• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الیاس گھمن صاحب کے "رفع یدین نہ کرنے" کا جواب

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,786
پوائنٹ
1,069
نماز كا طریقہ>تکبیرات میں دو ہاتهوں كوا ٹهانا"


سوال نمبر: 1 - فتوی نمبر:14724

س 1: بسا اوقات میں لوگوں کونماز پڑھاتے ہوئے رکوع میں جاتے وقت دو ہاتهوں كو اٹها لیتا ہوں، اور ایک دن ایک مشہور عالم دین نے میرے پیچھے نماز پڑھی، نماز ختم ہونے کے بعد شیخ صاحب میرے والد کے پاس پہنچے، اورکہا کہ آپ کا بیٹا آپکے مسلک پرنہیں ہے، میں نے والد سے انکے اور شیخ کے مسلک کے متعلق پوچھا تو بتایا کہ دونوں حنفی مسلک پر ہیں، اور اس مسلک میں رکوع سے اٹھنے کے وقت دو ہاتهوں كو اٹهانا جائز نہیں ہے۔

میرا سوال یہ ہے کہ: میری نمازوں کا کیا حکم ہے؟ کیا میں اس مسلک کو یا ائمہ اربعہ کے مشہور مسلک میں سے کسی کو ماننے کا میں پابند ہوں؟


ج 1: تکبیرتحریمہ کے وقت نیز رکوع میں جاتے اور رکوع سے اٹھنے کے وقت تکبیرکے ساتھ رفع يدين نماز کی سنتوں میں سے ہے، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ سلم سے حدیث ثابت ہے، جسے الزہری نے سالم سے جواپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہتے ہیں کہ:
( جلد کا نمبر 5; صفحہ 306)

میں نے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کوديكها ہے كہ جب آپ نماز کی ابتداء کرتے تو اپنے ہاتوں کوکندھوں تک اٹهاتے، یہاں تک كہ كندهوں كےبرابر ہاتھ ہوجاتا، اور جب رکوع كرنے کا ارادہ فرماتے اور رکوع سے سراٹھاتے، تو دونوں ہاتھوں کو کندھوں تک لے جاتے، اور آپ صلى الله عليه وسلم سجدوں میں اس طرح نہیں کرتے تھے۔
اس حدیث کوامام بخاری نے روایت کیا اور کہا کہ: علی المدینی کا کہنا ہے کہ: اس حدیث کی بناء پر مسلمانوں پر یہ حق بنتا ہے کہ وہ رفع یدین کریں "۔

اورمحمد بن عمروبن عطا ء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہتے ہیں:
میں نے ابوحمید ساعدی کو دس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے درمیان [جس میں سے حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ ہيں] یہ کہتے سنا کہ: میں تمہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز سکھاؤں، تو لوگوں نے کہا : عرض كرو، انھوں نے کہا : حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے کندھوں کے برابر تک لیجاتے، پھر تکبیر کہتے، حتي کہ بدن کی ہر ہڈی اپنی مقام پر پہنچ جاتی، پھر تلاوت فرماتے، پھر تکبیر کہتے، اور اپنے ہاتھوں کو کندھوں کے برابر لیجاتے، پھر رکوع فرماتے، اور اپنی دونوں ہتھیلیاں اپنے دونوں گھٹنوں پر رکھتے، پھر سیدھے ہوجاتے، نہ اپنے سر کو کھڑا کرتے اور نہ جھکاتے، پھر سمع اللہ لمن حمدہ کہتے، پھر سیدھے کھڑے ہوتے ہوئے اپنے ہاتھ کندھوں کے برابر اٹھاتے، اور اس میں موجوده لوگوں نے کہا : آپ نے سچ کہا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح نماز پڑھتے تھے۔
اس حدیث کو ابوداؤد اور ترمذی نے روایت کیا ہے، اور ترمذی نے کہا: یہ حدیث حسن اورصحیح ہے۔ رہی بات آپ کی نماز کی، تو آپ کی نماز درست ہے، چاہے آپ نے رفع یدین کیا ہو یا نہ کیا ہو، کیونکہ رفع یدین سنت ہے، اور ایک مسلمان کے لئے مشروع ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جوحدیث ثابت ہوجائے اسکی اتباع کرے، چاہے حدیث اسکے مسلک کے موافق ہو یا مخالف۔وبالله التوفيق۔ وصلى الله على نبينا محمد، وآله وصحبه وسلم۔


علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی کمیٹی


ممبر نائب صدر صدر
عبد اللہ بن غدیان عبدالرزاق عفیفی عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز



http://alifta.com/Search/ResultDetails.aspx?languagename=ur&lang=ur&view=result&fatwaNum=&FatwaNumID=&ID=12010&searchScope=3&SearchScopeLevels1=&SearchScopeLevels2=&highLight=1&SearchType=exact&SearchMoesar=false&bookID=&LeftVal=0&RightVal=0&simple=&SearchCriteria=allwords&PagePath=&siteSection=1&searchkeyword=216177217129216185032219140216175219140217134#firstKeyWordFound
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
السلام علیکم، اس بارے میں علمائے کرام کے فتاویٰ یہ ہیں:
الشیخ عبدالعزیز ابن باز رحمۃ اللہ علیہ سابق مفتی اعظم سعودی عرب

السنة رفع اليدين عند الإحرام وعند الركوع وعند الرفع منه وعند القيام إلى الثالثة بعد التشهد الأول لثبوت ذلك عن النبي صلى الله عليه وسلم , وليس ذلك واجبا بل سنة فعله المصطفى صلى الله عليه وسلم وفعله خلفاؤه الراشدون وهو المنقول عن أصحابه صلى الله عليه وسلم , فالسنة للمؤمن أن يفعل ذلك في جميع الصلوات وهكذا المؤمنة۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔۔۔۔ كله مستحب وسنة وليس بواجب , ولو صلى ولم يرفع صحت صلاته اه

"تکبیر تحریمہ کہتے وقت، رکوع میں جاتے ہوئے اور رکوع سے اٹھنے کے بعد، اور پہلے تشھد کے بعد تیسری رکعت کے لیے اٹھتے وقت رفع الیدین کرنا سنت ہے کیوں کہ نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے اس کا کرنا ثابت ہے۔ لیکن یہ واجب نہیں سنت ہے۔ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم، خلفائے راشدین اور صحابہ کا اس پر عمل رہا ہے، پس ہر مومن مرد و عورت کو اپنی تمام نمازوں میں اسے اپنانا چاہیے،۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ لیکن یہ سب مستحب اور سنت ہے، واجب نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص رفع الیدین کے بغیر نماز پڑھے تو اس کی نماز درست ہے۔
(مجموع فتاوٰی بن باز جلد 11 ص 156)
نائب مفتی اعظم سعودی عرب الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ

وهذا الرفع سنة، إذا فعله الإنسان كان أكمل لصلاته، وإن لم يفعله لا تبطل صلاته، لكن يفوته أجر هذه السنة
"رفع الیدین کرنا سنت ہے، اسے کرنے والا انسان اپنی نماز مکمل ترین صورت میں ادا کرتا ہے۔ اگر کوئی اسے چھوڑ دے تو اس کی نماز باطل نہیں ہوتی لیکن وہ اس سنت کے اجر سے محروم رہ جاتا ہے"
(مجموع فتاویٰ و رسائل العثمین جلد 13 ص 169)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ

فَإِنَّ الرَّفْعَ الْمُتَنَازَعَ فِيهِ لَيْسَ مِنْ نَوَاقِضِ الصَّلَاةِ ؛ بَلْ يَجُوزُ أَنْ يُصَلِّيَ بِلَا رَفْعٍ وَإِذَا رَفَعَ كَانَ أَفْضَلَ وَأَحْسَنَ
(مجموع الفتاوی جلد22 ص248 )
"جس رفع الیدین (کے کرنے یا نہ کرنے) میں‌اختلاف ہے وہ کوئی ایسی چیز نہیں جس سے نماز ٹوٹ جاتی ہو، اگر کوئی رفع الیدین کرتا ہے تو اس کا عمل سب سے اچھا اور افضل ہے اور اگر کوئی نہ کرے تو اس کی نماز بھی ہو جاتی ہے"
والسلام علیکم
جزاک اللہ خیرا بھائی۔
میں بس یہی معلوم کرنا چاہتا تھا۔
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
جزاک اللہ خیرا بھائی۔
میں بس یہی معلوم کرنا چاہتا تھا۔
محترم بھائی شاید میں بات درست طرح سمجھا نہیں سکا میں نے یہ نہیں کہا کہ جو رفع یدین کا قائل ہے اس کے لئے رفع یدین کرنا فرض ہے البتہ یہ کہا ہے کہ
جب اسکو دلائل سے یہ یقین ہو جائے کہ رفع یدین کرنا ہے (چاہے وہ فقہی اصطلاح میں سنت ہی ہو) تو اسکو رفع یدین لازمی کرنا ہو گا ورنہ نماز نہیں ہو گی
اب اوپر والی ابن باز کی بات سے شاید یہ ثابت ہوتا ہے کہ میری اوپر والی بات میں تھوڑی سی غلطی تھی وہ میں درست کر دیتا ہوں واللہ اعلم

