• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اسلام پر چاليس(40) اعتراضات کے عقلی و نقلی جواب

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
سوال نمبر - 9


مرد اور عورت کی گواہی میں مساوات کیوں نہیں؟


مرد اور عورت کی گواہی میں مساوات کیوں نہیں؟

"دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کی گواہی کے برابر کیوں ہے؟ "

دو عورتوں کی گواہ ہمیشہ ایک مرد کی گواہی کے برابر نہیں۔ قرآن مجید میں تین آیات ہیں جن میں مرد اور عورت کی تفریق کے بغیر گواہی کے احکام آئے ہیں:

وراثت کے متعلق وصیت کرتے وقت دو دال اشخاص کی گواہی کی ضرورت ہوتی ہے :

سورۃ مائدہ میں قرآن عظیم کہتا ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا شَهَادَةُ بَيْنِكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ حِينَ الْوَصِيَّةِ اثْنَانِ ذَوَا عَدْلٍ مِنْكُمْ أَوْ آخَرَانِ مِنْ غَيْرِكُمْ إِنْ أَنْتُمْ ضَرَبْتُمْ فِي الأرْضِ فَأَصَابَتْكُمْ مُصِيبَةُ(سورۃ المائدہ 5 آیت 106)

" اے ایمان والو! جب تم میں سے کسی کو موت آنے لگے تو تمہارے درمیان گواہی ہونی چاہیئے۔ ترکے کی وصیت کے وقت دو انصاف والے اپنے ( مسلمانوں ) میں سے گواہ بنا لو اگر تم زمین میں سفر پر نکلو اور ( راستے میں ) موت کی مصیبت پیش آجائے تو غیر قوم کے دو ( گواہ بھی کافی ہوں گے )۔

( سورۃ المائدہ 5 آیت 106)

طلاق کے معاملے میں دو عادل اشخاص کو گواہ بنانے کا حکم ہے :

وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِنْكُمْ وَأَقِيمُوا الشَّهَادَةَ لِلَّهِ ( سورۃ الطلاق 65 آیت 2)

" اور تم اپنے میں سے دو اشخاص کو گواہ بنالو جو عادل ہوں اور اللہ کے لیئے گواہی دو۔ "

( سورۃ الطلاق 65 آیت 2)

پاکباز عورت کے خلاف گواہی کیلئے چار شہادتیں درکار ہیں:


وَالَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَأْتُوا بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَاجْلِدُوهُمْ ثَمَانِينَ جَلْدَةً وَلا تَقْبَلُوا لَهُمْ شَهَادَةً أَبَدًا وَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ (٤) ( سورۃ النور 24 آیت 4)

" اور جو لوگ پاکباز عورتوں پر تہمت لگائیں، پھر وہ چار گواہ پیش نہ کرسکیں ( اپنے الزام کی تصدیق میں ) تو ان کو 80 کوڑے مارو اور ان کی گواہی کبھی قبول نہ کرو۔ اور یہی لوگ نافرمان ہیں۔"

( سورۃ النور 24 آیت 4)

مالی لین دین میں عورت کی گواہی :

یہ صحیح نہیں کہ ہمیشہ دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر ہوگی۔ یہ صرف چند معاملات کے لیے ہے۔ قرآن میں 5 آیات ہیں جن میں گواہی کے بارے میں مرد اور عورت کی تخصیص کے بغیر حکم دیا گیا ہے۔ اور یہ صرف ایک آیت ہے جس میں کہا گیا ہے کہ دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر ہے۔ یہ سورۃ بقرہ کی آیت 282 ہے۔ مالی معاملات کے متعلق یہ قرآن کی سب سے لمبی آیت ہے۔ ارشاد باری تعالٰی ہے۔:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَدَايَنْتُمْ بِدَيْنٍ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى فَاكْتُبُوهُ وَلْيَكْتُبْ بَيْنَكُمْ كَاتِبٌ بِالْعَدْلِ وَلا يَأْبَ كَاتِبٌ أَنْ يَكْتُبَ كَمَا عَلَّمَهُ اللَّهُ فَلْيَكْتُبْ وَلْيُمْلِلِ الَّذِي عَلَيْهِ الْحَقُّ وَلْيَتَّقِ اللَّهَ رَبَّهُ وَلا يَبْخَسْ مِنْهُ شَيْئًا فَإِنْ كَانَ الَّذِي عَلَيْهِ الْحَقُّ سَفِيهًا أَوْ ضَعِيفًا أَوْ لا يَسْتَطِيعُ أَنْ يُمِلَّ هُوَ فَلْيُمْلِلْ وَلِيُّهُ بِالْعَدْلِ وَاسْتَشْهِدُوا شَهِيدَيْنِ مِنْ رِجَالِكُمْ فَإِنْ لَمْ يَكُونَا رَجُلَيْنِ فَرَجُلٌ وَامْرَأَتَانِ مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَاءِ أَنْ تَضِلَّ إِحْدَاهُمَا فَتُذَكِّرَ إِحْدَاهُمَا الأخْرَى (سورۃ البقرہ 2 آیت 282)

" اے ایمان والو! جب تم ایک مقررہ مدت کے لیے ایک دوسرے سے ادھار کا لین دین کرو تو اسے لکھ لو اور لکھنے والے کو چاہیئے کہ تمہارے دریمان انصاف سے لکھے اور لکھنے والا لکھنے سے انکار نہ کرے، جیسے اللہ نے اسے سکھایا ہے اسے لکھنا چاہیئے، اور وہ شخص لکھوائے جس کے ذمے قرض ہو اور اسے اپنے رب، اللہ سے ڈرنا چاہیئے اور ( لکھواتے وقت ) وہ ( مقروض ) اس میں سے کوئی چیز کم نہ کرے ۔ لیکن اگر وہ فرد جس کے ذمے قرض ہو، نادان یا ضعیف ہو یا لکھوا نہ سکتا ہو تو اس کا ولی انصاف کے ساتھ لکھوائے، اور تم اپنے مسلمان مردوں میں سے دو گواہ بنا لو، پھر اگر دو مرد میسر نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں جنہیں تم گواہوں کے طور پر پسند کرو ( یہ اس لیے ) کہ ایک عورت بھول جائے تو ان میں سے دوسرے اُسے یاد دِلا دے۔ "

( سورۃ البقرہ 2 آیت 282)

قرآن کی یہ آیت صرف مالی معاملات اور لین دین کیلئے ہے۔ اس قسم کے معاملات میں یہ نصیحت کی گئی ہے کہ معاہدے کو دونوں فریقوں کے مابین لکھا جائے اور دو گواہ بنائے جائیں اور یہ کوشش کی جائے کہ وہ صرف مرد ہوں۔ اگر دو مرد نہ مل سکیں تو پھر ایک مرد اور دو عورتیں کافی ہیں۔

اسلامی شریعت مین مالی معاملات میں دو مردوں کو ترجیح دی جاتی ہے۔ اسلام مرد سے خاندان کی کفالت کی توقع کرتا ہے۔ چونکہ اقتصادی ذمہ داری مردوں پر ہے۔ اس لیے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ لین دین میں عورتوں کی نسبت زیادہ علم و آگہی رکھتے ہیں۔ دوسری صورت میں ایک مرد اور دو عورتیں گواہ ہوں گی کہ اگر ایک غلطی پر ہو تو دوسری اُسے یاد دِلا دے ۔ قرآن میں عربی لفظ "تَضِل" یا " بھول جاتا "، یوں صرف مالی معاملات میں دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کی گواہی کے برابر رکھی گئی ہے۔

قتل کے مقدمات میں نسوانی گواہی :

اس کے برعکس کچھ لوگوں کی رائے میں کہ عورتوں کی شہادت قتل کے معاملے میں بھی دوہری ہے، یعنی دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کی گواہی کے برابر ہے۔ اس قسم کے معاملات میں عورت ، مرد کی نسبت زیادہ خوفزدہ ہوتی ہے۔ وہ اپنی جذباتی حالت کی وجہ سے پریشان ہوسکتی ہے۔ اس لیے کچھ لوگوں کے نزدیک قتل کے مقدمات میں بھی دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کی گواہی کے برابر ہے۔

کچھ علماء کے نزدیک دو عورتوں اور ایک مرد کی گواہی کی برابری تمام معاملات کے لیے ہے۔ اس سے اتفاق نہیں کیا جاسکتا کیونکہ سورۃ نور میں ایک مرد اور ایک عورت کی گواہی کے بارے میں واضح طور پر بتایا گیا ہے:

وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ شُهَدَاءُ إِلا أَنْفُسُهُمْ فَشَهَادَةُ أَحَدِهِمْ أَرْبَعُ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنَ الصَّادِقِينَ (٦)وَالْخَامِسَةُ أَنَّ لَعْنَةَ اللَّهِ عَلَيْهِ إِنْ كَانَ مِنَ الْكَاذِبِينَ (٧)وَيَدْرَأُ عَنْهَا الْعَذَابَ أَنْ تَشْهَدَ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنَ الْكَاذِبِينَ (٨)وَالْخَامِسَةَ أَنَّ غَضَبَ اللَّهِ عَلَيْهَا إِنْ كَانَ مِنَ الصَّادِقِينَ (٩) ( سورۃ النور 24 آیات 6 تا 9)

" اور جو لوگ اپنی بیویوں پر الزام لگائیں اور ان کے پاس کوئی گواہ نہ ہو سوائے ان کی اپنی ذات کے ، تو ان مین سے اہر ایک کی شھادت اس طرح ہوگی کہ چار بار اللہ قسم کھا کر کہے کہ بے شک وہ سچوں میں سے ہے۔ اور پانچویں بار یہ کہے۔ اگر وہ جھوٹوں میں سے ہوتو اس پر اللہ کی لعنت ہو۔ اور اس عورت سے سزا تب ٹلتی ہے کہ وہ چار بار اللہ کی قسم کھا کر کہے کہ وہ بلا شبہ وہ ( اس کا شوہر ) جھوٹوں میں سے ہے اور پانچویں بار یہ کہے کہ اگر وہ ( شوہر ) سچوں میں سے ہوتو اس ( عورت ) پر اللہ کا غضب ہو۔

( سورۃ النور 24 آیات 6 تا 9)

حضرت عائشہ (رضی اللہ تعالی عنہ ) کی گواہی :

حضرت عائشہ (رضی اللہ تعالی عنہ ) سے ، جو ہمارے نبی (ﷺ) کی بیوی تھیں، کم و بیش 2220 کے قریب احادیث مروی ہیں۔ جو صرف ان کی واحد شہادت کی بدولت مستند ہیں، یہ امر اس کا واضح ثبوت ہے کہ صرف ایک عورت کی گواہی بھی قبول کی جاسکتی ہے۔

بہت سے علماء اس بات پر متفق ہیں کہ ایک عورت کی گواہی پہلی رات کا چاند دیکھنے کے لیے بھی کافی ہے۔ اندازہ کریں کہ روزہ رکھنے کے لیئے جو اسلام کے ارکان میں سے ایک اہم رکن ہے۔ ایک عورت کی گواہی کافی ہے اور اسکی گواہی پر تمام مسلمان مرد و عورتیں روزی رکھتے ہیں۔ کچھ فقہاء کے نزدیک آغازِ رمضان کے سلسلے میں ایک گواہی درکار ہے جبکہ اس کے ختم ہونے کے لیئے دو گواہیاں ضروری ہوں گی۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ گواہی دینے والے مرد ہوں یا عورتیں۔

