• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امام ابوحنیفہ کا فتویٰ بابت مدت رضاعت!!!

شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
420
پوائنٹ
57
جزاک اللہ آفتاب بھائی اور جمشید بھائی
بھائی آفتاب نے مدلل اور واضح جواب دیا ہے۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,014
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
جزاک اللہ آفتاب بھائی اور جمشید بھائی
بھائی آفتاب نے مدلل اور واضح جواب دیا ہے۔
آپکی لغت میں مدلل اور واضح جواب نجانے کس کو کہتے ہیں؟ ورنہ حقیقت حال تو یہ ہے کہ ہم نے ابوحنیفہ پر کلام اللہ کی مخالفت کا مقدمہ قائم کیا تھا جس پر آفتاب صاحب اور جمشید صاحب امام صاحب کا دفاع کرنے میں مکمل طور پر ناکام و نامراد رہے۔ آپ سے درخواست ہے کہ تمام ذریت دیوبند کو جمع کرلیں اور ڈھائی سال مدت رضاعت کی دلیل قرآن و حدیث سے پیش فرمادیں۔ وگرنہ ایسے فضول تبصرے کرکے آپ صرف اپنے دل کو ہی خوش کر سکتے ہیں اور ابوحنیفہ کا فتویٰ بابت مدت رضاعت خلاف قرآن ہی رہے گا۔
 
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
420
پوائنٹ
57
شاہد نذیر صاحب میرے دعاییہ کلمات سے خدا جانے کیوںبھپر گئے ہیں؟
مدلل جواب ایسے کہ اآفتاب بھائی نے باقاعدہ قرآنی حوالاجات دے کرامام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ علیہ پر لگائے گئے الزام کا بھانڈا پھوڑڈالا۔ اور واضح ایسے کہ احناف کا مفتی بہہ قول بھی مدلل سامنے رکھ دیا۔
ایک بار پھر آپ کی آنکھیں کھولنے کیلئے دلیل لکھ رہا ہوں
احناف کا مشہور اصول ہے کہ مسئلہ پہلے کتاب اللہ سے دیکھتے ہیں
قرآن ہماری کتاب ہے اس میں ایک سورت ہے ٣٥ آیتوں والی احکاف کے نام سے۔ یہ سورہ احکاف ٤٦ نمبر پر آتی ہے۔ اس میں آیت نمبر ١٥ کا ترجمہ ہے

"اور ہم نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ نیکی کرنے کی تاکید کی کہ اسے اس کی ماں نے تکلیف سے اٹھائے رکھا اور اسے تکلیف سے جنا اوراس کا حمل اور دودھ کا چھڑانا تیس مہینے ہیں"

اتنا صاف لکھا ہے ٣٠ مہینے۔۔۔۔۔
ایک سال میں ١٢ مہینے ہوتے ہیں اس حساب سے ٣٠ مہینے ڈھائی سال بنتے ہیں۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,014
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
شاہد نذیر صاحب میرے دعاییہ کلمات سے خدا جانے کیوںبھپر گئے ہیں؟
مدلل جواب ایسے کہ اآفتاب بھائی نے باقاعدہ قرآنی حوالاجات دے کرامام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ علیہ پر لگائے گئے الزام کا بھانڈا پھوڑڈالا۔ اور واضح ایسے کہ احناف کا مفتی بہہ قول بھی مدلل سامنے رکھ دیا۔
ایک بار پھر آپ کی آنکھیں کھولنے کیلئے دلیل لکھ رہا ہوں
احناف کا مشہور اصول ہے کہ مسئلہ پہلے کتاب اللہ سے دیکھتے ہیں
قرآن ہماری کتاب ہے اس میں ایک سورت ہے ٣٥ آیتوں والی احکاف کے نام سے۔ یہ سورہ احکاف ٤٦ نمبر پر آتی ہے۔ اس میں آیت نمبر ١٥ کا ترجمہ ہے

