• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الاتباع

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
بولے كہ ذرا مجھے بھی تو دكھاؤ اور اس طرح اپنے قبضہ میں كر لیا پھر اس شخص نے تلوا ر كے مالك كو ایسی ضرب لگائی كہ وہ وہیں ٹھنڈا ہوگیا۔ اس كا دوسرا ساتھی بھاگ كر مدینہ آیا اور مسجد میں دوڑتا ہوا داخل ہوا نبی ﷺنے جب اسے دیكھا تو فرمایا یہ شخص كچھ خوف زدہ معلوم ہوتا ہے ۔ جب وہ نبی
ﷺكے قریب پہنچا تو كہنے لگا اللہ كی قسم میرا ساتھی تو مارا گیا اور میں بھی مارا جاؤنگا ۔ (اگر آپ لوگوں نے ابو بصیر كو نہ روكا) اتنے میں ابو بصیر بھی آگئے ۔اور عرض كیا اے اللہ كے نبی ﷺاللہ كی قسم اللہ تعالیٰ نے آپ كی ذمہ داری پوری كر دی آپ مجھے ان كے حوالے كر چكے تھے لیكن اللہ تعالیٰ نے مجھے ان سے نجات دلائی نبی ﷺنے فرمایا( تیری ماں كی خرابی) اگر اس كا كوئی ایك بھی مددگار ہوتا توپھر لڑائی كے شعلے بھڑك اٹھتے ۔جب انہوں نے آپ كے یہ الفاظ سنے تو سمجھ گئے كہ آپ پھر كفار كے حوالے كر دینگے اس لئے وہاں سے نكل گئے اور سمندر كے كنار ے پر آگئے۔راوی نے بیان كیا كہ اپنے گھر والوں سے( مكہ سے) چھوٹ كرابو جندل بن سہیل بھی ابو بصیر سے جا ملے اور اب یہ حال تھا كہ قریش كا جو شخص بھی اسلام لاتا (بجائے مدینہ آنے كے) ابو بصیر كے یہاں( ساحل سمندر پر) چلا جاتا اس طرح سے ایك جماعت بن گئی اور اللہ گواہ ہے یہ لوگ قریش كے جس قافلے كے متعلق بھی سن لیتے كہ وہ شام جا رہا ہے تو اسے راستے ہی میں روك كر لوٹ لیتے اور قافلے والوں كو قتل كر دیتے ۔اب قریش نے نبی كریم ﷺكے یہاں اللہ اور رحم كا واسطہ دے كر درخواست بھیجی كہ آپ كسی كو بھیجیں( ابو بصیر اور ان كے دوسرے ساتھیوں كے پاس كہ وہ قریش كی ایذاء سے رُك جائیں) اور اس كے بعد جو شخص بھی آپ كے یہاں جائے گا ( مكہ سے) اسے امن ہے۔ چنانچہ نبیﷺنے ان كے یہاں اپنا آدمی بھیجا اور اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی كہ“اور وہ ذات پروردگار جس نے روك دیا تھا تمہارے ہاتھوں كو ان سے اور ان كے ہاتھوں كو تم سے( یعنی جنگ نہیں ہو سكی تھی) وادی مكہ ( حدیبیہ میں) بعد میں اس كے كہ تم كو غالب كر دیا تھا ان پر یہاں تك كہ بات جاہلیت كے دور كی بے جا حمیت تك پہنچ گئی تھی” ان كی حمیت ( جاہلیت) یہ تھی كہ انہوں نے ( معاہدے میں بھی) آپ كے لئے اللہ كے نبی ہونے كا اقرار نہیں كیا اسی طرح انہوں نے “بسم اللہ الرحمن الرحیم ” نہیں لكھنے دیا اور آپ كے بیت اللہ جانے سے مانع بنے۔اتباع ہی اللہ اور اس کے رسول ﷺکے ساتھ محبت کی دلیل ہےمحبت کے دو طرف ہیں ایک محبت کرنے والا، دوسرا محبوب، اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت کے بھی دو طرف ہیں ایک بندے کی اپنے رب کے ساتھ محبت اور دوسری رب کی اپنے بندے کے ساتھ محبت ۔بندے کی اپنے رب سے محبت کی دلیل رسول اللہﷺکی اتباع ہے اوردوسرا طرف اس اتباع کا پھل ہے۔جیسا کہ فرمان الٰہی ہے: (آل عمران)یعنی اے نبی کہ دو اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو۔ اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بڑا بخشش کرنےو الا بڑا رحم کرنے والا ہے۔
اس وجہ سے اس آیت کو آیت المحبۃ کہا گیا ہے۔ ابو سلیمان دارانی نے کہا ہے :جب دلوں نے اللہ تعالیٰ کی محبت کا دعویٰ کیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت امتحان و آزمائش کے لئے نازل فرمائی۔اس آیت کا معنی جیسا کہ طبری نے کہا ہے یہ ہے کہ" اے محمد ﷺنجران کے نصاریٰ کے وفد کو کہہ دیں اگر تم یہ گمان رکھتے ہو کہ تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو اپنی بات جوکہتے ہو ثابت بھی کر کے دکھاؤ ۔یعنی میری اتباع کے ذریعے ،کیوں کہ تم جانتے ہو کہ عیسیٰ علیہ السلام کی طرح میں بھی تمہاری طر ف اللہ کا رسول ہوں۔ اور بعض نے محبت کی تفسیر بندوں کی طرف سے اتباع اور اطاعت کی ہے۔ اور اللہ کی بندوں سے محبت کی تفسیر اس کی بخشش کے انعام سےکی ہے۔ یعنی بندے کی اللہ اور رسول ﷺکے ساتھ محبت ان کی اطاعت اور ان کے امر کی فرمانبرداری ہے اور اللہ کی بندوں کے ساتھ محبت اس کی طرف سے ان کے لئے بخشش ہے ۔
اور سہل بن عبداللہ نے کہا "اللہ کی محبت کی علامت قرآن کے ساتھ محبت ہے اور قرآن سے محبت کی علامت رسول اللہ کے ساتھ محبت ہے اور رسول اللہ کے ساتھ محبت کی علامت آپ کی سنت کے ساتھ محبت ہے اور اس ساری محبت کی علامت آخرت کے ساتھ محبت ہے۔اور یہ آیت ہر اس شخص پر حقیقت میں جھوٹے ہونے کا حکم لگاتی ہے جو اللہ کے ساتھ محبت کا دعویٰ تو کرتا ہے لیکن محمدی طریقہ پر نہیں چلتا ۔یہاں تک کہ وہ محمدی شریعت اور دین نبوی کی اپنے سارے اقوال و افعال میں پیروی کرے۔
اور (یحببکم اللہ،اللہ تمہارے ساتھ محبت کرے گا) سے مراد یہ ہے کہ تمہیں تمہارے رب کے ساتھ محبت کا بدلہ تمہاری طلب سے بھی زیادہ ملے گا یعنی تمہیں اس کی محبت حاصل ہو گی جو کہ تمہاری محبت سے بہت عظیم چیز ہے کیوں کہ بڑی بات یہ نہیں کہ تم کسی کے ساتھ محبت کرو بلکہ بڑی بات یہ ہےکہ تمہارے ساتھ محبت کی جائے۔
امام ابن قیم کہتے ہیں"یحببکم اللہ" کے اندر محبت کی دلیل اور فائدہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔اس کی دلیل رسول اللہ کی اتباع ہے اور اتباع کا فائدہ اللہ کی محبت کا حصول ہے۔ لہٰذا اگر پیروی نہیں ہے تو محبت بھی نہیں ہے۔
مزید کہتے ہیں "اللہ کی محبت حبیب کبریاءکی اتباع کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی۔ خلاصۂِ کلام یہ ہے کہ اتباعِ سنت بندے کی اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت میں سچائی کی دلیل ہے اور اس اتباع کا ثمر و فائدہ اللہ کی طرف سے محبت اور مغفرت کا حصول ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
اتباع کے متعلق آثار اور علماء و مفسرین کےاقوال

