امان اللہ اصغر
رکن
- شمولیت
- ستمبر 13، 2014
- پیغامات
- 28
- ری ایکشن اسکور
- 11
- پوائنٹ
- 32
اسلام علیکم بھائی آپ نے اپنی بات کی دلیل کوئی نہیں دی ؟؟؟ یعنی جو اصول آپ نے بیان فرمایا ہے اسکی دلیل کیا ہے ؟؟؟ پہلے اپنے اصول کی دلیل دیں پھر باقی سوالات مجھے بھی آپ سے کرنے ہیں امید ہے برا نہیں منائیں گے اور جواب دیں گے ۔والسلامہمارے نزدیک خالی عقیدہ یا دلی نظریہ ہی شرک نہیں ہوتا بلکہ قول اور عمل بھی شرکیہ ہوتا ہے بلکہ ہمارے نزدیک عقیدہ کی پہچان ممکن ہی قول اور عمل سے ہے کیونکہ کسی کی دلی بات کو تو جانا نہیں جا سکتا صرف قول اور عمل سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اسکا دلی عقیدہ کیا یے یا وہ کس کو کیا مانتا ہے [
پیارے بھائی تمام فرقوں کے ہاں ایمان تین چیزوں میں سے کچھ کا مجموعہ ہو سکتا ہے وہ تین چیزیں تصدیق بالقلب، اقرار باللسان اور عمل بالجوارح ہیںاسلام علیکم بھائی آپ نے اپنی بات کی دلیل کوئی نہیں دی ؟؟؟ یعنی جو اصول آپ نے بیان فرمایا ہے اسکی دلیل کیا ہے ؟؟؟ پہلے اپنے اصول کی دلیل دیں پھر باقی سوالات مجھے بھی آپ سے کرنے ہیں امید ہے برا نہیں منائیں گے اور جواب دیں گے ۔والسلام
اسلام علیکم برادرم !پیارے بھائی تمام فرقوں کے ہاں ایمان تین چیزوں میں سے کچھ کا مجموعہ ہو سکتا ہے وہ تین چیزیں تصدیق بالقلب، اقرار باللسان اور عمل بالجوارح ہیں
۲۔ اشاعرہ یا ماتریدیہ : یہ کہتے ہیں کہ ایمان صرف تصدیق بالقلب کا نام ہے ۔ اور یہ قول بھی ہمارے نزدیک باطل ہے کیونکہ اہل کتاب دلی طور پر رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت کو مانتے تھے " یعرفونہ کما یعرفون أبنائہم "
پیارے بھائی جس پوسٹ پر آپ نے دلیل نہ ہونے کا اعتراض کیا ہے اس میں میں نے دو باتیں کی ہوئی ہیں اب مجھے یہ نہیں سمجھ آ رہی کہ آپ نے ان دو میں سے کون سی بات پر اعتراض کیا ہے یا پھر دونوں باتوں پر یہ اعتراض کیا ہے کہ انکی دلیل نہیں ہے
میں وہ دونوں باتیں لکھتا ہوں اور دونوں کی دلیل کے بارے اپنا موقف لکھ دیتا ہوں اگر کوئی اشکال رہ جائے تو آپ بتا دیں
1-ہمارے نزدیک عمل اور قول سے بھی شرک و کفر ہو سکتا ہے کیونکہ ہمارے نزدیک ایمان میں قول اور عمل بھی داخل ہے اسکے بارے دلیل اس لئے نہیں لکھی تھی کہ یہ میں نے اپنا موقف بتایا تھا
2-دوسری بات میں نے یہ لکھی تھی کہ ہمیں چونکہ ظاہر کا مکلف بنایا گیا ہے پس ہمارے اہل حدیث کے نزدیک تو کسی سامنے والے کے مسلمان یا کافر ہونے کا پتا ہی اسکے قول اور عمل سے چل سکتا ہے اسکے دل کے معاملے کے تو ہم مکلف ہی نہیں جیسا کہ مختلف احادیث میں آتا ہے مثلا اسامہ رضی اللہ عنہ کو کہنا کہ کیا تم نے اسکا دل چیز کے دیکھ لیا تھا وغیرہ-اب اسکی دلیل تو اسی جملے میں موجود تھی اور یہ دلیل عقلی تھی اور نقلی کی ضرورت ہی نہیں تھی البتہ اب نقلی بھی لکھ دی ہے اسی لئے تو یہ ایک فقہی قائدہ بھی لیا جاتا ہے کہ لنا الحکم علی الظاہر وربنا یتولی السرائر واللہ اعلم
پیارے بھائی ولیکم السلام ورحمہ اللہ انتہائی معذرت واللہ میں نے آپ کے سلام کی طرف توجہ نہیں دی ورنہ جواب دیتااسلام علیکم برادرم !
