allahkabanda
رکن
- شمولیت
- مارچ 27، 2012
- پیغامات
- 174
- ری ایکشن اسکور
- 568
- پوائنٹ
- 69
"اسلامی سعودیہ" : سعودی خواتین کو شرکت کی اجازت
BBC Urdu - کھیل - اولپمکس: سعودی خواتین کو شرکت کی اجازت
سعودی عرب نے پہلی مرتبہ خواتین کو اولپمکس کھیلوں میں حصہ لینے کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ ملک کی اولمپک کمیٹی اولپمکس گیمز کے لیے کوالیفائی کرنے والی خواتین کی نگرانی کرے گی۔
سعودی عرب کے اس فیصلے کے بعد ان قیاس آرائیوں کا اختتام ہو جائے گا کہ اولمپکس گیمز کے لیے سعودی ٹیم کو جنسی امتیاز کی بنا پر نااہل قرار دیا جا سکتا ہے۔
خیال رہے کہ سعودی عرب نے اولمپکس کے لیے اپنے کلِک
قومی دستے میں خواتین کو شامل کرنے سے انکار کیا تھا اور
سعودی دستہ لندن اولمپکس کا واحد دستہ ہونا تھا جس میں کوئی عورت نہیں ہوتی۔
ایک سعودی اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ’ یہ بہت حساس معاملہ ہے اور فرماں روا شاہ عبداللہ پُرحکمت طریقے سے اصلاحات کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ بہت زیادہ تیزی اور بہت زیادہ سست روی کے درمیان توازن قائم کیا جا سکے۔‘
حکام کا کہنا ہے کہ خواتین کو اولمپکس گیمز میں اجازت نہ دینے کی صورت میں عالمی سطح پر ملک کے بارے میں ایک برا تاثر ابھرتا۔
’بڑھتی ہوئی تنقید پر ہم جاگ اٹھے اور ہمیں احساس ہوا کہ اس معاملے سے نمٹنا چاہیے اور ہمیں یقین ہے کہ سعودی سماج اس فیصلے کو تسلیم کرے گا۔‘
سعودی عرب میں قدامت پسند حلقے خواتین کے عوامی مقامات پر کھیلوں میں حصہ لینے کی شدید مخالفت کرتے ہیں۔
سعودی خواتین کی ملک میں عوامی سطح پر منعقدہ کھیلوں کے مقابلوں میں شرکت کی اس سے پہلے کوئی مثال موجود نہیں ہے۔
سعودی حکام کے مطابق کیونکہ اولمپکس گیمز منعقد ہونے میں چند ہفتے ہی باقی رہ گئے ہیں اس لیے صرف ایک خاتون شوجمپر یا گھڑ سوار دلما روشدی ملہاس ہی اولمپکس کھیلوں کے معیار پر پورا اترتی ہیں۔
تاہم حکام نے مزید کہا کہ دیگر خواتین بھی مقابلوں میں حصہ لینے کے لیے آگے آ سکتی ہیں اور اگر وہ کامیاب ہوتی ہیں تو اس صورت میں انہیں اپنے ’وقار کے تحفظ ‘ کے مطابق لباس پہننا ہو گا۔
سعودی عرب جیسے ملک میں جہاں پر خواتین کی عوامی سطح پر کردار کی شدید مخالفت کی ایک تاریخ ہے، وہاں پر اولمپکس گیمز میں خواتین کو شرکت کی اجازت دینا ایک بہت بڑا قدم ہے۔
رواں سال اپریل میں اس طرح کے اشارے ملے تھے کہ سعودی حمکران مذہبی قدامت پسند حلقوں کے اعتراضات کو دیکھتے ہوئے خواتین کے مقابلوں میں شرکت پر پابندی کو برقرار رکھیں گے لیکن گزشتہ چھ ہفتوں سے اس ضمن میں سعودی فرماں روا شاہ عبداللہ کی سربراہی میں پس پردہ خاصی سرگرم بات چیت جاری تھی۔
فرماں روا شاہ عبداللہ معاشرے میں خواتین کے زیادہ موثر کردار کی حمایت کرتے ہیں۔
پابندی ختم کرنے کے حساس معاملے پر سعودی شہر جدہ میں سعودی ولی عہد، وزیر خارجہ، اہم مذہبی رہنماوں اور مفتی عالم کے درمیان جون کے وسط میں اتفاق رائے ہو گیا تھا لیکن ولی عہد کی موت کے سبب پابندی کے خاتمے کے اعلان کو روک دیا گیا تھا۔
