- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,763
- پوائنٹ
- 1,207
بولے كہ ذرا مجھے بھی تو دكھاؤ اور اس طرح اپنے قبضہ میں كر لیا پھر اس شخص نے تلوا ر كے مالك كو ایسی ضرب لگائی كہ وہ وہیں ٹھنڈا ہوگیا۔ اس كا دوسرا ساتھی بھاگ كر مدینہ آیا اور مسجد میں دوڑتا ہوا داخل ہوا نبی ﷺنے جب اسے دیكھا تو فرمایا یہ شخص كچھ خوف زدہ معلوم ہوتا ہے ۔ جب وہ نبی
ﷺكے قریب پہنچا تو كہنے لگا اللہ كی قسم میرا ساتھی تو مارا گیا اور میں بھی مارا جاؤنگا ۔ (اگر آپ لوگوں نے ابو بصیر كو نہ روكا) اتنے میں ابو بصیر بھی آگئے ۔اور عرض كیا اے اللہ كے نبی ﷺاللہ كی قسم اللہ تعالیٰ نے آپ كی ذمہ داری پوری كر دی آپ مجھے ان كے حوالے كر چكے تھے لیكن اللہ تعالیٰ نے مجھے ان سے نجات دلائی نبی ﷺنے فرمایا( تیری ماں كی خرابی) اگر اس كا كوئی ایك بھی مددگار ہوتا توپھر لڑائی كے شعلے بھڑك اٹھتے ۔جب انہوں نے آپ كے یہ الفاظ سنے تو سمجھ گئے كہ آپ پھر كفار كے حوالے كر دینگے اس لئے وہاں سے نكل گئے اور سمندر كے كنار ے پر آگئے۔راوی نے بیان كیا كہ اپنے گھر والوں سے( مكہ سے) چھوٹ كرابو جندل بن سہیل بھی ابو بصیر سے جا ملے اور اب یہ حال تھا كہ قریش كا جو شخص بھی اسلام لاتا (بجائے مدینہ آنے كے) ابو بصیر كے یہاں( ساحل سمندر پر) چلا جاتا اس طرح سے ایك جماعت بن گئی اور اللہ گواہ ہے یہ لوگ قریش كے جس قافلے كے متعلق بھی سن لیتے كہ وہ شام جا رہا ہے تو اسے راستے ہی میں روك كر لوٹ لیتے اور قافلے والوں كو قتل كر دیتے ۔اب قریش نے نبی كریم ﷺكے یہاں اللہ اور رحم كا واسطہ دے كر درخواست بھیجی كہ آپ كسی كو بھیجیں( ابو بصیر اور ان كے دوسرے ساتھیوں كے پاس كہ وہ قریش كی ایذاء سے رُك جائیں) اور اس كے بعد جو شخص بھی آپ كے یہاں جائے گا ( مكہ سے) اسے امن ہے۔ چنانچہ نبیﷺنے ان كے یہاں اپنا آدمی بھیجا اور اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی كہ“اور وہ ذات پروردگار جس نے روك دیا تھا تمہارے ہاتھوں كو ان سے اور ان كے ہاتھوں كو تم سے( یعنی جنگ نہیں ہو سكی تھی) وادی مكہ ( حدیبیہ میں) بعد میں اس كے كہ تم كو غالب كر دیا تھا ان پر یہاں تك كہ بات جاہلیت كے دور كی بے جا حمیت تك پہنچ گئی تھی” ان كی حمیت ( جاہلیت) یہ تھی كہ انہوں نے ( معاہدے میں بھی) آپ كے لئے اللہ كے نبی ہونے كا اقرار نہیں كیا اسی طرح انہوں نے “بسم اللہ الرحمن الرحیم ” نہیں لكھنے دیا اور آپ كے بیت اللہ جانے سے مانع بنے۔اتباع ہی اللہ اور اس کے رسول ﷺکے ساتھ محبت کی دلیل ہےمحبت کے دو طرف ہیں ایک محبت کرنے والا، دوسرا محبوب، اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت کے بھی دو طرف ہیں ایک بندے کی اپنے رب کے ساتھ محبت اور دوسری رب کی اپنے بندے کے ساتھ محبت ۔