السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
آپ کا ان شاء اللہ ! اللہ کی توفیق سے مقلدیں دیوبند کے ہر ہراعتراض کا جواب ملے گا! مگر شرط ہے کہ اعتراض کو یونی کوڈ میں تحریر کر کے پیش کیا جائے!
الیاس گھمن کے پورے کلام کو تحریر میں لائیں! ہم الیاس گھمن کی پوری تقریر کا آپریشن کر کے آپ کے سامنے رکھ دیں گے! ان شاء اللہ!
اس بار میں الیاس گھمن کے بیان کے نکات تحریر کر دیتا ہوں۔ اور پھر اس کا جواب بھی؛ مگر صرف اس بار!!
اب جواب لیجئے:
امام ابو حنیفہ الفقہ الاكبر کے مصنف نہیں ہیں : انور شاہ کاشمیری
««واعلم أن نفي الزيادة والنقصان وإن اشتهر عن الإمام الأعظم، لكني متردد فيه بعد. وذلك لأني لم أجد عليه نقلاً صحيحاً صريحاً، وأما مانسب إليه في «الفقه الأكبر» فالمحدِّثون على أنه ليس من تصنيفه. بل من تصنيف تلميذه أبي مطيع البلخِي، وقد تكلم فيه الذهبي، وقال: أنه جَهْمِيٌّ. أقول: ليس كما قال، ولكنه ليس بحجةٍ في باب الحديث، لكونه غير ناقد. وقد رأيت عدة نُسخ للفقه الأكبر فوجدتُها كلها متغايرة. وهكذا «كتاب العالم والمتعلم» «والوسيطين» الصغير والكبير، كلها منسوبة إلى الإمام، لكن الصواب أنها ليست للإمام. »»
««اور جان ليں کہ امام اعظم کي طرف ايمان کے زيادہ اور کم ہونے کےانکارکاقول مشہور ہے، اور بعد ميں اسے ترک کرنے کا، اس کي کوئي صحيح صريح نقل نہيں ملتي۔ گو کہ يہ قول الفقہ الاکبر ميں ان کي طرف منسوب ہے، ليکن وہ (الفقہ الاکبر) ان کي تصنيف نہيں بلکہ ان کےشاگرد ابو مطيع البلخي کي تصنيف ہے۔ اور امام الذھبي نے ان پر کلام کيا ہے اور کہا : وہ جہمي تھا۔ميں (انور کاشميري) کہتا ہوں کہ ايسا نہيں ( ايسا نہيں جيسا امام الذھبي نے کہا) ، ليکن وہ حديث کے باب ميں حجت نہيں ،کيونکہ وہ ناقد نہيں۔ ميں نے الفقہ الاکبر کے متعدد نسخے ديکھے تو ان تمام ميں تغير (اضطراب و اختلاف) پايا۔ اور اسي طرح العالم والمتعلم اور الوسيطين الصغير والكبير، يہ تمام کتابيں بھي امام صاحب کي طرف منسوب ہيں، مگر صحيح بات يہ ہے کہ يہ امام صاحب کي تصانيف نہيں ہيں۔»»ٰ
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 134 جلد 01 فيض الباري على صحيح البخاري مع حاشية البدر الساري ۔ محمد أنور شاه الكشميري - محمد بدر عالم الميرتهي دار الكتب العلمية
الجبائی یعنی ابو علی الجبائی المعتزلی حنفی تھا
الیاس گھمن صاف کو کذب بیانی اور اور فریب کاری تو ان کے استاد امین اکاڑوی سے ورثہ میں ملی ہے، اس امین اوکاڑوی وراثت کا ایک شاہکار ملاحظہ فرمائیں:
الجبائی یعنی ابو علی الجبائی المعتزلی جسے الیاس گھمن صاحب غیر مقلد کہہ کر طعن کر رہے ہیں، دراصل وہ حنفی تھا، اور اس کے حنفی اومعتزلی ہونے کا اعتراف علماء حنفیہ نے صراحتاً کیا ہے۔ ایک حوالہ پیش خدمت ہے:
عبد الحئی لکھنؤی فرماتے ہیں کہ حنفیہ وہ ہیں جو مسائل فروع میں امام ابو حنیفہ کی تقلید کرتے ہیں، اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کہ وہ اصول اور اعتقاد میں امام ابو حنیفہ کی موافقت کریں یا نہ کریں، اگر اصول اور عقائد میں بھی موافقت ہوں تو وہ کامل حنفی ہیں، اور جو اصول اور عقائد میں موافقت نہ رکھتے ہو تو انہیں عقائد میں اپنے مسلک کی قید کے ساتھ حنفی ہیں۔
پھر معتزلی حنفیوں میں زمخشری، نجم الدین زاہدی ، عبد الجبار ، ابو ھاشم کے ساتھ ایک نام الجبائی یعنی ابو علی الجبائی کا بھی گنوایا ہے، کہ یہ فروع میں حنفی تھے اور اصول اور اعتقاد میں معتزلی!!
