• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الیاس گھمن کے اعتراضات کا جواب

عبدالوھاب

مبتدی
شمولیت
جولائی 12، 2015
پیغامات
3
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
3
السلام و علیکم
حال ہی میں،میں نے بھی فیس بک پر ایک ویڈیو دیکھی ہے جو کافی شیئر ہو چکی ہے، جس میں الیاس گھمن صاحب نے اہم مسائل میں اہل حدیث کے اوپراعتراضات کئے ہیں اور اپنے دلائل بھی پیش کئے ہیں،میں چاہتا ہوں کہ علماء کرام ان کے
اعتراضات کے جوابات عنایت فرمائیں تانکہ لوگوں کی اصلاح ہو سکے۔
جن مسائل میں انہوں اعتراض کیا ہے وہ درج ذیل ہیں
ان کا کہنا ہے کہ:
سورۃ فاتحہ پڑھے بغیر نماز ہو جاتی ہے،کیونکہ حدیث موجود ہے
داڑھی کو ایک ہاتھ سے زیادہ نہیں بڑھانا چاہئے کیونکہ یہ خلاف سنت ہے۔
فجر کی نماز کو روشنی میں پڑھنا چاہئے۔
4-اقامت دوہری کہنی چاہئے کیونکہ اکہری والی روایات منسوخ ہیں۔
اگر فجر کی سنتیں رہ جائیں تو پھر سورج کے نکلنے کا انتظار کرنا چاہئے۔
(اس حوالے سے انہوں نے جو احادیث پیش کی ہیں ان کی صحت بھی بتا دیں،جزاکم اللہ خیرا)
 

abujarjees

مبتدی
شمولیت
جون 27، 2015
پیغامات
75
ری ایکشن اسکور
31
پوائنٹ
29
ابن داود بھائی اللہ اپکو جزائے خیر دے اپ نے بھہت اچھا جواب دیا ہے۔
واقعی اس الیاس گھمن کے فتنے کو منہ توڑجواب دینا چاہیے۔۔۔
 

جوش

مشہور رکن
شمولیت
جون 17، 2014
پیغامات
621
ری ایکشن اسکور
320
پوائنٹ
127
الیاس گھمن اگر حق پر ہے تو اسکے کئی پیروکار اہلحدیث ہوگئے ہیں اور ہوتے بھی جارہے ہیں انہیں دلائل کی بنیاد پر واپس کیوں نہیں لے آتا۔۔ شیطان اپنا فریب پھیلاتا ضرور ہے لیکن حق مانتا نہیں ہے
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
@عبدالوھاب
اگر آپ وہ احادیث بھی لکھ دیں تو ان شاء اللہ ان کا مفصل جواب لکھنے میں آسانی رہے گی!!
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
@عبدالوھاب
اگر آپ وہ احادیث بھی لکھ دیں تو ان شاء اللہ ان کا مفصل جواب لکھنے میں آسانی رہے گی!!
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محترم @عبدالوھاب بھائی کو ٹیگ نہیں ہوا تھا، اب کردیا ہے۔
 
شمولیت
مارچ 04، 2015
پیغامات
139
ری ایکشن اسکور
42
پوائنٹ
56
سورۃ فاتحہ نہ پڑھنے کے بارے میں جامع ترمذی کی ایک روایت پیش کی ہے،
جس میں ہے کہ جابر بن عبداللہ رضہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث کہ ’’ سورۃ فاتحہ کے سوائے کوئی نماز نہیں ہوتی‘‘ جو شخص اکیلا پڑھے اس کے لیئے ہے، اور جب امام کے پیچھے ہو تو نہ پڑھے۔
 
Last edited:

مون لائیٹ آفریدی

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 30، 2011
پیغامات
640
ری ایکشن اسکور
409
پوائنٹ
127
اس اعتراض کا کیا جواب ہے
" کہ محدثین منسوخ احادیث یا پہلی دور کی احادیث اپنی کتابوں کی پہلی ابواب میں لاتے ہیں ۔اور ناسخ بعد میں لاتے ہیں ۔
جس طرح کہ اس نے ایک مثال دی ہے کہ صبح کی نماز اندھیرے میں پڑھنے والی حدیث پہلے لائے اور روشنی میں پڑھنے والی حدیث کو بعد میں لائے ہے جس سے یہ ثابت ہوا ہے کہ اندھیرے والی حدیث منسوخ ہے "
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اس اعتراض کا کیا جواب ہے
" کہ محدثین منسوخ احادیث یا پہلی دور کی احادیث اپنی کتابوں کی پہلی ابواب میں لاتے ہیں ۔اور ناسخ بعد میں لاتے ہیں ۔
جس طرح کہ اس نے ایک مثال دی ہے کہ صبح کی نماز اندھیرے میں پڑھنے والی حدیث پہلے لائے اور روشنی میں پڑھنے والی حدیث کو بعد میں لائے ہے جس سے یہ ثابت ہوا ہے کہ اندھیرے والی حدیث منسوخ ہے "
یہ کوئی قاعدہ قانون نہیں، یہ احناف کا ہمیشہ سے وطیرہ رہا ہےکہ ایسے قواعد گڑھتے ہیں کہ کسی طرح اپنے امام کے قول کو درست ثابت کر سکیں۔ اور مذکورہ قاعدہ تو مجھے دیوبند کی پیدائیش کے بعد کا معلوم ہوتا ہے اور غالب گمان یہ ہے کہ یہ قاعدہ امین اکاڑوی کی گڑھنت ہے!!
نوٹ: ویسے یہ قاعدہ پیش کرنے سے پہلے ان مقلدین کو یہ تو تسلیم کرنا چاہیے کہ محدثین مجتہد و فقیہ بھی ہیں!!