جب اسکو دلائل سے یہ یقین ہو جائے کہ رفع یدین کرنا ہے (چاہے وہ فقہی اصطلاح میں سنت ہی ہو) تو اسکو رفع یدین لازمی کرنا ہو گا ورنہ نماز ادنی یا غیر افضل ہو گی

اب یہ چیز بھی یاد رکھ لیں کہ جس کے فقہی لحاظ سے سنت ہونے پر ہمیں یقین ہو (مثلا ظہر کی سنت) تو اسکا ترک دو وجوہ سے ہو سکتا ہے
1-کسی تھکاوٹ یا سستی وغیرہ کی وجہ سے اسکا ترک
2-یقین میں کچھ خرابی ہو جانا
3-ہٹ دھرمی کی وجہ سے

ان تینوں کا حکم کیا ایک ہو گا
 
Last edited:
شمولیت
دسمبر 09، 2013
پیغامات
68
ری ایکشن اسکور
15
پوائنٹ
37
حیرانگی اس میں ہے، کہ جب ایک سنت بادلائل صحیحہ قویہ صریحہ سے ثابت ہو، تو اس کو کیوں چھوڑا جائے؟ اس چھوڑنے کی کیا وجہ ہوگی؟ کیا سبب ہوگا؟ میرے خیال میں اس وجہ وسبب پر حکم لگے گا۔ اور یہ حکم ہر کےلیے الگ الگ ہوگا۔ واللہ اعلم
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,786
پوائنٹ
1,069
سنت نبوی کی پيروى کرنے والے لوگ"


سوال نمبر: 2 - فتوی نمبر:19049

س 2: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سب سے زیادہ اتباع کرنے والے، اور سنت نبوی سے قریب ترین لوگ اہل حدیث ہیں یا احناف؟ ،
( جلد کا نمبر 5; صفحہ 304)


کیونکہ مسلک اہل حدیث میں نماز میں رفع الیدین کرنا اورآمین بآواز بلند کہنا مسنون ہے، لیکن مسلک احناف میں نہ تو رفع الیدین ہے نہ آمین بالجہر۔


ج 2: نماز میں رفع یدین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہےجوصرف چار مواقع پر کرنا ہوتا ہے، تکبیر تحریمہ کے وقت، رکوع کرنے کے وقت، رکوع سے اٹھنے کے وقت، اورتیسری رکعت کے لئے تشہد سے قیام کرنے کے وقت۔ اور ایک مسلمان پر اس سنت پرعمل کرنا ضروری ہے، تاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء ہوجائے، اگرچہ کہ نماز پڑھنے والا کسی اور مسلک کو مانتا ہو، کیونکہ تمام مسلمان کورسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرنے اور آپ کو اسوہ بنانے کا حکم دیاگیا ہے، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
تم ویسے نماز پڑھو جیسے تم مجھے نماز پڑھتا ہوا دیکھتے ہو
اورائمہ کرام میں سے کسی امام کا فتوی اگراس سنت کے خلاف ہو، تو انہیں یہ کہہ کر معذور قرار دیا جاسکتا ہے یہ حدیث ان تک نہیں پہنچ سکی
لیکن جسے اس سنت کا علم ہوجائےاسے عمل کرنا ضروری ہے، اوراسے غیرمعمول بہ چھوڑدینا بالکل مناسب نہیں ہے، کیونکہ اعتبار اسی سنت کا ہے جو کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں مذکورہے

