• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الوہیت کا مدار کس چیز پر ہےِِ؟؟؟

شمولیت
ستمبر 13، 2014
پیغامات
28
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
32
دعا کسے کہتے ہیں بریلوی مکتب فکر کی مشہور لغت میں ایسے موجود ہے ۔ دیکھ لیجئے
 

اٹیچمنٹس

شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
676
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
دیکھیں قرآن میں ہے کہ اے ایمان والوں اللہ کے نبی کو ایسے مت پکارو جیسے ایک دوسرے کو پکارتے ہو۔اگر ہر دعا عبادت ہے تو کیا یہاں دعا کا ترجمہ عبادت ہو گا۔اور یہ اصول میہرے ناقص علم کے مطابق ہر جگہ اپلائی ہوگا
 

ابو امامہ

مبتدی
شمولیت
جون 04، 2015
پیغامات
6
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
3
ہمارے نزدیک خالی عقیدہ یا دلی نظریہ ہی شرک نہیں ہوتا بلکہ قول اور عمل بھی شرکیہ ہوتا ہے بلکہ ہمارے نزدیک عقیدہ کی پہچان ممکن ہی قول اور عمل سے ہے کیونکہ کسی کی دلی بات کو تو جانا نہیں جا سکتا صرف قول اور عمل سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اسکا دلی عقیدہ کیا یے یا وہ کس کو کیا مانتا ہے [
اسلام علیکم بھائی آپ نے اپنی بات کی دلیل کوئی نہیں دی ؟؟؟ یعنی جو اصول آپ نے بیان فرمایا ہے اسکی دلیل کیا ہے ؟؟؟ پہلے اپنے اصول کی دلیل دیں پھر باقی سوالات مجھے بھی آپ سے کرنے ہیں امید ہے برا نہیں منائیں گے اور جواب دیں گے ۔والسلام
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
اسلام علیکم بھائی آپ نے اپنی بات کی دلیل کوئی نہیں دی ؟؟؟ یعنی جو اصول آپ نے بیان فرمایا ہے اسکی دلیل کیا ہے ؟؟؟ پہلے اپنے اصول کی دلیل دیں پھر باقی سوالات مجھے بھی آپ سے کرنے ہیں امید ہے برا نہیں منائیں گے اور جواب دیں گے ۔والسلام
پیارے بھائی تمام فرقوں کے ہاں ایمان تین چیزوں میں سے کچھ کا مجموعہ ہو سکتا ہے وہ تین چیزیں تصدیق بالقلب، اقرار باللسان اور عمل بالجوارح ہیں
میں نے اوپر کہا ہے کہ ہمارے نزدیک یعنی اہل حدیث کے نزدیک ایمان میں تصدیق بالقلب کے ساتھ قول اور عمل بھی داخل ہے البتہ اہل حدیث کے علاوہ باقی فرقے بھی ہیں جو ان تینوں چیزوں کو اکٹھا ایمان میں داخل نہیں سمجھتے میری معلومات کے مطابق وہ فرقے مندرجہ ذیل نظریے رکھتے ہیں
۱۔ غالی جہمی : یہ وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ ایمان صرف معرفت کا نام ہے ۔ یہ قول ہمارے نزدیک قبیح ترین قسم ہے , کیونکہ ابلیس , فرعون , نمرود وغیرہ سب کو معرفت الہی حاصل تھی
۲۔ اشاعرہ یا ماتریدیہ : یہ کہتے ہیں کہ ایمان صرف تصدیق بالقلب کا نام ہے ۔ اور یہ قول بھی ہمارے نزدیک باطل ہے کیونکہ اہل کتاب دلی طور پر رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت کو مانتے تھے " یعرفونہ کما یعرفون أبنائہم "
۳۔ کرامیہ : یہ کہتے ہیں کہ ایمان صرف نطق باللسان کا نام ہے , خواہ دلی تصدیق ہو یا نہ ہو اور اعمال ہوں یا نہ ہوں۔ ہمارے ہاں یہ قول بھی باطل ہے , کیونکہ تمام تر منافقین زبانی اقرار کرتے تھے سورۃ المنافقون اس پر شاہد ہے
۴۔ مرجیۃ الفقہاء: کہتے ہیں کہ ایمان اقرار باللسان اور تصدیق بالقلب کا نام ہے , اس میں اعمال کو دخل نہیں ہے ۔ ہمارے ہاں یہ بھی غلط بات ہے کیونکہ کچھ اعمال ایسے ہیں کہ ان کی وجہ سے سلف صالحین نے بھی ایمان کی نفی کی ہے اور ہمارے دور میں بھی کی جاتی ہے مثلا گستاخ رسول وغیرہ کا قول معتبر نہیں بلکہ اسکا گستاخی کرنے کا عمل ہی اسکو اسلام سے نکال دیتا ہے