"اور ہم نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ نیکی کرنے کی تاکید کی کہ اسے اس کی ماں نے تکلیف سے اٹھائے رکھا اور اسے تکلیف سے جنا اوراس کا حمل اور دودھ کا چھڑانا تیس مہینے ہیں"

اتنا صاف لکھا ہے ٣٠ مہینے۔۔۔۔۔
ایک سال میں ١٢ مہینے ہوتے ہیں اس حساب سے ٣٠ مہینے ڈھائی سال بنتے ہیں۔
کیا مقلدین کو اس بات پر تعجب نہیں ہوتا کہ انکے امام صاحب علمی لحاظ سے اتنے یتیم تھے کہ ان کے پاس اپنے فتووں کو ثابت کرنے کے لئے کوئی ایسی چیز نہیں تھی جن کو وہ دلائل کے نام پر اپنے ماننے والوں کے سامنے پیش کرتے؟! اور اب دلائل کی دستیابی کا کٹھن کام ان مقلدین کو کرنا پڑ رہا ہے جو سرے سے اس کے اہل ہی نہیں اور جو تقلید ہی اس لئے کرتے ہیں کہ دلائل نہیں جانتے یا تساہل کی وجہ سے جاننا ہی نہیں چاہتے۔ یہی وجہ ہے کہ امام صاحب کے فتویٰ کی دلیل نہ پاکر شبیر احمد عثمانی دیوبندی کو کہنا پڑا کہ امام صاحب جو رضاعت مدت ڈھائی سال بیان کرتے ہیں ان کے پاس کوئی اور دلیل ہوگی۔(تفسیر عثمانی) مقلدین کو چاہیے کہ وہ چراغ نہیں سورج لے کر اپنے امام کی دلیل تلاش کرکے لائیں اور انکو قرآن کی مخالفت یا قرآن سے جہالت کے الزام سے بری کروائیں۔

ابن جوزی صاحب جس چیز کو ڈھائی سال رضاعت مدت کی دلیل سمجھ رہے ہیں وہ دلیل نہیں بلکہ قرآن میں معنوی تحریف ہے۔ دلائل آگے آرہے ہیں۔ ان شاء اللہ

ابن جوزی صاحب اگر میری پوسٹس کو پڑھنے کی زحمت گوارا فرما لیتے تو ان کو مذکورہ بالا سطور لکھنے کی زحمت گوارا نہ کرنی پڑتی۔ بہرحال ایک مرتبہ پھر میں تفصیل سے سمجھا دیتا ہوں۔ شاید کہ اترجائے تیرے دل میں میری بات

١۔ عرض ہے کہ اگر ہم وَوَصَّيْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَيْهِ إِحْسَانًا ۖ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ كُرْ‌هًا وَوَضَعَتْهُ كُرْ‌هًا ۖ وَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلَاثُونَ شَهْرً‌ا ۚ حَتَّىٰ إِذَا بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْ‌بَعِينَ سَنَةً قَالَ رَ‌بِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ‌ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَىٰ وَالِدَيَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْ‌ضَاهُ وَأَصْلِحْ لِي فِي ذُرِّ‌يَّتِي ۖ إِنِّي تُبْتُ إِلَيْكَ وَإِنِّي مِنَ الْمُسْلِمِينَ ﴿سورۃ احقاف:١٥﴾ کو ڈھائی مدت رضاعت کی دلیل تسلیم کرلیں تو اس سے قرآن میں تضاد و اختلاف لازم آتا ہے کیونکہ قرآن میں دیگر جگہوں پر اللہ رب العالمین نے رضاعت کی مدت دو سال بیان فرمائی ہے۔جیسے: وَالْوَالِدَاتُ يُرْ‌ضِعْنَ أَوْلَادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ (سورۃ بقرۃ: ٢٣٣)

