• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اللہ کہاں ہے؟ عرش پر،آسمان پر یا۔۔۔۔؟

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

عمبرین

مبتدی
شمولیت
جنوری 11، 2015
پیغامات
28
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
25
@خضر حیات بھائی ان کو بولنے دے تا کہ لوگوں کے سامنے ان کا چہرہ واضح ہو جائے جن کے پاس دلیلیں نہ ہو ان کے پاس سوائے گالیوں کے کیا ہوتا-

ایک مناظرہ جو کہ دیوبندی عالم اور شیخ طالب الرحمن زیدی حفظہ اللہ کے درمیان ہوا تھا اسی موضوع پر شیخ نے صرف امام ابو حنیفہ کا فتویٰ ہی سے ان کو شکست دی - اور وہ دیوبندی مولوی جب ہار گیا تو اس نے مسجد کے اندر شیخ کو گالیاں دینا شروع کر دی -

اس مناظرے میں سپاہ صاحبہ کے ایک رکن نے اہل حدیث مسلک کو قبول کیا - الحمدللہ
مناظرے کا لنک دے۔اور میں تو کب اس مسلے پر بات کرنا چارہی ہوں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
قواعد و ضوابط
نمبر2
متفرق مسالک، مذاہب، تحریکوں اور شخصیات کی ذات کو ہدف تنقید نہ بنایا جائے اور نہ ہی کسی طبقے کی معزز شخصیات کو برا بھلا کہا جائے بلکہ ان کے عقائد ونظریات کا دلائل کی روشنی میں جائزہ لیا جائے۔
دیوبندیوں نے اپنے مسلک کے دفاع کے لئے قرآن و حدیث کو بھی معاف نہیں کیا اور اپنے مسلک کو صحیح اور درست ثابت کرنے کے لئے قرآن و حدیث میں تحریف کر ڈالی۔۔۔۔دلائل کی روشنی میں حقائق جاننے کے لیےقرآن وحدیث میں تحریف کا مطالعہ کریں۔
 

عمبرین

مبتدی
شمولیت
جنوری 11، 2015
پیغامات
28
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
25
دیوبندیوں نے اپنے مسلک کے دفاع کے لئے قرآن و حدیث کو بھی معاف نہیں کیا اور اپنے مسلک کو صحیح اور درست ثابت کرنے کے لئے قرآن و حدیث میں تحریف کر ڈالی۔۔۔۔دلائل کی روشنی میں حقائق جاننے کے لیےقرآن وحدیث میں تحریف کا مطالعہ کریں۔
پہلےاوپر والے ایک مسلہ پر تو بات کر وا
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
@کنعان

اس کا گالی ہونا قران و حدیث سے ثابت کر
میری بہن سب سے پہلے ھم کو آپ کو زبان کے بارے میں کچھ نصیحتیں کرتے ہے -

حفاظت زبان کے دس عظیم فوائد


زبان کی حفاظت کے فوائد

1- نجات

قال صلى الله عليه وسلم ))من صمت نجا (( صحيح الترمذي

سیدناعبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنھما سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو شخص خاموش رہا اس نے نجات پائی۔
علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے


2- جنت کی ضمانت
قال صلى الله عليه وسلم ))من يضمن لى ما بين لحييه ومابين رجليه اضمن له الجنة (( رواه البخاري


سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو شخص مجھے اپنے دو جبڑوں کے درمیان کی چیز [ زبان ] کی اور دونوں ٹانگوں کے درمیان کی چیز [ شرمگاہ ] کی ضمانت دے دے تو میں اس کے لئے جنت کی ضمانت دیتا ہوں ۔


3- افضل ترین مسلمان

فقد سئل صلى الله عليه وسلم عن اي المسلمين أفضل ؟فقال)):من سلم المسلمون من لسانه و يده (( متفق عليه

سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنھما
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسلمانوں میں سے افضل آدمی کے متعلق پوچھا گیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
''جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں''۔


4- ایمان کی درستگی

قَالَ رَسُولُ الله صلى الله عليه و سلم لَا يَسْتَقِيمُ إِيمَانُ عَبْدٍ
حَتَّى يَسْتَقِيمَ قَلْبُهُ وَلَا يَسْتَقِيمُ قَلْبُهُ حَتَّى
يَسْتَقِيمَ لِسَانُهُ وَلَا يَدْخُلُ رَجُلٌ الْجَنَّةَ لَا يَأْمَنُ
جَارُهُ بَوَائِقَهُ.
أخرجه أحمد وصححه الألباني .


سیدنا انس بن مالک رضی اللہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
آدمی کا ایمان اس وقت تک درست نہیں ہوسکتا جب تک اس کا دل سیدھا نہ ہوجائے ، اور دل اس وقت تک سیدھا نہیں ہوسکتا جب تک زبان سیدھی نہ ہوجائے ۔


5- تمام انسانی اعضاء کی درستگی


فعن أبي سعيد (رضي الله عنه) قال: قال رسول الله (صلى الله عليه وسلم):
"إذا أصبح ابن آدم فإن الأعضاء كلها تُكفِّر أي تتذلل وتتواضع له اللسان
فتقول: اتق الله فينا، فإنما نحن بك، فإن استقمت استقمنا، وإن اعوججت
اعوججنا " رواه الترمذي وذكره


سیدنا ابوسعید خدری مرفوعاً نقل کرتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کہ جب صبح ہوتی ہے تو انسان کے تمام اعضاء اس کی زبان سے التجاء کرتے ہیں کہ اللہ سے ڈر ہم بھی تیرے ساتھ ہیں اگر تو سیدھی ہوگی تو ہم سے سیدھے ہوں گے اور اگر تو ٹیڑھی ہوگئی تو ہم سب بھی ٹیڑھے ہو جائیں گے۔
جامع ترمذی کتاب الزھد


6- اللہ کی ناراضگی سے بچاؤ

عن أبي هريرة رضي الله عنه عن النبي (صلى الله عليه وسلم) قال: " إن
العبد ليتكلم بالكلمة من رضوان الله لا يُلقي لها بالاً، يرفعه الله بها
درجات، وإن العبد ليتكلم بالكلمة من سخط الله - تعالى -، لا يلقي لها
بالاً، يهوي بها في جهنم " رواه البخاري.


سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ (بعض وقت) بندہ اللہ کی رضا مندی کی بات کرتا ہے اور اس کی اور اس کو پرواہ بھی نہیں ہوتی لیکن اس کے سبب سے اللہ تعالیٰ اس کے درجات بلند کرتا ہے اور بعض وقت بندہ اللہ تعالیٰ کو ناراض کرنے والی بات بولتا ہے اور اس کی پر واہ نہیں کرتا لیکن اس کے سبب سے وہ جہنم میں گرجاتا ہے۔
صحیح بخاری کتاب الرقاق


7- اللہ اور یوم آخرت پر ایمان والا کام

عن أبي هريرة رضى الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «من كان يؤمن
بالله واليوم الآخر، فليقل خيرًا أو ليسكت» (رواه البخاري ومسلم وأحمد
وغيرهم)


''سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے، اسے چاہیے کہ وہ اچھی بات کرے یا خاموش رہے''

8- جھنم سے نجات

ثم قال: ألا أخبرك بملاك ذلك كله، قلت بلى يا رسول اللّه، قال: فأخذ بلسانه، قال: كف
عليك هذا. فقلت: يا نبي اللّه وإنا لمؤاخذون بما نتكلم به؟ فقال: ثكلتك أمك
يا معاذ، وهل يكب الناس في النار على وجوههم، أو على مناخرهم، إلا حصائد
ألسنتهم".رواه الترمذي وابن ماجه والحاكم وهو في صحيح ابن ماجه للألباني
رقم (3209)


سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم ! مجھے ایسا عمل بتائیے جو مجھے جنت میں لے جائے اور مجھے جہنم سے دور کردے
(لمبی حدیث ہے جس کے آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا)
’’کیا میں تجھے ایسی بات نہ بتلاؤں؟ جس پر ان سب کادارومدار ہے ‘‘ میں نے کہا کیوں نہیں؟ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم پھر نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی زبان پکڑی اور فرمایا: ’’اس کو روک رکھ‘‘ میں نے عرض کیا، کیا ہم
زبان سے جو گفتگو کرتے ہیں، اس پر بھی ہماری پکڑ ہوگی؟ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : ’’تیری ماں تجھےگُم پائے(یہ عربی محاورہ ہے کوئی بد دعا ‏نہیں) جہنم میں لوگوں کو ان کی زبانوں کی کاٹی ہوئی کھیتیاں ہی اوندھے منہ گرائیں گیں‘‘
(جامع ترمذی، کتاب الایمان، باب ماجاء فی ‏حرمۃالصلاۃ، حدیث:2661)‏

9- فتنوں سے نجات


قيل للرسول صلى الله عليه وسلم: ( ما النجاة ؟ قال: أمسك عليك لسانك وليسعك بيتك، وأبكِ على خطيئتك) حديث صحيح رواه الترمذي وغيره.


عقبۃ ابنِ عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: ’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم ! نجات کس طرح ممکن ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’اپنی زبان کو قابومیں رکھو، تمہارا گھر تمہیں اپنے اندر سمالے (بغیر ضرورت کے گھر سے نہ نکلو) اور اپنی غلطیوں پر خوب آنسو بہاؤ‘‘ (جامع ترمذی)


10- بہترین اسلام

عن أبي هريرة رضي الله عنه ، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال : من حسن
إسلام المرء تركه ما لا يعنيه حديث حسن ، رواه الترمذي وغيره .


''بہترین مسلمان ہونے کے لئے کسی شخص کا لایعنی باتوں کو ترک کر دینا ہی کافی ہے''

قال ابن القيم رحمه الله : "إن العبد ليأتي يوم القيامة بحسنات أمثال
الجبال؛ فيجد لسانه قد هدمها عليه كلها، ويأتي بسيئات أمثال الجبال فيجد
لسانه قد هدمها من كثرة ذكر الله تعالى، وما اتصل به" الجواب الكافي

ابن القیم رحمہ اللہ کہتے ہیں: آدمی قیامت کے دن نیکیوں کے پہاڑ لے کر آئے گا ،وہ دیکھے گا کہ اس کی زبان نے وہ تمام پہاڑ ملیامیٹ کردیئے ہیں اور انسان گناہوں کے پہاڑ لیکر آئے گا اور وہ دیکھے گا کہ اللہ کے ذکر اور اس جیسی چیزوں سے وہ گناہوں کے پہاڑ ریزہ ریزہ ہوگئے ہیں ۔


اللہ سبحان و تعالیٰ ھم سب کے اخلاق کو اچھا کر دے اور ھم سب کی زبان سے وہ بات نکلیں - جن سے تو راضی ہو جائے -

