1۔جناب اس چیز کا تعلق عقیدے سے ہے اور میرے خیال سے سائنس نے آج تک کوئی ایسا آلہ نہیں بنایا جس یہ معلوم کیا جا سکے کہ وہ کس عقیدے سے مانگ رہا ہے۔
پیارے قادری رانا صاحب مجھے سمجھ نہیں آتی کہ آپ کہاں پر رکیں گے معذرت کے ساتھ مجھے ایسے لگ رہا ہے کہ ایک جگہ پر ایک بات کو اور طرح سے کہ رہے ہوتے ہیں اور جب اس پر کوئی اشکال وارد ہوتا ہے تو اسی بات کو آگے جا کر بدل دیتے ہیں
مثلا یہاں جب آپ نے دعا کی دو قسمیں کیں کہ اگر غیراللہ کو الہ سمجھ کر مانگا جائے تو عبادت ہو گی اور شرک ہو گا لیکن اگر غیراللہ کو الہ نہ مان کر مانگا جائے تو عبادت اور شرک نہیں ہو گا بلکہ جائز ہو گا تو میں نے اشکال پیش کیا کہ ہمیں کیسے پتا چلے گا کہ کون غیراللہ کو الہ سمجھ کر مانگ رہا ہے اور کون نہیں تو آپ نے اوپر جواب دیا ہے کہ ہمارے پاس کوئی سائنس کا آلہ نہیں کہ جس سے اسکو ماپ سکیں
جبکہ اوپر آپ نے خود اس کو ماپا ہوا ہے اگر یقین نہیں آتا تو میں آپ کا اقتباس دوبارہ لگا دیتا ہوں کہ جب میں نے پوچھا کہ ہندو کے بت سے مانگنے اور مسلمان کے قبر سے مانگنے میں فرق ہوتا ہے تو آپ نے کہا تھا کہ
1۔ہندو بت سے ،عیسائی عیسی سے ان میں الوہیت کا اعتقاد رکھ کے مانگتے ہیں۔
2۔جب کہ مسلمان کا کبھی بھی الوہیت کا اعتقاد نہیں رکھتا بلکہ انہیں اللہ کی قدرت کا مظہر سمجھتا ہے
اب میں کہنا چاہوں گا کہ
ابن مریم ہوا کرے کوئی
مرے درد کی دوا کرے کوئی
یعنی خود ہمارے پیارے قادری صاحب کو تو یہ پتا چل جاتا ہے کہ ہندو الوہیت کا اعتقاد رکھ کر مانگ رہا ہے اور مسلمان الوہیت کا اعتقاد رکھ کر نہیں مانگتا مگر ہمیں یہ گر بتانے پر تیار نہیں کہ یہ انکو کیسے پتا چلتا ہے بلکہ جب ہم یہ گر پوچھنا چاہتے ہیں تو ہمیں کہا جاتا ہے کہ میرے پاس کوئی سائنس کا آلہ تھوڑی ہے کہ میں معلوم کر سکوں اگر واقعی آپ ایسا نہیں کر سکتے تو آپ کو پھر ہندو کو بھی مشرک نہیں سمجھنا چاہئے تب تو آپ کے قول و فعل میں تضاد نہیں آئے گا ورنہ تو پھر میں آپ جیسے پیارے کے حق میں تو کبھی گستاخی کرنے کا نہیں سوچوں گا مگر قارئین کو آپ کے بیانات پڑھنے اور رائے دینے سے روکنا میرے بس میں نہیں
ویسے جہاں تک سائنسی آلے کی بات ہے تو پیارے رانا صاحب ہمارے پاس سائنسی آلے کی بجائے شرعی آلہ جو موجود ہے جو فقہی اصول کی صورت میں موجود ہے کہ لنا الحکم علی لظاہر وربنا یتولی السرائر (یعنی جو وگوں کے اعمال اور اقوال سے ظاہر ہو رہا ہے تم انکو قرآن و حدیث کے سکیل پر پرکھو اور دل کا معاملہ اللہ پر چھوڑ دو)
باقی یہ بات ذہن میں رکھیں کہ بالفرض اگر کوئی ڈائریکٹ بھی مانگے تو اس پر شرک کا فتوی نہیں لگتا کیوں وہاں الوہیت کا اعتقاد نہیں۔اور نہ ہی ان کی طاقت کو ذاتی سمجھا جاتا ہے۔
یہاں بھی آپ خود اپنی بات کا انکار کر رہے ہیں کہ اوپر خود فتوی عزیزیہ کا حوالے دے کر یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ جو غیراللہ سے مانگتے ہیں وہ دراصل یہ کہتے ہیں کہ غیراللہ ان کے لئے دعا کریں نہ کے خود انکو بیٹا دیں مگر یہاں اس فتوی کے خلاف خود کہ رہے ہیں کہ ڈائریکٹ بھی مانگ سکتے ہیں جب الوہیت کا اعتقاد نہ ہو تو مسئلہ تو پھر وہی آ گیا کہ ہمیں کیسے پتا چلے گا کہ کسی کا اعتقاد کیا ہے پس اسی لئے کہا تھا کہ پہلے اس فتاوی عزیزیہ کو چھوڑیں اور اوپر بات کو مکمل ہونے دیں
اس سلسلہ میں ایک سوال ہے کہ ما نگنے کے حوالہ سے
1۔کچھ لوگوں کا یہ اعتقاد ہوتا ہے کہ اے اللہ کے ولی ہمیں عطا کر۔
2۔کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ اے اللہ کہ ولی اللہ سے ہمارے لئے دعا کرو
