السلام علیکم
محترم عاصم بھائی
والسلام علیکم
میں زیادہ باتیں نہیں کرنا چاہتا مطلب کی اور صاف بات
دیکھیں بھائی آپ خود اب کہہ رہے ہیں کہ یہ نظام باطل ہے مگر ہم مجبور ہیں اس میں شامل ہونے کے لیئے کیونکہ اگر اس میں شامل نہ ہوں تو ہندو مسلمانوں پر چھا جائیں گے
آپ کو معلوم ہی ہے کہ جب مشرکین مکہ نے نبی ﷺ کو دعوت اسلام سے روکنا چاہا تو آپ ﷺ کو ہر طرح کی لالچ دی حتیٰ کہ اپنا بادشاہ بھی بنانا چاہا تو کیا نبی ﷺ نے ان کی یہ دعوت قبول کر لی تھی؟؟؟
نہیں کی کیونکہ یہ مقصد ہی تھا کہ میں بادشاہ بنوں، دوسرا اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ حکومت ہمارے پاس آ جائے تو ہم اسلامی قانون نافذ کر دیں گے ہم جمہوریت کے کفر میں اس لیئے داخل ہوئے ہیں کہ جب پارلیمنٹ میں ہماری اکثریت ہو جائے گی تو ہم اسلامی قوانین نافذ العمل بنادیں گیں ان کا طریق باطل ہوا، اسلام یہ نہیں چاہتا کہ آپ لوگوں کو زبردستی مسلمان بناؤ بلکہ آپ ان کو دعوت، اپنے اخلاق سے اور اسلام کے پاکیزہ قوانین کا بتا کر ان کے دلوں کو اس پر مطمئین کریں تاکہ وہ دل سے اسلام قبول کریں اور دوسرا اگر ہم قرآن اور سنت کے دعویدار ہیں تو ہم کو وہی رستہ اپنانا چاہیئے جو قرآن اور سنت سے ملے چاہے وہ رستہ پُر خطر اور جان جوکھوں والا ہی کیوں نہ ہو ،
تیسرا یہ کہ اللہ ہماری کامیابی یا ناکامی پر اجر نہیں دے گا بلکہ اجر تو دین پر ثابت قدمی سے ملے گا اور دین پر ثابت قدمی کیا ہے؟؟ کیا صرف نما ز، روزہ، حج اور زکوٰۃ کی ادائیگی ہی دین ہے؟؟ نہیں بلکہ اصل دین پر کامل عمل تب بنے گا جب ہم اسلام کے نظام حیات کو باقی باطل نظاموں پر قائم کرنے کی کوشش کریں گیں۔ کافروں کو ہماری صوم و صلوۃ سے خطرہ نہیں ہے بلکہ اسلام کے نظام سے خطرہ ہے جس کا وہ اظہار بھی کرتے ہیں جیسا کہ وہ کہتے ہیں کہ ہم دنیا میں کہیں بھی خلافت کے قیام کی کوشش کو طاقت سے کچل کر رکھ دیں گے، مگر یہی بات آپ بھائی لوگ نہیں سمجھ رہے کہ ایک مسلم پر جمہوریت کو قائم کرنے کی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ اسلام کے نظام کو قائم کرنے کی ذمہ داری ہے اور اس کا طریقہ بھی وہی اپنانا ہے جو ہم کو سنت رسول ﷺ سے ملتا ہے کیونکہ صرف وہی طریقہ ہی ہم کو کامیابی سے ہمکنار کرسکتا ہے نئے نئے طریق اور نظام ہم کو اصل دین اور نظامِ خلافت سے دور لے جا رہے ہیں۔
اور رہا معاملہ کہ خود کو امارت کے لیے پیش کرنے کا تو اس پر میں نبی ﷺ کی بات سے آگے نہیں بڑ سکتا ہے جیسا آپ کا ارشاد ہے بس وہیں رہونگا کیونکہ آپ ﷺ نے ایک دفعہ اس امر کا اظہار نہیں کیا بلکہ 2،3 بار اس کا حکم لگایا ہے، رہا معاملہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا تو میں ان برگزیدہ لوگوں بارے اچھی اور صاف رائے رکھتا ہوں کیونکہ نبی ﷺ کا حکم ہے میرے بعد میرے اصحاب کو تحتہء مشق نہ بنانا اس لیئے ہم وہ اصول لیں گے جو ہم کو نبی ﷺ نے دیئے ہیں، باقی اس مسئلے پر اختلاف ہو بھی جائے تو کوئی مزائقہ نہیں ہے مگر اصل معاملہ تو ہے جو آپ نے ایک حرام امر کو حلال ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی ہے اور اب آپ خود اس بات کو کہہ رہے ہیں کہ میں اس جمہوری نظام کو باطل سمجھتا ہوں مگر پہلے آپ یہ بھی لکھ چکے ہیں کہ جو ووٹ کا استعمال نہ کرئے وہ گناہگار ہے!!!
پہلے تو یہ عرض کردوں اس جمہوری یا کفریہ نظام سے جتنی نفرت آپ کو ہے ہوسکتا ہے کہ اس سے زیادہ مجھے ہو
دوم : یہ مقالہ میں نے ہندوستانی تناظر میں لکھا تھا
یہ بات مان سکتا ہوں یہ اوپن فورم ہے تو مضمون سبھی کے لیے اوپن دعوت ہے اسی لیے میں تسلیم کررہاہوں کہ یہ نظام باطل ہے اور اصل قانون شرعی قانون ہے
مجھے خوشی اس بات کی ہے کہ آپ اپنے نظریہ پر ڈٹے نہیں بلکہ رجوع کیا ہے یہی ایک مسلم کی نشانی ہوتی ہے جب غلطی کر بیٹھے تو شیطان کی طرح اس پر ڈٹ نہ جائے بلکہ اللہ کی طرف رجوع کر ئے تو اللہ کو معاف کرنے والا پائے گا۔
اب بھائی بات پہنچی ہے کہ مجبوری اور مغلوبیت میں کیا طریقہ اختیار کیا جائے جس سے ایمان پر بھی حرف نہ آئے اور دنیا میں بھی باعزت طور پر رہا جائے ؟؟؟
کیا کسی دور میں مغلوبیت میں مسلمانوں نے موجودہ طاغوت کی اطاعت و فرمابرداری کی ہے یا اس کے خلاف دعوت و تبلیغ کا کام کیا ہے؟؟؟
کفار کی مجلس میں بیٹھنے کا کیا حکم ہے؟ اگر بیٹھا جائے تو اس کے کیا اصول و شرائط ہیں؟؟؟
نبی ﷺ نے جو دعوت و جہاد کا طریق ہم کو دیا ہے کیا اب نئے دور و زمانہ کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اس طریقہ کو چھوڑا جاسکتا ہے؟؟؟
:::ہم ذرائے تو اختیار کرسکتے ہیں مگر کیا اصول و شرائط بھی تبدیل کرسکتے ہیں یہ بتایا جائے:::