آمین یا رب العامین
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
علماء دیوبند نے اپنی کتاب ( ألمُهند على المُفند ) میں لکها هے کہ الله تعالی کے لیئے جہت ثابت نہیں وه جہت سے پاک هے ، اوریہ قول وعقیده طالب الرحمن نامی جاهل آدمی کے نزدیک کفریہ شرکیہ هے ، اوریہ جاهل آدمی اس جهوٹ پرمزید جهوٹ اس طرح بولتا هے کہ امام ابوحنیفہ نے بهی علماء دیوبند کوبهی کافرومشرک کہا هے ( معا ذالله ) اور اس جهوٹ پراپنے زعم میں ثبوت اس طرح دیتا هے کہ ابن أبي العز نے اپنی کتاب ــ شرح العقيدة الطحاوية ــ میں أبي مطيع البلخي کے حوالے سے لکها هے کہ انهوں نے امام أبو حنيفة رحمه الله سے اس شخص کے بارے میں پوچها جو یہ کہے کہ میں نہیں جانتا میرا رب آسمان میں هے یا زمین میں هے تو امام أبو حنيفة رحمه الله نے فرمایا کہ اس شخص نے کفر کیا کیونکہ الله تعالی کا ارشاد هے {الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى} [سورة طه ] اور عرش اس کا سات آسمانوں سے اوپر هے الخ
اب غور طلب باتیں دو هیں ایک تو یہ کہ ( ألمُهند على المُفند ) میں لکهی هوئ بات صحیح هے یا ــ شرح العقيدة الطحاوية ــ والی بات لہذا انهی دو باتوں پر روشنی ڈالتے هیں ان شاء الله آپ کے سامنے طالب الرحمن نامی جاهل وکاذب شخص کا کذب واضح هوجا ئے گا ،
1 = طالب الرحمن نامی جاهل وکاذب شخص نے علماء دیوبند کے عقائد کو کفریہ شرکیہ کہا هے ابن أبي العز کی ــ شرح العقيدة الطحاوية ــ سے أبي مطيع البلخي کی روایت کوبنیاد بناکر اب طالب الرحمن کی جہالت کہیں یا ضد وتعصب کہ جس کتاب سے أبو مطيع البلخي کی روایت نقل کر رها هے اس کتاب کا مصنف یعنی ابن أبي العز ، أبو مطيع البلخي کے بارے میں اس طرح رقمطراز هے ، وأما أبو مطيع فهو الحكم بن عبد الله بن مسلمة البلخي ، ضعفه أحمد ابن حنبل ويحيى بن معين وعمرو بن علي الفلاس والبخاري وأبو داود وأبو حاتم الرازي وأبو حاتم محمد بن حبان البستي وابن عدي والدار قطني وغيرهم اهـ
یعنی أبو مطيع وه حكم بن عبد الله بن مسلمة البلخي هے امام أحمد ابن حنبل ويحيى بن معين وعمرو بن علي الفلاس والبخاري وأبو داود وأبو حاتم الرازي وأبو حاتم محمد بن حبان البستي وابن عدي والدار قطني وغيرهم نے اس کو ضعیف راوی قرار دیا هے ۰
اور مزید یہ کہ رجال کی دیگرکتب ( لسان الميزان ) »(ميزان الاعتدال ) اس سے سخت جرح اس پرموجود هے ،
اسی طرح (الفقه الأكبر ) کے متن میں بهی یہ کلام موجود نہیں هے ،
اوربتقدیر صحت کلام الإمام ابن عبد السلام نے کتاب (حل الرموز ) میں یہ جواب دیا هے جس کوعلامہ الإمام مُلا علي القاري نے ( شرح الفقه الأكبر 271 )
پرنقل کیا هے کہ (جو یہ کہے کہ میں نہیں جانتا میرا رب آسمان میں هے یا زمین میں هے تواس شخص نے کفر کیا ) کیونکہ اس قول سے یہ وهم هوتا هے کہ الله تعالی کے لیئے مکان ثابت هے اورجویہ وهم کرے کہ الله تعالی کے لیئے مکان ثابت هے تو وه مشبه هے اهـ
مُلا علي القاري نے اس کلام کو نقل کرنے کے بعد فرمایا کہ
ولا شك أن ابن عبد السلام من أجل العلماء وأوثقهم فيجب الاعتماد علی نقله لا على ما نقله الشارح يعني شارح الطحاوية مع أن أبا مطيع رجل وضّاع عند أهل الحديث كما صرح به غير واحد اهـ
مُلا علي القاري فرماتے هیں کہ اس میں شک نہیں کہ ( الإمام ) ابن عبد السلام بہت بڑے اورثقہ علماء میں سے هیں لہذا انهوں نے جوجواب دیا هے اس پراعتماد ضروری هے اورجو بات شارح الطحاوية (ابن أبي العز ) نے نقل کی هے اس پرکوئ اعتماد نہ کرنا چائیے ، جب کہ أبا مطيع أهل الحديث (محدثین ) کے نزدیک وضّاع ( جهوٹی روایات بیان کرنے والا ) هے اور اس بات کی تصریح ایک زیاده (علماء امت ) نے کی هے ۰
اور مزید یہ کہ (متن العقيدة الطحاوية) کے پہلے سطر میں الامام العلامةُ حُجةُ الإسلامِ أبو جعفرٍ الوراقُ الطحاويُّ الحنفی رحمهُ الله فرماتے هیں کہ
هذا ذِكرُ بيانِ عقيدةِ أهلِ السنّةِ والجماعةِ على مذهبِ فُقهاءِ المِلّةِ: أبي حنيفةَ النعمانِ ابنِ ثابتٍ الكوفيّ، وأبي يوسفَ يعقوبَ بنِ إبراهيمَ الأنصاريّ، وأبي عبدِ الله محمدِ ابنِ الحسنِ الشيْبانيّ، رِضوانُ اللهِ عليهم أجمعينَ، وما يعتقدونَ من أصولِ الدينِ، ويَدينون بهِ لربِّ العالمين ،
یعنی یہ بیان هے أهل السنّة والجماعة کے عقیده کا فقهاء الملة أبي حنيفةَ النعمانِ ابن ثابت الكوفي،اورأبي يوسف يعقوب بن إبراهيم الأنصاريّ،اور أبي عبد الله محمد ابن الحسن الشيْبانيّ، رِضوانُ اللهِ عليهم أجمعينَ،کے مذهب کے مطابق اور أصول الدينِ میں اورالله ربُ العالمين کے بارے جوعقائد وه رکهتے هیں اس کا ذکروبیان هے ۰
امام الطحاويُّ الحنفی رحمهُ الله چند سطورکے بعد فرماتے هیں کہ
( وتعالى عن الحدودِ والغاياتِ والأركانِ والأعضاءِ والأدوات، لا تحويهِ الجهاتُ الستُّ كسائرِ المبتدعات )
الله تعالی بلند وبرترهے حدود وغایات سے اورارکان واعضاء وادوات سے ،
چهہ (6 ) جِهات الله تعالی کوحاوی نہیں هیں دیگرتمام مخلوقات کی طرح ۰
(الغايات) یعنی النهايات معنی یہ هے کہ الله تعالی کے لیئے کوئ نهاية نہیں هے کیونکہ هروه چیزجس کے لیئے نهاية وانتهاء هوتو وه محدود هوگی اوراس کے لیئے مخصوص مقدار بهی هوگا اورالله تعالی اس سے مُنزه هے ،
