ۴۹۰ سطر ۱۵)
۶۔ ابن عبدالبر نے اس کی ایک حدیث کو "حدیث صحیح " کہا۔ (الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب المطبوع مع الاصابۃ ج ۳ ص ۶۱۵)
میری تحقیق کے مطابق نماز میں ہاتھ باندھنے سے متعلق کو بھی رویات صحیح نہیں ۔ اور یہ میری تحقیق نہیں کئي علماء کی بھی ہے۔اور جناب آفتاب صاحب
آپ نے ابھی تک اس بات کا جواب نہیں دیا
آفتاب
نماز میں قیام میں کہاں ہاتھ باندھنے چاہئیے ۔ کیا کوئی صحیح حدیث پیش کرسکتے ہیں ؟
انس نضر
گویا آپ کو تسلیم ہے کہ زیر ناف ہاتھ باندھنے والی روایت ضعیف ہے۔
اور کلیم بھائی کی بات بھی آپ نے نوٹ نہیں کی ۔
کلیم حیدر
افتاب بھائی بحث کو آگے بڑھانے سے پہلے انس بھائی کے اس سوال کا جواب تو دیتے جائیں۔