• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الوہیت کا مدار کس چیز پر ہےِِ؟؟؟

salfisalfi123456

مبتدی
شمولیت
اگست 13، 2015
پیغامات
84
ری ایکشن اسکور
39
پوائنٹ
6
اس کو اگر اس طرح کر لیا جائے تو یہ حسب حال ہوگا
1۔ اے امریکہ و اسرائیل یمن میں سعودیوں کی مدد فرما
2۔ اے امریکہ و اسرائیل عراق میں داعش کی مدد فرما
5۔ اے امریکہ و اسرائیل شام میں داعش کی مدد فرما
6۔ اے امریکہ و اسرائیل سعودیہ میں داعش کو نست ونابود فرما
uploadfromtaptalk1440902458281.jpeg
uploadfromtaptalk1440902514870.jpeg
 

salfisalfi123456

مبتدی
شمولیت
اگست 13، 2015
پیغامات
84
ری ایکشن اسکور
39
پوائنٹ
6
اس کو اگر اس طرح کر لیا جائے تو یہ حسب حال ہوگا
1۔ اے امریکہ و اسرائیل یمن میں سعودیوں کی مدد فرما
2۔ اے امریکہ و اسرائیل عراق میں داعش کی مدد فرما
5۔ اے امریکہ و اسرائیل شام میں داعش کی مدد فرما
6۔ اے امریکہ و اسرائیل سعودیہ میں داعش کو نست ونابود فرما
اے اسرائیل اپنے ایران کی مدد فرما [emoji122] [emoji4]
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
1۔جناب اس چیز کا تعلق عقیدے سے ہے اور میرے خیال سے سائنس نے آج تک کوئی ایسا آلہ نہیں بنایا جس یہ معلوم کیا جا سکے کہ وہ کس عقیدے سے مانگ رہا ہے۔
پیارے قادری رانا صاحب مجھے سمجھ نہیں آتی کہ آپ کہاں پر رکیں گے معذرت کے ساتھ مجھے ایسے لگ رہا ہے کہ ایک جگہ پر ایک بات کو اور طرح سے کہ رہے ہوتے ہیں اور جب اس پر کوئی اشکال وارد ہوتا ہے تو اسی بات کو آگے جا کر بدل دیتے ہیں
مثلا یہاں جب آپ نے دعا کی دو قسمیں کیں کہ اگر غیراللہ کو الہ سمجھ کر مانگا جائے تو عبادت ہو گی اور شرک ہو گا لیکن اگر غیراللہ کو الہ نہ مان کر مانگا جائے تو عبادت اور شرک نہیں ہو گا بلکہ جائز ہو گا تو میں نے اشکال پیش کیا کہ ہمیں کیسے پتا چلے گا کہ کون غیراللہ کو الہ سمجھ کر مانگ رہا ہے اور کون نہیں تو آپ نے اوپر جواب دیا ہے کہ ہمارے پاس کوئی سائنس کا آلہ نہیں کہ جس سے اسکو ماپ سکیں
جبکہ اوپر آپ نے خود اس کو ماپا ہوا ہے اگر یقین نہیں آتا تو میں آپ کا اقتباس دوبارہ لگا دیتا ہوں کہ جب میں نے پوچھا کہ ہندو کے بت سے مانگنے اور مسلمان کے قبر سے مانگنے میں فرق ہوتا ہے تو آپ نے کہا تھا کہ
1۔ہندو بت سے ،عیسائی عیسی سے ان میں الوہیت کا اعتقاد رکھ کے مانگتے ہیں۔
2۔جب کہ مسلمان کا کبھی بھی الوہیت کا اعتقاد نہیں رکھتا بلکہ انہیں اللہ کی قدرت کا مظہر سمجھتا ہے
اب میں کہنا چاہوں گا کہ
ابن مریم ہوا کرے کوئی
مرے درد کی دوا کرے کوئی

