• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

احناف کے نزدیک زیر ناف ہاتھ باندھنے والی روایت ضعیف ہے.

آفتاب

مبتدی
شمولیت
مئی 20، 2011
پیغامات
132
ری ایکشن اسکور
718
پوائنٹ
0
۔ سماک بن حرب:صدوق وروایتہ عن عکرمۃ خاصۃ مضطربۃ وقد تغیر باخرۃ فکان ربما تلقن۔ (تقریب التہذیب: ۲۶۲)
سماک کی یہ روایت عکرمہ سے نہیں ہے، لہٰذا اضطراب کا خدشہ نہیں، سفیان الثوری نے سماک سے حدیث کا سماع قدیماً (اختلاط سے پہلے) کیا ہے لہٰذا ان کی سماک سے حدیث مستقیم ہے۔
(دیکھئے بذل المجہود ج ۴ ص۴۸۳، تصنیف خلیل احمد سہارنپوری دیوبندی)
اور مزید تفصیل سے سنیئے۔۔۔
امام عجلی رح فرماتے ہیں کہ وہ عکرمہ رح کے ماسوا جائز الحدیث ہیں۔ امام علی بن مدینی ر فرماتے ہیں کہ ان کی مرویات ذہی مضطرب ہیں جو وہ عکرمہ سے بیان کرتے ہیں ۔امام یعقوب کہتے ہیں کہ ان کی وہ روایات جو وہ عکرمہ سے بیان کرتے ہیں ان میں اضطراب ہے اور دیگر اساتذہ سے ان کی روایات درست ہیں۔ امام نسائی فرماتے ہیں ان کی روایات قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ امام البراز فرماتے ہیں وہ نامور آدمی تھے میری معلومات کے مطابق انہیں کسی نے غیر معتبر سمجھ کر نہیں چھوڑا۔ تہذیب التہذیب:ج٤ص٢٠٥
سماک بن حرب کوبعض محدثین ضعیف کہ رہے ہیں اور بعض ثفہ ۔ جو محدثین ضعیف کہ رہے ہیں ان کو چھوڑ کر ثقہ بیان کرنے والے محدثین کے قول کو کیوں قبول کرنا چاھئیے اس کا ٹھوس جواب نہیں آیا ۔
پچھلی پوسٹ میں آپ نے ان کی تردید کچھ کمزور دلائل سے کی لیکن میں نے جب ان دلائل پر اعتراضات کیے آپ کے طرف کو جواب نہیں آیا ۔ اگر تحقیق میں ہیں تو بھی کم از کو بتا دیتے ۔

آپ کے وہ دلائل یہ ہیں

۔شعبہ: اس روایت کو یحی بن معین نے روایت کیا ہے اور یحی بن معین ١٥٧ ھ میں پیدا ھوے اور
شعبہ بن الحجاج ١٦٠ ھ میں فوت ھوے، یعنی یہ روایت منقطع ہونے کی وجہ سے مردود ہے،
(تاریخ بغداد ٢١٥ ،٩،ت ٤٧٩٢)

٢۔سفیان الثوری :
امام العجلی (مولود ١٨٢ ھ متوفی ٢٦١ھ) نے کہا:
جائز الحدیث۔۔۔۔۔و کان فصیحا الا انہ کان فی حدیث عکرمت ربما و صل عن ابن عباس۔۔۔۔وکان
سفیان الثوری یضعفھ بعض الضعف،،، تاریخ ا الثقات:٦٢١ و تاریخ بغداد ٩ /٢١٦
سفیان الثوری ١٦١ھ میں فوت ھوے لہٰذا یہ سند بھی منقطع ہے
میرے اعتراضات ان دلائل پر یہ تھے
آپ نے تاریخ بغداد کے حوالہ سے یحیی بن معین اور شعبہ کی تاریخ پیدائش اور تاریخ وفات سے ثابت کرنا چاہا کہ یہ روایت منقطع ہونے کی وجہ سے مردود ہے ۔ لیکن یہ نہیں بتایا کہ شعبہ اور یحیی بن معین کی تاریخ پیدائش اور موت الخطیب البغدادی تک کس سند سے پہنچی ۔ اور اس روایت میں کوئی راوی مجہول تو نہیں ۔(آپ مجہول راوی کی بنیاد پر ایک روایت رد کوچکے ہیں )
اسی طرح امام العجلی اور سفیان کی تاریخ پیدائش اور موت الخطیب البغدادی تک کس سند سے پہنچی۔
خطیب بغدادی اور ان ائمہ کے بہت بعد 392 ہجری میں پیدا ہوئے ۔
اسی طرح تاریخ الثقات کے مؤلف الحاقظ بن الشاہین 297 ہجری میں پیدا ہوئے ۔

امام ابن مبارک فرماتے ہیں ہمیں ان کی فقط ان احادیث کے بارے میں تردد ہے جو ان سے ان کے تلامذہ نے ان کی آخری عمر میں سنی ہیں۔۔ تہذیب التہذیب:ج٤ص٢٠٥
امام ابن مبارک کے قول کی تھذیب التھذیب کے الحافظ ابن حجر العسقلاني تک سند بتائیں

اور آپ کو پہلےبھی بتا چکا ہوں کہ کتب ستہ کے راوی ہیں میں نے صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں کچھ احادیث کے حوالے دے چکا ہوں شاید آپ کو یاد نہ ہو،،
صحیح مسلم میں ان کی کم و بیش ٤٥ پینتالیس روایا ت ہیں ،،