(۱)عمر نے قاضی شریح کو کہا اگر کوئی چیز قرآن مجید سے نہیں ملے تو اس پر فیصلہ کر اور کوئی ایسا مسئلہ ہے جو کتاب اللہ میں نہیں ہے تو سنت رسول اللہ ﷺمیں دیکھ اور اس پر فیصلہ کر اور اگر کوئی ایسا معاملہ آئے جو کتاب اللہ میں ہے اور نہ سنت رسول اللہﷺمیں ہے تو لوگوں کے اجماع کو دیکھ اور اس کے مطابق فیصلہ کر اور اگر ایسا مسئلہ آئے جو نہ کتاب اللہ میں ہے اورنہ سنت رسول ﷺمیں اور نہ تم سے پہلے کسی نے اس کے متعلق کلام کیا ہے تو دو چیزوں میں سے ایک کو اختیار کر یا تو اپنی رائے سے اجتہاد کر اور اس پر فیصلہ کر چاہے تو پیچھے ہٹ جا اور میں تو فیصلہ کرنے سے پیچھے ہٹنا ہی تمہارے لئے بہتر سمجھتا ہوں۔
(۲)عمر بن خطاب حجر اسود کے پاس آ ئےاور اس کو چوما پھر کہا :میں جانتا ہوں تو پتھر ہے اور نہ نقصان دے سکتا ہے اور نہ نفع ، اگر میں رسول ﷺ کو تجھے چو متے ہو ئے نہ دیکھتاتو تجھے نہ چو متا۔
(۳)ابو وائل نے کہا میں شیبہ کے پاس اس مسجد میں بیٹھا ، اس نے کہاعمر تمھاری جگہ میرے پاس بیٹھے اور کہامیں نے ارادہ کیا ہے کہ اس کعبۃ اللہ میں جو سونا چاندی ہے سارا مسلمانو ں کے اندر بانٹ دوں ۔ شیبہ نے کہا تو ایسا نہیں کر سکتا ۔ عمر نے کہا کیوں ؟ میں نے کہا تمہارے دو نوں ساتھیوں نے ایسا نہیں کیا ، عمر نے کہا وہی دو مرد ہیں جن کی پیر وی کی جا ئے ۔ (یعنی رسو ل اللہ ﷺ اور ابو بکر )
(۴)عمر بن خطاب نےکہا" آج رمل اور گھٹنے ننگے کیوں کئے جا تے ہیں حا لا نکہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کو مضبوط کر دیا ہے اور کفرو کفار کو ختم کر دیا ہے ؟ اس کے با وجود جو کام ہم رسو ل اللہ ﷺ کے ز مانے میں کر تے تھے وہ چھو ڑ یں گے نہیں ۔
(۵)ابو الیاج الاسدی نے کہا علی بن ابی طالب نے مجھے کہا کہ ،کیا میں تجھے اس کام کے لئے نہ بھیجوں جس کام کے لئے مجھے رسول اللہ ﷺنے بھیجا تھا ۔ کہ کوئی بھی تصویر مٹا ئے بغیر نہ چھو ڑنا اور کو ئی او نچی قبر برابر کئے بغیر نہ چھو ڑنا ۔
(۶)اور علی نے کہا، لو گو ں کے پیچھے چلنے سے بچو کیو نکہ انسان اہل جنت والے کام کرتا ہے پھر وہ اپنے متعلق اللہ کی تقدیر کی طرف پھر جا تا ہے اور پھر جہنمیوں والے کام کر نے لگتا ہے اور جہنمی بن کر مر تا ہے ۔ اوربے شک کوئی شخص جہنمیوں کے کام کرتا ہےپھر اپنے متعلق اللہ کے علم کی طرف پھرتا ہے اور جنت کے کام کرنے لگتا ہے ۔آپ نے لوگوں کے پیچھے چلنا ہے تو ان کے پیچھے چلو جوگذر گئے ہیں زندہ لوگوں کے پیچھے نہیں (مرے ہوئے لوگوں سے مراد اللہ کے رسول اور اس کے صحابہ کرام ہیں)
(۷)ابی بن کعب نے کہا سبیل اللہ یعنی اللہ کے راستے اور سنت کو لازم پکڑو کیوں کہ جو بھی شخص اللہ کے راستے اور سنت نبوی پر ہو اور اللہ کو یادکرے اور خوف الٰہی سے اس کی آنکھوں سے آنسو گریں تو اس کو جہنم کی آگ نہیں چھوئے گی ۔اور جو بھی شخص اللہ کے راستے پر اور سنت نبوی پر ہو۔ اور رحمن کو یاد کرے اور پھر اس کے اللہ کے خوف سے رونگٹے کھڑے ہو جائیں۔تو اس کی مثال اس درخت کی مثال ہے جس کے پتے سوکھ گئے ہوں اور ابھی شاخوں پر موجود ہوں کہ اسے تیز ہوا لگے اور پھر وہ پتے گر جائیں ویسے ہی اس شخص کے گناہ جھڑ جائینگے ۔
سبیل الٰہی اور سنت نبوی پر اعتدال اس سخت عبادت سے بہتر ہے جو اللہ کے راستے اور سنت نبوی کے خلاف ہو ۔لہٰذا دیکھو تمہارا عمل سخت ہو یا درمیانہ بہر حال انبیاء کرام کے منہج اور سنت کے مطابق ہو۔
 
