• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الاتباع

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
28- عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَؓ قَالَ: سَأَلَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ عَنْ إِمْلَاصِ الْمَرْأَةِ هي الَّتِي يضْرَبُ بَطْنُها فَتُلْقِي جَنِينًا فَقَالَ: أَيكُمْ سَمِعَ مِنْ النَّبِي ﷺ فِيه شَيئًا فَقُلْتُ: أَنَا فَقَالَ: مَا هوَ؟ قُلْتُ: سَمِعْتُ النَّبِي ﷺ يقُولُ: فِيه غُرَّةٌ عَبْدٌ أَوْ أَمَةٌ فَقَالَ: لَا تَبْرَحْ حَتَّى تَجِيئَنِي بِالْمَخْرَجِ فِيمَا قُلْتَ. ([1])
(٢٨)مغیرۃ بن شعبہ نے بیان كیا كہ عمر بن خطاب سے عورت كے املاص كے متعلق پوچھا گیا اور املاص اس عورت کو کہا جاتا ہے جس كے پیٹ پر ( جبكہ حاملہ ہو) مار دیا گیا ہو اور اس كا نا تمام ( ادھورا ) حمل گر گیا ہو۔عمر نے صحابہ سے پوچھا آپ لوگوں میں سے كسی نے نبی ﷺسے اس بارے میں كوئی حدیث سنی ہے؟ میں نے كہا كہ میں نے سنی ہے پوچھا كیا حدیث ہے؟ میں نے بیان كیا كہ میں نے نبیﷺسے سناہے كہ ایسی صورت میں ایك غلام یا باندی تاوان كے طور پر ہے۔ عمر نے كہا كہ تم اب چھوٹ نہیں سكتے یہاں تك كہ تم نے جو حدیث بیان كی ہے اس کے بارے میں نجات كا كوئی ذریعہ لاؤ( یعنی شہادت گواہی)۔
29- عَنْ ثُمَامِ بْنِ شُقَيٍّ قَالَ: كُنَّا مَعَ فَضَالَةَ بْنِ عُبَيدٍ بِأَرْضِ الرُّومِ بِرُودِسَ فَتُوُفِّي صَاحِبٌ لَنَا فَأَمَرَ فُضَالَةُ بْنُ عُبَيدٍ بِقَبْرِه فَسُوِّي ثُمَّ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ الله ﷺ يأْمُرُ بِتَسْوِيتِها.([2])
(٢٩)ثمامہ بن شقی كہتے ہیں كہ ہم فضالہ بن عبید كے ساتھ روم كی سر زمین بمقام رودس میں تھے كہ ہمارے ایك ساتھی كی موت واقع ہوگئی تو فضالہ بن عُبید نے حكم دیا كہ اس كی قبر برابر كر دی جائے پھر فرمایا: كہ میں نے رسول اللہﷺسے سنا آپ فرماتے تھے كہ قبروں كو برابر كیا كرو( یعنی ایك بالشت سے اوپر نہ كیا كرو،مترجم)۔
30- عَنْ عَبْدِ الله بْنِ مُغَفَّلٍؓ أَنَّه رَأَى رَجُلًا يخْذِفُ فَقَالَ لَه: لَا تَخْذِفْ فَإِنَّ رَسُولَ الله ﷺ نَهى عَنْ الْخَذْفِ أَوْ كَانَ يكْرَه الْخَذْفَ وَقَالَ: إِنَّه لَا يصَادُ بِه صَيدٌ وَلَا ينْكَى بِه عَدُوٌّ وَلَكِنَّها قَدْ تَكْسِرُ السِّنَّ وَتَفْقَأُ الْعَينَ ثُمَّ رَآه بَعْدَ ذَلِكَ يخْذِفُ فَقَالَ لَه: أُحَدِّثُكَ عَنْ رَسُولِ الله ﷺ أَنَّه نَهى عَنْ الْخَذْفِ أَوْ كَرِه الْخَذْفَ وَأَنْتَ تَخْذِفُ لَا أُكَلِّمُكَ كَذَا وَكَذَا. ([3])
(٣٠)عبداللہ بن مغفل نے ایك شخص كو كنكری پھینكتے دیكھا تو فرمایا كہ كنكری نہ پھینكو كیونكہ رسول اللہﷺ نے كنكری پھینكنے سے منع فرمایا ہے یا ( انہوں نے بیان كیا كہ) نبی ﷺ كنكری پھینكنے كو پسند نہیں كرتے تھے اور كہا كہ اس سے نہ شكار كیا جا سكتا ہے اور نہ دشمن كو كوئی نقصان پہچایا جا سكتا ہے البتہ یہ كبھی كسی كا دانت توڑ دیتی ہے اور آنكھ پھوڑ دیتی ہے ،اس كے بعد بھی انہوں نے اس شخص كو كنكریاں پھینكتے دیكھا تو كہا میں رسول اللہﷺ كی حدیث تمہیں سنا رہا ہوں كہ آپ نے كنكریاں پھینكنے سے منع فرمایا یا كنكری پھینكنے كو نا پسند كیا اور تم اب بھی پھینكے جا رہے ہو میں تم سے اتنے دنوں تك كلام نہیں كروں گا۔
31- قَالَ غُضَيفِ بْنِ الْحَارِثِ ؓ لِعَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ مَرْوَانَ لَمَّا قَالَ لَهُ: إِنَّا قَدْ جَمَعْنَا النَّاسَ عَلَى رَفْعِ الْأَيدِي عَلَى الْمَنَابِرِ يوْمَ الْجُمُعَةِ وَعَلَى الْقَصَصُ بَعْدَ الصُّبْحِ وَالْعَصْرِ فَقَالَ: أَمَا إِنَّهمَا أَمْثَلُ بِدَعِكُمْ عِنْدِي وَلَسْتُ مُجِيبُكُمْ
[1] - صحيح البخاري كِتَاب الِاعْتِصَامِ بِالْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ بَاب مَا جَاءَ فِي اجْتِهادِ الْقُضَاةِ بِمَا أَنْزَلَ اللَّه تَعَالَى رقم (7317) صحيح مسلم رقم (1689)
[2] - صحيح مسلم كِتَاب الْجَنَائِزِ بَاب الْأَمْرِ بِتَسْوِيةِ الْقَبْرِ رقم (968)
[3] - صحيح البخاري كِتَاب الذَّبَائِحِ وَالصَّيدِ بَاب الْخَذْفِ وَالْبُنْدُقَةِ رقم (5479) صحيح مسلم رقم (1954)​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
إِلَى شَيءٍ مِنْهمَا لِأَنَّ النَّبِي ﷺ قَالَ: مَا أَحْدَثَ قَوْمٌ بِدْعَةً إِلَّا رُفِعَ مِنْ السُّنَّةِ مِثْلُها فَتَمَسُّكٌ بِسُنَّةٍ خَيرٌ مِنْ إِحْدَاثِ بِدْعَةٍ. ([1])
(٣١)غضیف بن الحارث نے عبدالملك بن مروان سے كہا جب انہوں نے یہ كہا كہ ہم نے لوگوں كو جمعہ كے دن دعا كیلئے منبر پر ہاتھ اٹھانے اور صبح اور عصر كی نماز كے بعد قصہ كہانی پرجمع كر دیا ہے تو غضیف نے كہا یہ دونوں كام میرے نزدیك بدعت كی بہترین مثال ہیں اور میں تمہارے ساتھ ان دونوں میں سے كسی ایك كو بھی نہیں كر سكتا كیونكہ نبیﷺكا ارشاد گرامی ہے: جس قدر كوئی قوم بدعات كرتی ہے اسی قدر ان سے سنت اٹھ جاتی ہے اس لئے سنت کے تمسک بدعات گھڑنے سے بہتر ہے۔
32- عَنْ أَبِي هرَيرَةَؓ قَالَ لَمَّا تُوُفِّي النَّبِيُّﷺ وَاسْتُخْلِفَ أَبُو بَكْرٍ بَعْدَه وَكَفَرَ مَنْ كَفَرَ مِنْ الْعَرَبِ قَالَ عُمَرُ لِأَبِي بَكْرٍ:كَيفَ تُقَاتِلُ النَّاسَ؟ وَقَدْ قَالَ رَسُولُ الله ﷺ: أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يقُولُوا لَا إِلَه إِلَّا الله فَمَنْ قَالَ لَا إِلَه إِلَّا الله فَقَدْ عَصَمَ مِنِّي مَالَه وَنَفْسَه إِلَّا بِحَقِّه وَحِسَابُه عَلَى الله فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: وَاللّه لَأُقَاتِلَنَّ مَنْ فَرَّقَ بَينَ الصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ فَإِنَّ الزَّكَاةَ حَقُّ الْمَالِ وَالله لَوْ مَنَعُونِي عِقَالًا كَانُوا يؤَدُّونَه إِلَى رَسُولِ الله ﷺ لَقَاتَلْتُهمْ عَلَى مَنْعِه . فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: فَوَالله مَا هوَ إِلَّا أَنْ رَأَيتُ الله عَزَّ وَجَلَّ قَدْ شَرَحَ صَدْرَ أَبِي بَكْرٍ لِلْقِتَالِ فَعَرَفْتُ أَنَّه الْحَقُّ. ([2])
