پہلی بات تو دو سال سے مدت سے ذیادہ رضاعت کی مدت کا قول صرف امام ابو حنیفہ کا نہیں باقیوں پر آپ اعتراض کیوں نہیں کیا ۔ کیا وہ قرآن سے مخالف قانون نہیں ؟
قال الحافظ ابن حجر العسقلاني في فتح الباري :
قوله ( باب من قال لا رضاع بعد حولين ، لقوله عز وجل ( حولين كاملين لمن أراد أن يتم الرضاعة )
أشار بهذا إلى قول الحنفية إن أقصى مدة الرضاع ثلاثون شهرا وحجتهم قوله تعالى ( وحمله وفصاله ثلاثون شهرا ) أي المدة المذكورة لكل من الحمل والفصال ، وهذا تأويل غريب . والمشهور عند الجمهور أنها تقدير مدة أقل الحمل وأكثر مدة الرضاع ، وإلى ذلك صار أبو يوسف ومحمد بن الحسن ، ويؤيد ذلك أن أبا حنيفة لا يقول إن أقصى الحمل سنتان ونصف .
وعند المالكية رواية توافق قول الحنفية لكن منزعهم في ذلك أنه يغتفر بعد الحولين مدة يدمن الطفل فيها على الفطام ، لأن العادة أن الصبي لا يفطم دفعة واحدة بل على التدريج في أيام قليلات ، فللأيام التي يحاول فيها فطامه حكم الحولين .
ثم اختلفوا في تقدير تلك المدة قيل يغتفر نصف سنة ، وقيل شهران ، وقيل شهر ونحوه ، وقيل أيام يسيرة ، وقيل شهر ، وقيل لا يزاد على الحولين وهي رواية ابن وهب عن مالك وبه قال الجمهور ومن حجتهم حديث ابن عباس رفعه " لا رضاع إلا ما كان في الحولين " أخرجه الدارقطني ، وقال : لم يسنده عن ابن عيينة غير الهيثم بن جميل ، وهو ثقة حافظ . وأخرجه ابن عدي . وقال غير الهيثم يوقفه على ابن عباس وهو المحفوظ ، وعندهم متى وقع الرضاع بعد الحولين ولو بلحظة لم يترتب عليه حكم ،
وعند الشافعية لو ابتدأ الوضع في أثناء الشهر جبر المنكسر من شهر آخر ثلاثين يوما ،
وقال زفر : يستمر إلى ثلاث سنين إذا كان يجتزئ باللبن ولا يجتزئ بالطعام ،
وحكى ابن عبد البر عنه أنه يشترط مع ذلك أن يكون يجتزئ باللبن ، وحكى عن الأوزاعي مثله لكن قال بشرط أن لا يفطم ، فمتى فطم ولو قبل الحولين فما رضع بعده لا يكون رضاعا
دوسری بات آپ نے میری پوسٹ کا جواب دیا لیکن بیچ والے حصہ کو گول کر گئے جو حضرت علی اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہما کے متعلق تھا ۔ اور کرنا بھی ایسے ہی چاہئیے تھا ۔
اگر آپ اپنی تھریڈ یوں شروع کرتے کہ مدعت رضاعت دو سال ہے اور اس بارے میں دلائل دیتے تو یہ بہتر تھا بجائے اس کے ایک فقیہ کے بارے میں اس طرح کے سخت الفاظ استعمال کرتے ۔ جو دوسروں کو آپ کے منہج سے متنفر کا کام تو دے سکتی ہے قائل کرنے کا نہیں ۔
سعودی علماء کے فتوی میں بھی امام ابو حنیقہ کے قول کا ذکر ہے