( الأركان ) کا معنی هے الجوانب اور یہ بهی جسم کے صفات میں سے هے اورالله تعالی جسم سے مُنزه هے ،
(الأعضاء) کا معنی هے بڑے اجزاء جیسے سر ، هاتهہ ، پیر وغیره
(الأدوات ) کا معنی هے چهوٹے اجزاء جیسے زبان وغیره
( لا تحويه الجهات الست كسائر المبتدعات)
معنی اس کا یہ هے کہ الله تعالی موجود هے بلا جهة وبلا مكان کے اور جهات ستہ (اوپر نیچے ، آگے پیچهے ، دائیں بائیں ) سے مُنزه هے جیسا کہ دیگر تمام مخلوقات کے لیئے یہ صفات هوتی هیں الله تعالی مخلوق کی ان اوصاف سے مُبَرَّا ومُنَزه هے ۰
غورفرمائیں امام الطحاويُّ الحنفی رحمهُ الله نے کتاب کے شروع میں کہا تها کہ یہ عقائد فقهاء الملة أبي حنيفةَ النعمانِ ابن ثابت الكوفي اورأبي يوسف يعقوب بن إبراهيم الأنصاريّ اور أبي عبد الله محمد ابن الحسن الشيْبانيّ کے مذهب کے مطابق بیان کیئے جائیں گے ،
توامام اعظم ابوحنیفہ کا عقیده یہ هے کہ الله تعالی موجود هے بلا جهة وبلا مكان کے الخ اور یہی عقیده ( ألمُهند على المُفند ) میں لکها هوا هے کہ الله تعالی کے لیئے جہت ثابت نہیں وه جہت سے پاک هے ،
توثابت هوگیا کہ طالب الرحمن نامی جاهل آدمی کا یہ کہنا کہ امام ابوحنیفہ نے بهی علماء دیوبند کوبهی کافرومشرک کہا هے ( معا ذالله ) کتنا بڑا جهوٹ وبهتان عظیم هے اورناواقف عوام کوگمراه کرنے کی ایک ناجائز ونامراد کوشش هے ۰
2 = دوسری بات جوعقیده ( ألمُهند على المُفند ) میں لکها هے کہ الله تعالی کے لیئے جہت ثابت نہیں وه جہت سے پاک هے ، جس کو طالب الرحمن نامی جاهل وکذاب آدمی کفریہ شرکیہ عقیده کہتا هے ، کیا یہ عقیده صرف ( ألمُهند على المُفند ) میں لکها هے یا دیگراسلاف وعلماء اهل سنت والجماعت کا بهی یہی عقیده هے ؟؟ خوب یاد رکهیں کہ جو عقیده ( ألمُهند على المُفند ) میں لکها هے تمام اهل سنت کا وهی عقیده هے ، اس ضمن میں بحیثیت طالب العلم میرے پاس سلف صالحین وائمہ اسلام کے تقریبا ڈهائ سو (۲۵۰ ) سے زیاده اقوال هیں ، جن میں سے چند کا تذکره بغرض دلیل وشهادت کروں گا ، اوراس سے آپ طالب الرحمن نامی جاهل وکذاب شخص کی جهالت وحماقت کا اندازه بهی لگالیں گےکہ ضد وتعصب وعداوت کی بنا پرعلماء دیوبند کے اس عقیده کو کفریہ شرکیہ کہتا هے ، کیا اس شخص کے اس بکواس کی زد میں وه اسلاف وائمہ بهی نہیں آئیں گےجن کا عقیده وهی هے جو ( ألمُهند على المُفند ) میں لکها هے ؟؟
اورساتهہ هی ان ناواقف عوام پرحُجت تمام هوگئ هے جواس جاهل آدمی کی هاں میں ملاتے هیں اوراس کی اندهی تقلید کرتے هیں ۰
أهل السـنة والجماعـة کا عـقیـده الله تـعـالی بلا مـكـان وبلاجـهـة موجود هے
سب سے پہلے " مـكـان وجــِـهـَــة " کی تعریف ملاحظہ کریں
1 = = مشهور لغوي عالم امام أبو القاسم الحسين بن محمد المعروف بالراغب الأصفهاني اپنی کتاب ( المفردات في غريب القرءان) میں فرماتے هیں کہ
{المكان عند أهل اللغة الموضع الحاوي للشيء}.
یعنی مکان أهل اللغة کے نزدیک اس جگہ کوکہتے هیں جوکسی چیزکوحاوی
( گهیرا هوا ) هو ۰
2 = مشهور لغوي عالم علامہ مجد الدين محمد بن يعقوب الفيروزءابادي صاحب القاموس اپنی کتاب (القاموس المحيط ) میں فرماتے هیں کہ
{المكان: الموضع، ج: أمكنة وأماكن}
یعنی مکان جگہ کوکہتے هیں اورأمكنة وأماكن اس کی جمع هے ۰
3 = العلامة كمال الدين أحمد بن حسن البياضي الحنفي (إشارات المرام )میں فرماتے هیں کہ { المكان هو الفراغ الذي يشغله الجسم }
یعنی مکان اس خالی جگہ کوکہتے هیں جس کوجسم گهیرتا هے ۰
4 = الشيخ يوسف بن سعيد الضفتي المالكي فرماتے هیں کہ
{ قال أهل السنة: المكان هو الفراغ الذي يحل به الجسم}
یعنی مکان وه خالی جگہ هے جس میں جسم سماتا هے ۰
5 = الحافظ المجدث الفقيه اللغوي الحنفي السيد مرتضى الزبيدي اپنی كتاب
(تاج العُروس ) میں فرماتے هیں کہ :{المكان: الموضع الحاوي للشيء}
یعنی مکان وه جگہ هوتی هے جوکسی چیزکوحاوی هو ۰
یہ چند اقوال تو مـكـان کی تعریف سے متعلق تهے اب چند اقوال جــِـهـَــة کی تعریف کے متعلق ملاحظہ کریں ،
1 = الامام اللغوي الشيخ محمد بن مكرم الإفريقي المصري المعروف بابن منظور
علم نحو وصرف وادب ولغت عرب کے مشہور ومستند عالم هیں اپنی مشهور کتاب ( لسان العرب ) میں فرماتے هیں کہ
:{والجهة والوِجْهة جميعاً: الموضع الذي ٹوجه إليه وتقصده}
یعنی جــِـهـَــة اور وِجـــهـَــة سب اس جگہ کوکہتے هیں جس کی طرف تو متوجہ هو اورجس کا توقصد واراده کرے ۰
2 =علامہ مجد الدين محمد بن يعقوب الفيروزءابادي صاحب القاموس اپنی کتاب (القاموس المحيط ) میں فرماتے هیں کہ
{ والجهة: الناحية، ج: جهات}.
اور جــِـهـَــة کہتے هیں کنارے وطرف کو جمع اس کی جهات هے ۰
3 = علامہ الشيخ عبد الغني النابلسي فرماتے هیں کہ
{والجهة عند المتكلمين هي نفس المكان باعتبار إضافة جسم ءاخر إليه}
اورجــِـهـَــة متکلمین کے نزدیک مکان هی هے اس کی طرف دوسرے جسم کے اضافہ کے اعتبار سے ۰
4 = العلاّمة كمال الدين أحمد بن حسن المعروف بالبياضي فرماتے هیں کہ
والجهة اسم لمنتهى مأخذ الإشارة ومقصد المتحرك فلا يكونان إلا للجسم والجسمانيّ، وكل ذلك مستحيل ـ أي على الله ـ" اهـ