Last edited:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
(۸)اور اسی طرح ابی بن کعب نے ایک شخص کو وصیت کرتے ہوئے کہا "کتاب اللہ کو امام بناؤ اور اس کے قضاء و حکم پر راضی رہوکیوں کہ یہی وہ چیز ہے جو کہ تمہارے پاس رسول اللہﷺچھوڑ گئے ہیں۔ جو کہ شفاعت کرنے والی اطاعت کئے جانے والی اور شاہد عادل ہے۔ اس کتاب کے اندر تمہارا اور تم سے پہلے لوگوں کا ذکر ہے اوراس کے اندر تمہارے درمیان کے مسائل کا حکم و فیصلہ ہے اور تمہاری اور تم سے بعدوالوں کی خبر ہے۔

(۹)حذیفہ نے کہا:اے قراء کی جماعت سیدھے چلو تحقیق تم بہت آگے چلے گئے ہو، پھر ا گر تم دائیں اور بائیں مڑو گے تو بہت دور کے گمراہ بن جاؤ گے۔

(۱۰)ابو ادریس خولانی نے کہا یزید بن عمیرہ جو کہ معاذ بن جبل کے ساتھیوں میں سے تھے انہوں نے مجھے بتایا کہ معاذ جب بھی کسی ذکر کی مجلس میں بیٹھتے تو کہتے اللہ فیصلہ کرنے والا انصاف کرنے والا ہے۔ تمہارے بعد فتنے آئیں گے جب مال کی بہتات ہو جائے گی اور اس کے اندر قرآن کھول دیا جائے گا پھر اس کو مومن و منافق، مردوعورت چھوٹا بڑا غلام آزاد سب پڑھیں گے۔ پھر قریب ہوگا کہ کہنے والا کہے گا کہ میں نے قرآن پڑھا ہے لیکن لوگوں کو کیا ہو گیا ہےکہ میرے پیچھے نہیں چلتے۔ یہ میرے پیچھے نہیں چلیں گے جب تک کہ ان کے لئے قرآن کو چھوڑ کر بدعات تیار کروں۔ لہٰذا تم بدعات سے بچنا کیوں کہ بدعات گمراہی ہیں۔ اور میں تمہیں عالم کی گمراہی سے خبردار کرتا ہوں کیوں کہ شیطان کبھی حکیم و عالم کی زبان سے بھی گمراہی کی بات کہہ سکتا ہے اور کبھی منافق بھی حق بات کہہ سکتا ہے ۔
میں نے معاذ کو کہا: مجھے سمجھ میں نہیں آرہا کہ عالم بھی گمراہی کی بات کر سکتا ہے اور منافق حق بات کہہ سکتا ہے۔ کہا ہاں کیوں نہیں ،تو عالم کی ان مشہور باتوں سے بچ جن کے بارے میں کہا جائے کہ یہ کیا ہے؟ اور یہ بات تجھے اس عالم سے دور نہ کرے ، کیوں کہ ہو سکتا ہے وہ اس بات سے رجوع کر لے اور حق بات جب اس سے سنے تو قبول کر کیوں کہ حق پر نور ہوتا ہے۔

(۱۱)ابن عباس نے اس آیت (الفرقان: ٧٤) ہمیں پرہیز گاروں کا امام بنادے۔کی تفسیر میں کہا ہے :ہمیں ہدایت کا امام بنادے تاکہ لوگ ہمارے ذریعے سے ہدایت حاصل کریں اور ہمیں گمراہی کے امام نہ بنانا۔

(۱۲)ابن عباس نے اس آیت: (آل عمران: ١٠٦)یعنی کچھ چہرے اس دن چمکتے ہوں گے توکچھ چہرے سیاہ ہونگے) کی اس تفسیر میں کہا ہے وہ لوگ جن کے چہرے چمکتے ہوں گے وہ اہل السنۃ والجماعۃاور اہل علم ہونگے ۔اور جن کے چہرے کالے ہونگے وہ اہل بدعت اور گمراہی والے ہونگے۔

(۱۳)اور ابن عباس نے یہ کہا کہ :عیینہ بن حصن بن حذیفہ بن بدر آئے اور اپنے بھتیجے حد بن قیس بن حصن کے پاس ٹھہرے اور حد بن قیس ان لوگوں میں سے تھا جن کو عمر بن خطاب اپنے قریب رکھتا تھا اور عمر کی مجلس و مشاورت میں بڑے اہل علم ہی ہوتے تھے بزرگ ہوں یا جوان ۔عیینہ نے اپنے بھتیجے سے کہا اے میرے بھتیجے کیا تیری بات امیر المومنین کے پاس چلتی ہے تاکہ تو میری ان سے ملاقات کرادے، اس نے کہا ہاں ،میں تیری ان سے ملاقات کرا دیتا ہوں۔ ابن عباس نے کہا اس نے عیینہ کے لئے آنے کی اجازت لی اور جب وہ اندر گیا تو کہنے لگا اے ابن خطاب اللہ کی قسم تو نہ ہمیں بخشش و عطیہ دیتا ہے اور نہ ہمارے درمیان انصاف کرتا ہے ۔ اس پر عمر کو غصہ آگیا اور اسے سزا دینے کا ارادہ کیا تو حدبن قیس نے کہا اے امیر المومنین اللہ تعالیٰ اپنےنبی ﷺکو فرماتاہے : (الأعراف: ١٩٩) یعنی معافی کو اختیار کر اور نیکی کا حکم دے اور جاہلوں سے منہ پھیرلے اور بے شک یہ جاہلوں کا کام ہے (جو اس نے بات کہی ہے)اللہ کی قسم جب اس نے یہ آیت پڑھی توعمر اس سے آگے نہیں بڑھے اور عمر قرآن کا حکم آنے پر رک جانے والے تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
(۱۴)ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ وہ ایک شخص کے پاس آئے جس نے اپنے اونٹ کو نحر کرنے کے لئے بٹھادیا تھا تو اس کو کہا: محمد ﷺکی سنت پر عمل کر، اس کو کھڑا کر کے پاؤں باندھ کر نحر کر"۔