ان روایات کو کس میں شمار کریں گے آپ ؟

اور کچھ محدثین کا حوالہ دیتا جنہوں نے سماک بن حرب کے بارے میں تعدیل کی ہے،

١۔ مسلم : احتج بہ فی صحیحہ (میزان الا عتدال ٢/٢٣٣)
٢-البخاری: امام بخاری نے اپنی صحیح میں حدیث ذکر کی ہے۔ (ح ٦٧٢٢)
اور حافظ زہبی نے اجتناب بخاری کا ذکر کرتے ہوے لکھا ہے: وقد علق لہ البخاری اسشھادابہ
امام بخاری جس رادی سے بطور استشہار روایت کریں وہ امام بخاری کے نزدیک ثقہ ہوتا ہے۔ (سیرا علام النبلا ء ٥/٢٤٨)
٣۔سفیان الثوری: ما یسقط لسماک بن حرب حدیث
سماک بن حرب کی کوئی حدیث ساقط نہیں ہوئی۔ (تاریخ بغداد ٩/٢١٥، و سند ہ حسن لذاتہ)
٤۔شعبہ : " روی عنہ " ان کی صحیح مسلم ٢٢٤ میں روایت
٥۔یحیٰ بن معین:" ثقہ " (الجرح والتعدیل ٤/٢٧٩، و تاریخ بغداد ٩/٢١٥ و سندہ صحیح)
٦۔ابو حاتم الرازی: " صدو ق ثقہ" ( الجرح و التعدیل٤/٢٨٠)
٧:احمد بن حنبل : " سماک اصلح حدیثا من عبدالمالک بن عمیر"( الجرح والتعدیل ٤/٢٧٩،٢٨٠، و سندہ صحیح)

٨۔ ابو اسحاق اسبیعی: " خزو العلم من سماک بن حرب" ( الجرح و التعدیل٤/٢٧٥)
٩۔ترمذی: انھوں نے سماک کی بہت سی حدیثوں کو "حسن صحیح " قرار دیا ہے ۔
(مثلا دیکھئے حدیث ٢٥،٢٠٢،٢٢٧)
اور تو اور امام ترمذی نے سنن کا آغاز سماک کی حدیث سے کیا ہے۔(ح١)

اس کے علاوہ بھی بہت سے محدثین کرام ہیں ۔ طوالت کے خوف سے مذید ذکر نہیں کر رہا۔

لیکن یہان ایک جرح مفسر کے جواب میں کچھ نہیں ۔ دوبارہ عرض کرتا ہوں
وقد قال الإمام النسائي رحمه الله كما في تحفة الأشراف(5/137) (لأن سماك بن حرب كان ربما لقن فقيل له عن ابن عباس ، وابن المبارك أثبت في سفيان من الفضل بن موسى ، وسماك إذا انفرد بأصل لم يكن حجة، لأنه كان يلقن فيقبل التلقين) انتهى
سماک بن حرب کے اکیلے رویات کرنے پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا ۔ اگر مسلم میں رویایت ہیں تو وہ صحیح اس بنیاد پر ہیں ان میں سماک بن حرب روایت کرنے میں اکیلے نہیں اور یہاں سینے والی رویایت میں اکیلے ہیں

اگر ہم ایک لمحہ کے لئیے امام بخاری کا قول کو الگ بھی کرلیں
آپ کے ان دو اقوال میں تضاد ہے ان میں سے ایک اپنائیے۔۔ دوغلی پولیسی نا اپنایئے ۔۔
آپ اس میں فیصلہ کریں گیں
"اگر" کہ کر کوئی بات کی جائے تو یہ دوغلی پالیسی نہیں ہوتی ۔ بلکہ یہ طرز خطاب ہے۔
ولو كان من عند غير الله لوجدوا فيه اختلافاً كثيرا (القرآن)
کیا قرآن کی اس آیت کے مطلب میں آپ یہ لیں گے کبھی تو اللہ کہ رہے ہیں قرآن اللہ کی طرف سے ہے اور کبھی کہ رہے ہیں کہ اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو معاذ اللہ یہ دوغلی پالیسی ہے۔


تینوں محولہ کتابوں میں یہ قول بلا سند وبلاحوالہ درج ہے جبکہ اس کے برعکس امام بخاری نے مؤمل بن اسماعیل کو التاریخ الکبیر (ج۸ ص۴۹ ت۲۱۰۷) میں ذکر کیااور کوئی جرح نہیں کی۔امام بخاری کی کتاب الضعفاء میں مؤمل کا کوئی ذکر موجود نہیں ہے۔ اور صحیح بخاری میں مؤمل کی روایتیں موجود ہیں۔
(دیکھئے ح۲۷۰۰، ۷۰۸۳ فتح الباری)
ذرا وہ احاديث لکھ کر بتا دیجئیے جو مؤمل کی روایت سے صحیح بخاری میں آئی ہیں ۔ یا باب کا نام بتادیں ۔

حافظ مزی فرماتے ہیں:"استشھد بہ البخاری"[/ ARB]
اس سے بخاری نے بطور استشہاد روایت لی ہے۔ (تہذیب الکمال ۵۲۷/۱۸)
محمد بن طاہر المقدسی (متوفی ۵۰۷ھ) نے ایک راوی کے بارے میں لکھا ہے:
[بل استشھد بہ فی مواضع لبیین انہ ثقۃ"
بلکہ انھوں (بخاری) نے کئی جگہ اس سے بطور استشہاد روایت لی ہے تاکہ یہ واضح ہو کہ وہ ثقہ ہے۔ (شروط الائمۃ الستہ ص۱۸)
معلوم ہوا کہ مؤمل مذکور امام بخاری کے نزدیک ثقہ ہے ، منکر الحدیث نہیں ہے۔