اسی طرح جہری نماز میں غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلاَ الضَّالِّينَ ﺍﻥ ﻛﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﻦ ﭘﺮ ﻏﻀﺐ ﻛﯿﺎ ﮔﯿﺎ ، ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﮔﻤﺮﺍﮨﻮﮞ ﻛﯽ ۔
کے بعد بآواز بلند آمین کہنے کا مسئلہ ہے، کیونکہ امام بخاری اورامام مسلم نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جب امام آمین کہے ، تو تم بھی آمین کہو، چنانچہ اگر اتفاق سے کسی شخص کے آمین کہنے کا وقت اور فرشتوں کے آمین کہنے کا وقت ایک ہی رہا، تو اس کے پچھلے تمام گناہوں معاف کردیئے جائیں گے۔
اوراس حدیث کی بناء پر جسے ابوداؤد نے اپنی سنن میں اور ترمذی نے جامع صحیح میں وائل بن حجررضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ:
( جلد کا نمبر 5; صفحہ 305)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب "وَلاَ الضَّالِّينَ" ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﮔﻤﺮﺍﮨﻮﮞ ﻛﯽ
کہتے تو آمین بآواز بلند کہتے
اوراحناف کا جہری نمازوں میں بآواز بلند آمین نہ کہنے کا کوئی اعتبارنہیں، کیونکہ احادیث انکے خلاف ثبوت پیش کرتی ہیں۔وبالله التوفيق۔ وصلى الله على نبينا محمد، وآله وصحبه وسلم۔


علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی کمیٹی


ممبرممبرنائب صدرصدر
بکر ابو زیدصالح فوزان عبد العزیزآل شيخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز



http://alifta.com/Search/ResultDetails.aspx?languagename=ur&lang=ur&view=result&fatwaNum=&FatwaNumID=&ID=12009&searchScope=3&SearchScopeLevels1=&SearchScopeLevels2=&highLight=1&SearchType=exact&SearchMoesar=false&bookID=&LeftVal=0&RightVal=0&simple=&SearchCriteria=allwords&PagePath=&siteSection=1&searchkeyword=216177217129216185032216167217132219140216175219140217134#firstKeyWordFound
@عبداللہ عزام بھائی کیا میری پوسٹ کو آپ غیر متفق کرتے تو سمجھ آتا لیکن کیا میری پوسٹ موضوع کے خلاف ہے جو آپ نے غیر متلق کیا ہے
 
شمولیت
مئی 01، 2014
پیغامات
60
ری ایکشن اسکور
38
پوائنٹ
63
@عبداللہ عزام بھائی کیا میری پوسٹ کو آپ غیر متفق کرتے تو سمجھ آتا لیکن کیا میری پوسٹ موضوع کے خلاف ہے جو آپ نے غیر متلق کیا ہے
@محمد عامر یونس
محترم غیر متعلق اس لیے کہا ہے میری بحث صرف یہ ہے کہ رفع الیدین کے بغیر نماز ادا ہوجاتی ہے یا نہیں۔ کیونکہ عبدہ نے بلا دلیل و حوالہ یہ بات درج کی کہ علمائے امت کے نزدیک رفع الیدین کے بغیر نماز ادانہیں ہوگی۔ اب جب کہ اوپر فتاویٰ ابن تیمیہ، فتاوی ابن باز و فتاوٰی عثیمین کے حوالے سے درج کیا جاچکا ہے کہ رفع الیدین کے بغیر نماز ادا ہوجاتی ہے۔
اب جو آپ نے پوسٹ کیا ہے اس کا موضوع ہی مختلف ہے ۔ خود آپ کی تحریر کے مطابق سوال یہ ہے:
س 2: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سب سے زیادہ اتباع کرنے والے، اور سنت نبوی سے قریب ترین لوگ اہل حدیث ہیں یا احناف؟
جب کہ میں نے جو جواب عبدہ کو دیا ہے اس کا موضوع یہ ہے کہ کیا رفع الیدین کے بغیر نماز ادا ہوتی ہے کہ نہیں ۔ اور اسی ضمن میں فتوٰی بھی پیش کیا ہے۔

