حبیب زدران
رکن
- شمولیت
- دسمبر 28، 2011
- پیغامات
- 153
- ری ایکشن اسکور
- 420
- پوائنٹ
- 57
جزاک اللہ آفتاب بھائی اور جمشید بھائی
بھائی آفتاب نے مدلل اور واضح جواب دیا ہے۔
بھائی آفتاب نے مدلل اور واضح جواب دیا ہے۔
آپکی لغت میں مدلل اور واضح جواب نجانے کس کو کہتے ہیں؟ ورنہ حقیقت حال تو یہ ہے کہ ہم نے ابوحنیفہ پر کلام اللہ کی مخالفت کا مقدمہ قائم کیا تھا جس پر آفتاب صاحب اور جمشید صاحب امام صاحب کا دفاع کرنے میں مکمل طور پر ناکام و نامراد رہے۔ آپ سے درخواست ہے کہ تمام ذریت دیوبند کو جمع کرلیں اور ڈھائی سال مدت رضاعت کی دلیل قرآن و حدیث سے پیش فرمادیں۔ وگرنہ ایسے فضول تبصرے کرکے آپ صرف اپنے دل کو ہی خوش کر سکتے ہیں اور ابوحنیفہ کا فتویٰ بابت مدت رضاعت خلاف قرآن ہی رہے گا۔جزاک اللہ آفتاب بھائی اور جمشید بھائی
بھائی آفتاب نے مدلل اور واضح جواب دیا ہے۔
کیا مقلدین کو اس بات پر تعجب نہیں ہوتا کہ انکے امام صاحب علمی لحاظ سے اتنے یتیم تھے کہ ان کے پاس اپنے فتووں کو ثابت کرنے کے لئے کوئی ایسی چیز نہیں تھی جن کو وہ دلائل کے نام پر اپنے ماننے والوں کے سامنے پیش کرتے؟! اور اب دلائل کی دستیابی کا کٹھن کام ان مقلدین کو کرنا پڑ رہا ہے جو سرے سے اس کے اہل ہی نہیں اور جو تقلید ہی اس لئے کرتے ہیں کہ دلائل نہیں جانتے یا تساہل کی وجہ سے جاننا ہی نہیں چاہتے۔ یہی وجہ ہے کہ امام صاحب کے فتویٰ کی دلیل نہ پاکر شبیر احمد عثمانی دیوبندی کو کہنا پڑا کہ امام صاحب جو رضاعت مدت ڈھائی سال بیان کرتے ہیں ان کے پاس کوئی اور دلیل ہوگی۔(تفسیر عثمانی) مقلدین کو چاہیے کہ وہ چراغ نہیں سورج لے کر اپنے امام کی دلیل تلاش کرکے لائیں اور انکو قرآن کی مخالفت یا قرآن سے جہالت کے الزام سے بری کروائیں۔شاہد نذیر صاحب میرے دعاییہ کلمات سے خدا جانے کیوںبھپر گئے ہیں؟
مدلل جواب ایسے کہ اآفتاب بھائی نے باقاعدہ قرآنی حوالاجات دے کرامام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ علیہ پر لگائے گئے الزام کا بھانڈا پھوڑڈالا۔ اور واضح ایسے کہ احناف کا مفتی بہہ قول بھی مدلل سامنے رکھ دیا۔
ایک بار پھر آپ کی آنکھیں کھولنے کیلئے دلیل لکھ رہا ہوں
احناف کا مشہور اصول ہے کہ مسئلہ پہلے کتاب اللہ سے دیکھتے ہیں
قرآن ہماری کتاب ہے اس میں ایک سورت ہے ٣٥ آیتوں والی احکاف کے نام سے۔ یہ سورہ احکاف ٤٦ نمبر پر آتی ہے۔ اس میں آیت نمبر ١٥ کا ترجمہ ہے
"اور ہم نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ نیکی کرنے کی تاکید کی کہ اسے اس کی ماں نے تکلیف سے اٹھائے رکھا اور اسے تکلیف سے جنا اوراس کا حمل اور دودھ کا چھڑانا تیس مہینے ہیں"
اتنا صاف لکھا ہے ٣٠ مہینے۔۔۔۔۔
ایک سال میں ١٢ مہینے ہوتے ہیں اس حساب سے ٣٠ مہینے ڈھائی سال بنتے ہیں۔
شاہد بھائی جزاکم اللہ ۔٤۔ احادیث اور کتب تفاسیر میں ایک حدیث ہے کہ آپ کے پاس ایک عورت کو لایا گیا جس نے چھ مہینے کا بچہ جن دیا تو اس پر لوگوں نے بدکاری کا الزام لگا دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت (سورۃ احقاف:١٥) کو دلیل بنا کر فیصلہ فرمایا تھا کہ دو سال مدت رضاعت نکال دو باقی چھ ماہ بچتے ہیں لہذا اگر کوئی عورت چھ ماہ کا بچہ جن دے تو جائز ہوگا۔(بحوالہ خرافات حنفیت، صفحہ ٧٦)
معلوم ہوا کہ سورۃ احقاف کی آیت نمبر١٥ میں تیس مہینے یعنی ڈھائی سال سے مراد رضاعت کے دو سال اور حمل کے چھ ماہ ہیں۔ اب یہ بھی معلوم ہوا کہ قرآن کی جس آیت کو حنفی حضرات ڈھائی سال مدت کی رضاعت کے لئے پیش کررہے ہیں اسی آیت سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم رضاعت کی مدت دو سال بیان فرمارہے ہیں۔ یہ کیسے لوگ ہیں جو اپنے امام کو بچانے کی خاطر اپنے نبی کی کھلی مخالفت کررہے ہیں؟؟؟