اس کے متعلق تب لکھوں گا ۔ جب آپ مؤمل بن اسماعیل کی بخاری والی احادیث بتائیں گے۔


ابن حبان: "ذکرہ فی کتاب الثقات (۱۸۷/۹) وقال : "ربما اخطا"
کیا ربما اخطا کہنا شکوک و شبہات پیدا نہیں کرتا ؟ پھر بھی وہ ثقہ ہیں حیرت ہے
ایسا راوی ابن حبان کے نزدیک ضعیف نہیں ہوتا، حافظ ابن حبان مؤمل کی حدیثیں خود صحیح ابن حبان میں لائے ہیں۔ (مثلاً دیکھئے الاحسان بترتیب صحیح ابن حبان ج۸ ص ۲۵۳ ح ۶۶۸۱)
ابن حبان نے کہا:
"اخبرنااحمد بن علی بن المثنیٰ قال: حدثنا ابوعبیدۃ بن فضیل ابن عیاض قال: حدثنا مؤمل بن اسماعیل قال: حدثنا سفیان قال: حدثنا علقمۃ بن یزید۔۔۔"الخ (الاحسان ۲۷۴/۹ ح ۷۴۱۷)
معلوم ہوا کہ مؤمل مذکور امام ابن حبان کے نزدیک صحیح الحدیث یا حسن الحدیث ہے، حسن الحدیث راوی پر "ربما اخطا" والی جرح کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔
یہ رائے آپ نے اس لئیے قائم کی کہ شاید آپ سمجھ رہے ہیں کہ ابن حبان کا کہنا کا ربما اخطاء قدیم قول ہے ۔ یہ طرف احتمال ہے ۔ ہوسکتا ہے یہ قول ان کا صحیح ابن حبان کی تالیف کے بعد کا ہو ۔ پھر ان کی جرح معتبر ہوگی۔ اپنی بات کی پکی دلیل دیں ۔
ابو حاتم الرازی کا مکمل قول پڑھیے جناب ۔۔
ابو حاتم الرازی: "صدوق، شدید فی السنۃ ، کثیر الخطا، یکتب حدیثہ"

وہ سچے (اور) سنت میں سخت تھے۔ بہت غلطیاں کرتے تھے، ان کی حدیث لکھی جاتی ہے۔(کتاب الجرح والتعدیل ۳۴۷/۸)
کیا کسی غلطی کرنے والے کی حدیث کو صحیح اور اس راوی کو ثفہ سمیجھنا چاہئیے ؟

امام دار قطنی: امام دار قطنی نے کثیر الخطا کہا ہے """"
یہ قول امام دارقطنی کی توثیق سے متعارض ہے امام دارقطنی کی کتاب الضعفاء والمتروکین میں مؤمل کا تذکرہ موجود نہیں ہے جو اس کی دلیل ہے کہ امام دارقطنی نے اپنی جرح سے رجوع کرلیا ہے۔
کسی راوی کا عدم تذکرہ اس کے ثقہ ہونے کی دلیل نہیں ۔ اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان محدث نے ان کو اتنا ضعیف خیال کیا کہ ان کو لائق تذکرہ نہ سمجھا

اس جرح کے مقابلے میں درج ذیل محدثین سے مؤمل بن اسماعیل کی توثیق:
ابو عبداللہ مؤمل بن اسماعیل القرشی العدوی البصری نزیل مکہ کے بارے میں مفصل تحقیق درج ذیل ہے ، کتب ستہ میں مؤمل کی درج ذیل روایتیں موجود ہیں:
صحیح البخاری = (ح۲۷۰۰، اور بقول راجح ح ۷۰۸۳، تعلیقاً)
سنن الترمذی = (ح ۴۱۵، ۶۷۲، ۱۸۲۲، ۱۹۴۸، ۲۱۳۵، ۳۲۶۶، ۳۵۲۵، ۳۹۰۶، ۳۹۴۹)
سنن النسائی الصغریٰ= (ح ۴۰۹۷، ۴۵۸۹)
سنن ابن ماجہ = (ح ۲۰۱۳، ۲۹۱۹، ۳۰۱۷)
ان مذکورہ احادیث کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟
سنن الترمذی و ابن ماجہ میں ضعیف حدیث بھی ہیں ۔ ہاں مجھے بخاری میں حدیث نہیں ملی ۔ براہ مہربانی اس کا باب کا نام ضرور بتائیں ۔

ابن حجر العسقلانی: "ذکر حدیث ابن خزیمۃ (وفیہ مؤمل بن اسماعیل) فی فتح الباری ۲۲۴/۲ تحت ح ۷۴۰) ولم یتکلم فیہ"
کسی راوی کا عدم تذکرہ اس کے ثقہ ہونے کی دلیل نہیں ۔

ظفراحمد تھانوی دیوبندی نے لکھا ہے: "وکذا شیوخ احمد کلھم ثقات"
اور اسی طرح احمد کے تمام استاد ثقہ ہیں۔ (قواعد فی علوم الحدیث ص ۱۳۳، اعلاء السنن ج ۱۹ ص ۲۱۸)
کیا ظفر احمد کے علم میں تھا کا مؤمل امام احمد کے استاد تھے ۔ دلیل سے بتائین ۔ اگر ان کے علم میں نہیں تھا تو یہ دلیل باطل ہو جائے گی ۔

