اسلام علیکم بھائی !وہ سمجھ رہے ہیں کہ میرے نزدیک عقیدہ دل سے بھی ہوتا ہے اور عقیدہ قول سے بھی ہوتا ہے اور عقیدہ عمل سے بھی ہوتا ہے حالانکہ اس پر میرا کوئی ایک جملہ بھی موجود نہیں کہ میں نے ایسا کہا ہو
الٹا میرا ایمان کو تین چیزوں کا مجموعہ کہنا اتنی بڑی دلیل ہے کہ وہ کسی کو نظر نہ آئے تو ایسے ہے جیسے کڑی دھوپ میں سورج کا نظر نہ آنا یعنی جب میں ایمان کے بارے اپنی جماعت کا نظریہ یہ بتا رہا ہوں کہ ہمارے ہاں ایمان دل سے تصدیق یعنی عقیدہ پر بھی مشتمل ہوتا ہے اور ساتھ ساتھ ایمان قول سے بھی ہوتا ہے اور فعل سے بھی ہوتا ہے تو میں دل سے تصدیق یا عقیدہ کو قول اور فعل کیسے کہ سکتا ہوں میری کوئی ایسی عبارت تو دکھا دیں جس میں یہ لکھا ہو
پیارے بھائی بات کچھ الجھ سی گئی ہے خیر سلجھانے کی کوشش کرتے ہیں ۔
یعنی جب آپ یہ فرماتے ہیں کہ ۔۔"ہمارے ہاں ایمان دل سے تصدیق یعنی عقیدہ پر بھی مشتمل ہوتا ہے اور ساتھ ساتھ ایمان قول سے بھی ہوتا ہے اور فعل سے بھی ہوتا ہے"
یعنی اگر آپکے نزدیک ایمان کا تحقق فقط ظاہری اعمال سے بھی ہوجایا کرتا ہے تو کیا میں یہ پوچھ سکتا ہوں کے آیا اس وقت جب آپکے نزدیک ایمان کا تحقق فقط کسی ظاہری عمل سے ہورہا ہواس وقت قائل یا فاعل کے ایمان وعقیدہ کو دل کی تصدیق سے جاننے کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے یا نہیں ؟؟؟اگر نہیں رہتی تو کیوں نہیں ؟؟؟ حالانکہ ایمان و عقیدہ کا اصل محل ہی دل ہے اور یہ آپ بھی مانتے ہیں کہ ایمان و عقیدہ آپکے ہاں بھی دل کی تصدیق کا محتاج ہے ۔تو پھر خالی کسی ظاہری فعل سے کس طرح سے ایمان سے انحراف ہوسکتا ہے جبتک اس ظاہری فعل کے پیچھے جو دلی نظریہ(یعنی عقیدہ و ایمان) ہے اسے نہ جان لیا جائے؟؟؟؟
مثلا ایک ہندو شخص گنگا جل کی تعظیم کرتا ہے جو کہ ایک پانی ہے ۔
اسی طرح ایک مسلمان آب زم زم کی تعظیم کرتا ہے وہ بھی ایک پانی ہے۔
اب دونوں کے عمل میں دو چیزیں مشترکہ پائی گئیں پہلی پانی اور دوسری پانی کی تعظیم۔
اسی طرح ایک مسلمان حجر اسود کی تعظیم کرتا ہے جو کہ ایک پتھر ہے ۔
اور ایک ہندو پتھر سے بنے ہوئے اپنے بت کی تعظیم کرتا ہے ۔
یہاں بھی پتھر اور اسکی تعظیم کا فعل دنوں میں مشترکہ پایا گیا ۔ تو سوال یہ پیدا ہوا کہ آخر وہ کیا چیز تھی کہ جس نے دونوں کے بظاہر ایک جیسے عمل کے باوجود ایک کو مومن و موحد رکھا جبکہ دوسرے کو کافر و مشرک بنا دیا ؟؟؟
امید ہے آپ میری الجھن سمجھ گئے ہونگے اور جواب سے ضرور نوازیں گے ۔
نوٹ :- باقی پیارے بھائی مسئلہ ایمان پر نیا دھاگا کھولنے کی ضرورت نہ تھی پہلے ہی امت اس مسئلہ بہت کچھ کہہ چکی،مگر امت میں باہم اختلاف ہونے کہ باوجود ہر فریق ایک دوسرے کی قدر کرتا ہے سو میں اور آپ یہاں کچھ نیا نہیں ثابت کرسکیں گے اور یہ کہ میرے پاس وقت بھی نہیں ہوتا ۔ یہاں پردیس میں رزق کی تلاش سے ہی چھٹکارا پانا بہت مشکل ہےکہاں اور کون اتنی لمبی لمبی ابحاث میں سر کھپائے خیرمیں نے اپنا مؤقف بتا دیا ہے اور وہ وہی ہے جو کہ جمہور فقہاء متکلمین و اصولیین کا ہے اگر آپکو زیادہ دلچسپی ہے تو عمدۃ القاری کا مطالعہ فرمالیں وہاں مسئلہ ایمان پر تفصیلا گفتگو موجود ہے۔والسلام