3۔اور کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ اے اللہ یہ نیک بندہ ہے اس کے وسیلہ سے میری دعا قبول کرو۔
اب مجھے یہ بتائیے کہ ان میں شرک کیا چیز ہے؟
اس کا جواب نمبر وار یہ ہے
1۔اگر مافوق الاسباب مانگ رہا ہے تو یہ شرک ہے
2۔اگر زندہ ولی سے ایسا کہ رہا ہے تو یہ عین سنت ہے بشریکہ وہ ولی مشرک نہ ہو یعنی غیراللہ سے مانگنے کا عقیدہ رکھنے والا نہ ہو
3۔وسیلہ سے دعا کرنا بدعت ہے شرک نہیں جیسا کہ علامہ البانی نے ذکر کیا ہے البتہ اگر وسیلہ کو اس طرح سمجھا جائے کہ اللہ اس سے مجبور ہے تو اسی وسیلہ کو محمد بن عبدالوھاب رحمہ اللہ نے نواقض اسلام میں بھی ذکر کیا ہے واللہ اعلم
2۔جناب قرآن میں دعا 5 معنوں میں استعمال ہوا ہے اور ہماری بحث کا تعلق 2 معنوں سے ہے ایک دعا بمعنی عبادت جو غیر اللہ کے لئے جائز نہیں اور ایک بمعنی نداء و پکار جو غیر اللہ کے لئے جائز ہے۔
اب میرا سوال یہ ہے کہ اللہ نے ارشاد فرمایا کہ اے ایمان والوں اللہ کے نبی کو ایسے مت پکارو جیسے ایک دوسرے کو پکا رتے ہو ۔اس آیت میں بھی لفظ دعا استعمال ہوا ہے اگر دعا کا معنی صراف عبادت ہے تو اس کا ترجمہ ہو گا کہ نبی کی عبادت ایسے مت کرو جیسے ایک دوسرے کی کرتے ہو تو کیا یہ جائز ہے؟
اور نماز صرف اللہ کے لئے خاص ہے جب کہ دعا بمعنی ندا ء و پکار غیر اللہ کے جائز ہے جو خود قرآن سے ثابت ہے لہذا ان کو ایک دوسرے پر قیاس نہیں کیا جا سکتا
پیارے رانا صاحب میں نے کب کہا ہے کہ ہر پکار عبادت ہے آپ اوپر میری تمام پوسٹوں میں یہ دکھا دیں میں تو ابھی آپ سے عام پکار اور عبادت والی پکار کا فرق جاننا چاہ رہا ہوں کہ آپ ان میں کیا فرق کرتے ہیں
اب میں دوبارہ سمجھا دوں کہ
1۔ہم اور آپ اس پر متفق ہیں کہ ساری پکار عبادت نہیں ہوتی
2۔ہم اور آپ اس پر بھی متفق ہیں کہ کچھ پکار عبادت بھی ہوتی ہے جو شرک ہوتی ہے اور جس سے تمام اعمال ختم ہو جاتے ہیں
3۔پس ہمیں اس پر بھی ضرور متفق ہونا چاہئے کہ جب کوئی پکار شرک بھی ہو سکتی ہے جس کا ارتکاب کرنے کے بعد کوئی نبی بھی ہمیں نہیں بچا سکے گا تو اس پکار کا دوسری پکار سے فرق لازمی جاننا چاہئے
پس میری اس ساری بحث کا مقصد صرف یہی رہ ہے اگر آپ کو کسی جگہ اس مقصد سے ہٹ کر میری گفتگو لگی ہے تو مجھے نشاندہی کر دیں میں اپنی اصلاح کر لوں پس میں بار بار آپ سے اس فرق کرنے کا طریقہ معلوم کرنا چاہتا ہوں مگر آپ اسی کو واضح الفاظ میں نہیں بتانا چاہ رہے
اب اگر آپ مجھ سے معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ ہم کیسے فرق کریں گے (جیسا کہ آپ نے اوپر نبی کو پکارنے کی مثال دے کر پوچھا ہے) تو میں بتا دیتا ہوں کہ ہمارے ہاں فرق اس طرح کیا جاتا ہے کہ مافوق الاسباب کوئی چیز مانگنا ایسا ہے کہ ہم اس بندے کے پاس مافوق الاسباب عطا کرنے کی طاقت کا عقیدہ رکھتے ہیں حلانکہ مافوق الاسباب دینے کی طاقت صرف اللہ کے پاس ہے پس ہم نے اس ہستی کو اللہ کے ساتھ شریک بنا لیا کہ وہ طاقت اللہ کے علاوہ اس کے پاس بھی ہے اور اسی وجہ سے ہم اسکو شرک کہتے ہیں اور اس پر میں نے قرآن و حدیث سے دلائل دیئے ہیں جس پر بات ہو سکتی ہے
اب میں دوبارہ آخر میں آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ آپ جب یہ مانتے ہیں کہ کچھ پکار شرک ہوتی ہے اور کچھ نہیں تو آپ کے پاس وہ کون سا آلہ ہے جس کے ذریعے آپ کو یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ ہندو کی پکار شرک ہے اور مسلمان کی پکار شرک نہیں