وذهب الإمام أبو حنيفة إلى أن المدة التي تثبت بها الحرمة هي مـدة سنتين ونصف ، وهي ثلاثون شهراً ، فقال : إن الرضاع إذا كـان في هذه المدة اعتبر محرماً ، أما إذا كان بعـدها فـلا يعتبر محرماً ، واستـدل بقولـه تعالى : وَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلاثُونَ شَهْرًا فقال : إن المقصود بالحمل هنا هو حمله مدة الرضاع وليس المقصود به حمل الأحشاء ، إذ قد يتأخر الطفل في داخل البطن لمدة سنتين ، لهذا نعلم أن اللّه سبحانه وتعالى أراد بالحمل حمل الفطام وليس حمل الأحشاء
انہوں نے بھی امام ابو حنیفہ کی وہی دلیل نقل کی جو صاحب ہدایہ نے دی ۔ اگر چہ انہوں نے امام ابو حنیفہ کا قول اختیار نہیں کیا لیکن اسے قرآن کا مخالف قول بھی نہ کہا ۔ کیوں ؟
اگر مجھ پر الزام ہے کہ میں تو قرآن میں تعارض ثابت کرہا ہوں تو غلط ہے ۔ جس طرح میں نے تشریح کی اگر یہ تعارض ہے تو آپ کے نذدیک وہاں بھی تعارض ہے کہ قرآن کہیں کہ رہا ہے کہ زمین و آسمان چھ دن میں پیدا کیے اور کہیں کہ رہا ہے کہ ہر چیز کو کن فيکوں سے پیدا کیا یعنی کہا ہو جا تو وہ ہوگیا بھر زمیں اور آسماں میں چھ دن کیوں لگ گئیے ۔
مجھے الحمد للہ ان آیت کی تشریح معلوم ہے اور میرے نذدیک اس میں کوئی تعارض نہیں ۔ لیکن جو لوگ اپنی من پسند تفسیر سے چمٹے ہوئے ہیں ان کو تعارض نظر آئے گا
اس تھریڈ میں دلائل کے بجائے جذ باتیت ہے اور بعض پوسٹ میں تو نہ مانوں کی پالیسی ہے اس لئیے اس تھریڈ میں میری آخری پوسٹ ہے
میں مجلس سے اختتامی دعا کے ساتھ اس تھریڈ سے رخصت ہوتا ہوں ۔ باقی دوسرے تھریڈ میں میں ان شاء اللہ موجود رہوں گا۔
سبحانك اللهم وبحمدك أشهد أن لا إله إلا أنت أستغفرك وأتوب إليك
قال الحافظ ابن حجر العسقلاني في فتح الباري :
قوله ( باب من قال لا رضاع بعد حولين ، لقوله عز وجل ( حولين كاملين لمن أراد أن يتم الرضاعة )
أشار بهذا إلى قول الحنفية إن أقصى مدة الرضاع ثلاثون شهرا وحجتهم قوله تعالى ( وحمله وفصاله ثلاثون شهرا ) أي المدة المذكورة لكل من الحمل والفصال ، وهذا تأويل غريب . والمشهور عند الجمهور أنها تقدير مدة أقل الحمل وأكثر مدة الرضاع ، وإلى ذلك صار أبو يوسف ومحمد بن الحسن ، ويؤيد ذلك أن أبا حنيفة لا يقول إن أقصى الحمل سنتان ونصف .
وعند المالكية رواية توافق قول الحنفية لكن منزعهم في ذلك أنه يغتفر بعد الحولين مدة يدمن الطفل فيها على الفطام ، لأن العادة أن الصبي لا يفطم دفعة واحدة بل على التدريج في أيام قليلات ، فللأيام التي يحاول فيها فطامه حكم الحولين .