حافظ ہیثمی نے فرمایا: "روی عنہ احمد وشیوخہ ثقات"
اس سے احمد نے روایت کی ہے اور ان کے استاد ثقہ ہیں۔ (مجمع الزوائد ۸۰/۱)
یعنی عام طور پر بعض راویوں کے استثنا کے ساتھ امام احمد کے سارے استاد (جمہور کے نزدیک) ثقہ ہیں ۔
بعض راویوں کے استثناء کے ساتھ کیوں ۔ یہ جملہ حوالے میں کیوں گسھیڑ دیا ۔ اس سے آپ کی دلیل خود کمزور ہوگئی ۔ یہ استثناء والے راوی کون ہیں ؟ اور کیا ان میں میں مؤمل شامل ہیں ۔ ٹھوس دلیل سے بتائیں ۔

ظفر احمد تھانوی نے کہا:
"ما ذکرہ الحافظ من الاحادیث الزائدۃ فی فتح الباری فھو صحیح عندہ او حسن عنہ کما صرح بہ فی مقدمتہ۔۔۔۔" (قواعد فی علوم الحدیث ص۸۹)
معلوم ہوا کہ تھانوی صاحب کے بقول حافظ ابن حجر کے نزدیک مؤمل مذکور صحیح الحدیث یا حسن الحدیث ہے گویا انھوں نے تقریب التہذیب کی جرح سے رجوع کرلیا ہے۔ اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ جمہور محدثین کے نزدیک مؤمل بن اسماعیل ثقہ وصدوق یا صحیح الحدیث ، حسن الحدیث ہیں لہٰذا بعض محدثین کی جرح مردود ہے۔ جارحین میں سے امام بخاری وغیرہ کی جرح ثابت ہی نہیں ہے۔ امام ترمذی وغیرہ جمہور محدثین کے نزدیک مؤمل اگر سفیان ثوری سے روایت کرے تو وہ ثقہ و صحیح الحدیث ہے
حافظ ابن حجر کا قول: "فی حدیثہ عن الثوری ضعف" (فتح الباری ۲۳۹/۹ تحت ح ۵۱۷۲) جمہور کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہے ۔
جمہور محدثین کے جو قول آپ نے زکر کیے ان جوابات آچکے ۔ ان پر تحقیق کے بعد یہ رائے قائم کریں۔
جب یہ ثابت ہوگیا کہ مؤمل عن سفیان: صحیح الحدیث ہے تو بعض محدثین کی جرح کو غیرسفیان پر محمول کیا جائے گا۔ آخر میں بطور خلاصہ یہ فیصلہ کن نتیجہ ہے:
مؤمل عن سفیان الثوری: صحیح الحدیث اور عن غیر سفیان الثوری: حسن الحدیث ہے۔
یہ فیصلہ کن نتیجہ پہلے میرے اعتراضات کے تسلی بخش جوابات کے بعد قائم کیجئیے گا ۔
آپ حضرات نے خود اس فورم میں کہا ہے کہ جب سفیان عن سے روایت کرے تو رد ہے تو اب سے دلیل کیوں پکڑ رہیے ہیں


والحمدللہ ظفر احمد دیوبندی صاحب نے مؤمل عن سفیان کی ایک سند نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ "رجالہ ثقات" اس کے راوی ثقہ ہیں۔ (اعلاء السنن ج۳ص۱۳۳تحت ح ۸۶۵)

نیز تھانوی صاحب مؤمل کی ایک دوسری روایت کے بارے میں لکھتے ہیں:
"فالسند حسن" پس سند حسن ہے۔ (اعلاء السنن ۱۱۸/۳ تحت ح ۸۵۰)
یعنی دیوبندیوں کےنزدیک بھی مؤمل ثقہ ہے۔
جن احناف نے مؤمل بن اسماعیل کو ضعیف کہا ان کا تذکرہ کیوں نہ کہا ۔
اس کے علاوہ بھی بہت سے محدثین کرام ہیں ۔ طوالت کے خوف سے مذید ذکر نہیں کر رہا۔
جب آپ ان کا تذکرہ کریں گے تو پھر انشاء اللہ جواب دیا جائے گا۔

سینے پر ہاتھ رکھنے کے متعلق جتنی بھی احادیث ہیں ان میں سب سے قوی مومل بن بن اسماعیل کی روایت ہے اس کی سند ہے
مؤمَّل بن إسماعيل، عن سفيان الثوري، عن عاصم بن كليب بن شهاب، عن أبيه، عن وائل بن حجر
یہ روایت مومل بن اسماعیل کی وجہ سے منکر ہے ۔(اس کے بارے میں مختلف محثین کے قول ذکر کیے جاچکے ہیں )
آپ کو میں نے اس حدیث کی تفصیل لکھ دی ہے، والحمد للہ
میں نے اس تفصیل کا جواب دے دیا ہے۔

* بعض لوگ مسند احمد (۲۲۶/۵ ح ۲۲۳۱۳) کے الفاظ "یضع ھذہ علی صدرہ" کے بارے میں تاویلات کے دفاتر کھول بیٹھتے ہیں حالانکہ امام ابن الجوزی نے اپنی سندکے ساتھ مسند احمد والی روایت میں "یضع ھذہ علی ھذہ علی صدرہ" کے الفاظ لکھے ہیں (۲۸۴/۱) اس سے مؤولین کی تمام تاویلات ھباء منثورا ہوجاتی ہیں اور "علی صدرہ" کے الفاظ صحیح اور محفوظ ثابت ہوجاتے ہیں۔
امام ابن الحوزی کی سند بتادیں ۔ پھر انشاء اللہ جواب تحریر کروں گا۔ میرے پاس یہ کتاب لہیں ہے۔