باقی جہاں تک رفع الیدین کی بات ہے تو وہ ثابت ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ خیرالقرون ہی سے یہ اختلافی مسئلہ ہے۔ اب جو گتھی خیرالقرون میں نہیں سلجھی کیا آپ لوگ اس کو اس پر فتن دور میں سلجھا لیں گے ؟ ہرگز نہیں۔
پاکستان میں الا ماشاءاللہ سلفی اس کو کہا جاتا جو ان تمام اختلافی مسائل میں شدت رکھتا ہو ، سلفی و اہلحدیث کے علاوہ سب کو مشرک جانتا ہو۔ جو اس ڈگر سے ہٹ کر یا ان اختلافی مسائل میں ذرا سی لچک بھی پیدا کرنے کی کوشش کرے مطعون ٹھہرتا چاہے۔ خدارا ذرا دیکھیئے میدان جہاد میں کیسے سلفی و حنفی یکجان ہو کر کفار کو دندان شکن جواب دے رہے ہیں اور ہم ہیں ایک گھر ہی میں ایک دوسرے کو برداشت کرنے کو تیار نہیں۔
میری اس تحریر سے کوئی حنفی بھائی ہرگز یہ مراد نہ لے ان معاملات میں شدت صرف سلفیوں کے یہاں ہے حنفیوں میں نہیں۔
طرفین سے گذارش کروں گا کہ ان معاملات میں شدت نہ اختیار کریں۔ اس وقت امت مسلمہ پر جہاد فرض عین ہے۔ اکثریت اس فرض کی تارک ہے۔ کئی ایک دانستہ یا نا دانستہ اس فریضے کی مخالفت میں جتے ہوئے ہیں۔ مسلمانوں کے معاملات میں اللہ کے بجائے کفار کے قوانین سے فیصلے ہو رہے ہیں۔ جو صورتِ حال امت کو آج درپیش ہے شاید پہلے کبھی نہ تھی۔ ایسے میں جس قدر ہوسکے اختلاف سے پرہیز کیا جائے۔
جزاک اللہ
 

sahj

مشہور رکن
شمولیت
مئی 13، 2011
پیغامات
458
ری ایکشن اسکور
657
پوائنٹ
110
کوئی گنتی کرکے دکھائے بادلیل تو مانیں (ابتسامہ)
اٹھارہ جگہوں کی نفی اور دس جگہوں کا اثبات ۔
امید کرتا ہوں کہ سب تقلید کے منکر ساتھی میری بات سمجھ گئے ہوں گے ۔اک بار پھر ابتسامہ(ابتسامہ)
شکریہ
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
جواب دلیل نمبر دو كے بارے میں كچھ گزارشات:۔

دلیل نمبر ٢

قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ اَحْمَدُبْنُ شُعَیْبِ النَّسَائِیُّ اَخْبَرَ نَا سُوَیْدُ بْنُ نَصْرٍ حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّہِ بْنُ الْمُبَارَکِ عَنْ سُفْیَانَ عَنْ عَاصِمِ بْنِ کُلَیْبٍ عَنْ عَبْدِالرَّحْمٰنِ بْنِ الْاَسْوَدِ عَنْ عَلْقَمَۃَ عَنْ عَبْدِاللّٰہِ قَالَ اَلَااُخْبِرُکُمْ بِصَلٰوۃِ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ؛ فَقَامَ فَرَفَعَ یَدَیْہِ اَوَّلَ مَرَّۃٍ ثُمَّ لَمْ یُعِدْ۔ (سنن نسائی ج ١ ص ١٥٨ باب ترک ذلک، سنن ابی داود ج ١ ص ١١٦ باب من لم یز کر الرفع اند الرکوع)
ترجمہ : حضرت عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ نے فرمایا: " کیا میں تمھیں اس بات کی خبر نہ دن کہ رسل الله صلی الله علیہ وسلم کیسے پڑھتے تھے؟ حضرت علقمہ رحمتہ الله علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابن مسعود رضی الله عنہ کھڑے ہوئے پہلی مرتبہ رفع یدین کیا (یعنی تکبیر تحریمہ کے وقت) پھر (پوری نماز میں) رفع یدین نہیں کیا ."