بھائی جان آپ کیوں دیں گے۔؟ اور آپ دے بھی کیوں سکتے ہیں شیخ الالسلام امام ابن تیمیہؒ کا شادی نہ کرنا ذاتی فعل تھا۔اور ابوحنیفہ کا فتوی پوری مقلدیت کےلیے ہے۔جس پر آپ جیسے کثیر تعداد میں لوگ دفاع کرتے ہوئے قرآن وحدیث کے صحیح مطلب کو کہاں سے کہاں تک لے جا چکے ہیں۔کیاہم بھی آپ کی طرح ابن تیمیہ پر احادیث کے علم کے تعلق سے کمنٹ پاس کرناشروع کردیں۔
آپ کی وقت بے وقت کی راگنیاں ہماری سمجھ سے بالا ہیں۔ آپ کی تحریر سے معلوم ہوتا ہے کہ امام ابوحنیفہ کا ڈھائی برس رضاعت کا فتویٰ ان کی خطاء ہے اگر ہم آپ کی اس بات کو تسلیم بھی کرلیں تو آپ کے مقلد ہونے کی وجہ سے کوئی فائدہ نہیں ہے کیونکہ جس تقلیدی مذہب سے آپ تعلق رکھتے ہیں اس میں آپکی رائے اور فیصلے کی کوئی حیثیت نہیں ہے اور تقلیدی مذہب کے اکابرین ابوحنیفہ کے اس خلاف قرآن فتویٰ کو ہرگز غلط یا خطاء تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ صاحب ہدایہ نے ابوحنیفہ کے اس فتویٰ کو سہارا دینے کے لئے سورۃ احقاف کی آیت نمبر١٥ کو دلیل بنایا ہے۔ جو اس بات کا ثبوت ہے کہ صاحب ہدایہ کے نزدیک ڈھائی سال مدت رضاعت کا فتویٰ صحیح بلکہ قرآن سے ثابت شدہ ہے۔ اسی طرح شبیر احمد عثمانی دیوبندی بھی ابوحنیفہ کے اس فتویٰ کو مبنی بر دلیل سمجھتے ہیں یہ علیحدہ بات ہے کہ وہ غائب دلیل موصوف تلاش کرنے میں ناکام رہے۔ اس کے علاوہ کسی ایک مستند تقلیدی اکابر سے ثابت نہیں کہ اس نے اپنے امام کے رضاعت والے فتویٰ کو غلط کہا ہو اور نہ ہی کسی نے یہ تسلیم کیا ہے کہ صاحب ہدایہ نے امام صاحب کے لئے جو دلیل گھڑی ہے وہ قرآن و حدیث سے متصاد م ہے۔ایک فتویٰ میں اگرامام ابوحنیفہ کی رائے غلط ہے تووہ امام ابوحنیفہ پر اتنے بھدے کمنٹ پاس کررہے ہیں۔
ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی مثال آپ نے بے محل اور بے موقع پیش کی ہے۔ اگر ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے شادی نہیں کی تو کیا ہم ان کے اس عمل کو سند جواز فراہم کرنے کے لئے قرآن و حدیث سے دلائل گھڑتے ہیں؟ حاشا وکلاشادی کرناسنت رسول ﷺ ہے۔آنحضرت نے اس کی بڑی تاکید ہے۔اسے اپنی سنت قراردیاہے۔
حضرت ابن تیمیہ احادیث نبویہ کا بڑاعلم رکھتے تھے ۔یہاں تک کہ کہنے والوں نے کہاکہ جس حدیث کا ابن تیمیہ کو علم نہیں وہ حدیث ہی نہیں۔
لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ خود حضرت ابن تیمیہ کی زندگی اس سنت سے خالی ہے۔
کیاہم بھی آپ کی طرح ابن تیمیہ پر احادیث کے علم کے تعلق سے کمنٹ پاس کرناشروع کردیں۔تبھی آپ کو تسلی اورسکون ملے گا؟
جمشید بھائی مجھے بہت شرم آتی ہے آپ لوگوں کو باربار آئینہ دکھاتے ہوئے لیکنپتہ نہیں لوگ کیوں یہ چاہتے ہیں کہ ان کو جواب انہی کی زبان میں دیاجائے۔میں ماقبل میں ایک مرتبہ اشارہ کرچکاہوں۔
اگرچہ میں چاہ کر بھی شاہد نذیر کی سطح تک نہیں اترسکتالیکن ان سے ایک سوال توپوچھ ہی سکتاہوں۔
اگرآپ کوخدانے اس سعادت سے محروم رکھاہے کہ سنجیدگی سے کوئی بحث کریں توکیاضروری ہے کہ آپ بحث ومباحثہ کو ہی اپناحرزجان بنائیں ۔
کرنے کیلئے دنیا میں اوربھی بہت سے مفید کام ہیں۔اگرآپ سنجیدگی سے بحث نہیں کرسکتے تو خاموش رہئے ۔
مجھے تولگتاہے کہ آپ کا خاموش رہنابھی دوسروں کے بولنے کے برابر فائدہ مند ہوگا(ابتسامہ)