مزید آپ نے لکھا ہے کہ
ہندوستان اور جمہوریت:
ہندوستان دنیا کا سب سے بڑا جمہوری نظام ہے جس میں مختلف رنگ ونسل کے اور مختلف زبانوں کے بولنے والے،مختلف مذاہب والے ،اورمختلف المسلک افراد رہتے ہیں ۔یہاں کے دستوری آئین کے مطابق سب کو ہرطرح کی آزادی ہے خصوصاً مذہبی آزادی ،اس ملک کی یہ خاص صفت اور خوبی ہے کہ یہاں تمام مذاہب کے ماننے والوں کو مکمل مذہبی آزادی ہے ،ان کو اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزارنے کی مکمل آزادی ہے ،حتیٰ کے ان کی مذہبی عدالتیں بھی ہیں، جیسا کہ مسلمانوں کی شرعی عدالتیں ،اور جگہ جگہ شرعی دارالافتاء ہیں ،حکومت ان میں کوئی مداخلت نہیں کرتی،غرض کہ ہر انسان خصوصاً مسلمان مسلم ممالک کی بنسبت ،ہندوستان میں زیادہ پر امن اور آزاد ہے۔اور یہاں کا باعزت شہری ہے ، اس ملک کے صدور بھی مسلمان ہوئے ہیں ۔اس اعتبار سے مسلمانوں کا اس ملک کے قوانین سے ہم آہنگ ہوجانے میں کوئی قباحت نہیں۔
میرے ناقص علم کے مطابق بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ خاص تعصب کیا جاتا ہے اور اس کی دلیل بھارت میں آئے رو مسلمانوں کی نسل کشی کے واقعات ہیں جن کا انکار کوئی بھی نہیں کرسکتا ہے ہندؤ بھی مانتے ہیں کہ مسلمانوں کو ظلم کا نشانہ بنایا جاتا ہے میری کئی ایک ہندوؤں سے بات ہوچکی ہے، آپ نے صرف جمہوریت میں شامل ہونے کے لیئے بھارت خوب تعریف کی ہے مگر بھائی ایک بات یاد رکھیں اگر بھارت حقیقتاً بھی ایسے ہی اوصاف رکھتا ہو تو بھی مسلمان اس ملک کے قوانین سے ہم آہنگ نہیں بن سکتے ہیں کجا یہ کہ وہاں مسلمان انتہائی مظلومیت کی ندگی گزار رہے ہیں خیر آپ یہی بات یاد رکھیں کہ کسی کافر کا خوش مزاج ہونا ہمارے لیئے اس بات کے دروازے نہیں کھول دیتا کہ ہم اس کی ملت کی پیروی کرنے لگیں۔
ووٹ کی شرعی حیثیت اور اکابر علماء کرام:
ہمارے اکا برین علماء کرام میں والدی حضرت مفتی عزیزالرحمٰن صاحب بجنوری نوراللہ مرقدہ ، حضرت مفتی کفایت اللہ صاحبؒ،حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحبؒ اور حضرت مفتی شفیع صاحب ؒ اور عصری علماء کبار میں حضرت مولانا تقی عثمانی صاحب حفظہ اللہ اور حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب مد ظلہ العالی نے الیکشن میں کسی امیدوار کوووٹ دینے کی جو حیثیا ت قرآن وحدیث کی روشنی میں بیان کی ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں۔
بھائی جان کوئی کتنا بڑا مرضی مولوی ہو اس کی بات اگر قرآن اور احادیث کی نصوص سے ٹکرائے تو اس کی بات اس کے منہ پر ماری جائے گی اپنائی نہیں جائے گی اگر ہم پھر بھی علماء کی باتوں کو لیں اور قرآن و حدیث کو پسِ پشت ڈال دیں تو ہم بھی پھر انہی میں سے ہو جائیں گے
اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ
ان لوگوں (یہود و نصاریٰ )نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے عالموں اور درویشوں کو رب بنایا ہے التوبہ : 31
اب اگر ہمارا رویہ بھی ان جیسا ہو گیا تو ہم بھی اس آیت کی ذد میں آ جائیں گے اس لیئے بھائی جان علماء و مشائح کی اعطاعت مشروط ہے قرآن و حدیث کے ساتھ۔
جن علماء نے کافروں کے نظام کو اپنانے کی ترغیب دی ہے اور ایک کفریہ نظام کو اپنایا اسلام کے نظام کو چھوڑا بتائیں ایسے علماء کی کیسے اعطاعت کی جائے؟؟؟
اللہ نے حکم دیا تھا کہ اسلام کے نظام کو سارے باطل اور کفریہ نظاموں پر قائم کرو اگر ہم خود ہی باطل اور کفریہ نظاموں کو قائم کرنے والوں میں سے ہو جائیں گے تو اسلام کے پاکیزہ اور منزل من اللہ نظام کو کون قائم کرنے آئے گا؟؟؟
بھائی جان نما ز، روزہ، حج اور زکوٰۃ کا نام ہی صرف اسلام ہے اگر ایسا ہی ہے تو مجھے بتائیں کہ اسلام کو باقی ادیان پر کیسے قائم کیا جائے گا؟؟؟