(۱۵)امیہ بن عبداللہ بن خالد بن اسد نے عبداللہ بن عمر کو کہا کہ:ہم قرآن مجید کے اندر حضر اور خوف (یعنی حالت جنگ)کی نماز تو دیکھتے ہیں لیکن سفر کی نماز قرآن کے اند رنہیں دیکھتے ۔تو ابن عمر نے اس کو کہا "اے میرے بھائی کے بیٹے! اللہ تعالیٰ نے ہماری طرف محمد ﷺکو رسول بنا کر بھیجا جب کہ ہم کچھ بھی نہیں جانتے تھے ۔لہٰذا ہم ویسے ہی کریں گے جیسے ہم نے محمد ﷺکو کرتے ہوئے دیکھا ہے۔

(۱۶)امام نافع نے کہا کہ ابن عمر جب حرم کے قریب آتے تو تلبیہ کہنا بند کر دیتے اور ذی طوی مقام پر رات گذارتے پھر وہاں فجر کی نماز پڑھتے اور غسل کرتے اور بتاتے تھے کہ رسول اللہﷺاس طرح کرتے تھے۔

(۱۷)ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا میں ام المومنین حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس آیا،تو انہوں نے کہا ،کیا تجھے علم ہے کہ تیرا باپ اپنا جانشین نہیں منتخب کررہا ہے ۔ابن عمر نے کہا میں نے قسم اٹھائی کہ اس بارے میں مَیں ان سے ضرور بات کروں گا ۔پھر میں خاموش ہو گیا یہاں تک کہ صبح کو ان کے پاس گیا، لیکن آپ سےبات نہیں کی ،میری حالت یہ تھی کہ قسم کی وجہ سے گویامیں پہاڑ اٹھارہا تھا۔ پھر میں لوٹ آیا اور عمر کے پاس آیا انہوں نے مجھ سے لوگوں کا احوال پوچھا میں نے ان کو بتایا پھر میں نے کہا میں نے لوگوں سےایک بات سنی ہے اور میں نے قسم اٹھائی ہے کہ میں وہ بات آپ کو بتاؤں ۔لوگ سمجھ رہے ہیں کہ آپ اپنے بعد خلیفہ نہیں مقرر کر رہے ۔دیکھیں اگر آپ کے اونٹ یا بھیڑ بکریوں کا چرواہا انہیں چھوڑ کر آپ کے پاس آجائے تو لازما وہ مال ضائع ہو جائے گا۔ تو لوگوں کو سنبھالنااور زیادہ اہم بات ہے۔ ابن عمر نے کہا انہوں نے مجھ سے موافقت کی اور پھر کچھ دیر کے لئے اپنا سر نیچے رکھ دیا میری طرف اٹھایا اور کہا اللہ تعالیٰ اپنے دین کی حفاظت کرے گا ۔اور اگر میں اپنا جانشین نہیں مقرر کر رہا تو رسول اللہﷺنے مقرر نہیں کیا تھا اور اگر مقرر کردوں تو ابو بکر نے بھی مقرر کیا تھا ۔پس انہوں نے صرف رسول اللہﷺاور ابو بکر کا ذکر کیا اور میں سمجھ گیا کہ وہ رسول اللہﷺکے برابر کسی کو نہیں کریں گے ،لہٰذا اپنا جانشین نہیں مقرر کریں گے۔

(۱۸)ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ وہ حج تمتع کے بارے میں جو اللہ تعالیٰ نے رخصت نازل فرمائی ہے۔ اور اس کے بارے میں رسول اللہﷺکی سنت کے مطابق فتویٰ دیتے تھے تو لوگ ابن عمر کو کہتے تو اپنے والد کی مخالفت کیوں کرتا ہے ۔ حالانکہ انہوں نے حج تمتع سے روک دیا ہے۔ عبداللہ بن عمر انہیں کہتے ویل ہے تمہارے لئے ،تم اللہ سے کیوں نہیں ڈرتے ؟اگر عمر نے اس سے منع کیا ہے تو وہ اس سے بھلائی چاہتے تھے ۔یعنی چاہتے تھے کہ عمرہ الگ سے مکمل کیا جائے مگر تم اس کو حرام کیوں قرار دیتے ہو جبکہ اللہ تعالیٰ نے اس کو حلال قرار دیا ہے اور رسول اللہﷺنے اس کو کیا ہے کیا؟ رسول اللہﷺکا زیادہ حق ہے کہ ان کی سنت کی پیروی کرو ، یا عمر کی سنت کی پیروی کرنا زیادہ حق ہے۔ عمر نے تمہیں یہ تونہیں کہا کہ عمرہ حج کے مہینوں میں حرام ہے۔

(۱۹)ابو موسیٰ اشعری نے اس آیت (البقرة: ١٢١) یعنی اس(قرآن)کی تلاوت کا حق ادا کرتے ہیں) کی تفسیر میں کہا جو قرآن کی پیروی کرے گا وہ اس کی وجہ سے جنت کے باغات میں اترے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
(۲۰)عبداللہ بن مسعود نے کہا کہ ایک زمانہ ہم پر گذرا ہے کہ ہم فیصلہ و فتویٰ نہیں دیتے تھے اور ہم اس کے بھی نہیں تھے ۔پھر اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے فیصلہ کیا کہ تم دیکھتے ہو کہ یہاں تک پہنچے ہیں ۔لہٰذا تم میں سے کسی کے پاس آج کے بعد کوئی مسئلہ آئے تو جو اللہ کی کتاب میں ہے اس کے مطابق فیصلہ کرے۔ پھر اگر ایسا مسئلہ آئے جو کتاب اللہ میں نہیں ہے تو پھر جو رسول اللہﷺنے فیصلہ کیا ہے اس کے مطابق فیصلہ کرے۔ اور اگر ایسا مسئلہ پیش آئے جو نہ قرآن مجید میں ہو اور نہ سنت نبوی میں ہو تو جوصالحین (یعنی خلفاء راشدین اور صحابہ کی جماعت) نے فیصلہ کیا ہے اس کے مطابق فیصلہ کرے اور اگر ایسا مسئلہ در پیش آئے جو نہ قرآن و سنت میں ہو اور نہ صالحین میں سے کسی نے اس کا فتویٰ دیا ہوتو اپنے رائے سے اجتہاد کرے اور یہ نہ کہے کہ مجھے ڈر لگتا ہے ۔کیوں کہ حلال اور حرام واضح ہیں اور ان دونوں کے درمیان میں شبہ والے چیزیں ہیں لہٰذا شک والی چیز کو چھوڑ کر یقین کو اختیار کر ے۔