پہلے اور بعد محدثین کے ابواب اور ناسخ و منسوخ کے بارے میں مقلدین کی غلط فہمی


اسلام و علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
ایک فورم پر مسئلہ رفع یدین پر گفتگو کے دوران ایک حنفی نے یہ دلیل پیش کی:
رفع یدین سے متعلق آپ نے ترمذی کے حوالے سے جو لکھا کہ امام ترمذی نے پہلے رفع یدین کا باب باندھاپھر عددم رفع یدین کا باب باندھا اور حدیث لائے تو آپ کو شاید محدیثین کا اصول معلوم نہیں کہ محدیثین پہلا باب اس عمل کا لاتے ہیں جو منسوخ ہوچکا ہو اور پھر اس کے بعد اس عمل کا باب لاتے ہیں جو ناسخ ہوتا ہے
دیگر مسائل پر بھی مقلدین اکثر یہ واویلا کرتے نظر آتے ہیں کہ اہلحدیث منسوخ روایات پر عمل کرتے ہیں جبکہ ہم مقلدین ناسخ روایات پر عمل کرتے ہیں اس ضمن میں یہ خود ساختہ قاعدہ و قانون بہت زور و شور سے بیان کیا جاتا ہے کہ محدثین نے پہلے منسوخ اور پھر ناسخ روایات نقل کی ہیں!!! اس خود ساختہ دعوے کی تردید میں بے شمار دلائل پیش کئے جا سکتے ہیں لیکن یہاں ہم صرف دس حوالوں پر ہی اکتفا کر رہے ہیں جو امید ہے مقلدین کی اس غلط فہمی کے ازالے کے لئے کافی و شافی ہوں گے۔1
1:۔امام ابو داؤد نے باب باندھا:
"باب من لم ير الجهر ببسم الله الرحمٰن الرحيم" (سنن ابي داؤد ص ۱۲۲ قبل حديث ۷۸۲)
اس کے بعد امام ابو داؤد نے دوسرا باب باندھا:
"باب من جهر بها" (سنن ابی داؤد ص ۱۲۲ قبل حديث ۷۸۶)
یعنی امام ابو داؤد نے پہلے بسم الله الرحمٰن الرحيم عدمِ جهر (سراً فی الصلٰوة) والا باب لکھا اور بعد میں بسم الله بالجهروالا باب باندھا تو کیا حنفی مقلدین تیار ہیں کہ سراً بسم اللہ کو منسوخ اور جہراً بسم اللہ کو ناسخ قرار دیں؟ اگر نہیں تو پھر ان کا اصول کہاں گیا؟
نوٹ: امام ترمذی نے بھی ترکِ جہر کا پہلے اور جہر کا باب بعد میں باندھا ہے(سنن الترمذي ص ۶۸-۶۷ قبل حديث ۲۴۴-۲۴۵)

2:-امام ترمذی نے باب باندھا:
"باب ما جاء في الوتر بثلاث" (سنن الترمذي ص ۱۲۲ قبل حديث ۴۵۹)
پھر بعد میں یہ باب باندھا:
"باب ما جاء في الوتر بركعة" (سنن الترمذی قبل حديث ۴۶۱)
کیا حنفی مقلدین اپنے خود ساختہ قاعدے و قانون کی رو سے تین وتر کو منسوخ اور ایک وتر کو ناسخ سمجھ کر ایک وتر پڑھنے کے قائل و فاعل ہو جائیں گے؟!!!

3:۔ امام ابنِ ماجہ نے پہلے خانہ کعبہ کی طرف پیشاب کرنے کی ممانعت والا باب باندھا:
"باب النهي عن استقبال القبلة بالغائط والبول" (سنن ابن ماجه ص ۴۸ قبل حديث ۳۱۷)
اور بعد میں یہ باب باندھا:
"باب الرخصة في ذلك فی الكنيف و إباحته دون الصحاري"(یعنی صحراء کی بجائے بیت الخلاء میں قبلہ رخ ہونے کے جواز کا بیان)(سنن ابن ماجه ص ۴۹ قبل حديث ۳۲۲)
مقلدین بتائیں کہ کیا وہ اپنے خود ساختہ اصول کی وجہ سے قبلہ رخ پیشاب کرنے کی ممانعت کو منسوخ سمجھتے ہیں؟