پیارے بھائی جس پوسٹ پر آپ نے دلیل نہ ہونے کا اعتراض کیا ہے اس میں میں نے دو باتیں کی ہوئی ہیں اب مجھے یہ نہیں سمجھ آ رہی کہ آپ نے ان دو میں سے کون سی بات پر اعتراض کیا ہے یا پھر دونوں باتوں پر یہ اعتراض کیا ہے کہ انکی دلیل نہیں ہے
میں وہ دونوں باتیں لکھتا ہوں اور دونوں کی دلیل کے بارے اپنا موقف لکھ دیتا ہوں اگر کوئی اشکال رہ جائے تو آپ بتا دیں
1-ہمارے نزدیک عمل اور قول سے بھی شرک و کفر ہو سکتا ہے کیونکہ ہمارے نزدیک ایمان میں قول اور عمل بھی داخل ہے اسکے بارے دلیل اس لئے نہیں لکھی تھی کہ یہ میں نے اپنا موقف بتایا تھا اور ان سے انکا موقف اس سلسلے میں پوچھا تھا تاکہ اگر انکا ہمارے موقف سے اختلاف ہو تو پھر میں دلائل سے بات کروں مگر قادری رانا صاحب نے غالبا اختلاف ہی نہیں کیا تھا ابھی آپ کے کہنے پر اوپر چار قسمیں لکھی ہیں اور انکا موقف غلط ہونے کی دلیل لکھی ہے آپ اپنا موقف بتا دیں کہ ان چار قسموں میں سے ہے یا اہل حدیث والا موقف ہے تو مزید بات ہو جائے گی
2-دوسری بات میں نے یہ لکھی تھی کہ ہمیں چونکہ ظاہر کا مکلف بنایا گیا ہے پس ہمارے اہل حدیث کے نزدیک تو کسی سامنے والے کے مسلمان یا کافر ہونے کا پتا ہی اسکے قول اور عمل سے چل سکتا ہے اسکے دل کے معاملے کے تو ہم مکلف ہی نہیں جیسا کہ مختلف احادیث میں آتا ہے مثلا اسامہ رضی اللہ عنہ کو کہنا کہ کیا تم نے اسکا دل چیز کے دیکھ لیا تھا وغیرہ-اب اسکی دلیل تو اسی جملے میں موجود تھی اور یہ دلیل عقلی تھی اور نقلی کی ضرورت ہی نہیں تھی البتہ اب نقلی بھی لکھ دی ہے اسی لئے تو یہ ایک فقہی قائدہ بھی لیا جاتا ہے کہ لنا الحکم علی الظاہر وربنا یتولی السرائر واللہ اعلم

نوٹ: یہ بھی بتاتا چلوں کہ مجھے اعتراض کرنے والے برے نہیں بلکہ اچھے لگتے ہیں البتہ جب تک وہ اس اعتراض پر میری وضاحت کو بھی دیکھتے رہیں اور میری اصلاح یا پنی اصلاح کرتے رہیں آپ کو جو اشکال ہو وہ بلا جھجک بتائیں میں اپنی فرصت میں اس پر اپنی رائے دینے کی کوشش کروں گا
 

ابو امامہ

مبتدی
شمولیت
جون 04، 2015
پیغامات
6
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
3
پیارے بھائی تمام فرقوں کے ہاں ایمان تین چیزوں میں سے کچھ کا مجموعہ ہو سکتا ہے وہ تین چیزیں تصدیق بالقلب، اقرار باللسان اور عمل بالجوارح ہیں

۲۔ اشاعرہ یا ماتریدیہ : یہ کہتے ہیں کہ ایمان صرف تصدیق بالقلب کا نام ہے ۔ اور یہ قول بھی ہمارے نزدیک باطل ہے کیونکہ اہل کتاب دلی طور پر رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت کو مانتے تھے " یعرفونہ کما یعرفون أبنائہم "