یعنی خود ہمارے پیارے قادری صاحب کو تو یہ پتا چل جاتا ہے کہ ہندو الوہیت کا اعتقاد رکھ کر مانگ رہا ہے اور مسلمان الوہیت کا اعتقاد رکھ کر نہیں مانگتا مگر ہمیں یہ گر بتانے پر تیار نہیں کہ یہ انکو کیسے پتا چلتا ہے بلکہ جب ہم یہ گر پوچھنا چاہتے ہیں تو ہمیں کہا جاتا ہے کہ میرے پاس کوئی سائنس کا آلہ تھوڑی ہے کہ میں معلوم کر سکوں اگر واقعی آپ ایسا نہیں کر سکتے تو آپ کو پھر ہندو کو بھی مشرک نہیں سمجھنا چاہئے تب تو آپ کے قول و فعل میں تضاد نہیں آئے گا ورنہ تو پھر میں آپ جیسے پیارے کے حق میں تو کبھی گستاخی کرنے کا نہیں سوچوں گا مگر قارئین کو آپ کے بیانات پڑھنے اور رائے دینے سے روکنا میرے بس میں نہیں
ویسے جہاں تک سائنسی آلے کی بات ہے تو پیارے رانا صاحب ہمارے پاس سائنسی آلے کی بجائے شرعی آلہ جو موجود ہے جو فقہی اصول کی صورت میں موجود ہے کہ لنا الحکم علی لظاہر وربنا یتولی السرائر (یعنی جو وگوں کے اعمال اور اقوال سے ظاہر ہو رہا ہے تم انکو قرآن و حدیث کے سکیل پر پرکھو اور دل کا معاملہ اللہ پر چھوڑ دو)

باقی یہ بات ذہن میں رکھیں کہ بالفرض اگر کوئی ڈائریکٹ بھی مانگے تو اس پر شرک کا فتوی نہیں لگتا کیوں وہاں الوہیت کا اعتقاد نہیں۔اور نہ ہی ان کی طاقت کو ذاتی سمجھا جاتا ہے۔
یہاں بھی آپ خود اپنی بات کا انکار کر رہے ہیں کہ اوپر خود فتوی عزیزیہ کا حوالے دے کر یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ جو غیراللہ سے مانگتے ہیں وہ دراصل یہ کہتے ہیں کہ غیراللہ ان کے لئے دعا کریں نہ کے خود انکو بیٹا دیں مگر یہاں اس فتوی کے خلاف خود کہ رہے ہیں کہ ڈائریکٹ بھی مانگ سکتے ہیں جب الوہیت کا اعتقاد نہ ہو تو مسئلہ تو پھر وہی آ گیا کہ ہمیں کیسے پتا چلے گا کہ کسی کا اعتقاد کیا ہے پس اسی لئے کہا تھا کہ پہلے اس فتاوی عزیزیہ کو چھوڑیں اور اوپر بات کو مکمل ہونے دیں

اس سلسلہ میں ایک سوال ہے کہ ما نگنے کے حوالہ سے
1۔کچھ لوگوں کا یہ اعتقاد ہوتا ہے کہ اے اللہ کے ولی ہمیں عطا کر۔
2۔کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ اے اللہ کہ ولی اللہ سے ہمارے لئے دعا کرو
3۔اور کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ اے اللہ یہ نیک بندہ ہے اس کے وسیلہ سے میری دعا قبول کرو۔
اب مجھے یہ بتائیے کہ ان میں شرک کیا چیز ہے؟
اس کا جواب نمبر وار یہ ہے
1۔اگر مافوق الاسباب مانگ رہا ہے تو یہ شرک ہے
2۔اگر زندہ ولی سے ایسا کہ رہا ہے تو یہ عین سنت ہے بشریکہ وہ ولی مشرک نہ ہو یعنی غیراللہ سے مانگنے کا عقیدہ رکھنے والا نہ ہو
3۔وسیلہ سے دعا کرنا بدعت ہے شرک نہیں جیسا کہ علامہ البانی نے ذکر کیا ہے البتہ اگر وسیلہ کو اس طرح سمجھا جائے کہ اللہ اس سے مجبور ہے تو اسی وسیلہ کو محمد بن عبدالوھاب رحمہ اللہ نے نواقض اسلام میں بھی ذکر کیا ہے واللہ اعلم