بعض معاملات میں عورتوں ہی کی گواہی کو ترجیح حاصل ہے :

بعض معاملات میں صرف خاتون گواہ درکار ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر عورتوں کے مسائل عورت کی تدفین کے وقت غسل کے معاملات میں صرف عورت ہی کی گواہی مستند ہوگی۔ ایسے معاملات میں مرد کی گواہی قبول نہیں کی جاسکتی۔

مالی معاملات میں مرد اور عورت کی گواہیوں میں نظر آنے والی عدم مساوات اسلام کے نزدیک کسی صنفی عدم مساوات کی بنیاد پر نہیں بلکہ یہ صرف معاشرے میں عورتوں اور مردوں کی مختلف نوعیت اور مختلف کردادوں کی بناء پر ہے جو اسلام نے اُن کے لیئے متعین کیئے ہیں۔
 
Last edited:
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
سوال نمبر - 10


اسلام کا نظامِ وراثت غیر منصفانہ کیوں؟


اسلام کا نظامِ وراثت غیر منصفانہ کیوں؟

" اسلامی قوانینِ وراثت میں عورت کا حصہ مرد کی نسبت آدھا کیوں ہے؟ "

قرآن عظیم میں بہت سی آیات ہیں جن میں ورثے کی جائز تقسیم سے متعلق احکام بیان کئے گئے ہیں۔ مثلاً:

1) سورۃ بقرہ آیات: 180 اور 240

2) سورۃ النساء آیات: 7-9 اور آیات 19 اور 33

3) سورۃ مائدہ آیات: 106 تا 108


رشتہ داروں کا وراثت میں مخصوص حصہ :

قرآن مجید میں 3 آیات ہیں جو واضح طور پر قریبی رشتہ داروں کے وراثت میں مقررہ حصے بیان کرتی ہیں، جن میں سے دو درج زیل ہیں:

يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الأنْثَيَيْنِ فَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَإِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ وَلأبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِنْ كَانَ لَهُ وَلَدٌ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ وَوَرِثَهُ أَبَوَاهُ فَلأمِّهِ الثُّلُثُ فَإِنْ كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ فَلأمِّهِ السُّدُسُ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا أَوْ دَيْنٍ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا (١١)وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُنَّ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِينَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكُمْ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ وَإِنْ كَانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلالَةً أَوِ امْرَأَةٌ وَلَهُ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ فَإِنْ كَانُوا أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ فَهُمْ شُرَكَاءُ فِي الثُّلُثِ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصَى بِهَا أَوْ دَيْنٍ غَيْرَ مُضَارٍّ وَصِيَّةً مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَلِيمٌ (١٢)

" اللہ تمہیں تمہاری اولاد کے متعلق وصیت کرتا ہے: مرد کا حصہ دو عورتوں کے حصے کے برابر ہے۔ پھر اگر ( دو یا ) دو سے زیادہ عورتیں ہی ہوں تو ان کے لیئے ترکے میں دو تہائی حصہ ہے۔ اور اگر ایک ہی بیٹی ہو تو اس کے لیئے آدھا حصہ، اور اس ( مرنے والے ٰ) کے والدین میں سے ایک کے لیئے ترکے میں چھٹا حصہ ہے اگر اس کی اولاد ہو ، لیکن اگر اس کی اولاد نہیں اور والدین ہی اس کے وارث ہوں تو اس کی ماں کے لیئے تیسرا حصہ ہے اور اس کے ( ایک سے زیادہ بھائی بہن ہوں تو اس کی ماں کے لیئے چھٹا حصہ ہے۔ ( یہ تقسیم ) اس کی وصیت پر عمل یا قرض کی ادائیگی کے بعد ہوگی۔ تم نہیں جانتے کہ تہمارے والدین یا اولاد میں سے کون بلحاظ نفع تمہارے زیادہ قریب ہے۔ یہ ( اللہ ) کی طرف سے مقرر ہے۔ بے شک اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے۔ اور جو کچھ تمہاری بیویاں چھوڑ جائیں اس میں تمہارا نصف حصہ ہے اگر ان کی کوئی اولاد نہ ہو، لیکن اگر ان کی کوئی اولاد ہو تو ان کے ترکے میں تمہارا چوتھا حصہ ےہ۔ ( یہ تقسیم ) ان کی وصیت پر عمل یا قرض کی ادائیگی کے بعد ہوگی۔ اور اگر تمہاری اولاد نہ ہوتو تہمارے ترکے میں تمہاری بیویوں کا چوتھا حصہ ہے، لیکن اگر تمہاری اولاد ہو تو تمہارے ترکے میں ان کا آٹھواں حصہ ہے۔ ( یہ تقسیم ) تہماری وصیت پر عمل یا ادائیگی قرض کے بعد ہوگی۔ اور اگر وہ آدمی جس کا ورثہ تقسیم کیا جارہا ہے۔ اُس کا بیٹا نہ ہو باپ، یا ایسی ہی عورت ہو اور اس کا ایک بھائی یا ایک بہن ہو تو ان دونوں میں سے ہر ایک کے لیئے چھٹا حصہ ہے۔ لیکن اگر ان کی تعداد اس سے زیادہ ہو تو وہ سب ایک تہائی حصے میں شریک ہوں گے۔ ( یہ تقسیم ) اس کی وصیت پر عمل یا قرض ادا کرنے کے بعد ہوگی جبکہ وہ کسی کو نقصان پہنچانے والا نہ ہو۔ یہ اللہ کی طرف سے تاکید ہے اور اللہ خوب جاننے والا بڑے حوصلے والا ہے۔

( سورۃ النساء ، ایات 11 و 12 )

مزید فرمایا:

يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلالَةِ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ لَيْسَ لَهُ وَلَدٌ وَلَهُ أُخْتٌ فَلَهَا نِصْفُ مَا تَرَكَ وَهُوَ يَرِثُهَا إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهَا وَلَدٌ فَإِنْ كَانَتَا اثْنَتَيْنِ فَلَهُمَا الثُّلُثَانِ مِمَّا تَرَكَ وَإِنْ كَانُوا إِخْوَةً رِجَالا وَنِسَاءً فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الأنْثَيَيْنِ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ أَنْ تَضِلُّوا وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ (١٧٦)

" اے نبی (ﷺ) ! لوگ آپ سے فتوٰی مانگتے ہیں۔ آپ کہہ دیجئے کہ اللہ تعالیٰ (خود) تمہیں کلالہ کے بارے میں فتویٰ دیتا ہے۔ کہ اگر کوئی شخص مر جائے جس کی اولاد نہ ہو اور ایک بہن ہو تو اس چھوڑے ہوئے مال کا آدھا حصہ ہے اور وہ بھائی اس بہن کا وارث ہو گا اگر اس کے اولاد نہ ہو پس اگر بہن دو ہوں تو انہیں کل چھوڑے ہوئے کا دو تہائی ملے گا اور کئی شخص اس ناطے کے ہیں مرد بھی عورتیں بھی تو مرد کے لئے حصہ ہے مثل دو عورتوں کے اللہ تعالیٰ تمہارے لئے بیان فرما رہا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ تم بہک جاؤ اور اللہ تعالیٰ ہر چیز سے واقف ہے۔

( سورۃ النساء 4 آیت 176)

عورت کا حصہ برابر بلکہ " دوگنا " بھی ہوسکتا ہے :

وراثت کلی اکثر صورتوں میں عورتوں کو مردوں کا نصف ملتا ہے ، تاہم یہ ہمیشہ نہیں ہوتا۔ اگر مرنے والے کے ماں باُ یا کوئی بیٹا بیٹی نہ ہوں لیکن اخیافی ( ماں کی طرف سے سگے ) بائی اور بہن ہوں تو دونوں میں سے اہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا۔ اور اگر مرنے والے نے بچے چھوڑے ہوں تو ماں اور باپ دونوں میں سے ہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا۔

بعض صورتوں میں ایک عورت کو مرد کی نسبت دوگنا حصہ بھی مل سکتا ہے۔ اگر مرنے والی عورت ہو اور اس کے بچے اور بھائی بہن نہ ہوں۔ اور اس کا شوہر اور ماں باپ وارث ہوں تو شوہر کو آدھی جائیداد جبکہ ماں ماں کو تیسرا حصہ اور باپ کو باقی چھٹا حصہ ملے گا۔

اس معاملے میں بھی ماں کا حصہ باپ سے دوگنا ہے -

مردوں کی نسبت خواتین کا حصہ نصف کب ہے ؟

یہ ٹھیک ہے کہ عام قاعدے کے مطابق عورتیں مرد کی نسبت وراثت میں آدھا حصہ لیتی ہیں ، مثلاً درج ذیل صورتوں میں:

  • بیٹی کو وراثت میں بیٹے سے نصف ملے گا۔
  • عورت کو آٹھواں حصہ ملے گا اور شوہر کو چوتھا، اگر مرنے والے / والی اولاد ہو۔
  • عورت کو چوتھا حصہ اور شوہر کو آدھا ملے گا اگر مرحوم / مرحومہ کی اولاد نہ ہو۔
  • اگر مرنے والے کے ماں باپ یا اولاد نہ ہو تو بہن کو بھائی کے کل ترکے کا نصف ملے گا۔
مرد کا حصہ دوگنا کیوں؟

اسلام میں خاندان کی کفالت کی ذمہ داری مرد پر ہے۔ شادی سے پہلے باپ یا بھائی کی ذمہ داری ہے کہ وہ عورت کی رہائش، لباس اور دوسری مالی ضروریات پوری کرے اور شادی کے بعد یہ ذمہ داری شوہر یا بیٹے کی ہے۔ اسلام مرد کو پابند کرتا ہے کہ وہ خادنان کی مالی ضروریات کا ذمہ دار ہے۔ اس ذمہ داری کو پورا کرنے کے لیئے اس وراثت میں دوگنا حصہ ملتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر ایک شخص ڈیڈھ لاکھ روپیہ چھوڑ کر مرجائے جس کی ایک بیٹی اور ایک بیٹا ہو تو بیٹے کو ایک لاکھ اور بیٹی کو 50 ہزار ملیں گے۔ ایک لاکھ روپے جو بیٹے کو ورثے میں ملیں گے وہ ان میں خاندان کی کفالت کا زمہ دار ہے۔ اور ہوسکتا ہے وہ خادنان پر تمام رقم یا یوں کہیئے 80 ہزار روپے خرچ کردے۔ یوں درحقیقت اسے ورثے میں سے بہت کم حصہ ملے گا، یعنی 20 ہزار روپے، دوسری طرف بیٹی جس کو 50 ہزار ملیں گے وہ کسی پر ایک روپیہ بھی خرچ کرنے کی پابند نہیں۔ وہ تمام رقم خود رکھ سکتی ہے، کیا آپ وہ ایک لاکھ روپے لینے کو ترجیح دیں گے جن میں سے آپ کو 80 ہزار روپے یا زائد رقم اوروں پر خرچ کرنی پڑے یا وہ 50 ہزار روپے لیں گے جو مکمل طور پر آپ ہی کے ہوں؟
 