سب سے پہلے تو داعی کو سلام کرنا چاہیے کیونکہ یہ عمل صالح ہے اور(داعی کے مؤقف کہ مطابق حقیقت ایمان میں داخل ہونے کی وجہ سے بذات خود) ایمان ہے اور مرتبہ اسکا سنت ہے جبکہ اس سے بھی بڑھ کرجو کوئی پہلے سلام کرئے اسکے سلام کا جواب دینا چاہیے کیونکہ یہ "سنت واجبہ "ہے خاص طور پر ایسا داعی کہ جس نے اپنے سگنیچر میں بھی احسن طریق جدل کی اہمیت پر زور دیا گیاہو،
بھائی میں نے اوپر یہ بتایا تھا کہ مجھے آپ کا اعتراض سمجھ نہیں آ سکا کہ آپ دلیل کس چیز کی مانگ رہے ہیں کیونکہ آپ نے میری دو باتوں کا اقتباس لے کر کہا تھا کہ اسکی دلیل کیا ہے تو میں نے اس لئے کہا کہ اگر آپ اس بات کی دلیل مانگ رہے ہیں کہ ایمان میں عمل اور قول بھی شامل ہوتا ہے کہ نہیں تو اسکی دلیل دی تھیبات چھیڑی دی آپ نے ایمان اور تعریف ایمان اور حقیقت ایمان کی جبکہ ایک تو یہ ہمارا براہ راست موضوع نہ تھا ثانیا یہ موضوع خاصی طوالت کا متقاضی ہے اور اس میں کافی تفصیل ہے اصولین متکلمین فقہاء اور محدثین کے کافی اقوالات ہیں جنکا بنظر غائر اگر جائزہ لیں تو زیادہ تر نزاع صوری و لفظی معلوم ہوتا ہے لہذا اس بحث کی تفصیل میں جانا نہ یہاں مناسب ہوگا اور نہ ہی ضرروی۔
پیارے بھائی جو میں نے اوپر بات لکھی ہے اور جو آپ نے یہاں سوال کیا ہے وہ ایک ہی چیز ہے یعنی چاہے کان کو ادھر سے پکڑیں یا ہاتھ گمھا کر ادھر سے پکڑیںمیرا سوال آپ سے فقط آپ کے مؤقف یعنی دعوٰی کے مطابق دلیل کا جاننا تھا یعنی آپ کا جو یہ دعوٰی تھا کہ ۔۔" ہمارے نزدیک عمل اور قول سے بھی شرک و کفر ہو سکتا ہے" کی دلیل قرآن اور حدیث سے ؟؟؟یعنی محض عمل اور قول سے کس طرح سے شرک کا وقوع ہوسکتا ہے پہلے فقط آپ اسکی دلیل دیں پھر جو دلیل آپ عنائت فرمائیں گے اسکی تفصیل میں کلام اسکے بعد ہوگا ۔۔والسلام
رانا صاحب میں نے جو سوال پوسٹ نمبر 38 میں کیا تھا اور پھر غالبا 40 نمبر پوسٹ میں اسکو دہرایا تھا اسکا جواب نہیں مل رہا تاکہ ہماری بات آگے چل سکےدیکھیں قرآن میں ہے کہ اے ایمان والوں اللہ کے نبی کو ایسے مت پکارو جیسے ایک دوسرے کو پکارتے ہو۔اگر ہر دعا عبادت ہے تو کیا یہاں دعا کا ترجمہ عبادت ہو گا۔اور یہ اصول میہرے ناقص علم کے مطابق ہر جگہ اپلائی ہوگا
اسلام علیکم بھائی!پیارے بھائی جو میں نے اوپر بات لکھی ہے اور جو آپ نے یہاں سوال کیا ہے وہ ایک ہی چیز ہے یعنی چاہے کان کو ادھر سے پکڑیں یا ہاتھ گمھا کر ادھر سے پکڑیں
وہ ایسے کہ اوپر کہا گیا ہے کہ ایمان میں دل کی تصدیق کے ساتھ قول اور عمل بھی شامل ہے یعنی قول و عمل سے بھی ایمان ٹوٹ سکتا ہے پس عمل سے یا قول سے بھی ایمان ٹوٹ سکتا ہے تو وہ کون سا عمل یا قول ہو گا جس سے ایمان ٹوٹ سکتا ہے اس میں بہت سے اقوال اور اعمال آتے ہیں اور ان میں شرکیہ اقوال اور اعمال بھی آتے ہیں پس وہ ثابت ہوا کہ قول اور عمل سے بھی شرک ہوتا ہے
بلکہ میں نے تو یہ بھی کہا ہے کہ ہمیں کسی کے شرک کا پتا تو صرف اسکے قول اور عمل سے ہی چل سکتا ہے اور اسکو ہر مسلمان بھی عقلا مانے گا کہ کسی کے شرک کرنے کا دوسرے مسلمان کو پتا صرف اسکے قول اور عمل سے ہی چل سکتا ہے ورنہ کسی کے دل سے شرک کرنے کا پتا تو کسی پہنچے ہوئے ولی کو ہی ہو سکتا ہے جو اللہ کی طرح لوگوں کے دلوں کے راز جانتا ہو اور وہ ولی سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ سے بھی بڑا ولی ہو کہ جسکو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا تھا کہ کیا تم نے اس مقتول کا دل چیر کے دیکھ لیا تھا
