کفایت اللہ
عام رکن
- شمولیت
- مارچ 14، 2011
- پیغامات
- 5,001
- ری ایکشن اسکور
- 9,805
- پوائنٹ
- 773
تعجب کی بات تویہ ہے کہ امام ابوحنیفہ کامبلغ علم ناپنے والے مجتہد کو عربی نہیں آتی اورقرآن وحدیث عربی میں ہے
اورتعجب بالائے تعجب یہ ہے کہ ایک ایسے امام کو دین کا ماہر بتلایا جاتاہے جو بقول امام ابن المبارک رحمہ اللہ حدیث میں مسکین اوریتیم تھے ۔
امام ابن ابی حاتم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
نا عبدان بن عثمان قال سمعت بن المبارك يقول كان أبو حنيفة مسكينا في الحديث [الجرح والتعديل موافق 8/ 449 وسندہ صحیح عبدان ھو الحافظ العالم أبو عبد الرحمن عبدالله بن عثمان بن جبلة بن أبي رواد]
امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ثنا محمد بن يوسف الفربري ثنا على بن خشرم ثنا على بن إسحاق قال سمعت بن المبارك يقول كان أبو حنيفة في الحديث يتيم [الكامل في الضعفاء 7/ 6 وسندہ صحیح یوسف الفربری من رواۃ الصحیح للبخاری]
امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
سمعت محمد بن محمود النسائي يقول : سمعت علي بن خشرم يقول : سمعت علي بن إسحاق السمرقندي يقول : سمعت ابن المبارك يقول : كان أبو حنيفة في الحديث يتيما [المجروحين لابن حبان 2/ 331 وسندہ حسن ]
اس کے ساتھ ایک مصیبت یہ بھی تھی امام صاحب مدلس بھی تھے :
امام ابن ابی حاتم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
نا احمد بن منصور المروزي قال سمعت سلمة بن سليمان قال قال عبد الله يعنى بن المبارك ان أصحابي ليلوموننى في الرواية عن أبى حنيفة وذاك انه أخذ كتاب محمد بن جابر عن حماد بن أبى سليمان فروى عن حماد ولم يسمعه منه [الجرح والتعديل موافق 8/ 449 وسندہ صحیح]
امام عبداللہ بن احمدبن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
حدثني عبدة بن عبد الرحيم مروزي شيخ صالح أنا سلمة بن سليمان قال دخل حمزة البزار على ابن المبارك فقال يا أبا عبد الرحمن لقد بلغني من بصر أبي حنيفة في الحديث واجتهاده في العبادة حتى لا أدري من كان يدانيه فقال ابن المبارك أما ما قلت بصر بالحديث فما لذلك بخليق لقد كنت آتيه سرا سفيان وان أصحابي كانوا ليلوموني على أتيانه ويقولون أصاب كتب محمد بن جعفر فرواها [السنة لعبد الله بن أحمد 1/ 212 قال محقق الکتاب : اسنادہ حسن وھو کذالک]
اوراوراس پر مستزاد یہ کے موصوف سئ الحفظ بھی تھے :
علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وهذا إسناد رجاله ثقات إلا أن أبا حنيفة رحمه الله على جلالته في الفقه قد ضعفه من جهة حفظه البخاري، ومسلم، والنسائي، وابن عدي، وغيرهم من أئمة الحديث، ولذلك لم يزد الحافظ ابن حجر في " التقريب " على قوله في ترجمته: فقيه مشهور! [سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة وأثرها السيئ في الأمة 1/ 572]
مزید تفصیل کے لئے یہ لنک دیکھیں :امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے سلسلے میں محدث عصر علامہ البانی رحمہ اللہ کی تحقیق۔
اورمصیبت بر مصیبت یہ کہ محض اپنی رائے وقیاس سے سنن واحادیث کو رد کردیا کرتے تھے۔