جواب: اس روایت کی سند دو وجہ سے ضعیف ہے:
اول: امام سفیان بن سعید بن مسروق الثو ری رحمہ الله ثقہ عابد ہونے کے ساتھ مدلس بھی تھے، جیسا کہ احمد مدنی دیوبندی نے کہا:
ابن الترکمانی حنفی نے ایک روایت کے بارے میں لکھا ہے:
امام سفیان ثوری کو مسٹر امین اکاڑوی نے بھی مدلس قرار دیا ہے. (دیکھئے تجلیات صفدر ج ٥ ث ٤٧٠)

یہ روایت عن سے ہے اور اصول حدیث کا مشہور مسلہ ہے کہ مدلس کی عن والی روایت ضعیف ہوتی ہے. (مثلاً دیکھئے نزہتہ النظر شرح نخبتہ الفکر ث ٦٦ مع شرح الملا علی القاری ٤١٩)

دوم: اس روایت کو جمہور محدثین نے ضعیف ، خطا اور وہم وغیرہ قرار دیا ہے، جن میں سے بعض کے نام درج ذیل ہیں:
عبداللہ بن المبارک، شافعی، احمد بن حنبل، ابو حاتم الرازی، دار قطنی، ابن حبان، ابو داود السجتانی، بخاری، عبد الحق اشبیلی، حاکم منیشا پوری اور بزار وغیر ہم. (دیکھئے نور العینین ث ١٣٠-١٣٤)


1:۔
سفیان کو مدلس کہہ کر اس حدیث کو ضعیف کہنا درست معلوم نہیں ہوتا۔ کیوں کہ سفیان طبقہ ثانیہ کے مدلسین میں سے ہیں۔ (طبقات لابن حجر)۔ اور طبقہ ثانیہ کے مدلسین کی روایات میں معنعن کے غیر مقبول ہونے کا عمومی قاعدہ جاری نہیں ہوتا۔ حافظ ابن حجرؒ نے طبقہ ثالثہ سے اس قاعدہ کا اطلاق کیا ہے۔
امام بخاریؒ فرماتے ہیں:۔ ما اقل تدلیسہ (العلل الکبیر للترمذی)۔ ان کی تدلیس کتنی کم ہے۔
یعقوب بن سفیان کہتے ہیں:۔
وحديث سفيان وأبي إسحاق والأعمش ما لم يعلم أنه مدلس يقوم مقام الحجة.
المعرفۃ والتاریخ 2۔637 ط الرسالۃ

"سفیان، ابو اسحاق اور اعمش کی حدیث جب تک علم نہ ہو جائے کہ تدلیس شدہ ہے حجت ہوتی ہے۔"

اس حدیث میں کہیں سے بھی یہ علم نہیں ہو رہا۔ اس لیے یہ حجت ہے۔
سفیان کو امیر المومنین فی الحدیث کہا گیا ہے۔ اس لیے اگر دیگر علتیں ہوں یا وہ کسی ثقہ کی مخالفت کر رہے ہوں تو تو مرجوحیت کا قرینہ یہ بات بن سکتی ہے لیکن اس کے بغیر کیسے ممکن ہے؟

باقی جن علماء کا ذکر کیا ان میں اوکاڑوی اور ترکمانی کے حوالے میں نے خود دیکھے ہیں۔ انہوں نے صرف تدلیس کا ذکر نہیں کیا بلکہ ساتھ ساتھ دیگر علتیں بھی ذکر کی ہیں۔

2:۔
اس روایت یا اس کی سند کو ان محدثین نے حسن یا صحیح قرار دیا ہے:۔
دارقطنی، ابن القطان الفاسی، زیلعی، عینی، احمد شاکر، البانی، انور شاہ کشمیری (لم ار بعینی)

چونکہ جواب میں تفصیل نہیں ہے اس لیے جواب الجواب میں بھی اختصار کر رہا ہوں۔ ورنہ زیلعی کے مطابق تو وہم کا الزام متروک ہے۔ اور احمد شاکر نے رد کیا ہے اس الزام پر۔
اور حقیقت یہ ہے کہ یہ الزام ثابت ہی نہیں ہوتا۔

واللہ اعلم
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
@شاکر بھائی
ایڈیٹر اپنی مرضی سے ہائی لائٹ اور ہیڈنگ لگا رہا ہے۔ (ابتسامہ)
 
Top