[صحیح ابن خزیمہ ۲۴۳/۱ ح ۴۷۹ ، والطحاوی فی احکام القرآن۱۸۶/۱ح۳۲۹ مؤمل: نا سفیان (الثوری) عن عاصم بن کلیب عن ابیہ عن وائل بن حجر]

قبیصہ بن ہلب کے بارے میں درج ذیل تحقیق میسر ہے:

حافظ مزی نے بغیر کسی سند کے علی بن المدینی اور نسائی سے نقل کیا کہ انھوں نے کہا:
"مجہول" (تہذیب الکمال ۲۲۱/۱۵)
یہ کلام کئی وجہ سے مردود ہے:
۱۔ بلاسند ہے۔
۲۔ علی بن المدینی کی کتاب العلل اور نسائی کی کتاب الضعفاء میں یہ کلام موجود نہیں ہے۔
تذکرہ نہ کا ایک مطلب یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ محدث اتنا ضعیف سمجھا کہ لائق تزکرہ نہیں سمجھا ۔
۳۔ جس راوی کی توثیق ثابت ہوجائے اس پر مجہول ولائعرف وغیرہ کا کلام مردود ہوتاہے۔
جو آپ نے توثیق بتائی ان کے جوابات آگے آرہے ہیں۔
۴۔ یہ کلام جمہور کی توثیق کے خلاف ہے۔
آپ بیان کردہ جمہور کی توثیق کا جواب بھی ساتھ ساتھ مذکور ہے۔

قبیصہ بن ہلب کی توثیق درج ذیل ہے:
۔ امام معتدل العجلی نے کہا: "کوفی تابعی ثقۃ" (تاریخ الثقات: ۱۳۷۹)
امام العجلی (مولود ١٨٢ ھ متوفی ٢٦١ھ) ہیں ) سند بیان کریں اگر بغیر سند کے ہے تو رد ہے
تاریخ الثقات کے مؤلف الحاقظ بن الشاہین 297 ہجری میں پیدا ہوئے ۔

۲۔ ابن حبان نے کتاب الثقات میں ذکر کیا (۳۱۹/۵)
ابن حبان کا کتاب الثقات میں زکر کرنا اس واوی کی توثیق نہیں کیون کہ کئی راویں کے متعلق انہوں نے کہا کہ لا اعرفہ اور کئی راویوں کا ذکر کر کے ان کا کچھ نہ کہنا معتبر نہیں جا نا جاتا جبتک اس کی توثیق صراحت سے نہ کریں (میزان الاعتدال )۔ ابن حبان کی کتاب توثیق پر کئی محدثین نے اعتراضات بھی کۓیے ہیں ۔
بلکہ صرف کتاب الثقات کا حوالہ کافی نہیں کئی راويوں کو جن کو انہوں نے کتاب الثقات میں لکھا کتاب في المجروحین میں بھی لکھا اس حوالہ سے تفصیل کے ساتھ بتائین ۔ ابن حابن کس طرح کے الفاظ سے ذکر کیا ۔
۔
۳۔ ترمذی نے اس کی بیان کردہ ایک حدیث کو "حسن" کہا (ح۲۵۲)
۴۔ بغوی نے اس کی ایک حدیث کو حسن کہا۔ (شرح السنۃ ۳۱/۳ ح ۵۷۰)
۵۔ نووی نے اس کی ایک حدیث کو "باسناد صحیح" کہا۔(المجموع شرح المہذب ج۳ ص ۴۹۰ سطر ۱۵)
۶۔ ابن عبدالبر نے اس کی ایک حدیث کو "حدیث صحیح " کہا۔ (الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب المطبوع مع الاصابۃ ج ۳ ص ۶۱۵)
ان محدثیں نے صرف ایک ایک حدیث کو صحیح کہا و ۔ اس میں کوئی وجہ ہوگی اگر یہ کوئی اعلی درجہ کے ثقہ ہوتے توان کی تمام احادیث کو یہ محدثین ثقہ کہتے
اور جناب آفتاب صاحب
آپ نے ابھی تک اس بات کا جواب نہیں دیا
آفتاب
نماز میں قیام میں کہاں ہاتھ باندھنے چاہئیے ۔ کیا کوئی صحیح حدیث پیش کرسکتے ہیں ؟
انس نضر
گویا آپ کو تسلیم ہے کہ زیر ناف ہاتھ باندھنے والی روایت ضعیف ہے۔
اور کلیم بھائی کی بات بھی آپ نے نوٹ نہیں کی ۔
کلیم حیدر
افتاب بھائی بحث کو آگے بڑھانے سے پہلے انس بھائی کے اس سوال کا جواب تو دیتے جائیں۔
میری تحقیق کے مطابق نماز میں ہاتھ باندھنے سے متعلق کو بھی رویات صحیح نہیں ۔ اور یہ میری تحقیق نہیں کئي علماء کی بھی ہے۔
 