حمادبن سلمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
حماد بن سلمہ فرماتے ہیں:
إِن أَبَا حنيفَة اسْتقْبل الْآثَار وَالسّنَن يردهَا بِرَأْيهِ [العلل ومعرفة الرجال : 2/ 545 وسندہ صحیح ، وانظر:الكامل في الضعفاء 7/ 8،تاريخ بغداد 13/ 408 ]
علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
فإن قلتم بشرعيته خالفتم سنة نبيكم وضللتم وهذا مما لا نرجوه لكم وإن قلتم بعدمها - كما هو الظن بكم - أصبتم وبطل فلسفتكم ولزمكم الرجوع عنها والاكتفاء في ردكم علي بالأدلة الشرعية إن كانت عندكم فإنها تغنيكم عن زخرف القول وإلا حشرتم أنفسكم في (الآرائيين) كما روى أحمد في " العلل " (٢ / ٢٤٦) عن حماد بن سلمة قال: إن أبا حنيفة استقبل الآثار والسنن يردها برأيه [الرد المفحم للالبانی :ص: 13]۔
اب غورکریں :
- اول: تو امام کا سرمایہ علم بہت قلیل تھا۔
- دوم: وہ مدلس بھی تھے ، یعنی تھوڑ بہت جو تھا بھی وہ بھی محل نظر ٹہرا
- سوم: وہ سیء الحفظ بھی تھے، یعنی اس قلیل سرمائے کو بھی صحیح طرح سے محفوظ نہ کرسکے۔
- چہارم : وہ محض اپنی رائے وقیاس سے سنن واحادیث کو رد کردیتے یعنی جو پوجی کسی طرح بچی بھی تھی وہ امام صاحب کی عقل و رائے کے بھینٹ چڑھ گئی۔
اب ان حقائق کے بعد بتلائے کی دینی معلومات میں امام صاحب کی حیثیت ہی کیا ہے کہ ان پر رد کرنے کے لئے متخصص ہونے کی ضرورت پڑے ایسے لوگوں پر گلی محلہ کے بچے بھی بآسانی رد کرسکتے ہیں جیسا کہ امام صاحب کے شاگر محمد بن الحسن کے بارے میں آتا ہے ۔
چنانچہ امام فسوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
سمعت نعيم بن حماد يقول : قال غلام بالمدينة لمحمد بن الحسن : ما تقول في تمرة برطبتين ؟ قَال : لا بأس به. قَال : يا عم تجهل السنن ونتكلم في المعضلات. [المعرفة والتاريخ موافق 2/ 791 واسنادہ حسن]۔
کیا عہد نبوت میں غیرعربی باتوں کا ترجمہ عربی میں کیا جاتا تھا کہ ؟ نہیں اگر ہاں تو کیا عہدنبوت میں تقلید ہوتی تھی؟؟؟تواب ظاہر ہے کہ ترجمہ سے کام چلاتے ہیں اب ترجمہ نگار کی تقلید کرکے یہ عدم تقلید کے داعی خودکہاں پھنس رہے ہیں۔
جی ہاں طعن وتشنیع صرف امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ پر نہیں ہونی چاہئے اس کے برخلاف ہرایک کو چاہیں کہہ دیں کوئی مضائقہ نہیں ، جیسا کہ مشہورومعروف کذاب اور مجرم اثیم زاہد کوثری نے کیا ہے کہ امام صاحب کا دفاع کرتے ہوئے نہ صرف اجلہ ائمہ بلکہ صحابہ تک پر طعن وتشنیع کر ڈالا ۔یہ چند باتیں اس لئے عرض کردی گئی ہیں کہ ائمہ مجتہدین کی بات سے اختلاف کرنا گناہ نہیں لیکن طنع وتشنیع کرنا یقینا قلب کی سیاہی کا باعث ہے اورایساانسان دین ودنیا دونوں میں ناکام اورخسرالدنیا والآخرہ کامصداق ہوتاہے۔
بہرحال یہ چند باتیں ایسے لوگوں کیلئے جوسمجھناچاہتے ہیں مفید ثابت ہوں گی اورعلمی وفقہی مباحث میں ائمہ کرام پر طنزوتشنیع سے باز رہیں گے۔فذکر فان الذکری تنفع المومنین
صرف ایک امام کے دفاع کے لئے پوری ملت کے ائمہ کرام کی حیثیت کو فراموش کردینا یہ کسی عقلمند کا کام نہیں ہوسکتا۔