Last edited:
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
سوال نمبر - 11


شراب کی ممانعت میں کیا حکمت ہے ؟


شراب کی ممانعت میں کیا حکمت ہے ؟

"شراب کا استعمال اسلام میں کیوں حرام کیا گیا ہے ؟ "

قدیم وقتوں سے شراب انسانی معاشرے کے لیے مصیبت اور عذاب کا باعث بنتی چلی آرہی ہے، آج پوری دنیا میں ان گنت انسانی جانیں اس اُم الخبائث کی نذر ہوتی ہیں۔ اور لاکھوں انسان شراب نوشی کے نتیجے میں مصائب کا شکار ہوتے ہیں۔ معاشرے کے بہت سے مسائل کی جڑ یہی شراب خانہ خراب ہے۔ جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح، بڑھتی ہوئی ذہنی بیماریاں اور لاکھوں کی تعداد میں ٹوٹنے والے گھر شراب ہی کی تباہ کاریوں کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

قرآن میں شراب کی ممانعت :

قرآن عظیم میں شراب کی ممانعت کا حکم مندرجہ ذیل آیت میں آیا ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالأنْصَابُ وَالأزْلامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (٩٠)

" اے ایمان والو! شراب ، جوا، بُتوں کے آستانے اور فال کے تیر سب گندے کام ہیں۔ ان سے بچو تا کہ تم کامیاب ہوجاؤ۔"

( سورۃ المائدہ 5 آیت 90)

بائبل میں شراب کی ممانعت :

بائبل میں شراب نوشی کو مندرجہ ذیل فقرات میں منع کیا گیا ہے۔ عہد نامہ عتیق کی کتاب امثال میں ہے:

" شراب ایک فریبی مشروب ہے، بلا نوشی غضبناک ہے، جو بھی اس کے فریب میں آتا ہے یہ اُسے دیوانہ کردیتی ہے۔" ( امثال 20/1 )

اور عہد نامہ جدید میں کہا گیا ہے:

"اور شراب میں دھت نہ رہو۔" ( افسیوں کے نام خط : 5/18)

شراب بدی کے خلاف، مدافعاتی نظام کو معطل کرتی ہے۔

انسان کے دل و دماغ میں بُرائی سے روکنے والا نظام ہوتا ہے جسے نفس لوّامہ کہتے ہیں۔ یہ نفس لوّانہ انسان کو غلط کام کرنے سے روکتا ہے۔ مثلاً ایک آدمی عام طور پر اپنے ماں باپ اور بڑوں سے بات کرتے وقت بُری زبان استعمال نہیں کرتا۔ اسے رفع حاجت ضرورت پیش آجاتی ہے تو نفس لوامہ اسے اوروں کے سامنے ایسا کرنے سے روکتا ہے۔ اس لیے وہ بیت الخلاء ہے یا دُور جاکر اوٹ میں قضائے حاجت سے فارغ ہوتا ہے۔

جب ایک شرخ شراب پیتا ہے تو اُسے برائی سے روکنے والا نظام خود ہی رُک جاتا ہے۔ چنانچہ وہ ایسی حرکات کرتا ہے جو اس کے خصائل میں شامل نہیں ہوتیں۔ مثال کے طور پر وہ شراب کے نشے میں بُری اوار غلیظ زبان استعمال کرتا ہے وہ اپنی غلطی محسوس نہیں کرسکتا، خواہ وہ اپنے ماں باپ سے ہی مخاطب ہو۔ بہت سے شرابی اپنے کپڑوں میں پیشاب بھی کردیتے ہیں۔ وہ صحیح طریقے سے بات کرسکتے ہیں نہ ٹھیک طریقے سے چل سکتے ہیں حتی کہ مار پیٹ پر بھی اُتر آتے ہیں۔

شراب، خوری اور کبیرہ گناہوں کا ارتکاب :

امریکی محکمہ انصاف کے بیورو آف جسٹس کے ایک سروے کے مطابق امریکہ میں صف 1996ء کے دوران میں زناء بالجبر کے روزانہ 2713 واقعات پیش آئیے۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ان زانیوں میں اکثیرت ان کی تھی جو ارتکاب کے وقت نشے میں مدہوش تھے۔ عورتوں سے چھیڑ چھاڑ کے زیادہ تر واقعات بھی مجرموں کی شراب نوشی کا نتیجہ تھے۔

اعداد و شمار کے مطابق 8 فیصد امریکی محرمات سے مباشرت کرتے ہیں۔ یعنی ہر بارہ میں سے ایک شخص اس گناہ میں ملوث ہے۔ ایسے تقریباً تمام واقعات میں کوئی ایک نشے میں ہوتا ہے یا دونوں۔

ایڈز جيسی خوفناک بیماری کے پھیلنے کی ایک بڑی وجہ شراب نوشی ہے۔

کبھی کبھار شراب نوشی :

بہت سے لوگ یہ کہتے ہیں کہ وہ تو سماجی شرابی ہیں۔ یعنی کبھی کبھار موقع ملے پر پی لیتے ہیں، وہ یہ دعوٰ کرتے ہیں کہ وہ بلا نوش نہیں اور صرف ایک یا دو جام پیتے ہیں، انہیں خود پر کنڑول ہوتا ہے اور ان کو نشہ نہیں ہوتا۔ تحقیقات بتاتی ہیں کہ شروع میں ہر بلا نوش سماجی شرابی ہوتا ہے، ایک بلا نوش بھی یہ سوچ کر شراب پینا شروع نہیں کرتا کہ وہ عادی شراب نوش بننا چاہتا ہے۔ کوئی بھی سماجی شرابی یہ نہیں کہ سکتا کہ میں کئی سال سے شراب پی رہا ہوں اور مجھے اپنے آپ پر اتنا کنڑول ہے کہ میں ایک دفعہ بھی نشے کا شکار نہیں ہوا۔

چُھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی :

فرض کریں کہ ایک " سماجی شرابی " صرف ایک دفعہ ضبط نفس کھو بیٹھتا ہے۔ نشے کی حالت میں وہ زنا بالجبر یا اپنی کسی محرم سے مباشرت کر گزرتا ہے۔ اس کے بعد وہ پچھتائے اور شرمندہ بھی ہو تب بھی احساس جرم ساری زندگی اس کے ساتھ رہے گا۔ زنا کا مرتکب اور اس کا شکار ہونے والی عورت دونوں کو ناقابلِ تلافی نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔

حدیث میں شراب کی ممانعت :

سنن ابن ماجہ کی کتاب نمبر 30 میں شراب کی واضح حرمت آئی ہے۔ نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا:

" لا تشرب الخمر، فانھا مفتاح کل شر "

" شراب مت پیو، بے شک یہ ہر بُرانی کی چابی ہے۔"

( سنن ابن ماجہ، باب الخمر مفتاح کل شر، حدیث 3371)

" کل مسکر حرام وما اسکر کثیرہ فقلیلہ حرام "
" ہر نشہ لانے والی شے حرام ہے، اور جس کی زیادہ مقدار نشہ لائے اس کی تھوڑی بھی حرام ہے "

( سنن ابن ماجہ، الأشربہ، الأشربہ، باب ماأسکر کثیرہ فقلیلہ حرام، حدیث : 3392)

گویا شراب کا چھوٹا گھونٹ اور چُسکی بھی حرام ہے :

نہ سرفف وہ لوگ جو شراب پیتے ہیں۔ ان پر اللہ کی لعنت ہے بلکہ وہ لوگ جو بالواسطہ یا بلا واسطہ اس کا لین دین کرتے ہیں اُن پر بھی اللہ کی لعنت ہے۔

حضرت انس (رضی اللہ تعالی عنہ) سے روایت ہے کہ نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا:

" لُعنت الخمر علی عشرۃ اوجہ: بعینھا و عاصرھا، و معتصرھا، و بائعدا، و مبتاعھا، وحاملھا، والمحمولہ الیہ، واکل چمنِھا، و شاربھا وساقیھا۔

"اللہ نے شراب پر دس وجوہ سے لعنت فرمائی ہے۔ () نفس شراب پر () اسے کشید کرنے والے پر () جس کے لیئے کشید کی جائے اس پر () اس کے بیچنے والے پر () اور جو اسے خریدے اس پر () شراب لے جانے والے پر () اور جس کی طرف لے جائی جائے اس پر () شراب کی قیمت کھانے والے پر () اسے پینے () اور پلانے والے پر " ( )

(سنن ابن ماجہ، الأشربہ، باب لعنت الخمر علی عشرہ أوجہ ، حدیث: 3380)

شراب سے لاحق ہونے والی بیماریاں :

شراب اور دوسری نشہ آور اشیاء کے اسستعمال سے منع کرنے کی بہت سی سائنسی وجوہ بھی ہیں۔ دنیا مین شراب نوشی کے باعث سب سے زیادہ اموات واقع ہوتی ہیں۔ ہر سال شراب نوشی کی وجہ سے لاکھوں افارد مرجاتے ہیں۔ مجھے شراب کے تمام بُرے اثرات کی تفصیلات میں جانے کی ضرورت نہیں لیکن عام طور پا س اس سے جو بیماریاں لاحق ہوتی ہیں ان میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:

1) جگر کا سرطان بہت مشہور بیماری ہے، جو شراب نوشی کی وجہ سے لگتی ہے۔

2) معدے کی نالی کا شرطان ، بڑی آنت کا سرطان وغیرہ۔

3) معدے کی نالی، معدے ، لبلبےاور جگر کی سوزش کا تعلق شراب نوشی سے ہے۔

4) دل کے عضلات کا تباہ ہوجانا
(Cardiomyopathy)، بلڈ پریشر کابڑھنا (Hypertension) ، دل کی شریان کا خراب ہونا (Coronary Artherosclerosis) دل کی تکلیف ( انجائنا) اور دل ککے دورے ، ان تمام عوارض کا تعلق کثرت ِ شراب نوشی سے ہے۔

5) مختلف اعصابی و دماغی امراض
(Peripheral Neuropathy, Cortical Atrophy,;) اور فالج کی مختلف اقسام میں پچھلے واقعات اک بار بار دہرانا بھی شراب نوشی کی کثرت سے رونما ہونے والی تھایا مین کی قلت کا نتیجہ ہے۔

6) یاداشت کا خرا ہونا
(Werincke-Korsakoff Syndrome with Ammesia)

7) بیری بیری کا مرض اور دوسری بیماریاں بھی شراب نوشوں میں عام ہیں۔

8) ڈیلیریم ٹریمنس شراب نوشی سے بار بار لاحق ہونے والا سنگین عارضہ ہے۔ جو بعض اوقات آپریشن کے بعدرونما ہوتا ہے۔ بوض اوقات یہ موت کا باعث بن جاتا ہے۔ ذہنی اختلال، دہشت ، گھبراہٹ اور وہم اس کی علامات ہیں۔