آفتاب

مبتدی
شمولیت
مئی 20، 2011
پیغامات
132
ری ایکشن اسکور
718
پوائنٹ
0
حنفی کہلانے والے دیوبندیوں کی تسلیم شدہ اور مستند لغت ’’القاموس الوحید‘‘ میں لکھا ہے:
بھائی میں میں نے فقہی اصطلاح میں معنی پوچھا تھا ۔ کسی محدث کا قول ہو۔ صلاہ کا لغوی معنی دعا کے ہیں ۔ اگر کوئی شخص دعا مانگ کر کہے میں نے صلاہ ادا کرلی اور اپنے دلیل میں کسی لغت کا حوالہ دے تو کیا یہ مقبول ہے ؟؟؟
اس طرح احادیث کے متعلق بھی جو اصطلاحات ہیں کیا ان میں بھی لغت کا اعتبار ہو گا ۔ پھر تو احادیث کا مطلب کچھ کا کچھ نکل جائے گا ۔ اہل فن کی کسی کتاب کا حوالہ دیں ۔
اور آپ کی نقل کردہ حدیث میں تو لفظ امتی کا ذکر بھی نہیں اور آپ نے اپنی پوسٹ میں لفظ امتی کا ذکر بھی کیا تھا ۔ کسی بھی موضوع میں جو اصطلاحات ہوتی ہیں ان مطلب وہی لیا جاتا ہے جو اس فیلڈ کے اہل فن بیان کریں
 