پیارے بھائی جس پوسٹ پر آپ نے دلیل نہ ہونے کا اعتراض کیا ہے اس میں میں نے دو باتیں کی ہوئی ہیں اب مجھے یہ نہیں سمجھ آ رہی کہ آپ نے ان دو میں سے کون سی بات پر اعتراض کیا ہے یا پھر دونوں باتوں پر یہ اعتراض کیا ہے کہ انکی دلیل نہیں ہے
میں وہ دونوں باتیں لکھتا ہوں اور دونوں کی دلیل کے بارے اپنا موقف لکھ دیتا ہوں اگر کوئی اشکال رہ جائے تو آپ بتا دیں
1-ہمارے نزدیک عمل اور قول سے بھی شرک و کفر ہو سکتا ہے کیونکہ ہمارے نزدیک ایمان میں قول اور عمل بھی داخل ہے اسکے بارے دلیل اس لئے نہیں لکھی تھی کہ یہ میں نے اپنا موقف بتایا تھا
2-دوسری بات میں نے یہ لکھی تھی کہ ہمیں چونکہ ظاہر کا مکلف بنایا گیا ہے پس ہمارے اہل حدیث کے نزدیک تو کسی سامنے والے کے مسلمان یا کافر ہونے کا پتا ہی اسکے قول اور عمل سے چل سکتا ہے اسکے دل کے معاملے کے تو ہم مکلف ہی نہیں جیسا کہ مختلف احادیث میں آتا ہے مثلا اسامہ رضی اللہ عنہ کو کہنا کہ کیا تم نے اسکا دل چیز کے دیکھ لیا تھا وغیرہ-اب اسکی دلیل تو اسی جملے میں موجود تھی اور یہ دلیل عقلی تھی اور نقلی کی ضرورت ہی نہیں تھی البتہ اب نقلی بھی لکھ دی ہے اسی لئے تو یہ ایک فقہی قائدہ بھی لیا جاتا ہے کہ لنا الحکم علی الظاہر وربنا یتولی السرائر واللہ اعلم
اسلام علیکم برادرم !
سب سے پہلے تو داعی کو سلام کرنا چاہیے کیونکہ یہ عمل صالح ہے اور(داعی کے مؤقف کہ مطابق حقیقت ایمان میں داخل ہونے کی وجہ سے بذات خود) ایمان ہے اور مرتبہ اسکا سنت ہے جبکہ اس سے بھی بڑھ کرجو کوئی پہلے سلام کرئے اسکے سلام کا جواب دینا چاہیے کیونکہ یہ "سنت واجبہ "ہے خاص طور پر ایسا داعی کہ جس نے اپنے سگنیچر میں بھی احسن طریق جدل کی اہمیت پر زور دیا گیاہو، خیر جملہ معترضہ ایک طرف ، بات چھیڑی دی آپ نے ایمان اور تعریف ایمان اور حقیقت ایمان کی جبکہ ایک تو یہ ہمارا براہ راست موضوع نہ تھا ثانیا یہ موضوع خاصی طوالت کا متقاضی ہے اور اس میں کافی تفصیل ہے اصولین متکلمین فقہاء اور محدثین کے کافی اقوالات ہیں جنکا بنظر غائر اگر جائزہ لیں تو زیادہ تر نزاع صوری و لفظی معلوم ہوتا ہے لہذا اس بحث کی تفصیل میں جانا نہ یہاں مناسب ہوگا اور نہ ہی ضرروی۔
میرا سوال آپ سے فقط آپ کے مؤقف یعنی دعوٰی کے مطابق دلیل کا جاننا تھا یعنی آپ کا جو یہ دعوٰی تھا کہ ۔۔" ہمارے نزدیک عمل اور قول سے بھی شرک و کفر ہو سکتا ہے" کی دلیل قرآن اور حدیث سے ؟؟؟یعنی محض عمل اور قول سے کس طرح سے شرک کا وقوع ہوسکتا ہے پہلے فقط آپ اسکی دلیل دیں پھر جو دلیل آپ عنائت فرمائیں گے اسکی تفصیل میں کلام اسکے بعد ہوگا ۔۔والسلام
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
اسلام علیکم برادرم !
سب سے پہلے تو داعی کو سلام کرنا چاہیے کیونکہ یہ عمل صالح ہے اور(داعی کے مؤقف کہ مطابق حقیقت ایمان میں داخل ہونے کی وجہ سے بذات خود) ایمان ہے اور مرتبہ اسکا سنت ہے جبکہ اس سے بھی بڑھ کرجو کوئی پہلے سلام کرئے اسکے سلام کا جواب دینا چاہیے کیونکہ یہ "سنت واجبہ "ہے خاص طور پر ایسا داعی کہ جس نے اپنے سگنیچر میں بھی احسن طریق جدل کی اہمیت پر زور دیا گیاہو،
پیارے بھائی ولیکم السلام ورحمہ اللہ انتہائی معذرت واللہ میں نے آپ کے سلام کی طرف توجہ نہیں دی ورنہ جواب دیتا
بات چھیڑی دی آپ نے ایمان اور تعریف ایمان اور حقیقت ایمان کی جبکہ ایک تو یہ ہمارا براہ راست موضوع نہ تھا ثانیا یہ موضوع خاصی طوالت کا متقاضی ہے اور اس میں کافی تفصیل ہے اصولین متکلمین فقہاء اور محدثین کے کافی اقوالات ہیں جنکا بنظر غائر اگر جائزہ لیں تو زیادہ تر نزاع صوری و لفظی معلوم ہوتا ہے لہذا اس بحث کی تفصیل میں جانا نہ یہاں مناسب ہوگا اور نہ ہی ضرروی۔
بھائی میں نے اوپر یہ بتایا تھا کہ مجھے آپ کا اعتراض سمجھ نہیں آ سکا کہ آپ دلیل کس چیز کی مانگ رہے ہیں کیونکہ آپ نے میری دو باتوں کا اقتباس لے کر کہا تھا کہ اسکی دلیل کیا ہے تو میں نے اس لئے کہا کہ اگر آپ اس بات کی دلیل مانگ رہے ہیں کہ ایمان میں عمل اور قول بھی شامل ہوتا ہے کہ نہیں تو اسکی دلیل دی تھی