بندے کی اپنے رب سے محبت کی دلیل رسول اللہﷺکی اتباع ہے اوردوسرا طرف اس اتباع کا پھل ہے۔جیسا کہ فرمان الٰہی ہے: (آل عمران)یعنی اے نبی کہ دو اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو۔ اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بڑا بخشش کرنےو الا بڑا رحم کرنے والا ہے۔
اس وجہ سے اس آیت کو آیت المحبۃ کہا گیا ہے۔ ابو سلیمان دارانی نے کہا ہے :جب دلوں نے اللہ تعالیٰ کی محبت کا دعویٰ کیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت امتحان و آزمائش کے لئے نازل فرمائی۔اس آیت کا معنی جیسا کہ طبری نے کہا ہے یہ ہے کہ" اے محمد ﷺنجران کے نصاریٰ کے وفد کو کہہ دیں اگر تم یہ گمان رکھتے ہو کہ تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو اپنی بات جوکہتے ہو ثابت بھی کر کے دکھاؤ ۔یعنی میری اتباع کے ذریعے ،کیوں کہ تم جانتے ہو کہ عیسیٰ علیہ السلام کی طرح میں بھی تمہاری طر ف اللہ کا رسول ہوں۔ اور بعض نے محبت کی تفسیر بندوں کی طرف سے اتباع اور اطاعت کی ہے۔ اور اللہ کی بندوں سے محبت کی تفسیر اس کی بخشش کے انعام سےکی ہے۔ یعنی بندے کی اللہ اور رسول ﷺکے ساتھ محبت ان کی اطاعت اور ان کے امر کی فرمانبرداری ہے اور اللہ کی بندوں کے ساتھ محبت اس کی طرف سے ان کے لئے بخشش ہے ۔
اور سہل بن عبداللہ نے کہا "اللہ کی محبت کی علامت قرآن کے ساتھ محبت ہے اور قرآن سے محبت کی علامت رسول اللہ کے ساتھ محبت ہے اور رسول اللہ کے ساتھ محبت کی علامت آپ کی سنت کے ساتھ محبت ہے اور اس ساری محبت کی علامت آخرت کے ساتھ محبت ہے۔اور یہ آیت ہر اس شخص پر حقیقت میں جھوٹے ہونے کا حکم لگاتی ہے جو اللہ کے ساتھ محبت کا دعویٰ تو کرتا ہے لیکن محمدی طریقہ پر نہیں چلتا ۔یہاں تک کہ وہ محمدی شریعت اور دین نبوی کی اپنے سارے اقوال و افعال میں پیروی کرے۔
اور (یحببکم اللہ،اللہ تمہارے ساتھ محبت کرے گا) سے مراد یہ ہے کہ تمہیں تمہارے رب کے ساتھ محبت کا بدلہ تمہاری طلب سے بھی زیادہ ملے گا یعنی تمہیں اس کی محبت حاصل ہو گی جو کہ تمہاری محبت سے بہت عظیم چیز ہے کیوں کہ بڑی بات یہ نہیں کہ تم کسی کے ساتھ محبت کرو بلکہ بڑی بات یہ ہےکہ تمہارے ساتھ محبت کی جائے۔
امام ابن قیم کہتے ہیں"یحببکم اللہ" کے اندر محبت کی دلیل اور فائدہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔اس کی دلیل رسول اللہ کی اتباع ہے اور اتباع کا فائدہ اللہ کی محبت کا حصول ہے۔ لہٰذا اگر پیروی نہیں ہے تو محبت بھی نہیں ہے۔