2۔جناب قرآن میں دعا 5 معنوں میں استعمال ہوا ہے اور ہماری بحث کا تعلق 2 معنوں سے ہے ایک دعا بمعنی عبادت جو غیر اللہ کے لئے جائز نہیں اور ایک بمعنی نداء و پکار جو غیر اللہ کے لئے جائز ہے۔
اب میرا سوال یہ ہے کہ اللہ نے ارشاد فرمایا کہ اے ایمان والوں اللہ کے نبی کو ایسے مت پکارو جیسے ایک دوسرے کو پکا رتے ہو ۔اس آیت میں بھی لفظ دعا استعمال ہوا ہے اگر دعا کا معنی صراف عبادت ہے تو اس کا ترجمہ ہو گا کہ نبی کی عبادت ایسے مت کرو جیسے ایک دوسرے کی کرتے ہو تو کیا یہ جائز ہے؟
اور نماز صرف اللہ کے لئے خاص ہے جب کہ دعا بمعنی ندا ء و پکار غیر اللہ کے جائز ہے جو خود قرآن سے ثابت ہے لہذا ان کو ایک دوسرے پر قیاس نہیں کیا جا سکتا
پیارے رانا صاحب میں نے کب کہا ہے کہ ہر پکار عبادت ہے آپ اوپر میری تمام پوسٹوں میں یہ دکھا دیں میں تو ابھی آپ سے عام پکار اور عبادت والی پکار کا فرق جاننا چاہ رہا ہوں کہ آپ ان میں کیا فرق کرتے ہیں
اب میں دوبارہ سمجھا دوں کہ
1۔ہم اور آپ اس پر متفق ہیں کہ ساری پکار عبادت نہیں ہوتی
2۔ہم اور آپ اس پر بھی متفق ہیں کہ کچھ پکار عبادت بھی ہوتی ہے جو شرک ہوتی ہے اور جس سے تمام اعمال ختم ہو جاتے ہیں
3۔پس ہمیں اس پر بھی ضرور متفق ہونا چاہئے کہ جب کوئی پکار شرک بھی ہو سکتی ہے جس کا ارتکاب کرنے کے بعد کوئی نبی بھی ہمیں نہیں بچا سکے گا تو اس پکار کا دوسری پکار سے فرق لازمی جاننا چاہئے


پس میری اس ساری بحث کا مقصد صرف یہی رہ ہے اگر آپ کو کسی جگہ اس مقصد سے ہٹ کر میری گفتگو لگی ہے تو مجھے نشاندہی کر دیں میں اپنی اصلاح کر لوں پس میں بار بار آپ سے اس فرق کرنے کا طریقہ معلوم کرنا چاہتا ہوں مگر آپ اسی کو واضح الفاظ میں نہیں بتانا چاہ رہے
اب اگر آپ مجھ سے معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ ہم کیسے فرق کریں گے (جیسا کہ آپ نے اوپر نبی کو پکارنے کی مثال دے کر پوچھا ہے) تو میں بتا دیتا ہوں کہ ہمارے ہاں فرق اس طرح کیا جاتا ہے کہ مافوق الاسباب کوئی چیز مانگنا ایسا ہے کہ ہم اس بندے کے پاس مافوق الاسباب عطا کرنے کی طاقت کا عقیدہ رکھتے ہیں حلانکہ مافوق الاسباب دینے کی طاقت صرف اللہ کے پاس ہے پس ہم نے اس ہستی کو اللہ کے ساتھ شریک بنا لیا کہ وہ طاقت اللہ کے علاوہ اس کے پاس بھی ہے اور اسی وجہ سے ہم اسکو شرک کہتے ہیں اور اس پر میں نے قرآن و حدیث سے دلائل دیئے ہیں جس پر بات ہو سکتی ہے

اب میں دوبارہ آخر میں آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ آپ جب یہ مانتے ہیں کہ کچھ پکار شرک ہوتی ہے اور کچھ نہیں تو آپ کے پاس وہ کون سا آلہ ہے جس کے ذریعے آپ کو یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ ہندو کی پکار شرک ہے اور مسلمان کی پکار شرک نہیں
 
شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
675
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
جناب جہاں تک میں آپ کا سوال سمجھ پایا ہوں اس کے مطابق جوابا عرض ہے کہ ہندو بت کو مستقل بالذات سمجھ کر اس کو پکارتا ہے جب کہ مسلمان جب مدد مانگتا ہے تو اس کو رب کی قدرت کا مظہر سمجھتا ہے ۔اور جناب یہ ہمارا عقیدہ ہے کوئی بھی ذات چاہے وہ حضور انور ہی کیوں نہ ہو اللہ کے اذن کے بغیر ایک پتہ بھی نہیں ہلا سکتی مگر اللہ چاہے تو اس کے بندے اس کی عطا سے اس کی قدرت کا مظہر ہو سکتے ہیں۔
آپ نے کہا کہ مافوق الاسباب مدد شرک ہے تو سلمان علیہ اسلام کی بارگاہ میں بیٹھے ایک آدمی نے جس کو کتاب کا علم تھا اس نے اتنی دور سے پل مارنے سے پہلے اللہ کے فضل سے اس تخت کو حاضر کر دیا تھا تو اب بتائیں یہاں کونسا سبب استعمال ہوا؟
ہو سکتا ہے کہ آپ جوابا یہ کہیں کہ جی یہ کرامت ہے تو جوابا عرض ہے کہ جو ولی سے مانگتا یا دعا کرواتا ہے وہ بھی بطور کرامت سمجھ کر ہی اس سے مانگتا یا دعا کر واتا ہے۔ہو سکتا ہے آپ کے دل میں یہ بھی اشکال پیدا ہو کہ کرامت اللہ کا فعل ہے تو جوابا عرض ہے اس سے ہمارا موقف اور بھی مضبوط ہو جاتا ہے کہ وہ رب خالق کائنات ہو کر اتنی قدرتوں اور طاقتوں کا ما لک ہو کر اپنے بندوں کے ذریعے بھی مدد کرواتا ہے اور یہ بھی درحقیقت اس کی ہی مدد ہے۔اب اس سلسلہ میں ایک آخری شبہ یہ رہ جاتا ہے کہ جناب کرامت کا ظہور زندہ سے تو ہو سکتا ہے مگر فوت شدہ سے نہیں تو جوابا عرض ہے کہ معجزے یا کرامت کا تعلق روح سے ہوتا ہے اور جب روح باقی ہے تو اس کا کمال بھی باقی۔اور جب میرا رب کسی زندہ بندے کو اپنی قدرت کا مظہر بنا سکتا ہے تو وہ فوت شدہ کو بھی بنا سکتا ہے۔
بہر حال اس بحث سے یہ عرض کرنا مقصود ہے کہ مدد مانگنا معیار الوہیت نہیں۔یا وہ مافوق الاسباب ہو یا تحت الاسباب
 
Last edited:
شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
675
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
ایک بات اور کہ الوہیت کا مدار دو باتوں پر ایک واجب الوجود جاننا اور ایک مستحق العباددت اور مشرکین اپنے بتوں کو مستحق العبادت سمجھ کر ان سے مانگتے ہیں۔جب کہ مسلمان کسی کو مستحق العبادت نہیں سمجھتا ۔
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
جناب جہاں تک میں آپ کا سوال سمجھ پایا ہوں اس کے مطابق جوابا عرض ہے کہ ہندو بت کو مستقل بالذات سمجھ کر اس کو پکارتا ہے جب کہ مسلمان جب مدد مانگتا ہے تو اس کو رب کی قدرت کا مظہر سمجھتا ہے ۔
نہیں پیارے رانا صاحب آپ نہیں سمجھ پائے میں یہ پوچھ رہا ہوں کہ آپ جب یہ کہتے ہیں کہ ہندو بت کو مستقل بالذات کہ کر پکارتا ہے اور مسلمان قبر والے کو رب کی قدرت کا مظہر سمجھ کر پکارتا ہے تو آپ نے یہ اندازہ کیسے لگایا مگر جواب میں آپ بھی وہی بات دہرا رہے ہیں یعنی جواب میں میرا ہی سوال دہرا رہے ہیں
پس مجھے تو یہ پتا کرنا ہے کہ ہمیں کیسے پتا چلے گا کہ ہندو کے مانگنے اور مسلمان کے مانگنے میں فرق ہے
مجھے اسی کا جواب نہیں مل رہا کیونکہ کبھی آپ کہتے ہیں کہ اسکا پتا ہی نہیں چل سکتا مگر پھر خود ہی اسکا پتا چلا کر مجھے بتاتے بھی ہیں کہ ہندو ایسے مانگتا ہے اور مسلمان ایسے مانگتا ہے

