• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اختلاف ِ امت پر رفع الملام عن الائمۃ الاعلام کا صحیح اطلاق

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
1-جو بالکل علم نہیں رکھتا یا کم علم رکھتا ہے اس کے لیے تقلید شخصی لازم ہے۔
2-جو اتنا علم رکھتا ہے کہ مختلف اقوال سے مستفید ہو سکے اور مختلف دلائل کا تقابل کر سکے اور مسائل میں مختلف مذاہب کو تمام حقوق کے ساتھ اپنا سکے وہ تقلید مطلق بھی کر سکتا ہے۔ بہتر اور اہل علم کا طریقہ یہ ہے کہ وہ اپنی رائے کو دیگر اہل علم کے سامنے رکھ کر پہلے ان سے مشورہ لے لے کیوں کہ بسا اوقات ایک شخص کی نظر سے کوئی نکتہ اوجھل ہو جاتا ہے۔ البتہ اگر تقلید شخصی کرے تو بہتر ہے صرف اس وجہ سے کہ اس میں خطا کا احتمال کم ہوتا ہے۔
3-جو اجتہاد کی صلاحیت رکھتا ہے کسی ایک بھی مسئلے میں اس پر اپنے اجتہاد کے مطابق عمل لازم ہے۔ الا یہ کہ وہ کسی کے قول کو درست سمجھے۔
تینوں قسم کے افراد کی نظیریں موجود ہیں۔
اب بتائیے ان میں سے کس پر میں نے دلیل دینی ہے؟
محترم بھائی نظیریں تو بے شک تینوں کی موجود ہیں مگر مقلد اور غیر مقلد کا اختلاف چونکہ تقلید پر ہے تو آخری تو ہمارا موضوع ویسے ہی نہیں بن سکتی دوسری میں بھی چونکہ آپ راجح ہونے کی حد تک لے آئے ہیں کہ اس میں خطا کا احتمال کم ہوتا ہے تو اسکو بھی ابھی چھوڑ دیتے ہیں کیونکہ پہلی پر بحث کے درمیان ہی یہ بات واضح کرنے کی کوشش کروں گا کہ خطا کا احتمال کس میں کم ہوتا ہے تو وہ بحث اس دوسری کے لئے بھی کام دے جائے گی
پس میرے خیال میں اصل بحث پہلی بات پر ہونی چاہئے
جی محترم خضر حیات بھائی اور محترم اشماریہ بھائی ٹھیک ہے
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
محترم بھائی نظیریں تو بے شک تینوں کی موجود ہیں مگر مقلد اور غیر مقلد کا اختلاف چونکہ تقلید پر ہے تو آخری تو ہمارا موضوع ویسے ہی نہیں بن سکتی دوسری میں بھی چونکہ آپ راجح ہونے کی حد تک لے آئے ہیں کہ اس میں خطا کا احتمال کم ہوتا ہے تو اسکو بھی ابھی چھوڑ دیتے ہیں کیونکہ پہلی پر بحث کے درمیان ہی یہ بات واضح کرنے کی کوشش کروں گا کہ خطا کا احتمال کس میں کم ہوتا ہے تو وہ بحث اس دوسری کے لئے بھی کام دے جائے گی
پس میرے خیال میں اصل بحث پہلی بات پر ہونی چاہئے
جی محترم خضر حیات بھائی اور محترم اشماریہ بھائی ٹھیک ہے
ٹھیک ہے۔
ابتدا آپ کرتے ہیں یا میں کروں؟
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
میرے خیال میں قبل اس کے کہ ہم اس بات کو آگے بڑھائیں یہ واضح ہو جانا چا ہیے کہ ایک غیر عالم تقلید مطلق کیسے کرے گا؟
اگر کتابیں پڑھ کر تو اتنا علم کہاں سے لائے گا کہ انہیں سمجھے؟ اور اتنی کتابیں کہاں سے لائے گا؟
اور اگر ہر مسلک کے عالم سے پوچھ کر تو ان ممالک میں جن میں ہر مسلک موجود نہیں ہے ان کے عالم کہاں سے لائے گا؟ ہر عالم اسے مطمئن کرنے والے بھرپور دلائل دے گا تو وہ ان کا تقابل کیسے کرے گا۔