اللہ رب العالمین کا فرمان ہے کہ لو کان من عند غیراللہ لو جدو افیہ اختلافا‘ کثیرا۔ اگر یہ قرآن اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہ ہوتا تو اس میں بہت زیادہ اختلاف ہوتا۔ قرآن کی یہ آیت دلیل ہے اس بات کی کہ کلام اللہ میں کوئی تضاد و اختلاف نہیں۔لیکن حنفی حضرات سورۃ احقاف کی آیت کو امام صاحب کی دلیل بنا کر کلام اللہ میں اختلاف و تضاد ثابت کرنے پر تلےبیٹھے ہیں۔ افسوس ہے آل تقلید پر جو صرف اپنے امام کے ناجائز دفاع کی خاطر قرآن کو متضاد، متناقص اور اختلافی نتیجتا‘ جعلی تسلیم کرنے کو تیار ہیں۔استغفراللہ

مقلدین کے پاس اس اختلاف و تضاد کا کیا حل ہے جو انہوں نے اپنے امام کی ناک اونچی رکھنے کے لئے قرآن میں پیدا کیا ہے؟؟؟

٢۔ شبیر احمد عثمانی دیوبندی کے نزدیک بھی قرآنی الفاظ ثَلَاثُونَ شَهْرً‌ا ڈھائی سال مدت رضاعت کی دلیل نہیں ہیں کیونکہ انہوں نے دو سال مدت رضاعت بیان کرنے والی سورہ لقمان کی آیت نمبر ١٤ کی تفسیر میں لکھا ہے: دودھ چھڑانے کی مدت جو یہاں دو سال بیان ہوئی ہے باعتبار غالب اور اکثری عادت کے ہے۔ امام ابوحنیفہ جو اکثر مدت ڈھائی سال بتاتے ہیں ان کے پاس کوئی اور دلیل ہوگی۔جمہور کے نزدیک دو سال ہی ہے۔واللہ اعلم۔(تفسیر عثمانی، صفحہ ٧٠٧، حاشیہ نمبر١٥)

پس اگر قرآن میں کوئی ایسی آیت ہوتی جس کا مطب ڈھائی سال مدت رضاعت ہوتا تو شبیر احمد عثمانی اسے امام ابوحنیفہ کی دلیل کے طور پر پیش کر دیتے۔

٣۔ دیوبندیوں کے حکیم الامت اشرف علی تھانوی صاحب کے نزدیک امام ابوحنیفہ کا فتویٰ بابت مدت رضاعت غلط اور حرام ہے کیونکہ انہوں نے لکھا ہے: دو برس کے بعد دودھ پینا بالکل حرام ہے۔(بہشتی زیور،چوتھا حصہ، صفحہ ١٨، مسئلہ نمبر١٣) اب اگر دیوبندی ڈھائی سال مدت کی رضاعت کے لئے قرآن سے کوئی دلیل پیش کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہوگا کہ اشرف علی تھانوی کے نزدیک ایک حرام کام کو قرآن سے ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ہمارا مقلدین سے سوال ہے کہ کیا قرآن حرام کاموں کا حکم دیتا ہے؟؟؟

٤۔ کتب تفاسیر میں ایک روایت ہے کہ عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دورمبارک میں ایک عورت کو لایا گیا جس نے چھ مہینے کا بچہ جن دیا تو اس پر لوگوں نے بدکاری کا الزام لگا دیا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے اس عورت کو رجم کرنے کا حکم دیا تو علی رضی اللہ عنہ نے اس آیت (سورۃ احقاف:١٥) کو دلیل بنا کر فیصلہ فرمایا تھا کہ دو سال مدت رضاعت نکال دو باقی چھ ماہ بچتے ہیں لہذا اگر کوئی عورت چھ ماہ کا بچہ جن دے تو جائز ہوگا۔(تفسیر ابن کثیر،جلدپنجم،صفحہ ١٢)
جلیل القدر صحابہ کرام کی ایک جماعت نے سورۃ احقاف کی آیت نمبر١٥ سے رضاعت کی مدت دوسال اور حمل کی مدت چھ ماہ پر استدلال کیا ہے اور کسی ایک صحابی نے بھی اس کی مخالفت نہیں کی۔