9) اینڈوکرائن ( درون افرازی ) غدود کی خرابیاں، مثلاً

Mxyodema, Hyperthyroidism, Florid cushing

10) کون کے سرخ ذرات کے عوارض ، فولک ایسڈ کی کمی، خون کی کمی اور اسکے نتیجے میں
Mycirocytic Anemia اور خون میں سرخ ذرات کی کمی (انیمیا) اور یرقان وغیرہ کی بیماریاں بھی شراب نوشی کے باعث پیدا ہوتی ہیں۔

11) خون کےکے سفید ذرات
(Platelets) میں کمی اور ان کی دیگر خرابیاں

12) عام استعمال ہونے والی دوائی فلیجل (میٹرو نیڈازول) کا شراب کے ساتھ بہت بُرا ردِ عمل ہوتا ہے۔

13) جسم کا بار بار عفونت
(Infection) میں مبتلاء ہونا اور بیماریوں کے خلاف مدافعتی نظام میں خرابی کثرت سے اور طویل عرصے تک شراب نوشی کا نتیجہ ہیں۔

14) چھاتی کی عفونت ، نمونیا ، پھیپھڑوں میں سوزش، ہوائی چھالا
(Emphysema) اور پھیپھڑوں کی دق (ٹی بی) یہ سب شراب سے پیدا ہونے والی عام بیماریاں ہیں۔

15) بلانوش نشے میں عموماً قے کرتاہے۔ وہ عضلات جو سانس کی نالی کو محفوظ رکتھے ہیں، مفلوج ہوجاتے ہیں تو قے عموماً پھیپھڑوں میں چلی جاتی ہے۔ جو نمونیئے اور پھیپھڑوں میں خرابی کا باعث بنتی ہے، بعض اوقات اس کی وجہ سے دم گھٹ جاتاہے اور موت واقع ہوجاتی ہیے۔

16) عورتوں میں شراب کے اثرات زیادہ شدید ہوتے ہیں۔ شرابی عورتوں میں مردوں کی نسبت جگر کے خلیات کی توڑ پھوڑ زیادہ ہوتی ہے۔ خاص طو رپر حاملہ عورت مین شراب کے استعمال سے نومولود پر بہت بُرا اثر پڑتا ہے۔

17) جلد کی بیماریاں بھی شراب نوشی کی بدولت ہوتی ہیں۔

18) جلدی بیماریاں، گنجا پن
(Alopecia)، ناخنوں کا ٹوٹنا، ناخنوں کے گرد عفونت (Infection) اور باچھوں میں

19) سوزش بھی شراب نوشی سے پیدا ہونے والی عام بیماریاں ہیں۔


شراب نوشی ایک بیماری ہے :

ڈاکٹر اب شراب کے معاملے میں آزاد خیال ہوگئے ہیں اور انہوں نے اس کو نشے سے زیادہ بیماری کا نام دے دیا ہے۔

اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن نے ایک پمفلٹ شائع کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اگر شراب ایک بیماری ہے تو یہ واحد بیماری ہے جو:

1) بوتلوں میں بیچی جاتی ہے۔

2) اس کے اختبارات اور جرائد میں اور ریڈیو و ٹیلی ویژن پر تشہیر کی جاتی ہے۔

3) شراب نوشی کے اڈوں کا لائسنس دیا جاتا ہے۔

4) یہ گورنمنٹ کے لیئے ریونیو اکٹھا کرتی ہے۔

5) بڑی شاہراہوں پر خوفناک اموات کا باعث بنتی ہے۔

6) خانگی زندگی کو تباہ کردیتی ہے۔ اور جرائم کی شرح میں اضافہ کرتی ہے۔

7) یہ جراثیم یا وائرس کے بغیر ہی بنی نوع انسان کے لیے تباہی لاتی ہے۔


شراب نوشی شیطانی ہتھکنڈا ہے :

شراب نوشی محض بیماری نہیں، شیطانی ہتھکنڈا ہے، اللہ جل جلالہ نے اپنی بے پایاں حکمت سے ہمیں شیطان کے پھندے سے بچنے کے لیے خبردار کیا ہے۔ اسلام دینِ فطرت ہے ۔ یہ انسان کا فطری مذہب ہے، اس کے تمام احکامات انسان کی اسلی اور فطری حالت برقرار رکھنے کیلئے ہیں، لیکن شراب ایک فرد اور ایک معاشرے کو اس کی فطرت سے ہٹا دیتی ہے، یہ انسان کو حیوان کے درجے سے بھی گرا دیتی ہے۔ حالانکہ وہ اشرف المخلوقات ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ ان تمام وجوہ کی بناء پر اسلام میں شراب حرام ہے۔
 
Last edited by a moderator:
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
سوال نمبر - 12


سؤر کا گوشت حرام کیوں ہے؟


سؤر کا گوشت حرام کیوں ہے؟


" سؤر کا گوشت کھانا اسلام میں کیوں منع ہے؟ "

اسلام میں سؤر کا گوشت حرام ہے، یہ حقیقت بہت واضح ہے ، مندرجہ ذیل نکات اس کی وضاحت کرتے ہیں کہ یہ کیوں حرام ہے:

قرآن میں سؤر کے گوشت کی ممانعت :

قرآن میں سؤر کا گوشت کھانے سے کم و بیش 4 جگہ منع فرمایا گیا ہے۔ یہ ممانعت ان آیات 2/173، 5/3، 6/145، اور 16/115 میں آئی ہے۔

ارشاد باری تعالٰی ہے۔:

حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ (سورۃ المائدہ 5 آیت 3)

" تمہارے لیئے حرام کیا گیا ہے۔ مردہ جانور اورخون اور سؤر کا گوشت اور جس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو۔ "

( سورۃ المائدہ 5 آیت 3)

یہ آیات مسلمانوں کو مطمئن کرنے کیلئے کافی ہیں کہ سؤر کا گوشت کیوں منع کیا گیا ہے، تاہم عیسائی اپنی مذہبی کتاب کے حوالے سے قائل ہوسکتے ہیں۔

بائبل میں سؤر کے گوشت کی ممانعت :

بائبل میں عہد نامہ عتیق کی کتاب احبار (Leviticus) میں لکھا ہے۔

" اور سؤر نہ کھانا کیونکہ اس کے پاؤں الگ اور چرے ہوئے ہیں۔ ہر چند وہ جگالی نہیں کرتا۔ وہ تمہارے لیے ناپاکک ہے، تم ان کا گوشت نہ کھانا اور ان کی لاشوں کو بھی نہ چھونا، وہ تمہارے لیئے ناپاک ہیں۔ (احبار: 11/8-7)

سؤر کا گوشت بائبل کی کتاب استثناء (Deuteronomy) میں بھی منع کیا گیا ہے:

" اور سؤر تمہارے واسطے ناپاک ہے کہ اس کے پاؤں تو چرے ہوتے ہیں مگر وہ جگالی نہیں کرتا۔ تم ان کا گوشت نہ کھانا نہ ان کی لاش کو چھونا۔ "
(استثناء: 14/8)

اسی طرح بائبل کی کتاب یسعیاہ (Isaiah) بات 65 فقرہ2 تا 5 میں بھی سؤر کا گوشت کھانے سے منع کیا گیا ہے۔

سؤر کا گوشت 70 بیماریوں کا سبب بنتا ہے:

دوسرے غیر مسلم اور دہریئے اس حقیقت کو اُسی وقت تسلیم کریں گے جب ان کو عقلی دلیل اور سائنس کی بنیاد پر سمجھایا جائے گا کہ سؤر کا گوشت مختلف قسم کی کم از کم ستر بیماریوں کا باعث بنتا ہے ۔ اسے کھانے والے کے معدے اور آنتوں میں کئی قسم کے کیڑے پیدا ہوسکتے ہیں۔ مثلاً راؤنڈ ورم ( پیٹ کے کیڑے)، پن ورم، ہک ورم، ان میں سے خطرناک ٹیپ ورم یا Taenia Solium ہے جس کو عام زبان میں کدو دانہ کہتے ہیں۔ یہ آنتوں میں ہوتا ہے اور بہت لمبا ہوتا ہے، اس کا انڈا خون میں شامل ہوکر تقریباً تمام اعضاء تک پہنچ جاتا ہے۔ اگر یہ دماغ میں چلا جائے تو یاداشت کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ اگر دِل میں پہنچ جائے تو دل کے دورے کا باعث بنتا ہے۔ اگر آنکھ میں داخل ہوجائے تو اندھا پن پیدا کرسکتا ہے۔ل اگر جگر میں داخل ہوجائے تو جگر کو نقصان پہنچا سکتا ہے، غرضیکہ یہ جسم کے تقریباً تما حصوں کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔

ایک غلط خیال یہ ہے کہ اگر صور کا گوشت اچھے طریقے سے پکایا جائے تو مضر کیڑوں کے انڈے مر جاتے ہیں۔ امریکہ میں ایک تحقیقی جائزے سے پتہ چلا کہ 24 افراد جو Trichura-Tichurasis نامی بیماری میں مبتلاء ہوئے، ان میں سے 22 نے سؤر کا گوشت اچھی طرح پکایا تھا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس کے گوشت میں موجود جراثیم کے انڈے تیز درجہ حرارت پر پکانے سے بھی نہیں مرتے۔

سؤر کا گوشت چربی پیدا کرتاہے :

سؤر کے گوشت میں عضلات ساز مادہ کم اور حد سے زیادہ چربی ہوتی ہے۔ یہ چربی خون کی نالیوں میں جم جاتی ہے جو فالج اور دل کے دورے کا باعث بنتی ہے، یہ کوئی حیران کن بات نہیں کہ 50 فیصد امریکی ہائی بلڈ پریشر کا شکار ہیں۔

زمین کا غلیظ ترین جانور :

سؤر روئے زمین کا غلیظ ترین جانور ہے، یہ گوبر ، فضلے اور گندگی پر پھلتا پھولتا ہے۔ اسے اللہ تعالی نے غلاظت خور اور سب سے زیادہ گندگیی پر گزارہ کرنے والا جانور بنایا ہے۔ دیہات عموماً لیٹرینز اور بیت الخلاء نہیں ہوتے، اس لیے لوگ کھلی جگہوں پر رفع حاجت کرت ہیں۔ اور اکثر اس غلاظت کو سؤر ہی چٹ کرتے ہیں۔

کوئی یہ دلیل دے سکتا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک جیسے آسٹیلیا وغہیرہ میں سؤروں کو بڑی صاف ستھری جگہ پالا جاتاہے۔ ان صاف جگہوں پر بھی ان کو باڑوں میں رکھا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کہ سؤروں کو کتنی ہی صاف ستھری جگہ پر رکھا جائے، اس سے کچھ فرق نہں پڑتا، یہ فطرتاً گندے ہیں۔ وہ نہ صرف اپنا بلکہ اپنے ساتھ والے کا فضلہ بھی کھا جاتے ہیں۔

سؤر بے شرم جانور ہے :