میرا سوال آپ سے فقط آپ کے مؤقف یعنی دعوٰی کے مطابق دلیل کا جاننا تھا یعنی آپ کا جو یہ دعوٰی تھا کہ ۔۔" ہمارے نزدیک عمل اور قول سے بھی شرک و کفر ہو سکتا ہے" کی دلیل قرآن اور حدیث سے ؟؟؟یعنی محض عمل اور قول سے کس طرح سے شرک کا وقوع ہوسکتا ہے پہلے فقط آپ اسکی دلیل دیں پھر جو دلیل آپ عنائت فرمائیں گے اسکی تفصیل میں کلام اسکے بعد ہوگا ۔۔والسلام
پیارے بھائی جو میں نے اوپر بات لکھی ہے اور جو آپ نے یہاں سوال کیا ہے وہ ایک ہی چیز ہے یعنی چاہے کان کو ادھر سے پکڑیں یا ہاتھ گمھا کر ادھر سے پکڑیں
وہ ایسے کہ اوپر کہا گیا ہے کہ ایمان میں دل کی تصدیق کے ساتھ قول اور عمل بھی شامل ہے یعنی قول و عمل سے بھی ایمان ٹوٹ سکتا ہے پس عمل سے یا قول سے بھی ایمان ٹوٹ سکتا ہے تو وہ کون سا عمل یا قول ہو گا جس سے ایمان ٹوٹ سکتا ہے اس میں بہت سے اقوال اور اعمال آتے ہیں اور ان میں شرکیہ اقوال اور اعمال بھی آتے ہیں پس وہ ثابت ہوا کہ قول اور عمل سے بھی شرک ہوتا ہے
بلکہ میں نے تو یہ بھی کہا ہے کہ ہمیں کسی کے شرک کا پتا تو صرف اسکے قول اور عمل سے ہی چل سکتا ہے اور اسکو ہر مسلمان بھی عقلا مانے گا کہ کسی کے شرک کرنے کا دوسرے مسلمان کو پتا صرف اسکے قول اور عمل سے ہی چل سکتا ہے ورنہ کسی کے دل سے شرک کرنے کا پتا تو کسی پہنچے ہوئے ولی کو ہی ہو سکتا ہے جو اللہ کی طرح لوگوں کے دلوں کے راز جانتا ہو اور وہ ولی سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ سے بھی بڑا ولی ہو کہ جسکو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا تھا کہ کیا تم نے اس مقتول کا دل چیر کے دیکھ لیا تھا

دلیل کا تقاضا:
میرے نزدیک اوپر کی گئی بات پر دلیل کا تقاضا کرنا ہی درست نہیں اس سلسلے میں ویسے تو اوپر میری کی گئی وضاحت سے بھی پتا چل سکتا ہے لیکن میں مزید وضاحت کے لئے ایک مثال بتاتا ہوں کہ کوئی کہے کہ اسکی دلیل قرآن سے دو کہ جب سورج چاند سے بڑا ہے یا سورج روشنی دیتا ہے وغیرہ وغیرہ کیونکہ اس سلسلے میں دلیل کی ضورت نہیں ہوتی یہ فطری باتیں ہوتی ہیں پس یہ بھی فطری بات ہے کہ کسی کے شرک کا پتا اسکے قول اور عمل سے ہی چل سکتا ہے