(۲۱)عبدالرحمن بن یزید نے کہا کہ عبداللہ بن مسعود نے جمرۃ العقبۃ کو وادی کے پیٹ سے سات کنکریاں مار یں ۔ہر کنکری مارتے وقت اللہ اکبر کہا۔ انہیں کہا گیا کہ لوگ یہ کنکریاں بالائی طرف سے کھڑے ہو کر مارتے ہیں۔ عبداللہ بن مسعود نے کہا اللہ کی قسم یہ اس کے کھڑے ہونے کی جگہ ہے جس پر سورۃ البقرۃنازل ہوئی ہے۔(یعنی رسول اللہﷺنے یہاں سے کھڑے ہو کر کنکریاں ماری ہیں۔)

(۲۲)عبداللہ بن مسعود نے کہا کہ تم آج فطرت پر ہو اور عن قریب بدعات گھڑو گے اور تمہارے لئے بدعات گھڑی جائیں گی۔ لہٰذا جب تم بدعت دیکھو تو پہلے راستے پر آجانا( یعنی جو رسول اللہﷺکے دور میں تھا)۔

(۲۳)عبداللہ بن مسعود نے کہا کہ جس کو یہ بات پسند ہے کہ وہ کل اسلام پر اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرے تو ان پانچ نمازوں کی حفاظت کرے جہاں بھی ان کے لئے اذان کہی جائے۔کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہﷺکے لئے ہدایت کے طریقے مشروع فرمائے ہیں اور بلا شک یہ پانچ نماز یں ہدایت کے راستوں میں سے ہیں۔ اور اگر تم یہ نمازیں اپنے گھروں میں پڑھو گے جس طرح یہ جماعت سے پیچھے رہنے والا شخص اپنے گھر میں پڑھتا ہے تو تم اپنے نبی ﷺ کی سنت کو چھوڑ دو گے تو گمراہ ہو جاؤگے۔ اور جو بھی شخص اچھی طرح وضو کرتا ہے پھر مسجد کی طرف آتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے ہر قدم کے بدلے ایک نیکی لکھتا ہے ۔اور ایک درجہ بلند کرتا ہے اور ایک گناہ مٹاتا ہے۔ اور مجھے یاد ہےکہ ان نمازوں سے وہ شخص پیچھے رہتا تھا جو منافق ظاہر نفاق والا ہوتا تھا۔ اور(بیمار) آدمی کو دو آدمیوں کے سہارے لے آیا جاتا تھا یہاں تک کہ اسے صف میں کھڑا کیا جاتا تھا۔

(۲۴)عبداللہ بن مسعود نےکہا تم میں سے اگر کوئی کسی کے طریقے پر چلنا چاہتا ہے تو اسے چاہیئے کہ اس کے راستے پر چلے جو فوت ہو گیا ہے (یعنی رسول اللہﷺاور صحابہ کرام) کیوں کہ زندہ آدمی فتنہ سے محفوظ نہیں ہو سکتا۔ وہ( فوت ہونے والے) لوگ محمد ﷺ کے صحابہ کرام تھے جو اس امت میں افضل ترین لوگ تھے سب سے نیک دل سب سے گہرے علم والے کم تکلف والے تھے۔ جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کی صحبت کے لئے اور اپنے دین کو قائم کرنے کےلئے چنا تھا لہٰذا ان کی فضیلت کو مانو اور ان کے نقش قدم اور سیرت پر چلو ،کیوں کہ وہ صراط مستقیم پر تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
(۲۵)جبیر بن نفیر نے کہا میں شرحبیل بن سمط کے ساتھ ایک جماعت میں سترہ اٹھارہ میل دو ایک گاؤں میں گیا ،وہاں انہوں نے دو رکعت نماز پڑھی میں نے ان سے پوچھا (کہ دو رکعت کیوں پڑھی ہیں؟) تو کہا میں نے عمر کو ذوالحلیفۃمیں دو رکعت پڑھتے دیکھا اور میں نے ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا میں تو ویسے ہی کرتا ہوں جیسے رسول اللہکو کرتے ہوئے دیکھا ہے

(۲۶)انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے عمر رضی اللہ عنہ کو سنا انہوں نے یہ آیات پڑھیں: (۔۔۔) إلى قوله (۔۔۔)(عبس) یعنی ”--“ تک ،اور کہا یہ سب ہم جانتے ہیں لیکن یہ اَبّ کیا چیز ہے ؟پھر خود ہی لاٹھی (زمین پر ) ماری جو کہ ان کے ہاتھ میں تھی اور کہا اللہ کی قسم یہ تکلف ہے جو اس کتاب میں واضح ہے اس پر عمل کرو۔

(۲۷)امام حسن بصری نے کہا اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں ہے کہ سنت غلو اور اعراض کے درمیان ہے ۔ پس اسی پر صبر کرو بے ،شک اہل السنۃگذشتہ زمانے میں بھی کم تھے اور آنے والے وقت میں بھی کم ہوں گے ۔یہ وہ لوگ ہیں جو باغیوں اور سر کشوں کی سر کشی میں شامل نہیں ہوتے اور نہ اہل بدعۃ کے ساتھ بدعت میں شامل ہوتے ہیں بلکہ سنت پر صبر کرتےہیں حتی کہ اپنے رب سے جا ملتے ہیں ،سو تم ان شاء اللہ ان کی طرح ہی ہونا۔