اور ہر دو صورتوں میں وہ کسی قول کو ترجیح کیسے اور کس بنا پر دے گا؟
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,101
ری ایکشن اسکور
1,462
پوائنٹ
344
جی نہیں نہ ایک انسان کے پاس علم کل موجود ہے اور نہ ہی وہ خطا سے مبرا ہے۔
میرا مطلب ہے ایک مذہب کی تقلید کی جائے جسے ہم عرفا ایک انسان کی تقلید کہتے ہیں کیوں کہ مذہب اس کے اصولوں پر مبنی ہوتا ہے۔
تقلید کی حرمت پر واضح نص ہونا کیسے ممکن ہے جب کہ تقلید ہمیشہ سے چلی آ رہی ہے اور فقہائے امت نے اس کا رد نہیں کیا۔ لیکن اگر ہے تو آپ فرمائیے۔
سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نےفرمایا
اما العالم فان اهتدي فلا تقلدوه دينكم ۔(حلیۃ الاولیاء ج5ص97)
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا
''لاتقلدوا دينكم الرجال''(السنن الکبری للبیہقی ج2 ص 10)
تم اپنےدین میں لوگوں کی تقلید نہ کرو
اور یہ بات بھی واضح ہے کہ اصول حدیث کی رو سے یہ آثار مرفوع حدیث کے حکم میں ہیں
ان آثار کے مقابلے میں جناب کہتے ہیں کہ مسلمانوں پر (آئمہ اربعہ میں سے ایک امام کی ) تقلید شخصی واجب ہے ۔
علامہ زمحشری نے اپنی کتاب "اطواق الذھب" میں مقلدین کی جہالت پر کچھ یوں تبصرہ کیا ہے: "ان کان للضلال اُم فالتقلید امہ فلا جرم ان الجاھل یومہ" یعنی اگرگمراہی کی کوئی ماں ہوتی تو تقلید اُس کی بھی ماں کہلاتی یہی وجہ ہے کہ جاہل ہی تقلید کا قصد کرتا ہے۔(العیازباللہ)
اسی طرح علما نے تقلید کو بدعت قرار دیا ہے،شاہ ولی اللہ حنفی لکھتے ہیں:
اعلم ان الناس کا نو قبل الما ئة الرابعة غیر مجمعین علی التقلید الخالص لمذھب واحد
یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ چوتھی صدی سے پہلے لوگ کسی ایک مخصوص مذہب کی تقلید پر متفق نہیں تھے (حجة اللہ البالغہ ص ۴۵۱)
قاضی ثناءاللہ پانی پتی حنفی لکھتے ہیں:
فان اہل السنة والجمة قد افترق بعد القرون الثلاثة او الاربعة علی اربعة مذاہب
اہل سنت والجماعت چوتھی یا پانچویں صدی میں چار مذاہب میں متفرق ہوئے۔ (تفسیر مظہری)
امام ابنِ قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
انما حد ثت ھذہ البدعة فی القرن الرابع المذمومة علیٰ لسانہ علیہ الصلاة والسلام۔
تقلید کی بدعت چوتھی صدی ہجری میں پیدا ہوئی جسے نبی علیہ الصلاة والسلام نے مذموم قرار دیا تھا۔ (اعلام المو قعین ۲۸۹۱)
نوٹ:

نبی علیہ الصلاة والسلام نے فرمایا :خیر القرون قرنی ثم الذین یلونھم ثم الذین یلونھم
سب سے بہتر ین زمانہ میرا زمانہ ہے، پھر اُس کے بعد والوں کا پھر اُس کے بعد والوں کا (صحیح بخاری حدیث نمبر:۲۵۶۲)
جبکہ اوپر پیش کردہ حوالوں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جن تین زمانوں کو نبی علیہ الصلاة والسلام نے بہترین زمانے کہا تھا اُن تینزمانوں میں تقلید کا نام و نشان بھی نہیں تھا، نہ کوئی حنفی تھا اور نہ کوئی شافعی بلکہ سب لوگ کتاب و سنت پر ہی عمل کرتے تھے ،پھر جب نبی علیہ الصلاة والسلام کے بتائے ہوئے یہ تین بہترین زمانے گزر گئے تو چوتھی صدی میںتقلید کے فتنے نے جنم لیا جس کی وجہ سے اُمت تفرقے کا شکار ہو گئی اور چار مذاہب وجود میں آ گئے جو آج بھی حنفیہ، شوافع، مالکیہ اور حنابلہ کی شکل میں موجود ہیں جبکہ ان باطل مذاہب کے مقابلے میں ہر دور میں علماء حق کی ایک جماعت موجود رہی ہے جس نے تقلید کے فتنے کا علی اعلان رد کیا ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ اللہ ہمیں حق پر ثابت قدم رکھے (امین)۔
ابراہیم النخعی رحمہ اللہ کے سامنے کسی نے سعید بن جبیر (تابعی رحمہ اللہ) کا قول پیش کیا تو انھوں نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مقابلے میں تم سعید بن جبیر کے قول کو کیا کرو گے؟ (الاحکام لاابن حزم293/6 وسندہ صحیح)
امام المزنی رحمہ اللہ نے فرمایا:

میں نے یہ کتاب (امام) محمد بن ادریس الشافعی رحمہ اللہ کے علم سے مختصر کی ہے تاکہ جو شخص اسے سمجھنا چاہے آسانی سے سمجھ لے، اس کے ساتھ میرا یہ اعلان ہے کہ امام شافعی نے اپنی تقلید اور دوسروں کی تقلید سے منع فرما دیا ہے تاکہ (ہر شخص) اپنے دین کو پیش نظر رکھے اور اپنے لیئے احتیاط کرے۔ (الام/مختصرالمزنی ص۱)
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

میری ہر بات جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث کے خلاف ہو (چھوڑ دو) پس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سب سے بہتر ہے اور میری تقلید نہ کرو۔ (آداب الشافعی و مناقبہ لابن ابی حاتم ص51 وسندہ حسن)
امام ابو داؤد السجستانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

میں نے (امام) احمد (بن حنبل)سے پوچھا: کیا (امام) اوزائی، مالک سے زیادہ متبع سنت ہیں؟ انھوں نے فرمایا: اپنے دین میں، ان میں سے کسی ایک کی بھی تقلید نہ کر۔۔۔الخ (مسائل ابی داودص277)
ان تمام دلائل کو سامنے رکھ کر بھی تقلید جیسی بدعت کو فرض و واجب قرار دیا جا سکتا ؟؟؟
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نےفرمایا
اما العالم فان اهتدي فلا تقلدوه دينكم ۔(حلیۃ الاولیاء ج5ص97)
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا
''لاتقلدوا دينكم الرجال''(السنن الکبری للبیہقی ج2 ص 10)
تم اپنےدین میں لوگوں کی تقلید نہ کرو
اور یہ بات بھی واضح ہے کہ اصول حدیث کی رو سے یہ آثار مرفوع حدیث کے حکم میں ہیں
ان آثار کے مقابلے میں جناب کہتے ہیں کہ مسلمانوں پر (آئمہ اربعہ میں سے ایک امام کی ) تقلید شخصی واجب ہے ۔
علامہ زمحشری نے اپنی کتاب "اطواق الذھب" میں مقلدین کی جہالت پر کچھ یوں تبصرہ کیا ہے: "ان کان للضلال اُم فالتقلید امہ فلا جرم ان الجاھل یومہ" یعنی اگرگمراہی کی کوئی ماں ہوتی تو تقلید اُس کی بھی ماں کہلاتی یہی وجہ ہے کہ جاہل ہی تقلید کا قصد کرتا ہے۔(العیازباللہ)
اسی طرح علما نے تقلید کو بدعت قرار دیا ہے،شاہ ولی اللہ حنفی لکھتے ہیں:
اعلم ان الناس کا نو قبل الما ئة الرابعة غیر مجمعین علی التقلید الخالص لمذھب واحد
یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ چوتھی صدی سے پہلے لوگ کسی ایک مخصوص مذہب کی تقلید پر متفق نہیں تھے (حجة اللہ البالغہ ص ۴۵۱)
قاضی ثناءاللہ پانی پتی حنفی لکھتے ہیں:
فان اہل السنة والجمة قد افترق بعد القرون الثلاثة او الاربعة علی اربعة مذاہب
اہل سنت والجماعت چوتھی یا پانچویں صدی میں چار مذاہب میں متفرق ہوئے۔ (تفسیر مظہری)
امام ابنِ قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
انما حد ثت ھذہ البدعة فی القرن الرابع المذمومة علیٰ لسانہ علیہ الصلاة والسلام۔
تقلید کی بدعت چوتھی صدی ہجری میں پیدا ہوئی جسے نبی علیہ الصلاة والسلام نے مذموم قرار دیا تھا۔ (اعلام المو قعین ۲۸۹۱)
نوٹ:

نبی علیہ الصلاة والسلام نے فرمایا :خیر القرون قرنی ثم الذین یلونھم ثم الذین یلونھم
سب سے بہتر ین زمانہ میرا زمانہ ہے، پھر اُس کے بعد والوں کا پھر اُس کے بعد والوں کا (صحیح بخاری حدیث نمبر:۲۵۶۲)
جبکہ اوپر پیش کردہ حوالوں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جن تین زمانوں کو نبی علیہ الصلاة والسلام نے بہترین زمانے کہا تھا اُن تینزمانوں میں تقلید کا نام و نشان بھی نہیں تھا، نہ کوئی حنفی تھا اور نہ کوئی شافعی بلکہ سب لوگ کتاب و سنت پر ہی عمل کرتے تھے ،پھر جب نبی علیہ الصلاة والسلام کے بتائے ہوئے یہ تین بہترین زمانے گزر گئے تو چوتھی صدی میںتقلید کے فتنے نے جنم لیا جس کی وجہ سے اُمت تفرقے کا شکار ہو گئی اور چار مذاہب وجود میں آ گئے جو آج بھی حنفیہ، شوافع، مالکیہ اور حنابلہ کی شکل میں موجود ہیں جبکہ ان باطل مذاہب کے مقابلے میں ہر دور میں علماء حق کی ایک جماعت موجود رہی ہے جس نے تقلید کے فتنے کا علی اعلان رد کیا ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ اللہ ہمیں حق پر ثابت قدم رکھے (امین)۔
ابراہیم النخعی رحمہ اللہ کے سامنے کسی نے سعید بن جبیر (تابعی رحمہ اللہ) کا قول پیش کیا تو انھوں نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مقابلے میں تم سعید بن جبیر کے قول کو کیا کرو گے؟ (الاحکام لاابن حزم293/6 وسندہ صحیح)
امام المزنی رحمہ اللہ نے فرمایا:

میں نے یہ کتاب (امام) محمد بن ادریس الشافعی رحمہ اللہ کے علم سے مختصر کی ہے تاکہ جو شخص اسے سمجھنا چاہے آسانی سے سمجھ لے، اس کے ساتھ میرا یہ اعلان ہے کہ امام شافعی نے اپنی تقلید اور دوسروں کی تقلید سے منع فرما دیا ہے تاکہ (ہر شخص) اپنے دین کو پیش نظر رکھے اور اپنے لیئے احتیاط کرے۔ (الام/مختصرالمزنی ص۱)
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

میری ہر بات جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث کے خلاف ہو (چھوڑ دو) پس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سب سے بہتر ہے اور میری تقلید نہ کرو۔ (آداب الشافعی و مناقبہ لابن ابی حاتم ص51 وسندہ حسن)
امام ابو داؤد السجستانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

میں نے (امام) احمد (بن حنبل)سے پوچھا: کیا (امام) اوزائی، مالک سے زیادہ متبع سنت ہیں؟ انھوں نے فرمایا: اپنے دین میں، ان میں سے کسی ایک کی بھی تقلید نہ کر۔۔۔الخ (مسائل ابی داودص277)
ان تمام دلائل کو سامنے رکھ کر بھی تقلید جیسی بدعت کو فرض و واجب قرار دیا جا سکتا ؟؟؟

کیا آپ اپنی اس پوسٹ کا خلاصہ نکال سکتے ہیں؟
خیر۔
اس موضوع پر دوسری جگہوں پر بھی بحث ہو چکی ہے اور پہلے دو حوالوں کے جواب میں ایک جگہ آپ کی ہی پوسٹ کو مقتبس کر کے دے چکا ہوں۔ دوبارہ عرض کرتا ہوں۔
حلیۃ الاولیاء میں قطع نظر سند کی بحث کے پیچھے اس عالم کا ذکر ہوا ہے جو گمراہ ہو گیا ہو۔ پھر آگے "ال" کے ذریعہ معرفہ لایا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ اگر وہ (گمراہ ہونے والا) عالم ہدایت پر آجائے تو اسے اپنے دین میں پیشوا مت بناؤ۔ اور اگر وہ گمراہ رہے تو اس سے نا امید نہ ہو۔ یہ مقام کھول کر خود دیکھ لیجیے۔ (وجہ صاف ظاہر ہے کہ ممکن ہے وہ ابھی بھی گمراہ ہو اور صرف دکھانے کے لیے راستگی اختیار کی ہو۔)
سنن کبری میں عبد اللہ بن مسعود رض کی اس روایت میں آگے ذکر ہے کہ فإن أبيتم فبالأموات لا بالأحياء۔ اگر تم انکار کرو تو پھر مردوں کی تقلید کرو زندوں کی نہیں۔
آپ نے فرمایا یہ آثار مرفوع حدیث کے حکم میں ہیں تو اولا تو کس قاعدے سے (یہ عین قیاسی حکم ہے)؟ اور ثانیا اگر ہم تسلیم کر لیں تو پھر یہ کیسا اجماع ہے جس کے خلاف صحابی رسول اجازت دے رہے ہیں؟ اور ثالثا ہم سب چھوڑ کر صرف اس روایت کے دوسرے حصے پر عمل کر لیتے ہیں تو ابو حنیفہ رح کی اور دیگر ائمہ کی تقلید درست ہوئی۔

علامہ زمخشری جو کہ معتزلی بھی ہیں ان کی پوری عبارت پڑھیئے:۔
ومن تبع في أصول الدين تقليده، فقد ضيع وراء الباب المرتج إقليده. وجامع الروايات الكثيرة ولا حجة عنده، مقوِ أوقر ظهره بالحطب وأغفل زنده. إن كان للضلال أُمٌ فالتقليد أمُّه، قلّد الله حبلاً من مسد من يقصده ويؤمه.
فلا جرم والی عبارت یہاں تو نہیں ہے۔ اللہ کرے کسی اور نسخے میں یا کسی اور مقام پر ہو ورنہ پھر کیا کہا جائے گا اسے آپ جانتے ہیں۔ اور یہاں اصول دین میں تقلید کی بات ہو رہی ہے یعنی عقائد میں۔ واضح عقائد میں تقلید کا کوئی بھی قائل نہیں اور تعبیراتی عقائد میں معتزلہ نے صحابہ اور تابعین کی تقلید ہی چھوڑی تھی حسن بصری کو رد کر کے۔ پھر کیا ہوا اس سے دنیا واقف ہے۔

