• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الوہیت کا مدار کس چیز پر ہےِِ؟؟؟

ابو امامہ

مبتدی
شمولیت
جون 04، 2015
پیغامات
6
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
3
وہ سمجھ رہے ہیں کہ میرے نزدیک عقیدہ دل سے بھی ہوتا ہے اور عقیدہ قول سے بھی ہوتا ہے اور عقیدہ عمل سے بھی ہوتا ہے حالانکہ اس پر میرا کوئی ایک جملہ بھی موجود نہیں کہ میں نے ایسا کہا ہو
الٹا میرا ایمان کو تین چیزوں کا مجموعہ کہنا اتنی بڑی دلیل ہے کہ وہ کسی کو نظر نہ آئے تو ایسے ہے جیسے کڑی دھوپ میں سورج کا نظر نہ آنا یعنی جب میں ایمان کے بارے اپنی جماعت کا نظریہ یہ بتا رہا ہوں کہ ہمارے ہاں ایمان دل سے تصدیق یعنی عقیدہ پر بھی مشتمل ہوتا ہے اور ساتھ ساتھ ایمان قول سے بھی ہوتا ہے اور فعل سے بھی ہوتا ہے تو میں دل سے تصدیق یا عقیدہ کو قول اور فعل کیسے کہ سکتا ہوں میری کوئی ایسی عبارت تو دکھا دیں جس میں یہ لکھا ہو
اسلام علیکم بھائی !
پیارے بھائی بات کچھ الجھ سی گئی ہے خیر سلجھانے کی کوشش کرتے ہیں ۔
یعنی جب آپ یہ فرماتے ہیں کہ ۔۔"ہمارے ہاں ایمان دل سے تصدیق یعنی عقیدہ پر بھی مشتمل ہوتا ہے اور ساتھ ساتھ ایمان قول سے بھی ہوتا ہے اور فعل سے بھی ہوتا ہے"
یعنی اگر آپکے نزدیک ایمان کا تحقق فقط ظاہری اعمال سے بھی ہوجایا کرتا ہے تو کیا میں یہ پوچھ سکتا ہوں کے آیا اس وقت جب آپکے نزدیک ایمان کا تحقق فقط کسی ظاہری عمل سے ہورہا ہواس وقت قائل یا فاعل کے ایمان وعقیدہ کو دل کی تصدیق سے جاننے کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے یا نہیں ؟؟؟اگر نہیں رہتی تو کیوں نہیں ؟؟؟ حالانکہ ایمان و عقیدہ کا اصل محل ہی دل ہے اور یہ آپ بھی مانتے ہیں کہ ایمان و عقیدہ آپکے ہاں بھی دل کی تصدیق کا محتاج ہے ۔تو پھر خالی کسی ظاہری فعل سے کس طرح سے ایمان سے انحراف ہوسکتا ہے جبتک اس ظاہری فعل کے پیچھے جو دلی نظریہ(یعنی عقیدہ و ایمان) ہے اسے نہ جان لیا جائے؟؟؟؟
مثلا ایک ہندو شخص گنگا جل کی تعظیم کرتا ہے جو کہ ایک پانی ہے ۔
اسی طرح ایک مسلمان آب زم زم کی تعظیم کرتا ہے وہ بھی ایک پانی ہے۔
اب دونوں کے عمل میں دو چیزیں مشترکہ پائی گئیں پہلی پانی اور دوسری پانی کی تعظیم۔
اسی طرح ایک مسلمان حجر اسود کی تعظیم کرتا ہے جو کہ ایک پتھر ہے ۔
اور ایک ہندو پتھر سے بنے ہوئے اپنے بت کی تعظیم کرتا ہے ۔
یہاں بھی پتھر اور اسکی تعظیم کا فعل دنوں میں مشترکہ پایا گیا ۔ تو سوال یہ پیدا ہوا کہ آخر وہ کیا چیز تھی کہ جس نے دونوں کے بظاہر ایک جیسے عمل کے باوجود ایک کو مومن و موحد رکھا جبکہ دوسرے کو کافر و مشرک بنا دیا ؟؟؟
امید ہے آپ میری الجھن سمجھ گئے ہونگے اور جواب سے ضرور نوازیں گے ۔
نوٹ :- باقی پیارے بھائی مسئلہ ایمان پر نیا دھاگا کھولنے کی ضرورت نہ تھی پہلے ہی امت اس مسئلہ بہت کچھ کہہ چکی،مگر امت میں باہم اختلاف ہونے کہ باوجود ہر فریق ایک دوسرے کی قدر کرتا ہے سو میں اور آپ یہاں کچھ نیا نہیں ثابت کرسکیں گے اور یہ کہ میرے پاس وقت بھی نہیں ہوتا ۔ یہاں پردیس میں رزق کی تلاش سے ہی چھٹکارا پانا بہت مشکل ہےکہاں اور کون اتنی لمبی لمبی ابحاث میں سر کھپائے خیرمیں نے اپنا مؤقف بتا دیا ہے اور وہ وہی ہے جو کہ جمہور فقہاء متکلمین و اصولیین کا ہے اگر آپکو زیادہ دلچسپی ہے تو عمدۃ القاری کا مطالعہ فرمالیں وہاں مسئلہ ایمان پر تفصیلا گفتگو موجود ہے۔والسلام