آفتاب

مبتدی
شمولیت
مئی 20، 2011
پیغامات
132
ری ایکشن اسکور
718
پوائنٹ
0
میرے کہنے کا مطلب تھا نماز میں ہاتھ باندھنے چاہئیے اور سیدھے ہاتھ کو بائیں پر رکھنا چاھئیے ۔ لیکن اس کا مقام کیا ہو گا ۔ سینہ پر یا ناف کے نیچے ۔ یہ مقام کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ۔
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
«كَانَ النَّاسُ يُؤْمَرُونَ أَنْ يَضَعَ الرَّجُلُ اليَدَ اليُمْنَى عَلَى ذِرَاعِهِ اليُسْرَى فِي الصَّلاَةِ»
افتاب بھائی آپ نے کہا
میرے کہنے کا مطلب تھا نماز میں ہاتھ باندھنے چاہئیے اور سیدھے ہاتھ کو بائیں پر رکھنا چاھئیے ۔ لیکن اس کا مقام کیا ہو گا ۔ سینہ پر یا ناف کے نیچے ۔ یہ مقام کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ۔
اوپر والی حدیث پر عمل کریں اور پھر بتائیں کہ ایسا کرنے سے ہاتھ کہاں باندھے جائیں گے۔سینہ پر یا ناف کے نیچے۔
اتنے واضح الفاظ سامنے ہونے کےباوجود پھر بھی آپ کہہ رہے ہیں کہ ’’لیکن اس کا مقام کیا ہوگا‘‘
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
حنفی فقہ کے بارے جو ہم نے سنا ہے کہ اس کے مسائل کی ایک بڑی تعداد کی بنیاد صحیح روایات کے بالمقابل ضعیف روایات پر ہے ، تو اس تاثر میں کافی کمی واقع ہو گی۔
ابوالحسن علوی بھائی !ذرا وہ مدت بتائیں گے کب آپ نے یہ بات سنی اوراس تاثر پر قائم رہتے ہوئے کتنا عرصہ گزرگیااوراس کی تحقیق کی نوبت کیوں نہ آسکی ۔اورمحض سنی سنائی بات پر کسی کے متعلق کوئی منفی رائے قائم کرلینا کہاں تک درست ہے؟ اورشریعت میں اس کی کہاں تک گنجائش ہے۔
کیایہ بہتر نہ ہوگاکہ آپ دوسرے سے تحقیق طلب کرنے کے بجائے جب کہ خود بھی’’پڑھے لکھے‘‘ہیں ’’لکھے پڑھے‘‘نہیں ہیں توتحقیق کریں ۔اصولی طورپر یہی بات صحیح ہے کہ اگرسنی نے سنی سنائی بات پر کسی کے خلاف منفی رائے قائم کرلی ہے تو اپنی غلطی سے مطلع ہونے کے بعد خود تحقیق کرے۔نہ کہ دوسروں کوزحمت دے کہ آپ کے بارے میں ہم نے فلاں بات سنی ہے براہ کرم ہمیں تحقیق کرے بتایئے کیابات صحیح ہے(الیس ھذا صحیح )
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
ابوالحسن علوی بھائی !ذرا وہ مدت بتائیں گے کب آپ نے یہ بات سنی اوراس تاثر پر قائم رہتے ہوئے کتنا عرصہ گزرگیااوراس کی تحقیق کی نوبت کیوں نہ آسکی ۔اورمحض سنی سنائی بات پر کسی کے متعلق کوئی منفی رائے قائم کرلینا کہاں تک درست ہے؟ اورشریعت میں اس کی کہاں تک گنجائش ہے۔
کیایہ بہتر نہ ہوگاکہ آپ دوسرے سے تحقیق طلب کرنے کے بجائے جب کہ خود بھی’’پڑھے لکھے‘‘ہیں ’’لکھے پڑھے‘‘نہیں ہیں توتحقیق کریں ۔اصولی طورپر یہی بات صحیح ہے کہ اگرسنی نے سنی سنائی بات پر کسی کے خلاف منفی رائے قائم کرلی ہے تو اپنی غلطی سے مطلع ہونے کے بعد خود تحقیق کرے۔نہ کہ دوسروں کوزحمت دے کہ آپ کے بارے میں ہم نے فلاں بات سنی ہے براہ کرم ہمیں تحقیق کرے بتایئے کیابات صحیح ہے(الیس ھذا صحیح )
جمشید بھائی جان،
یہاں کچھ اور موضوع چل رہا ہے۔نیز صرف ’سنا ہے‘ کے الفاظ سے اتنی ساری چیزیں خود ہی فرض کر لینا کچھ مناسب معلوم نہیں ہوتا۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
میری تحقیق کے مطابق نماز میں ہاتھ باندھنے سے متعلق کو بھی رویات صحیح نہیں ۔ اور یہ میری تحقیق نہیں کئي علماء کی بھی ہے۔
پھر میری تحقیق؟!!
اور اگر آپ کے نزدیک اس کے متعلّق کوئی روایت بھی صحیح نہیں تو پھر آپ لوگ ناف کے نیچے ہاتھ کیوں باندھتے ہیں؟!!
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
ابوالحسن علوی بھائی !ذرا وہ مدت بتائیں گے کب آپ نے یہ بات سنی اوراس تاثر پر قائم رہتے ہوئے کتنا عرصہ گزرگیا۔۔۔۔۔۔
میرا تعلق تحصیل پنڈی گھیب، ضلع اٹک سے ہے اور ایک دیوبندی گھرانے سے تعلق ہے۔ والد محترم اور ان کی طرف سے رشتہ دار یعنی دھدھیال سب دیوبندی ہیں اور والدہ کی طرف سے رشتہ دار یعنی ننھیال اہل تشیع ہیں۔والد محترم دیوبند کی خدمات کے بہت معترف تھے۔ ان کے ایک قریبی دوست مولانا نور زمان صاحب دیوبند، انڈیا سے فارغ التحصیل تھے اور ہمارے گھر ان کا آنا جانا بہت تھا یہاں تک کہ میرا نام بھی انہوں نے ہی والد محترم کو تجویز کیا تھا۔ والد محترم ان کے خطبات جمعہ میں مجھے بھی لے کر جاتے تھے اور ان سے کافی استفادہ کا موقع ملا۔ ان کی ایک جامع مسجد، مسجد داریاں والی تھی جہاں نے میں نے حفظ کا آغاز کیا اور تقریبا ٢٣ پارے حفظ کیے۔
دوسرا ہمارے محلے کی مسجد، مسجد مصلیاں والی میں ایک عالم دین دیوبند، انڈیا سے فارغ التحصیل تھے جن کا نام مولانا اسکندر صاحب تھا۔ راقم ان کے پاس بھی بچن میں پڑھتا رہا بلکہ ابھی تک یاد ہے کہ ان سے نماز اور اس کا ترجمہ سیکھتے تھے۔ان کے خطبات جمعہ اور نجی محافل میں کچھ استفادہ کیا۔ مولانا اسکندر صاحب مسجد میں رفع الیدین نہیں کرتے تھے کیونکہ دیوبندی مسلک کی مسجد تھی لیکن ہمیں بتلاتے تھے کہ اہل الحدیث کی یہ بات درست ہے کہ رفع الیدین سنت ہے اور میں بھی گھر میں کرتا ہوں اور یہاں اس لیے نہیں کرتا کہ فتنہ پیدا ہونے کے امکانات ہیں وغیرہ ذلک۔ بعض مسائل میں کھل کر اہل الحدیث کی حمایت کر جاتے تھے لیکن خود اعلانیہ ان پر عمل نہ کرتے تھے۔یہ پہلا تاثر تھا جو شاید آٹھ سال کی عمر میں قائم ہوا۔
اسی طرح بچپن دیوبندی جماعت اشاعت التوحید والسنۃ اور سپاہ صحابہ کے سایے تلے گزرا کیونکہ پنڈی گھیب میں دیوبندی مدارس میں انہی دو جماعتوں کا ہولڈ تھا۔ نوجوانی میں تبلیغی جماعت کے ساتھ وابستہ ہو گیا اور کافی وقت لگای، تبلیغی جماعت کے ساتھ فضائل اعمال کی تعلیم وتعلم اور چلوں اور رائے ونڈ کے تبلیغی دوروں اور مولانا طارق جمیل صاحب کے خطبات وغیرہ میں یہ تاثر مزید قوی ہوا کہ ضعیف اور موضوع روایات کا چلن عام ہے، اگرچہ میں ذاتی طور تبلیغی جماعت کے کام کے مثبت پہلو کی اب بھی تعریف کرتا ہوں۔ پھر ڈاکٹر اسرار احمد رحمہ اللہ کی تنظیم اسلامی سے وابستہ ہوا اور یہاں ایک سال کا رجوع الی القرآن کورس کیا۔ پھر معروف دیوبندی مدرسہ جامعہ اشرفیہ لاہور میں سہ سالہ درس نظامی کورس میں داخلہ لیا اور بوجوہ ایک سال بعد چھوڑ دیا اور کچھ اور بھی تاثرات قائم ہوئے جنہیں میں یہاں بیان نہیں کرنا چاہتا، شاید آپ اس تبصرے سے ناراض ہو جائیں۔ پھر اہل حدیث کے مدرسہ جامعہ رحمانیہ میں داخلہ لیا تو دوران تعلیم تقابلی فقہ کے مطالعہ سے اس تاثر کو تقویت ملی کہ فقہ حنفی کے اکثر مسائل کی بنیاد ضعیف روایات پر ہے۔پھر تقریبا چار سال تقابلی فقہ کا مضمون قرآن اکیڈمی، لاہور اور جامعہ رحمانیہ میں پڑھایا تو اس بچپن کے قائم شدہ تصور میں مزید اضافہ ہوا۔
اس تاثر کو قائم کرنے والی ابتدائی کتاب عاصم الحداد رحمہ اللہ کی ’فقہ السنہ‘ ہے جو تقابلی فقہ پر اردو زبان میں ایک لاجواب کتاب ہے۔شیخ رحمہ اللہ مولانا مودودی رحمہ اللہ کے قریبی ساتھیوں میں سے ہیں اور انہوں نے نہایت ہی نیوٹرل انداز میں یہ کتاب لکھی ہے۔ مجھے اس کتاب کا اسلوب بیان بہت ہی پسند ہے۔
جہاں تک اپنی تحقیق کا معاملہ ہے تو میں عرض کر چکا ہوں کہ تقابلی فقہ کا ایک طالب علم اور استاذ ہونے کی وجہ سے میں ایک رائے رکھتا ہوں لیکن اسے بیان اس لیے نہیں کرتا کہ مقصود یہاں کوئی مناظرہ نہیں ہے۔ بس سوال اس لیے قائم کیا تھا کہ اگر واقعتا یہ تاثر غلط ہے تو یہ ایک سنہری موقع ہے کہ اس تاثر کی بنیادیں ہلا دی جائیں لیکن اس کے لیے کوئی ایسی صحیح روایت ہمارے کسی حنفی بھائی کی طرف پیش ہونی چاہیے، جس میں عورتوں کے سینے پر ہاتھ باندھنے کا ذکر ہو۔بس اس سادہ سے مطالبہ پر آپ نے پوری تاریخ مانگ لی؟ سو ہم نے اجمالا بیان بھی کر دی۔
 