شاہ ولی اللہ رح علیہ کی عبارت سے تو یوں لگتا ہے کہ چوتھی صدی کے بعد مخصوص مذہب کی تقلید پر اتفاق ہو گیا۔ آپ کا اس بارے میں کیا خیال ہے؟
دل تو یہ ہے کہ شاہ صاحب کی تمام عبارت بمعہ ترجمے کے نقل کر دوں لیکن میرے لیے اتنا ترجمہ ممکن نہیں ہے۔ یہاں شاہ صاحب رح نے ابتداءً یہ فرمایا ہے پھر کچھ آگے اسی کی تفصیل ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں وكان أهل التخريج منهم يخرجون فيما لا يجدونه مصرحا، ويجتهدون في المذهب، وكان هؤلاء ينسبون إلى مذهب أحدهم فيقال: فلان شافعي، وفلان حنفي، "اور اہل تخریج ان میں جو چیز صراحتا موجود نہیں پاتے اس کی تخریج کیا کرتے تھے اور مذہب میں اجتہاد کیا کرتے تھے اور یہ کسی ایک مذہب کی جانب منسوب ہوتے تھے سو کہا جاتا ہے فلاں شافعی ہے اور فلاں حنفی ہے۔" (حافظ بھائی تقلید کے سر پر سینگ ہوتے ہیں؟)
آگے فرماتے ہیں کہ ان قرون کے بعد لوگ دائیں بائیں بھٹک گئے اور علم فقہ میں ان میں جدل اور اختلاف کے امور پیدا ہو گئے۔ غرض مختلف اسباب تفصیلا ذکر کرتے ہیں پھر فصل قائم کرتے ہوئے فرماتے ہیں أن هذه المذاهب الأربعة المدونة المحررة قد اجتمعت الأمة - أو من يعتد به منها - على جواز تقليدها إلى يومنا هذا، وفي ذلك من المصالح ما لا يخفى لا سيما في هذه الأيام التي قصرت فيها الهمم جدا، وأشربت النفوس الهوى وأعجب كل ذي رأي برأيه،
(تنبیہات میں سے یہ ہے کہ) "ان مذاہب اربعہ مدونہ محررہ کی تقلید کے جائز ہونے پر امت یا ان کا معتد بہ حصہ آج تک متفق ہے۔ اور اس میں وہ مصالح ہیں جو مخفی نہیں ہیں خاص طور پر ان ایام میں جب کہ ہمتیں بہت کم ہو گئی ہیں اور دلوں کو خواہشات پلا دی گئی ہیں اور ہر رائے رکھنے والے کو اپنی رائے اچھی لگتی ہے۔"

وقت کی کمی کی وجہ سے میں نے ان چار عبارات کو صرف کھولا ہے۔
مجھے پختہ یقین ہے حافظ بھائی کہ یہ حوالہ جات اصل کتب سے آپ نے خود نہیں نکالے ہوں گے کیوں کہ آپ کی پوسٹس سے کہیں بھی یہ نہیں لگتا کہ آپ ایسا کام کریں گے بلکہ آپ تحقیقی اور سوجھ بوجھ والا مزاج رکھنے والے محسوس ہوتے ہیں۔ اس لیے جس کتاب سے بھی آپ نے مصنف پر اعتماد کرتے ہوئے یہ لیے ہیں قطع نظر اس کے کہ یہ خود تقلید ہے، براہ کرم اس مصنف پر اعتماد ختم کر کے خود تحقیق کریں۔ اللہ پاک آپ کا حامی و ناصر ہو۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
محترم بھائی آپ دلیل دیں
بھائی مناسب نہ ہوگا کہ آپ صورت واضح کر دیں پہلے تقلید مطلق کی؟