الله تعالى " مَـكــان وَجـِـهـَـة " سے پاک ومُنزه ومُبَرَّا هے ۰

اب میں سلف صالحین وائمہ اسلام کی صرف اصل عبارات کا تذکره کروں گا اوران تمام عبارات کا معنی ومفہوم مشترک یہی هے کہ الله تـعـالی مـكـان وجــِـهـَــة سے پاک ومُنزه ومُبَرَّا هے ، اس لیئے مستقل ترجمہ کرنے سے بات بہت طویل هوجائے گی ، لہذا اصل عبارات کے ذکرپراکتفاء کرتا هوں ٠

1 = قال الصحابي الجليل والخليفة الراشد سيدنا علي رضي الله عنه ما نصه
كان الله ولا مكان ، وهو الان على ماعليه كان اهـ. أي بلا مكان.
(( الفرق بين الفرق لأبي منصور البغدادي [ ص / 333 ] ))
2 = وقال أيضا : "إن الله تعالى خلق العرش إظهارًا لقدرته لا مكانا لذاته" أ هـ
(( الفرق بين الفرق لأبي منصور البغدادي [ ص / 333 ] ))
3 = وقال التابعي الجليل الإمام زين العابدين علي بن الحسين بن علي رضي الله عنهم ما نصه (أنت الله الذي لا يحويك مكان" أ هـ
[إتحاف السادة المتقين (4/ 380) ]
4 = قال الإمام الأعظم المجتهد الأكبرأبو حنيفة النعمان بن ثابت رضي الله عنه
" والله تعالى يُرى الآخرة، ويراه المؤمنون وهم في الجنة بأعين رؤوسهم بلا تشبيه ولا كميّة، ولا يكون بينه وبين خلقه مسافة " اهـ
[ ذكره في الفقه الاكبر، انظر شرح الفقه الاكبر لملا علي القاري (ص/ 136ء 137) ].
5 = وقال أيضا في كتابه الوصية : " ولقاء الله تعالى لأهل الجنة بلا كيف ولا تشبيه ولا جهة حق " اهـ [ الوصية: (ص/ 4)، ونقله ملا علي القاري في شرح الفقه الاكبر (ص/138)]
6 = وقال أيضًا : " قلت: أرأيت لو قيل أين الله تعالى؟ فقال أي أبو حنيفة: يقال له كان الله تعالى ولا مكان قبل أن يخلق الخلق، وكان الله تعالى ولم يكن أين ولا خلق ولا شىء، وهو خالق كل شىء" اهـ. [ الفقه الأبسط ضمن مجموعة رسانل أبي حنيفة بتحقيق الكوثري (ص/ 25). ].
7 = وقال أيضا : "ونقر بأن الله سبحانه وتعالى على العرش استوى من غير أن يكون له حاجة إليه واستقرار عليه، وهو حافظ العرش وغير العرش من غير احتياج، فلو كان محتاجا لما قدر على إيجاد العالم وتدبيره كالمخلوقين، ولو كان محتاجا إلى الجلوس والقرار فقبل خلق العرش أين كان الله، تعالى الله عن ذلك علوا كبيرا" اهـ.
[ كتاب الوصية، ضمن مجموعة رسائل أبي حنيفة بتحقيق الكوثري (ص/ 2) ، وملا علي القاري في شرح الفقه الاكبر (ص/ 75) عند شرح قول الامام: ولكن يده صفته بلا كيف"] .
8 = وقال الإمام المجتهد محمد بن إدريس الشافعي رضي الله عنه إمام المذهب الشافعي ما نصه : " إنه تعالى كان ولا مكان فخلق المكان وهو على صفة الأزلية كما كان قبل خلقه المكان لا يجوز عليه التغيير في ذاته ولا التبديل في صفاته " اهـ
[إتحاف السادة المتقين (2/ 24 ]
9 = وأما الإمام المجتهد الجليل أبو عبد الله أحمد بن محمد بن حنبل الشيباني إمام المذهب الحنبلي فقد ذكر الشيخ ابن حجر الهيتمي أنه كان من المنزهين لله تعالى عن الجهة والجسمية، ثم قال ابن حجر ما نصه : " وما اشتهر بين جهلة المنسوبين إلى هذا الإمام الأعظم المجتهد من أنه قائل بشىء من الجهة أو نحوها فكذب وبهتان وافتراء عليه " اهـ. [ الفتاوي الحديثية / 144).
10 = شيخ المحدثين الإمام أبو عبد الله محمد ابن إسماعيل البخاري صاحب الصحيح
کا بهی یہی عقیده هے کہ الله تعالی " مـكـان وجــِـهـَــة " سے پاک ومُنزه ومُبرا هے
جیسا کہ بخاري شريف کے شُراح فرماتے هين
قال الشيخ علي بن خلف المالكي المشهور بابن بطال أحد شراح البخاري (449هـ) ما نصه : "غرض البخاري في هذا الباب الرد على الجهمية المجسمة في تعلقها بهذه الظواهر، وقد تقرر أن الله ليس بجسم فلا يحتاج إلى مكان يستقر فيه، فقد كان ولا مكان، وانما أضاف المعارج اليه إضافة تشريف، ومعنى الارتفاع إليه اعتلاؤهء أي تعاليهء مع تنزيهه عن المكان " اهـ.
[فتح الباري (13/416).]
11 = وقال الشيخ ابن المنيِّر المالكي (695 هـ) ما نصه:"جميع الأحاديث في هذه الترجمة مطابقة لها إلا حديث ابن عباس فليس فيه إلا قوله "رب العرش" ومطابقته، والله أعلم من جهة أنه نبه على بطلان قول من أثبت الجهة أخذا من قوله (ذِى المَعَارِجِ) (سورة المعارج/3) ، ففهم أن العلو الفوقي مضاف إلى الله تعالى، فبيَّن المصنفء يعني البخاريء أن الجهة التي يصدق عليها أنها سماء والجهة التي يصدق عليها أنها عرش، كل منهما مخلوق مربوب محدث، وقد كان الله قبل ذلك وغيره، فحدثت هذه الأمكنة، وقدمه يحيل وصفه بالتحيز فيها" اهـ، نقله عنه الحافظ ابن حجر وأقره عليه .[ فتح الباري (13/ 418ء 419). ]
12 = وقال الإمام الحافظ الفقيه أبو جعفر أحمد بن سلامة الطحاوي الحنفي (321 هـ) في رسالته (العقيدة الطحاوية) ما نصه: "وتعالى أي الله عن الحدود والغايات والأركان والأعضاء والأدوات، لا تحويه الجهات الست كسائر المبتدعات " اهـ.
امام الطحاوي الحنفي كبار علماء السلف میں سے هیں اپنی کتاب (العقيدة الطحاوية) میں یہ اعلان کر رهے کہ الله تعالی " مـكـان وجــِـهـَــة " سے پاک ومُنزه ومُبرا هے ، اور الله تعالی کی شان هے کہ آج پوری دنیا کے مدارس ومکاتب ومعاهد ومساجد میں (العقيدة الطحاوية) هی کی تعلیم دی جاتی هے ، حتی کہ عرب کے اندر تمام سلفی مدارس وکلیات میں (العقيدة الطحاوية) کی تعلیم دی جاتی هے ، اور عرب کے تمام سلفی علماء نے اس کے شروحات لکهے هیں ، اور تمام نے (العقيدة الطحاوية) کو اهل سنت والجماعت کی عقائد کی مستند ومعتبرکتاب قرار دیا هے ،
اور (العقيدة الطحاوية) پڑهنے والے تمام لوگ کتاب کو کهولتے هی یہ اعلان کرتے هیں ، هذا ذِكرُ بيانِ عقيدةِ أهلِ السنّةِ والجماعةِ على مذهبِ فُقهاءِ المِلّةِ: أبي حنيفةَ النعمانِ ابنِ ثابتٍ الكوفيّ، وأبي يوسفَ يعقوبَ بنِ إبراهيمَ الأنصاريّ، وأبي عبدِ الله محمدِ ابنِ الحسنِ الشيْبانيّ، رِضوانُ اللهِ عليهم أجمعينَ، وما يعتقدونَ من أصولِ الدينِ، ويَدينون بهِ لربِّ العالمين ،
(ذالك فضل الله يؤتيه من يشاء)
13 = وقال إمام أهل السنة أبو الحسن الأشعري (324 هـ) ما نصه : " كان الله ولا مكان فخلق العرش والكرسي ولم يحتج إلى مكان، وهو بعد خلق المكان كما كان قبل خلقه " اهـ أي بلا مكان ومن غير احتياج إلى العرش والكرسي. نقل ذلك عنه الحافظ ابن عساكر نقلا عن القاضي أبي المعالي الجويني.[تبيين كذب المفتري (ص/ 150).]
14 = وقال إمام أهل السنة أبو منصور الماتريدي (333 هـ) ما نصه : "إن الله سبحانه كان ولا مكان، وجائز ارتفاع الأمكنة وبقاؤه على ما كان، فهو على ما كان، وكان على ما عليه الان، جل عن التغير والزوال والاستحالة" اهـ. يعني بالاستحالة التحول والتطور والتغير من حال إلى حال وهذا منفي عن الله ومستحيل عليه سبحانه وتعالى.[كتاب التوحيد (ص/ 69).]
15 = وقال الحافظ محمد بن حبان (354 هـ) صاحب الصحيح المشهور بصحيح ابن حبان ما نصه : "الحمد لله الذي ليس له حد محدود فيحتوى، ولا له أجل معدود فيفنى، ولا يحيط به جوامع المكان ولا يشتمل عليه تواتر الزمان". [الثقات (1/ 1)