(۲۸)امام حسن بصری نے اس آیت : (آل عمران: ٣١)کی تفسیرمیں کہا:اللہ کی طرف سے ان کے ساتھ محبت کی علامت یہ ہے کہ وہرسول اللہﷺکو اتباع کرتے ہیں ۔ایک اور جگہ کہا ہے اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت کی علامت اتباع رسول اللہﷺہے۔

(۲۹)امام محمد بن سیرین نے کہا صحابہ کرام و تابعین کرام سمجھتے تھے کہ انسان جب تک حدیث پر عمل کر رہا ہے تو ہدایت پر ہے۔

(۳۰)امام مجاہد نے کہا اس آیت: (الفرقان)ہمیں پرہیزگاروں کے لئے امام بنا)کی تفسیر میں کہا ہے:یعنی ایسے امام بنا کہ سلف صالحین کی اقتداکریں اور پچھلے لوگ ہماری اقتداء کریں۔
 
Last edited:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
(۳۱)عباد بن عبادالخواص شامی نے کہا "عقل سے کام لو اور عقل ایک نعمت ہے۔ بعض عقلمندوں کا دل ایسی چیز سے استفادہ کرنے کے بجائے، جو ان کے لئے ضروری ہے۔ اس چیز کی گہرائی میں مشغول ہو جاتاہے، جو ان کے لئے نقصاندہ ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ وہ اس مفید چیز سے غافل ہو جاتے ہیں ،کسی انسان کے بہتر عقل سے یہ بھی ہے ،کہ ایسی باتوں میں غوروخوض کرنا چھوڑ دے جن کے اندر غوروفکر نہیں کرنا چاہیئے کہیں اس کا عقل اس کے لئے وبال نہیں بن جائے۔ مثلاً کسی ایسے شخص سے منا ظرہ وبحث کرنا جو اس سے اعمال صالحہ میں کم ہے یا ایسا شخص جس کا دل بس بدعات میں مشغول ہو اور اپنے دین میں ان لوگوں کی تقلید کرے جو کہ صحابہ کرام سے کم ہوں ۔یا اپنے رائے پر اکتفاء کرے اور ہدایت فقط اسی میں سمجھے ،اور اس کے چھوڑنے کو گمراہی سمجھے، یہ گمان کرتے ہوئے کہ اس نے یہ چیزیں قرآن سے اخذ کی ہیں۔ در حقیقت وہ قرآن کو چھوڑنے کی دعوت دے رہا ہو۔کیا اس شخص سے پہلے قرآن مجید کے پڑھنے اور سمجھنے والے نہیں تھے جو اس کی محکم آیات پر عمل کرتے ہوں اور متشابہات پر ایمان لاتے ہوں جو کہ اس سے بڑھ کر شفاف راستے پر ہوں ؟اور قرآن اللہ کے رسول اللہﷺکا امام تھا اور رسول اللہﷺصحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے امام تھے اور صحابہ کرام اپنےسے بعد کے لوگوں کے امام تھے۔ ایسے لوگ تھے جو مشہور اور مختلف علاقوں کی طرف منسوب تھے ،باوجود اس کے کہ ان کے درمیان (بعض مسائل میں )اختلاف تھا پر گمراہوں پر رد کرنے میں متفق تھے ۔جبکہ اہل رائےاپنی رائے کی وجہ سے ایسی راہوں میں بھٹکتے پھرتے ہیں جو کہ مختلف، اعتدال سے یکطرف، صراط مستقیم کی مخالف ہیں، اس لئے کہ انہیں ان کے دلائل نے گمراہی کی دور کی راہوں میں بھٹکا دیا اور اسی حال میں ان راہوں کے اندر نہایت افسوس کے ساتھ سوچتے رہے۔ جب بھی شیطان نے ان کے لئے بدعت تیار کی تو وہ کسی دوسری بدعت و گمراہی کی طرف چلے گئے اس لئے کہ وہ سلف کے نقش قدم پر نہیں چلے۔ عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے زیاد سے پوچھا کہ کیا تمہیں پتہ ہے کون سی چیز اسلام کو گرائے گی؟ عالم کی گمراہی اور منافق کا قرآن کے ذریعے جدال و جھگڑا کرنا اور گمراہ کرنے والے رہنماء وحکمران۔

(۳۲)میمون بن مہران نے کہا "ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس جب کوئی جھگڑا آتا تو قرآن مجید میں دیکھتے تھے پھر اگر اس میں اس کی دلیل پاتے تو اس پر فیصلہ کرتے اور اگر کتاب اللہ میں نہ پاتے تو رسول اللہﷺکی سنت کے مطابق فیصلہ کرتے اور اگر دونوں میں نہ پاتے تو نکلتے اور مسلمانوں سے پوچھتے کہ میرے پاس اس طرح کا مسئلہ آیا ہے کیا تمہیں علم ہے کہ رسول اللہﷺنے اس کے بارے میں کوئی فیصلہ کیا ہو ؟پھر کب تو ان کے پاس سارے لوگ جمع ہو جاتے جو رسول اللہﷺسے اس کے بارے میں فیصلہ کروایت کرتے ہوں۔ پھر ابو بکر رضی اللہ عنہ کہتے اللہ تعالیٰ کے لئےساری تعریفیں ہیں جس نے ہمارے اندر ایسے لوگ پیدا کئے جنہوں نےہمارے نبی ﷺکی احادیث کو یاد کیا ہے ۔پھر اس سے بھی عاجز آجاتے رسول اللہﷺکی سنت میں سے کوئی فیصلہ پائیں تو بڑے اور اچھے لوگوں کو جمع کر کے ان سے مشورہ طلب کرتے پھر اگر ان کی رائے کسی معاملہ پرمتفق ہو جاتی تو اس پر فیصلہ کرتے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
(۳۳)امام شعبی نے کہا میں قاضی شریح کے پاس آیا تو اس کے پاس مراد سے ایک شخص آیا ہوا تھا، جس نے کہا اے ابو امیہ(شریح) انگلیوں کی دیت کیا ہے؟ کہا دس دس اونٹ ۔اس نے کہا سبحان اللہ !کیا یہ دونوں برابر ہو سکتی ہیں اس نے چھنگلی اور انگوٹھے کو ملا کر کہا ،تو شریح نے کہا کیا تیرا کان اور ہاتھ برابر ہیں کان کو تو بال اور ٹوپی ڈھانپ دیتی ہے۔ اس کی بھی آدھی دیت ہے اور ہاتھ کی بھی آدھی دیت ہے ،افسوس ہے تیرے لئے ،سنت تمہارے قیاس پر مقدم ہے۔ لہٰذا (سنت کی) اتباع کر اور بدعات پر نہ چل اس لئے کہ جب تک تو حدیث پر عمل کرتا رہے گا ،گمراہ نہیں ہو سکتا ،پھر شعبی نے مجھے کہا،ہذلی( یعنی قبیلہ ہذیل والے) اگر تمہارا احنف قتل ہو جائے اور یہ بچہ بھی جو اپنی مہد میں ہے تو کیا دونوں کی دیت برابر (نہیں )ہو گی؟ میں نے کہا جی ہاں، کہا پھر قیاس کہاں رہ گیا۔