 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
اسلام علیکم بھائی !
پیارے بھائی بات کچھ الجھ سی گئی ہے خیر سلجھانے کی کوشش کرتے ہیں ۔
یعنی جب آپ یہ فرماتے ہیں کہ ۔۔"ہمارے ہاں ایمان دل سے تصدیق یعنی عقیدہ پر بھی مشتمل ہوتا ہے اور ساتھ ساتھ ایمان قول سے بھی ہوتا ہے اور فعل سے بھی ہوتا ہے"
یعنی اگر آپکے نزدیک ایمان کا تحقق فقط ظاہری اعمال سے بھی ہوجایا کرتا ہے تو کیا میں یہ پوچھ سکتا ہوں کے آیا اس وقت جب آپکے نزدیک ایمان کا تحقق فقط کسی ظاہری عمل سے ہورہا ہواس وقت قائل یا فاعل کے ایمان وعقیدہ کو دل کی تصدیق سے جاننے کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے یا نہیں ؟؟؟اگر نہیں رہتی تو کیوں نہیں ؟؟؟ حالانکہ ایمان و عقیدہ کا اصل محل ہی دل ہے اور یہ آپ بھی مانتے ہیں کہ ایمان و عقیدہ آپکے ہاں بھی دل کی تصدیق کا محتاج ہے ۔تو پھر خالی کسی ظاہری فعل سے کس طرح سے ایمان سے انحراف ہوسکتا ہے جبتک اس ظاہری فعل کے پیچھے جو دلی نظریہ(یعنی عقیدہ و ایمان) ہے اسے نہ جان لیا جائے؟؟؟؟
مثلا ایک ہندو شخص گنگا جل کی تعظیم کرتا ہے جو کہ ایک پانی ہے ۔
اسی طرح ایک مسلمان آب زم زم کی تعظیم کرتا ہے وہ بھی ایک پانی ہے۔
اب دونوں کے عمل میں دو چیزیں مشترکہ پائی گئیں پہلی پانی اور دوسری پانی کی تعظیم۔
اسی طرح ایک مسلمان حجر اسود کی تعظیم کرتا ہے جو کہ ایک پتھر ہے ۔
اور ایک ہندو پتھر سے بنے ہوئے اپنے بت کی تعظیم کرتا ہے ۔
یہاں بھی پتھر اور اسکی تعظیم کا فعل دنوں میں مشترکہ پایا گیا ۔ تو سوال یہ پیدا ہوا کہ آخر وہ کیا چیز تھی کہ جس نے دونوں کے بظاہر ایک جیسے عمل کے باوجود ایک کو مومن و موحد رکھا جبکہ دوسرے کو کافر و مشرک بنا دیا ؟؟؟
امید ہے آپ میری الجھن سمجھ گئے ہونگے اور جواب سے ضرور نوازیں گے ۔
نوٹ :- باقی پیارے بھائی مسئلہ ایمان پر نیا دھاگا کھولنے کی ضرورت نہ تھی پہلے ہی امت اس مسئلہ بہت کچھ کہہ چکی،مگر امت میں باہم اختلاف ہونے کہ باوجود ہر فریق ایک دوسرے کی قدر کرتا ہے سو میں اور آپ یہاں کچھ نیا نہیں ثابت کرسکیں گے اور یہ کہ میرے پاس وقت بھی نہیں ہوتا ۔ یہاں پردیس میں رزق کی تلاش سے ہی چھٹکارا پانا بہت مشکل ہےکہاں اور کون اتنی لمبی لمبی ابحاث میں سر کھپائے خیرمیں نے اپنا مؤقف بتا دیا ہے اور وہ وہی ہے جو کہ جمہور فقہاء متکلمین و اصولیین کا ہے اگر آپکو زیادہ دلچسپی ہے تو عمدۃ القاری کا مطالعہ فرمالیں وہاں مسئلہ ایمان پر تفصیلا گفتگو موجود ہے۔والسلام
پیارے بھائی ایمان پر بحث میں نے شروع نہیں کی لیکن جب شروع کی گئی تو جواب دینا بھی لازمی تھا مگر مجھے یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ یہاں جواب بھی دے رہے ہیں بحث بھی کر رہے ہیں اور نہ کرنے کا تقاضا بھی کر رہے ہیں اور کہ رہے ہیں کہ یہاں بحث کرنے کی بجائے عمدۃ القاری کا صرف مطالعہ کر لیں اس سادگی پہ مجھے داغ کی ایک غزل یاد آ گئی