دلیل:
اسکے باوجود میں قرآن سے اور احادیث سے قولی اور فعلی شرک کی کثیر تعدار میں دلائل دے سکتا ہوں جیسا کہ ایک تو اوپر @قادری رانا نے قولی شرک کی دلیل دی ہوئی ہے
ویسے آپ میرا مندرجہ ذیل تھریڈ بھی دیکھ سکتے ہیں جس میں غالبا آخری پوسٹ میں مشرکین مکہ کے شرک کرنے کی مثالیں بتائی گئی ہیں جو قولی اور فعلی ہیں
مخلص بریلوی کے لئے حقائق
نوٹ: ویسے مجھے سب سے پہلے آپ سے یہ پوچھنا ہے کہ ایمان کے بارے آپ کا نظریہ کیا ہے اور شرک کے بارے کیا ہے تاکہ اس لحاظ سے جواب دیا جا سکے
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
دیکھیں قرآن میں ہے کہ اے ایمان والوں اللہ کے نبی کو ایسے مت پکارو جیسے ایک دوسرے کو پکارتے ہو۔اگر ہر دعا عبادت ہے تو کیا یہاں دعا کا ترجمہ عبادت ہو گا۔اور یہ اصول میہرے ناقص علم کے مطابق ہر جگہ اپلائی ہوگا
رانا صاحب میں نے جو سوال پوسٹ نمبر 38 میں کیا تھا اور پھر غالبا 40 نمبر پوسٹ میں اسکو دہرایا تھا اسکا جواب نہیں مل رہا تاکہ ہماری بات آگے چل سکے
وہ سوال یہاں دوبارہ دہرا دیتا ہوں وہ ایسے تھا کہ میں نے کہا تھا کہ عبادت میں نماز روزہ حج دعا وغیرہ شامل ہے یہ غیراللہ کے لئے نہیں کرنی چاہئے تو آپ نے کہا تھا کہ ایک دعا غیر اللہ کو الہ مان کر ہوتی ہے اور ایک دعا غیراللہ کو الہ مانے بغیر ہوتی ہے جو الہ مانے بغیر دعا ہوتی ہے وہ عبادت نہیں ہوتی اس پر میں نے پوچھا تھا کہ
1- یہ اصول آپ نے کہاں سے نکالا
2-اور کیا اس اصول کے مطابق اگر غیر اللہ کی نماز بھی اسکو الہ مانے بغیر پڑھ لی جائے اور اسکا روزہ اور حج بھی الہ مانے بغیر کر لیا جائے تو پھر وہ بھی کیا عبادت نہیں ہو گی اور شرک نہیں ہو گا

مگر ابھی تک جواب نہیں آیا کیا آپ پیپروں سے فارغ ہو گئے ہیں جب فرصت ملے تو بتا دیجیئے گا شکریہ
 

ابو امامہ

مبتدی
شمولیت
جون 04، 2015
پیغامات
6
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
3
پیارے بھائی جو میں نے اوپر بات لکھی ہے اور جو آپ نے یہاں سوال کیا ہے وہ ایک ہی چیز ہے یعنی چاہے کان کو ادھر سے پکڑیں یا ہاتھ گمھا کر ادھر سے پکڑیں

وہ ایسے کہ اوپر کہا گیا ہے کہ ایمان میں دل کی تصدیق کے ساتھ قول اور عمل بھی شامل ہے یعنی قول و عمل سے بھی ایمان ٹوٹ سکتا ہے پس عمل سے یا قول سے بھی ایمان ٹوٹ سکتا ہے تو وہ کون سا عمل یا قول ہو گا جس سے ایمان ٹوٹ سکتا ہے اس میں بہت سے اقوال اور اعمال آتے ہیں اور ان میں شرکیہ اقوال اور اعمال بھی آتے ہیں پس وہ ثابت ہوا کہ قول اور عمل سے بھی شرک ہوتا ہے
بلکہ میں نے تو یہ بھی کہا ہے کہ ہمیں کسی کے شرک کا پتا تو صرف اسکے قول اور عمل سے ہی چل سکتا ہے اور اسکو ہر مسلمان بھی عقلا مانے گا کہ کسی کے شرک کرنے کا دوسرے مسلمان کو پتا صرف اسکے قول اور عمل سے ہی چل سکتا ہے ورنہ کسی کے دل سے شرک کرنے کا پتا تو کسی پہنچے ہوئے ولی کو ہی ہو سکتا ہے جو اللہ کی طرح لوگوں کے دلوں کے راز جانتا ہو اور وہ ولی سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ سے بھی بڑا ولی ہو کہ جسکو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا تھا کہ کیا تم نے اس مقتول کا دل چیر کے دیکھ لیا تھا