معلوم ہوا کہ سورۃ احقاف کی آیت نمبر١٥ میں تیس مہینے یعنی ڈھائی سال سے مراد رضاعت کے دو سال اور حمل کے چھ ماہ ہیں۔ اب یہ بھی معلوم ہوا کہ قرآن کی جس آیت کو حنفی حضرات ڈھائی سال مدت کی رضاعت کے لئے پیش کررہے ہیں اسی آیت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین رضاعت کی مدت دو سال بیان فرمارہے ہیں۔ یہ کیسے لوگ ہیں جو اپنے امام کو بچانے کی خاطر اپنے نبی کے صحابہ کی کھلی مخالفت کررہے ہیں؟؟؟

اس تمام تفصیلات سے معلوم ہوا کہ امام ابوحنیفہ جو رضاعت کی مدت ڈھائی سال بتاتے ہیں اسکی کوئی دلیل قرآن و حدیث میں موجود نہیں بلکہ یہ فتویٰ خلاف قرآن ہے اور ابوحنیفہ کی قرآن سے لاعلمی کا ثبوت بھی۔ امید ہے ابن جوزی صاحب کو بات سمجھ میں آگئی ہوگی۔ان شاء اللہ
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
مسلمانوں کو شروع ہی سے مختلف فتنوں کا سامنا رہا ہے ۔ مسیلمہ کذاب سے لے کر دجال تک مختلف لوگ آئے اور آیئں گے ۔ کسی نے نبوت کا دعوی کیا ۔ کسی نے قرآن کی غلط تاویلات و تشریحات کر کے شرک و بدعات کا راستہ کھولا ۔ کسی فرقہ نے شدت پسندی میں گناہ کو کفر کے برابر قرار دیا۔ اللہ رحم فرمائے اس امت کے علما پر جنہوں نے ان تمام فتنوں کے سد باب کے کام کیا اور عام مسلمانوں کو ان فتنوں سے آگاہ کیا ۔
شاہد نذیر صاحب کا کہنا ہے کہ مذکورہ امام ابو حنیفہ کا فتوی ان کی کم علمی اور قرآن کا علم نہ ہونے کی وجہ سے ہے ۔ اگر ایک ایسا شخص جو بقول شاہد نذیر صاحب کے قران کا علم نہیں رکھتا اس نے اور بھی بہت قرآن و حدیث کے خلاف فتوی دیے ہوں گے ۔ ایسے شخص کا امام ہونا بہت بڑا فتنہ ہے ۔
امام ابو حنیفہ کے بعد بہت سے محدث اور علما آئے ۔ کیا کسی محدث نے ابو حنیفہ کے اس فتوی کو خلاف قرآن کہا اور اس کی بنیاد پر امام ابو حنیفہ کو قرآن سے لا علم یا کم علم کہا ۔ یا یہ بات آج صرف شاہد نذیر صاحب کو سمجھ میں آئی۔
اس فتوی سے اختلاف ضرور کیا گیا ہے لیکن صرف اجتھادی اختلاف ۔ امام ابو حنیفہ کو قرآن کا مخالف نہیں کہا گیا ۔ کیا وجہ ہے یہ بات صرف شاہد نذیر صاحب کو معلوم ہوئی ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,497
پوائنٹ
964
٤۔ احادیث اور کتب تفاسیر میں ایک حدیث ہے کہ آپ کے پاس ایک عورت کو لایا گیا جس نے چھ مہینے کا بچہ جن دیا تو اس پر لوگوں نے بدکاری کا الزام لگا دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت (سورۃ احقاف:١٥) کو دلیل بنا کر فیصلہ فرمایا تھا کہ دو سال مدت رضاعت نکال دو باقی چھ ماہ بچتے ہیں لہذا اگر کوئی عورت چھ ماہ کا بچہ جن دے تو جائز ہوگا۔(بحوالہ خرافات حنفیت، صفحہ ٧٦)