BBC Urdu - کھیل - اولپمکس: سعودی خواتین کو شرکت کی اجازت
سعودی عرب نے پہلی مرتبہ خواتین کو اولپمکس کھیلوں میں حصہ لینے کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ ملک کی اولمپک کمیٹی اولپمکس گیمز کے لیے کوالیفائی کرنے والی خواتین کی نگرانی کرے گی۔
سعودی عرب کے اس فیصلے کے بعد ان قیاس آرائیوں کا اختتام ہو جائے گا کہ اولمپکس گیمز کے لیے سعودی ٹیم کو جنسی امتیاز کی بنا پر نااہل قرار دیا جا سکتا ہے۔
خیال رہے کہ سعودی عرب نے اولمپکس کے لیے اپنے کلِک
قومی دستے میں خواتین کو شامل کرنے سے انکار کیا تھا اور
سعودی دستہ لندن اولمپکس کا واحد دستہ ہونا تھا جس میں کوئی عورت نہیں ہوتی۔
ایک سعودی اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ’ یہ بہت حساس معاملہ ہے اور فرماں روا شاہ عبداللہ پُرحکمت طریقے سے اصلاحات کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ بہت زیادہ تیزی اور بہت زیادہ سست روی کے درمیان توازن قائم کیا جا سکے۔‘
حکام کا کہنا ہے کہ خواتین کو اولمپکس گیمز میں اجازت نہ دینے کی صورت میں عالمی سطح پر ملک کے بارے میں ایک برا تاثر ابھرتا۔
’بڑھتی ہوئی تنقید پر ہم جاگ اٹھے اور ہمیں احساس ہوا کہ اس معاملے سے نمٹنا چاہیے اور ہمیں یقین ہے کہ سعودی سماج اس فیصلے کو تسلیم کرے گا۔‘
سعودی عرب میں قدامت پسند حلقے خواتین کے عوامی مقامات پر کھیلوں میں حصہ لینے کی شدید مخالفت کرتے ہیں۔
سعودی خواتین کی ملک میں عوامی سطح پر منعقدہ کھیلوں کے مقابلوں میں شرکت کی اس سے پہلے کوئی مثال موجود نہیں ہے۔
سعودی حکام کے مطابق کیونکہ اولمپکس گیمز منعقد ہونے میں چند ہفتے ہی باقی رہ گئے ہیں اس لیے صرف ایک خاتون شوجمپر یا گھڑ سوار دلما روشدی ملہاس ہی اولمپکس کھیلوں کے معیار پر پورا اترتی ہیں۔
تاہم حکام نے مزید کہا کہ دیگر خواتین بھی مقابلوں میں حصہ لینے کے لیے آگے آ سکتی ہیں اور اگر وہ کامیاب ہوتی ہیں تو اس صورت میں انہیں اپنے ’وقار کے تحفظ ‘ کے مطابق لباس پہننا ہو گا۔
سعودی عرب جیسے ملک میں جہاں پر خواتین کی عوامی سطح پر کردار کی شدید مخالفت کی ایک تاریخ ہے، وہاں پر اولمپکس گیمز میں خواتین کو شرکت کی اجازت دینا ایک بہت بڑا قدم ہے۔
رواں سال اپریل میں اس طرح کے اشارے ملے تھے کہ سعودی حمکران مذہبی قدامت پسند حلقوں کے اعتراضات کو دیکھتے ہوئے خواتین کے مقابلوں میں شرکت پر پابندی کو برقرار رکھیں گے لیکن گزشتہ چھ ہفتوں سے اس ضمن میں سعودی فرماں روا شاہ عبداللہ کی سربراہی میں پس پردہ خاصی سرگرم بات چیت جاری تھی۔
فرماں روا شاہ عبداللہ معاشرے میں خواتین کے زیادہ موثر کردار کی حمایت کرتے ہیں۔
پابندی ختم کرنے کے حساس معاملے پر سعودی شہر جدہ میں سعودی ولی عہد، وزیر خارجہ، اہم مذہبی رہنماوں اور مفتی عالم کے درمیان جون کے وسط میں اتفاق رائے ہو گیا تھا لیکن ولی عہد کی موت کے سبب پابندی کے خاتمے کے اعلان کو روک دیا گیا تھا۔