عذر آنے میں بھی ہے اور بلاتے بھی نہیں----------باعث ترک ملاقات بتاتے بھی نہیں
خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں-----------صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں
ہو چکا قطع تعلق تو جفائیں کیوں ہوں--------------جن کو مطلب نہیں رہتا وہ ستاتےبھی نہیں
زیست سے تنگ ہو اے داغ تو جیتے کیوں ہو-----------جان پیاری بھی نہیں جان سے جاتے بھی نہیں

باقی باتیں چھوڑیں ایک طرف مجھے ایمان کے بارے بات سے منع کر رہے ہیں اور دوسری طرف اوپر اسی پوسٹ میں چیلنج کے انداز میں کہ رہے ہیں کہ ایمان کے بارے میری الجھنوں کا جواب ضرور دیں گے وہ انداز ملاحظہ فرمائیں
امید ہے آپ میری الجھن سمجھ گئے ہونگے اور جواب سے ضرور نوازیں گے ۔
اب چونکہ آپ نے ایمان کے بارے میری بات کی یہاں وضاحت بھی کی ہے تو اس جواب کو میں کاپی کر کے نئے ایمان والے دھاگہ میں پیسٹ کر کے وہاں جواب دیتا ہوں جس بھائی نے دیکھنا ہو یا ایمان کے اجزاء کے بارے بات کرنی ہو وہ یہاں بات کرنے کی بجائے مندرجہ ذیل لنک پر تشریف لائیں جزاکم اللہ خیرا