معلوم ہوا کہ سورۃ احقاف کی آیت نمبر١٥ میں تیس مہینے یعنی ڈھائی سال سے مراد رضاعت کے دو سال اور حمل کے چھ ماہ ہیں۔ اب یہ بھی معلوم ہوا کہ قرآن کی جس آیت کو حنفی حضرات ڈھائی سال مدت کی رضاعت کے لئے پیش کررہے ہیں اسی آیت سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم رضاعت کی مدت دو سال بیان فرمارہے ہیں۔ یہ کیسے لوگ ہیں جو اپنے امام کو بچانے کی خاطر اپنے نبی کی کھلی مخالفت کررہے ہیں؟؟؟
شاہد بھائی جزاکم اللہ ۔
واقعہ نقل کرنے میں شاید غلطی ہو گئی ہے ؟
مذکورہ واقعہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں پیش آیا تھا اور یہ استنباط حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہے ۔ جیساکہ امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے سورہ احقاف کی اس آیت کی تفسیر میں اس کا ذکر کیا ہے ۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,332
پوائنٹ
180
پتہ نہیں لوگ کیوں یہ چاہتے ہیں کہ ان کو جواب انہی کی زبان میں دیاجائے۔میں ماقبل میں ایک مرتبہ اشارہ کرچکاہوں۔
اگرچہ میں چاہ کر بھی شاہد نذیر کی سطح تک نہیں اترسکتالیکن ان سے ایک سوال توپوچھ ہی سکتاہوں۔
ایک فتویٰ میں اگرامام ابوحنیفہ کی رائے غلط ہے تووہ امام ابوحنیفہ پر اتنے بھدے کمنٹ پاس کررہے ہیں۔
شادی کرناسنت رسول ﷺ ہے۔آنحضرت نے اس کی بڑی تاکید ہے۔اسے اپنی سنت قراردیاہے۔
حضرت ابن تیمیہ احادیث نبویہ کا بڑاعلم رکھتے تھے ۔یہاں تک کہ کہنے والوں نے کہاکہ جس حدیث کا ابن تیمیہ کو علم نہیں وہ حدیث ہی نہیں۔
لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ خود حضرت ابن تیمیہ کی زندگی اس سنت سے خالی ہے۔
کیاہم بھی آپ کی طرح ابن تیمیہ پر احادیث کے علم کے تعلق سے کمنٹ پاس کرناشروع کردیں۔تبھی آپ کو تسلی اورسکون ملے گا؟
اگرآپ کوخدانے اس سعادت سے محروم رکھاہے کہ سنجیدگی سے کوئی بحث کریں توکیاضروری ہے کہ آپ بحث ومباحثہ کو ہی اپناحرزجان بنائیں ۔
کرنے کیلئے دنیا میں اوربھی بہت سے مفید کام ہیں۔اگرآپ سنجیدگی سے بحث نہیں کرسکتے تو خاموش رہئے ۔
مجھے تولگتاہے کہ آپ کا خاموش رہنابھی دوسروں کے بولنے کے برابر فائدہ مند ہوگا(ابتسامہ)