خنزیر زمین پر پایا جانے والا سے زیادہ بے شرم جانور ہے۔ یہ واحد جانور ہے جو دیگر سؤروں کو ترغیب دیتا ہے کہ وہ اس کی ساتھی سؤرنی کے ساتھ جنسی فعل کریں۔ امریکہ میں اکثر لوگ اس کا گوشت کھاتے ہیں، کئی دفعہ محفلِ رقض ( ڈانس پارٹی ) کے بعد وہ اپنی بیویاں بدل لیتے ہیں، اور کہتے ہیں۔ " تم میری بیوی کے ساتھ سو جاؤ اور میں تمہاری بیوی کے ساتھ ہمبستر ہوں گا۔ " ظاہر ہے کہ جو لوگ سؤر کا گوشت کھائیں گے وہ اسی طرح کریں گے۔

جاری ہے -----
 
Last edited:
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
سوال نمبر - 13


اسلام میں گوشت خوری کی اجازت کیوں؟


اسلام میں گوشت خوری کی اجازت کیوں؟

" جانور ہلاک کرنا ایک ظالمانہ فعل ہے۔ پھر مسلمان گوشت کیوں کھاتے ہیں ؟"

سبزی خور (Vegetarians) اب پوری دنیا میں ایک تحریک بن گئی ہے۔ کچھ لوگ اسے جانوروں کے حقوق سے جوڑتے ہیں، دراصل لوگوں کی ایک بڑی تعداد گوشت اور دوسری غیر نباتاتی اشیاء کے بطور خوراک استعمال کو جانوروں کے حقوق کی خلاف ورزی سمجھتی ہے۔

اسلام تمام جانداروں سے رحم اور اچھے سلوک کی تلقین کرتا ہے۔ اس کے ساتھ یہ اسلام یہ بھی کہتا ہے کہ اللہ نے زمین پر سبزہ اور حیوانات انسان کے فائدے کے لیے پیدا کیئے ہیں۔ اب یہ انسان پر منحصر ہےئ کہ وہ ہر وسیلے کو کس طرح عدل کے ساتھ اللہ کی نعمت اور امانت کے طور پر استعمال کرتا ہے۔

اب ہم اس دلیل کے دوسرے پہلوؤں پر غور کرتے ہیں :

مسلمان خالص سبزی خور ہوسکتا ہے :

ایک مسلمان سبزی خور ہرکر بھی بہت اچھا مسلمان ہوسکتا ہے۔ مسلمانوں کے لیے ضروری نہیں کہ وہ گوشت خور ہی ہوں۔

گوشت خوری کی اجازت :

قرآن کی رُو سے مسلمانوں کو گوشت کھانے کی اجازت ہے، مندرجہ ذیل قرآنی آیات اس ثبوت ہیں۔"

وَالأنْعَامَ خَلَقَهَا لَكُمْ فِيهَا دِفْءٌ وَمَنَافِعُ وَمِنْهَا تَأْكُلُونَ (٥)

"اُس (اللہ) نے تمہارے لیئے مویشی بنائے، جن ( کے اُون ) میں تمہارے لیے سردی سے بچاؤ اور بہت سے فائندے ہیں اور تم ان میں سے بوض کا گوشت کھاتے ہو۔ "

(سورۃ النحل 16 آیت 5)

وَإِنَّ لَكُمْ فِي الأنْعَامِ لَعِبْرَةً نُسْقِيكُمْ مِمَّا فِي بُطُونِهَا وَلَكُمْ فِيهَا مَنَافِعُ كَثِيرَةٌ وَمِنْهَا تَأْكُلُونَ (٢١)

" اور بلا شبہ مویشیوں میں تمہارے لیے ضرور ( سامان ) عبر ہے۔ ہم تمہیں اس میں سے پلاتے ہیں جو ان کے پیٹوں میں ( دودھ ) ہے۔ اور تمہارے لیے ان میں بے شمار فائدے ہیں اور تم ان میں سے بعض کا گوشت کھاتے ہیں۔

( سورۃ المؤمنون 23 آیت 21)

گوشت غذائیت اور پروٹین سے بھرپور ہے :

غیر نباتاتی، یعنی انڈا، مچھلی اور گوشت پروٹین کا بہت اچھا ذریعہ ہے۔ اس میں حیاتیاتی طور پر مکمل پروٹین یعنی 8 ضروری امائنو ایسڈز پائے جاتے ہیں جنہیں جسم تیار نہیں کرتا، اس لیے یہ خوراک کے ذریعے سے لیے جانے چاہیئیں، گوشت میں فولاد ، وٹامن بی ون اور نیاسن (Niacin) بھی شامل ہوتے ہیں۔

انسانی دانت ہمہ خور ہیں :

اگر آپ سبزی خور جانوروں، یعنی گائے ، بھیڑ اور بکری وغیرہ کے دانتوں کا مشاہدی کریں تو آپ انہیں حیران کن حد تک ایک جیسا پائیں گے۔ ان تمام جانوروں کے دانت چوڑے ہوتے ہیں جو سبز پتوں والی خوراک کے لیئے موزوں ہیں اور اگر آپ گوشت خور جانوروں چیتے، شیر، کتے وغیرہ کے دانتوں کا مشاہدہ کریں تو ان کے دانت نوکیلئے ہوتے ہیں۔ جو گوشت خوری کیلئے موزروں ہیں۔ اور اگر آپ انسانی دانتوں کا مشاہدہ کریں توآپ دیکھیں گے کہ ان میں چوڑے اور نوکیلیے دونوں قسم کے دانت پائے جاتے ہی۔ اس لیے ان کے دانت سبزی اور گوشت دونوں قسم کی خوراک کے لیے موزوں ہیں یعنی وہ ہمہ خور ہیں۔ ایک سوال یہ پوچھا جاسکتا ہے کہ اگر اللہ نے انسان کو محض سبزی خور بنایا ہوتا اس اس کے نوکیلئے دانت کیوں ہوتے؟ یہ منطقی بات ہے کہ وہ جانتا تھا کہ انسان کو دونوں قسم کی خوراک کی ضرورت پڑے گی۔

انسان کا نظام انہظام :

چرندوں کا نظامِ انہظام صرف پتوں والی خوراک ہضم کرسکتا ہے اور گوشت خور جانوروں کا نظامِ انہظام صرف گوشت ہضم کرسکتا ہے۔ لیکن انسان کا نظامِ انہظام سبزیوں اور گوشت دونوں قسم کی غذا ہضم کرسکتا ہے۔ اگر الل ہیہ چاہتا کہ ہم صرف سبزیاں کھائیں تو پھر اس نے ہمیں ایسا نظامِ انہظام کیوں دیا جو سبزیوں اور گوشت دونوں قسم کی غذاؤں کو ہضم کرسکے؟

ہندوؤں کی مذہبی کتب میں گوشت خوری کی اجازت :

بہت سے ہندو ایسے ہیں جو سختی سے سبزی کھانے کے پابند ہیں، ان کا خیال ہے کہ یہ بات ان کے مذہب کے خلاف ہے کہ وہ غیر نباتانی خوراک، یونی گوشت وغیرہ استعمال کریں لیکن حقیقت ی ہے کہ ہندوؤں کی مذہبی کتابیں اپنے پیروکاروں کو گوشت کھانے کی اجازت دیتی ہیں، ان میں لکھا ہے کہ ہندو رِشی اور مُنی ( بزرگ اور عالم ) گوشت کھاتے رہے۔

ہندؤں کی کتاب " منوسمرتی " کے باب نمبر 5 کی 30 ویں سطر میں ہے :

" جو شخص ( ان جانوروں کا ) گوشت کھائے جن کا گوشت کھانا چاہیئے تو وہ کوئی بُرا کام نہیں کرتا خواہ وہ ایسا روزانہ کرے کیونکہ خدا نے کچھ چیزیں کھائے جانے کے لیئے پیدا کی ہیں اور کچھ کو ان چیزوں کو کھانے کے لیے پیدا کیا ہے "

اور " منو سمرتی " ہی کے باب 5 کی سطر 31 میں لکھا ہوا ہے :

" قربانی کا گوشت کھانا صحیح ہے کیونکہ یہی دیوتاؤں کا روایتی طریقہ ہے۔"

اور " منوسمرتی " ہی کے باب 5 کی سطور، 40، 39 میں یہ جملہ بھی موجود ہے۔:

"خدا نے خود ہی قربان کیئے جانے والے جانور قربانی کے لیئے پیدا کیے ہیں۔ اس لیے قربانی کے لیئے ان کا ہلاک کرنا دراصل ہلاک کرنا نہیں ہے۔"

مہا بھارت انوشاشن پروا کا باب نمبر 88 دھرم راج یُدھشٹر اور پیتم بھیشم کی گفتگو بیان کرتا ہے کہ شردھا ( مُردوں کی رسوم ) کی تقریب میں پِرتی ( باپ دادا ) کو کس طرح کی خوراک پیش کرنی چاہیئے تاکہ مُردوں کو سکون ملے پیراگرام اس طرح ہے:

یُدھشٹر نے کہا !

" اومہا شکتی والے! ہم اپنے دادا کے لیئے کونسی چیز وقت کریں جو کبھی ختم نہ ہو؟ کیا چیز ایسی ہوسکتی ہے جو ہمیشہ رہے؟ کیا چیز ہے جو اَمَر ہوجاتی ہے؟"

بھیشم نے کہا !

" سُنو یُدھشٹر! کون سی اشیاء ہیں جو شردھا سے اچھی طرح واقف اشخاص کے نزدیک اس قسم کی تقریبات کے لیئے موزوں ہیں؟ او مہاراج! السی کے بیج، چاول، جو ، ماش، پانی، چقندر اور پھل اگر باپ دادا کو پیش کیئے جائیں تو ان کی آتما شانت ( پرسکون ) رہے، مچھلی پیش کرنے سے ان کی آتما 2 ماہ شانت رہے، بھیڑ کے گوشت سے تین ماہ، خرگوش سے چار ماہ، بکری کے گوشت سے 5 ماہ، سؤر کے گوشت سے 6 ماہ اور پرندوں کے گوشت سے 7 ماہ شانت رہے ، پریشت نامی ہرن کے گوشت سے 8 ماہ اور رورو نامی ہرن کے گوشت سے 9 ماہ، گائے کے گوشت سے دس ماہ، بھینس کے گوشت سے 11 ماہ اور نیل گائے کے گوشت سے پورا سال شانت رہے گی۔ گھی ملا پیاز بھی باپ دادا کو قبول ہے۔ ودھری ناس ( بڑے بھینسے ) کاگوشت 12 سال شانت رکھے۔ اور گینڈے کا گوشت جو چندرماس ( چاند کے مہینوں ) کے حساب سے باپ دادا کی برسی پر جس دن وہ فوت ہوئے پیش کیا جائے تو وہ کبھی ختم نہ ہو۔ کلاسک نامی بوٹی، کنچن پھول کی پتیاں اور سُرخ بکری کا گوشت بھی اسی طرح پیش کیا جائے تو وہ کبھی ختم نہ ہو، لہذا یہ فطری امر ہے کہ اگر آپ اپنے باپ دادا کو ہمیشہ شانت رکھنا چاہیں تو انہیں سرخ بکری کا گوشت پیش کریں۔ "