4:- امام نسائی نے رکوع میں ذکر (یعنی تسبیحات) کے کئی باب باندھے مثلاً:
"باب الذكر في الرکوع" (سنن النسائي ص ۱۴۴قبل حديث ۱۰۴۷)
اور بعد میں یہ باب باندھا:
"باب الرخصة في ترك الذكر في الركوع" (سنن النسائي ص ۱۴۵قبل حديث ۱۰۴۵)
کیا تقلیدی قاعدے کی رو سے رکوع کی تسبیحات پڑھنا بھی منسوخ ہے؟

5:- امام ابن ابی شیبہ نے نماز میں ہاتھ باندھنے کا باب درج زیل الفاظ میں لکھا:
"وضع اليمين علی الشمال" (مصنف ابن ابي شيبة ۳۹۰/۱ قبل حديث ۳۹۳۳)
اور بعد میں یہ باب باندھا:
"من كان يرسل يديه في الصلٰوة" (مصنف ابن ابي شيبة جلد ۱ ص۳۹۱ قبل حديث ۳۹۴۹)
کیا حنفی اپنے تقلیدی اصول کی رو سے ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھنے کے لئے تیار ہیں؟

6:-امام نسائی نے پہلے نمازِ عصر کے بعد نوافل پڑھنے کی ممانعت والا باب باندھا:
"النهی عن الصلاة بعد العصر" (سنن النسائي ص ۷۸ قبل حديث ۵۶۷)
اور بعد میں یہ باب باندھا:
"الرخصة في الصلاة بعد العصر" (سنن النسائي ص ۷۹ قبل حديث ۵۷۴)
کیا حنفیوں کے تقلیدی قاعدے کی رو سے عصر کے بعد نوافل کی ممانعت والی حدیث منسوخ ہے؟

7: -امام ابو داؤد نے تین تین دفعہ اعضائے وضو دھونے کا باب باندھا:
"باب الوضوء ثلاثاً ثلاثاً" (سنن ابي داؤد ص ۲۹ قبل حديث ۱۳۵)
اور بعد میں ایک دفعہ اعضائے وضو دھونے کا باب باندھا:
"باب الوضوء مرة مرة" (سنن ابي داؤد ص ۳۰ قبل حديث ۱۳۸)
کیا وضو میں تین تین دفعہ اعضاء دھونا منسوخ ہے؟ اگر نہیں تو تقلیدی قاعدہ کہاں گیا؟

8:-امام نسائی نے سجدوں کی دعا کے کئی باب باندھے مثلاً:
"عدد التسبيح في السجود" (سنن النسائي ص ۱۵۷ قبل حديث ۱۱۳۶)
اور بعد میں یہ باب باندھا:
"باب الرخصة في ترك الذكر في السجود" (سنن النسائي ص ۱۵۷ قبل حديث۱۳۷)
کیا تقلیدی قاعدے کی رو سے سجدے کی تسبیحات بھی منسوخ ہیں؟

9:-امام ابن ابی شیبہ نے" من قال:لاجمعة ولا تشريق الا في مصر جامع"کا باب باندھ کر وہ روایات پیش کیں جن سے بعض لوگ یہ استدلال کرتے ہیں کہ گاؤں میں جمعہ نہیں پڑھنا چاہئے(مصنف ابن ابي شيبة ۱۰۲/۲ قبل حديث ۵۰۵۹)
اور بعد میں یہ باب باندھا:
"من كان يری الجمعة في القری وغيرها"یعنی جو شخص گاؤں وغیرہ میں جمعہ کا قائل ہے پھر وہ صحیح روایات پیش کیں جن سے گاؤں میں نماز جمعہ پڑھنے کا ثبوت ملتا ہے۔(مصنف ابن ابي شيبة جلد ۲ ص ۱۰۱-۱۰۲ قبل حديث ۵۰۶۸)
کیا حنفی اپنے نرالے قاعدے کی لاج رکھتے ہوئے گاؤں میں نماز جمعہ کی مخالف تمام روایات کو منسوخ سمجھتے ہیں؟

10:- امام ابن ابی شیبہ نے نماز جنازہ میں چار تکبیروں کا باب باندھا:
"ما قالوا فی التكبير علی الجنازة من كبّر أربعاً" (مصنف ابن ابي شيبة ۲۹۹/۳ قبل حديث ۱۱۴۱۶)
اور اس کے فوراً بعد پانچ تکبیروں کا باب باندھا:
"من كان يكّبر علی الجنازة خمساً" (مصنف ابن ابي شيبة ۳۰۲/۳ قبل حديث ۱۱۴۴۷)
کیا کسی حنفی میں جرات ہے کہ وہ اپنے تقلیدی قاعدے کی لاج رکھتے ہوئے جنازے کی چار تکبیروں کو منسوخ اور پانچ کو ناسخ کہہ دے؟

بشکریہ ابو طلحہ السلفی
 
Top