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
کیاہم بھی آپ کی طرح ابن تیمیہ پر احادیث کے علم کے تعلق سے کمنٹ پاس کرناشروع کردیں۔
بھائی جان آپ کیوں دیں گے۔؟ اور آپ دے بھی کیوں سکتے ہیں شیخ الالسلام امام ابن تیمیہؒ کا شادی نہ کرنا ذاتی فعل تھا۔اور ابوحنیفہ کا فتوی پوری مقلدیت کےلیے ہے۔جس پر آپ جیسے کثیر تعداد میں لوگ دفاع کرتے ہوئے قرآن وحدیث کے صحیح مطلب کو کہاں سے کہاں تک لے جا چکے ہیں۔
ہمیں آپ تب داغ دیں کہ جب ہمارے مشائخ کا کوئی فعل ہو جس پر ہم ان کی تقلید کرتے ہوئے بجا لاتے ہوں۔ہم نے کب امام ابن تیمیہؒ کے اس فعل کو اپنے لیے حجت سمجھا ہے ہم اب بھی شادیاں کرتے چلے آرہے ہیں۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,014
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
ایک فتویٰ میں اگرامام ابوحنیفہ کی رائے غلط ہے تووہ امام ابوحنیفہ پر اتنے بھدے کمنٹ پاس کررہے ہیں۔
آپ کی وقت بے وقت کی راگنیاں ہماری سمجھ سے بالا ہیں۔ آپ کی تحریر سے معلوم ہوتا ہے کہ امام ابوحنیفہ کا ڈھائی برس رضاعت کا فتویٰ ان کی خطاء ہے اگر ہم آپ کی اس بات کو تسلیم بھی کرلیں تو آپ کے مقلد ہونے کی وجہ سے کوئی فائدہ نہیں ہے کیونکہ جس تقلیدی مذہب سے آپ تعلق رکھتے ہیں اس میں آپکی رائے اور فیصلے کی کوئی حیثیت نہیں ہے اور تقلیدی مذہب کے اکابرین ابوحنیفہ کے اس خلاف قرآن فتویٰ کو ہرگز غلط یا خطاء تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ صاحب ہدایہ نے ابوحنیفہ کے اس فتویٰ کو سہارا دینے کے لئے سورۃ احقاف کی آیت نمبر١٥ کو دلیل بنایا ہے۔ جو اس بات کا ثبوت ہے کہ صاحب ہدایہ کے نزدیک ڈھائی سال مدت رضاعت کا فتویٰ صحیح بلکہ قرآن سے ثابت شدہ ہے۔ اسی طرح شبیر احمد عثمانی دیوبندی بھی ابوحنیفہ کے اس فتویٰ کو مبنی بر دلیل سمجھتے ہیں یہ علیحدہ بات ہے کہ وہ غائب دلیل موصوف تلاش کرنے میں ناکام رہے۔ اس کے علاوہ کسی ایک مستند تقلیدی اکابر سے ثابت نہیں کہ اس نے اپنے امام کے رضاعت والے فتویٰ کو غلط کہا ہو اور نہ ہی کسی نے یہ تسلیم کیا ہے کہ صاحب ہدایہ نے امام صاحب کے لئے جو دلیل گھڑی ہے وہ قرآن و حدیث سے متصاد م ہے۔