(٣٢)سیدنا ابو ہریرہ كہتے ہیں كہ جب رسول اللہﷺ نے وفات پائی اور ابو بكر صدیق خلیفہ ہوئے اور عرب كے لوگ جنہوں نے كافر ہونا تھا وہ كافر ہوگئے تو عمر نے ابو بكر صدیق سے كہا كہ تم ان لوگوں سے كیسے لڑو گے حالانكہ رسول اللہﷺنے فرمایا: مجھے حكم ہوا ہے لوگوں سے لڑنے كا یہاں تك كہ وہ ”لاالہ الا اللہ“نہ كہہ لیں۔ پھر جس نے ”لاالہ الا اللہ“كہا اس نے مجھ سے اپنا مال اور جان كو بچا لیا مگر كسی حق كے بدلے(یعنی كسی قصور كے بدلے جیسے زنا كرے یا خو ن كرے تو پكڑا جائے گا) پھر اس كا حساب اللہ تعالیٰ پر ہے ۔ ابو بكر صدیق نے كہا اللہ كی قسم میں تو اس شخص سے لڑونگا جو نماز اور زكوٰۃ میں فرق كرے اس لئے كہ زكوٰۃ مال كا حق ہے اللہ كی قسم اگر وہ ایك عقال روكیں گے جو رسول اللہﷺ كو دیا كرتے تھے تو میں ان سے اس كے نہ دینے پر بھی ضرور قتال كروں گا۔عمر نے كہا اللہ كی قسم پھر وہ كچھ نہ تھا مگر میں نے یقین كیا كہ اللہ عزوجل نے ابو بكر كا سینا لڑائی كے لئے كھول دیا ہے۔ تب میں نے جان لیا كہ یہی حق ہے۔
33- عَنْ عَائِشَةَr قَالَتْ: إِنَّ فَاطِمَةَ r أَرْسَلَتْ إِلَى أَبِي بَكْرٍ تَسْأَلُه مِيرَاثَها مِنْ النَّبِي ﷺ مِمَّا أَفَاءَ الله عَلَى رَسُولِه ﷺ تَطْلُبُ صَدَقَةَ النَّبِي ﷺ الَّتِي بِالْمَدِينَةِ وَفَدَكٍ وَمَا بَقِي مِنْ خُمُسِ خَيبَرَ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ إِنَّ رَسُولَ الله ﷺ قَالَ لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا فَهوَ صَدَقَةٌ إِنَّمَا يأْكُلُ آلُ مُحَمَّدٍ مِنْ هذَا الْمَالِ يعْنِي مَالَ الله لَيسَ لَهمْ أَنْ يزِيدُوا عَلَى الْمَأْكَلِ وَإِنِّي وَالله لَا أُغَيرُ شَيئًا مِنْ صَدَقَاتِ رَسُولِ اللهِ ﷺ الَّتِي كَانَتْ عَلَيها فِي عَهدِ النَّبِي ﷺ وَلَأَعْمَلَنَّ فِيها بِمَا عَمِلَ فِيها رَسُولُ الله ﷺ فَتَشَهدَ عَلِي ثُمَّ قَالَ إِنَّا قَدْ عَرَفْنَا يا أَبَا بَكْرٍ فَضِيلَتَكَ وَذَكَرَ قَرَابَتَهمْ مِنْ

[1] - (ضعيف) ضعيف الجامع رقم (4983) مسند أحمد (4/105)
[2] - صحيح البخاري رقم (1399) صحيح مسلم كِتَاب الْإِيمَانِ بَاب الْأَمْرِ بِقِتَالِ النَّاسِ حَتَّى يقُولُوا لَا إِلَه إِلَّا اللَّه مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّه رقم (20)​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207

رَسُولِ الله ﷺ وَحَقَّهمْ فَتَكَلَّمَ أَبُو بَكْرٍ فَقَالَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيدِه لَقَرَابَةُ رَسُولِ الله ﷺ أَحَبُّ إِلَي أَنْ أَصِلَ مِنْ قَرَابَتِي. ([1])

(٣٣)سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے فرماتی ہیں كہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ابو بكر كے یہاں اپنا آدمی بھیج كر نبی كریم سے ملنے والی میراث كا مطالبہ كیا جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول كو فئ كی صورت میں دی تھی۔ یعنی آپ كا مطالبہ مدینہ كی اس جائیداد كے بارے میں تھا جس كی آمدن سے آپ ﷺ مصارف خیر میں خرچ كرتے تھے اور اسی طرح فدك كی جائیداد اور خیبر كے خمس كا بھی مطالبہ كیا سیدنا ابو بكرنے كہا رسول اللہ ﷺ خود فرماتے تھے كہ ہماری میراث نہیں ہوتی ۔ہم ( انبیاء) جو كچھ چھوڑ جاتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے اور یہ كہ آل محمد كے اخرجات اسی مال میں سے پورے كئے جائیں گے۔مگر انہیں یہ حق نہیں ہوگا كہ كھانے كے علاوہ اور كچھ تصرف كریں اور میں اللہ كی قسم رسول اللہ ﷺ كے صدقات جس حالت پر آپ كے زمانے میں ہوا کرتے تھے ان میں كوئی رد بدل نہیں كروں گا بلكہ وہی نظام جاری ركھوں گا جسے رسول اللہ ﷺ نے قائم فرمایا تھا پھر علی  ابو بكر صدیق كے پاس آئے اور كہنے لگے، اے ابو بكر ہم آپ كی فضیلت و مرتبہ كا اقرار كرتے ہیں ،اس كے بعد انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے اپنی قرابت كا اور اپنے حق كا ذكر كیا ، ابو بكر نے فرمایا: اس ذات كی قسم جس كے ہاتھ میں میری جان ہے ۔آپ ﷺ كی قرابت والوں سے سلوك كرنا مجھ كو اپنی قرابت والوں كے ساتھ سلوك كرنے سے زیادہ پسند ہے۔

نبی ﷺ كی زندگی میں اتباع كے عملی نمونے
34- عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِي الله عَنْهمَا قَالَ اتَّخَذَ النَّبِي ﷺ خَاتَمًا مِنْ ذَهبٍ فَاتَّخَذَ النَّاسُ خَوَاتِيمَ مِنْ ذَهبٍ فَقَالَ النَّبِي ﷺ إِنِّي اتَّخَذْتُ خَاتَمًا مِنْ ذَهبٍ فَنَبَذَه وَقَالَ إِنِّي لَنْ أَلْبَسَه أَبَدًا فَنَبَذَ النَّاسُ خَوَاتِيمَهمْ. ([2])
(٣٤) عبداللہ بن عمر كہتے ہیں نبی اكرم ﷺنے سونے كی ایك انگوٹھی بنوائی تو صحابہ كرام yنے آپ كی انگوٹھی كودیكھا اور سب نے انگوٹھیاں بنوالیں آپ نے فرمایا: میں سونے كی انگوٹھی استعمال نہیں كرونگا( آپ كی اتباع میں)صحابہ كرام نے بھی اپنی اپنی انگوٹھیاں اتار كر پھینك دیں۔