وتوضيحه ان الْحَنَفِيَّة عبارَة عَن فرقة تقلد الامام ابا حنيفَة فِي الْمسَائِل الفرعية وتسلك مسلكه فِي الاعمال الشَّرْعِيَّة سَوَاء وافقته فِي اصول العقائد ام خالفته فان وافقته يُقَال لَهُ الْحَنَفِيَّة الْكَامِلَة وان لَم توافقه يُقَال لَهَا الْحَنَفِيَّة مَعَ قيد يُوضح مسلكه فِي العقائد الكلامية فكم من حَنَفِيّ حَنَفِيّ فِي الْفُرُوع معتزلي عقيدة كالزمخشري جَار الله مؤلف الْكَشَّاف وَغَيره وكمؤلف الْقنية وَالْحَاوِي والمجتبي شرح مُخْتَصر الْقَدُورِيّ نجم الدجين الزَّاهدِيّ وَقد ترجمتهما فِي الْفَوَائِد البهية فِي تراجم الْحَنَفِيَّة وكعبد الجبار وابي هَاشم والجبائي وَغَيرهم وَكم من حَنَفِيّ حَنَفِيّ فرعا مرجئ اَوْ زيدي اصلا- وَبِالْجُمْلَةِ فالحنفية لَهَا فروع بِاعْتِبَار اخْتِلَاف العقيدة فَمنهمْ الشِّيعَة وَمِنْهُم الْمُعْتَزلَة وَمِنْهُم المرجئة فَالْمُرَاد بالحنفية هَاهُنَا هم الْحَنَفِيَّة المرجئة الَّذين يتبعُون ابا حنيفَة فِي الْفُرُوع ويخالفونه فِي العقيدة بل يوافقون فِيهَا المرجئة الْخَالِصَة
ملاحظہ فرائیں: صفحه 385 – 386 الرفع والتكميل في الجرح والتعديل - أبو الحسنات محمد عبد الحي بن محمد عبد الحليم الأنصاري اللكنوي الهندي، المحقق: عبد الفتاح أبو غدة - مكتب المطبوعات الإسلامية - حلب
ملاحظہ فرائیں: صفحه 178 – 179 الرفع والتكميل في الجرح والتعديل - أبو الحسنات محمد عبد الحي بن محمد عبد الحليم الأنصاري اللكنوي الهندي، المحقق: عبد الفتاح أبو غدة - مكتبة ابن تيمية
اسی عبارت میں عبد الحئی لکھنؤی فرماتے ہیں کہ حاصل کلام یہ ہے کہ باعتبار اختلاف عقیدہ حنفیوں کی کئی شاخیں ہیں، جن میں شعیہ ہیں، جن میں معتزلہ ہیں، جن میں مرجیہ ہیں۔
عبد الحئی لکھنؤی کے اعتراف کے بعد الیاس گھمن صاحب ایک نیا راگ لاپ رہے ہیں!!