مزید کہتے ہیں "اللہ کی محبت حبیب کبریاءکی اتباع کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی۔ خلاصۂِ کلام یہ ہے کہ اتباعِ سنت بندے کی اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت میں سچائی کی دلیل ہے اور اس اتباع کا ثمر و فائدہ اللہ کی طرف سے محبت اور مغفرت کا حصول ہے۔
ﷺكے قریب پہنچا تو كہنے لگا اللہ كی قسم میرا ساتھی تو مارا گیا اور میں بھی مارا جاؤنگا ۔ (اگر آپ لوگوں نے ابو بصیر كو نہ روكا) اتنے میں ابو بصیر بھی آگئے ۔اور عرض كیا اے اللہ كے نبی ﷺاللہ كی قسم اللہ تعالیٰ نے آپ كی ذمہ داری پوری كر دی آپ مجھے ان كے حوالے كر چكے تھے لیكن اللہ تعالیٰ نے مجھے ان سے نجات دلائی نبی ﷺنے فرمایا( تیری ماں كی خرابی) اگر اس كا كوئی ایك بھی مددگار ہوتا توپھر لڑائی كے شعلے بھڑك اٹھتے ۔جب انہوں نے آپ كے یہ الفاظ سنے تو سمجھ گئے كہ آپ پھر كفار كے حوالے كر دینگے اس لئے وہاں سے نكل گئے اور سمندر كے كنار ے پر آگئے۔راوی نے بیان كیا كہ اپنے گھر والوں سے( مكہ سے) چھوٹ كرابو جندل بن سہیل بھی ابو بصیر سے جا ملے اور اب یہ حال تھا كہ قریش كا جو شخص بھی اسلام لاتا (بجائے مدینہ آنے كے) ابو بصیر كے یہاں( ساحل سمندر پر) چلا جاتا اس طرح سے ایك جماعت بن گئی اور اللہ گواہ ہے یہ لوگ قریش كے جس قافلے كے متعلق بھی سن لیتے كہ وہ شام جا رہا ہے تو اسے راستے ہی میں روك كر لوٹ لیتے اور قافلے والوں كو قتل كر دیتے ۔اب قریش نے نبی كریم ﷺكے یہاں اللہ اور رحم كا واسطہ دے كر درخواست بھیجی كہ آپ كسی كو بھیجیں( ابو بصیر اور ان كے دوسرے ساتھیوں كے پاس كہ وہ قریش كی ایذاء سے رُك جائیں) اور اس كے بعد جو شخص بھی آپ كے یہاں جائے گا ( مكہ سے) اسے امن ہے۔ چنانچہ نبیﷺنے ان كے یہاں اپنا آدمی بھیجا اور اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی كہ“اور وہ ذات پروردگار جس نے روك دیا تھا تمہارے ہاتھوں كو ان سے اور ان كے ہاتھوں كو تم سے( یعنی جنگ نہیں ہو سكی تھی) وادی مكہ ( حدیبیہ میں) بعد میں اس كے كہ تم كو غالب كر دیا تھا ان پر یہاں تك كہ بات جاہلیت كے دور كی بے جا حمیت تك پہنچ گئی تھی” ان كی حمیت ( جاہلیت) یہ تھی كہ انہوں نے ( معاہدے میں بھی) آپ كے لئے اللہ كے نبی ہونے كا اقرار نہیں كیا اسی طرح انہوں نے “بسم اللہ الرحمن الرحیم ” نہیں لكھنے دیا اور آپ كے بیت اللہ جانے سے مانع بنے۔اتباع ہی اللہ اور اس کے رسول ﷺکے ساتھ محبت کی دلیل ہےمحبت کے دو طرف ہیں ایک محبت کرنے والا، دوسرا محبوب، اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت کے بھی دو طرف ہیں ایک بندے کی اپنے رب کے ساتھ محبت اور دوسری رب کی اپنے بندے کے ساتھ محبت ۔بندے کی اپنے رب سے محبت کی دلیل رسول اللہﷺکی اتباع ہے اوردوسرا طرف اس اتباع کا پھل ہے۔جیسا کہ فرمان الٰہی ہے: (آل عمران)یعنی اے نبی کہ دو اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو۔ اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بڑا بخشش کرنےو الا بڑا رحم کرنے والا ہے۔