35- عَنْ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ وَمَرْوَانَ يصَدِّقُ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهمَا حَدِيثَ صَاحِبِه قَالَا خَرَجَ رَسُولُ الله ﷺ زَمَنَ الْحُدَيبِيةِ حَتَّى إِذَا كَانُوا بِبَعْضِ الطَّرِيقِ قَالَ النَّبِي ﷺ إِنَّ خَالِدَ بْنَ الْوَلِيدِ بِالْغَمِيمِ فِي خَيلٍ لِقُرَيشٍ طَلِيعَةٌ فَخُذُوا ذَاتَ الْيمِينِ فَوَالله مَا شَعَرَ بِهمْ خَالِدٌ حَتَّى إِذَا همْ بِقَتَرَةِ الْجَيشِ فَانْطَلَقَ يرْكُضُ نَذِيرًا لِقُرَيشٍ وَسَارَ النَّبِي ﷺ حَتَّى إِذَا كَانَ بِالثَّنِيةِ الَّتِي يهْبِطُ عَلَيهمْ مِنْها بَرَكَتْ بِه رَاحِلَتُه فَقَالَ النَّاسُ: حَلْ حَلْ فَأَلَحَّتْ فَقَالُوا خَلَأَتْ الْقَصْوَاءُ خَلَأَتْ الْقَصْوَاءُ فَقَالَ النَّبِي ﷺ مَا خَلَأَتْ الْقَصْوَاءُ وَمَا ذَاكَ لَها بِخُلُقٍ وَلَكِنْ حَبَسَها حَابِسُ الْفِيلِ ثُمَّ قَالَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيدِه لَا يسْأَلُونَنِي خُطَّةً يعَظِّمُونَ فِيها حُرُمَاتِ الله إِلَّا أَعْطَيتُهمْ إِياها ثُمَّ زَجَرَها فَوَثَبَتْ قَالَ فَعَدَلَ عَنْهمْ حَتَّى نَزَلَ بِأَقْصَى الْحُدَيبِيةِ عَلَى ثَمَدٍ قَلِيلِ الْمَاءِ يتَبَرَّضُه النَّاسُ تَبَرُّضًا فَلَمْ يلَبِّثْه النَّاسُ حَتَّى نَزَحُوه

[1] - صحيح البخاري كِتَاب الْمَنَاقِبِ بَاب مَنَاقِبِ قَرَابَةِ رَسُولِ اللَّه ﷺ وَمَنْقَبَةِ فَاطِمَةَ عليه السَّلَام رقم (3711، 3712)​
[2] - صحيح البخاري كِتَاب الِاعْتِصَامِ بِالْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ بَاب الِاقْتِدَاءِ بِأَفْعَالِ النَّبِي ﷺ رقم (7298)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَشُكِي إِلَى رَسُولِ الله ﷺ الْعَطَشُ فَانْتَزَعَ سَهمًا مِنْ كِنَانَتِه ثُمَّ أَمَرَهمْ أَنْ يجْعَلُوه فِيه فَوَالله مَا زَالَ يجِيشُ لَهمْ بِالرِّي حَتَّى صَدَرُوا عَنْه فَبَينَمَا همْ كَذَلِكَ إِذْ جَاءَ بُدَيلُ بْنُ وَرْقَاءَ الْخُزَاعِي فِي نَفَرٍ مِنْ قَوْمِه مِنْ خُزَاعَةَ وَكَانُوا عَيبَةَ نُصْحِ رَسُولِ الله ﷺ مِنْ أَهلِ تِهامَةَ فَقَالَ إِنِّي تَرَكْتُ كَعْبَ بْنَ لُؤَي وَعَامِرَ بْنَ لُؤَي نَزَلُوا أَعْدَادَ مِياه الْحُدَيبِيةِ وَمَعَهمْ الْعُوذُ الْمَطَافِيلُ وَهمْ مُقَاتِلُوكَ وَصَادُّوكَ عَنْ الْبَيتِ فَقَالَ رَسُولُ الله ﷺ إِنَّا لَمْ نَجِئْ لِقِتَالِ أَحَدٍ وَلَكِنَّا جِئْنَا مُعْتَمِرِينَ وَإِنَّ قُرَيشًا قَدْ نَهكَتْهمْ الْحَرْبُ وَأَضَرَّتْ بِهمْ فَإِنْ شَاءُوا مَادَدْتُهمْ مُدَّةً وَيخَلُّوا بَينِي وَبَينَ النَّاسِ فَإِنْ أَظْهرْ فَإِنْ شَاءُوا أَنْ يدْخُلُوا فِيمَا دَخَلَ فِيه النَّاسُ فَعَلُوا وَإِلَّا فَقَدْ جَمُّوا وَإِنْ همْ أَبَوْا فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيدِه لَأُقَاتِلَنَّهمْ عَلَى أَمْرِي هذَا حَتَّى تَنْفَرِدَ سَالِفَتِي وَلَينْفِذَنَّ الله أَمْرَه فَقَالَ بُدَيلٌ سَأُبَلِّغُهمْ مَا تَقُولُ قَالَ فَانْطَلَقَ حَتَّى أَتَى قُرَيشًا قَالَ إِنَّا جِئْنَاكُمْ مِنْ هذَا الرَّجُلِ وَسَمِعْنَاه يقُولُ قَوْلًا فَإِنْ شِئْتُمْ أَنْ نَعْرِضَه عَلَيكُمْ فَعَلْنَا فَقَالَ سُفَهاؤُهمْ لَا حَاجَةَ لَنَا أَنْ تُخْبِرَنَا عَنْه بِشَيءٍ وَقَالَ ذَوُو الرَّأْي مِنْهمْ هاتِ مَا سَمِعْتَه يقُولُ قَالَ سَمِعْتُه يقُولُ كَذَا وَكَذَا فَحَدَّثَهمْ بِمَا قَالَ النَّبِي ﷺ فَقَامَ عُرْوَةُ بْنُ مَسْعُودٍ فَقَالَ أَي قَوْمِ أَلَسْتُمْ بِالْوَالِدِ قَالُوا بَلَى قَالَ أَوَلَسْتُ بِالْوَلَدِ قَالُوا بَلَى قَالَ فَهلْ تَتَّهمُونِي قَالُوا لَا قَالَ أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنِّي اسْتَنْفَرْتُ أَهلَ عُكَاظَ فَلَمَّا بَلَّحُوا عَلَي جِئْتُكُمْ بِأَهلِي وَوَلَدِي وَمَنْ أَطَاعَنِي قَالُوا بَلَى قَالَ فَإِنَّ هذَا قَدْ عَرَضَ علَيْكُمْ خُطَّةَ رُشْدٍ اقْبَلُوها وَدَعُونِي آتِيه قَالُوا ائْتِه فَأَتَاه فَجَعَلَ يكَلِّمُ النَّبِي ﷺ فَقَالَ النَّبِي ﷺ نَحْوًا مِنْ قَوْلِه لِبُدَيلٍ فَقَالَ عُرْوَةُ عِنْدَ ذَلِكَ أَي مُحَمَّدُ أَرَأَيتَ إِنْ اسْتَأْصَلْتَ أَمْرَ قَوْمِكَ هلْ سَمِعْتَ بِأَحَدٍ مِنْ الْعَرَبِ اجْتَاحَ أَهلَه قَبْلَكَ وَإِنْ تَكُنِ الْأُخْرَى فَإِنِّي وَالله لَأَرَى وُجُوها وَإِنِّي لَأَرَى أَوْشَابًا مِنْ النَّاسِ خَلِيقًا أَنْ يفِرُّوا وَيدَعُوكَ فَقَالَ لَه أَبُو بَكْرٍ : امْصُصْ بِبَظْرِ اللَّاتِ أَنَحْنُ نَفِرُّ عَنْه وَنَدَعُه فَقَالَ مَنْ ذَا قَالُوا أَبُو بَكْرٍ قَالَ أَمَا وَالَّذِي نَفْسِي بِيدِه لَوْلَا يدٌ كَانَتْ لَكَ عِنْدِي لَمْ أَجْزِكَ بِها لَأَجَبْتُكَ قَالَ وَجَعَلَ يكَلِّمُ النَّبِي ﷺ فَكُلَّمَا تَكَلَّمَ كَلِمَة أَخَذَ بِلِحْيتِه وَالْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ قَائِمٌ عَلَى رَأْسِ النَّبِي ﷺ وَمَعَه السَّيفُ وَعَلَيه الْمِغْفَرُ فَكُلَّمَا أَهوَى عُرْوَةُ بِيدِه إِلَى لِحْيةِ النَّبِي ﷺ ضَرَبَ يدَه بِنَعْلِ السَّيفِ وَقَالَ لَه أَخِّرْ يدَكَ عَنْ لِحْيةِ رَسُولِ الله ﷺ فَرَفَعَ عُرْوَةُ رَأْسَه فَقَالَ مَنْ هذَا قَالَ الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ فَقَالَ أَي غُدَرُ أَلَسْتُ