جمشید صاحب کو مشورہ ہے کہ وہ دوغلی زندگی سے توبہ کرکے کسی ایک کشتی میں سوار ہوجائیں اور مقلد ہوجائیں یا پھر غیرمقلد۔
دورنگی چھوڑ دے یک رنگ ہوجا
سنگ ہوجا یا سراسر موم ہوجا
اگر جمشید صاحب غیر مقلد ہیں اور ان کے نزدیک امام ابوحنیفہ کا یہ فتویٰ غلط ہے تو اعلان کریں کہ صاحب ہدایہ نے دجل و فریب سے کام لیتے ہوئے اللہ کے کلام پر بہتان باندھا ہے اور شبیر احمد عثمانی دیوبندی نے بھی جھوٹ بولا ہے کہ امام صاحب کے پاس کوئی اور دلیل ہوگی۔ اور یہ بھی بتائیں کہ امام صاحب سے یہ خطاء مکمل قرآن نہ پڑھنے کی وجہ سے ہوئی یا قرآن نہ سمجھنے کی وجہ سے یا پھر اپنے حافظے کی وجہ سے امام صاحب بھول گئے کہ قرآن اور احادیث میں مدت رضاعت دو سال ہے۔

اور اگر جمشید صاحب مقلد ہیں تو وہ دلیل ڈھونڈ کر لائیں جس کی بنیاد پر ابوحنیفہ نے مذکورہ فتویٰ دیا یا ثابت کریں کہ صاحب ہدایہ کی دلیل کس طرح درست ہے کہ قرآن و حدیث میں تضاد نہ آئے۔

شادی کرناسنت رسول ﷺ ہے۔آنحضرت نے اس کی بڑی تاکید ہے۔اسے اپنی سنت قراردیاہے۔
حضرت ابن تیمیہ احادیث نبویہ کا بڑاعلم رکھتے تھے ۔یہاں تک کہ کہنے والوں نے کہاکہ جس حدیث کا ابن تیمیہ کو علم نہیں وہ حدیث ہی نہیں۔
لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ خود حضرت ابن تیمیہ کی زندگی اس سنت سے خالی ہے۔
کیاہم بھی آپ کی طرح ابن تیمیہ پر احادیث کے علم کے تعلق سے کمنٹ پاس کرناشروع کردیں۔تبھی آپ کو تسلی اورسکون ملے گا؟
ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی مثال آپ نے بے محل اور بے موقع پیش کی ہے۔ اگر ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے شادی نہیں کی تو کیا ہم ان کے اس عمل کو سند جواز فراہم کرنے کے لئے قرآن و حدیث سے دلائل گھڑتے ہیں؟ حاشا وکلا
یا خود علامہ ابن تیمیہ نے شادی نہ کرنے کو صحیح کہا ہے؟ ہرگز نہیں
اس کے برعکس آپ لوگ تو امام صاحب کے غلط فتویٰ کے لئے قرآن میں معنوی تحریف سے بھی باز نہیں آتے اور اس بات کی بھی پراوہ نہیں کرتے کہ اس سے پورا قرآن اختلافی اور متضاد ہوجائےگا۔
آپ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی بھونڈی مثال دینے کے بجائے اپنے امام کو الزامات سے بچانے کی فکر کریں اور کوئی ایسی چیز پیش کریں جسے واقعی دلیل کا نام دیا جاسکے۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,014
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
پتہ نہیں لوگ کیوں یہ چاہتے ہیں کہ ان کو جواب انہی کی زبان میں دیاجائے۔میں ماقبل میں ایک مرتبہ اشارہ کرچکاہوں۔
اگرچہ میں چاہ کر بھی شاہد نذیر کی سطح تک نہیں اترسکتالیکن ان سے ایک سوال توپوچھ ہی سکتاہوں۔
اگرآپ کوخدانے اس سعادت سے محروم رکھاہے کہ سنجیدگی سے کوئی بحث کریں توکیاضروری ہے کہ آپ بحث ومباحثہ کو ہی اپناحرزجان بنائیں ۔
کرنے کیلئے دنیا میں اوربھی بہت سے مفید کام ہیں۔اگرآپ سنجیدگی سے بحث نہیں کرسکتے تو خاموش رہئے ۔
مجھے تولگتاہے کہ آپ کا خاموش رہنابھی دوسروں کے بولنے کے برابر فائدہ مند ہوگا(ابتسامہ)
جمشید بھائی مجھے بہت شرم آتی ہے آپ لوگوں کو باربار آئینہ دکھاتے ہوئے لیکن
شرم تم کو مگر نہیں آتی۔

زرا اس مضمون کو پڑھ کر ایمانداری سے بتائیں کہ ایسی اخلاقی پستی بھی آپ نے کہیں دیکھی ہے؟ دیوبندی علماء ادب اور اخلاق کی انتہاؤں پر

یہ ہے دیوبندیوں کا اخلاق جس کا ذکر کرتے ہوئے جمشید صاحب جیسے لوگوں کو سانپ سونگھ جاتا ہے۔
 
Top