16 = وقال أيضا ما نصه : "كان الله ولا زمان ولا مكان" اهـ.[صحيح ابن حبان، أنظر الإحسان بترتيب صحيح ابن حبان (8/ 4).]
17 = وقال الشيخ أبو سليمان حمد بن محمد الخطابي الشافعي (388 هـ) صاحب "معالم السنن" ما نصه "وليس معنى قول المسلمين إن الله على العرش هو أنه تعالى مماس له أو متمكن فيه أو متحيز في جهة من جهاته، لكنه بائن من جميع خلقه، وإنما هو خبر جاء به التوقيف فقلنا به ونفينا عنه التكييف إذ (لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ البَصِيرُ)ا هـ.[أعلام الحديث: كتاب بدء الخلق، باب ما جاء في قوله تعالى: (هُوَ الَّذِي يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ) (سورة الروم/27) (2/،147).]
18 = وقال القاضي أبو بكر محمد الباقلاني المالكي الأشعري (403) ما نصه : "ولا نقول إن العرش لهء أي اللهء قرار ولا مكان، لأن الله تعالى كان ولا مكان، فلما خلق المكان لم يتغير عما كان"اهـ الانصاف فيما يجب اعتقاده ولا يجوز الجهل به (ص/65).
19 = وذكر الشيخ أبو الطيب سهل بن محمد الشافعي مفتي نيسابور (404 هـ) ما نقله عنه الحافظ البيهقي: "سمعت الشيخ أبا الطيب الصعلوكي يقول: "ُتضامّون" بضم أوله وتشديد الميم يريد لا تجتمعون لرؤيتهء تعالىء في جهة ولا ينضم بعضكم إلى بعض فإنه لا يرى في جهة" اهـ، ذكر ذلك الحافظ ابن حجر فتح الباري (447/11).
20 = وقال أبو بكر محمد بن الحسن المعروف بابن فورك الاشعري (406 هـ) ما نصه "لا يجوز على الله تعالى الحلول في الأماكن لاستحالة كونه محدودا ومتناهيا وذلك لاستحالة كونه محدثا" اهـ.
مشكل الحديث (ص/ 57).
21 = وقال الشيخ الإمام أبو منصور عبد القاهر بن طاهر التميمي البغدادي الإسفراييني (429 هـ) ما نصه "وأجمعوا (أي أهل السنة)على أنه أي الله لا يحويه مكان ولا يجري عليه زمان " اهـ
الفرق بين الفرق (ص/ 333).
22 = وقال أبو محمد علي بن أحمد المعروف بابن حزم الأندلسي (456 هـ)
" وأنه تعالى لا في مكان ولا في زمان، بل هو تعالى خالق الأزمنة والأمكنة، قال تعالى: (وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ فَقَدَّرَهُ تَقْدِيراً)(سورة الفرقان/2)، وقال (خلقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا)(سورة الفرقان/59)، والزمان والمكان هما مخلوقان، قد كان تعالى دونهما، والمكان إنما هو للاجسام" اهـ.
(أنظر كتابه علم الكلام: مسألة في نفي المكان عن الله تعالى (ص/ 65).
23 = وقال الحافظ أبو بكر أحمد بن الحسين البيهقي الشافعي (458 هـ) ما نصه "والذي روي في أخر هذا الحديث إشارة إلى نفي المكان عن الله تعالى، وأن العبد أينما كان فهو في القرب والبعد من الله تعالى سواء، وأنه الظاهر فيصح إدراكه بالأدلة، الباطن فلا يصح إدراكه بالكون في مكان. واستدل بعض أصحابنا في نفي المكان عنه بقول النبي (صلّى الله عليه و سلّم) "أنت الظاهر فليس فوقك شىء، وأنت الباطن فليس دونك شىء"، وإذا لم يكن فوقه شىء ولا دونه شىء لم يكن في مكان " اهـ
( الأسماء والصفات (ص/ 400).
24 = وقال الفقيه المتكلم أبو المظفر الإسفراييني الأشعري (471 هـ) ما نصه "الباب الخامس عشر في بيان اعتقاد أهل السنة والجماعة: وأن تعلم أن كل ما دل على حدوث شىء من الحد، والنهاية، والمكان، والجهة، والسكون، والحركة، فهو مستحيل عليه سبحانه وتعالى، لأن ما لا يكون محدثا لا يجوز عليه ما هو دليل على الحدوث " اهـ. التبصير في الدين (ص/ 161)..
25 = وقال الفقيه الإمام الشيخ أبو إسحاق الشيرازي الشافعي الأشعري (476 هـ) في عقيدته ما نصه "وان استواءه ليس باستقرار ولا ملاصقة لأن الاستقرار والملاصقة صفة الأجسام المخلوقة، والرب عز وجل قديم أزلي، فدل على أنه كان ولا مكان ثم خلق المكان وهو على ما عليه كان " اهـ
أنظر عقيدة الشيرازي في مقدمة كتابه شرح اللمع (1/ 101).
26 = وقال إمام الحرمين أبو المعالي عبد الملك بن عبد الله الجويني الأشعري (478 هـ) ما نصه "البارىء سبحانه وتعالى قائم بنفسه، متعال عن الافتقار إلى محل يحله أو مكان يقله " اهـ.
الإرشاد إلى قواطع الأدلة (ص/ 53).
27 = وقال الفقيه المتكلم أبو سعيد المتولي الشافعي الأشعري (478 هـ) أحد أصحاب الوجوه في المذهب الشافعي ما نصه (ثبت بالدليل أنه لا يجوز أن يوصف ذاته تعالى بالحوادث، ولأن الجوهر متحيز، والحق تعالى لا يجوز أن يكون متحيزا" اهـ.
الغنية قي أصول الدين (ص/83).
28 = وقال الشيخ أبو حامد محمد بن محمد الغزالي الشافعي الاشعري (505 هـ) ما نصه : " (تعالى أي الله عن أن يحويه مكان، كما تقدس عن أن يحده زمان، بل كان قبل أن خلق الزمان والمكان وهو الان على ما عليه كان " اهـ.
إحياء علوم الدين: كتاب قواعد العقاند، الفصل الأول (1/ 108).
29 = وقال لسان المتكلمين الشيخ أبو المعين ميمون بن محمد النسفي (توفي 508 هـ) مانصه "القول بالمكان – اي في حق الله – منافيا للتوحيد"
تبصرة الأدلة (1/ 171 و 182).
30 = وقال أبو الوفاء علي بن عقيل البغدادي شيخ الحنابلة في زمانه (513 هـ) ما نصه "تعالى الله أن يكون له صفة تشغل الأمكنة، هذا عين التجسيم، وليس الحق بذي أجزاء وأبعاض يعالج بها" اهـ.
الباز الأشهب: الحديث الحادي عشر (ص/ 86).
31 = وقال القاضي الشيخ أبو الوليد محمد بن أحمد قاضي الجماعة بقرطبة المعروف بابن رشد الجد المالكي (520 هـ) ما نصه: "ليس الله في مكان، فقد كان قبل أن يخلق المكان) اهـ. ذكره ابن الحاج المالكي في كتابه "المدخل"
المدخل: فصل في الاشتغال بالعلم يوم الجمعة (149/2)
32 = وقال المحدث أبو حفص نجم الدين عمر بن محمد النسفي الحنفي (537 هـ) صاحب العقيدة المشهورة بـ "العقيدة النسفية " ما نصه "والمحدث للعالم هو الله تعالى، لا يوصف بالماهية ولا بالكيفية ولا يتمكن في مكان " انتهى باختصار
العقيدة النسفية (ضمن مجموع مهمات المتون) (ص/28).
33 = وقال القاضي أبو بكر بن العربي المالكي . الأندلسي (543 هـ) ما نصه " البارى تعالى يتقدس عن ان يحد بالجهات أو تكتنفه الأقطار"
القبس في شرح موطأ مالك بن انس (1/396).
34 = وقال أيضا ما نصه "الله تعالى يتقدس عن أن يحد بالجهات "
المصدر السابق (1/395).
35 = وقال القاضي عياض بن موسى المالكي (544 ) ما نصه "اعلم أن ما وقع من إضافة الدنو والقرب هنا من الله او إلى الله فليس بدنو مكان ولا قرب مدى، بل كما ذكرنا عن جعفر بن محمد الصادق: ليس بدنو حد، صفة المجد والعلاء، فإنه تعالى فوق كل موجود بالقهر والاستيلاء"
الشفا: فصل في حديث الاسراء (1/205).
36 = وقال الشيخ محمد بن عبد الكريم الشهرستاني الشافعي (548هـ) ما نصه : "فمذهب أهل الحق أن الله سبحانه لا يشبه شيئا من المخلوقات ولا يشبهه شىء منها بوجه من وجوه المشابهة والمماثلة"لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ البَصِيرُ" ( سورة الشورى/11). فليس البارىء سبحانه بجوهر ولا جسم ولا عرض ولا في مكان ولا في زمان " اهـ.