أَسْعَى فِي غَدْرَتِكَ وَكَانَ الْمُغِيرَةُ صَحِبَ قَوْمًا فِي الْجَاهلِيةِ فَقَتَلَهمْ وَأَخَذَ أَمْوَالَهمْ ثُمَّ جَاءَ فَأَسْلَمَ فَقَالَ النَّبِي ﷺ أَمَّا الْإِسْلَامَ فَأَقْبَلُ وَأَمَّا الْمَالَ فَلَسْتُ مِنْه فِي شَيءٍ ثُمَّ إِنَّ عُرْوَةَ جَعَلَ يرْمُقُ أَصْحَابَ النَّبِي ﷺ بِعَينَيه قَالَ فَوَالله مَا تَنَخَّمَ رَسُولُ الله ﷺ نُخَامَةً إِلَّا وَقَعَتْ فِي كَفِّ رَجُلٍ مِنْهمْ فَدَلَكَ بِها وَجْهه وَجِلْدَه وَإِذَا أَمَرَهمْ ابْتَدَرُوا أَمْرَه وَإِذَا تَوَضَّأَ كَادُوا يقْتَتِلُونَ عَلَى وَضُوئِه وَإِذَا تَكَلَّمَ خَفَضُوا أَصْوَاتَهمْ عِنْدَه وَمَا يحِدُّونَ إِلَيه النَّظَرَ تَعْظِيمًا لَه فَرَجَعَ عُرْوَةُ إِلَى أَصْحَابِه فَقَالَ أَي قَوْمِ وَالله لَقَدْ وَفَدْتُ عَلَى الْمُلُوكِ وَوَفَدْتُ عَلَى قَيصَرَ وَكِسْرَى وَالنَّجَاشِي وَالله إِنْ رَأَيتُ مَلِكًا قَطُّ يعَظِّمُه أَصْحَابُه مَا يعَظِّمُ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ ﷺ مُحَمَّدًا وَالله إِنْ يَتَنَخَّمُ نُخَامَةً إِلَّا وَقَعَتْ فِي كَفِّ رَجُلٍ مِنْهمْ فَدَلَّكَ بِها وَجْهه وَجِلْدَه وَإِذَا أَمَرَهمْ ابْتَدَرُوا أَمْرَه وَإِذَا تَوَضَّأَ كَادُوا يقْتَتِلُونَ عَلَى وَضُوئِه وَإِذَا تَكَلَّمَ خَفَضُوا أَصْوَاتَهمْ عِنْدَه وَمَا يحِدُّونَ إِلَيه النَّظَرَ تَعْظِيمًا لَه وَإِنَّه قَدْ عَرَضَ عَلَيكُمْ خُطَّةَ رُشْدٍ فَاقْبَلُوها فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي كِنَانَةَ دَعُونِي آتِيه فَقَالُوا ائْتِه فَلَمَّا أَشْرَفَ عَلَى النَّبِي ﷺ وَأَصْحَابِه قَالَ رَسُولُ الله ﷺ هذَا فُلَانٌ وَهوَ مِنْ قَوْمٍ يعَظِّمُونَ الْبُدْنَ فَابْعَثُوها لَه فَبُعِثَتْ لَه وَاسْتَقْبَلَه النَّاسُ يلَبُّونَ فَلَمَّا رَأَى ذَلِكَ قَالَ سُبْحَانَ الله
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
مَا ينْبَغِي لِهؤُلَاءِ أَنْ يصَدُّوا عَنْ الْبَيتِ فَلَمَّا رَجَعَ إِلَى أَصْحَابِه قَالَ رَأَيتُ الْبُدْنَ قَدْ قُلِّدَتْ وَأُشْعِرَتْ فَمَا أَرَى أَنْ يصَدُّوا عَنْ الْبَيتِ فَقَامَ رَجُلٌ مِنْهمْ يقَالُ لَه مِكْرَزُ بْنُ حَفْصٍ فَقَالَ دَعُونِي آتِيه فَقَالُوا ائْتِه فَلَمَّا أَشْرَفَ عَلَيهمْ قَالَ النَّبِي ﷺ هذَا مِكْرَزٌ وَهوَ رَجُلٌ فَاجِرٌ فَجَعَلَ يكَلِّمُ النَّبِي ﷺ فَبَينَمَا هوَ يكَلِّمُه إِذْ جَاءَ سُهيلُ بْنُ عَمْرٍو فَقَالَ النَّبِي ﷺ قَدْ سَهلَ لَكُمْ مِنْ أَمْرِكُمْ فَجَاءَ سُهيلُ بْنُ عَمْرٍو فَقَالَ هاتِ اكْتُبْ بَينَنَا وَبَينَكُمْ كِتَابًا فَدَعَا النَّبِي ﷺ الْكَاتِبَ فَقَالَ النَّبِي ﷺ بِسْمِ الله الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ فَقَالَ سُهيلٌ: أَمَّا (الرَّحْمَنُ) فَوَالله مَا أَدْرِي مَا هِيَ وَلَكِنْ اكْتُبْ بِاسْمِكَ اللهمَّ كَمَا كُنْتَ تَكْتُبُ فَقَالَ الْمُسْلِمُونَ وَالله لَا نَكْتُبُها إِلَّا بِسْمِ الله الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ فَقَالَ النَّبِي ﷺ اكْتُبْ بِاسْمِكَ اللهمَّ ثُمَّ قَالَ هذَا مَا قَاضَى عَلَيه مُحَمَّدٌ رَسُولُ الله فَقَالَ سُهيلٌ وَالله لَوْ كُنَّا نَعْلَمُ أَنَّكَ رَسُولُ الله مَا صَدَدْنَاكَ عَنْ الْبَيتِ وَلَا قَاتَلْنَاكَ وَلَكِنْ اكْتُبْ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الله فَقَالَ النَّبِي ﷺ وَالله إِنِّي لَرَسُولُ الله وَإِنْ كَذَّبْتُمُونِي اكْتُبْ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الله وَذَلِكَ لِقَوْلِه لَا يسْأَلُونَنِي خُطَّةً يعَظِّمُونَ فِيها حُرُمَاتِ الله إِلَّا أَعْطَيتُهمْ إِياها فَقَالَ لَه النَّبِي ﷺ عَلَى أَنْ تُخَلُّوا بَينَنَا وَبَينَ الْبَيتِ فَنَطُوفَ بِه فَقَالَ سُهيلٌ وَالله لَا تَتَحَدَّثُ الْعَرَبُ أَنَّا أُخِذْنَا ضُغْطَةً وَلَكِنْ ذَلِكَ مِنْ الْعَامِ الْمُقْبِلِ فَكَتَبَ فَقَالَ سُهيلٌ وَعَلَى أَنَّه لَا يأْتِيكَ مِنَّا رَجُلٌ وَإِنْ كَانَ عَلَى دِينِكَ إِلَّا رَدَدْتَه إِلَينَا قَالَ الْمُسْلِمُونَ سُبْحَانَ الله كَيفَ يرَدُّ إِلَى الْمُشْرِكِينَ وَقَدْ جَاءَ مُسْلِمًا فَبَينَمَا همْ كَذَلِكَ إِذْ دَخَلَ أَبُو جَنْدَلِ بْنُ سُهيلِ بْنِ عَمْرٍو يرْسُفُ فِي قُيودِه وَقَدْ خَرَجَ مِنْ أَسْفَلِ مَكَّةَ حَتَّى رَمَى بِنَفْسِه بَينَ أَظْهرِ الْمُسْلِمِينَ فَقَالَ سُهيلٌ هذَا يا مُحَمَّدُ أَوَّلُ مَن أُقَاضِيكَ عَلَيه أَنْ تَرُدَّه إِلَي فَقَالَ النَّبِي ﷺ إِنَّا لَمْ نَقْضِ الْكِتَابَ بَعْدُ قَالَ فَوَالله إِذًا لَمْ أُصَالِحْكَ عَلَى شَيءٍ أَبَدًا قَالَ النَّبِي ﷺ فَأَجِزْه لِي قَالَ مَا أَنَا بِمُجِيزِه لَكَ قَالَ بَلَى فَافْعَلْ قَالَ مَا أَنَا بِفَاعِلٍ قَالَ مِكْرَزٌ بَلْ قَدْ أَجَزْنَاه لَكَ قَالَ أَبُو جَنْدَلٍ أَي مَعْشَرَ الْمُسْلِمِينَ أُرَدُّ إِلَى الْمُشْرِكِينَ وَقَدْ جِئْتُ مُسْلِمًا أَلَا تَرَوْنَ مَا قَدْ لَقِيتُ وَكَانَ قَدْ عُذِّبَ عَذَابًا شَدِيدًا فِي الله قَالَ فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فَأَتَيتُ نَبِي الله ﷺ فَقُلْتُ أَلَسْتَ نَبِي الله حَقًّا قَالَ بَلَى قُلْتُ أَلَسْنَا عَلَى الْحَقِّ وَعَدُوُّنَا عَلَى الْبَاطِلِ قَالَ بَلَى قُلْتُ فَلِمَ نُعْطِي الدَّنِيةَ فِي دِينِنَا إِذًا قَالَ إِنِّي رَسُولُ الله وَلَسْتُ أَعْصِيه وَهوَ نَاصِرِي قُلْتُ أَوَلَيسَ كُنْتَ تُحَدِّثُنَا أَنَّا سَنَأْتِي الْبَيتَ فَنَطُوفُ بِه قَالَ بَلَى
فَأَخْبَرْتُكَ أَنَّا نَأْتِيه الْعَامَ قَالَ قُلْتُ لَا قَالَ فَإِنَّكَ آتِيه وَمُطَّوِّفٌ بِه قَالَ فَأَتَيتُ أَبَا بَكْرٍ فَقُلْتُ يا أَبَا بَكْرٍ أَلَيسَ هذَا نَبِي الله حَقًّا قَالَ بَلَى قُلْتُ أَلَسْنَا عَلَى الْحَقِّ وَعَدُوُّنَا عَلَى الْبَاطِلِ قَالَ بَلَى قُلْتُ فَلِمَ نُعْطِي الدَّنِيةَ فِي دِينِنَا إِذًا قَالَ أَيها الرَّجُلُ إِنَّه لَرَسُولُ الله ﷺ وَلَيسَ يعْصِي رَبَّه وَهوَ نَاصِرُه فَاسْتَمْسِكْ بِغَرْزِه فَوَالله إِنَّه عَلَى الْحَقِّ قُلْتُ أَلَيسَ كَانَ يحَدِّثُنَا أَنَّا سَنَأْتِي الْبَيتَ وَنَطُوفُ بِه قَالَ بَلَى أَفَأَخْبَرَكَ أَنَّكَ تَأْتِيه الْعَامَ قُلْتُ لَا قَالَ فَإِنَّكَ آتِيه وَمُطَّوِّفٌ بِه قَالَ الزُّهرِي قَالَ عُمَرُ فَعَمِلْتُ لِذَلِكَ أَعْمَالًا قَالَ فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ قَضِيةِ الْكِتَابِ قَالَ رَسُولُ الله ﷺ لِأَصْحَابِه قُومُوا فَانْحَرُوا ثُمَّ احْلِقُوا قَالَ فَوَالله مَا قَامَ مِنْهمْ رَجُلٌ حَتَّى قَالَ ذَلِكَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ فَلَمَّا لَمْ يقُمْ مِنْهمْ أَحَدٌ دَخَلَ عَلَى أُمِّ سَلَمَةَ فَذَكَرَ لَها مَا لَقِي مِنْ النَّاسِ فَقَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ يا نَبِي الله أَتُحِبُّ ذَلِكَ اخْرُجْ ثُمَّ لَا تُكَلِّمْ أَحَدًا مِنْهمْ كَلِمَةً حَتَّى تَنْحَرَ بُدْنَكَ وَتَدْعُوَ حَالِقَكَ فَيحْلِقَكَ فَخَرَجَ فَلَمْ يكَلِّمْ أَحَدًا مِنْهمْ حَتَّى فَعَلَ ذَلِكَ نَحَرَ بُدْنَه وَدَعَا حَالِقَه فَحَلَقَه فَلَمَّا رَأَوْا ذَلِكَ قَامُوا فَنَحَرُوا وَجَعَلَ بَعْضُهمْ يحْلِقُ بَعْضًا حَتَّى كَادَ بَعْضُهمْ يقْتُلُ بَعْضًا غَمًّا ثُمَّ
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
جَاءَه نِسْوَةٌ مُؤْمِنَاتٌ فَأَنْزَلَ الله تَعَالَى: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا جَاءَكُمُ الْمُؤْمِنَاتُ مُهَاجِرَ‌اتٍ فَامْتَحِنُوهُنَّ ۖ اللَّـهُ أَعْلَمُ بِإِيمَانِهِنَّ ۖ فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِنَاتٍ فَلَا تَرْ‌جِعُوهُنَّ إِلَى الْكُفَّارِ‌ ۖ لَا هُنَّ حِلٌّ لَّهُمْ وَلَا هُمْ يَحِلُّونَ لَهُنَّ ۖ وَآتُوهُم مَّا أَنفَقُوا ۚ وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ أَن تَنكِحُوهُنَّ إِذَا آتَيْتُمُوهُنَّ أُجُورَ‌هُنَّ ۚ وَلَا تُمْسِكُوا بِعِصَمِ الْكَوَافِرِ‌ وَاسْأَلُوا مَا أَنفَقْتُمْ وَلْيَسْأَلُوا مَا أَنفَقُوا ۚ ذَٰلِكُمْ حُكْمُ اللَّـهِ ۖ يَحْكُمُ بَيْنَكُمْ ۚ وَاللَّـهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ ﴿١٠﴾ (الممتحنة) فَطَلَّقَ عُمَرُ يوْمَئِذٍ امْرَأَتَينِ كَانَتَا لَه فِي الشِّرْكِ فَتَزَوَّجَ إِحْدَاهمَا مُعَاوِيةُ بْنُ أَبِي سُفْيانَ وَالْأُخْرَى صَفْوَانُ بْنُ أُمَيةَ ثُمَّ رَجَعَ النَّبِي ﷺ إِلَى الْمَدِينَةِ فَجَاءَه أَبُو بَصِيرٍ رَجُلٌ مِنْ قُرَيشٍ وَهوَ مُسْلِمٌ فَأَرْسَلُوا فِي طَلَبِه رَجُلَينِ فَقَالُوا الْعَهَ الَّذِي جَعَلْتَ لَنَا فَدَفَعَه ِلَى الرَّجُلَينِ فَخَرَجَا بِه حَتَّى بَلَغَا ذَا الْحُلَيفَةِ فَنَزَلُوا يأْكُلُونَ مِنْ تَمْرٍ لَهْ فَقَالَ أَبُو بَصِيرٍ لِأَحَدِ الرَّجُلَينِ وَالله إِنِّي لَأَرَى سَيفَكَ هذَا يا فُلَانُ جَيدًا فَاسْتَلَّه الْآخَرُ فَقَالَ أَجَلْ وَالله إِنَّه لَجَيدٌ لَقَدْ جَرَّبْتُ بِه ثُمَّ جَرَّبْتُ بِه ثُمَّ جَرَّبْتُ فَقَالَ أَبُو بَصِيرٍ: أَرِنِي أَنْظُرْ إِلَيه فَأَمْكَنَه مِنْه فَضَرَبَه حَتَّى بَرَدَ وَفَرَّ الْآخَرُ حَتَّى أَتَى الْمَدِينَةَ فَدَخَلَ الْمَسْجِدَ يعْدُو فَقَالَ رَسُولُ الله ﷺ حِينَ رَآه لَقَدْ رَأَى هذَا ذُعْرًا فَلَمَّا انْتَهى إِلَى النَّبِي ﷺ قَالَ قُتِلَ وَالله صَاحِبِي وَإِنِّي لَمَقْتُولٌ فَجَاءَ أَبُو بَصِيرٍ فَقَالَ يا نَبِي الله قَدْ وَالله أَوْفَى الله ذِمَّتَكَ قَدْ رَدَدْتَنِي إِلَيهمْ ثُمَّ أَنْجَانِي الله مِنْهمْ قَالَ النَّبِي ﷺ وَيلُ أُمِّه مِسْعَرَ حَرْبٍ لَوْ كَانَ لَه أَحَدٌ فَلَمَّا سَمِعَ ذَلِكَ عَرَفَ أَنَّه سَيرُدُّه إِلَيهمْ فَخَرَجَ حَتَّى أَتَى سِيفَ الْبَحْرِ قَالَ وَينْفَلِتُ مِنْهمْ أَبُو جَنْدَلِ بْنُ سُهيلٍ فَلَحِقَ بِأَبِي بَصِيرٍ فَجَعَلَ لَا يخْرُجُ مِنْ قُرَيشٍ رَجُلٌ قَدْ أَسْلَمَ إِلَّا لَحِقَ بِأَبِي بَصِيرٍ حَتَّى اجْتَمَعَتْ مِنْهمْ عِصَابَةٌ فَوَالله مَا يسْمَعُونَ بِعِيرٍ خَرَجَتْ لِقُرَيشٍ إِلَى الشَّأْمِ إِلَّا اعْتَرَضُوا لَها فَقَتَلُوهمْ وَأَخَذُوا أَمْوَالَهمْ فَأَرْسَلَتْ قُرَيشٌ إِلَى النَّبِي ﷺ تُنَاشِدُه الله وَالرَّحِمِ لَمَّا أَرْسَلَ فَمَنْ أَتَا فَهوَ آمِنٌ فَأَرْسَلَ النَّبِي ﷺ إِلَيهمْ فَأَنْزَلَ الله تَعَالَى:وَهُوَ الَّذِي كَفَّ أَيْدِيَهُمْ عَنكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ عَنْهُم بِبَطْنِ مَكَّةَ مِن بَعْدِ أَنْ أَظْفَرَ‌كُمْ عَلَيْهِمْ ۚ وَكَانَ اللَّـهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرً‌ا ﴿٢٤﴾ هُمُ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا وَصَدُّوكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَ‌امِ وَالْهَدْيَ مَعْكُوفًا أَن يَبْلُغَ مَحِلَّهُ ۚ وَلَوْلَا رِ‌جَالٌ مُّؤْمِنُونَ وَنِسَاءٌ مُّؤْمِنَاتٌ لَّمْ تَعْلَمُوهُمْ أَن تَطَئُوهُمْ فَتُصِيبَكُم مِّنْهُم مَّعَرَّ‌ةٌ بِغَيْرِ‌ عِلْمٍ ۖ لِّيُدْخِلَ اللَّـهُ فِي رَ‌حْمَتِهِ مَن يَشَاءُ ۚ لَوْ تَزَيَّلُوا لَعَذَّبْنَا الَّذِينَ كَفَرُ‌وا مِنْهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا ﴿٢٥﴾ إِذْ جَعَلَ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا فِي قُلُوبِهِمُ الْحَمِيَّةَ حَمِيَّةَ الْجَاهِلِيَّةِ فَأَنزَلَ اللَّـهُ سَكِينَتَهُ عَلَىٰ رَ‌سُولِهِ وَعَلَى الْمُؤْمِنِينَ وَأَلْزَمَهُمْ كَلِمَةَ التَّقْوَىٰ وَكَانُوا أَحَقَّ بِهَا وَأَهْلَهَا ۚ وَكَانَ اللَّـهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا ﴿٢٦﴾(الفتح) وَكَانَتْ حَمِيتُهمْ أَنَّهمْ لَمْ يقِرُّوا أَنَّه نَبِي الله وَلَمْ يقِرُّوا بِ بِسْمِ الله الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ وَحَالُوا بَينَهمْ وَبَينَ الْبَيتِ. ([1])