(۳۴)خلیفہ عمر بن عبدالعزیز نے کہا کہ رسول اللہﷺاور آپ کے بعد خلفاء راشدین نے ہمارے لئے سنن کو جاری کیا ہے۔ ان پر عمل کرنا اللہ تعالیٰ کی کتاب کی تصدیق اور اس کی اطاعت کی تکمیل اور اس کے دین پر عمل کرنے کے لئے تقویت کا باعث ہے کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ ان سنن کو تبدیل کر دے اور ان کو چھوڑ کر دوسری چیزوں میں غور و خوض کرے جوان سنن پر عمل کرے گا وہ ہدایت پائے گا اور جو نصرت طلب کرے گا اس کی مدد کی جائے گی اور جو ان کی مخالفت کرے گا اور مومنوں کے راستہ کے علاوہ دوسرے راستے پر چلے گا اس کو اللہ تعالیٰ اُدھر ہی پھیر دے گا جدھر جارہا ہے اور اسے جہنم رسید کرے گا اور وہ بہت بری جگہ ہے۔
(۳۵)ابو الصلت نے کہا ایک شخص نے عمر بن عبد العزیز کو خط لکھ کر تقدیر کی بابت سوال کیا تو اس کے جواب میں عمر بن عبدالعزیز نے لکھا اما بعد! میں تجھے اللہ سے ڈرنے اور اس کے امر میں اعتدال اختیار کرنے اور اس کے پیغبرت کی سنت کی اتباع کرنے اور اس چیز کو چھوڑنے کی وصیت کرتا ہوں جو اہل بدعت نے اس کے بعد ایجاد کی ہے ،جب آپ ﷺکی سنت جاری تھی اور اس بدعت کے ایجاد کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ لہٰذا تم سنت کو لازم پکڑو کیوں کہ سنت ہی تمہارے لئے اللہ کے حکم سے عصمت کا ذریعہ ہے۔ اور جان لو کہ لوگ جو بھی بدعت گھڑتے ہیں تو اس (کے باطل ہونے ) کی پہلے ہی دلیل موجود ہوتی ہے۔
کیوں کہ سنت اس نے مقرر کی ہے جسے اس سنت کی مخالفت میں جو گمراہی ،اور بیوقوفی اور بے فائدہ تشدد ہے اس کا علم تھا (یعنی اللہ تعالیٰ کو) لہٰذا تو اپنے لئے اس چیز کو پسند کر جس کو صحابہ کرام نے پسند کیا ہے۔ کیوں کہ وہ علم پر کھڑے تھے اور فکرو بصیرت سے ہی (کسی عمل سے) روکتے تھے۔ اور بلا شک وہ معاملات کو سمجھنے میں سب سے زیادہ قوی اور جو فضیلت انہیں ملی تھی اس کے زیادہ مستحق تھے ۔اور اگر ہدایت وہ ہے جس پر تم لوگ ہو، تو پھر تم ان (سلف صالحین ) سے آگے نکل گئے ہو اور اگر کہتے ہو کہ یہ مسائل بعد کی پیدائش ہیں تو ان کو ان لوگوں نے بنایا ہے جو کہ صحابہ کرام کے راستہ پر نہیں ہیں چلنے والے، اور ان کے راستے سے رو گردانی کرنے والے ہیں ۔صحابہ کرام پہلے ہدایت پانے والے ہیں اور انہوں نے اس دین کے متعلق جو کہا ہے وہ کافی ہے اور جو اس کی وصف بیان کی ہے وہ شافی ہے اور جو بات ان کے (راستہ سے) کم ہے اس میں کو تاہی اور تفریط ہے اور جو بات ان سے اوپر ہے وہ زیادتی ہے۔ جن لوگوں نے ان سے کمی کی انہوں نے کوتاہی کی اور جنہوں نے زیادتی کی انہوں نے غلو کیا۔ جبکہ صحابہ کرام اس کے درمیان یعنی اعتدال پر صراط مستقیم پر تھے۔تو نے مجھے خط لکھ کر تقدیر کی بابت سوال کیا ہے ۔تیرا بہر حال ایک عالم سے ہی سابقہ پڑا ہے۔ لہٰذا جا ن لو، کہ لوگوں نے جو بھی بدعت ایجاد کی ہے وہ اقرار بالقدر سے زیادہ واضح نہیں ہے ۔تقدیر کا تو زمانہ جاہلیت میں بھی ذکر تھا، اس کا ذکر اپنے کلام کے اندر کرتے تھے اور اپنے اشعار میں اور اس سے خود کو تسلی دیتے تھے جب ان کا کوئی نقصان ہو جاتا تھا۔ پھر اسلام نے بعد میں اس کی مزید تاکید کی ،اور رسول اللہﷺنے تقدیر کا ایک یا دو نہیں کئی احادیث کے اندر ذکر فر مایا ہے، اور آپ ﷺسے مسلمانوں نے سنا اور اس کی بابت اپنی زندگی کے اندر بات کی (جس کو) ان کے فوت ہونے کے بعد روایت کیا گیا یعنی اس پر یقین رکھتے ہوئے اسے تسلیم کرتے ہوئے اور خود کی کمزوری کا اعتراف کرتے ہوئے کہ ایسی کوئی چیز نہیں ہو سکتی جو اللہ تعالیٰ عزوجل کے علم کے اندر نہ ہو اور اس کی کتاب میں (لکھی نہ گئی ) ہو، اس کے ساتھ ساتھ یہ رب تعالیٰ کی کتاب کی آیات محکمات میں (واضح بیان کی گئی) ہے اس سے انہوں نے حاصل کیا ہے اور سیکھا ہے۔​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
(۳۶)امام زہری نےکہا ہمارے پچھلے علماء کرام نے کہا ہے کہ سنت پر عمل کرنے میں ہی نجات ہے اور علم جلد ہی اٹھالیا جائے گا اور علم کی موجودگی دین و دنیا کی ثابت رہنے کی علامت ہے اور اس کے جانے سے سب کچھ ختم ہو جائے گا۔