نهاية الأقدام (ص/ 103).
37 = قال الإمام الحافظ المفسر عبد الرحمن بن علي المعروف بابن الجوزي الحنبلي (597 هـ) ما نصه " الواجب علينا أن نعتقد أن ذات الله تعالى لا يحويه مكان ولا يوصف بالتغير والانتقال" اهـ.
دفع شبه التشبيه (ص/58). (2) صيد الخاطر (ص/ 476).
38 = وقال الشيخ تاج الدين محمد بن هبة الله المكي الحموي المصري (599 هـ) في تنزيه الله عن المكان ما نصه وصـانـع الـعـالـم لا يـحـويـه قـطـر تـعـالـى الله عـن تـشـبـيـه قد كـان مـوجـودا ولا مكـانـا وحـكـمـه الان عـلـى مـا كـانـا سبحـانـه جل عن الـمكـان وعـز عـن تـغـيـر الـزمـان" اهـ
منظومته "حدائق الفصول وجواهر الأصول" في التوحيد، التي كان أمر بتدريسها السلطان المجاهد صلاح الدين الأيوبي (ص13) النهاية في غريب الحديث (مادة ق ر ب، 4/ 32).
39 = وقال المبارك بن محمد المعروف بابن الأثير (606 ص) ما نصه : "المراد بقرب العبد من الله تعالى القرب بالذكر والعمل الصالح، لا قرب الذات والمكان لأن ذلك من صفات الأجسام، والله يتعالى عن ذلك ويتقدس " اهـ.
تفسير الرازي المسمى بالتفسير الكبير (سورة الملك/ أية 16ء 30/ 69).
40 = وقال المفسر فخرالدين الرازي (6 0 6 هـ) ما نصه "واعلم أن المشبهة احتجوا على إثبات المكان لله تعالى "أَأَمنتم من في السماء "اهـ أي أن اعتقاد أن الله في مكان فوق العرش أو غير ذلك من الأماكن هو اعتقاد المشبهة الذين قاسوا الخالق على المخلوق وهو قياس فاسد منشؤه الجهل واتباع الوهم "اهـ.
المصدر السابق (سورة الشورى أية 4ء 27/ 144).
41 = وقال الشيخ أبو منصور فخر الدين عبد الرحمن بن محمد المعروف بابن عساكر (620 هـ) عن الله تعالى ما نصه "موجود قبل الخلق ليس له قبل ولا بعد، ولا فوق ولا تحت، ولا يمين ولا شمال، ولا أمام ولا خلف، ولا كل ولا بعض، ولا يقال متى كان، ولا أين كـان ولا كيف، كان ولا مكان، كون الأكوان، ودبر الزمان، لا يتقيد بالزمان، ولا يتخصص بالمكان " اهـ.
أنظر شرحه على العقيدة الطحاوية المسمى بيان اعتقاد أهل السنة (ص/ 45).
42 = وقال الشيخ إسماعيل بن إبراهيم الشيباني الحنفي (629 ص) ما نصه "مسألة: قال أهل الحق: إن "الله تعالى متعال عن المكان، غير متمكن في مكان، ولا متحيز إلى جهة خلافا للكرامية والمجسمة... والذي يدل عليه قوله تعالى "ليس كمثله شيء وهو السميع البصير "
أبكار الأفكار (ص/ 194ء 195)، مخطوط
43 = وقال المتكلم سيف الدين الآمدي (631 هـ) ما نصه "وما يروى عن السلف من ألفاظ يوهم ظاهرها إثبات الجهة والمكان فهو محمول على هذا الذي ذكرنا من امتناعهم عن إجرائها على ظواهرها والإيمان بتنزيلها وتلاوة كلأية على ما ذكرنا عنهم، وبين السلف إلاختلاف في الألفاظ التي يطلقون فيها، كل ذلك اختلاف منهم في العبارة، مع اتفاقهم جميعا في المعنى أنه تعالى ليس بمتمكن في مكان ولا متحيز بجهة، الخ
44 = وقال الشيخ جمال الدين محمود بن أحمد الحصيري شيخ الحنفية في زمانه (636 ص) بعد أن قرأ فتوى ابن عبد السلام في تنزيه الله عن المكان والحروف والصوت ما نصه "هذا اعتقاد المسلمين، وشعار الصالحين، ويقين المؤمنين، وكل ما فيهما صحيح، ومن خالف ما فيهما وذهب إلى ما قاله الخصم من إثبات الحرف والصوت فهو حمار" ا.هـ
طبقات الشافعية الكبرى: ترجمة عبد العزيزبن عبد السلام (8/ 237).
45 = وقال الشيخ جمال الدين أبو عمرو عثمان بن عمر المعروف بابن الحاجب المالكي (646 هـ) مثنيا على العقيدة التي كتبها الشيخ عبد العزيز ابن عبد السلام ومما جاء في هذه العقيدة قول ابن عبد السلام: "كان ء اللهء قبل أن كون المكان ودبر الزمان، وهو الآن على ما عليه كان " اهـ ومن جملة ما ذكره في ثنائه قوله : "ما قاله ابن عبد السلام هو مذهب أهل الحق، وأن جمهور السلف والخلف على ذلك، ولم يخالفهم إلا طائفة مخذولة، يخفون مذهبهم ويدسونه على تخوف إلى من يستضعفون علمه وعقله " اهـ
طبقات الشافعية الكبرى: ترجمة عبد العزيزبن عبد السلام (8/ 237).
46 = وقال الشيخ عبد العزيز بن عبد السلام الأشعري الملقب بسلطان العلماء (660 ص) ما نصه "ليسء أي اللهء بجسم مصوَّر، ولا جوهر محدود مُقدَّر، ولا يشبه شيئا، ولا يُشبهه شىءٌ، ولا تحيط به الجهات، ولا تكتنفه الأرضون ولا السموات، كان قبل أن كوَّن المكان ودبَّر الزمان، وهو الآن على ما عليه كان" ا.هـ
طبقات الشافعية الكبرى: ترجمة عبد العزيز بن عبد السلام (8/ 219).
47 = وقال المفسّر محمد بن أحمد الأنصاري القرطبي المالكي (671 هـ) ما نصه "والعليّ " يراد به علو القدر والمنزلة لا علو المكان، لأن الله منزه عن التحيز"
الجامع لأحكام القرأن سورة البقرة، أية/ 55 2 (3/ 278).
48 = وقال ابو الحافظ أبو زكريا محيي الدين بن شرف النووي الشافعي الأشعري (676) ما نصه إن الله تعالى ليس كمثله شىء ، منزه عن التجسيم والانتقال والتحيز في جهة وعن سائر صفات المخلوق "اهـ
شرح صحيح مسلم (19/3).
49 = وقال الحافظ ابن حجر العسقلاني الشافعي الأشعري (852 هـ) ما نصه "ولا يلزم من كون جهتي العلو والسفل محالا على الله أن لا يوصف بالعلو، لأن وصفه بالعلو من جهة المعنى، والمستحيل كون ذلك من جهة الحس، ولذلك ورد في صفته العالي والعلي والمتعالي، ولم يرد ضد ذلك وإن كان قد أحاط بكل شىء علما جلّ وعز"اهـ
فتح الباري (3/ 30).
50 = وقال الشيخ بدر الدين محمود بن أحمد العَيْني الحنفي (855 هـ) في شرحه على صحيح البخاري ما نصه "ولا يدل قوله تعالى :" وكان عرشه على الماء " على، أنهء تعالىء حالّ عليه، وإنما أخبر عن العرش خاصة بأنه على الماء، ولم يخبر عن نفسه بأنه حال عليه، تعالى الله عن ذلك، لأنه لم يكن له حاجة إليه " ا.هـ.
عمدة القاري (مجلد 12/ 25/ 111).
کبارائمہ اسلام محدثین ومفسرین وفقهاء ومحققین وسلف صالحین کے ( 50 ) پچاس
اقوال میں نے باحوالہ ان کی اصل عبارات میں ذکرکیئے هیں ، باقی اقوال بخوف طوالت میں نے ذکرنہیں کیئے ، ان سب ائمہ اسلام کا اجماعی فیصلہ یہ هے کہ الله تعالی " مـكـان وجــِـهـَــة " سے اور دیگرمخلوقات کی صفات ومشابهت سے پاک ومُبَرا ومُنزه وبلند وبرتر هے اوریہی جمیع اهل سنت سلف وخلف کا عقیده هے ، اور یہی عقیده اکابرعلماء دیوبند کی اجماعی کتاب
ألمُهند على المُفند ) میں لکها هے ، جس کو طالب الرحمن نامی جاهل ومجهول آدمی کفریہ شرکیہ عقیده کہتا هے ،
کیا اس جاهل ومجهول آدمی کی اس بکواس کی زد میں یہ سارے کبارائمہ اسلام نہیں آئیں گے ؟؟
کیا سارے کبارائمہ اسلام وسلف صالحین کفریہ شرکیہ عقیده رکهتے تهے ؟؟
(معاذالله)
کیا کوئ عقل مند آدمی اس کے بعد بهی اس جاهل ومجهول آدمی کی بات کا اعتبار کرے گا اوراس کی اندهی تقلید میں سرگرداں رهے گا ؟؟
الله تعالی عوام الناس کو صحیح سمجهہ دے اوراس جاهل وکذاب شخص کی حقیقت ان پرکهول دے ۰
( إن أريد إلا الإصلاح ما استطعت وماتوفيقي إلابالله
السلام و علیکم و رحمت الله -