(٣٥)مسوربن مخرمہ اور مروان روایت كرتے ہیں اور دونوں كے بیان سے ایك دوسرے كی حدیث كی تصدیق ہوتی ہے۔ انہوں نے بیان كیا كہ رسول اللہﷺ صلح حدیبیہ كے موقع پر( مكہ) جا رہے تھے، ابھی آپ راستے میں ہی تھے۔ فرمایا خالد بن ولید قریش كے ( دوسو) سواروں كے ساتھ ہماری نقل و حركت كا اندازہ لگانے كے لئے مقام غمیم( یہ جگہ مكہ سے دو میل پر ہے)میں مقیم ہے( یہ قریش كا مقدمۃ الجیش ہے) اس لئے لوگو دا ہنی طرف ہو جاؤ، پس اللہ كی قسم خالد كو ان كے متعلق كچھ بھی علم نہ ہو سكا اور جب انہوں نے اس لشكر كا غبار اٹھتا ہو ا دیكھا تو قریش كو جلدی جلدی خبر دینے گئے ۔ادھر نبیﷺ چلتے رہے یہاں تك كہ آپ اس گھاٹی پر پہنچے جس سے مكہ میں اترتے ہیں تو آپ كی سواری بیٹھ گئی صحابہ اونٹنی كو اٹھانے كے لئے حَل حَل كہنے لگے ۔لیكن وہ اپنی جگہ سے نہ اٹھی،صحابہ رضی اللہ عنہم نے كہا كہ قصواء( نبی كی اونٹنی كا نام) اَڑ گئی، آپ نے فرمایا: قصواء اڑی نہیں اور نہ یہ اس كی عادت ہے، اسے تو اس ذات نے روك لیا جس نے ہاتھیوں ( كے لشكر) كو (مكہ) میں داخل ہونے سے روك دیا تھا۔ پھر آپ نے فرمایا : كہ اس ذات كی قسم جس كے ہاتھ میں میری جان ہے قریش جو بھی ایسا مطالبہ ركھیں گے جس میں اللہ كے گھر كی بڑائی ہو تو میں ان كا مطالبہ منظور كرلونگا ۔آخر آپ نے اونٹنی كو ڈانٹا تو اٹھ گئی۔ راوی نے بیان كیا كہ پھر نبیﷺ صحابہ سے آگے نكل گئے اور حدیبیہ كے آخری كنارے ثمد( ایك چشمہ یا گڑھا) پر جہاں پانی كم تھا آپ نے پڑاؤ ڈالا لوگ تھوڑا تھوڑا پانی استعمال كرنے لگے۔انہوں نے پانی كو ٹہرنے ہی نہیں دیا سب كھینچ ڈالا اب رسول كریمﷺسے پیاس كی شكایت كی گئی تو آپ

[1] - صحيح البخاري كِتَاب الشُّرُوطِ بَاب الشُّرُوطِ فِي الْجِهادِ وَالْمُصَالَحَةِ مَعَ أَهلِ الْحَرْبِ وَكِتَابَةِ الشُّرُوطِ رقم (2731، 2732)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
نے اپنے تركش میں سے ایك تیر نكال كر دیا كہ اس گڑھے میں ڈال دو ۔بخدا تیر ڈالتے ہی پانی انہیں سیراب كرنے كے لئے ابلنے لگا اور وہ لوگ پوری طرح سیراب ہو گئے لوگ اسی حال میں تھے كہ بدیل بن ورقاء خزاعی اپنی قوم خزاعۃ كے كئی آدمیوں كو لے كر حاضر ہوا۔ یہ لوگ تہامہ كے رہنے والے اور رسول اللہﷺ كے محرم راز بڑے خیر خواہ تھے انہوں نے خبر دی كہ میں كعب بن لوئی اور عامر بن لوئی كو پیچھے چھوڑ كر آرہا ہوں جنہوں نے حدیبیہ كے پانی كے ذخیروں پر اپنا پڑاؤ ڈال دیا ہے ان كے ساتھ بكثرت دودھ دینے والی اونٹنیاں اپنے نئے نئے بچوں كے ساتھ ہیں وہ آپ سے لڑیں گے اور آپ كے بیت اللہ پہنچنے میں ركاوٹ ہوں گے لیكن آپ نے فرمایا: ہم كسی سے لڑنے نہیں آئے ہیں صرف عمرہ كے ارادے سے آئے ہیں اور واقعہ تو یہ ہے كہ ( مسلسل) لڑائیوں نے قریش كو بھی كمزور كر دیا ہے اور انہیں بڑا نقصان اٹھانا پڑا ہے اب اگر وہ چاہیں تو میں ایك مدت ان سے صلح كا معاہد ہ كر لوں گا۔اس عرصہ میں وہ میرے اور عوام ( كفار مشركین عرب)كے درمیان نہ پڑیں پھر اگر میں كامیاب ہو جاؤں اور( اس كے بعد) وہ چاہیں تو اس دین( اسلام )میں وہ بھی داخل ہو سكتے ہیں( جس میں اور تمام لوگ داخل ہو چكے ہوں گے) لیكن اگر مجھے كامیابی نہیں ہوتی تو انہیں بھی آرام مل جائے گا اور اگر انہیں میری پیش كش سے انكار ہے تو اس ذات كی قسم جس كے ہاتھ میں میری جان ہے جب تك میرا سر تن سے جدا نہیں ہو جاتا میں اس دین كے لئے برابر لڑتا رہوں گا یا پھر اللہ تعالیٰ اسے نافذ ہی فرمادے گا۔ بدیل نے كہا كہ قریش تك آپ كی یہ گفتگو میں پہنچاؤں گا، چنانچہ وہ واپس ہوئے اور قریش كے ہاں پہنچے اور كہا كہ ہم تمہارے پاس اس شخص( نبی ﷺ) كے یہاں سے آرہے ہیں اور ہم نے اسے ایك بات كہتے سنا اگر تم چاہو تو تمہارے سامنے ہم اسے بیان كر سكتے ہیں۔ قریش كے بے وقوفوں نے كہا كہ ہمیں اس كی ضرورت نہیں كہ تم ہمیں اس شخص كی كوئی بات سناؤ۔ جو لوگ صاحب الرائے تھے انہوں نے كہا ٹھیك ہے جو كچھ تم نے سنا ہے
ہم سے بیان كرو۔ا نہوں نے كہا میں نے اسے( آپ ﷺ كو) یہ كہتے سنا ہے اور پھر جو كچھ انہوں نے نبیﷺسے سنا تھا سب بیان كردیا ۔اس پر عروۃبن مسعودر ضی اللہ عنہ ( جو اس وقت تك كفار كے ساتھ تھے) كھڑے ہوئے اور كہا اے قوم كے لوگو ں !كیا تم مجھ پر باپ كی طرح شفقت نہیں ركھتے سب نے كہا كیوں نہیں ضرور ركھتے ہیں۔ عروہ نے پھر كہا كیا میں بیٹے كی طرح تمہاراخیر خواہ نہیں ہوں؟ انہوں نے كہا كیوں نہیں ہے عروہ نے پھر كہا تم لوگ مجھ پر كسی قسم كی تہمت لگا سكتے ہو؟ انہوں نے كہا كہ نہیں انہوں نے پوچھا كیا تمہیں معلوم نہیں ہے كہ میں نے عكاظ والوں كو تمہاری مدد كے لئے كہا تھا اور جب انہوں نے انكار كیا تو میں نے اپنے گھرانے اولاد اور ان تمام لوگوں كو تمہارے پاس لا كھڑا كر دیا تھا جنہوں نے میرا كہنا مانا تھا؟ قریش نے كہا كیوں نہیں( آپ كی باتیں درست ہیں) اس كے بعد انہوں نے كہا دیكھو اب اس شخص ( نبیﷺ) نے تمہارے سامنے ایك اچھی تجویز ركھی ہے۔اسے تم قبول كر لو اور مجھے اس كے پاس (گفتگو ) كے لئے جانے دو۔ سب نے كہا آپ ضرور جایئے چنانچہ عروہ بن مسعود نبیﷺ كی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے گفتگو شروع كی ،آپ نے ان سے بھی وہی باتیں كہیں جو آپ بدیل سے كہہ چكے تھے عروہ نے اس وقت كہا اے محمد بتاؤ اگر آپ نے اپنی قوم كو تباہ كر دیا تو كیا اپنے سے پہلے كسی بھی عرب كے متعلق سنا ہے كہ اس نے اپنے خاندان كا نام و نشان مٹا دیا ہو لیكن اگر دوسری بات واقع ہوئی(یعنی آپ غالب ہوئے) تو اللہ كی قسم میں تمہارے ساتھیوں كا منہ دیكھتا ہوں یہ پنج میل لوگ یہی كریں گے۔اس وقت یہ سب لوگ بھاگ جائیں گے اور آپ كو تنھا چھوڑ دیں گے اس پر ابو بكر صدیق بولے “امصص بظر اللات”“ابے جا لات بُت كی شرمگاہ چوس لے”كیا ہم رسول اللہﷺ كے پاس سے بھاگ جائیں گے اور آپ كو تنہا چھوڑ دیں گے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