ووٹ بحیثیت مشورہ: ووٹ کی ایک حیثیت مشورہ کی ہے جسکے ذریعہ ایک ووٹر سے یہ مشورہ لیا جاتا ہے کہ یہ امیدوار جو ملکی اقتدار میں شامل ہونے کا خواہش مند ہے کیا اس کا انتخاب ملک قوم وملت کے حق میں مفید رہے گا یا نہیں۔ شریعت کی رو سے جس سے مشورہ لیا جاتا ہے اس کی حیثیت امین کی ہوتی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
اِنَّ اللہَ يَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓى اَھْلِھَا۰ۙ ( النساء :۸۵)
خدا تم کو حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں ان کے حوالے کردیا کرو
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
’’الْمُسْتَشَارُ مُؤتَمَن‘‘ (الحدیث) أخرجه أبو داود والترمذي وحسنه وابن ماجه وإسناده صحيح
جس سے مشورہ طلب کیا جائےوہ اس کا امین ہوتا ہے
اس کا مطلب یہ ہےکہ مشورہ دینےوالے کو مشورہ اپنی یا کسی دوسرے کی غرض کو شامل کئے بغیر دینا چاہئے اور اس مشورہ کو بطور امانت اپنے پاس محفوظ رکھنا چاہئے اور ہر کسی پر اس کا اظہار نہیں کرنا چاہئے۔
کسی بیوقوف کو گمراہ کرنے کے لیئے اچھا حیلہ ہے مگر بھائی جان جو لوگ اسلام کی اساس اور اس کے نظام سے واقف ہیں ان کو آپ کیسے دھوکہ دے سکو گے؟؟؟
یہ باتیں بعد کی ہیں پہلے یہ ثابت کریں کہ آخر یہ جمہوریت جو اسلام کے نظام خلافت کے مقابل ایک نظام ہے کیونکر اسلام ہے؟ جو آپ اس کو قائم کرنے کے لیئے باطل تاویلات پیش کر رہے ہیں؟؟؟
ووٹ کسی قیمت پر مشورہ کی حیثیت نہیں رکھتا کیونکہ یہ جمہوری نظام ووٹ کی گنتی کرتا ہے کہ کس کو زیادہ وصول ہوئے اور کس کو کم جس کو زیادہ ملے وہی حقدار مسند، کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ کم ووٹ حاصل کرنے والا حکمرانوں کی لسٹ میں شامل ہوا ہو؟؟؟ ایسا کبھی بھی نہیں ہوا ناں تو سمجھ لیں یہ مشورہ نہیں تھا بلکہ فیصلہ تھا اگر مشورہ ہوتا تو کبھی کبھی کم تعداد والوں کی بھی مانی جاتی ہے جیسا کہ ہماری ذاتی زندگی میں بھی ہم خود وہ مشورہ اپناتے ہیں جو ہم خود بہتر اور اچھا سمجھیں وہ بےشک ایک ہی بندے کا دیا ہوا مشورہ ہو اور اس کے خلاف دس مشورے بھی ہوں تو ہم ان کو رَد کر دیتے ہیں تو بھائی جان آخر ایسا اس جمہوری نظام میں کیوں نہیں ہوتا اگر یہ مشورہ ہے تو؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
آپ نے باقی جو جو ووٹ کو حیثیت دی ہے مثلاً وو ٹ بحیثیت وکالت: وو ٹ بحیثیت شہادت و گواہی: وو ٹ بحیثیت سفارش و شفاعت،،، میرے نزدیک ان کی کوئی اہمیت نہیں ہے کیونکہ یہ سب باتیں کسی جاہل کے لیئے موجب گمراہی تو ہوسکتیں ہیں میرے لیئے نہیں الحمدللہ،
جمہوریت کو قائم کرنے کے لیئے امریکہ ایک طرف ڈالر دے رہا ہے اور جو ڈالروں سے نہیں مانتے ان کو طاقت سے کچل کر اپنا کفریہ نظام جمہوریت قائم کر رہا ہے اور کہیں پر یہ اپنے ایجنٹوں سے قائم کروا رہا ہے کیونکہ امریکی صدر بش کا میں یہ بیان خود سن اور پڑھ چکا ہوں کہ ہم جمہوریت کو پوری دنیا پر قائم کریں گے اگر یہ اسلامی نظام ہے تو اس کافر کو کیوں اتنی فکر ہے اس کو پوری دنیا پر نافذ کرنے کی؟؟؟ اور اسی بش کے آباؤ اجداد نے خلافت عثمانیہ کو پہلی جنگ عظیم میں ختم کیا تھا اور خلافت کے لاکھوں مربع کلو میٹر علاقے کو چھوٹی چھوٹی سلطنتوں میں تقسیم کر دیا تھا اور تب سے اب تک یہ کافر لوگ مسلمانوں کو تقسیم در تقسیم ہی کرتے آئے ہیں اب تو ہم لوگ اسلام کے نظام کو ہی بھول گے ہیں اور جمہوریت کے کفریہ نظام کو ہی اسلامی کہہ کر اپنی جان چھوڑا رہے ہیں کہ کہیں ہم کو اسلام کے نظام کو قائم کرنے کے لیئے جان و مال کی قربانی نہ دینی پڑ جائے اسی لیئے اسی کفریہ نظام کو اسلامی بنالو واہ رے دنیا کی محبت تو بھی کمال کی ہو حرام کو حلال اور حلال کو حرام تم ہی کرواتی ہو مگررررر بھائیو یہ زندگی ختم ہونے والی ہے اس کی فکر کریں جو ابدی زندگی ہے یعنی آخرت کی زندگی، اگر ہمارے پاس اسلام کا نظام حیات نہیں تو سمجھ لیں ہم بغیر آنکھوں کے ہی زندگی گزار رہے ہیں بالکل اندھے نہ خود سیدھی راہ پر چل رہے ہیں اور نہ ہی اپنے پیچھے آنے والوں کو چلا رہے ہیں۔
وقت کافی ہو گیا باقی کل ان شاءاللہ