اس وجہ سے اس آیت کو آیت المحبۃ کہا گیا ہے۔ ابو سلیمان دارانی نے کہا ہے :جب دلوں نے اللہ تعالیٰ کی محبت کا دعویٰ کیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت امتحان و آزمائش کے لئے نازل فرمائی۔اس آیت کا معنی جیسا کہ طبری نے کہا ہے یہ ہے کہ" اے محمد ﷺنجران کے نصاریٰ کے وفد کو کہہ دیں اگر تم یہ گمان رکھتے ہو کہ تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو اپنی بات جوکہتے ہو ثابت بھی کر کے دکھاؤ ۔یعنی میری اتباع کے ذریعے ،کیوں کہ تم جانتے ہو کہ عیسیٰ علیہ السلام کی طرح میں بھی تمہاری طر ف اللہ کا رسول ہوں۔ اور بعض نے محبت کی تفسیر بندوں کی طرف سے اتباع اور اطاعت کی ہے۔ اور اللہ کی بندوں سے محبت کی تفسیر اس کی بخشش کے انعام سےکی ہے۔ یعنی بندے کی اللہ اور رسول ﷺکے ساتھ محبت ان کی اطاعت اور ان کے امر کی فرمانبرداری ہے اور اللہ کی بندوں کے ساتھ محبت اس کی طرف سے ان کے لئے بخشش ہے ۔
اور سہل بن عبداللہ نے کہا "اللہ کی محبت کی علامت قرآن کے ساتھ محبت ہے اور قرآن سے محبت کی علامت رسول اللہ کے ساتھ محبت ہے اور رسول اللہ کے ساتھ محبت کی علامت آپ کی سنت کے ساتھ محبت ہے اور اس ساری محبت کی علامت آخرت کے ساتھ محبت ہے۔اور یہ آیت ہر اس شخص پر حقیقت میں جھوٹے ہونے کا حکم لگاتی ہے جو اللہ کے ساتھ محبت کا دعویٰ تو کرتا ہے لیکن محمدی طریقہ پر نہیں چلتا ۔یہاں تک کہ وہ محمدی شریعت اور دین نبوی کی اپنے سارے اقوال و افعال میں پیروی کرے۔
اور (یحببکم اللہ،اللہ تمہارے ساتھ محبت کرے گا) سے مراد یہ ہے کہ تمہیں تمہارے رب کے ساتھ محبت کا بدلہ تمہاری طلب سے بھی زیادہ ملے گا یعنی تمہیں اس کی محبت حاصل ہو گی جو کہ تمہاری محبت سے بہت عظیم چیز ہے کیوں کہ بڑی بات یہ نہیں کہ تم کسی کے ساتھ محبت کرو بلکہ بڑی بات یہ ہےکہ تمہارے ساتھ محبت کی جائے۔
امام ابن قیم کہتے ہیں"یحببکم اللہ" کے اندر محبت کی دلیل اور فائدہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔اس کی دلیل رسول اللہ کی اتباع ہے اور اتباع کا فائدہ اللہ کی محبت کا حصول ہے۔ لہٰذا اگر پیروی نہیں ہے تو محبت بھی نہیں ہے۔
مزید کہتے ہیں "اللہ کی محبت حبیب کبریاءکی اتباع کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی۔ خلاصۂِ کلام یہ ہے کہ اتباعِ سنت بندے کی اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت میں سچائی کی دلیل ہے اور اس اتباع کا ثمر و فائدہ اللہ کی طرف سے محبت اور مغفرت کا حصول ہے۔