نوٹ: ویسے مجھے سب سے پہلے آپ سے یہ پوچھنا ہے کہ ایمان کے بارے آپ کا نظریہ کیا ہے اور شرک کے بارے کیا ہے تاکہ اس لحاظ سے جواب دیا جا سکے
اسلام علیکم بھائی!
لگتا ہے آپکو میری بات سمجھ میں نہیں آرہی یا پھر میں اتنا نالائق ہوں کہ سمجھا نہیں پا رہا خیر چلیئے بات کو اور آسان کرتے ہیں آپ نے قادری رانا بھائی سے بات کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ۔۔۔"ہمارے نزدیک خالی عقیدہ یا دلی نظریہ ہی شرک نہیں ہوتا بلکہ قول اور عمل بھی شرکیہ ہوتا ہے"
اوپر آپ کی خط کشیدہ عبارت خاصی غور اور وضاحت طلب ہے ۔ اولا آپ نے عقیدہ اور دلی نظریہ کو مترادف ٹھرایا جس سے ظاہر ہوتا ہے آپ کے نزدیک بھی عقیدہ اصلا دل ہی کا معاملہ ہے لیکن پھر ساتھ ہی عقیدہ کے لفظ سے پہلے لفظ "خالی " کا سابقہ لگا کر آخر میں اسی لفظ " خالی" کو "قول اور عمل " کے لاحقے ساتھ جاکر معنوی طور پر ملا دیا ہے جس کی وجہ سے آپکی ساری عبات ایک عجیب قسم کا "مرکب معجون" بن کر رہ گئی ہے۔ کہ جس میں اولا عقیدہ کو دلی نظریہ کہہ کر اسکی حقیقت کا اصلا باطن سے ہونا تسلیم کیا گیا اور پھر جھٹ سے ایک ہی عبارت میں عقیدہ جیسی اہم شئے کو بغیر دل کی تحقیق کے محض افعال و اقوال کے ظاہریت پر بنا کرتے ہوئے ایک الگ اکائی بطور پیش کیا گیا فیا للعجب ؟؟؟؟میرے بھائی سب سے پہلے آپ یہ فرمادیں کہ آپکے نزدیک عقیدہ آخرکہتے کسے ہیں ؟؟؟اور اسکا تحقق بطریق کامل کس طرح سے ہوسکتا ہےآیا عقیدہ فقط دلی نظریہ ہے کہ جسکا تعلق انسان کے باطن سے ہے جو سوائے قائل کی اپنی نیت و ارادہ کی وضاحت کے بغیرقابل قبول نہیں یا پھر عقیدہ کا تعلق محض انسان کے افعال و اقوال اور ظاہری اعمال سے ہے کہ محض انھے دیکھ کر ہی اسکا تحقق باآسانی کیا جاسکتا ہے فاعل سےکچھ بھی پوچھنے کی حاجت ہرگزنہیں یا پھر عقیدہ کا تعلق انسان کے باطن و ظاہر یعنی دلی نظریات قول و فعل اور ظاہری اعمال ہر سہ اشیاء سے یکساں طور پرہے لہذا اس کا تحقق ان تینوں اشیاء کی یکساں موافقت سے ہی ہوگا؟؟؟یا پھر عقیدہ کا تعلق اصلا باطن سے ہے جبکہ انسان کے قول و فعل سے اسکا تحقق خود قائل کی نیت و ارادہ کے تحقق کی رہین منت ہوگا؟؟؟؟
آخر میں آپکے سوال کا جواب یہ ہے کہ میرے نزدیک ایمان دل کی تصدیق اور زبان سے اقرار کا نام ہے کہ جس میں حقیقت ایمان یعنی نفس ایمان کا تعلق دل سے ہے جبکہ اقرار لسانی کا تعلق شریعت اسلامیہ کے اجراء کے لیے بطور شرط جبکہ عمل بالجوارع کا تعلق کامل مرتبہ ایمان کے حصول کے لیے بطور شرط ہے جبکہ ایمان میں کمی و زیادتی کا تعلق بھی اسی کامل مرتبہ ایمان کے ساتھ خاص ہے نہ کہ" اصل ایمان" یعنی نفس ایمان کے ساتھ ۔۔۔۔۔۔۔
امید کرتا ہوں اب بات سمجھ میں آگئی ہوگئی لہذا میرے اب تک کہ تمام سوالات کے جوابات مجھے اب باآسانی مل جائیں گے والسلام
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
لگتا ہے آپکو میری بات سمجھ میں نہیں آرہی یا پھر میں اتنا نالائق ہوں کہ سمجھا نہیں پا رہا خیر چلیئے بات کو اور آسان کرتے ہیں آپ نے قادری رانا بھائی سے بات کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ۔۔۔"ہمارے نزدیک خالی عقیدہ یا دلی نظریہ ہی شرک نہیں ہوتا بلکہ قول اور عمل بھی شرکیہ ہوتا ہے"
اوپر آپ کی خط کشیدہ عبارت خاصی غور اور وضاحت طلب ہے ۔ اولا آپ نے عقیدہ اور دلی نظریہ کو مترادف ٹھرایا جس سے ظاہر ہوتا ہے آپ کے نزدیک بھی عقیدہ اصلا دل ہی کا معاملہ ہے لیکن پھر ساتھ ہی عقیدہ کے لفظ سے پہلے لفظ "خالی " کا سابقہ لگا کر آخر میں اسی لفظ " خالی" کو "قول اور عمل " کے لاحقے ساتھ جاکر معنوی طور پر ملا دیا ہے جس کی وجہ سے آپکی ساری عبات ایک عجیب قسم کا "مرکب معجون" بن کر رہ گئی ہے۔ کہ جس میں اولا عقیدہ کو دلی نظریہ کہہ کر اسکی حقیقت کا اصلا باطن سے ہونا تسلیم کیا گیا اور پھر جھٹ سے ایک ہی عبارت میں عقیدہ جیسی اہم شئے کو بغیر دل کی تحقیق کے محض افعال و اقوال کے ظاہریت پر بنا کرتے ہوئے ایک الگ اکائی بطور پیش کیا گیا فیا للعجب ؟؟؟؟میرے بھائی سب سے پہلے آپ یہ فرمادیں کہ آپکے نزدیک عقیدہ آخرکہتے کسے ہیں ؟؟؟اور اسکا تحقق بطریق کامل کس طرح سے ہوسکتا ہےآیا عقیدہ فقط دلی نظریہ ہے کہ جسکا تعلق انسان کے باطن سے ہے جو سوائے قائل کی اپنی نیت و ارادہ کی وضاحت کے بغیرقابل قبول نہیں یا پھر عقیدہ کا تعلق محض انسان کے افعال و اقوال اور ظاہری اعمال سے ہے کہ محض انھے دیکھ کر ہی اسکا تحقق باآسانی کیا جاسکتا ہے فاعل سےکچھ بھی پوچھنے کی حاجت ہرگزنہیں یا پھر عقیدہ کا تعلق انسان کے باطن و ظاہر یعنی دلی نظریات قول و فعل اور ظاہری اعمال ہر سہ اشیاء سے یکساں طور پرہے لہذا اس کا تحقق ان تینوں اشیاء کی یکساں موافقت سے ہی ہوگا؟؟؟یا پھر عقیدہ کا تعلق اصلا باطن سے ہے جبکہ انسان کے قول و فعل سے اسکا تحقق خود قائل کی نیت و ارادہ کے تحقق کی رہین منت ہوگا؟؟؟؟
بقول غالب
ابن مریم ہوا کرے کوئی
میرے درد کی دوا کرے کوئی