نوٹ: ویسے مجھے سب سے پہلے آپ سے یہ پوچھنا ہے کہ ایمان کے بارے آپ کا نظریہ کیا ہے اور شرک کے بارے کیا ہے تاکہ اس لحاظ سے جواب دیا جا سکے
بقول غالبلگتا ہے آپکو میری بات سمجھ میں نہیں آرہی یا پھر میں اتنا نالائق ہوں کہ سمجھا نہیں پا رہا خیر چلیئے بات کو اور آسان کرتے ہیں آپ نے قادری رانا بھائی سے بات کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ۔۔۔"ہمارے نزدیک خالی عقیدہ یا دلی نظریہ ہی شرک نہیں ہوتا بلکہ قول اور عمل بھی شرکیہ ہوتا ہے"
اوپر آپ کی خط کشیدہ عبارت خاصی غور اور وضاحت طلب ہے ۔ اولا آپ نے عقیدہ اور دلی نظریہ کو مترادف ٹھرایا جس سے ظاہر ہوتا ہے آپ کے نزدیک بھی عقیدہ اصلا دل ہی کا معاملہ ہے لیکن پھر ساتھ ہی عقیدہ کے لفظ سے پہلے لفظ "خالی " کا سابقہ لگا کر آخر میں اسی لفظ " خالی" کو "قول اور عمل " کے لاحقے ساتھ جاکر معنوی طور پر ملا دیا ہے جس کی وجہ سے آپکی ساری عبات ایک عجیب قسم کا "مرکب معجون" بن کر رہ گئی ہے۔ کہ جس میں اولا عقیدہ کو دلی نظریہ کہہ کر اسکی حقیقت کا اصلا باطن سے ہونا تسلیم کیا گیا اور پھر جھٹ سے ایک ہی عبارت میں عقیدہ جیسی اہم شئے کو بغیر دل کی تحقیق کے محض افعال و اقوال کے ظاہریت پر بنا کرتے ہوئے ایک الگ اکائی بطور پیش کیا گیا فیا للعجب ؟؟؟؟میرے بھائی سب سے پہلے آپ یہ فرمادیں کہ آپکے نزدیک عقیدہ آخرکہتے کسے ہیں ؟؟؟اور اسکا تحقق بطریق کامل کس طرح سے ہوسکتا ہےآیا عقیدہ فقط دلی نظریہ ہے کہ جسکا تعلق انسان کے باطن سے ہے جو سوائے قائل کی اپنی نیت و ارادہ کی وضاحت کے بغیرقابل قبول نہیں یا پھر عقیدہ کا تعلق محض انسان کے افعال و اقوال اور ظاہری اعمال سے ہے کہ محض انھے دیکھ کر ہی اسکا تحقق باآسانی کیا جاسکتا ہے فاعل سےکچھ بھی پوچھنے کی حاجت ہرگزنہیں یا پھر عقیدہ کا تعلق انسان کے باطن و ظاہر یعنی دلی نظریات قول و فعل اور ظاہری اعمال ہر سہ اشیاء سے یکساں طور پرہے لہذا اس کا تحقق ان تینوں اشیاء کی یکساں موافقت سے ہی ہوگا؟؟؟یا پھر عقیدہ کا تعلق اصلا باطن سے ہے جبکہ انسان کے قول و فعل سے اسکا تحقق خود قائل کی نیت و ارادہ کے تحقق کی رہین منت ہوگا؟؟؟؟
یہ خود اوپر ابو امامہ صاحب نے کہا ہے کہ لمبا موضؤع ہے اور اس تھریڈ سے متعلق نہیں پس میں جلد ہی اسکو ایک نئے تھڑید میں شروع کر کے وہاں ابو امامہ صاحب کو دعوت دے کر انکے اوپر نظریے کو غلط ثابت کروں گا ان شاءاللہآخر میں آپکے سوال کا جواب یہ ہے کہ میرے نزدیک ایمان دل کی تصدیق اور زبان سے اقرار کا نام ہے کہ جس میں حقیقت ایمان یعنی نفس ایمان کا تعلق دل سے ہے جبکہ اقرار لسانی کا تعلق شریعت اسلامیہ کے اجراء کے لیے بطور شرط جبکہ عمل بالجوارع کا تعلق کامل مرتبہ ایمان کے حصول کے لیے بطور شرط ہے جبکہ ایمان میں کمی و زیادتی کا تعلق بھی اسی کامل مرتبہ ایمان کے ساتھ خاص ہے نہ کہ" اصل ایمان" یعنی نفس ایمان کے ساتھ ۔۔۔۔۔۔۔
امید کرتا ہوں اب بات سمجھ میں آگئی ہوگئی لہذا میرے اب تک کہ تمام سوالات کے جوابات مجھے اب باآسانی مل جائیں گے والسلام