میرے خیال میں قبل اس کے کہ ہم اس بات کو آگے بڑھائیں یہ واضح ہو جانا چا ہیے کہ ایک غیر عالم تقلید مطلق کیسے کرے گا؟
اگر کتابیں پڑھ کر تو اتنا علم کہاں سے لائے گا کہ انہیں سمجھے؟ اور اتنی کتابیں کہاں سے لائے گا؟
اور اگر ہر مسلک کے عالم سے پوچھ کر تو ان ممالک میں جن میں ہر مسلک موجود نہیں ہے ان کے عالم کہاں سے لائے گا؟ ہر عالم اسے مطمئن کرنے والے بھرپور دلائل دے گا تو وہ ان کا تقابل کیسے کرے گا۔

اور ہر دو صورتوں میں وہ کسی قول کو ترجیح کیسے اور کس بنا پر دے گا؟
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
بھائی مناسب نہ ہوگا کہ آپ صورت واضح کر دیں پہلے تقلید مطلق کی؟
تقلید مطلق کی صورت میں نے غالبا غیر مقلد سے چار سو سوالات میں واضح کر دی تھی اور غالبا آپ نے پسند بھی کی ہے
دوبارہ بتا دیتا ہوں کہ
جس کے پاس کسی مسئلہ کا علم نہ ہو تو وہ فاسئلو اھل الذکر کے تحت تقلید مطلق کرے گا یعنی جب علم نہ ہو گا تو تب تقلید مطلق کرے گا جب علم ہو گا تو تقلید نہ ہو گی
آپ دونوں باتوں پر علیحدہ علیحدہ بحث کریں جزاک اللہ

بھائی مناسب نہ ہوگا کہ آپ صورت واضح کر دیں پہلے تقلید مطلق کی؟
اشماریہ نے کہا ہے: ↑
میرے خیال میں قبل اس کے کہ ہم اس بات کو آگے بڑھائیں یہ واضح ہو جانا چا ہیے کہ ایک غیر عالم تقلید مطلق کیسے کرے گا؟
اگر کتابیں پڑھ کر تو اتنا علم کہاں سے لائے گا کہ انہیں سمجھے؟ اور اتنی کتابیں کہاں سے لائے گا؟
اور اگر ہر مسلک کے عالم سے پوچھ کر تو ان ممالک میں جن میں ہر مسلک موجود نہیں ہے ان کے عالم کہاں سے لائے گا؟ ہر عالم اسے مطمئن کرنے والے بھرپور دلائل دے گا تو وہ ان کا تقابل کیسے کرے گا۔
اور ہر دو صورتوں میں وہ کسی قول کو ترجیح کیسے اور کس بنا پر دے گا؟
محترم بھائی یہ اعتراضات تقلید کے پس منظر میں تو پیش نہیں کیے جا سکتے
جب بعد میں علم ہونے پر تقلید مطلق بھی نہ کرنے کی بات ہو گی تو یہ اعتراضات آئیں گے اور میں جواب دوں گا انشاءاللہ
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
تقلید مطلق کی صورت میں نے غالبا غیر مقلد سے چار سو سوالات میں واضح کر دی تھی اور غالبا آپ نے پسند بھی کی ہے
دوبارہ بتا دیتا ہوں کہ
جس کے پاس کسی مسئلہ کا علم نہ ہو تو وہ فاسئلو اھل الذکر کے تحت تقلید مطلق کرے گا یعنی جب علم نہ ہو گا تو تب تقلید مطلق کرے گا جب علم ہو گا تو تقلید نہ ہو گی
آپ دونوں باتوں پر علیحدہ علیحدہ بحث کریں جزاک اللہ


محترم بھائی یہ اعتراضات تقلید کے پس منظر میں تو پیش نہیں کیے جا سکتے
جب بعد میں علم ہونے پر تقلید مطلق بھی نہ کرنے کی بات ہو گی تو یہ اعتراضات آئیں گے اور میں جواب دوں گا انشاءاللہ