میری تمام بھائیوں سے التماس ہے کہ میں اپنی بات آپ بھائیوں کے سامنے رکھ دیتا ہوں جس کو بھی مجھ سے بہتر سمجھانے کا طریقہ آتا ہے وہ ذرا ابو امامہ صاحب کو یہ سمجھا دے کہ میں نے اوپر کیا کہا ہوا ہے اور وہ اسکو کیا سمجھ رہے ہیں
وہ سمجھ رہے ہیں کہ میرے نزدیک عقیدہ دل سے بھی ہوتا ہے اور عقیدہ قول سے بھی ہوتا ہے اور عقیدہ عمل سے بھی ہوتا ہے حالانکہ اس پر میرا کوئی ایک جملہ بھی موجود نہیں کہ میں نے ایسا کہا ہو
الٹا میرا ایمان کو تین چیزوں کا مجموعہ کہنا اتنی بڑی دلیل ہے کہ وہ کسی کو نظر نہ آئے تو ایسے ہے جیسے کڑی دھوپ میں سورج کا نظر نہ آنا یعنی جب میں ایمان کے بارے اپنی جماعت کا نظریہ یہ بتا رہا ہوں کہ ہمارے ہاں ایمان دل سے تصدیق یعنی عقیدہ پر بھی مشتمل ہوتا ہے اور ساتھ ساتھ ایمان قول سے بھی ہوتا ہے اور فعل سے بھی ہوتا ہے تو میں دل سے تصدیق یا عقیدہ کو قول اور فعل کیسے کہ سکتا ہوں میری کوئی ایسی عبارت تو دکھا دیں جس میں یہ لکھا ہو

