ماہ صفر کو منحوس سمجھنے کی تردید
اس مہینے کی بابت لوگوں میں مذکورہ رسومات و بدعات رواج پاچکی ہیں جن کی تردید نبی اکرمﷺنے اس حدیث میں فرمائی:
*«لَا عَدْوٰی وَلَا طِیَرَةَ وَلَا هَامَّةَ وَلَا صَفَرَ»*1
" (اللہ کی مشیت کے بغیر) کوئی بیماری متعدی نہیں اور نہ ہی بد شگونی لینا جائز ہے، نہ اُلو کی نحوست یا روح کی پکار اور نہ ماہِ صفر کی نحوست۔"
امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
''اس حدیث میں نفی اورنہی دونوں معانی صحیح ہوسکتے ہیں لیکن نفی کے معنی اپنے اندر زیادہ بلاغت رکھتے ہیں کیوں کہ نفی 'طیرہ'(نحوست) اور اس کی اثر انگیزی دونوں کا بطلان کرتی ہے، اس کے برعکس نہی صرف ممانعت دلالت کرتی ہے۔ اس حدیث سے ان تمام اُمور کا بطلان مقصود ہے جو اہل جاہلیت قبل از اسلام کیا کرتے تھے۔''2
ابن رجب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ
''اس حدیث میں ماہِ صفر کو منحوس سمجھنے سے منع کیا گیا ہے، ماہ صفر کو منحوس سمجھنا تطیّر(بدشگونی) کی اقسام میں سے ہے۔ اسی طرح مشرکین کا پورے مہینے میں سے بدھ کے دن کو منحوس خیال کرنا سب غلط ہیں۔''3
امام ابوداؤدرحمہ اللہ محمد بن راشد سے نقل کرتے ہیں:
''اہل جاہلیت یعنی مشرکین ماہِ صفر کو منحوس سمجھتے تھے، لہٰذا اس 'لَا صَفَرَ' حدیث میں ان کے اس عقیدہ اور قول کی تردید کی گئی ہے۔''4
امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ''اہل جاہلیت ماہِ صفر کو منحوس سمجھتے اور کہتے کہ یہ منحوس مہینہ ہے ۔ چنانچہ رسول اکرمﷺنے اُن کے اس نظریے کو باطل قرار دیا۔''5
_______________________
1صحیح بخاری:۵۷۰۷
2قرة عیون الموحدین: ۲؍۳۸۴
3ایضًا
4ایضًا
5لطائف المعارف: ص۱۴۷