محدثین و آئمہ کرام کے ان تمام اقوال و آراء مَـكــان وَجـِـهـَـة سے پاک ومُنزه ومُبَرَّا هے ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کا علم محدود نہیں بلکہ وہ اپنے علم کی بنیاد پر جگہ موجود ہے - اگر اس مراد الله مَـكــان وَجـِـهـَـة سے پاک اس کا جسم لیا جائے تو کیا وہ نعوز باللہ غسل خانوں ، قحبہ خانوں اور دنیا کی گندی ترین جگہوں پر بھی موجود ہے ؟؟؟ اور اس بڑھ کر کے کیا وہ انسان و جانوروں کے جسموں کے اندر بھی موجود و حلول کرتا ہے- جیسا کہ زندیق حسین بن منصور حلاج کا عقیدہ تھا - اور جس عقیدے کی بنیاد پر پر اہل دیوبند وحدت الوجود کے عقیدے کا اثبات کرتے ہیں -؎

اور پھر اس آیت کا آپ کے نزدیک یا جن اہل علم کے اقوال آپ نے پیش کیے کیا مطلب نکلتا ہے؟؟؟ کہ

اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِي الْاَرْضِ١ؕ مَا يَكُوْنُ مِنْ نَّجْوٰى ثَلٰثَةٍ اِلَّا هُوَ رَابِعُهُمْ وَ لَا خَمْسَةٍ اِلَّا هُوَ سَادِسُهُمْ وَ لَاۤ اَدْنٰى مِنْ ذٰلِكَ وَ لَاۤ اَكْثَرَ اِلَّا هُوَ مَعَهُمْ اَيْنَ مَا كَانُوْا١ۚ

کیا تم کو خبر نہیں ہے کہ زمین اور آسمان کی ہر چیز کا اللہ کو علم ہے؟ کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ تین آدمیوں میں کوئی سرگوشی کرتا ہو اور ان کے درمیان چوتھا اللہ نہ ہو یا پانچ آدمیوں میں سرگوشی ہو اور ان کے اندر چھٹا اللہ نہ ہو۔ خفیہ بات کرنے والے خواہ اس سے کم ہوں یا زیادہ ، جہاں کہیں بھی وہ ہوں اللہ ان کے ساتھ ہوتا ہے۔

کیا زمان مکان سے مبرا اپنے جسم کا ساتھ وہ دنیا میں انسانوں کے ساتھ موجود ہے ؟؟؟
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
کون کہتا ہے کہ اللہ ہرجگہ موجود ہے​
یہ عقیدہ انتہائی فاسد ومردود ہے​
یہ عقیدہ بے شمار آیات وسنت کے خلاف​
اس عقیدہ سے صحابہ اور سلف کو اختلاف​
رب نے فرمایا ہے: الرحمن علی العرش استوی​
استوی کا معنی ہے : اوپر ہوا، اونچا ہوا​
یہ عقیدہ پاک ہے تکییف سے، تشبیہ سے​
ہرطرح کی ناروا تاویل سے، تعطیل سے​
میرا رب اوپر ہے، اس کے ہیں دلائل بے شمار​
فطرت انساں کو یہ تسلیم ہے بے اختیار​
میرا رب ہے العلی، اعلی بھی، المتعال بھی​
اس کو حاصل فوقیت ہے اور علو کا کمال بھی​
ہے علو شان وقہر وذات سب حاصل اسے​
عظمت بے انتہا اور رفعت کا مل اسے !!​







 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top