ایمان کے اجزاء پر مکالمہ
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,497
پوائنٹ
964
@قادری رانا ! ادھر تشریف لائیں ، یہاں ایک اصولی بحث چل رہی ہے ، اس کو مکمل کرلیں ، یہاں بحث کسی نقطہ تک پہنچ گئی تو بہت سارے مسائل اسی سے حل ہو جائیں گے ۔ ان شاءاللہ ۔
آپ کو یہ اعتراض ہے کہ بحث صرف اور صرف آپ اور عبدہ صاحب کے درمیان رہنی چاہیے تھی ، کوئی اور شرکت نہ کرے ، تو آپ دیکھ سکتے ہیں عبدہ بھائی کی طرف سے کسی نے شرکت نہیں کی ، آپ کے ہی کسی ساتھی ابو امامہ صاحب نے اس میں شرکت کی ہے ، پھر بھی اگر آپ بحث کے لیے تیار ہوں اور ابو امامہ صاحب آپ کی بات ماننے کے لیے تیار نہ ہوں تو انتظامیہ کی طرف سے آپ کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے ابو امامہ بھائی کو اس بحث سے الگ رکھنے کی کوشش کی جائے گی ۔
 
شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
676
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
شکریہ:
قادری رانا صاحب آپ کا بہت بہت شکریہ کہ آپ سمجھنے کی ہی کوشش کر رہے ہیں اور میری اوپر باتوں سے اتفاق کیا ہے
اگلا موضوع:
آپ نے اوپر پوسٹ نمبر 26 میں کہا تھا

اس پوسٹ کے پہلے نمبر کو میں نے تھوڑا سا درست کیا تھا جس پر آپ نے اتفاق کر لیا کہ قرآن میں جس دعا کے شرک ہونے کا کہا گیا ہے وہ غیراللہ کو معبود سمجھ کر دعا مانگنا ہے
اسی طرح دوسرے نمبر پر میں آپ سے اتفاق کرتا ہوں کہ لغت کے لحاظ سے ہر دعا عبادت نہیں ہوتی بلکہ کچھ دعا عبادت ہوتی ہے اور کچھ نہیں

اگلے موضوع پر میرا سوال
ہم جانتے ہیں کہ دعا عبادت کی ایک قسم ہے جیسا کہ نماز روزہ حج وغیرہ بھی عبادت کی مختلف قسمیں ہیں پس اوپر آپ نے دوسرے نمبر میں جو کہا ہے کہ دعا تب عبادت ہو گی جب غیراللہ کو معبود سمجھ کر عبادت کی جائے تو میرا سوال اس پر یہ ہے کہ
کیا یہ اصول ہر عبادت کے لئے ہو گا یا صرف دعا کے لئے یعنی اگر کوئی نماز کی عبادت غیراللہ کی کرے تو اس وقت بھی یہ دیکھا جائے گا کہ وہ غیراللہ کی نماز معبود سمجھ کر پڑھ رہا ہے یا نہیں؟
اسی طرح تمام عبادتوں پر کیا یہ اصول ایک جیسا لاگو ہو گا؟
نمبر 1 کا جواب
پہلی بات میں نے بھی لغت کے لحاظ سے ہر دعا کا عبادت ہونے کا انکار کیا ہے۔اگلی بات شرعی طور دعا اللہ کے سوا کسی اور سے جائز نہیں۔پھر جو بات میں نے کی وہاں پکارنا مراد ہے کہ مدد کئے لئے پکار دعا اصطلاحی کے ذمرے میں نہیں آتی کیونکہ دعا عبادت ہے مگر مدد کے لئے پکارنا عبادت نہیں۔
نمبر 2 کا جواب
میں نے اپنے موقف کی وضاحت کر دی کہ عبادت غیر اللہ کی جائز نہیں لہذا اعتراض ختم۔
اب گزارش ہے کہ بات کو جلد از جلد اختتامی موڑ تک لائیں۔اور کوئی مسئلہ نہیں جو بھائی چاہے اپنی رائے کا اظہار کر دے مگر موضوع سے ہٹ کر اور فضول بات نہیں ہونی چاہیے۔برائے مہربانی
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
سب سے پہلے میں قادری رانا صاحب کا بہت بہت شکر گزار ہوں کہ انہوں نے مجھے اس قابل سمجھا کہ میری اصلاح کریں اور مجھ سے بات کریں اور میرا موقف بھی سنیں
ویسے تو بات کو رکے کافی عرصہ ہو گیا ہے اب میں نے کچھ پیچھے دیکھا ہے تو پتا چلا کہ ابھی میری پوسٹ نمبر 38 میں کئے گئے سوال کا جواب باقی ہے جو مندرجہ ذیل تھا
دیکھیں رانا صاحب میں نے نماز کو تو صرف مثال کے طور پر لیا تھا اصل میں تو پوچھا تھا کہ آپ نے اصول بتایا ہے کہ غیراللہ کو الہ مان کر دعا کرنا تو عبادت ہے ویسے غیراللہ سے مانگنا عبادت نہیں تو میں نے مطلقا پوچھا تھا کہ یہ غیراللہ کو الہ مان کر کچھ کرنے اور الہ مانے بغیر کچھ کرنے کا اصول ہر جگہ ہو گا یا یہ اصول صرف دعا والی عبادت کے لئے ہے
لیکن یاد رکھیں کہ اگر آپ کہیں (جیسا کہ اوپر نماز بارے کہا ہے) کہ آپ کو علم نہیں دعا کے علاوہ باقی عبادات کے بارے بھی یہ اصول مطلقا اپلائی ہوتا ہے کہ نہیں تو پھر میرا سوال ہے کہ
1۔ دعا کے بارے میں یہ اصول آپ کے علم میں کیسے آیا یعنی دعا کی تخصیص کیسے کر سکتے ہیں اسکی دلیل بتا دیں
لیکن ابھی قادری رانا صاحب سے گزارش ہے کہ اس کا جواب دینے سے پہلے آپ سے کچھ اور پوچھنا ہے وہ یہ کہ ابھی اوپر آپ نے ایک جواب دیا ہے جس سے ایک نیا اشکال پیدا ہو گیا ہے پس پہلے اسکی تھوڑی وضاحت میرے لئے کر دیں پھر اوپر پوسٹ نمبر 38 والے سوال کی طرف جائیں گے