میں یہ چاہ رہا تھا کہ پتا چل جاتا کہ تقلید مطلق اس کے لیے ممکن بھی رہے گی یا وہ اقوال میں ہی پھنس جائے گا۔ خیر
پہلی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ اگر کسی بھی عامی شخص کو اس کا اختیار دے دیا جائے تو وہ ہر مسئلے میں وہ قول اختیار کرے گا جو اسے پسند آئے گا اور ہمارے پاس اس اتباع نفس سے بچانے کا کوئی اور طریقہ نہیں ہے۔
اس کی مثال یوں ہے کہ ایک لڑکی زاہدہ نے امام مالک رح کے قول کے مطابق بغیر گواہوں کے زید سے نکاح کر لیا۔ پھر کچھ روز بعد عمرو کے پاس گئی اور کہا کہ احناف کے قول کے مطابق میرا نکاح نہیں ہوا لہذا تم گواہوں کی موجودگی میں مجھ سے نکاح کر لو لیکن والدین کی اجازت نہیں ہے۔ اس نے کر لیا۔ پھر کچھ دن بعد بکر کے پاس گئی اور کہا کہ امام شافعی رح کے قول کے مطابق میرا نکاح بغیر والدین کی اجازت سے نہیں ہوا لہذا تم نکاح مجھ سے نکاح کر لو۔ سو اس نے کر لیا۔
اب یہ کبھی زید کے پاس جاتی ہے کبھی عمرو کے اور کبھی بکر کے اور کوئی پوچھتا ہے تو فورا مرضی کے قول کا حوالہ دیتی ہے۔
کیا ہم اسے روک سکتے ہیں کسی طرح؟؟؟

چوتھی صدی ہجری کے بعد لوگوں میں بہت برائیاں پھیل گئیں اور اتباع ہوی عام ہو گئی بقول شاہ صاحب رح وگرنہ اس سے قبل ایسا ہونا ممکن تو تھا لیکن فی الواقع میں بعید تھا خوف خدا کی وجہ سے۔
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
پہلی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ اگر کسی بھی عامی شخص کو اس کا اختیار دے دیا جائے تو وہ ہر مسئلے میں وہ قول اختیار کرے گا جو اسے پسند آئے گا اور ہمارے پاس اس اتباع نفس سے بچانے کا کوئی اور طریقہ نہیں ہے۔
چوتھی صدی ہجری کے بعد لوگوں میں بہت برائیاں پھیل گئیں اور اتباع ہوی عام ہو گئی بقول شاہ صاحب رح وگرنہ اس سے قبل ایسا ہونا ممکن تو تھا لیکن فی الواقع میں بعید تھا خوف خدا کی وجہ سے۔
محترم بھائی آپ نے واقعی ایک جائز دلیل دی ہے کہ جو اشکال ہمارے ذہنوں میں بھی آتا ہے اور اسی دلیل کی وجہ سے میں تقلید شخصی کو شرک نہیں کہتا
اگرچہ قرآن میں وجدنا آباءنا کے تحت کچھ تقلید کو گمراہی بھی کہا گیا ہے مگر ہر مقلد کا تقلید کرنے میں مقصد قرآن و حدیث کا انکار نہیں ہوتا بلکہ کوئی عقلی اشکالات بھی ہو سکتے ہیں اسلئیے میں ہر مقلد کے لئے اطیعو اللہ و اطیعو الرسول ولا تبطلوا اعمالکم جیسی آیتیں تجویز نہیں کرتا
البتہ جہاں تک یہ بات ہے کہ کیا اس اشکال کے حل کے لئے بھی کوئی ٹھوس دلیل ہے یا نہیں تو محترم بھائی کم از کم میری سمجھ کے مطابق اس عقلی اشکال کا بھی بہتر عقلی حل کر کے متبادل بہتر راستہ نکالا جا سکتا ہے جو میں انشاء اللہ بعد میں بتاؤں گا
ابھی آپ سے یہ پوچھنا ہے کہ کیا کوئی اور بھی ٹھوس دلیل اس بارے میں آپ کے پاس ہے کیونکہ میرے علم میں ابھی تک ایک یہی دلیل ہے
 
Top