ابو امامہ صاحب نے جو میری عبارت دکھائی ہے اسکو پڑھ کر اس سے جو تنیجہ اخذ کیا گیا ہے واللہ میرا دل کرتا ہے کہ اگر سمجھ کا یہ معیار ہے تو مزید بات کرنے کا کیا فائدہ
باقی بھائیوں کے لئے میں اپنی وہ عبارت دوبارہ نقل کرتا ہوں جو اوپر ہائیلائٹ کی ہے اور جس سے انہوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے
"ہمارے نزدیک خالی عقیدہ یا دلی نظریہ ہی شرک نہیں ہوتا بلکہ قول اور عمل بھی شرکیہ ہوتا ہے"
ایک عامی بھی جس نے میری ایمان کی تین چیزوں میں تقسیم اوپر پڑھی ہو (یعنی دل کی تصدیق، قول اور عمل) تو وہ سمجھ جائے گا کہ میں عقیدہ کو دل کی تصدیق کے ہم معنی لے رہا ہوں اور قول اور عمل کو علیحدہ چیز کے طور پر متعارف کروا رہا ہوں تبھی تو کہ رہا ہوں کہ ایمان خالی عقیدہ کا نام نہیں بلکہ عمل اور قول بھی اس میں داخل ہے اور جس "خالی" لفظ کا اتنا ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے وہ خود اپنے پاوں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے کیونکہ یہ "خالی " لفظ ہی تاکید پیدا کر رہا ہے کہ میں قول اور عمل کو عقیدہ سے باہر سمجھتا ہوں تبھی کہ رہا ہوں کہ شرک خآلی عقیدہ سے نہیں ہوتا بلکہ قول اور عمل سے بھی ہوتا ہے
یہاں انکو غلط فہمی یہ ہوئی کہ میں نے کہا کہ
شرک خالی دل سے نہیں ہوتا بلکہ قول اور عمل سے بھی ہوتا ہے
تو ان کو شاید یہ ایسے نظر آیا کہ
عقیدہ خالی دل سے نہیں ہوتا بلکہ قول اور عمل سے بھی ہوتا ہے
کوئی بھائی @خضر حیات وغیرہ میرے اس درد کی دوا کر دیں میرے پاس اس طرح کی باتوں کا وقت نہیں ہوتا

آخر میں آپکے سوال کا جواب یہ ہے کہ میرے نزدیک ایمان دل کی تصدیق اور زبان سے اقرار کا نام ہے کہ جس میں حقیقت ایمان یعنی نفس ایمان کا تعلق دل سے ہے جبکہ اقرار لسانی کا تعلق شریعت اسلامیہ کے اجراء کے لیے بطور شرط جبکہ عمل بالجوارع کا تعلق کامل مرتبہ ایمان کے حصول کے لیے بطور شرط ہے جبکہ ایمان میں کمی و زیادتی کا تعلق بھی اسی کامل مرتبہ ایمان کے ساتھ خاص ہے نہ کہ" اصل ایمان" یعنی نفس ایمان کے ساتھ ۔۔۔۔۔۔۔
امید کرتا ہوں اب بات سمجھ میں آگئی ہوگئی لہذا میرے اب تک کہ تمام سوالات کے جوابات مجھے اب باآسانی مل جائیں گے والسلام
یہ خود اوپر ابو امامہ صاحب نے کہا ہے کہ لمبا موضؤع ہے اور اس تھریڈ سے متعلق نہیں پس میں جلد ہی اسکو ایک نئے تھڑید میں شروع کر کے وہاں ابو امامہ صاحب کو دعوت دے کر انکے اوپر نظریے کو غلط ثابت کروں گا ان شاءاللہ
 
Top