ہندو دوسرے مذاہب سے متاءثر ہوئے :

اگرچہ ہندوؤں کی مذہبی کتابیں اپنے پیروکاروں کو گوشت کھانے سے منع نہیں کرتیں، بہت سے ہندوؤں نے محض سبزیاں اور دالیں کھانے کی عادت دوسرے مذاہب سے متاثر ہوکر اپنائی جن میں " جین مت " سر فہرت ہے۔

پودے بھی زندگی رکھتے ہیں :

کچھ مذاہب نے سبزیوں اور دالوں کو مکمل غذا کے طور پر اپنا لیا ہے کیونکہ وہ جانداروں کو مارنے کے یکسر خلاف ہیں۔ اگر انسان کسی جاندار کو ہلاک کیئے بغیر زندہ رہ سکتا ہے تو میں ایسا طرزِ زندگی اختیار کرنے والا پہلا شخص ہوں گا۔ لیکن بات دراصل یوں نہیں، ماضی میں لوگ یہ سمجھتے تھے کہ پودے بے جان ہیں، لیکن آج یہ ایک معروف عالمگیر حقیقت ہے کہ پودے بھی زندگی رکھتے ہیں، اس لیے اب ان کی اس بات میں کوئی وزن نہیں کہ وہ خالص سبزی خور ہوتے ہیں کسی جاندار کو ہلاک نہیں کرتے کیونکہ پودے اورسبزیوں کو کاٹنا بھی تو جانداروں کو ہلاک کرنا ہے۔

پودے بھی تکلیف محسوس کرتے ہیں :

سبزی خور یہ دلیل دیتے ہیں کہ پودے تکلیف محسوس نہیں کرتے، اس لیئے پودوں کو ختمکرنے کا جرم جانوروں کو ختم کرنے سے کمتر جرم ہے۔ لیکن آج سائنس ہمیں بتاتی ہے کہ پودے بھی تکلیف محسوس کرےت ہیں، تاہم ان کی چیخ پکار انسان نہیں سن سکتے۔ اس کی وجہ ہے کہ انسان کے کان ان کی آوازوں کو نہیں سن سکتے۔ جو سماعت کی حدود ( 20 ہزار ہرٹز تا 20000 ہرٹز ) سے باہر ہوں، کوئی آواز اس رینج سے زیادہ ہو یا کم تو وہ انسانی کان کی سماعت مین نہیں آتی۔ کتے 40000 ہرٹز تک کی آواز سن سکتے ہیں، لہذا ایسی آوازیں جن کا تعداد (Frequency 20000) ہرٹز سے زیادہ ہے اور 40000 ہرٹز سے کم ہو، انہیں صرف کتے سن سکتے ہیں انسان نہیں، کتے اپنے آقا کی سیٹی کی آواز پہچانتے ہیں اور اس کی طرف چلے آتے ہیں، ایک امریکی کسان نے تحقیق کی اور اس نے ایسا آلہ ایجاد کیا جو پودوں کی چیخ پاکر کو اس طرح تبدیل کردیتا ہے کہ اسے انسان سُن سکتے ہیں۔ اس کے ذریعے سے وہ فوراً یہ محسوس کرنے کے قابل ہوگیا کہ پودا کب پانی کے لیئے چیخ رہا تھا۔ جدید تحقیقات نے یہ بھی ثات کیا ہے کہ پودے خوشی اور غم کو بھی محسوس کرےت ہیں اور چلا بھی سکتے ہیں۔

حواس کا قتل :

ایسی مخلوق جس کے دو حواس کم ہیں ان کا قتل بھی چھوٹا جرم نہیں، ایک دفعہ ایک سبزی خور نے دلیل دیتے ہوئے کہا کہ پودے صرف دو یا تین حواس رکھتے ہیں۔ جبکہ جانور کے پانچ حواس ہوتے ہیں۔ اس لیے پودوں کو ختم کرنا جانوروں کو ختم کرنے سے کم درجے کا جرم ہے۔

فرض کریں آپ کا بھائی پیدائشی گونگا اور بہرا ہے اور اس کے دو حواس دوسرے انسانوں کی نسبت کم ہیں، وہ بڑا ہوجات اہے اور کوئی اس کو قتل کردیتا ہے، کیا آپ منصف سے کہیں گے کہ اسے کم سزا دیں کیونکہ آپ کا بھائی دو حواس کم رکھتا ہے؟ جی نہیں! اس کے برعکس آپ کہیں گے کہ اُس نے معصوم کو قتل کیا ہے، اس لیے منصف کو چاہیئے کہ اسے زیادہ سزا دے۔

قرآن مجید کہتا ہے !

يَا أَيُّهَا النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِي الأرْضِ حَلالا

" اے لوگو! زمین میں جتنی بھی حلال اور پاکیزہ چیزیں ہیں انہیں کھاؤ پیو۔ "

(سورۃ البقرہ 2 آیت 168)

مویشیوں کی زیادہ تعداد :

اگر ہر انسان سبزی خور ہوتا تو دنیا میں مویشیوں کی تعداد حد سے بڑھ جاتی کیونکہ ان کی پیداوار اور بڑھوتری بڑی تیزی سے ہوتی ہے۔ اللہ تعالی نے اپنی حکمت سے اپنی مخؒوق میں مناسب توازن رکھا ہے، اس لیے اس میں کوئی حیرانی کی بات نہیں کہ اُس نے ہمیں مویشیوں کو کھانے کی اجازت دی ہے۔

میں اس بات کو بُرا محسوس نہیں کرتا کہ ایک شخص مکمل طور پر سبزی خور ہے لیکن جو سبزی خور نہیں اسے بھی ظالم اور بے رحم نہیں کہنا چاہیے۔
 
Last edited:
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
سوال نمبر - 14


مسلمان فرقوں میں کیوں بٹےہوئے ہیں ؟


مسلمان فرقوں میں کیوں بٹےہوئے ہیں ؟

"جب مسلمان! ایک ہی قرآن کی پیروی کرتے ہیں تو ان میں اتنے زیادہ فرقے اور مکاتب فکر کیوں ہیں ؟ "

دراصل مسلمان آج تقسیم ہوگئے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ اسلام میں ایسی تقسیم کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اسلام اپنے پیروکاروں میں اتحاد کو فروغ دینے پر یقین رکھتا ہے۔ قرآنِ مجید میں ارشاد ربانی ہے:۔

وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلا تَفَرَّقُوا

" اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مظبوطی سے تھام لو اور تفرقے میں نہ پڑو۔ "

( سورۃ آل عمران 3 آیت 105)

اس آیت میں اللہ کی کون سی رسی کا ذکر ہے ؟ یہ قرآن عظیم ہے ، یہ قرآن ہی اللہ کی رسی ہے جسے تمام مسلمانوں کو مضبوطی سے تھام لینا چاہیئے۔ اس آیت میں دوہرا حکم دیا گیا ہے۔ " سب مل کر مضبوطی سے تھام لو۔ " کے علاوہ یہ بھی حکم ہے کہ " تم جدا جدا نہ ہو جاؤ" قرآن میں مزید فرمایا گیا ہے۔

أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ

" اللہ اور اُس کے رسول کی اطاعت کرو۔"

( سورۃ النساء 4 آیت 59)

لہذا تمام مسلمانوں کو قرآن اور مستند احادیث کی پیروی کرنی چاہیئے اور آپس میں تقسیم نہیں ہونا چاہیئے۔

فرقہ بندی اللہ کی نافرمانی ہے :

قران کریم میں ارشادِ باری تعالی ہے۔

إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا لَسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ إِنَّمَا أَمْرُهُمْ إِلَى اللَّهِ ثُمَّ يُنَبِّئُهُمْ بِمَا كَانُوا يَفْعَلُونَ

"(اے نبی!) بے شک جن لوگوں نے اپنے دین کو فرقوں میں تقسیم کیا اور وہ گروہوں میں بٹ گئے۔ آپ کا ان سے کوئی تعلق نہیں، بے شک ان کا معاملہ اللہ کے حوالہ ہے، پھر وہ (آخرت میں ) ان کو ان کے عملوں سے آگاہ کرے گا جو وہ کرتے رہے تھے۔

(سورۃ الانعام 6 آیت 159)

اس آیت میں اللہ تعالی فرماتا ہے کہ مسلمان کو ایسے لوگوں سے علیحدہ رہنا چاہیئے جنھوں نے دین کو فرقوں میں تقسیم کررکھا ہے۔

لیکن جب کسی مسلمان سے کوئی پوچھتا ہے کہ تم کون ہو ؟ تو عام طور پر یہی جواب دیا جاتا ہے۔ " میں سنی ہوں " یا " میں شیعہ ہوں " کچھ اپنے آپ کو حنفی، شافعی، مالکی، اور حنبلی کہتے ہیں، کوئی کہتا ہے میں دیو بندی ہوں اور کوئی بتاتا ہے کہ میں بریلوی ہوں۔

ہمارے نبی (ﷺ) مسلمان تھے :

ایسے مسلمان سے کوئی یہ پوچھ سکتا ہے کہ " ہمارے پیارے نبی (ﷺ) کیا تھے؟ کیا وہ حنبلی، شافعی، حنفی یا مالکی تھی؟ " جواب ملے گا" بالکل نہیں، وہ اللہ کے ان تمام پیغمبروں کی طرح مسلمان تھے جو ان سے پہلے آئے تھے۔"

قرآن بیان کرتا ہے کہ حضرت عیسی (علیہ السلامم ) مسلمان تھے، جب انہنں نے اپنے حواریوں سے کہا۔

مَنْ أَنْصَارِي إِلَى اللَّهِ

" اللہ کی راہ میں کون میرا مدد گار ہے؟ "

(سورۃ آل عمران 3 آیت 52)

تو حواریوں نے کہا:

نَحْنُ أَنْصَارُ اللَّهِ آمَنَّا بِاللَّهِ وَاشْهَدْ بِأَنَّا مُسْلِمُونَ

" ہم اللہ ( کی راہ میں آپ ) کے مدد گار ہیں۔ ہم اللہ پر ایمان لائے ہیں اور آپ گواہ رہیں کہ ہم مسلمان ہیں۔ "

( سورۃ آل عمران 3 آیت 52)

ان الفاظ سے واضح ہے کہ حضرت عیسی (علیہ السلام ) اور ان کے پیروکاروں مسلمان ہی تھے۔

اسی طرح ارشاد باری تعالی ہے ۔

مَا كَانَ إِبْرَاهِيمُ يَهُودِيًّا وَلا نَصْرَانِيًّا وَلَكِنْ كَانَ حَنِيفًا مُسْلِمًا

" ابراہیم (علیہ السلام ) نہ تو یہودی تھے، نہ عیسائی بلکہ وہ تو خالص مسلمان تھے۔

( سورۃ آل عمران 3 آیت 67)

قرآن کا حکم :

اسلام کے پیروکار اس امر کے پابند ہیں کہ وہ اپنے آپ کو مسلمان کہیں، اگر کوئی شخص اپنے آپ کو مسلمان سمجھتا ہے تو جب اس سے پوچھا جائے کہ تم کون ہوتو اسے کہنا چاہیئے " میں مسلمان ہوں " حنفی اور شافعی وغیرہ نہیں کہنا چاہیئے قرآن کی سورۃ فُصلت ( حم سجدہ ) میں ہے:

وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلا مِمَّنْ دَعَا إِلَى اللَّهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ

" اور اس سے زیادہ اچھی بات والا کون ہے جو ( لوگوں کو ) اللہ کی طرف بُلائے اور نیک کام کرنے کا کہے اور کہے کہ میں یقیناً مسلمانوں میں سے ہوں۔ "

( سورۃ فصلت 41 آیت 33)

دوسرے لفظوں میں قرآن کی یہ آیت یہ کہنے کا حکم دیتی ہے کہ " میں مسلمان ہوں۔ "

نبی کریم (ﷺ) نے 7 ھجری میں غیر مسلم حکمرانوں کو اسلام کی دعوت قبول کرنے کے خطوط لکھوائے، روم ،مصر اور حبش کے عیسائی حکمرانوں کے نام خطوط میں آپ نے سورۃ آل عمران کی آیت 64 بیان کرتے ہوئے یہ الفاظ لکھوائے:

فَقُولُوا اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ

" تم کہو: گواہ رہو کہ ہم مسلمان ہیں۔"

( سورۃ آل عمران 3 آیت 64)

آئمہ اسلام کا احترام :

ہمیں اسلام کے ائمہ کا احترام کرنا چاہیئے، ان میں امام ابو حنیفہ، امام ابویوسف، امام شافعی، امام احمد بن جنبل اور امام مالک اور دیگر ائمہ ( رحمۃ اللہ علیہ ) شامل ہیں۔ وہ سب سے بڑے عالم اور فقیہ تھے، اللہ تعالی ان کو ان کی تحقیق اور محنت کاصلہ دے، اگر کوئی امام ابوحنیفہ یا امام شافعی ( رحمۃ اللہ تعالی ) کے نظریات اور تحقیق سے متفق ہو تو اس پر کسی شخص کو اعتراض نہیں ہونا چاہیئے۔ لیکن جب آپ سے کوئی پوچھے کہ " تم کون ہو ؟ " تو اس کا جواب صرف یہ ہونا چاہیئے کہ " میں مسلمان ہوں۔"

کچھ لوگ سنن ابوداؤد میں حضرت معاویہ (رضی اللہ تعالی عنہ ) کی حدیث کا حوالہ دے سکتے ہیں۔ اس میں نبی (ﷺ نے فرمایا:

" وان ھذہِ الملۃ ستفترق علی ثلاث و سبعین: ثنتان و سبعون فی النار و واحدۃ فی الجنۃ، وھی الجماعۃ "

" بے شک یہ ملت تہتر (73) فرقوں میں بٹ جائے گی۔ بہتر (72) فرقے دوزخ میں جائیں گے۔ اور ایک جنت میں داخل ہوگا اور وہ " الجماعۃ " ( یعنی صحابہ کے منہج پر قائم گروہ ) ہوگا۔

( سنن ابی داؤد، السنۃ، باب شرح السنۃ، حدیث 4597 )

حدیث یہ بتاتی ہے کہ نبی کریم (ﷺ)نے تہتر فرقے بننے کی پیش گوئی کی۔ آپ نے یہ نہیں کہا کہ مسلمانوں کو فرقوں میں تقسیم ہونے کی شعوری کوشش کرنی چاہیئے، قرآن عظیم ہمیں فرقے بنانے کی ممانعت کرتا ہے جو لوگ قرآن پاک اور صحیح حدیث کی تعلیمات کی پیروی کرتے ہیں اور فرقے نہیں بناتے اور نہ لوگوں کو تقسیم کرتے ہیں۔ وہی صحیح راستے پر چلنے والے ہیں۔

جامع ترمذی میں حضرت عبداللہ بن عمر (رضی اللہ تعالی ) کی حدیث کے مطابق نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا:

"و تفترق امتی علی ثلاث و سبعین ملۃ، کلھم فی النار الا ملۃ واحدۃ، قال: ومن ھی یا رسول اللہ؟ قال: ما انا علیہ و اصحابی ۔

"میری امت تہتر ( 73 ) وں میں بٹ جائے گی اور ان میں سے تمام گروہ جہنم میں جائیں گے سوائے ایک گروہ کے۔ " راوی نے پوچھا کہ یہ کون سا گروہ ہوگا؟ جواب دی: " وہ گروہ جو اس راستے پر ہے جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں۔ "

قرآن عظیم کی بہت سی آیات میں کہا گیا ہے:

" اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو " ایک سچے مسلمان کو قران اور صحیح حدیث کی پیروری کرنی چاہیئے، وہ کسی ھی عالم یا امام سے متفق ہوسکتا ہے۔ جب تک اس کے افکار و نظریات قرآن اور حدیث کی تعلیمات کے مطابق ہوں، اور اگر اس کے نظریات اللہ تعالی کے احکامات اور نبی (ﷺ)کی سنت کے برعکس ہوں تو پھر ان کی اہمیت نہیں، چاہیئے وہ کوئی کتنا ہی بڑا عالم یا دینی رہنما ہو۔

اگر تمام مسلمان قران کریم ہی کو سمجھ کر پڑھیں اور صحیح حدیث سے وابستہ رہیں تو ان شاء اللہ تمام اختلافات مٹ جائیں گے اور ہم ایک متحد اُمت بن جائیں گے۔

جاری ہے -----
 
Last edited:
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
سوال نمبر - 15


اسلام اور مسلمانوں کے عمل میں واضح فرق کیوں؟



اسلام اور مسلمانوں کے عمل میں واضح فرق کیوں؟

" اگر اسلام بہترین مذہب ہے تو بہت سے مسلمان بے ایمان کیوں ہیں اور دھوکے بازی، اور رشوت اور منشیات فروشی میں کیوں ملوث ہیں ؟ "

اسلام بلا شبہ بہترین مذہب ہے لیکن میڈیا مغرب کے ہاتھ میں ہے جو اسلام سے خوفزدہ ہے، میڈیا مسلسل اسلام کے خلاف خبریں نشر کرتا اور غلط معلومات پہنچاتا ہے، وہ اسلام کے بارے میں غلط معلومات پہنچاتا ہے وہ اسلام کے بارے میں غلط تاثر پیش کرتا ہے، غلط حوالے دیتا ہے اور واقعات کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتا ہے، جب کسی جگہ کوئی بم پھٹتا ہے تو بغیر کسی ثبوت کے سب سے پہلے مسلمانوں پر الزام لگا دیا جاتا ہے۔ وہ الزام خبروں میں سب سے زیادہ نمایاں ہوتا ہے۔ لیکن بعد میں جب یہ پتہ چلتا ہے کہ اس کے ذمہ دار غیر مسلم تھے تو یہ ایک غیر اہم اور غیر نمایاں خبر بن کر رہ جاتی ہے۔ اسی طرح اگر کوئی پچاس برس کا مسلمان کسی پندرہ سالہ لڑکی سے اس کی اجازت سے شادی کرتا ہے تو مغربی اخبارات میں وہ پہلے صفحے کی خبر بنتی ہے، لیکن جب کوئی 50 سالہ غیر مسلم 6 سالہ لڑکی کی عصمت دری کرتا ہے تو یہ سانحہ اندر کے صفحات میں ایک معمولی سی خبر کے طور پر شائع ہوتا ہے۔ امریکہ میں روزانہ عصمت دری کے 2713 واقعات پیش آتے ہیں لیکن خبروں میں جگہ نہیں پاتے کیونکہ یہ امریکیوں کی طرزِ زندگی کا ایک حصہ ہے۔

ہر معاشرے میں ناکارہ لوگ ہوتے ہیں :

میں اس بات سے باخبر ہوں کہ ایسے مسلمان یقیناً موجود ہیں جو دیانتدار نہیں اور دھوکے بازی اور دوسری مجرمانہ سرگرمیوں سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ لیکن میڈیا یہ ثابت کتا ہے کہ صرف مسلمان ہی ان کا ارتکاب کرتے ہیں، حالانکہ ایسے افراد اور جرائم دنیا کے ہر ملک اور ہر معاشرے میں ہوتے ہیں۔ اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ بہت سے مسلمان بلا نوش ہیں، اور غیر مسلموں کے ساتھ مل کر شراب نوشی کرتے ہیں۔

مسلم معاشرے کی مجموعی حالت بہتر ہے :

اگرچہ مسلمان معاشرے میں بھی کالی بھیڑیں موجود ہیں مگر مجموعی طور پر مسلمانوں کا معاشرہ دنیا کا بہتری معاشرہ ہے۔ ہمارا معاشرہ دنیا کا وہ سب سے بڑا معاشرہ ہے جو شراب نوشی کے خلاف ہے، یعنی ہمارے ہاں عام مسلمان شراب نہیں پیتے۔ مجموعی طور پر ہمارا ہی معاشرہ ہے جو دنیا میں سب سے زیادہ خیرات کرتا ہے۔ اور جہاں تک حیائ، متانت، انسانی اقدار اور اخلاقیات کا تعلق ہے دنیا کا کوئی معاشرہ ان کی مثال پیش نہیں کرسکتا۔ بوسنیا، عراق اور افغانستان میں مسلمان قیدیوں سے عیسائیوں کا سلوک اور برطانوی خاتون صحافی کے ساتھ طالبان کے برتاؤ میں واضح فرق صاف ظاہر ہے۔

کار کو ڈرائیور سے پرکھیئے :

اگر آپ جاننا چاہتے ہیں کہ مرسیڈیز کار کا نیا مادل کیسا ہے اور ایک ایسا شخص جو ڈرائیونگ نہیں جانتا سٹیرنگ پر بیٹھ جائے اور گاڑی کہیں دے مارے تو آپ کس کو الزام دیں گے؟ کار کو یا ڈرائیور کو ؟فطری بات ہے کہ آپ ڈرائیور کو الزام دیں گے۔ یہ دیکھنے کے لیےے کہ کار کتنی اچھی ہے ، ڈرائیور کو نہیں بلکہ کار کی صلاحیت اور اسکے مختلف پہلوؤں کو دیکھنا چاہیئے کہ یہ کتنی تیز چلتی ہے، ایندھن کتنا استعمال کرتی ہے، کتنی محفوظ ہے وغیرہ وغیرہ۔

اسی طرح اگر یہ ابت محض دلیل کے طور پر مان بھی لی جائے کہ مسلمان خراب ہیں تگو بھی ہم اسلام کو اس کے پیروکاروں سے نہیں جانچ سکتے۔ اگر آپ یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ اسلام کتنا اچھا ہے تو اُسے اس کے مستند ذرائع سے پرکھیں، یعنی قرآن مجید اور صحیح احادیث سے!