(۳۷)امام اوزاعی نے کہا ،کہا جاتا ہے کہ پانچ چیزوں پر صحابہ کرام اور تابعین کرام قائم تھے ۔ جماعت کے ساتھ رہنا سنت کی اتباع کرنا مساجد کو آباد کرنا، قرآن کی تلاوت کرنا اور جہاد فی سبیل اللہ کرنا۔

(۳۸)اور امام اوزاعی ہی نے کہا ہم سنت کے ساتھ چلتے ہیں جدھر بھی لے جائے۔

(۳۹)ابو زناد نے کہابلا شک سنن اور حق کی باتیں اکثر رائے کی خلاف ہوتی ہیں اس لئے مسلمانوں کے لئے سنت کی اتباع کے سواء کوئی چارہ نہیں ہے۔

(۴۰)امام سفیان نے کہا حق کی راہ پر چلتے رہو اور اہل حق کی کمی کی وجہ سے اکیلائی محسوس نہ کرو۔

(۴۱)ابو شامہ نے کہا جہاں بھی جماعت کو لازم کرنے کا حکم ہے وہاں حق کو لازم کرنے اور اس کی اتباع کرنا مراد ہے اگر چہ حق کے ساتھ تمسک کرنے والے کم ہوں اور مخالف زیادہ ہوں۔

(۴۲)ابو عثمان الحیری نے کہا "جو شخص سنت کو اپنے آپ پر نافذ کرے گا یعنی قول و عمل میں اس پر چلے گا، وہ ہی حکمت یعنی حق بات کہے گا اور جو ھوی(خواہش ) کو اپنے قول و فعل پر حاکم بنائے گا وہ بدعت کے ساتھ بولےگا۔ فرمان الٰہی ہے : قُلْ أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّ‌سُولَ ۖ فَإِن تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا عَلَيْهِ مَا حُمِّلَ وَعَلَيْكُم مَّا حُمِّلْتُمْ ۖ وَإِن تُطِيعُوهُ تَهْتَدُوا ۚ وَمَا عَلَى الرَّ‌سُولِ إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ ﴿٥٤(النور: ٥٤) ۔
 
Last edited:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
(۴۳)ابو حفص نے کہا جو شخص اپنے افعال و احوال کو ہر وقت کتاب و سنت میں نہیں تولتا اور اپنی رائے کو غلط نہیں کہتا اس کا شمار (اہل وحق) لوگوں کے دفتر میں نہیں ہوگا۔

(۴۴)ابو بکر ترمذی نے کہا"کوئی بھی شخص (سنت کے ساتھ )محبت کرنےوالوں کے علاوہ کسی اور کو ہمت کی تمام اوصاف سے متصف نہیں پائے گا ۔انہوں نے یہ صفت سنت کی اتباع کرنے اور بدعت سے اجتناب کرنے سے ہی حاصل کی ہے ۔کیوں کہ محمد رسول اللہﷺہی ساری مخلوق میں سب سے زیادہ ہمت والے تھے۔

(۴۵)امام ابن القیم نے کہا "عمر کسی کام کے کرنے کا پختہ ارادہ کر لیتے اور پھر اسے بتایا جاتا کہ یہ کام رسول اللہﷺنے نہیں کیا ہے تو رک جاتے تھے۔

(۴۶)امام شاطبی نے کہا"بلا شک صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اپنے نبی کریم ﷺکی اتباع کرنے والے اور آپ ﷺ کے طریقہ پر چلنے والے تھے، ان کی قرآن کے اندر مدح آئی ہے۔ اور ان کے پیشوا محمد ﷺکی بھی اللہ تعالیٰ نے (وہاں پر)ثناء کی ہے اور آپ ﷺکا خلق قرآن ہی تھا،فرمان الٰہی ہے (القلم)یعنی تو بڑے اخلاق پر ہے۔ سو قرآن ہی کی در حقیقت اتباع کی جاتی ہےاور سنت اس کی تشریح کے لئے ہے۔ سنت پر عمل کرنے والا بھی حقیقت میں قرآن پر عمل کر رہا ہے اور صحابہ کرام اس بات میں سب سے آگے ہیں ۔لہٰذا جو بھی ان کی اقتداء کرے گا وہ اللہ کے فضل سے(جہنم سے )نجات پانے والےاور جنت میں داخل ہونے والے فرقہ سے ہوگا۔
یہی آپ ﷺکے فرمان (ما أنا علیه وأصحابی،یعنی فرقہ ناجیہ وہ ہے جو میرے اور صحابہ کرام کے راستے پر چلے گا )کا معنی ہے ۔سو کتاب اللہ اور سنت ہی صراط مستقیم ہے اور باقی اجماع وغیرہ ان ہی سے ماخوذ ہے ۔

(۴۷)اور شاطبی نے ہی کہا ہے کہ ہر مخالف کا کام ہے کہ دوسرے کو اپنے نظریہ کی دعوت دے۔ اسی وجہ سے مخالف کی طرف سے مخالفت ہوتی ہے اور موافق کی طرف سے موافقت ہوتی ہے۔ اور اسی وجہ سے اختلاف کرنے والوں کے درمیان عداوت اور بغض پیداہوتا ہے۔

(۴۸)سلف صالحین میں سے بعض نے کہا ہے "اگر تمہیں ایسا شخص نظر آئے جو بظاہر ہوا میں اڑے تو بھی (اسے کرامت سمجھ کر) دھوکہ میں نہ آنا، یہاں تک کہ اسے دیکھو کہ وہ امر و نہی اور حدود الہی کی حفاظت میں کیسا ہے۔
 
Top