ایک اور بات کہ دعا غیر اللہ سے جائز نہیں یہ ہمارا اجتماعی موقف ہے۔ @عبدہ
نمبر 1 کا جواب
پہلی بات میں نے بھی لغت کے لحاظ سے ہر دعا کا عبادت ہونے کا انکار کیا ہے۔اگلی بات شرعی طور دعا اللہ کے سوا کسی اور سے جائز نہیں۔پھر جو بات میں نے کی وہاں پکارنا مراد ہے کہ مدد کئے لئے پکار دعا اصطلاحی کے ذمرے میں نہیں آتی کیونکہ دعا عبادت ہے مگر مدد کے لئے پکارنا عبادت نہیں۔
نمبر 2 کا جواب
میں نے اپنے موقف کی وضاحت کر دی کہ عبادت غیر اللہ کی جائز نہیں لہذا اعتراض ختم۔
یہاں اشکال یہ پیدا ہو گیا ہے کہ ایک طرف آپ غیر اللہ سے دعا مانگنے کو ناجائز سمجھتے ہیں لیکن دوسری طرف آپ یہ بھی موقف رکھتے ہیں کہ آپ کے ہاں دعا دو طرح کی ہوتی ہے ایک شرعی اور اصطلاحی دعا اور ایک لغت والی دعا- پس اصطلاحی دعا غیراللہ سے ناجائز ہے مگر غیر اصطلاحی دعا کرنا جائز ہے
جہاں تک میں سمجھا ہوں تو شاید آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ لغت میں دعا تو بہت سی چیزوں پر بولی جا سکتی ہے مگر اصطلاحی دعا جس کو شرک کہا گیا ہے وہ اس میں سے کچھ خاص دعا ہوتی ہے یعنی آپ کہ سکتے ہیں شرعی دعا اور لغت والی دعا میں عموم خصوص کی نسبت ہے یعنی ہر اصطلاحی یا شرعی دعا لغت والی دعا تو ہوتی ہے مگر ہر لغت والی دعا شرعی یا اصطلاحی دعا نہیں ہوتی جیسا کہ ہم لوگ بدعت کو لغوی بدت اور شرعی یا اصطلاحی بدعت میں تقسیم کرتے ہیں اور عمر رضی اللہ عنہ کے نعت البدعۃ والے قول کو لغت والی بدعت سمجھتے ہیں جو عام ہے اور کل بدعۃ ضلالۃ والی بدعت کو شرعی بدعت سمجھتے ہیں جو خاص ہے
پس اگر آپ یہی کہنا چاہتے ہیں تو پھر میرا اس پر سوال ہے کہ اصطلاحی دعاجس کو آپ بھی شرک کرتے ہیں وہ کیا ہوتی ہے اور اگر آپ کا جواب یہ ہو کہ وہ اصطلاحی دعا وہ ہوتی ہے جو کسی کو معبود مان کر کی جائے تو پھر ہماری بات پہلے اسی نقطہ پر تو ہو رہی تھی پس آپ پہلے مندجہ ذیل اشکالات کو واضح کر دیں کہ
1-اصطلاحی دعا اور شرعی دعا میں فرق کیا ہے مثال سے واضح کریں اگر اس فرق پر کوئی قرآن کی نص ہے تو وہ بھی بتا دیں ورنہ خیر
2-ایک انسان اللہ سے بیٹا مانگتا ہے تو کیا یہ اصطلاحی دعا ہو گی یا نہیں
3-ایک انسان علی ہجویری سے بیٹا مانگتا ہے تو کیا یہ اصطلاحی دعا ہو گی یا نہیں