اسلام کو محمد (ﷺ) کی ذات ِ گرامی سے پرکھیں :

اگر آپ عملی طور پر یہ دیکھنا چاہیں کہ کار کتنی اچھی ہے تواس کے سٹیرنگ وہیل پر کسی ماہر ڈرائیور کو بٹائیں، اسی طرح یہ دیکھنے کے لیے کہ اسلام کتنا اچھا دین ہے تو اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہم اللہ کے آخری پیغمبر (ﷺ) کو سامنے رکھ کر دیکھیں، مسلمانوں کے علاوہ بہت سے دیانتدار اور غیر متعصب غیر مسلم مؤرخون نے علانیہ کہا ہے کہ حضرت محمد (ﷺ) بہترین انسان تھے، مائیکل ایچ ہارٹ نے " تاریخ پر اثر انداز ہونے والے سو انسان " کے عنوان سے کتاب لکھی جس میں سر فہرست پیغمبر اسلام محمد (ﷺ) کا اسم گرامی ہے، غیر مسلموں کی اور بھی بہت سی مثالیں ہیں جن میں انھوں نے نبی (ﷺ) کی بہت تعریف کی ہے ، مثلاً تھامس کا لائل، لا مارٹن وغیرہ۔

جاری ہے ---
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
سوال نمبر - 16


غیر مسلمانوں کو مکہ جانے کی اجازت کیوں نہیں؟


غیر مسلمانوں کو مکہ جانے کی اجازت کیوں نہیں؟

" غیر مسلموں کو مقدس شہروں مکہ اور مدینہ جانے کی اجازت کیوں نہیں؟ "

یہ صحیح ہے کہ قانون کے تحت غیر مسلموں کو مکہ اور مدینہ جانے کی اجازت نہیں، مندرجہ ذیل نکات اس پابندی کی وجوہ کو واضح کریںگے۔

ممنوعہ علاقہ :

میں بھارت کا شہری ہوں، پھر بھی مجھے کئی علاقوں ، مثلاً فوجی چھاؤنی کی حدود میں جانے کی اجازت نہیں، ہر ملک میں کئی علاقے ایسے ہوتے ہیں جہاں اس ملک کے عام شہری کو جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔ وہ لوگ جو باقاعدہ فوج میں شامل ہوں یا جن کا تعلق ملک کے دفاع سے ہو، صرف ان کو جانے کی اجازت ہوتی ہے اسی طرح اسلام بھی تمام انسانوں کے لیے عالمگیر مذہب ہے، اسلام کی چھاؤنی یا ممنوعہ علاقہ صرف دو مقدس شہر مکہ اور مدینہ ہیں، یہاں صرف وہ لوگ جو اسلام پر ایمان رکھتے ہیں، اور اسلام کی حفاظت کے ذمہ دار ہیں وہی قدم رکھ سکتے ہیں۔

ایک عام شہری کے لیے یہ بات غیر منطقی ہوگی کہ وہ فوجی چھاؤنی میں داخلے پر پابندی کے سلسلے میں اعتراض کرے، اسی طرح غیر مسلموں کا یہ اعتراض بھی قطعی غلط ہے کہ مکہ اور مدینہ میں ان کے داخلے پر پابندی کیوں ہے۔

ویزا پالیسی :

جب کوئی شخص کسی دوسرے ملک کا سفر کرتا ہے ، سب سے پہلے اسے ویزے کی درخواست دینی پڑتی ہے جو گویا اس ملک میں داخل ہونے کا اجازت نامہ ہے، ہر ملک کے اپنے قوانین و ضوابط اور ویزا جاری کرنے کی شرائگ ہیں، اگر ان کے معیار اور شرائط کو پورا نہیں کیا جاتا تو ان کو داخلے کی اجازت نہیں ملتی۔

ویزا جاری کرنے والے ملکوںمیں سب سے زیادہ سخت قوانین امریکہ کے ہیں، خاص طور پر جب تیسیری دنیا کے لوگوں کو ویزا دینے کا معاملہ ہو ویزا حاصل کرنے سے پہلے ان کی بہت سی شرائط کو پورا کرنا پڑتا ہے۔

جب میں سنگاپور گیا تو ان کے امیگریشن فارم پر درج تھا کہ وہاں منشیات لے جانے والوں کے لیئے موت کی سزا مقرر ہے اور ہرایک کو اس قانون کی پابندی کرنا پرے گی۔ میں یہ نہیں کہ سکتا کہ موت کی سزا وحشیانہ سزا ہے۔ اگر میں ان کی شرائط سے متفق اور ان کے مطلوبہ معیار پر پورا اترتا ہوں تو مجھے وہاں جانے کی اجازت ہے۔

کسی بھی انسان کے لیے مکہ اور مدینہ جانے کی بنیادی شرط یا ویزا یہ ہے کہ وہ اپنی زبان سے کہے،


" لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ "

جس کے معنی ہیں :

" اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں۔ "
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
سوال نمبر - 17


کیا غیر مسلموں کو کافر کہنا گالی ہے؟


کیا غیر مسلموں کو کافر کہنا گالی ہے؟

"کافر " اُسے کہتے ہیں جو جھٹلاتا ہے یا انکار کرتا ہے۔ "کافر" کا لفظ " کفر " سے نکلا ہے جس کے معنی ہیں۔ جھٹلانا یا چھپانا، اسلامی اسطلاح میں " کافر" کر مطلب ہے جو اسلام کی تعلیمات اور اس کی سچائی کو جھٹلاتا یا چھپاتا ہے۔ اور جو شخص اسلام کا انکار کرتا ہے اس کو غیر مسلم (Non Muslim) کہتے ہیں۔

کافر کی اصطلاح گالی نہیں :

اگر کوئی غیر مسلم خود کو " غیر مسلم" یا "کافر" کہے جانے کو گالی سمجھتا ہے، جس کامطلب ایک ہی ہے ، تو یہ اس کی اسلام کے بارے میں غلط فہمی کی وجہ سے ہے۔ اسے اسلام اور اسلامی اصطلاحات کو سمجھنے کے صحیح ذرائع تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے اور " کافر " کہے جانے کو گالی نہیں سمجھنا چاہیئے۔ " غیر مسلم " یا " کافر " کے الفاظ گالی نہیں ہیں بلکہ مسلمانوں اور دیگر مذاہب کے پیروکاروں کے مابین محض خطِ امتیاز کھینچنے والی اصطلاحات ہیں، اس میں تحقیر کا پہلو نہیں ہے، فرق و امتیاز قائم کرنے والی ایک معروف اصطلاح کو گالی قرار دینا قلتِ علم کے علاوہ سوءِ فہم کی دلیل ہے۔

حاشیہ :

قرآن نے کسی غیر مسلم کو گالی نہیں دی بلکہ قرآن نے تو ہر غیر مسلم کو اس کے اصل مذہب کا لحاظ کرتے ہوئے مخاطب کیا ہے۔ جیسے یہود، نصارٰی ، مجوسی اور صابی ان سب کو نبی آخر الزماں (ﷺ) کی نبوت اور رسالت تسلیم نہ کرنے کی وجہ سے " کافر " کے لفظ سے بھی مخاطب کیا ہے۔ اگر یہ گالی ہوتا تو اہل عرب خصوصاً قریش اس پر اعتراض اٹھاتے کہ یہ قرآن ہمین گالیاں دیتا ہے۔ ہم کیوں اس کی بات کو تسلیم کریں، قرآن میں دو جگہوں پر ایمان والوں کے ساتھ یہودیوں اور نصرانیوں اور صابیوں کا ذکر کرکے بتایا ہے کہ اللہ کے ہاں صاحب فضیلت وہ یہے جواس کے احکام بجا لائے ورنہ اپنے آپ کو مومن کہلانے والا بھی اللہ کے ہاں ناپسندیدہ ہو جاتا ہے۔

جاری ہے ----
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
سوال نمبر - 18


اسلام میں ذبح کرنے کا طریقہ ظالمانہ ہے ؟


اسلام میں ذبح کرنے کا طریقہ ظالمانہ ہے ؟
"مسلمان جانوروں کو ظالمانہ طریقے سے دھیرے دھیرے کیوں ذبح کرتے ہیں؟" جانور ذبح کرنے کا اسلامی طریقہ " ذبیحہ " غیر مسلموں کی اکثریت کے نزدیک تنقید کا باعث ہے، اگر کوئی مندرجہ ذیل نکات کو سمجھ لے تو وہ جان سکتا ہے کہ ذبح کرنے کا یہ طریقہ نہ صرف رحمدلانہ ہے بلکہ سائنسی لحاظ سے بھی بہترین ہے۔
ذبح کرنے کا اسلامی طریقہ
اسلامی طریقے سے جانور ذبح کرنے کے لیئے مندرجہ ذیل شرائط کا خیال رکھنا چاہیئے:
جانور کو تیز دھار چاقو یا چھری سے تیزی سے ذبح کرنا چاہیئے تاکہ جانور کو کم سے کم تکلیف ہو۔
" ذبیحۃ " عربی لفظ ہے جس کا مطلب ہے : " ذبح کیا گیا" جانور کو ذبح کرنے کا عمل اس کا گلا، سانس کی نالی اور گردن میں موجود خون کی نالیاں کاٹ کر انجام دینا چاہیئے۔
سر اُتارنے سے پہلے خون کو مکمل طور پر بہہ جانے دینا چاہیئے، خون کی بیشتر مقدار نکالنے کی وجہ یہ ہے کہ خون میں جراثیم نشوونما پاسکتے ہیں۔ حرام مغز کو نہیں کاٹنا چاہیئے کیونکہ دِل کو جانے والے اعصاب کو نقصان پہنچ سکتا ہے اور یوں دِل کی دھڑکن رک جانے کی وجہ سے خون مختلف نالیوں میں منجمد ہوجاتا ہے۔ خون میں جراثیم اور بیکٹیریا خون مختلف قسم کے جراثیم، بیکٹیریا اور زہروں (Toxics) کی منتقلی کا ذریعہ ہے ، اس لیے مسلمان کا ذبح کرنے کا طریقہ زیادہ صحت مند اور محفوظ ہے کیونکہ خون میں تمام قسم کے جراثیم ہوتے ہیں جو مختلف بیماریوں کا باعث بنتے ہیں، لہذا زیادہ سے زیادہ خون جسم سے نکل جانے دینا چاہیئے۔
ذبیحہ گوشت کی تازگی
جانور اسلامی طریقے سے ذبح کیا جائے تو خون کے ممکنہ حد تک شریانوں سے نکل جانے کی بدولت گوشت ذبح کرنے کے دوسرے طریقوں کی نسبت زیادہ دیر تک زیادہ دیر تک تازہ رہتا ہے۔ جانور کو تکلیف نہیں ہوتی۔ گردن کی شریانیں تیزی کے ساتھ کاٹنے سے دماغ کے اس عصب (Nerve) کی طرف خون کا بہاؤ رک جاتا ہے جو احساس کا ذمہ دار ہے۔ یوں جانور کو درد محسوس نہیں ہوتا۔ جانور جب مرتے وقت تڑپتا ہے یا ٹانگیں ہلاتا اور مارتا ہے تو یہ درد کی وجہ سے نہیں بلکہ خون کی کمی کے باعث عضلات کے پھیلنے اور سکڑنے کی وجہ سے ہوتا ہے اور خون کی کمی کا سبب خون کا جسم سے باہر کی طرف بہاؤ ہوتا ہے۔

 
Last edited by a moderator:
Top