خلاصہ کلام:
1۔ہمارے درمیان یہ اتفاق ہے کہ کبھی مانگنا(دعا کرنا) شرک بھی ہوتا ہے اور کبھی مانگنا(دعا کرنا) شرک نہیں بھی ہوتا
2۔آپ کہتے ہیں کہ جب معبود یا مستحق العبادت سمجھ کر مانگا جائے تو شرک اور اگر اللہ کی قدرت کا مظہر سمجھ کر مانگا جائے تو جائز ہو گا
3۔مشرکین مکہ بتوں سے مانگتے تھے اور آج کا مسلمان قبروں والوں سے مانگتا ہے اب یہ دیکھنے کے لئے کہ کون غیراللہ کو معبود سمجھ کر مانگ رہا ہے اور کون نہیں ہمارے پاس دو آلے ہیں یعنی اسکا قول دیکھا جائے یا اسکا فعل دیکھا جائے
4۔پس آپ سے دوبارہ سوال ہے کہ کوئی آیت یا حدیث بتائیں جس میں مشرکین مکہ کا قول یا فعل ذکر ہو جس سے پتا چلے کہ وہ بتوں کو معبود سمجھ کر یا مستحق العبادت سمجھ کر مانگتے تھے

5-اگر آپ کوئی ایسی آیت یا حدیث نہیں دکھا سکتے کہ جس سے یہ پتا چلے کہ مشرکین مکہ بتوں کو مستحق العبادت سمجھ کر مانگتے تھے تو پھر انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ آپ کو ان مشرکین کو بھی قبر سے مانگنے والوں کی طرح مشرک نہیں سمجھنا چاہئے اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث سے ڈرنا چاہئے کہ من کفر اخاہ فقد باع بھا احدھما کہ کہیں لاعملی اور لاشعوری طور پر ان مشرکین کو کافر کہنے سے خود ہی اس حدیث کی زد میں نہ آ جائیں
میری باتوں کا حوصلہ سے جواب دینے پر بہت بہت مبارکباد اور شکریہ کیونکہ بہت کم آپ کی طرح جذبات کو قابو میں رکھتے ہیں باقی سمجھ آنا نہ آنا یا سمجھنا نہ سمجھنا اس پر بحث نہیں
 
Last edited:

جوش

مشہور رکن
شمولیت
جون 17، 2014
پیغامات
621
ری ایکشن اسکور
319
پوائنٹ
127
الوہیت کا مدار اس بناء پر ہے کہ وہی تن تنہا رب العالمین ہے وہی تنہا رحمن و رحیم ہے وہی تنہا مالک یوم الدین بھی ہے لہذا وہی اس بات کا مستحق ہے کہ ایاک نعبد وایاک نستعین۔
 
شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
675
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
4۔پس آپ سے دوبارہ سوال ہے کہ کوئی آیت یا حدیث بتائیں جس میں مشرکین مکہ کا قول یا فعل ذکر ہو جس سے پتا چلے کہ وہ بتوں کو معبود سمجھ کر یا مستحق العبادت سمجھ کر مانگتے تھے

جناب جوابا عرض ہے کہ مشرکین بتوں کو مستحق العبادت جانتے تھے اور ان کو اللہ کے برابر جانتے تھے۔اور اسی عقیدے کے ساتھ پکارتے تھے۔
ہمارے اس دعوی پر کہ وہ بتوں کو اللہ کے برابر اور مستحق العبادت جانتے تھے مندرجہ ذیل آیات ملاحظہ ہو
١۔الشعرا، ۹۷
۲۔ذمر ۳
۳۔انبیا ،۵۹
۴۔ص ،۵
۵۔یونس ١۸
یہ تمام آیات اس بات کو ثابت کرتیں ہیں کہ مشرکین اپنے بتوں کو مستحق العبادت اور رب تعالی کے برابر سمجھتے تھے۔
اب یہاں سے کچھ لوگوں کو دھوکہ بھی لگا اور انہوں کچھ آیات کا سہارا لے کے یہ فتوی دینا شروع کر دیا کہ دعا عبادت ہے جبکہ دعا عبادت تب ہو گی جب اعتقاد الوہیت ہوگا۔ہم وہ آیات اور ان کی تفسیر نقل کرتے ہیں
سب سے پہلے سورت النحل کی آیت ۲۰ اللہ فرماتا ہے
وَالَّذِیۡنَ یَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ لَا یَخۡلُقُوۡنَ شَیۡئًا وَّہُمۡ یُخۡلَقُوۡنَ ﴿ؕ۲۰﴾
یہاں لفظ یدعون کامعنی مفسرین نے تعبدوں کیا ہے ملاحظہ ہو تفسیر تنویر المقیاس ص ۲۲۲،
 
Top