اب گزارش ہے کہ بات کو جلد از جلد اختتامی موڑ تک لائیں۔
نہیں بھئی جب نیا اشکال ہمارے سامنے آئے گا تو مجبورا ہمیں اسکی وضاحت پوچھنی پڑے گی پس برائے مہربانی آپ صبر سے کام لیں میں آپ کا بہت مشکور ہوں گا
 
شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
676
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
حضرت دیکھیں لمبی چوڑی بحث سے بچتے ہوئے عرض ہے کہ دعا صرف اللہ سے اور مدد غیر اللہ سے مانگی جا سکتی ہے یہ شرک نہیں
ا
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
حضرت دیکھیں لمبی چوڑی بحث سے بچتے ہوئے عرض ہے کہ دعا صرف اللہ سے اور مدد غیر اللہ سے مانگی جا سکتی ہے یہ شرک نہیں
ا
رانا صاحب انتہائی معذرت کے ساتھ کہنا چاہوں گا کہ یہ لمبی چوڑی بحث سے بچنا نہیں ہے بلکہ ایک واضح اشکال کا جواب نہ دینا لگ رہا ہے
یہ تو ایسے ہی لگ رہا ہے کہ اگر کوئی کہے کہ
اولاد تو صرف اللہ ہی دیتا ہے مگر بیٹا اللہ کے علاوہ بھی کوئی دے سکتا ہے
پس جب یہاں اشکال ہے کہ اولاد میں جب بیٹا شامل ہے اور پہلے جملے میں یہ کہا گیا ہے کہ اولاد تو صرف اللہ ہی دیتا ہے اور اس اولاد میں بیٹا بھی شامل ہے تو پھر ثابت ہوا کہ پہلے جملے میں کہا جا رہا ہے کہ بیٹا بھی صرف اللہ ہی دیتا ہے تو کیا جب اگلے جملے میں یہ کہ دیا جائے کہ بیٹا اللہ کے علاوہ بھی کوئی دے سکتا ہے تو دونوں جملوں میں تضاد نہیں ہو گا
یہ تضاد تب ختم ہو سکتا ہے جب اولاد اور بیٹا علیحدہ علیحدہ چیزیں ہوں
بالکل اسی طرح دعا میں مدد مانگنا بھی آتا ہے
مثلا کوئی کہتا ہے کہ
1-اے اللہ مجاہدین کی مدد کر
2-اے اللہ غریبوں کی مدد کر
3-اے اللہ پاکستان کی مدد کر
4-اے اللہ طالبان کی مدد کر
وغیرہ وغیرہ
تو میرا سوال ہے کہ
اوپر چار جملے کیا دعا نہیں کہلا سکتے اگر یہ چار جملے دعا ہیں تو کیا انکو مدد مانگنا بھی نہیں کہ سکتے
پس یہ ایک بچہ بھی کہ دے گا کہ اوپر چاروں جملوں کو دعا کرنا بھی کہ سکتے ہیں اور مدد کرنا بھی کہ سکتے ہیں
پس ثابت ہوا کہ دعا کرنا اور مدد مانگنا کوئی علیحدہ باتیں نہیں ہیں
پس جب دونوں ایک ہو سکتے ہیں تو پھر آپ کیسے کہ سکتے ہیں کہ دعا تو اللہ سے مانگنی ہے مگر مدد غیر اللہ سے مانگنی ہے
کیا آپ اسکو درست کہتے ہیں کہ
1-اے عبدالقادر مجاہدین کی مدد کر
2-اے عبدالقادر غریبوں کی مدد کر
3-اے عبدالقادر پاکستان کی مدد کر
4-اے عبدالقادر طالبان کی مدد کر