ثم اختلفوا في تقدير تلك المدة قيل يغتفر نصف سنة ، وقيل شهران ، وقيل شهر ونحوه ، وقيل أيام يسيرة ، وقيل شهر ، وقيل لا يزاد على الحولين وهي رواية ابن وهب عن مالك وبه قال الجمهور ومن حجتهم حديث ابن عباس رفعه " لا رضاع إلا ما كان في الحولين " أخرجه الدارقطني ، وقال : لم يسنده عن ابن عيينة غير الهيثم بن جميل ، وهو ثقة حافظ . وأخرجه ابن عدي . وقال غير الهيثم يوقفه على ابن عباس وهو المحفوظ ، وعندهم متى وقع الرضاع بعد الحولين ولو بلحظة لم يترتب عليه حكم ،
وعند الشافعية لو ابتدأ الوضع في أثناء الشهر جبر المنكسر من شهر آخر ثلاثين يوما ،
وقال زفر : يستمر إلى ثلاث سنين إذا كان يجتزئ باللبن ولا يجتزئ بالطعام ،
وحكى ابن عبد البر عنه أنه يشترط مع ذلك أن يكون يجتزئ باللبن ، وحكى عن الأوزاعي مثله لكن قال بشرط أن لا يفطم ، فمتى فطم ولو قبل الحولين فما رضع بعده لا يكون رضاعا
دوسری بات آپ نے میری پوسٹ کا جواب دیا لیکن بیچ والے حصہ کو گول کر گئے جو حضرت علی اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہما کے متعلق تھا ۔ اور کرنا بھی ایسے ہی چاہئیے تھا ۔
اگر آپ اپنی تھریڈ یوں شروع کرتے کہ مدعت رضاعت دو سال ہے اور اس بارے میں دلائل دیتے تو یہ بہتر تھا بجائے اس کے ایک فقیہ کے بارے میں اس طرح کے سخت الفاظ استعمال کرتے ۔ جو دوسروں کو آپ کے منہج سے متنفر کا کام تو دے سکتی ہے قائل کرنے کا نہیں ۔
سعودی علماء کے فتوی میں بھی امام ابو حنیقہ کے قول کا ذکر ہے
وذهب الإمام أبو حنيفة إلى أن المدة التي تثبت بها الحرمة هي مـدة سنتين ونصف ، وهي ثلاثون شهراً ، فقال : إن الرضاع إذا كـان في هذه المدة اعتبر محرماً ، أما إذا كان بعـدها فـلا يعتبر محرماً ، واستـدل بقولـه تعالى : وَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلاثُونَ شَهْرًا فقال : إن المقصود بالحمل هنا هو حمله مدة الرضاع وليس المقصود به حمل الأحشاء ، إذ قد يتأخر الطفل في داخل البطن لمدة سنتين ، لهذا نعلم أن اللّه سبحانه وتعالى أراد بالحمل حمل الفطام وليس حمل الأحشاء
انہوں نے بھی امام ابو حنیفہ کی وہی دلیل نقل کی جو صاحب ہدایہ نے دی ۔ اگر چہ انہوں نے امام ابو حنیفہ کا قول اختیار نہیں کیا لیکن اسے قرآن کا مخالف قول بھی نہ کہا ۔ کیوں ؟
اگر مجھ پر الزام ہے کہ میں تو قرآن میں تعارض ثابت کرہا ہوں تو غلط ہے ۔ جس طرح میں نے تشریح کی اگر یہ تعارض ہے تو آپ کے نذدیک وہاں بھی تعارض ہے کہ قرآن کہیں کہ رہا ہے کہ زمین و آسمان چھ دن میں پیدا کیے اور کہیں کہ رہا ہے کہ ہر چیز کو کن فيکوں سے پیدا کیا یعنی کہا ہو جا تو وہ ہوگیا بھر زمیں اور آسماں میں چھ دن کیوں لگ گئیے ۔
مجھے الحمد للہ ان آیت کی تشریح معلوم ہے اور میرے نذدیک اس میں کوئی تعارض نہیں ۔ لیکن جو لوگ اپنی من پسند تفسیر سے چمٹے ہوئے ہیں ان کو تعارض نظر آئے گا
اس تھریڈ میں دلائل کے بجائے جذ باتیت ہے اور بعض پوسٹ میں تو نہ مانوں کی پالیسی ہے اس لئیے اس تھریڈ میں میری آخری پوسٹ ہے
میں مجلس سے اختتامی دعا کے ساتھ اس تھریڈ سے رخصت ہوتا ہوں ۔ باقی دوسرے تھریڈ میں میں ان شاء اللہ موجود رہوں گا۔
سبحانك اللهم وبحمدك أشهد أن لا إله إلا أنت أستغفرك وأتوب إليك