عروہ نے پوچھا یہ كون صاحب ہیں؟ لوگوں نے بتایا كہ ابوبكر ہیں عروہ نے كہا اس ذات كی قسم جس كے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تمہارا مجھ پر احسان نہ ہوتا جس كا ابھی تك میں بدلہ نہیں دے سكا ہوں تو تمہیں ضرور جواب دیتا (حدیث کے راوی نے )بیان كیا كہ وہ نبی سے پھر گفتگو كرنے لگے اور گفتگو كرتے ہوئے آپ كی داڑھی مبارك پكڑ لیا كرتے تھے۔ مغیرہ بن شعبہ نبیﷺ كے پاس كھڑے تھے ۔تلوار لٹكائے ہوئے اور سر پر خود ( لوہے كی ٹوپی) پہنے۔ عروہ جب بھی نبی ﷺكی داڑھی مبارك كی طرف ہاتھ لے جاتے تو مغیرہ  تلوار كی تہی كو ان كے ہاتھ پر مارتے اور ان سے كہتے كہ رسول اللہﷺكی داڑھی سے اپنا ہاتھ الگ ركھ۔ عروہ نے اپنا سر اٹھایا اور پوچھا یہ كون صاحب ہیں؟ لوگوں نے بتایا یہ مغیرہ بن شعبہ عروہ نے انہیں مخاطب ہو كر كہا اے دغاباز كیا میں نے تیری دغابازی كی سزا سے تجھے نہیں بچایا؟ اصل میں مغیرہ ( اسلام لانے سے پہلے) جاہلیت میں ایك قوم كے ساتھ رہے تھے پھر ان سب كو قتل كر كے ان كا مال لے لیا تھا اس كے بعد( مدینہ) آئے اور اسلام كے حلقہ بگوش ہوگئے( تو رسول اللہﷺكی خدمت میں ان كا مال بھی ركھ دیا كہ جو چاہیں اس كے متعلق حكم فرمائیں) لیكن نبیﷺ نے فرمایا تھا كہ تیرا سلام تو میں قبول كرتا ہوں رہا یہ مال تو میرا اس سے كوئی واسطہ نہیں كیونكہ وہ دغابازی سے ہاتھ آیا ہے جسے میں نہیں لے سكتا پھر عروہ گھُور گھُور كر رسول اللہﷺكے اصحاب كی نقل و حركت دیكھتے رہے پھر راوی نے بیان كیا كہ اللہ كی قسم اگر كبھی رسول اللہﷺ نے بلغم بھی تھوكا توآپ كے اصحاب نے اپنے ہاتھوں پر اسے لے لیا اور اسے اپنے چہرے اور بدن پر مل لیا۔كسی كام كا اگر آپ نے حكم دیا تو اس كی بجا آوری میں ایك دوسرے پر لوگ سبقت لے جانے كی كوشش كرتے آپ وضو كرنے لگے تو ایسا معلوم ہوا كہ آپ كے وضو كے پانی پر لڑائی ہو جائے گی (یعنی ہر شخص اس پانی كو لینے كی كوشش كرتا تھا)جب آپ گفتگو كرنے لگتے تو سب پر خاموشی چھا جاتی تھی ۔آپ كی تعظیم كا یہ حال تھا كہ آپ كے ساتھی نظر بھر كے آپ كو دیكھ بھی نہیں سكتے تھے۔خیر جب عروہ اپنے ساتھیوں سے جا كر ملے تو ان سے كہا اے لوگوں قسم ہے اللہ كی میں بادشاہوں كے درباروں میں بھی وفد لے كر گیا ہوں ۔قیصر وكسریٰ اور نجاشی سب كے دربار میں لیكن اللہ كی قسم میں نے كبھی نہیں دیكھا كہ كسی بادشاہ كے ساتھی اس كی اس درجہ تعظیم كرتے ہوں جتنی آپ ﷺكے اصحاب آپ كی كرتے ہیں۔ قسم ہے اللہ كی اگر محمد نے بلغم بھی تھوك دیا تو ان كے اصحاب نے اسے اپنے ہاتھوں پر لے لیا اور اسے اپنے چہرے اور بدن پر مل لیا۔ آپ نے انہیں اگر كوئی حكم دیا تو ہر شخص نے اسے بجالانے میں ایك دوسرے پر سبقت كی كوشش كی ۔آپ نے اگر وضو كیا تو ایسا معلوم ہو تا تھا كہ آپ كے وضو پر لڑائی ہو جائے گی۔ آپ نے جب گفتگو شروع كی تو ہر طرف خاموشی چھا گئی ان كے دلوں میں آپ كی تعظیم كا یہ عالم تھا كہ آپ كو نظر بھر كر بھی نہیں دیكھ سكتے تھے ۔ انہوں نے تمہارے سامنے ایك بھلی صورت ركھی ہے تمہیں چاہیے كہ اسے قبول كر لو، اس پر بنو كنانہ كا ایك شخص بولا كہ اچھا مجھے بھی ان كے یہاں جانے دو۔ لوگو نے كہا تم بھی جا سكتے ہو جب یہ رسول اللہ ﷺاور آپ كے اصحاب رضی ا للہ عنہم كے قریب پہنچے تو نبی ﷺنے فرمایا: كہ یہ فلاں شخص ہے ایك ایسی قوم كا فرد جو بیت اللہ كی قربانی كے جانوروں كی تعظیم كرتے ہیں اس لئے قربانی كے جانور اس كے سامنے كر دو صحابہ نے قربانی كے جانور اس كے سامنے كر دیئے اور لبیك كہتے ہوئے اس كااستقبال كیا جب اس نے یہ منظر دیكھا تو كہنے لگا كہ “سبحان اللہ ”قطعاً مناسب نہیں ہے كہ ایسے لوگوں
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
كو كعبہ سے روكا جائے اس كے بعد قریش میں سے ایك دوسر ا شخص مكر زبن حفص نامی كھڑا ہوا اور كہنے لگا ،مجھے بھی ان كے یہاں جانے دو سب نے كہا تم بھی جا سكتے ہو جب وہ نبی ﷺاور صحابہ yسے قریب ہوا تو آپ نے فرمایا: یہ مكرز ہے بدترین شخص ہے ۔پھر وہ نبی سے گفتگو كرنے لگا ابھی وہ گفتگو كر ہی رہا تھا سہیل بن عمرو آگیا معمر نے( سابقہ سند كے ساتھ) بیان كیا كہ مجھے ایوب نے خبر دی اور انہیں عكرمہ نے كہ جب سہیل بن عمرو آیا تو نبی نے(فرمایا نیك فالی كے طور پر) تمہارا معاملہ آسان ہو گیا۔ معمر نے بیان كیا كہ زہری نے اپنی حدیث میں اس طرح بیان كیا تھا كہ جب سہیل بن عمرو آیاتو كہنے لگا كہ ہمارے اور اپنے درمیان( صلح) كی ایك تحریر لكھ لو۔ چنانچہ نبیﷺنے كاتب كو بلوایا اور فرمایا كہ لكھو “بسم اللہ الرحمن الرحیم”سہیل كہنے لگا رحمن كو اللہ كی قسم میں نہیں جانتاكہ وہ كیا چیز ہے البتہ تم یوں لكھ سكتے ہو “باسمك اللھم ”جیسے پہلے لكھا كرتے تھے مسلمانوں نے كہا كہ قسم ہے اللہ كی ہمیں “بسم اللہ الرحمن الرحیم”كے سوا اور كوئی دوسرا جملہ نہیں لكھنا چاہیئے لیكن نبی نے فرمایا“باسمك اللھم ” ہی لكھنے دو ۔پھر آپ نے لكھوا یا یہ محمد رسول اللہ (ﷺ) كی طرف سے صلح نامہ كی دستاویز ہے سہیل نے كہا اگر ہمیں یہ معلوم ہوتا كہ آپ رسول اللہ ہیں تو نہ ہم آپ كو كعبہ سے روكتے اور نہ آپ سے جنگ كرتے آپ تو صرف اتنا لكھئے كہ” محمد بن عبداللہ“اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ گواہ ہے کہ میں اس کا سچا رسول ہوں ،خواہ تم میری تکذیب ہی کرتے رہو۔ لکھو جی”محمد بن عبداللہ“زہری نے بیان كیا كہ یہ سب كچھ( نرمی اور رعایت)صرف آپ كے ارشاد كا نتیجہ تھا(جو پہلے ہی آپ بدیل سے كہہ چكے تھے) كہ قریش مجھ سے جو بھی ایسا مطالبہ كریں گے جس سے اللہ تعالیٰ كی حرمتوں كی تعظیم مقصود ہو گی تو میں ان كے مطالبے كو ضرور مان لوں گا۔ اس لئے نبی نے سہیل سے فرمایا :لیكن صلح كے لئے پہلی شرط یہ ہوگی كہ تم لوگ ہمیں بیت اللہ كے طواف كرنے كے لئے جانے دو گے۔ سہیل نے كہا قسم ہے اللہ كی ہم( اس سال) ایسا نہیں ہونے دیں گے ورنہ عرب كہیں گے كہ ہم مغلوب ہو گئے تھے( اس لئے ہم نے اجازت دے دی) البتہ آئندہ سال كے لئے اجازت ہے۔چنانچہ یہ بھی لكھ لیا پھر سہیل نے لكھا كہ یہ شرط بھی( لكھ لیجئے) كہ ہماری طرف كا جو شخص بھی آپ كے یہاں جائے گا خواہ وہ آپ كے دین ہی پر كیوں نہ ہو آپ اسے ہمیں واپس كر دیں گے۔مسلمانوں نے (یہ شرط سن كر كہا) سبحان اللہ ( ایك شخص كو) مشركوں كے حوالے كس طرح كیا جا سكتا ہے جو مسلمان ہو كر آیا ہو۔ ابھی یہی باتیں ہو رہی تھیں كہ ابو جندل بن سہیل بن عمرو اپنی بیڑیوں كو گھسیٹتے ہوئے آپہنچے وہ مكہ كے نشیبی علاقے كی طرف سے بھاگے تھے اور اب خود كو مسلمانوں كے سامنے ڈال دیا تھا سہیل نے كہا اے محمد(ﷺ) یہ پہلا شخص ہے جس كے لئے ( صلح نامہ كے مطابق) میں مطالبہ كرتا ہوں كہ آپ ہمیں اسے واپس كر دیں۔ نبی ﷺنے فرمایا: كہ ابھی تو ہم نے ( صلح نامہ كی اس دفعہ كو) صلح نامہ میں لكھا بھی نہیں ہے( اس لئے جب صلح نامہ طے پا جائے گا اس كے بعد اس كا نفاذ ہو نا چاہیے) سہیل كہنے لگا كہ اللہ كی قسم پھر میں كسی بنیاد پر بھی آپ سے صلح نہیں كروں گا نبی ﷺنے فرمایا اچھا مجھ پر اس ایك كو دے كر احسان كر دو۔ اس نے كہا كہ میں اس سلسلے میں احسان بھی نہیں كر سكتا۔ نبی ﷺنے پھر فرمایا كہ نہیں تمہیں احسان كر دینا چاہیئے لیكن اس نے یہی جواب دیا كہ میں ایسا كبھی نہیں كر سكتا ۔البتہ مكرز نے كہا كہ چلئے ہم اس كا اپ پر احسان كر تے ہیں مگر ( اس كی بات نہیں چلی) ابو جندل نے كہا مسلمانوں میں مسلمان ہو كر آیا ہوں كیا مجھے مشركوں كے ہاتھوں میں دے دیاجائے گا؟ كیامیرے ساتھ جو كچھ معاملہ ہوا ہے تم نہیں دیكھتے؟ ابو جندل كو راستے میں بڑی سخت اذیتیں پہنچائی گئیں تھیں۔ راوی نے بیان كیا كہ عمر بن خطاب نے كہا آخر میں نبی ﷺكی خدمت میں حاضر ہوا اور
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
عرض كیا كیا ہم حق پر نہیں اور كیا ہمارے دشمن باطل پر نہیں ہیں؟ آپ نے فرمایا كیوں نہیں؟ میں نے كہا پھر اپنے دین كے معاملے میں كیوں دبیں ۔ نبی ﷺ نے فرمایا میں اللہ كا رسول ہوں اس كی حكم عدولی نہیں كر سكتا اور میرا وہی مددگار ہے میں نے كہا كیا آپ ہم سے یہ نہیں فرماتے تھے كہ ہم بیت اللہ جائیں گے اور اس كا طواف كرینگے ؟ آپ نے فرمایا ٹھیك ہے لیكن كیا میں نے تم سے یہ كہا تھا كہ اسی سال ہم بیت اللہ پہنچ جائیں گے۔عمر نے بیان كیا كہ میں نے كہا نہیں (آپ نے اس قید كے ساتھ نہیں فرمایا تھا) آپ نے فرمایا كہ پھر اس میں كوئی شبہ نہیں كہ تم بیت اللہ ضرور پہنچو گے۔اور ایك دن اس كا طواف كرو گے۔ انہوں نے بیان كیا كہ پھر میں ابو بكر كے پاس گیا اور ان سے بھی یہی پوچھا كہ ابو بكر كیا حقیقت نہیں كہ آپ ﷺاللہ كے نبی ہیں؟انہوں نے كہا كیوں نہیں میں نے كہا كہ پھر ہم اپنے دین كو كیوں ذلیل كریں ؟ ابو بكر نے كہا جناب بلا شك و شبہ وہ اللہ كے رسول ہیں وہ اپنے رب كی حكم عدولی نہیں كر سكتے اور رب ہی ان كا مددگار ہے پس ان كی رسی مضبوطی سے پكڑلو اللہ گواہ ہے كہ وہ حق پر ہیں۔ میں نے كہا كیا نبی ﷺہم سے یہ بات نہیں كہتے تھے كہ عنقریب ہم بیت اللہ پہنچیں گے اور اس كا طواف كریں گے انہوں نے فرمایا یہ بھی صحیح ہے ۔لیكن كیا نبی ﷺنے آپ سے یہ فرمایا تھا كہ اسی سال آپ بیت اللہ پہنچ جائیں گے ۔میں نے كہا نہیں۔ پھر ابو بكر نے كہا پھر اس میں بھی كو ئی شك و شبہ نہیں كہ آپ ایك نہ ایك دن بیت اللہ پہنچیں گے ۔ اور اس كا طواف كریں گے ۔زہری نے بیان كیا كہ عمر نے فرمایا بعد میں میں نے اپنی اس عجلت پسندی كی مكافات كےلئے نیك اعمال كیئے ۔پھر جب صلح حدیبیہ سے آپ فارغ ہو چكے تو صحابہ سے فرمایا كہ اب اٹھو اور ( جن جانوروں كو ساتھ لائے ہو ان كی)قربانی كر لو اور سر بھی منڈوالو ۔انہوں نے بیان كیا كہ اللہ گواہ ہے صحابہ میں سے ایك شخص بھی نہ اٹھا اور تین مرتبہ آپ نے یہ جملہ فرمایا جب كوئی نہ اٹھا تو ام سلمۃ r كے خیمہ میں گئے اور ان سے لوگوں كے طرز عمل كا ذكر كیا ۔ ام سلمۃ r نے كہا اے اللہ كے نبی ﷺ كیا آپ یہ پسند كرینگے كہ باہر تشریف لے جائیں اور كسی سے كچھ نہ كہیں بلكہ اپنی قربانی كا جانور ذبح كر لیں اور اپنے حجام كو بلالیں جو آپ كے بال مونڈ دے چنانچہ نبی باہر تشریف لائے كسی سے كچھ نہیں كہا اور سب كچھ كیا اپنے جانور كی قربانی كر لی اور اپنے حجام كو بلوایا جس نے آپ كے بال مونڈے ۔جب صحابہ نے دیكھا تو وہ بھی ایك دوسرے كے بال مونڈنے لگے ایسا معلوم ہوتا تھا كہ رنج و غم میں ایك دوسرے سے لڑ پڑیں گے ۔ پھر نبیﷺ كے پاس( مكہ سے) چند مومن عورتیں آئیں تو اللہ تعالیٰ نے یہ حكم نازل فرمایا: اے لوگوں جو ایمان لاچكے ہو جب تمہارے پاس مومن عورتیں ہجرت كر كے آئیں تو ان كا امتحان لے لو (الممتحنة: ١٠) اس دن عمر نے اپنی دو بیویوں كو طلاق دی جو اب تك مسلمان نہیں ہوئی تھیں ان میں سے ایك نے تو معاویہ بن ابی سفیان سے نكاح كر لیا تھا اور دوسری سے صفوان بن امیہ نے۔ اس كے بعد رسول اللہ ﷺ مدینہ واپس تشریف لائے تو قریش كے ایك فرد ابو بصیر ( مكہ سے فرا ر ہو كر) حاضر ہوئے وہ مسلمان ہو چكے تھے۔ قریش نے انہیں واپس لینے كے لئے دو آدمیوں كو بھیجا اور انہوں نے آكر كہا كہ ہمارے ساتھ آپ كا معاہدہ ہو چكا ہے۔ چنانچہ نبی ﷺنے ابو بصیر كو واپس كر دیا۔ قریش كے دونوں افراد جب انہیں واپس لے كر لوٹے اور ذوالحلیفہ پہنچے تو كھجور كھانے كے لئے اترے جو ان كے پاس تھی۔ابو بصیر ی نے ان میں سے ایك سے فرمایا قسم اللہ كی تمہاری تلوار بہت اچھی معلوم ہوتی ہے، دوسرے ساتھی نے تلوار نیام سے نكال دی اس شخص نے كہا اللہ كی قسم نہایت عمدہ تلوار ہے میں اس كا بارہا تجربہ كر چكا ہوں۔ ابو بصیر اس پر
 
Top