کیا آپ کے نزدیک ایسا کرنا درست ہے اور اسکو دعا کہیں گے یا مدد مانگنا کہیں گے
 
شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
676
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
دیکھیں کیا ما نگنا ہی دعا ہے؟؟؟؟اگر ما نگنا ہی دعا ہے تو پھر حضور نے اپنے صحابی سے کیوں کہا کہ سل ربیعہ مانگ ربیعہ کیا ما نگتا ہے؟؟؟لہذا دعا اور چیز ہے مانگنا اور چیز ہے باقی واضح طور پر عرض ہے کہ غیر اللہ سے مانگنا شرک نہیں جائز ناجائز کی بات ایک طرف
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
دیکھیں کیا ما نگنا ہی دعا ہے؟؟؟؟اگر ما نگنا ہی دعا ہے تو پھر حضور نے اپنے صحابی سے کیوں کہا کہ سل ربیعہ مانگ ربیعہ کیا ما نگتا ہے؟؟؟لہذا دعا اور چیز ہے مانگنا اور چیز ہے باقی واضح طور پر عرض ہے کہ غیر اللہ سے مانگنا شرک نہیں جائز ناجائز کی بات ایک طرف
رانا صاحب میں نے کہیں بھی خود نہیں لکھا کہ آپ پکارنے یا مانگنے کو ہی دعا سمجھیں یا پکارنے یا مانگنے کو دعا نہ سمجھیں میں تو آپ سے پوچھ رہا ہوں کہ آپ کس کو دعا سمجھتے ہیں اور کس کو نہیں
آپ نے خود اوپر لکھا ہے کہ
پکارنا دعا نہیں ہے

اب چونکہ آپ کے نزدیک دعا اور چیز ہے اور خالی پکارنا یا مانگنا اور چیز ہے تو ابھی سب سے پہلے آپ مندرجہ ذیل میں سے دعا اور خالی پکار کو علیحدہ علیحدہ کر دیں یعنی نیچے چیزوں میں کون سی خالی دعا ہے اور کون سی خالی پکار ہے نیز انکے فرق کی پہچان کیسے ہو گی

1-اے اللہ مجاہدین کی مدد کر
2-اے اللہ غریبوں کی مدد کر
3-اے اللہ پاکستان کی مدد کر
4-اے اللہ طالبان کی مدد کر
5-اے عبدالقادر مجاہدین کی مدد کر
6-اے عبدالقادر غریبوں کی مدد کر
7-اے عبدالقادر پاکستان کی مدد کر
8-اے عبدالقادر طالبان کی مدد کر
یاد رکھیں میرے سوال دو ہیں
1-اوپر آٹھ پوانٹس میں دعا کون سی ہے اور خالی پکارنا یا مانگنا کون سی ہے
2-ان میں فرق آپ نے کیسے کیا
 
Top