آفتاب

مبتدی
شمولیت
مئی 20، 2011
پیغامات
132
ری ایکشن اسکور
718
پوائنٹ
0
پھر میری تحقیق؟!!
اور اگر آپ کے نزدیک اس کے متعلّق کوئی روایت بھی صحیح نہیں تو پھر آپ لوگ ناف کے نیچے ہاتھ کیوں باندھتے ہیں؟!!
جب کسی مسئلہ پر حدیث نہ ہو تو قیاس کیا جاتا ہے اور جب کوئی صحیح حدیث نہ ھوتو دیکھیں کون سی احادیث میں ضعف کم ہے اور اگر وہ حدیث قیاس کے قریب بھی ہو مسئلہ حل ۔
 

آفتاب

مبتدی
شمولیت
مئی 20، 2011
پیغامات
132
ری ایکشن اسکور
718
پوائنٹ
0
دلیل نمبر١:
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ،
"ثم وضع یدہ الیمنیٰ علی ظھر کفہ الیسریٰ والرسغ والساعد "
پھر آپ نے دایاں ہاتھ بائیں ہتھیلی، کلائی اور (ساعد)بازوپر رکھا۔
صحیح ابن خزیمہ (۲۴۳/۱ ح ۴۸۰، ۷۱۴) صحیح ابن حبان (۱۶۷/۳ ح ۱۸۵۷ والموارد: ۴۸۵) مسند احمد (۳۱۸/۴ ح ۱۹۰۷۵) سنن نسائی(۱۲۶/۲ ح ۸۹۰) سنن ابی داؤد مع بذل المجہود (۴۳۷/۴، ۴۳۸ ح ۷۲۷ وسندہ صحیح)
حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں: "لان العبرۃ بعموم اللفظ حتی یقوم دلیل علی التخصیص"
جب تک تخصیص کی دلیل قائم نہ کی جائے عموم لفظ کا ہی اعتبار ہوتا ہے۔ (فتح الباری ۲۶۱/۱۲ تحت ح ۲۹۵۱)
"بعض الساعد" کی تخصیص کسی حدیث میں نہیں ہے، لہٰذا ساری "الساعد" پر ہاتھ رکھنا لازم ہے، تجربہ شاہد ہے کہ اس طرح ہاتھ رکھے جائیں تو خودبخود سینے پر ہی ہاتھ رکھے جاسکتے ہیں۔
«كَانَ النَّاسُ يُؤْمَرُونَ أَنْ يَضَعَ الرَّجُلُ اليَدَ اليُمْنَى عَلَى ذِرَاعِهِ اليُسْرَى فِي الصَّلاَةِ»
عربي میں يد کے کئی معنی پائے جاسکتے ہیں

1- مفصل تک
2- ما دون المرفق
3- الی المنکب

ید سے یہاں کیا مراد ہیں ۔ حدیث میں واضح نہیں ۔
اگر صرف کف (مفصل ) تک لیں تو رسغ اور ساعد پر ہاتھردکھیں تو بعض الساعد پر ہاتھ رکھنا پڑے گا ۔ یا اگر ید ذراع پر بھی رکھیں تو بعض ذراع پر رکھا جائے گا۔ دونوں صورتوں میں ناف کے نیچے ہاتھ رکھے جاسکتے ہیں ۔ اگر پوری ساعد پر ہاتھ رکھیں تو رسغ پر ہاتھ نہیں آئے گا۔
پہلے يد کے معنی یہاں دلائل سے بتائیں پھر بولیں کے "اس طرح تو صرف سینے پر ہاتھ رکھے جاسکتے ہیں ۔"

يد جو معنی مفصل تک لئیے جاسکتے ہیں اس کا ثبوت
وقال تعالى لموسى : وَأَدْخِلْ يَدَكَ فِي جَيْبِكَ تَخْرُجْ بَيْضَاءَ مِنْ غَيْرِ سُوءٍ سورة النمل آية 12
جیب میں صرف ہاتھ ڈالا جاسکتا ہے مرفق یا منکب نہیں
 
Top